www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی دختر اور امام رضا علیہ السلام کی ھمشیرہ سیدہ حکیمہ فرماتی ہیں: جب امام محمد بن علی (ع) کی ولادت کا وقت آن پھنچا تو

 امام رضا علیہ السلام نے مجھے بلواکر فرمایا: بھن حکیمہ! بی‏بی خیزران اور دایہ کے ھمراہ ایک کمرے میں چلی جائیں؛ آپ (ع) نے ھمارے لئے ایک چراغ روشن کیا اور دروازہ بند کرکے چلے گئے۔

اسی وقت درد زہ کا آغاز بھی ھوا اور چراغ بھی بجھ گیا میں فکرمند ھوئی لیکن امام جواد علیہ السلام نے چودھویں کے چاند کی مانند اچانک طلوع کیا جبکہ آپ (ع) کا بدن لطیف اور نرم و نازک سے کپڑے میں لپٹے نے لپٹا ھوا تھا اور بچے کے نور نے کمرے کو روشن کیا ھوا تھا. میں نے امام (ع) کو اٹھا کر اپنی گود میں لیا اور وہ نازک کپڑا آپ (ع) کے بدن سے الگ کیا کہ اتنے میں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام اندر تشریف لائے اور آپ (ع) کو لے کر گھوارے میں ڈال دیا اور فرمایا: بھن! گھوارے کا خیال رکھنا.
تین روز گذرنے کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنی آنکھیں آسمان کی جانب کھول دیں اور نگاہ دائیں اور بائیں طرف دوڑائی اور فرمایا: "اشھد ان لا الہ الا الہ و اشھد ان محمداً رسول اللہ "
گواھی دیتا ھوں کہ اللہ کی سوا کوئی معبود نھیں ہے اور گواھی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے پیغمبر ہیں۔
میں ھراساں ھوکر اٹھی اور امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئی اور عرض کیا: میرے مولا! میں نے اس بچے سے بھت حیران کن بات سنی ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے کونسی عجیب بات سنی ہے ؟
میں نے جو سنا تھا نقل کیا.
امام (ع) نے فرمایا: اے حکیمہ! اس بچے سے جن عجیب چیزوں کا آپ مشاھدہ کریں گی وہ اس سے بھت زیادہ ہیں جو آپ نے سن لیا ہے۔ (۱)
امام جواد علیہ السلام کی ولادت کی پیشین گوئی
ابن ابی نجران نقل کرتے ہیں: واقفیہ فرقے کے ایک راھنما "حسین بن قیاما" نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: کیا آپ امام ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں! میں ھی امام ھوں.
اس شخص نے کھا: خدا کی قسم آپ امام نھیں ہیں!
امام علیہ السلام چند لمحوں تک سر جھکا کر بیٹھے رھے اور پھر اس شخص سے فرمایا: تم کیوں سوچتے ھو کہ میں امام نھیں ھوں؟!
اس شخص نے کھا: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ "امام بانجھ نھیں ہوسکتا جبکہ آپ اس عمر میں بھی صاحب اولاد نھیں ہیں اور آپ کی کوئی نرینہ اولاد نھیں ہے۔
امام رضا (ع) کی خاموشی اس بار طویل ھوگئی اور پھر سر اٹھا کر فرمایا: "خدا کی قسم! بھت زیادہ عرصہ نھیں لگے گا جب خداوند متعال مجھے ایک بیٹا عطا فرمائے گا".
ابن ابی نجران کھتے ہیں: ھم نے اس کے بعد مھینے گننا شروع کئے اور ابھی ایک سال نھیں گذرا تھا کہ خداوند متعال نے امام رضا علیہ السلام کو بیٹا عطا فرمایا.(۲)
امام جواد علیہ السلام کی تاریخ ولادت
تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام جواد علیہ السلام سنہ ۱۹۵ ھجری کو مدینہ منورہ میں متولد ھوئے مگر آپ (ع) کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔:
محمد بن یعقوب کلینی نے الکافی میں، شیخ مفید نے الارشاد میں اور شھید ثانی نے الدروس میں تحریر کیا ہے کہ امام جواد علیہ السلام ماہ مبارک رمضان سنہ ۱۹۵ کو پیدا ھوئے.
بعض مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ ۱۹ رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان کو پیدا ھوئے ہیں.
شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ امام جواد علیہ السلام کا یوم پیدائش ۱۰ رجب المرجب سنہ ۱۹۵ ھجری ہے۔ (۳)
امام رضا علیہ السلام امام جواد علیہ السلام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
کلیم بن عمران کھتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے.
امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ھی بیٹا ہے جو میرا وارث ھوگا.
جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ھوکر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاھر متولد ھوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ھوگا اور بھت تھوڑا عرصہ بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا.
امام رضا علیہ السلام پوری رات گھوارے میں اپنے بیٹے سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ (۴)
امام جواد علیہ السلام کی امامت کے آغاز میں شیعہ راھنماؤں کا اجتماع
امام رضا علیہ السلام کی شھادت کے وقت امام جواد علیہ السلام کی عمر تقریباً سات برس تھی؛ اسی بنا پر بغداد اور دیگر شھروں میں لوگوں میں اختلافات ظاھر ھوئے.
ریان بن صلت، صفوان بن یحیی، محمد بن حکیم، عبدالرحمن بن حجاج، یونس بن عبدالرحمن و دیگر نے عبدالرحمن بن حجاج کے گھر میں اجتماع کیا تا کہ اس سلسلے میں بات چیت کریں.
تمام حاضرین امام رضا علیہ السلام کی شھادت کی مصیبت پر گریہ و بکاء کررھے تھے. یونس بن عبدالرحمن نے کھا: رونے کا وقت نھیں ہے اس مسئلے کے بارے میں بات کرو کہ جب تک ابوجعفر بڑے ھوں گے منصب امامت کس کے پاس رھے گا؟ اور ھم اپنے سوالات کس سے پوچھیں گے؟
ریان بن صلت یہ بات سن کر اٹھ کھڑے ھوئے اور یونس کا گریباں پکڑ لیا اور کھا: تم بظاھر ایمان کا مظاھرہ کرتے ھو لیکن باطن میں اھل تردید اور اھل شرک ھو. کیا تم نھیں جانتے کہ اگر کوئی فرد خدا کی طرف سے امامت پر منصوب ھو وہ اگر ایک روزہ بچہ بھی ھو ایک بوڑھے عالم و دانشور کی مانند ہے اور اگر خدا کی جانب سے نہ ھو اور ایک ھزار برس تک بھی جئے وہ بھرصورت ایک عام انسان ھی ہے اور ھمیں اس موضوع پر بحث کرنی چاھئے۔
ریان بن صلت کے بعد دوسروں نے بھی یونس بن عبدالرحمن پر ملامت کی. (۵)
امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی امامت پر تصریح فرمائی
عبداللہ بن جعفر کھتے ہیں: میں صفوان بن یحیی کے ھمراہ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئی. امام جواد علیہ السلام کی عمر اس وقت تین برس سے زیادہ نہ تھی اور امام رضا علیہ السلام کی پھلو میں کھڑی تھی.
ھم نے عرض کیا: ھم اللہ کی پناہ مانگتی ہیں؛ اگر آپ کو کچھ ھوجائے تو...
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا یہ بیٹا؛ اور امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اور ھاں! اسی چھوٹی عمر میں ھی، خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو دو سال کی عمر میں نبوت کا عہدہ سونپ دیا. (۶)


کمسنی میں امامت کے حوالے سے ھونے والے اعتراضات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پھلی مرتبہ اھل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کمسنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شھادت کے وقت امام جواد علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ھی مرتبہ امامت پر فائز ھوئے.
چونکہ اس سے پھلے ائمہ طاھرین علیھم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نھیں آیا تھا لھذا اھل تشیع کے بعض گروہ بھی شک و شبھے کا شکار ھوئے اور امام جواد علیہ السلام نے خود ھی کئی مرتبہ اس شبھے کا ازالہ فرمایا.
کمسنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کے عنوان سے اٹھے ھوئے سوال کا جواب
ابراھیم بن محمود کھتے ہیں: میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ھم کس سے رجوع کریں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.
اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بھت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبھے کا جواب دیتے ھوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررھا ھوں. (۷)
امام جواد علیہ السلام کا اونچا مقام و مرتبہ ـ حدیث لوح
امام جواد علیہ السلام سلسلہ امامت کی نویں کڑی ہیں اور آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے خاص قسم کی خصوصیات عطا ھوئی ہیں جن کے باعث آپ (ع) خداوند متعال کی بارگاہ میں بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ائمۂ طاھرین(ع) اور اپنے والد بزرگوار کے نزدیک بھی اونچے مقام و منزلت کے مالک ہیں.
