www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عام طور سے معرکہ کربلا فقط ایک غم ناک اور اندوھگین واقعہ کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا تذکرہ بھی اکثررو نے رو لا نے کے لئے کیا جا تا ہے ۔

مگر ایسے عظیم الشان کا رنامے کا ہدف  جس کے سامنے عقل انسانی متحیر اور کا ئنات دم بخود ہے صرف اظہار مظلومیت قرار دینا حسینی بلند نصب العین کے قطعاً خلاف ہے ۔ریگزار کر بلا پر رو نما ہو نے والا محیر العقول واقعہ کوئی اتفاقی یا ہنگا می حادثہ نہیں ہے بلکہ اس کی خبر حضور مرسل اعظم (ص)اپنی زندگی میں متعدد مر تبہ دے چکے تھے۔

جس طرح آفتاب کی شعاعیں ہر گھر میں پھو نچتی ہیں ٹھیک اسی طرح واقعہ کر بلا دنیا کی ھر قوم اور ھر خطے پر اثر انداز ھوا اورھو رھا ہے اور ھر جگہ اس کی گو نج سنا ئی دیتی ہے ،ھر قوم ومذھب اور ھر طبقہ کے افراد نے اپنے اپنے اپنے نقطہ نگا ہ سے اس واقعہ کی تو ضیح و تفسیر کی ہے یوں تو اس واقعہ کے سلسلہ میں بے شمار افکار و نظریات پا ئے جا تے ہیں کسی نے اسے ایسی کھلی کتاب سے تعبیرکی ہے جس میں ھر مو ضوع پر بحث کی ھو اور کسی نے اسے ایک مستقل مکتب فکر کی حیثیت سے دیکھا ہے ۔

در حقیقت کر بلا ایسی ھمہ جھت درسگا ہ ہے جس میں ھر شعبہ حیات کے لئے اتنے نمو نہ عمل مو جو د ہیں جنھیں جمع کرنے کے لئے کتا بیں نا کا فی ہیں ۔ایک مختصر مقا لہ کے دامن میں اتنی گنجا ئش کھاں؟سردست میں صرف کر بلا کے ایک رخ یعنی درس اخلاق کو پیش کرنا چا ہتا ھوں:

اخلاق سے متعلق قرآن و احادیث میں بے شمار آیات و روایات پائی جا تی ہیں ۔ قرآن مجید کے پیشتر حصہ میں اخلاق پھلو نمایاں ہیں۔اس میں بیان کی گئی داستانوں کا بھی بنیادی مقصد اخلاقی سدھار ہے اس لحاظ سے اگرقرآن مجید کو ''کتاب اخلاق''کہا جا ئے تو بیجا نہ ھو گا ۔انبیائے کرام بھی جس مکتب کی تر ویج کے لئے بیھجے گئے ہیں در اصل وہ مکتب وہ'' مکتب انسان سازی ''ہے مرسلین کی بعثت کا اسا سی  ھدف تزکیہ نفس اور تکمیل مکارم اخلاق ھی ہے۔

''وَیُزَکِّیھِم''(جمعہ اور آل عمران )اور''اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظیم''(والقلم)کی جیسی آیات اور'' بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخْلاقِ'' جیسی روایات اسی نکتہ کی طرف لطیف اشارہ ہیں۔سورہ شمس میں ١١ قسموں کے بعد'' قَدْافْلَحَ مَنْ زَکَّھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّھَا'' کا قطعی فیصلہ اخلاق کی عظمت پر زندہ دلیل ہے ۔

جملہ احکامات اسلامیہ کی رعایت ، صبر و استقامت ، جذبۂ ایثار و فداکاری، حقوق کی ادائیگی ، شجاعت و امانتداری ،حسن سلوک و غیرہ وغیرہ یہ تمام چیزیں اخلاق اسلامی میں شامل ہیں ۔اخلاق کے تمام پھلوؤں کو مد نظر رکھتے ھو ئے آئیے کر بلا کے تا ریخ ساز واقعہ کا طا ئرا نہ مطا لعہ کریں اور تلاش کریں کہ کر بلا کس طرح درسگاہ اخلاق ہے؟

١۔ امام حسین نے محمد حنفیہ کو جو وصیت نامہ لکھ کر دیا تھا س میں اپنے مقصد خروج کی طرف رو شنی ڈالتے ھو ئے فرمایا :''وِاِنَّمَا خَرَجْتُ بِطَلَبِ الاِصْلَاحِ فِی اُمَّةِ جَدِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اٰمَرَ بِالمَعْروفِ وَانْھیٰ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاَسِیْر بِسِیْرَةِ جَدِّیْ وَابِی عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طالِبْ''۔(یعنی میرا یہ خروج اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے ہے میں چا ہتا ھوں لو گوں کو نیکی کی طرف دعوت دوں اور انھیں برائی سے بچاؤں اور اپنے نا نا و بابا علی بن ابیطالب علیھم السلام کی سیرت پر چلوں)

