www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

انسان و انسانيت کا حامي، وہ عظيم رھبر جس نے آزادي کا نعرہ بلندکيا

 اور ساري دنيا کو آزادي کي طرف دعوت دي۔ جس نے انساني وجدان و غيرت کو جگايا اور آواز دي:” لاَ تَکُن عَبدَ غَيرِکَ وَ قَد  جَعَلَکَ اللہ حُرّاً تم دوسروں کے غلام نہ بنو !کيوں کہ خدا وند عالم نے تم کو آزاد پيدا کياہے ۔

امام حسين عليہ السلام صلح و صفا کے حامي و طرفدار تھے لھذا مسلمانوں کے درميان صلح و صفا اور امنيت بر قرار کرنا چاھتے تھے اور اپنے عھد ميں پھيلي ھوئي ظلم و جھالت کي تاريکي کو دور کرنا چاھتے تھے۔جيسا کہ خود آپ فرماتے ہيں اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلاحِ فِي اُمَّۃ جَدِّي “ ميں اپنے جد کي امت کي اصلاح کے لئے نکلاھوں ۔

امام حسين عليہ السلام کي نظر ميں امر بالمعروف و نھي عن المنکر کي اھميت زيادہ تھي ،امر بالمعروف و نھي عن المنکرسے اسلام کي طرف دعوت دينا ہے اور ستمگروں و ظالموں سے مقابلہ کرنا ہے ۔

امام حسين عليہ السلام ھميشہ ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے رھے اور ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ زندگي گزارنا ذلت سمجھتے تھے ۔ جيسا کہ آپ فرماتے ہيں:

” اِنِّي لا اَرَي المَوتَ اِلَّا سَعَادَۃ وَ لاَ الحَياۃ مَعَ الظَّالِمِينَ اِلاَّ بَرَماً ميں موت کو خوشبختي اور ستمگروں کے ساتھ زندگي کو ذلت و رسوائي سمجھتاھوں۔

امام حسين عليہ السلام پاک طينت ،آزاد اور راہ خدا ميں نصرت کرنے والوں کے پيشوا و امام تھے وہ ايثار و قرباني پيش کرنے والوں کے رھبر کامل تھے ۔ يھي وجہ ہے کہ مکہ معظمہ سے کربلا کي سمت حرکت کے وقت اپنے ساتھيوں سے فرمايا:

 

"من کَانَ فِينَا بَاذِلاً مُھجَتَہُ ،مُوَطَّناً عَلي۔ لِقَاء اللّہِ نَفسَہُ فَل يَرحَل  مَعَنا ،فَاِنِّي رَاحِلµ مُصبِحاً اِن  شَاءَ اللّہ“ جو چاھتا ہے اپنے خون کو ميري راہ ميں بھائے اور خدا وند عالم کي بارگاہ ميں حاضر ھو نے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ پائے وہ ھمارے ساتھ آئے ۔انشاءاللہ ميں صبح سويرے ھي روانہ ھونے والاھوں۔

امام جعفر صادق ،امام حسين عليھمالسلام کو خطاب کرکے فرماتے ہيں:

” ضَمَّنَ الاَرضُ وَمَن عَلَيھَا دَمَکَ وَ ثارَکَ “ خداوند عالم نے زمين اورزمين والوں کو آپ کے خون کا ضامن اورآپ کے خون کا منتقم قرارديا ہے ۔

امام عليہ السلام کے اس مختصر جملہ سے يہ بات واضح ھو جاتي ہے کہ خدا وند عالم کي طرف سے زمين اور زمين پر زندگي بسر کرنے والوں کو امام حسين عليہ السلام کے خون کا بدلہ ليناايک فريضہ اور وظيفہ قرار ديا ہے ۔

زمین ضامن ہے؟

زمين ضامن ہے اس کا کيا مطلب ہے ؟زمين ضامن ہے اس کي وضاحت کے لئے تفصيلي بحث کي ضرورت ہے اور يھاں اس مختصر مقالہ ميں گنجائش نھيں ہے ۔فقط ھم يھاں زمين والے ضامن ہيں اس کو مختصر و خلاصہ بيان کررھے ہيں:

۔۔ يہ ضمانت خدا وند عالم کي طرف سے زمين پر رھنے والوں پر ہے۔

۔۔ يہ ضمانت تمام بني نوع انسان سے مربوط ہے وہ چاھے جس مذھب و ملت کے ھوں ۔

۔۔ يہ ضمانت ھر دور اور ھر زمانہ سے متعلق ہے ۔

۔۔ اس ضمانت کاموضوع خون امام حسين عليہ السلام اور انتقام خون امام حسين عليہ السلام ہے ۔

