www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

علی بن جعفر علیہ السلام کا بیان
علی بن جعفر الصادق علیہ‌السلام، المعروف بہ العُریضی، امام جعفر صادق علیہ السلام کے آخری فرزند، امام موسی کاظم علیہ السلام کے چھوٹے بھائی اور امام رضا علیہ السلام کے چچا تھے. مدینہ میں پیدا ھوئے اور اپنے والد ماجد امام صادق علیہ السلام اور بڑے بھائی امام کاظم علیہ السلام کی آغوش میں پروان چڑھے.
علی بن جعفر کھتے ہیں: میں چار مرتبہ اپنے بھائی امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں عمرہ کے لئے مکہ معظمہ مشرف ھوا اور ہر سفر میں، میں امام علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ھوتا جبکہ آپ کا کنبہ بھی آپ (ع) کے ھمراہ ھوا کرتا تھا. امام علیہ السلام نے پھلے سفر میں مدینہ سے مکہ تک کا راستہ ۲۶ دنوں میں طے کیا جبکہ دوسرے سفر میں ۲۵ دن، تیسرے میں ۲۴ دن اور چوتھے سفر میں ۲۱ دن میں یہ راستہ طے فرمایا۔
علی بن جعفر العریضی امام موسی کاظم علیہ السلام کی شھادت کے بعد امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر رھے۔
وہ نقل کرتے ہیں: جب امام رضا علیہ السلام کے بھائیوں اور اعمام نے امام علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی اور آپ (ع) پر ظلم و ستم روا رکھا میں اٹھا اور میں نے امام رضا علیہ السلام کے فرزند ابوجعفر محمد بن علی (امام جواد علیہ السلام) کا ھاتھ پکڑلیا اور کھا: "اشھد انک امامی؛" گواھی دیتا ھوں کہ آپ میرے امام اور پیشوا ہیں.
امام رضا علیہ السلام نے یہ دیکھ کر روئے اور فرمایا: چچاجان! کیا آپ نے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا:
"بأبی ابن خیرہ الاماء النوبہ الطیبہ"
میرا باپ فدا ھو بھترین اور پاک ترین ثوبیہ کنیز کے فرزند (امام محمد بن تقی الجواد) پر۔
میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ھو بالکل حق اور سچ ہے۔
مروی ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی شھادت ھوئی تو علی بن جعفر معمر بزرگ ھونے کے باوجود چھوٹی عمر میں امامت کے رتبے پر فائز امام جواد علیہ السلام کی پیروی کیا کرتے تھے اور اس پیروی کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے.
منقول ہے کہ جب علی بن جعفر جب بھی امام جواد علیہ السلام کے سامنے آتے آپ (ع) کے ھاتھوں کو بوسہ دیتے اور جب کھیں جانے کا ارادہ کرتے تو وہ آپ (ع) کے جوتے سیدھے کرتے.
علی بن جعفر کی یھی خاکساری اور اطاعت و عقیدت کی وجہ سے بعض لوگوں نے ان پر اعتراض کیا.
ایک شخص نے کھا: آپ کی عمر زیادہ ہے اور آپ کا مقام اونچا ہے اس کے باوجود آپ اس بچے کو کیونکر اپنا امام مانتے ہیں؟
فرمایا: خاموش ھوجاؤ! تم شیاطین میں سے ھو! اور اس کے بعد اپنی داڑرھی پر ھاتھ پھیر کر کھا: خداوند متعال نے اس سفید داڑھی کو لائق نھیں سمجھا ہے جبکہ اس بچے کو مرتبہ امامت کا لائق قرار دیا ہے! تم اس کے باوجود اس کے فضل و برتری کا انکار کرتے ھو؟
بھرحال علی بن جعفر علیہ السلام نے چار اماموں (امام صادق، امام کاظم، امام رضا اور امام محمد تقی الجواد علیھم السلام) سے خوب خوب فیض حاصل کیا، کثیر تعداد میں حدیثیں سنیں اور یہ حدیثیں بعد کی نسلوں کے سپرد کردیں.
