www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عالمی پیمانے پر اسلامی تبلیغ

 امام جعفر صادق (ع) کی درسگاہ میں چار ھزار شاگرد ھوتے تھے جن میں ھر مکتب فکر کے لوگ ھوتے تھے اوراب یہ ھماری مجلسیں ھیں جو محدود سے محدود تر ھو تی جارھی ھیں ۔ مکتب اھلبیت (ع) میں ھر فکر کے شاگرد موجود ھیں ۔ آج آپ افریقہ کے کسی جنگل میں بھی امام خمینی کی تصویر دکھا یئے تو دیکھنے والا پھچان جائے گا کیونکہ آپ نے عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ کی ھے ۔ یہ اور بات ھے کہ ابھی ھم نے امام خمینیۺ کو نھیں پھچانا لیکن دشمن نے اچھی طرح پھنچان لیا ھے اور جو حکومت قائم کی اس سے باطل خوف زدہ ھے ۔ آپ کی آواز پوری دنیا میں پھیل گئی اس لئے کہ آپ نے پوری دنیا کے مستضعفین کے لئے آواز بلند کی تھی ۔ آپ نے عدالت کے لئے آواز اٹھائی تھی ۔ پورا عالم اسلام آپ کی طرف متوجہ ھو گیا اس لئے کہ آپ نے اسلام کے نام پر آواز بلند کی تھی ۔ ھماری مجالس ایسی ھونی چاھئیں کہ ایک غیر آئے تو وھاں سے اسلام سمجھ کر واپس جائے ۔

تبلیغ میں یہ پھلا مرحلہ ھے کہ اسلام کو پوری بشریت کی ھدایت کے لئے پیش کیا جائے ۔ قرآن کھتا ھے :” شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدیً للناس “ قرآن نازل ھوا ھے پوری بشریت کی ھدایت کے لئے نہ کہ فقط شیعوں کے لئے ، یعنی اگر میں مبلغ ھوں تو میری نظر میں انسان ھونا چاھئے نہ کہ کوئی شیعہ۔

ایک زمانہ تھا جب ھماری مجلسوں میں ھر مذھب کے لوگ شرکت کرتے تھے لیکن اب نھیں آتے اس کی کیا وجہ ھے ؟ اس کے اسباب و علل پر غور کرنا چاھئے ۔ ھم نے اپنا دائرہ اتنا تنگ کیوں کر رکھا ھے جبکہ اسلام اس طرح کے حدود کو توڑنا چاھتا ھے ۔ میں دو تین آیتوں کے ذریعہ اس مطلب کو واضح کرنا چاھتا ھوں ۔ قرآن تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کھتا ھے :” و اعتصموا بحبل اللہ جمعیا و لا تفرقوا “  ( آل عمران /۱۰۳) یعنی تم سب لوگ خدا کی رسی کو جو دین الٰھی ھے ، مضبوطی سے پکڑ لو اور متفرق نہ ھو ۔ قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ھے کہ یہ بات ممکن ھے کہ تمام مسلمان ایک جگہ جمع ھو جائیں ۔

پھر قرآن نے اور آگے بڑہ کر تمام اھل کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا :” یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ان لا نعبدالّا اللّہ ولا نشرک بہ شیاً“ ( آل عمران /۶۴) یعنی آؤ ھم ایک ایسے کلمہ پر متحد ھو جائیں جو ھمارے اور تمھارے درمیان مشترک ھے اور وہ یہ کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرارنہ دیں ۔ پھر قرآن نے اور آگے بڑہ کر پوری بشریت کو ایک نکتہ کی طرف دعوت دی :” یا ایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم “ ( بقرہ / ۱۰۱) سب مل کر اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں خلق کیا ھے ۔ قرآن نے کتنے وسیع پیمانے پر گفتگو کی ھے اور ھماری گفتگو کتنی محدود ھوتی ھے ۔

قرآن نے تین دائرے بیان کئے ھیں ۔ پھلا دائرہ مومنین کا ، دوسرا دائرہ اھل کتاب کا اور تیسرا دائرہ پوری انسانیت کا ۔ عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ کر نے کے لئے ھمیں اپنی ذات کو اس منزل تک لانا ھے جھاں ھم ان مسائل کو درک اور محسوس کر سکیں ۔

