www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حقیقت و خیالات کی دنیا میں الجھ کر راہ جانے والا گم شدہ وجود یا پس پردہ حقیقت جو زمانہ قدیم سے لیکر آج تک معاشرہ میں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ نوع انسانی میں یہ عنصر ثانی آج کی نسبت قدیم زمانے میں بھت واضح اور حقیقت میں کھیں زیادہ دکھائی دیتا ہے

 مقام و منصب میں اس وقت حوا کی بیٹی پائیدار حیثیت میں بھی نظر آتی ہے اور کمزور حالت میں بھی ،خاص بات یہ ہے کہ اس کے باوجود عورت بحیثیت ذات عورت ھی تھی ھاں یہ ھو سکتا ہے کہ معاشرہ حق میں نہ تھا یا یہ کھوں کہ قدیم زمانے میں عورت تو تھی مگر معاشرہ نہ تھا اور آج معاشرہ حق میں ہے مگر عورت نھیں ملتی۔
عورت روز اول سے دونوں پھلو میں نمایاں رھی ہے۔ حق خود ارادیت یا حاکمیت کا مسئلہ ھو تو عورت فرعون کے گھر میں بھی آسیہ بن کر سامنے آتی ہے اور اگر معاشرتی اقدار کا مسئلہ ھو تو عورت ایک عظیم تاجر بن کر جناب خدیجہ سلام اللہ علیھا کی صورت میں مردوں کی نسبت کھیں زیادہ معاشرے کے لیے نفع بخش ثابت ھوتی ہے ۔
اسی طرح دوسرے پھلو میں دیکھیں تو عورت پر جو ظلم کی داستاں لکھی گئی اس کی تاریخ بھی کھیں نھیں ملتی۔ نبی کی ماں مگر لوگ پاکدامنی پر انگلیاں اٹھا دیتے ہیں، یا کھیں زندہ دفن کر دیا جاتا ہے مگر اتنے عرصہ میں کھیں بھی حقیقی وجود عورت معدوم نھیں ھوا۔
آج جبکہ معاشرہ حق میں ہے پر آج جسمِ عورت تو ہے، وجودِ عورت خیالات کی بھینٹ چڑھ کر ناپید ھو چکا ہے۔ اصل ذاتِ عورت کھیں کم ھی ملے گی۔ عالمی معاشرتی انسانی حقوق کی علمبردار مبھم آزادی نے عورت کی ذات سے ایسی خیانت کی ہے کہ اب آزادی حقوق کے نعرے میں تصویرِ جسم عورت ٹافی کے ریپر سے لیکر لاکھوں روپے مالیت کی اشیا میں لپٹی آزادی کے جدید پردے میں نظر آتی ہے۔
عورت کی آزادی کے متوالوں نے عکس مریم و تھذیب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے نکال کر قدامت سے جدت کا لباس اس انداز میں پھنا دیا ہے کہ اب لفظ عورت کا اپنے مصداق میں بھی نظر آنا ناممکن ھوتا جا رھا ہے۔ کل بھی عورت حاکم تھی مگر منصبِ عورت میں رہ کر نہ محکوم ھو کر، کل عورت تاجر بھی تھی لیکن خود تجارت ھرگز نھیں تھی۔
اسلام کی آفاقیت میں عورت کی آزادی اصول و منطق کی بنیاد پر ہے جو آج بھی قائم ہے۔ اسی لیے اسلام کی نظر میں ذاتِ عورت نمائش حسن نھیں بلکہ حسین سیرت کی محافظ ہے۔
حقیقی عورت کے تخت و تاج اور جاہ و جلال کی اسلام میں کھیں اس کی نفی نھیں ہے۔ حقیقی عورت کا تخت اس کا گھر، تاج اس کی پاکدامنی و عزت نفس اور جاہ و جلال اس کی وہ اولاد جن کو وہ معاشرتی تھذیب یافتہ قیمتی انسان بنا کر اپنے وجود کا صحیح اظھارکرتی ہے۔ وہ خود نظروں کی زینت نھیں بنتی بلکہ روح انسانی کی بصیرت اسے دیکھتی ہے۔ اسی کی طرف جناب سیدہ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی وہ بات یاد آ گئی کہ جب کسی بزرگ نابینا کے سامنے آنا ھوا تو آپ نے پردہ فرما لیا ،کھا گیا اے سیدۃ النساءالعالمین وہ تو بصارت نھیں رکھتا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی نھیں تو میری آنکھیں تو اسے دیکھ رھی ہیں، تبھی فرمایا عورت کا زیور اس کا پردہ ہے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ کھیں عورت معاشرتی غربت کا شکار نہ ھو جائے اور زینتِ بازار و کاروبار نہ بن بیٹھے بلکہ عورت کی امیری اس کا پردہ ہے، کائنات کی کوئی قیمتی چیز اس کا دام نھیں لگا سکتی۔
وہ عورت کہ جس کی سلطنت اس کا عظیم مھذب گھر تھا، جس کی گود میں ھی حاکم بھی پلتے ہیں، برابر محکوم بھی دنیا کو اچھے اور تھذیب یافتہ حاکم و محکوم اسی کی سلطنت سے ملتے ہیں تو اسے پھر کس قسم کی مزید آزاد سلطنت چاھیئے؟ کیسی حاکمیت چاھیئے؟ عورت محکوم رھی کب ہے؟ کیا یہ اس کی حاکمیت نھیں کہ وہ چاھے تو زمانے کو حسین (ع ) دے دے، چاھے تو زمانے کو یزید دے دے۔
آدم و حوا علیھما السلام سے لے کر اب تک عورت کبھی نوح علیہ السلام کے مقابل آئی تو کبھی لوط علیہ السلام سے بغاوت، تو کبھی جنگوں میں نبی کے چچا کا کلیجہ چبوایا، تو کبھی خود میدان جنگ کی زینت بنی مگر اسی طرح عورت ھی تھی جس نے انبیاء کا ساتھ دیا، ھجرتیں کیں، غربت و افلاس میں رھیں، نبی کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر سیدۃ النساءالعالمین ھو کر کبھی زخمی بابا کا مرھم بنی تو کبھی غمزدہ شوھر مولائے کائنات کے لیے ھر مشکل لمحہ میں شریک کار رھیں، حوصلہ و عزم دیا، دلجوئی کی مگر کھیں نھیں کھا کہ میں چکی نھیں پیسوں گی اور نہ ھی کبھی حقوق کا شکوہ کیا۔
انبیاء و اھلبیت علیھم السلام کی خواتیں نے بھی اسلامی معاشرہ کے ھر شعبہ میں حصہ لیا مگر آج کی خیالی مجسم عورت سلطنت و صنعت و تجارت و سیاست و معاشرت اور تعلیم کے شعبہ جات میں اگر عورت اصل ذات عورت من حیث العورت کے حصار اور دائرہ میں، حصہ دار بنے تو ھرگز ممنوع نھیں۔
مگر ذاتِ عورت اس وقت سوالیہ نشان بن جاتی ہے جب مکمل شعبہ تجارت ھی عورت ھو، سیاست ھی عورت ھو، تو پھر شعبہ جات و ادارے تو ھونگے حقیقی وجود عورت کھیں نھیں ملے گا۔
مربی و معلمہ معاشرہ کی موت ھو جائے گی۔ بس حقیقی عورت مشتبہ و مبھم آزادی میں ایسی گم ھو جائے گی کہ یا تو دو شادیاں کرنے نہ کرنے میں یا پردہ کرنے یا نہ کرنے یا قدامت و جدت کی اس تخریبی جنگ میں ماضی کی سرخ سطر بن جائے گی مگر اسلام کی عزت دار حاکم و تاجر و مربی عورت کا فقدان ھو جائے گا یا پھر لا نجیب صفت لوگ سرعام آزادی پسند مجسم عورتوں کی بدتھذیبی کے سبب احکام اسلام و اقدار اسلام میں بغاوت کرنے کی جرات کرتے رھیں گے اور اس بھیانک آزادی کے دھوکہ میں معصوم بچیاں غیر فطرت عمل کا کھیل بنتی رھیں گی۔ یہ سلسلہ اسباب کے مھیا ھونے تک جاری رھے گا، جھاں میں اس میں بدفطرت مرد کا قصور کھوں گا وھیں بدذات فطرت عورت کی آزادی کی غلط تشریع کو بھی نتیجہ قرار دونگا۔
تحریر: مجاھد علوی
 

Add comment


Security code
Refresh