کھا جاتا ہے کہ علی بن جعفر کوفہ کے عوام کی درخواست پر کچھ عرصہ کوفہ میں مقیم ھوئے اور کوفہ والوں نے ان سے بھت زیادہ حدیثیں سنیں. اس کے بعد شیعیان قم کو انھیں قم تشریف آوری کی دعوت دی اور وہ قم میں تشریف لائے.
اھل قم بھی ان کے علم و دانش سے خوب خوب مستفیض ھوئے اور ایک نقل کے مطابق اسی شھر میں دنیائے فانی سے دار بقاء کی جانب کوچ کرگئے اور قم میں اسی مقام پر سپرد خاک ھوئے جس کو بعد میں "گلزار علی بن جعفر" کا نام دیا گیا.
بحارالانوار کے مؤلف علامہ محمد باقر مجلسی کے والد علامہ محمد تقی مجلسی نے اسی قول سے اتفاق کیا ہے مگر بعض دیگر علماء کی رائے ہے کہ وہ مدینہ منورہ کے نواح میں واقع "عریض" نامی قصبے میں مدفون ہیں.
دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی وقت عریض کے علاقے میں مقبرہ اور گنبد و بارگاہ ہے جو علی بن جعفر الصادق علیہ السلام کا مقبرہ کھلاتی ہے۔ بعض دیگر کا خیال ہے کہ علی بن جعفر کا مقبرہ ایران کے شھر سمنان میں واقع ہے مگر اھل تاریخ کی نظر میں یہ قول بعید از صواب ہے۔ (۱۰)
امام جواد علیہ السلام بچپن میں بولتے ہیں
اس واقعے کا آغاز اچھا نھیں ہے لیکن نتیجہ خوبصورت ہے:
روایت ہے کہ چونکہ امام جواد علیہ السلام کا رنگ سانولا تھا اسی لئے معرفت و حقیقت سے بیگانہ لوگوں نے (معاذاللہ) کھنا شروع کیا کہ گویا آپ (ع) امام رضا علیہ السلام کے فزرند نھیں ھوسکتے.
تاھم چھرہ شناسوں نے تصدیق کی کہ آپ (ع) خاندان نبی و علی علیھما السلام کے چشم و چراغ ہیں... اس وقت امام علیہ السلام کی عمر ۲۵مھینے تھی.
امام محمد تقی علیہ السلام نے اس موقع پر شمشیر سے بھی زیادہ تیز زیان سے اپنا تعارف کرایا اور فرمایا:
حمد و سپاس اس خدا کے لئے مخصوص ہے جس نے ھمیں اپنے نور سے خلق فرمایا اور اپنی مخلوقات میں سے ھمیں پسند فرمایا میں محمد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفرالصادق بن محمد الباقر بن سید العابدین بن حسین الشھید بن امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب اور فرزند حضرت فاطمہ زھراء دختر رسول اللہ (ص)، کا فرزند ھوں.
کیا میرے بارے میں شک و شبھہ کیا جاتا ہے؟ کیا خداوند متعال اور میرے جد امجد پر بھتان تراشی روا رکھی جاتی ہے؟ کیا تم میرے جیسے فرد کو چھرہ شناسوں کے سامنے پیش کرتے ھو؟ خدا کی قسم کہ میں لوگوں کے تمام اسرار اور یادوں سے واقف ھوں.
خدا کی قسم کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ ان کو جانتا ھوں. میں جو کھتا ھوں حق ہے اور میرا بیان حقیقت ہے یہ علم ھمیں کسی بھی موجود کی خلقت سے قبل اللہ تعالی نے ھمیں عطا فرمایا ہے۔
خدا کی قسم اگر کافرین و منافقین کے درمیان سازباز اور گمراھی نہ ھوتی میں آج ایسی بات کھہ دیتا کہ تمام لوگ سن کر حیرت زدہ ھوتے.
