www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

"ان کنتم تحبون اللّٰہ فا تبعونی"
"اگر خدا سے محبت کر تے ھو تو میری پیر وی کرو"

علی(ع) کا تعلیم کرد ہ عر فان حقیقی:
پر ور دگا ر ا! اے ھر محبوب سے زیادہ محبوب تر !اے ھر نز دیک سے زیادہ نزدیک تر!

اے بھر وسہ کر نے وا لو ں کی ڈھا رس ! تو ان کو اندھیر وں میں بھی دیکہ لیتا ھے ، تو ان کے دلو ں کے حا لات سے وا قف ھے، تو انکی وسعت بینا ئی کو جا نتا ھے ، انکاھر راز تیر ے سامنے بے پردہ ھے اور انکا دل تیر ے دیدارکا مشتاق ھے۔اگر تنھا ئیوں کا اندھیرا انھیں و حشت زدہ کرتا ھے تو وہ تیری یاد کی شمعیں روشن کرکے اپنے دل کو سکو ن پھونچا لیتے ھیں ۔ اگر تکلیف وپریشا نیاںان پر حملہ کرتی ھیں تو وہ تیری پناہ لے لیتے ھیں چو نکہ جا نتے ھیں کہ ھر کام تیری قدرت سے ھو تا ھے اور ھر کام تیرے ازلی قوا نین سے وا بستہ ھے ۔
علی بن ابی طالب(ع) ھر وہ شخص جس نے قر آن کے نقطئہ نظر یا احادیث کی رو سے اصو ل وفر وع اسلام کا غیر جا نبدار ی کیسا تہ مطا لعہ کیا ھے ، بلا تامل تصدیق کر سکتا ھے کہ اسلام نے انسان کیلئے نہ فقط معر فت وشنا خت کے تمام راستے بیان کر دئے ھیں بلکہ اسلامی نقطئہ نظر سے تخلیق ھستی وکا ئنا ت کی اصل علت و غرض ھی معر فت وکمال ھے ۔ اگر کو ئی شخص دعوی کر ے کہ راہ تکا مل ومعر فت کے حوا لے سے اسلام میںنقص پا یاجاتاھے تو یقینا ایسا شخص یاتو اسلامی تعلیمات سے بے خبر ھے یا کسی ذاتی خود غرضی کی بنا پر ایسا کھہ رھا ھے ۔ اسلام ایک ایسی حقیقت ھے جسمیں ذرہ برابر بھی نقص کا شا ئبہ نھیںپا یاجا تاھے اور یہ دعویٰ بھی ایک ایسا دعویٰ ھے کہ اسلام کے رھنما ؤ ں نے نہ فقط اس صدی یا کسی مخصوص زمانے میں بلکہ صدرا سلام سے لیکر اب تک ھمیشہ دنیا والوں کے گو ش گز ار کیا ھے ۔ ایسی کو نسی جا ودانی وآفا قی حقیقت ھے کہ بشر نے اپنے ضعیف یا قو ی افکا ر میں اسکی پر ور ش کی ھواور اسلام نے اسکی طرف اشا رہ نہ کیاھو ؟
فلسفہ، سائنس، اخلاق،سماجیات،معاشیات،قیامت وغیرہ کے بارے میں جسقدر ممکن تھا اور واقعیت سے مطابقت رکھتا تھا ،اسلام نے بیان کر دیا ھے خواہ بطور کلی۔اگر خدا شناسی کی گفتگو کی ھے تو عقل وقلب کی بلند ترین راھوں کے ذریعے شناخت کرائی ھے ،فلسفہ کے متعلق انسانی عقل کو پیش نظر رکھتے ھو ئے جا مع تر ین نکات بیان کئے ھیں ، اخلا قیات کے مو ضوع پر بحث کی ھے تو مختصر اور جاذب کلمات قصا ر کی صورت میں اخلاقی نکا ت بشر کے حوا لے کئے ھیں ، علم کے درواز ے نہ فقط ھر شخص کے لئے کھلے چھو ڑ دئے ھیں بلکہ کا ئنا ت کے ظو اھر و حقائق کے بارے میں جستجو کو جز ء ایمان قرار دیا ھے ، معا شرے کے ھمیشہ زندہ رھنے والے اصول کو اس طر ح بیان کیا ھے کہ کسی مکتب فکر یا گروہ نے اس طرح بیان نھیں کیا تھا ،نہ ما قبل اسلام اور نہ ما بعد اسلام ۔ ساتھ ھی رھتی دنیا تک اس سلسلے میں اس سے با لا تر اور بھتر طور پر ایک حرف کا اضافہ تک نھیں کیا جا سکے گا ۔
اقتصا دیا تی اصولو ں کی اس حد تک تشریح وو ضا حت کی ھے کہ کوئی اقتصا دی مکتب اسکی دقت سنجیو ں کا مقا بلہ نھیں کر سکتا در حا لیکہ اگر کوئی مکتب فکر معا شرے کے کسی ایک پھلو کو رفوکر تا ھے تو دوسرا پھلو ھزا ر جگہ سے پارہ پارہ ھو جاتاھے ۔
اسلام نے قیامت کا منظر اس طرح سے کھینچا ھے کہ انسا ن ، دنیوی زندگی میں مشغو ل و متوجہ ھو نے کے با وجو د قیامت کا مجسم تصور کر لیتا ھے ۔
اس بات کی ضروت بھی نھیں ھے کہ مشرق ومغرب سے استشھا دلا ئے جا ئیں اور ثا بت کیا جائے کہ بلند وبالا افکار کے ذریعہ حا صل شدہ انسا ن وکا ئنا ت کی حقیقی معر فت کا منبع اسلام ھے کیو نکہ یہ بات خود ھی اظھر من ا لشمس ھے ۔ اسلام نے ماقبل اسلام ، کتب آسمانی اور بشر ی عقل سالم کے ذریعے حا صل ھو نے والے آفاقی حقائق کی تصدیق کی ھے لیکن اسلام کے ظھور کے بعد خدا شناسی ، طبیعت شنا سی اور انسا ن شنا سی کے متعلق بیان کی جانے والی ھر قسم کی حقیقت ، خوا ہ منظوم یا منثو ر ، کا سر چشمہ فقط و فقط اسلام ھی کو سمجھا جا سکتا ھے ۔
مثلا سعد ی شیراز ی کے عا لی مضا مین کو سنکر ھر شخص اپنا سر دھنتا ھے جبکہ سعدی کی عام غز لیا ت اور دا ستانو ں کو اگر مستثنی کر دیا جا ئے تو خو د بخود واضح ھو جا تا ھے کہ سعد ی نے اپنے مضا مین عا لیہ کی تر تیب وتنظیم میں یا تو براہ را ست قرآن یا روایات سے استفادہ کیا ھے یا ان شعراء و حکماء سے استفادہ کیا ھے جنھو ں نے اپنے مضامین ومطا لب اسلام سے اخذکئے ھیں مثلا متنبی ، سید رضی ، مھیا دیلمی وغیرہ ۔ علاوہ از ایں ، مثلاً انسان کی معنو ی اور وحی آزا دی وثبات کے سلسلے میں کھے جا نے والے اشعا ر میں بھتر ین شعر طغر ائی کا مندر جہ ذیل شعر ھے:
انما رجل الدنیا وواحدھا من لا یقول فی الدنیا علی رجل
( جو کسی کی پنا ہ نہ لے ، تنھا مر د میدان ھے)
غلام ھمت آنم کہ زیر چرخ کبود زھر چہ رنگ تعلق پذیرد آزاد ست