اب اس بيان کے مطابق ھر دور اور ھر زمانہ کے انسانوں کے ذمہ انتقام خون امام حسين عليہ السلام سے متعلق دو اھم فريضے ہيں۔

۔۔ يہ کہ امام حسين عليہ السلام کے خون کا پاس و لحاظ رکھتے ھوئے اس کو ضائع ھونے سے بچائيں۔

۔۔ ھم لوگوں کو چاھئے کہ امام حسين عليہ السلام کے پيغام اور امام حسين عليہ السلام کے مقصد کودنيا کے ھر گوشہ ميں پھنچائيں، اور ان کے دشمنوں سے دفاع کريں۔

لھذا ان پر عمل کرنے کے لئے مندرجہ ذيل راستوں کو اپنانا پڑے گا۔

۔۔ امام حسين عليہ السلام کي مجالس عزا برپا کرنا۔

۔۔ تحريک عاشورا کي تبليغ اور مراسم حسيني ميں شرکت کرنا۔

۔۔۔ عشرہ محرم کو اعلي۔ پيمانے پر برپا کرنا۔

۔۔۔امام حسين عليہ السلام کے انقلاب کا مقصد کيا تھا اس پر غور کرنا۔

۔۔۔ امام حسين عليہ السلام کے مقاصد کوسمجھنا۔

۔۔۔عاشورا کے مقاصد کو تقريروں اور اعلاميہ کے ذريعہ عام کرنا۔

۔۔۔ھر زمانہ کي طاغوتي اور ظالم حکومتوں سے مقابلہ کرنا۔

۔۔۔ امام حسين عليہ السلام کے تمام اوامر و نواھي پر صدق دل سے عمل کرنا۔

۔۔۔دنيا کے ھر گوشہ و کنارسے قبر مطھر امام حسين عليہ السلام کي زيارت کے لئے جانا۔

۔۔۔۔انساني خدمت گزاري جو مختلف شکلوں ميں ہے مثلا مسجد بنوانا،امام باڑہ بنوانا ،آل محمد صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے علم کے چراغ روشن کرنے کے لئے درسگاھيں قائم کرنا، کتب خانہ کھولنا، اسپتال بنوانا،مومنين کوقرض الحسنہ ديناوغيرہ وغيرہ۔

کربلا ميں روز عاشورا امام مظلوم کے بيانات سے ھميں يہ سبق ملتا ہے:

عاشورا :۔ ھر زمانے کے مظلوم انسانوں کي آواز ہے ۔

عاشورا :۔ تمام ستم ديدہ انسانوں سے ھمدردي کي سب سے بلند آواز ہے ۔

عاشورا :۔کاميابي کي وہ بلند آواز ہے جوانساني آبادي کے گوش وکنار سے آتي ہے۔

عاشورا :۔ تمام انسانوں کي گردن پر ايک بڑي ذمہ داري ہے ۔

عاشورا :۔ زندگي کے کاروان کے لئے ايک روشن رھنما ہے ۔

عاشورا :۔ زمين کے سينہ ميں خورشيد کے قلب کي دھڑکن ہے۔

عاشورا :۔ ايمان کي جلوہ گاہ ہے جس سے انسان کي شجاعت عياں ھوتي ہے۔

عاشورا :۔ تمام زمانوں کے لئے دين کي بقا کا راز ہے۔۔

پوري تاريخ ميں کوئي ايسي مثال نھيں ملتي کہ جنگ ھارنے والا فاتح کھلايا ھو ۔مگر کربلا کي جنگ دنيائے انسانيت ميں ايسي لڑي گئي جس کي مثال تاريخ ميں نھيں ملتی ۔


