www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

قلم انسان کے بھیدوں کا مخزن ہے۔ کسی کی علمی صلاحیتوں اور اخلاقی اوصاف کا پتہ اس کے قلم سے بخوبی چلایا جاسکتا ہے۔ گویا کسی محرر کی سوجھ بوجھ اور فھم و فراست پر سب سے بڑی دلیل اس کی اپنی تحریر ھوا کرتی ہے۔

تحریر چاھے ایک سطر میں چند الفاظ پر مشتمل ھو یا ایک کتاب کی صورت میں کئی ابواب پر، وہ نفرتوں کو بڑھکائے یا محبتوں کے دیپ جلائے، اس کے تمام محاسن اور معائب دراصل محرِّر کی شخصیت کے آئینہ دار ھوتے ہیں۔ یہ جھانِ علم و شعور کا متفقہ فیصلہ ہے کہ انسان کی شخصیت کا پتہ اس کی ڈگری سے نھیں بلکہ اس کے قلم سے چلتا ہے۔
میں اس وقت ایک تازہ لکھی جانے والی کتاب "تاریخ شیعیان بلتستان" کی ورق گردانی میں مشغول ھوں۔ عنوان کے اعتبار سے یہ کتاب بظاھر ایک مخصوص فرقے سے متعلق ہے جبکہ محتویٰ اور مواد کے اعتبار سے ھر دین، مکتب، مسلک، ملک اور علاقے سے تعلق رکھنے والے منصف مزاج محقق کے لئے قابلِ قبول ہے۔
 اس کتاب کی ھر سطر سے ٹپکتی ھوئی سنجیدگی، متانت اور منصف مزاجی دراصل اس کے مولف اور ھمارے عزیز دوست سید قمر عباس حسینی کی محنتِ شاقہ، وسعتِ قلبی اور بلند فکری کی مرھونِ منّت ہے۔ میں اب تک مولف کی متعدد نگارشات کا مطالعہ کرچکا ھوں، ان کی قلمی کاوشوں سے ان کے گھرے دینی لگاو، انتھائی فکری عمق، شدید تحقیقی ذوق اور اعلٰی درجے کی علمی استعداد کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
رشک کی بات یہ ہے کہ ایک تاریخی کتاب ھونے کے ناطے "تاریخ شیعیان بلتستان"میں جابجا دوسروں پر تنقید کرنے اور اپنے تاریخی و نظریاتی مخالفین کے احساسات کو مجروح کرنے یا انتقام لینے کی گنجائش بدرجہ اتم موجود تھی، لیکن مولف نے کھیں پر بھی سنگ و دشنام کا سھارا نھیں لیا۔ ان کی اس تالیف "تاریخ شیعیان بلتستان" کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے یہ واضح ھوجاتا ہے کہ دوسروں کو چھیڑے بغیر اور احترامِ باھمی کی فضا کو قائم رکھتے ھوئے بھی اپنے مکتب اور فرقے کی ترجمانی کی جاسکتی ہے۔
اس کتاب کے شروع میں تاریخ کی اھمیت اور لفظ ِشیعہ کے لغوی اور اصطلاحی معانی اور شیعیت کی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے، اس کے بعد بلتستان کی تاریخ، جغرافیے اور موسم کا تعارف ہے، بعد ازاں مولف نے بتدریج بلتستان کے مذھبی اور تاریخی مراکز اور زبان کا ذکر کیا ہے۔ یھاں پر مولف نے اپنے قلم کو روک کر اشاعت ِ اسلام سے پھلے کے بلتستان کا ایک مختصر جائزہ قارئین کے سامنے رکھتے ھوئے اس منطقے میں اسلام کی تبلیغ اور نشرواشاعت کی تاریخ کو ایک خاص نظم اور ترتیب سے بیان کیا ہے۔
 اس کے بعد بلتستان میں موجود مختلف شیعہ فرقوں، ان کے عقائد، عبادات، شادی بیاہ، موت اور رسوم و رواج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مولف نے فقط انھی معلومات پر اکتفا نھیں کیا بلکہ بلتستان میں فعال سیاسی، مذھبی اور سماجی تنظیموں، معروف علمائے کرام، ادبا، سیاستدانوں، شعرا نیز سیاسی و سماجی شخصیات کا تعارف بھی کروایا ہے۔
اربابِ دانش جانتے ہیں کہ تحلیل کے بغیر تاریخ کا مطالعہ کوئی حیثیت نھیں رکھتا، چنانچہ مولف نے حسبِ ضرورت تحلیل و تجزیے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ خصوصاً بلتستان کی اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی صورتحال کو مختصراً مگر جامع انداز میں زیرِ بحث لایا ہے۔ اس کے علاوہ بعض علاقوں مثلاً اسکردو، کھرمنگ وغیرہ کی مذھبی تاریخ کو الگ سے بھی بیان کیا ہے۔
 یاد رھے کہ بلتستان کے موسوی اور حسینی سادات کے شجرہ نسب نے اس کتاب کے حسن کو مزید چار چاند لگا دیئے ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تحقیقی سفر نسل در نسل اپنے ارتقا کے زینے طے کرتا ہے۔ برادر قمر حسینی نے "تاریخ شیعیان بلتستان" کے عنوان سے تحقیق کی دنیا میں اپنے حصّے کی شمع جلا دی ہے، اب انشاءاللہ مستقبل کی دنیا میں اس شمع سے کئی چراغ جلیں گے اور تحقیق کے پر پیچ راستوں میں تاابد چراغاں ھوتا رھے گا۔
آخر میں عرض کرتا چلوں کہ یوں تو دنیا میں بھت سارے لوگ ہیں جو اپنے استادوں اور دوستوں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی تعریف کرتے ھوئے نظر آتے ہیں، لیکن ایسے خوش بخت لوگ بھت کم ہیں جنھیں اپنے استادوں اور دوستوں کی زندگی میں ھی ان کی تعریف کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان خوش بختوں میں سے ایک میں بھی ھوں کہ جسے خداوندِ عالم نے سید قمر عباس حسینی جیسا بااخلاق، مومن، محقق اور فعال دوست عطا کیا۔ میں اس ایک جملے کے ساتھ اپنے تبصرے کو مکمل کرتا ھوں کہ "سیّد" کی یہ کتاب جھاں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، وھیں پر سیّد کی شخصیت کا پتہ بھی دیتی ہے، چونکہ انسان کی شخصیت کا پتہ اس کی ڈگری سے نھیں بلکہ اس کے قلم سے چلتا ہے۔
والحمدللہ ربِّ العالمین
تحریر: نذر حافی
 

Add comment


Security code
Refresh