یہ دنیا اسباب و مسبب اور علل معلول کی دنیا ھے ۔ اس میں جو جتنی محنت کرے گا اسے اتنا ملے گا ۔ امریکہ محنت کرے گا تو اسے ملے گا ۔ مسلمان محنت کرے گا تو اسے ملے گا ۔ آپ کو تعجب ھو گا کہ اگر آپ امریکہ اور یوروپ کی یونیورسٹیوں میں جائیں اور وھاں ھندوستان و پاکستان کے کسی دیھات کا نقشہ طلب کریں تو وہ آپ کوails  detمیں ایسا نقشہ فراھم کر دیں گے جو آپ کو ھندوستان و پاکستان میں بھی نھیں ملے گا ۔ اسی طرح اور دیگر مسائل میں بھی انھوں نے محنت کی ھے اور جو محنت کرے گا اسے اس کا نتیجہ ملے گا ۔یہ قرآنی اصول ھے ۔ اسی طرح قرآن نے زندگی کے بھت سے اصول بیان کئے ھیں۔ ان اصولوں کو جو بھی اپنائے گا اسے اسکاresult مل جائے گا ۔ امام علی (ع) نے قرآن کے سلسلے میں وصیت کی تھی کہ ھوشیار رھنا کھیں ایسانہ ھو کہ قرآن پر عمل کرنے میں تمھارا غیر تم سے آگے بڑہ جائے ۔ اس لئے کہ قرآن میں اصول( Prinsiples) بیان ھوئے ھیں اور ان اصولوں کو کوئی بھی اپنا سکتا ھے اور ان پر عمل کر کے کامیاب بھی ھو سکتا ھے ، جیسا کہ کامیاب بھی ھوتے ھیں ۔

عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ اورلوگوں کی ھدایت کے لئے ھمیں یہ دیکھنا ھو گا کہ گمراھی نے اپنا جال کھاں کھاں تک پھیلا رکھا ھے ، اور جب ھم اس نکتے پر فکر کرتے ھیں تو دیکھتے ھیں کہ شیطان نے حتیٰ ھمارے بیڈ روم تک احاطہ کر رکھا ھے ۔ آج زمین فساد اور گمراھی سے پُر ھے: ” ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت “ اور یہ فساد کھیں اوپر سے نھیں آیا بلکہ ”بما کسبت اید ی الناس “ یہ خود انسانوں کے ھاتہ کا کارنامہ ھے ۔ اگر اوپر سے عذاب یا بلائیں آرھی ھیں تو یہ بھی انسانوں ھی کے اعمال کا نتیجہ ھے ۔ جس طرح بارش اوپر سے نازل ھوتی ھے لیکن اس کا سرچشمہ خود زمین میں موجود ھے ۔

عالمی سطح پر تبلیغ کرنا ھے تو مجمع کو اس بلندی پر لے جا کر گفتگو کریں جو اسلام چاھتا ھے یعنی جس بلندی پر قرآن نے گفتگو کی ھے ۔ پھر اختلافی(  controversial)گفتگو نہ ھو بلکہ عالمی(universal) گفتگو ھو اور اگر اس طرح کی گفتگو ھو رھی ھے تو آپ اس میں حصہ لیں اس میں شریک ھوں ۔ میں نے کراچی میں تربیت اولاد پر ایک عشرہ پڑھا ۔ شارجہ میں ایک مومن بھائی نے مجھ سے کھا کہ میں کیسٹ سن رھا تھا میرے ساتھ ایک ھندو تھا ۔ میں پھلی مجلس سن کر ٹیب ریکارڈر آف کرنے جا رھا تھا کہ اس نے کھا اسے آف نہ کرو! میں بھی سننا چاھتا ھوں ۔ پھر اس نے مجھ سے مجالس کا پوراset فراھم کرنے کے لئے کھا ۔  میں نے اس سے کھا کہ تم تو مسلمان نھیں ھو، ان مجلسوں کاset  لیکر کیا کرو گے ۔ اس نے کھا : اس میں مسلمان و غیر مسلمان کی بات ھی نھیں ھے ۔ تربیت اولاد کا مسئلہ ھر انسان کے لئے اھمیت رکھتا ھے ۔