پيغام کربلا

ظاھر بيں انکھوں سے تاريخ پڑھيئے تو کربلا چند ساعت کي مختصر سي لڑائي ہے جس ميں بہتر[۷۲] يا زيادہ سے زيادہ ايک سو کچھ افراد اپني بے سر و ساماني کے ساتھ ھزاروں کے لشکر سے ٹکرائے اور موت کي آغوش ميں جا سوئے ۔ ان ميں وہ بوڑھے بھي تھے جنھيں سھارا دے کر گھوڑے پر بٹھايا گيا ۔ وہ جوان بھي تھے جن کي تلواروں نے ذوالفقار سے شجاعت و عدالت کا درس ليا تھا ۔ وہ کمسن بھي تھے جو جنگ کو بچوں کا کھيل سمجھ کر ماؤں کي گوديوں سے مچلتے ھوئے ميدان ميں آگئے تھے اور ان کے پس پشت عورتوں اور معصوم بچوں کا ايک قافلہ تھا جس کي نگھباني و سالاري کے لئے ايک بيمار رہ گيا تھا يا تيغ علي عليہ السلام کي ورثہ دار زبان زينب عليھا السلام ۔

آخر چند گھنٹوں کي اسي مختصر لڑائي کو آج تک کيوں ياد کيا جاتا ہے؟!

اس لئے کہ اس جنگ نے "لا الہ الا اللہ "کي بنياد مضبوط کردي ، رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے سارے غزوؤں اور سريوں کي فتحوں پر مھر توثيق ثبت کي ، جمل و صفين و نھروان کا آخري فيصلہ کيا ، صلح حسن عليہ السلام کے معاھدے کے ساتھ معاويہ ملعون کي ملوکيت کي پيمان شکن سياست کا پردہ چاک کيا ۔ نفاق کے چھرے سے نقاب اٹھائي اور ايمان کا چھرہ روشن کر ديا ۔ اگر کربلا کي جنگ وقوع پذير نہ ھوتي تو اسلام کي رسالت و امامت ملوکيت کے تخت تلے دب کر ھی ميں ختم ھو گئي ھوتي۔

اس جنگ ميں ظلم کے لشکروں کے گھوڑوں کي ٹاپوں تلے پامال ھو جانے والي لاشوں نے اسلام کو نئي زندگي بخشي ، اس جنگ کے شھيدوں کي بے کفني نے چادر تطھير کا سايہ انسانيت کے سر سے نہ اٹھنے ديا ۔ اس جنگ کے اسيروں کي مظلومي و جرات نے مسلمانوں کو بے باکي و حق گوئي کا درس ديا آنے والے زمانے کے آشفتہ سروں کو بتايا کہ اسيري آزادي کي تمھيد ہے ۔ گرفتاري طوق و سلاسل عزت اور تخت نشيني و خون آشامي ابدي ذلت۔

کسي جنگ کي تاريخي اھميت کا اندازہ اس ميں شرکت کرنے والے افراد کي تعداد ، اس ميں قتل ھونے والوں کي قلت اور اس کے جاري رھنے کي مدت سے نھيں لگايا جا سکتا بلکہ اس کے فوري اور دور رس اثرات سے لگايا جاتا ہے ۔ جنگ کي قاطعيت و عظمت کا يہ معيار بھي کربلا نے قائم کيا۔

کربلا نے ايک طرف سچے اسلام اور اس کي اقدار کا تحفظ کيا اور خون حسين عليہ السلام نے ان اقدار کي بقا کي ضمانت لي دوسري طرف کربلا نے فکر و نظر کے جادہ روشن کرکے عالم اسلام کي ذھني و علمي ترقي کا اثاثہ فراھم کيا تيسري طرف ايسے جذبہ آزادي کو فروغ ديا جو ھر دور ميں انقلابي رجحانات و تحريکات کو اسلحے فراھم کرتا رھا۔

کربلا کا فيضان صرف عالم اسلام ھي سے مخصوص نھيں ۔ تاريخ انسانيت کا مشترکہ سرمايہ ہے ۔ کربلا کے کثير الجھات اثرات کو ديکھا جائے تو کربلا تاريخ اسلام ھي کا انقلاب آفرين موڑ نھيں ،تاريخ انسانيت کا وہ روشن سنگ ميل بن کر ابھرتا ہے جس نے تمام انقلابوں ، آزادي کي تحريکوں اور عدل و مساوات کے نظريات کے لئے راستے کھول ديئے ۔

اسلامي تاريخ ميں کربلا کي انقلاب آفرين اھميت کو سمجھنے کے لئے ابوالاعلي مودودي کي کتاب ” خلافت و ملوکيت “ اور طہ حسين کي ” علي [ع] اور ان کے فرزند “ پڑھنا کافي ہے صفين ميں” لا حکم الا لِلّہ “ کے نعرہ نے ناگزير شکست سے بچنے کے لئے جس طرح قرآن کو نيزہ پر بلند کيا وہ تمھيد تھي اس بات کي کہ آج قرآن صامت نيزے پر ہے تو کل قرآن ناطق بھي نيزے پر بلند کيا جاسکتا ہے۔

