www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

مدینہ کے مشھور و معروف فقیہ مالک ابن انس ایک سال سفر حج میں امام جعفر صادق (ع)

کے ھمراہ تھے ۔ یہ لوگ میقات میں پھونچ گئے اور جب احرام باندھنے اور ذکر معروف یعنی لبیک اللھم لبیک ادا کرنے کا وقت آگیا تودوسرے تمام حاجیوں نے معمول کے مطابق اس ذکر کو اپنی زبان سے ادا کیا ۔مالک ابن انس امام جعفر صادق (ع) کی طرف متوجہ ھوئے تو کیا دیکھتے ھیں کہ امام کا حال بالکل منقلب ھے جیسے ھی اس ذکر کو اپنی زبان پر لانا چاھتے ھیں ان پر ھیجانی کیفیت طاری ھو جاتی ھے اور ان کی آواز گلے میں پھنس کر رہ جاتی ھے اور انھیں اپنے اعصاب بدن پر اتنا بھی اختیار نھیں رہ جاتا کہ وہ اپنی سواری پر اپنے آپ کو سنبھال سکیں ، بدن میں ایسی تھر تھراھٹ تھی جس کو دیکہ کر معلوم ھوتا تھا کہ وہ اپنی سواری سے گر جائیں گے ۔ یہ دیکہ کر مالک امام جعفر صادق (ع) کے سامنے آئے اور کھا :”یابن رسول اللہ ! جس طرح ممکن ھو اس ذکر کو بجالائیں اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نھیں ھے ۔“ 

امام نے ارشاد فرمایا :” اے ابی عامر کے بیٹے ! یہ جسارت میں کیسے کروں! لبیک کھنے کی جراٴت کھاں سے لاؤں ؟لبیک کھنے کا مطلب یہ ھے کہ اے میرے پروردگار! تو مجھے جس چیز کے لئے طلب کرتا ھے ،میں ھمہ تن اسے قبول کرتا ھوں اور ھمیشہ ھر خدمت کے لئے آمادہ ھوں ۔ میں کس زبان سے اپنے پروردگار سے اس طرح کی گستاخی کروں اور اپنے آپ کو ایک آمادہ بخدمت بند ے کی حیثیت سے کیسے پیش کروں ؟ اگر میرے جواب میں یہ کھہ دیا گیاکہ لالبیک تو اس وقت میں کیا کروں گا۔

۱۔مالک ابن انس بن مالک بن ابی عامر اھل سنت و الجماعت کے چار اماموں میں ایک تھے مشھور و معروف مالکی مذھب انھیں سے منسوب ھے ۔ وہ ابو حنیفہ کے ھم عصر تھے ۔شافعی مالک کے شاگرد تھے اور احمد بن حنبل شافعی کے شاگرد تھے ۔

فقھی اعتبار سے مالک اور ابو حنیفہ کے مسلک میں بڑا فرق تھا ۔ اور کسی حد تک یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد شمار کئے جاتے تھے کیونکہ ابو حنیفہ زیادہ تر اپنی رائے اور قیاس سے کام لیتے تھے ۔اس کے بر عکس مالک کا فقھی مسلک زیادہ تر سنت اور حدیث پر بھروسہ کرتا تھا ۔ اسی کے ساتھ ساتھ ابن خلکان نے اپنی کتاب ”وفیات الاعیان ج۳،ص۲۸۴“ میں نقل کیا ھے کہ مالک اپنی موت سے قبل بھت رویا کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے کچہ فتوے اپنی راٴے اور قیاس کے مطابق صادر کر دئے تھے اور اپنی عمر کے آخری حصہ میں انھیں اس غلطی کا شدت کے ساتھ احساس ھو رھا تھا ۔ چنانچہ جب کبھی اپنی رائے کے مطابق صادر کئے گئے فتوے کا خیال آتا تھا تو ان پر بے تحاشہ گریہ طاری ھو جاتا تھا اور بے اختیار یہ کھنے لگتے تھے کاش میں نے اپنی رائے کے مطابق یہ فتویٰ نہ صادر کیا ھوتا اور میں اس بات کے لئے بخوشی راضی ھوں کہ ھر فتوے کے عوض میں مجھے ایک ایک تازیانہ لگایا جائے تاکہ میں ان گناھوں سے سبکدوش ھو جاؤں ۔

مالک کے مسلک کی سب سے خاص اور اھم بات یہ ھے کہ وہ محمد ابن عبد اللہ محض کی بیعت کو درست مانتے ھیں ۔ اس مسلک کے نزدیک بنی عباس کی ، جنھوں نے طاقت کے زور پر خلافت حاصل کی تھی ، بیعت درست نھیں ھے ۔ مالک اپنے اس عقیدے کے اظھار سے قطعی پر ھیز نھیں کرتے تھے ۔ انھیں بنی عباس کے رعب و دبد بے کی کوئی پروا نھیں تھی چنانچہ یھی وجہ ھے کہ سفاح و منصور کے چچا جعفر بن سلیمان عباسی کے حکم سے انھیں سخت تازیانے لگائے گئے لیکن یہ عجیب اتفاق ھے کہ عباسی حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے تازیانے کی بدولت مالک کی شھرت و مقبولیت اور احترام میں غیر معمولی اضافہ ھو گیا ۔”وفیات الاعیان ج۳،کے۲۸۵ “میں اس سلسلے میں سیر حاصل بحث کی گئی ھے ۔

مدینے میں قیام کے دوران مالک امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں برابر آیا جایا کرتے تھے ۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے امام سے حدیث بھی نقل کی ھے ۔بحار الانوار کے مطابق امام جعفر صادق (ع) مالک کو بھت چاھتے تھے اور اکثر مالک کو مخاطب ھو کر کھا کرتے تھے کہ میں تمھیں بھت عزیز رکھتا ھوں اور مالک امام کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بھت خوش ھو جایا کرتے تھے ۔الامام الصادق نامی کتاب نے نقل کیا ھے کہ مالک اکثر کھا کرتے تھے کہ میں ایک مدت تک امام صادق (ع) کے حضور میں آیا جایا کرتا تھا اور میں امام کو ھمیشہ نماز ، روزہ یا تلاوت قرآن کے عالم میں ھی پایا کرتا تھا ۔ عبادت علم و تقویٰ اور پرھیزگاری کے میدان میں ان سے بڑا فاضل میری آنکھوں نے اس سے پھلے نھیں دیکھا تھا ۔

بحار الانوار کے بیان کے مطابق بھی مالک امام صادق (ع) کے بارے میں یوں کھتے ھیں کہ وہ (امام صادق ) بلند مرتبہ عبادت گزار اور پرھیزگار تھے ۔وہ اپنے پرورگار سے بھت ڈرتے تھے اور انھیں رسول اکرم (ص) کی بھت سی حدیثیں یاد تھیں ۔ وہ ایک نھایت خوش اخلاق شخص تھے اور ان کے پاس بیٹہ کر بھت کچہ حاصل کیا جاسکتا تھا ۔ان کی صحبت یا ان کی مجلس میں بیٹہ کر لوگ ھر طرح کی فیوض و برکات حاصل کیا کرتے تھے ۔ رسول خدا کا نام سنتے ھی ان کے چھرے کی رنگت بدل جایا کرتی تھی۔(بحار الانوار ،ج۱۱،ص۱۰۹)۔

Add comment


Security code
Refresh