www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام حسین (ع) کی شخصیت کسی بھی فرداورقوم سے پوشیدہ نھیں ہے آپ کی تحریک عاشورا اورمقصد کسی ایک فرقہ اورگروہ کے لئے نہ تھا بلکہ جس طرح رسول خدا(ص) کی رحمت واسعہ اورآپ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ہیں 

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ(وماارسلناک الاّ رحمۃ للعالمین) ھم نے آپ کوعالمین کے لئے رحمت بنا کربھیجا ہے اسی طرح امام حسین (ع) کاھدف اورمقصد کسی ایک فرد کے لئے نھیں بلکہ تمام عالمین کے لئے تھاجیسا کہ آپ سے جب مدینہ سے کر بلا کی طرف جانے کا مقصد پوچھا گیا توآپ نے فرمایا:

’’انی لم اخرج اشراً ولابطھراً ولامفسداً ولاظالماوانماخرجتُ لطلب الاصلاح فی امۃٍ جدی رسول اللہ اریدان امربالمعروف نھیٰ عن المنکر واسیربسیرۃ جدی وابی علی ابن ابی طالب‘‘

’’میں کسی شر‘فساد‘خوش گذرانی اورظلم کے لئے مدینہ سے نھیں جارھاھوں بلکہ میں اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے جارھا ھوں میں چاھتا ھوں کہ امربالمعروف کروں اورنھی ازمنکر کروں اوراپنے جداوروالد علی ابن ابی طالب(ع) کی سیرت پرعمل کروں۔"(۱)

امام (ع)کایہ امربالمعروف اورنھی عن المنکر کرنا تمام عالم اسلام کے لئے تھا تاکہ ھرفرد اس سے فائدہ اٹھائے اوراپنے آپ کوذلت اوررسوائی کی لعنت سے نجات دے اوراسلام کے لئے ایسا وقت تھا کہ جس میں سنت الٰہی ختم ھورھا تھا اوربدعتوں کی ایجاد ھورھی تھی اس لئے اس وقت ایک الٰھی نمائندہ کی ذمہ داری یھی ھوتی ہے کہ اگر اس نمائندہ خدا کوجان کا نذرانہ ھی کیوں نہ پیش کرنا پڑے اس بڑی قربانی سے بھی وہ ھستی دریغ نہ کرے امام نے جوخط بصرہ کے بزرگوں کولکھا اس میں آپ نے فرمایا کہ’’میں تمھیں کتاب خدا اورسنت رسول(ص) خدا کی طرف دعوت دیتا ھوں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سنت مردہ ھوچکی ہے اوربدعتیں زندہ ھوچکی ہیں۔"(۲)

ایسے وقت میں کہ جب بدعتوں کوزندہ کیاجارھا ھو خداوندمتعال کاحقیقی نمائندہ ھی وہ عمل انجام دے سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے بدعتیں مردہ ھوجائیں اوراسلام اورسنت الٰھی زندہ وجاوید ھوسکے اورامام نے اس کام کوانجام دینے کے لئے مدینہ سے کربلا تک کاسفرکیا اوربالآخر خدا کے راستے میں قربانیاں پیش کیں اوراپنے مقصد اورھدف کوتمام عالم اسلام تک پھنچایا۔

یہ وہ مقاصد اوراھداف تھے جوامام نے اپنے فرامین میں بیان فرمائے ہیں اورایک اھم ترین نقطہ اورھدف جوامام نے اپنے فرامین میں بیان فرمایا ہے وہ ہے عزت حسینی جیساکہ امام فرماتے ہیں:’’ھیھات مناالذلۃ‘‘،’’ذلت مجھ حسین(ع) سے دورھوئی۔‘‘

ذلت سے دورھونا یعنی عزت کوچاھنا، ذلت انسان کے لئے نقص ہے اورعزت انسان کے لئے کمال امام حسین(ع) اپنے لئے بھی اس کمال کے خواھاں ہیں اورتمام عالم اسلام کے لئے بھی اس کمال کوچاھتے تھے اورچاھتے تھے کہ انسان عزت اورکمال کی طرف جائے اورہروہ عمل جوانسان کوذلت یانقص کی طرف لے جائے اس سے وہ دور ہے اوریھی ھادیان برحق کاھدف ھوا کرتا ہے کہ(ان ھدیناہ‘ السبیل اما شاکراً واما کفوراً) (۳)

’’ھم نے راستے کی ھدایت کردی چاہے تووہ شکرکرے اورچاھے تووہ انکار کرلے۔‘‘

عزت اورذلت دوایسے مفاھیم ہیں کہ دونوں ایک جگہ پرجمع نھیں ھوسکتے یعنی ایک انسان میں یاعزت آسکتی ہے یاذلت دونوں ایک جسم وبدن میں جمع نھیں ھوسکتے یعنی امام حسین(ع) کی ذات ھی عزت کامفھوم ایک ایسا مفھوم ہے کہ جس کے لئے امام نے اتنی قربانیاں دیں تاکہ امام باقی مقاصد کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کواوراپنی زندگی کو ذلت میں نھیں دیکھنا چاھتے تھے اوراسی وجہ سے آپ نے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حوالے سے بھی اھم ترین کردارادا کیا۔

Add comment


Security code
Refresh