آپ کے بعض مقامات کی مختصر مثالیں:
امام جواد علیہ السلام حدیث کی روشنی میں
ابوبصیر کھتے ہیں: ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا: اے جابر! کون سا وقت آپ کے لئے مناسب ہے کہ میں خلوت میں آپ سے کچھ پوچھ لوں؟
جابر نے عرض کیا: جب بھی آپ مناسب سمجھیں.
ابوبصیر کھتے ہیں: اس کے بعد امام علیہ السلام جابر سے خلوت میں ملے اور فرمایا: آپ نے میری والدہ ماجدہ حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ھاتھ میں ایک "لوح" دیکھا تھا اس کے بارے میں اور جو کچھ میری والدہ نے آپ سے فرمایا تھا، اس کے بارے میں مجھ آگاہ کریں.
اللہ کو گواہ قرار دیتا ھوں کہ میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات کے ایام میں امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت پر مبارکباد عرض کرنے سیدہ سلام اللہ علیھا کی خدمت میں حاضر ھوا جبکہ سیدہ (س) کے دست مبارک میں سبز رنگ کا ایک لوح تھا (یا تختی تھی) میں سمجھا کہ وہ لوح زمرد کا بنا ھوا ہے اور میں نے اس لوح پر سورج کی طرح چمکتی تحریر دیکھی؛ میں نے عرض کیا: اے دختر رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ھوں یہ لوح کیا ہے؟
سیدہ (س) نے فرمایا: یہ ایسا لوح ہے جو خداوند متعال نے اپنے رسول (ص) پر تحفے کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ اس لوح میں میرے والد، میرے شوھر اور میرے دو بیٹوں کے ناموں کے ساتھ میرے فرزندوں میں سے ھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اوصیاء اور جانشینوں کے نام درج ہیں اور یہ لوح والد ماجد نے امام حسین علیہ السلام کی ولادت پر تحفے کے طور پر مجھے عطا فرمایا ہے۔
جابر کھتے ہیں: اے فرزند رسول اللہ (ص)! آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ زھراء (س) نے وہ لوح مجھے دیا اور میں نے وہ پڑھ لیا اور اس پر لکھی عبارتیں بھی لکھ لیں.
میں خدا کو گواہ قرار دیتا ھوں کہ اس لوح پر مرقوم تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ خط ہے خداوند عزیز حکیم کی جانب سے اس کے نبی و حبیب محمد (ص) کے نام ... میں اس ـ علی بن موسی الرضا (ع) کو ـ اس کے بیٹے، جانشین اور اس کے علوم کے وارث "محمد" کے توسط سے ـ مسرور کروں گا اور اپنے خاندان میں سے ایسے ستر افراد کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کروں گا چاھے وہ سارے کے سارے اھل جھنم ھی کیوں نہ ھوں. (۸)
امام جواد علیہ السلام کی شان رفیع
علی بن ابراھیم قمی اپنے والد ابراھیم سے نقل کرتے ہیں: ھم امام رضا علیہ السلام کی شھادت کے بعد امام جواد علیہ السلام کے گھر میں حاضر ھوئے. مختلف شھروں سے آئے ھوئے شیعیان امام علیہ السلام کی ملاقات کے انتظار میں بیٹھے ھوئے تھے.
اسی وقت امام رضا (ع) کے چچا عبداللہ بن موسی جو معمر شخص تھے اور کریم النفس تھے ـ دروازے سے اندر آئے. انھوں نے کھُردرا لباس زیب تن کیا ھوا تھا اور ان کی پیشانی پر سجدے کے آثار ھویدا تھے. اتنے میں امام علیہ السلام بھی تشریف لائے. امام علیہ السلام نے کتان کا لباس زیب تن کیا ھوا تھا اور سفید جوتے پھنے ھوئے تھے.
عبداللہ بن موسی استقبال کے لئے اٹھے؛ اور آپ (ع) کے دو آنکھوں کے بیچ پیشانی کو بوسہ دیا.
امام علیہ السلام کرسی پر رونق افروز ھوئے. لوگ امام (ع) کی کمسنی سے حیرت زدہ ھوگئے تھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رھے تھے۔
ایک مرد اٹھا اور عبداللہ بن موسی سے مخاطب ھوکر کھا: اس شخص کے بارے میں آپ کا فتوی کیا ہے جس نے حیوان کے ساتھ آمیزش کی ھو؟
عبداللہ نے کھا: اس شخص کا دایاں ھاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اس پر زنا کی حد جاری ھوگی.