قرآن کی کوئی آیت ایسی نھیں ھے جو عالمی نہ ھو ۔ تبلیغ میں ھمیں اور آپ کو کبھی مایوس نھیں ھونا چاھئے ۔ مایوس اسے ھونا چاھئے جسے خدا کی ذات پر یقین نہ ھو: ” ھو الّذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلّہ و لو کرہ المشرکون “ ( توبہ / ۳۳) یہ دین یقینا کامیاب ھو گا کیونکہ یھی دین دین پروردگار ھے: ” ان الدّین عند اللّہ الاسلام “ خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ھے ۔ ” و ما عند ک ینفد و ما عند اللہ باق “ اور جو کچھ تمھارے پاس ھے وہ ختم ھو جائے گا لیکن جو خدا کے پاس ھے وہ باقی رھے گا ۔ اسلام کبھی ختم ھونے والا نھیں ھے کیونکہ خدا کادین ھے ۔ اگر میں اسلام کے لئے کوئی کام کروں تو اس میں میرا شرف ھے ۔

قرآن کا تبلیغی انداز

اس وقت ھمارے سامنے بھت بڑے بڑے چیلنج ھیں۔ طرح طرح کے فراعین سے مقابلہ ھے جو زمین خدا پر طغیان و سرکشی کر رھے اور گمراھی پھیلا رھے ھیں اور قرآن کا حکم وھی ھے جو موسیٰ و ھارون کے لئے تھایعنی ” اذھب الی فرعون انہ طغیٰ “ یعنی اے موسیٰ و ھارون !تم فرعون کی طرف جاؤ کیونکہ وہ بغاوت اور سر کشی پر اتر آیا ھے: ” و قولا لہ قولاًلینا “لیکن اگر فرعون کے پاس بھی تبلیغ کے لئے جانا ھے تو نرمی کے ساتھ تبلیغ کرنا لھذا اے موسیٰ و ھارون! تم اس سے نرمی سے گفتگو کرنا ۔ یہ سب قرآن کا عالمی پیغام ھے ۔کسی کے جذبات کو ٹھیس پھونچا کر اس سے اپنی بات نھیں کھی جا سکتی۔ ایک نا فرمان بچے کو اگر محبت دی جائے تو وہ آپ کی بات سننے کے لئے تیار ھو جائے گا ۔ ھمارے سامنے انسان کی تربیت کا مسئلہ ھے ۔ اسلام تمام انسانوں کی تربیت کرنا چاھتا ھے اور اس کے لئے بڑے اقدام کی ضرورت ھے ۔ امام حسین (ع) اگر کھتے کہ مجھے چھوڑ دو ،مجھے نمازیں پڑھنے دو ، مجھے عبادتیں کرنے دو تو یزید امام حسین (ع) کا مخالف نہ ھوتا بلکہ خوش ھوتا اور اعلان کرتا کہ ان سے بڑا پرھیزگار کوئی نھیں ھے لیکن امام حسین (ع) نے فرمایا :” انا اھل بیت النبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائکة بنافتح اللّہ بنا ختم و یزید رجل فاسق ،شارب الخمر ، قاتل نفس المحرمة ، معلن بالفسق “ ھم اھل بیت نبوت ، معدن رسالت ، ملائکہ کی آمدو رفت کا مقام ھیں ، ھمارے ذریعے خدا نے آغاز کیا اور ھمارے ھی ذریعہ اختتام ھو گا اور یزید شارب خمر ، قاتل نفس محرمہ اور کھلے عام فسق کرنے والا ھے۔ پھر فرمایا: ” و مثلی لا یبایع مثلہ “ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نھیں کر سکتا ۔ امام یہ نھیں فرمارھے ھیں کہ میں یزید کی بیعت نھیں کر سکتا بلکہ فرمایا مجھ جیسا یزید جیسے کہ بیعت نھیں کر سکتا ۔ اس کا مطلب ھے کہ حسینیت اور یزیدیت کا یہ سلسلہ جاری رھے گا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ھے ۔

Add comment


Security code
Refresh