www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انّ ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم

طٰہ فاونڈیشن کی طرف سے اسلامی موضوعات پرمنعقد ھونے والے لکچرز کے اس سلسلے میں اس سے قبل ، عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ(Universal Invitation of Islam )کے موضوع پر کچہ معروضات آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ھوں ۔

 اس موضوع پر ھماری گفتگو دو حصوں میں تقسیم ھوتی ھے ، ایک یہ کہ ھم اسلام کو عالمی(Universal ) دین مانیں ؛یاکہ ایک خاندانی ، قومی اور گروھی دین ۔ میں نے گذشتہ تقریر میں یہ عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ پھلے ھم اپنے تنگ دائرے سے نکل کر باھر آئیں اور پھر اس بلندی کو حاصل کریں جس کے بعد رنگ و نسل کی تمیز ختم ھو جاتی ھے ۔ ”الصلوٰة معراج المومن“ یعنی نماز مومن کی معراج ھے اور انسان جب عروج حاصل کر لیتا ھے تو بلندی سے اسے سارے رنگ مخلوط نظر آتے ھیں ۔

گذشتہ گفتگو میں میں نے بلال کی مثال پیش کی تھی جو حبش کے رھنے والے ایک سیاہ فام غلام تھے اور ” شین “ کے بجائے ”سین “ تلفظ کرتے تھے۔یہ عرب کے نزدیک ایک بڑا عیب تھا لیکن رسول  اللہ نے انھیں اپنا موذن قرار دیا اور وہ اذان میں کھتے تھے: ” اسھد ان لا الٰہ الّا اللہ “۔ عرب جو اپنی عربیت پر آج تک نازاں ھیں اور یہ وھی عربیت ھے جو انھیں تباہ کر رھی ھے اور انھیں کسی مقام تک نھیں پھونچا پا رھی ھے ، وہ بلال کی آواز اذان سن کر رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ !ھم ” سین “ کو ”سین“ ،”شین “ کو ”شین “ اور ضاد ”کو ”ضاد “ کھتے ھیں ، یعنی ھم عرب ھیں پس اذان کھنے کا حق ھم کو ھے ۔ آنحضرت  نے فرمایا :” سین بلال عند اللہ شین“ خدا کے نزدیک بلال کی ”سین “ شین ھے ۔ جب بلال ” اسھد ان لا الٰہ الا اللہ “ کھتا ھے تو خدا اسے ” اشھد ان لا الٰہ الا اللہ “ سنتا ھے ۔ اس لئے کہ دل کی گھرائی سے نکلنے والا جملہ مادی و ظاھری قیود سے نکل کر معنوی اور باطنی دنیا میں پھونچ جاتا ھے۔ بلال نے خود کو عالم شھود تک پھونچادیا تھا ۔ عظمت پروردگارکو دیکھا تھالھذا جب اھل مکہ ان کے سینے پر پتھر رکھتے تھے یا ضرب لگاتے تھے تو ان کی زبان سے نکلتا تھا: ”احد “ ”احد“ کیونکہ جو دیکہ چکاھے اور توحید کی عظمت کو لمس کر چکا ھے وہ کیسے خدا کا انکار کر سکتا ھے ۔ ان کو منع کرتے رھے لیکن وہ کھتے رھے۔

رسول اللہ  نے بلال کو پیش کر کے بتایا کہ اسلام میں رنگ و نسل کی تمیز نھیں ھے ۔ اسی طرح دوسری مثال سلمان فارسی یا سلمان محمدی کی پیش کی جن کے لئے آپ نے فرمایاتھا :” سلمان منّا اھل البیت “ ۔

دین واحد کے ماننے والوں میں اختلاف کیوں ؟

دین ،دین خدا ھے ، نہ کسی خطّے سے مخصوص ھے نہ کسی فرد سے ۔ کراچی میں جھاں میں عشرہ پڑھتا ھوں وھاں کثرت سے اھلنست برادران بھی آتے ھیں ۔ وھاں کی انتظامیہ کمیٹی نے آخر میں شکریہ ادا کرنے کے لئے مجھ سے دو تین منٹ کی تقریر کرنے کے لئے کھا ۔ میں نے وھاں دو منٹ میں مجمع کے سامنے صرف ایک سوال رکھا کہ دین اسلام آیا تاکہ مومنین کے آپسی اختلافات اور کدورتوں کو دور کر کے انھیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دے :” و اذکر نعمة اللہ علیکم اذ کنتم اعداءً فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا “ ( آل عمران /۱۰۳)

پھر ان میں اختلاف کیوں ھے؟ جو دین دو متغایر کو ایک بنانے کے لئے آیا تھا اور جس کا پیغام ھی یھی تھا کہ اسلام میں رنگ و نسل کی تمیز نھیں ھے کیونکہ مومنین ایک دوسرے کے بھائی ھیں ” انما المومنون اخوة“ پھر یہ ایک دوسرے کے دشمن کیوں ھو گئے ؟ میں آج تک یہ نھیں سمجھ سکا جو دین انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے آیا تھا اسی کے نام پر آج مسلمان کیوں اختلاف کر رھے ھیں ؟ یہ میرے لئے ایک سوالیہ نشان ھے ۔ اسی موضوع پر آپ بھی ریسرچ کرتے رھئے اور میں بھی کرتا رھوں گا ۔ اس میں جتنا وقت صرف کریں اور کام کریں کم ھے ۔

Add comment


Security code
Refresh