ان دونوں اشعار کا مضمون سینکڑ وں مر تبہ قر آن اور روا یات میں ان مقا مات پر بیان ھو اھے جھاں یہ فر مایا گیا ھے کہ انسان کا ملجا وما ویٰ فقط خدا وند عالم ھے البتہ ھمارے بزر گوںاور رھبروں کا ھمیشہ یہ نقص رھا ھے کہ جب وہ ان مضامین ومطا لب کو بیان کیا کرتے تھے ، خواہ نثر میں خواہ نظم میں ، تو کبھی یہ نھیں کھتے تھے کہ یہ مضمون فلاں آیت یا روایت سے ما خوذ ھے ۔ ظاھر ھے کہ ھمارا معا شرہ بھی عام طور پر عربی زبان سے آشنا نھیں تھا اور فقط کسی حد تک قرآن و روایات سے آشنائی رکھتا تھا، وہ بھی اس وجہ سے کہ مجا لس وغیرہ میں خال خال ان کا تذکرہ ھو تارھتا تھا ۔اس کے علا وہ معا شرے کو اسلام میں پا ئے جانے والے عالی مضامین و مطالب کی نہ شنا خت تھی اور نہ پھچا ن ۔ اسی وجہ سے ھمارے شعر اوادبا کی زبان سے جاری ھو نے وا لے ھر کلا م ومضمون کے بارے میں یھی نظر یہ قا ئم کیا جاتاتھا کہ یہ ان کی اپنی ذھنی جدت و تخلیق ھے، لھذا ھمارا معاشرہ قرآن وروا یات کے مقا بلے میں ان اشعار سے زیادہ مانوس ھو گیا جبکہ اگر گز شتہ حضرات ان مضامین عا لیہ کے منا بع وما خذ کا تذکرہ بھی کر دیا کرتے تو نہ فقط ان کی شان میں کو ئی کمی نہ آتی بلکہ ان کے کلا م کو الھی تا ئید بھی حاصل ھو جا تی ۔ اسی سھو یا غلطی کی بناپر اسلام کو دوطرح کا ضررو نقصان بردا شت کر نا پڑا ھے ؛ ایک تو یہ کہ معاشرہ قر آن وروایات سے دور ھو گیا اور یہ گمان کر لیا گیا کہ شعر ا وحکما کا سارا کلام الھا می ھو تا ھے ۔
دوسرے یہ کہ ان مضا مین کے جاذب ھو نے کی وجہ سے بے سر و پا مضا مین بھی ان کے ساتھ ھی ساتھ معا شرے میں را سخ ھو گئے ھیں ۔ انسا ن اگر ایک مضمون کو بیان کر تے وقت اسکا ما خذ ، قرآن وروایات کو قرار دے ، در حالیکہ وہ مضمون ازاول ، قرآن وروایات میں مو جود تھاتو یہ بذات خود بزرگی روح اور عرفان سے ار تبا ط کی ایک علامت ھے ۔

مختصر یہ کہ اسلام نے ھر اس حقیقت کو بیان کردیا ھے جو کسی نہ کسی صورت میں کمال و تکامل انسانی میں معا ون ثابت ھوسکتی ھے ۔ اس مقا م پر کھا جا سکتاھے کہ ھمارے شعر ا وحکما نے ایک یہ بھی اچھا کام کیا ھے کہ ان عر فانی حقا ئق کو مختلف جاذب،پر کشش اور فنی اصطلا حات کا لباس پھنا دیا ھے یا اس طرح منظوم کر دیا ھے کہ ایک عام انسان کے احساسا ت تیزی کے ساتھ حرکت میں آجاتے ھیں ۔
عرفان حقیقی ایک ایسا مکتب ھے کہ رسول گرا می اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علی(ع( اور آپ کی اولاد نے اس پر بطور مطلق حکو مت کی ھے۔
اس بحث کا عنو ان عرفان حقیقی اس لئے رکھا گیا ھے کیو نکہ نفس انسانی ، معر فت خدا وند ی کے تمام مبا دیات وعلل اور روح کے بلند او صاف کی شنا خت اور اس کے مطابق روش ، اسی طرح تمام دوسرے حقا ئق اور حوا دث ھستی و کائنات کی شناخت کو نہ فقط تجویز کر تا ھے بلکہ ضروری ولا زم بھی سمجھتاھے ۔