معاويہ ملعون کي وفات کے بعد صلح امام حسن مجتبي عليہ السلام کے مطابق مسلمانوں کو اپنا خليفہ منتخب کرنے کا حق تھا ، اور اس وقت مسلمانوں کي نظر رسول اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے فرزند پر تھي اسي سے وہ ھدايت کے طالب ھوئے اور اسي کو يزيد ملعون کے خلاف نبرد آزما ھونے کي دعوت دي ۔ اگر اس وقت فاطمہ [س] کا لال گوشہ نشين رھتا ، مصلحتاً بيعت کر ليتا تو خود کو اور اپنے خاندان کو ھلاکت سے بچاليتا ۔ مگر اسلام اور اس کي اقدار کو ھلاکت سے نہ بچا سکتا تھا۔ امام حسين عليہ السلام نے شھادت کو لبيک کھا مدينہ سے مکہ اورمکہ سے کربلا تک کا راستہ پيغام اسلام کي اشاعت اور ظلم کے خلاف جنگ کا سفر تھا ۔ يہ جنگ عاشور کے دن بظاھر ختم ھو گئي ۔ ليکن در اصل جاري رھي ۔ کربلا کے بعد يہ جنگ کوفہ اور دمشق کے بازاروں اور درباروں ميں بے کسي کے مظاھرے اور مظلوميت کي زبان سے لڑي گئي ۔ امام حسين عليہ السلام نے تو سر دے کر جنگ کا آغاز کيا تھا ۔ کربلا کي آواز کو کوفہ و شام ميں زينب [س]کي زبان بن گئي ۔


کوفہ و شام میں جناب زینب (ع) کا پیغام:

بعد حمد وثنائے پرور دگار مجمع عام کو يوں مخاطب کيا:

اے اھل کوفہ کيا تم ھم پر رو رھے ھو؟ تمھارے آنسوکبھي خشک نہ ھوں اور تمھارے نالے کبھي بند نہ ھوں ۔ تمھاري مثال اس عورت کي سي ہے جو مضبوط دھاگا کاتتي ہے اور پھر خود اسے توڑ ديتي ہے ۔ تم نے اپنے ايمانوں کو خود دھوکا ديا خود اپنے ساتھ خيانت کي خود ھي ايک عھد باندھا اور اسے پھر توڑ ديا ۔ تم ميں کوئي ھنر ہے جو يہ کہ تم خود ستائي گزاف و فساد اور کينہ توزي جانتے ھو ۔ کنيزوں کي طرح خوشامد و تملق تمھارا شيوہ ہے ، اور دشمنوں کي غمازي تمھارا وطيرہ ۔ تم گندگي ميں اُگي ھوئي گھاس ھو جو کھائے جانے کے لائق نھيں ۔ تم اس چاندي کي طرح ھو جو صرف قبر پر منڈھي جاسکتي ہے ۔ تم نے دوسري دنيا کے لئے کتنا بڑا توشہ تيار کيا ہے ۔ وہ توشہ جو غضب خداوندي کو دعوت ديتا اور بھڑکاتا ہے اور عذاب جاويداني کو خود تمھارے لئے فراھم کرتا ہے۔

تم ھميں قتل کرنے کے بعد ھم پر روتے ھو اور خود پر لعنت کرتے ھو؟ ھاں بخدا ! بعد ميں تم اس سے زيادہ روؤگے اور شايدھي کبھي ھنس سکو کيوں کہ تم نے اپنے لئے ننگ اور بدنامي و شرم کي خريداري کي ہے ۔۔۔

جناب زينب سلام اللہ عليھا کے مختصر سے خطبے نے اھل کوفہ کو اپنے اوپر روتا ديکھ کر معاويہ و يزيد لعنة اللہ عليھما کي سياست کے نتيجے سے خود ان کي ذلت ياد دلائي ۔ جناب زينب [س]کے ملامت آميز لفظوں ميں اپنا نوحہ نھيں بلکہ خود امت کي گمراھي و گرفتاري کا مرثيہ ہے اسلامي اصولوں سے منحرف سياست و انتظام ملک کي تنقيد ہے ۔ يہ آواز تاريخ کے سينے سے نکلي ہے ۔

Add comment


Security code
Refresh