جس ھدف اور مقصد کے لئے امام حسین نے اپنے وطن کو خیر آباد کہا تھا آخر دم تک پا مردی اور کمال شجاعت کے ساتھ اس پر ثابت قدم رھے چنا نچہ روز عاشورہ اور اس کے قبل و بعد کے دلخراش اور جگر سوز حالات جھاں تمام اعزہ و اقارب ، اعوان و انصار سب کے سب آنکھوں کے سامنے جان بحق ھو گئے ھوں سب کو تڑبتے اور دم تو ڑتے دیکھا ھو ۔دو سری طرف بچوں اور بیبیوں کی تڑپا دینے والی صدا ئے العطش بھی دعوت انتقام دے رھی ھو ایسے جذبات آفریں اور نازک ترین حالات میں بھی خود کو قابو میں رکھنا ، دشمنوں کی بھی اصلاح کر تے رھنا اور آخری سانس تک ان کو دعوت غورو فکر دینا فو ق العادہ کردار و اخلاق اور بلندی نفس کا پتہ دیتا ہے  اور رھتی دنیا تک انسان کے لئے درس ہے کہ صرف دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا یا صفوف اعداء کو چیر دینے کا نام ھی شجاعت نھیں ہے نلکہ ھنگام خوف و خطر اور مقام آزمائش وامتحان میں اطمینان نفس اور سکون قلب کے ساتھ اپنے مقصد پر ثابت  قدم رھنا سب سے بڑی شجاعت ہے ۔

٢۔ یزیدی فو ج کا سردار (حُر)امام حسین  علیہ السلام کو اپنی حراست میں لینے کے ارادہ سے لجام فرس پر ھاتھ ڈالتا ہے۔اس کی اس جسارت پر جذباتی تقاضوں کی پرواہ کئے بغیر حسین علیہ السلام وانصار حسینی  نے ایثار و فداکاری کا وہ عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کی مثال سے تاریخ کا دامن خالی ہے ۔کثیر تعداد میں مگر تھکے ہارے لشکر کو بغیر کسی معاوضہ کے سیراب کر دینا ا ور انسانوں کی ھی نھیں بلکہ جانوروں تک کی جان بچا لینا انفاق کا اعلیٰ ترین نمونہ اور (وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُقونَ)کی زندہ تفسیر ہے۔

٣۔ یہ بھی عظمت اخلاق کا بھترین شھکار ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے ھمراھیوں اور ساتھیوں کی تعداد کم ھو نے کا خوف یا بڑھا نے کی فکر میں کبھی بھی آیندہ کے خطرات و مشکلات کو پس پردہ نھیں رکھا اس کے بر خلاف ھر ھر مو قع پر صورت حال سے با خبر کر تے رھے حتی کہ شب عاشور واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ اگر کو ئی اپنے فیصلہ پر شرمندہ ہے تو میری طرف سے اس پر کو ئی دباؤ نھیں ۔

٤۔حلم و بر دباری کا یہ عالم کہ کسی حساس مو قع پر بھی آتش غضب اپنی لپیٹ میں نہ لے سکی اور کبھی بھی جو ش و جذبات،نظم و نسق اور سکون کے خلاف نہ ابھار سکے چنا نچہ لب فرات نصب شدہ خیام حسینی کا حُر کی مزاحمت کے بعد بے آب و گیاہ میدان میں نصب کیا جا نا  صبرو تحمل کی عظیم الشان مثال ہے ۔

٥۔حکم امام  کی اطاعت اور مر ضی معصوم  پر صدق دل کے ساتھ راضی رھنے کا جس انداز سے کر بلا کے سپاھیوں نے سبق دیا ہے دنیا اس کی مثال لا نے سے قاصر ہے ،وہ خیام جو عباس علمدا ر نے ا پنے ھاتھوں  سے نصب کئے تھے اور زمین پر نشان کھینچ کر دشمنوں کو چیلنج کر تےھو ئے فر ما یا تھا کہ کس کی ھمت ہے کہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ سکے ۔وہ ھی مطیع امر مو لا عباس امام کے حکم کے بعد خود اپنے ھی ھا تھوں سے خیام کو ھٹا کراطاعت امام کے دعویداروں کو عملی خطاب کر تے ہیں کہ اپنی خواھشات اور جذبات کے طوفان میں بھی حکم اور خواھش امام  کو مقدم رکھنا ھی اصل اطاعت ہے ۔

٦۔خون کے پیاسے دشمنوں کے نرغہ میں گھرنے کے باوجود بھی امن پسندی کا وہ مظاھرہ کیا کہ آخروقت تک جنگ وجدال سے بچنے کے لئے اپنی طرف سے ھر ممکن کو شش جاری رکھی چنا نچہ تیسری محرم کو جب پسر سعد وارد کر بلا ھوا تو آپ نے اس سے فر ما یا کہ اگر اب کو فہ واے مجھے نھیں چا ھتے تو میں وطن واپس جا نے کو تیار ھوں۔