اس عر فان حقیقی سے روح کا مثبت پھلو مراد ھے یعنی عقل وا شراقات قلبی کی بنا پر جو حقا ئق روح پر نازل ھو تے ھیں ، کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز بھی ھوتے ھیں اور اس طرح ھر وہ حقیقت یا واقعہ جو روح کے اس مثبت دائر ے سے باھر ھے اسکو عرفان حقیقی میںخیال ، تو ھم اور تجسیم سے تعبیر کیا جاتا ھے ۔عرفان حقیقی کے اعتبار سے عظمت خدا ئی اور طبیعت(nature( قطعاًً ھم سنخ نھیں ھیں ،عرفان حقیقی ان تمام او صاف عا لیہ وکمالات کو انسان کے لئے ضروری سمجھتا ھے کہ جنکو منا دیا ن تو حید نے ھم تک پھو نچا یا ھے ، مثبت عر فان قر ب خدا کیلئے انبیا ء کرا م کے ذریعے بیان کردہ دستو ر ات کو ضرو ری گر دا نتا ھے ،عرفان حقیقی تمام انسانو ں کو تمام کمالات روحی ومقا مات معنو ی حاصل کر نے کے قابل سمجھتا ھے ،عرفان حقیقی میں مبداء اعلی کی طرف تو جہ کے وقت ھر قسم کا وا سطہ جو تجسیم قلبی کی صورت میںھو ، شرک ھے خواہ یہ مجسم شدہ واسطہ پیامبر اکرم(ص( کی صورت میں ھی کیو ں نہ ھو ۔
عرفان حقیقی کا او لین وآخرین کا مل نمونہ ، اپنے دست مبارک سے زرا عت کر نے وا لے ، شب کی تا ریکی وتنھا ئی میں اپنے محا سبہ نفس کے بعد بار گا ہ خدا وند عالم میں حا ضر ھو نے والے ، اشتیا ق دیدار وخوف وپر یشا نی فرا ق معشو ق میں بے خود ھو نیو الے علی بن ابی طالب(ع( ھیں۔ عرفان حقیقی اس کے علاوہ اور کچہ نھیں ھے جس کو ر ھبر ان ما وراء الطبیعت نے بیان کیا ھے۔اسکے علاوہ جو کچہ بھی ھے وہ فقط و فقط خیا لات و تخیلا ت کے ذر یعے تسکین رو ح کا با عث اور عمر گز ار نے کیلئے ھی قا بل قبو ل ھوسکتا ھے اور بس ۔
علی(ع( کی زند گی ھمارے لئے عر فان کی حقیقت کو وا ضح طور پر بیان کر تی ھے ۔ علی(ع( کے عر فان میں خدا ستا ئی کے عنوا ن سے خودستا ئی عین شر ک ھے ۔
ایک مشھور دا ستان ھے کہ امیر المو منین(ع( نے با غ بفیغہ کے پا نچ وسق( تقر یباً 847/ کلو گرام ( خر مے ایک شخص کے پا س ارسال کئے ۔ اس وقت ایک دوسر ا شخص بھی امام(ع( کے نزدیک مو جود تھا ۔اس نے امام سے کھا کہ کہ اے علی(ع( !اس شخص نے آپ سے سوال نھیں کیا تھا پھر بھی آپ یہ خرما کیوں ارسال کر رھے ھیں۔ امیر المو منین(ع( نے فر مایا:” خدا تجھ جیسے افراد کو مو منین کے در میان زیا دہ نہ کر ے ۔ میں دے رھا ھو ں اور تو کنجو سی اور بخل کر رھا ھے ۔ اگر ان خر موں کو اسکے دست سوال دراز کر نے کے بعددیتا تو اس وقت اپنی اس عطا کی قیمت(اس کے سوال کی صورت میں(مجھے مل چکی ھو تی کیونکہ دست سوال دراز کرنے کے بعد وہ شخص مجبوراًاپنی آبرو وعزت دیکر خر مے حا صل کر تا ۔