امام جواد علیہ السلام یہ سن کر غضبناک ھوئے اور فرمایا: چچاجان! تقوائے الھی اپناؤ اور محتاط رھو. روز قیامت اللہ کی بارگاہ میں کھڑے کئے جاؤگے اور خداوند متعال پوچھے گا: تم نے ایسے موضوع کے بارے میں کیوں فتوی دیا جس کا تم کو علم ھی نھیں تھا.
عبداللہ نے عرض کیا: میرے مولا و آقا! کیا آپ کے والد نے یھی حکم نھیں دیا تھا؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد سے اس شخض کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے ایک عورت کی قبر کھول کر عورت کی میت سے آمیزش کی تھی اور میرے والد نے حکم دیا تھا کہ نبش قبر کے جرم میں اس کا ھاتھ کاٹ دیا جائے اور اس پر زنا کی حد بھی جاری کردی جائے کیونکہ مردہ انسان کی حرمت زندہ انسان کی مانند ہے۔
عبداللہ نے عرض کیا: میرے اقا! آپ نے سچ فرمایا؛ اللہ مجھے اپنی غلطی کی بابت بخش دے.
حیرت زدہ لوگوں کی حیرت میں مزید اضافہ ھوا اور امام علیہ السلام سے عرض کرنے لگے:
ھمارے سید و مولا! کیا ھم بھی آپ سے کچھ پوچھ سکتے ہیں؟
اس کے بعد لوگوں نے سینکڑوں سوالات پوچھے اور امام علیہ السلام نے سب کو جواب دیا اور اس وقت امام علیہ السلام نو سال کے تھے. (۹)


علی بن جعفر علیہ السلام کا بیان
علی بن جعفر الصادق علیہ‌السلام، المعروف بہ العُریضی، امام جعفر صادق علیہ السلام کے آخری فرزند، امام موسی کاظم علیہ السلام کے چھوٹے بھائی اور امام رضا علیہ السلام کے چچا تھے. مدینہ میں پیدا ھوئے اور اپنے والد ماجد امام صادق علیہ السلام اور بڑے بھائی امام کاظم علیہ السلام کی آغوش میں پروان چڑھے.
علی بن جعفر کھتے ہیں: میں چار مرتبہ اپنے بھائی امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں عمرہ کے لئے مکہ معظمہ مشرف ھوا اور ہر سفر میں، میں امام علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ھوتا جبکہ آپ کا کنبہ بھی آپ (ع) کے ھمراہ ھوا کرتا تھا. امام علیہ السلام نے پھلے سفر میں مدینہ سے مکہ تک کا راستہ ۲۶ دنوں میں طے کیا جبکہ دوسرے سفر میں ۲۵ دن، تیسرے میں ۲۴ دن اور چوتھے سفر میں ۲۱ دن میں یہ راستہ طے فرمایا۔
علی بن جعفر العریضی امام موسی کاظم علیہ السلام کی شھادت کے بعد امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر رھے۔
وہ نقل کرتے ہیں: جب امام رضا علیہ السلام کے بھائیوں اور اعمام نے امام علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی اور آپ (ع) پر ظلم و ستم روا رکھا میں اٹھا اور میں نے امام رضا علیہ السلام کے فرزند ابوجعفر محمد بن علی (امام جواد علیہ السلام) کا ھاتھ پکڑلیا اور کھا: "اشھد انک امامی؛" گواھی دیتا ھوں کہ آپ میرے امام اور پیشوا ہیں.
امام رضا علیہ السلام نے یہ دیکھ کر روئے اور فرمایا: چچاجان! کیا آپ نے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا:
"بأبی ابن خیرہ الاماء النوبہ الطیبہ"
میرا باپ فدا ھو بھترین اور پاک ترین ثوبیہ کنیز کے فرزند (امام محمد بن تقی الجواد) پر۔
میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ھو بالکل حق اور سچ ہے۔
مروی ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی شھادت ھوئی تو علی بن جعفر معمر بزرگ ھونے کے باوجود چھوٹی عمر میں امامت کے رتبے پر فائز امام جواد علیہ السلام کی پیروی کیا کرتے تھے اور اس پیروی کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے.
منقول ہے کہ جب علی بن جعفر جب بھی امام جواد علیہ السلام کے سامنے آتے آپ (ع) کے ھاتھوں کو بوسہ دیتے اور جب کھیں جانے کا ارادہ کرتے تو وہ آپ (ع) کے جوتے سیدھے کرتے.