٧۔حق و صداقت کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگادی مگر جو طریقہ کار پھلے دن صحیح سمجھ کر اپنایا تھا اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ھٹے اور آخر دم تک اس پر ڈٹے رھے۔اگر اس ثبات و استقلال کا مظاھرہ صرف امام حسین علیہ السلام کی جانب سے ھوتا تو شاید اتنی اھم بات نہ ھو تی لیکن مصائب و آلام کی شدت اور پیاس کے غلبہ کے باوجود کسی ساتھی یا صحابی اور کم سن بچوں کی طرف سے بھی ایک حرف شکایت تک نہ سنائی دینااخلاق کی ھماھنگی اور عزائم کی پختگی کا عظیم شاھکار ہے ۔اس لئے کہ عیش و عشرت میں سرشار کم ظرفوں کے نزدیک اپنے مخالف کو دھمکانے اور اس سے اپنی مو ت منوانے کا سب سے بڑا ذریعہ ''تصور موت'' کا پیدا کر نا ہے ۔مگر وہ افراد جو راہ حق میں موت آنے کو مال زندگی سمجھتے ہیں اس دھمک سے کب متأثر ھو سکتے ہیں ۔

٨۔جب جناب حر یزیدی لشکر سے ٹوٹ کر حسین  سے ملحق ھو نا چاہتے تھے تو حسین وحسینی سپاھیوں کا بغیر کسی شکوہ و شکایت مھمان کا استقبال ، عفو وگذر کا انسانیت کو واضح درس دے رھا ہے کہ اگر دشمن بھی قابل اصلاح ھو تو اس کی اصلاح کی راھیں نکالنی چا ھئے اور اس کے ساتھ خشونت  وسخت گیری سے پیش آنے کے بجائے اسلامی اخلاق کا مظاھرہ کر نا چا ہئے ۔

٩۔اخلاق  وارکان میں عبد و معبود کے درمیان ارتباط اور دعا و مناجات سب سے اھم ترین رکن ہے ، حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں نے اس سلسلہ میں بھی تاریخ ساز کردار پیش کیا ہے ۔ چنا نچہ شب عاشور اموی لشکر سے رات بھر کی مھلت طلب کرنے کی وجہ بیان کر تے ھو ئے آپ نے فر مایا :ھم اس را ت اپنے پروردگار کی عبادت کر نا چا ھتے ہیں ۔ چاھتے ہیں کہ نماز پڑھیں اور استغفار کریں'' فَھُوَ یَعْلَمُ اِنِّی اُحِبُّ الصَّلوة لَہ وَتِلَاوَةَکِتابہ وکَثرَةالدُّعَآوَالاِسْتِغْفار''(میرا خدا جا نتا ہے کہ میں نماز ، تلاقت قرآن اور کثرت دعا و استغفار کو کتنا دوست رکھتا ہوں) آپ کے ان فقرات سے آپ کے قلبی آرزو اوردلی مراد کا پتہ چلتا ہے ۔غرض کے تمام اخلاقی فضیلتوں کا مصداق کر بلا والے بن گئے۔

حسین و انصار حسینی کا یہ مثالی کردار اور وادی کر بلا پر ان کے بلند اخلاق کے اعلیٰ ترین نمونے آواز دیتے رھے ہیں کہ حسینی وھی ہے جو عزم محکم اور عظیم کر دار و اخلاق کا مالک ھو ۔ جو اپنی خواھشات کا تا بع نہ ھو ، جس کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب چیز اطاعت پروردگار اور خدمت خلائق ھو۔دنیا کی فریب کاریاں اور حیات کی رعنائیاں اسے صراط حق و یقین سے نہ ھٹا سکیں ...خوش نصیب ہیں وہ افراد جو اس درسگاہ سے سبق حاصل کر تے ہیں اور دنیا کے سامنے ایسا مرقع اخلاق بن کر پیش ھو تے ہیں جیسا حسین چا ھتے ہیں ۔

خدایا ؛ ھمیں بھی اس مقدس درسگاہ اخلاق سے سبق حاصل کر نے کی تو فیق عنایت فر ما!ذکر حسین علیہ السلام کو اپنے تذکرہ کا سبب قرار دے ؟ایام عزا کو اطاعت و عبادت کا ذریعہ بنادے!ھمیں کج فکری اور بے اطاعت اظھار محبت سے بچا ئے رکھنا !حسین علیہ السلام کے سچے دوستوں ، چاھنے والوں اور عزاداروں کی فھرست میں ھمارا نام بھی شامل فرما۔آمین یا رب العالمین

(مولانا جمال عباس سرسوی،مقیم قم)

Add comment


Security code
Refresh