یہ وھی عر فا ن حقیقی ھے کہ جو اولاد آدم کو فر د ومعاشر ے سے متعلق ذمہ دا ریو ں اور وظا ئف کا احسا س دلا تا ھے ۔ یہ وھی عر فان حقیقی ھے کہ اگر بشر یت ؛ فر د ، معا شرے اور حکو مت کے در میان ھر انسا نی جھت سے ممکنہ روا بط کی اصلا ح کیلئے غور و فکر کر ے تو خود بخود مجبور ھو جا ئیگی کہ اس عر فان کو اپنا سر نامہ عمل قرار دے ۔
یہ و ھی عر فان حقیقی ھے کہ ھمارے الھی رھنما ؤ ں نے جسکی طرف ساری دنیا کو دعوت دی ھے ۔ یہ عر فا ن ، اسلامی شر یعت کے وہ دروس ھیں جنھیں قرآن مجید ھر صبح و شام دنیا وا لو ں کیلئے بیان کر تا رھتا ھے : ” قل ان کنتم تحبو ن اللّہ فا تبعو نی “( اے رسول کھہ دو !1گرخدا کو دوست رکھتے ھو تو میری پیروی کرو )۔
اس عر فان میں معا شرے کے افرادایک دوسرے کے عضو کی ما نند ھیں یعنی ان اعضا میں سے ھر عضو کو دوسرے عضوکے آرام وسکون کی خا طر حتی الا مکان سعی و کو شش کر نا چا ھیے ۔ اگر کسی عضوکی تکلیف ودرد کا علا ج رات میں کیا جا سکتا ھو لیکن اسکو اگلی صبح پر مو قو ف کر دیا جا ئے تو ایسی صورت میں عر فان ، عر فان حقیقی نھیں ھے اور ایسا عمل انجام دینے والا شخص بھی عارف نھیں ۔
عر فان حقیقی روز مرہ زندگی کے امور کی تنظیم وتر تیب کو نھا یت اھمیت دیتا ھے:” من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الا ٓخرة اعمی “ یعنی جو شخص اس دنیا میں نا بینا ھے وہ آخرت میں بھی نا بینا رھے گا ۔ اس کے علا وہ ” من لا معا ش لہ لا معا دلہ “ یعنی جس شخص کی زندگی مر تب نہ ھو ، اس کیلئے قیا مت بھی نھیں ھے ۔
اسی حوالے سے امام(ع( فر ماتے ھیں:” اللّٰہ اللّٰہ فی اصلا ح ذات البین ونظم امر کم “ یعنی اے میرے بیٹو ! خدا سے ڈرو اور اپنے امو ر کو مرتب ومنظم رکھو۔عرفان حقیقی میں کائنا ت سے متعلق غور وفکر ا شد ضروری ھے :” ان فی اختلاف اللیل والنھار لآ یات لا ولی الا لباب الذین یذکرون اللّٰہ قیاماً و قعو داً وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت ھذ ابا طلاً سبحا نک فقنا عذاب النار “( بیشک لیل ونھار کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کیلئے قدرت خدا کی نشا نیا ں ھیں ۔ جو لو گ اٹھتے ، بیٹھتے ، لیٹتے خدا کو یاد کر تے ھیں اور آسمان وزمین کی خلقت میں غور وفکر کر تے ھیںکہ خدا یا تو نے یہ سب بیکا رنھیں پیدا کیا ھے۔ تو پاک و بے نیاز ھے ھمیں جھنم سے محفوظ فر ما !)