علی بن جعفر کی یھی خاکساری اور اطاعت و عقیدت کی وجہ سے بعض لوگوں نے ان پر اعتراض کیا.
ایک شخص نے کھا: آپ کی عمر زیادہ ہے اور آپ کا مقام اونچا ہے اس کے باوجود آپ اس بچے کو کیونکر اپنا امام مانتے ہیں؟
فرمایا: خاموش ھوجاؤ! تم شیاطین میں سے ھو! اور اس کے بعد اپنی داڑرھی پر ھاتھ پھیر کر کھا: خداوند متعال نے اس سفید داڑھی کو لائق نھیں سمجھا ہے جبکہ اس بچے کو مرتبہ امامت کا لائق قرار دیا ہے! تم اس کے باوجود اس کے فضل و برتری کا انکار کرتے ھو؟
بھرحال علی بن جعفر علیہ السلام نے چار اماموں (امام صادق، امام کاظم، امام رضا اور امام محمد تقی الجواد علیھم السلام) سے خوب خوب فیض حاصل کیا، کثیر تعداد میں حدیثیں سنیں اور یہ حدیثیں بعد کی نسلوں کے سپرد کردیں.
کھا جاتا ہے کہ علی بن جعفر کوفہ کے عوام کی درخواست پر کچھ عرصہ کوفہ میں مقیم ھوئے اور کوفہ والوں نے ان سے بھت زیادہ حدیثیں سنیں. اس کے بعد شیعیان قم کو انھیں قم تشریف آوری کی دعوت دی اور وہ قم میں تشریف لائے.
اھل قم بھی ان کے علم و دانش سے خوب خوب مستفیض ھوئے اور ایک نقل کے مطابق اسی شھر میں دنیائے فانی سے دار بقاء کی جانب کوچ کرگئے اور قم میں اسی مقام پر سپرد خاک ھوئے جس کو بعد میں "گلزار علی بن جعفر" کا نام دیا گیا.
بحارالانوار کے مؤلف علامہ محمد باقر مجلسی کے والد علامہ محمد تقی مجلسی نے اسی قول سے اتفاق کیا ہے مگر بعض دیگر علماء کی رائے ہے کہ وہ مدینہ منورہ کے نواح میں واقع "عریض" نامی قصبے میں مدفون ہیں.
دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی وقت عریض کے علاقے میں مقبرہ اور گنبد و بارگاہ ہے جو علی بن جعفر الصادق علیہ السلام کا مقبرہ کھلاتی ہے۔ بعض دیگر کا خیال ہے کہ علی بن جعفر کا مقبرہ ایران کے شھر سمنان میں واقع ہے مگر اھل تاریخ کی نظر میں یہ قول بعید از صواب ہے۔ (۱۰)
امام جواد علیہ السلام بچپن میں بولتے ہیں
اس واقعے کا آغاز اچھا نھیں ہے لیکن نتیجہ خوبصورت ہے:
روایت ہے کہ چونکہ امام جواد علیہ السلام کا رنگ سانولا تھا اسی لئے معرفت و حقیقت سے بیگانہ لوگوں نے (معاذاللہ) کھنا شروع کیا کہ گویا آپ (ع) امام رضا علیہ السلام کے فزرند نھیں ھوسکتے.
تاھم چھرہ شناسوں نے تصدیق کی کہ آپ (ع) خاندان نبی و علی علیھما السلام کے چشم و چراغ ہیں... اس وقت امام علیہ السلام کی عمر ۲۵مھینے تھی.
امام محمد تقی علیہ السلام نے اس موقع پر شمشیر سے بھی زیادہ تیز زیان سے اپنا تعارف کرایا اور فرمایا:
حمد و سپاس اس خدا کے لئے مخصوص ہے جس نے ھمیں اپنے نور سے خلق فرمایا اور اپنی مخلوقات میں سے ھمیں پسند فرمایا میں محمد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفرالصادق بن محمد الباقر بن سید العابدین بن حسین الشھید بن امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب اور فرزند حضرت فاطمہ زھراء دختر رسول اللہ (ص)، کا فرزند ھوں.
کیا میرے بارے میں شک و شبھہ کیا جاتا ہے؟ کیا خداوند متعال اور میرے جد امجد پر بھتان تراشی روا رکھی جاتی ہے؟ کیا تم میرے جیسے فرد کو چھرہ شناسوں کے سامنے پیش کرتے ھو؟ خدا کی قسم کہ میں لوگوں کے تمام اسرار اور یادوں سے واقف ھوں.
