www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

پيغام کربلا

ظاھر بيں انکھوں سے تاريخ پڑھيئے تو کربلا چند ساعت کي مختصر سي لڑائي ہے جس ميں بہتر[۷۲] يا زيادہ سے زيادہ ايک سو کچھ افراد اپني بے سر و ساماني کے ساتھ ھزاروں کے لشکر سے ٹکرائے اور موت کي آغوش ميں جا سوئے ۔ ان ميں وہ بوڑھے بھي تھے جنھيں سھارا دے کر گھوڑے پر بٹھايا گيا ۔ وہ جوان بھي تھے جن کي تلواروں نے ذوالفقار سے شجاعت و عدالت کا درس ليا تھا ۔ وہ کمسن بھي تھے جو جنگ کو بچوں کا کھيل سمجھ کر ماؤں کي گوديوں سے مچلتے ھوئے ميدان ميں آگئے تھے اور ان کے پس پشت عورتوں اور معصوم بچوں کا ايک قافلہ تھا جس کي نگھباني و سالاري کے لئے ايک بيمار رہ گيا تھا يا تيغ علي عليہ السلام کي ورثہ دار زبان زينب عليھا السلام ۔

آخر چند گھنٹوں کي اسي مختصر لڑائي کو آج تک کيوں ياد کيا جاتا ہے؟!

اس لئے کہ اس جنگ نے "لا الہ الا اللہ "کي بنياد مضبوط کردي ، رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے سارے غزوؤں اور سريوں کي فتحوں پر مھر توثيق ثبت کي ، جمل و صفين و نھروان کا آخري فيصلہ کيا ، صلح حسن عليہ السلام کے معاھدے کے ساتھ معاويہ ملعون کي ملوکيت کي پيمان شکن سياست کا پردہ چاک کيا ۔ نفاق کے چھرے سے نقاب اٹھائي اور ايمان کا چھرہ روشن کر ديا ۔ اگر کربلا کي جنگ وقوع پذير نہ ھوتي تو اسلام کي رسالت و امامت ملوکيت کے تخت تلے دب کر ھی ميں ختم ھو گئي ھوتي۔

اس جنگ ميں ظلم کے لشکروں کے گھوڑوں کي ٹاپوں تلے پامال ھو جانے والي لاشوں نے اسلام کو نئي زندگي بخشي ، اس جنگ کے شھيدوں کي بے کفني نے چادر تطھير کا سايہ انسانيت کے سر سے نہ اٹھنے ديا ۔ اس جنگ کے اسيروں کي مظلومي و جرات نے مسلمانوں کو بے باکي و حق گوئي کا درس ديا آنے والے زمانے کے آشفتہ سروں کو بتايا کہ اسيري آزادي کي تمھيد ہے ۔ گرفتاري طوق و سلاسل عزت اور تخت نشيني و خون آشامي ابدي ذلت۔

کسي جنگ کي تاريخي اھميت کا اندازہ اس ميں شرکت کرنے والے افراد کي تعداد ، اس ميں قتل ھونے والوں کي قلت اور اس کے جاري رھنے کي مدت سے نھيں لگايا جا سکتا بلکہ اس کے فوري اور دور رس اثرات سے لگايا جاتا ہے ۔ جنگ کي قاطعيت و عظمت کا يہ معيار بھي کربلا نے قائم کيا۔

کربلا نے ايک طرف سچے اسلام اور اس کي اقدار کا تحفظ کيا اور خون حسين عليہ السلام نے ان اقدار کي بقا کي ضمانت لي دوسري طرف کربلا نے فکر و نظر کے جادہ روشن کرکے عالم اسلام کي ذھني و علمي ترقي کا اثاثہ فراھم کيا تيسري طرف ايسے جذبہ آزادي کو فروغ ديا جو ھر دور ميں انقلابي رجحانات و تحريکات کو اسلحے فراھم کرتا رھا۔

کربلا کا فيضان صرف عالم اسلام ھي سے مخصوص نھيں ۔ تاريخ انسانيت کا مشترکہ سرمايہ ہے ۔ کربلا کے کثير الجھات اثرات کو ديکھا جائے تو کربلا تاريخ اسلام ھي کا انقلاب آفرين موڑ نھيں ،تاريخ انسانيت کا وہ روشن سنگ ميل بن کر ابھرتا ہے جس نے تمام انقلابوں ، آزادي کي تحريکوں اور عدل و مساوات کے نظريات کے لئے راستے کھول ديئے ۔

اسلامي تاريخ ميں کربلا کي انقلاب آفرين اھميت کو سمجھنے کے لئے ابوالاعلي مودودي کي کتاب ” خلافت و ملوکيت “ اور طہ حسين کي ” علي [ع] اور ان کے فرزند “ پڑھنا کافي ہے صفين ميں” لا حکم الا لِلّہ “ کے نعرہ نے ناگزير شکست سے بچنے کے لئے جس طرح قرآن کو نيزہ پر بلند کيا وہ تمھيد تھي اس بات کي کہ آج قرآن صامت نيزے پر ہے تو کل قرآن ناطق بھي نيزے پر بلند کيا جاسکتا ہے۔

معاويہ ملعون کي وفات کے بعد صلح امام حسن مجتبي عليہ السلام کے مطابق مسلمانوں کو اپنا خليفہ منتخب کرنے کا حق تھا ، اور اس وقت مسلمانوں کي نظر رسول اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے فرزند پر تھي اسي سے وہ ھدايت کے طالب ھوئے اور اسي کو يزيد ملعون کے خلاف نبرد آزما ھونے کي دعوت دي ۔ اگر اس وقت فاطمہ [س] کا لال گوشہ نشين رھتا ، مصلحتاً بيعت کر ليتا تو خود کو اور اپنے خاندان کو ھلاکت سے بچاليتا ۔ مگر اسلام اور اس کي اقدار کو ھلاکت سے نہ بچا سکتا تھا۔ امام حسين عليہ السلام نے شھادت کو لبيک کھا مدينہ سے مکہ اورمکہ سے کربلا تک کا راستہ پيغام اسلام کي اشاعت اور ظلم کے خلاف جنگ کا سفر تھا ۔ يہ جنگ عاشور کے دن بظاھر ختم ھو گئي ۔ ليکن در اصل جاري رھي ۔ کربلا کے بعد يہ جنگ کوفہ اور دمشق کے بازاروں اور درباروں ميں بے کسي کے مظاھرے اور مظلوميت کي زبان سے لڑي گئي ۔ امام حسين عليہ السلام نے تو سر دے کر جنگ کا آغاز کيا تھا ۔ کربلا کي آواز کو کوفہ و شام ميں زينب [س]کي زبان بن گئي ۔

Add comment


Security code
Refresh