لھذا عرفان حقیقی ایک ایسی حالت نھیں ھے کہ بعض موا قع پر کچہ لمحو ں کیلئے حاصل ھو جا ئے اور بقیہ عمر ھو یٰ وھو س کی پیر وی کر تے ھو ئے گز اردی جا ئے کہ جسمیں نہ ایسی زندگی کی خبر ھے جو قر ب الھی کا وسیلہ ھو ا ور نہ ذمہ داریو ں اور وظا ئف کا احساس بلکہ عرفان حقیقی قطعاً اس کے بر عکس ھے ۔ عرفان حقیقی میں انسان کا مرتبہ ، اشرف المخلو قات تک پھونچ جا تا ھے یعنی انسا ن ایک ایسا مو جود ھے جس کے مد نظر ھمیشہ اور ھر مقا م پر زندگی کا عالی تر ین ھدف رھتا ھے ۔ اس کیلئے مادی اور ظاھری دنیا قرب الھی کی راھو ں کو مسدو د نھیں کرتی ھے ،رو ح کی عظمت وبرتری کے مقا بل موجو د ات کے ظاھری اجسام کی کوئی حیثیت نھیں ھے البتہ اتنا ضرو رھے کہ یھی اجسام ، باطن کے تصفیے ، خود سازی اور روح کی عظمت کو فعلیت کی حد تک پھو نچا نے کا بھتر ین وسیلہ ھیں، لھذا عرفان حقیقی میں کا ئنا ت کے متعلق غور وفکر اور اسکے حقا ئق وموجود ات سے حتی الامکان استفادے کو تکامل انسانی کے لئے اصل وا ساس قرار دیا گیا ھے ۔
عرفان حقیقی میں محبت سے مرا دوہ عبادت ھے کہ جس کیلئے خود خدا( معشو ق ( کی طرف سے حکم جاری ھو اھے تاکہ روح ، علا ئق دنیو ی سے خود کو آزاد کر سکے کیونکہ اس عر فان میں محبت وعشق برا ہ راست فقط خدا ھی سے کیا جا سکتا ھے ۔ ھا ں ،دوسرے تما یلا ت وعلا ئق بھی اگر فر مان خدا وندی کی پیروی کے عنوان سے انجام دئے جائیں تو انکا شما ر بھی درحقیقت عشق خدا میں ھی کیا جا ئیگا ۔ اگر کو ئی شخص کسی دوسرے شخص سے محبت یا دوستی کر تا ھے تو جب بھی اسے کو ئی نا گوا ر حا دثہ پیش آتا ھے ، پھلا شخص دوسرے کو صبر کی تلقین کر تا ھے ، تعزیت پیش کرتا ھے تا کہ اسکو تسکین قلب حا صل ھو سکے، اگر وہ مر یض ھو جا تا ھے تو اسکی عیادت کرتاھے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام موا رد حقیقتا ًمحبت خدا ھی سے سر چشمہ حاصل کر تے ھیں کیو نکہ روز قیامت خدا وند عالم سوال کر یگا کہ میں مر یض تھا تو نے میری عیادت کیو نھیں کی ؟ بند ہ سوال کر یگا کہ خدا وند ا آخر تو کیسے بیمار ھو تا ھے ؟ خدا فر مایئگا کہ میراایک بندہ مریض تھا تو اس کی عیادت کے لئے نھیں گیا ۔ اسی طرح کے وا قعات انبیا ئے کرا م اور خا ندان عصمت میں اس کثر ت سے پا ئے جاتے ھیں کہ شمار ھی نھیں کیا جاسکتا ۔روز روشن کی طرح وا ضح ھے کہ خدا وند عالم کو قر ض کی قطعاً کو ئی حاجت نھیں ھے لیکن قرآن کریم فر ماتا ھے :” من ذالذ ی یقرض اللّٰہ قرضاً حسناً “( کون ھے جو خدا کو قر ض حسنہ دے ؟)
لھذا معا شرے میں پا ئے جا نے والے اس طرح کے جا ئز ار تبا طات وتعلقا ت عین محبت خدا ھیں اور کیو ںکہ عین محبت خدا ھیں لھذا عرفان حقیقی کے اصول مسلمہ میں سے بھی ھیں۔
حقیقی عر فا ء اپنے خدا کے ساتھ جس محبت وعشق کا شکار ھو تے ھیں وہ قطعی طور پر عشق حقیقی ھے نہ کہ عشق مجازی ۔عشق حقیقی ومجازی کی مزید وضاحت کے لئے ضروری ھے کے ایک مختصر تمھید بیان کی جائے ۔

Add comment


Security code
Refresh