خدا کی قسم کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ ان کو جانتا ھوں. میں جو کھتا ھوں حق ہے اور میرا بیان حقیقت ہے یہ علم ھمیں کسی بھی موجود کی خلقت سے قبل اللہ تعالی نے ھمیں عطا فرمایا ہے۔
خدا کی قسم اگر کافرین و منافقین کے درمیان سازباز اور گمراھی نہ ھوتی میں آج ایسی بات کھہ دیتا کہ تمام لوگ سن کر حیرت زدہ ھوتے.
اس کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنا ھاتھ اپنے منہ پر رکھا اور فرمایا: اے محمد! خاموش رھو جس طرح کہ تیرے آباء و اجداد نے خاموشی اختیار کرلی اور صبر اختیار کرو جس طرح کہ خداوند متعال کے بزرگ پیغمبروں نے صبر اختیار کیا۔(۱۱)
امام جواد علیہ السلام مآمون عباسی کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں
مأموں عباسی شھر سے گذررھا تھا. راستے میں بچے کھیل کود میں مصروف تھے؛ امام جواد علیہ السلام بھی بچوں کے ھمراہ نظر آرھے تھے. بچے مأموں کو دیکھ کر ادھر ادھر بھاگ گئے.
مأموں نے پوچھا: تم کیوں نھیں بھاگے؟
امام نے فرمایا: مجھ سے کوئی خطا سرزد نھیں ھوئی جس کی بابت میں ڈر کر بھاگ جاؤں اور راستہ بھی تنگ نھیں ہے کہ میں راستے سے ھٹ جاؤں. تم جھاں سے بھی گذرنا چاھو گذر جاؤ.
مأموں نے پوچھا: تم کون ھو؟
امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: میں محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن علی بن حسین بن علی بن ابیطالب (علیھم السلام) ھوں.
مأمون نے پوچھا: علم و دانش میں تمھارا کیا مقام ہے؟
امام نے فرمایا: مجھ سے آسمان کی خبریں پوچھو.
مأمون وداع کرکے چلا گیا جیکہ ایک شکاری باز بھی اس کے پاس تھا اور اس نے باز ھوا میں چھوڑ دیا اور باز تھوڑی دیر بعد ایک مچھلی کو شکار کرکے واپس آیا.
مأمون واپسی میں اسی مقام پر پھنچا جھاں امام جواد علیہ السلام موجود تھے اور گھوڑے سے اتر کر امام (ع) کی خدمت میں حاضر ھوا اور کھنے لگا: مجھے آسمان کی خبر دو.
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے رسول اللہ (ص) سے اور رسول اللہ (ص) نے جبرئیل سے روایت کی ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا: آسمان اور سمندر کے بیچ فضا کا ایک حصہ ہے جس کی لھریں متلاطم ہیں اور وھاں دبیز بادل ھوتے ہیں جن میں بعض مچھلیاں بھی اوپر کو گئی ھوئی ہیں اور ان کے پیٹ کا رنگ سبز ہے اور وھیں زندگی بسر کرتی ہیں اور بعض بادشاہ شکاری بازوں کے ذریعے انھیں شکار کردیتے ہیں تا کہ ان کے ذریعے علماء کی آزمائش کرلیں.
مامون نے کھا: تم نے اور تمھارے والد اور آباء و اجداد نے اور تمھارے پروردگار نے بالکل سچ کھا ہے۔ (۱۲)
حوالے جات:
۱۔ مناقب، ج ۴، ص ۳۹۴۔
۲۔ بحار الانوار، ج ۴۹، ص ۲۷۲، ح ۱۸۔
۳۔ بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۱ تا ۱۴۔
۴۔ بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۱۵، ح ۱۹۔
۵۔بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۹۹، ح ۱۲۔
۶۔ بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۳۵، ح ۲۳ - بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۲۱، ح ۸۔
۷۔ بحارالانوار، ج ۵۰، ص ۳۴، ح ۲۰.
۸۔اصول کافی، کتاب الحجہ، ج ۲، ص ۴۷۳، ح ۳۔
۹۔بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۸۵، ح ۱۔
۱۰۔ سفینہ البحار، ‌ج ۶، ‌ص ۴۱۶؛ قاموس الرجال، ‌ج ۷، ‌ص ۳۸۷؛ اعیان الشیعہ،‌ ج ۷، ‌ص ۱۷۷۔
۱۱۔بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۸، ح ۹۔
۱۲۔بحار الانوار، ج 50، ص 56، ح ۳۱۔ 

Add comment


Security code
Refresh