اس کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنا ھاتھ اپنے منہ پر رکھا اور فرمایا: اے محمد! خاموش رھو جس طرح کہ تیرے آباء و اجداد نے خاموشی اختیار کرلی اور صبر اختیار کرو جس طرح کہ خداوند متعال کے بزرگ پیغمبروں نے صبر اختیار کیا۔(۱۱)
امام جواد علیہ السلام مآمون عباسی کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں
مأموں عباسی شھر سے گذررھا تھا. راستے میں بچے کھیل کود میں مصروف تھے؛ امام جواد علیہ السلام بھی بچوں کے ھمراہ نظر آرھے تھے. بچے مأموں کو دیکھ کر ادھر ادھر بھاگ گئے.
مأموں نے پوچھا: تم کیوں نھیں بھاگے؟
امام نے فرمایا: مجھ سے کوئی خطا سرزد نھیں ھوئی جس کی بابت میں ڈر کر بھاگ جاؤں اور راستہ بھی تنگ نھیں ہے کہ میں راستے سے ھٹ جاؤں. تم جھاں سے بھی گذرنا چاھو گذر جاؤ.
مأموں نے پوچھا: تم کون ھو؟
امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: میں محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن علی بن حسین بن علی بن ابیطالب (علیھم السلام) ھوں.
مأمون نے پوچھا: علم و دانش میں تمھارا کیا مقام ہے؟
امام نے فرمایا: مجھ سے آسمان کی خبریں پوچھو.
مأمون وداع کرکے چلا گیا جیکہ ایک شکاری باز بھی اس کے پاس تھا اور اس نے باز ھوا میں چھوڑ دیا اور باز تھوڑی دیر بعد ایک مچھلی کو شکار کرکے واپس آیا.
مأمون واپسی میں اسی مقام پر پھنچا جھاں امام جواد علیہ السلام موجود تھے اور گھوڑے سے اتر کر امام (ع) کی خدمت میں حاضر ھوا اور کھنے لگا: مجھے آسمان کی خبر دو.
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے رسول اللہ (ص) سے اور رسول اللہ (ص) نے جبرئیل سے روایت کی ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا: آسمان اور سمندر کے بیچ فضا کا ایک حصہ ہے جس کی لھریں متلاطم ہیں اور وھاں دبیز بادل ھوتے ہیں جن میں بعض مچھلیاں بھی اوپر کو گئی ھوئی ہیں اور ان کے پیٹ کا رنگ سبز ہے اور وھیں زندگی بسر کرتی ہیں اور بعض بادشاہ شکاری بازوں کے ذریعے انھیں شکار کردیتے ہیں تا کہ ان کے ذریعے علماء کی آزمائش کرلیں.
مامون نے کھا: تم نے اور تمھارے والد اور آباء و اجداد نے اور تمھارے پروردگار نے بالکل سچ کھا ہے۔ (۱۲)
حوالے جات:
۱۔ مناقب، ج ۴، ص ۳۹۴۔
۲۔ بحار الانوار، ج ۴۹، ص ۲۷۲، ح ۱۸۔
۳۔ بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۱ تا ۱۴۔
۴۔ بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۱۵، ح ۱۹۔
۵۔بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۹۹، ح ۱۲۔
۶۔ بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۳۵، ح ۲۳ - بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۲۱، ح ۸۔
۷۔ بحارالانوار، ج ۵۰، ص ۳۴، ح ۲۰.
۸۔اصول کافی، کتاب الحجہ، ج ۲، ص ۴۷۳، ح ۳۔
۹۔بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۸۵، ح ۱۔
۱۰۔ سفینہ البحار، ‌ج ۶، ‌ص ۴۱۶؛ قاموس الرجال، ‌ج ۷، ‌ص ۳۸۷؛ اعیان الشیعہ،‌ ج ۷، ‌ص ۱۷۷۔
۱۱۔بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۸، ح ۹۔
۱۲۔بحار الانوار، ج 50، ص 56، ح ۳۱۔ 

Add comment


Security code
Refresh