www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ھر مکتبہ فکر خود کو "حق" اور دوسروں کو "باطل" قرار دیتا ہے۔ اسی طرح ھر مکتبہ فکر میں اعتدال پسند اور انتھا پسند پیروکار ھوتے ہیں۔

اعتدال پسند وہ لوگ ھوتے ہیں جو ھر دم رواداری اور بردباری کو اولیت دیتے ہیں۔ یھی نھیں بلکہ وہ اختلافات کو گلدستے میں لگے مختلف پھولوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔

 ان کا استدلال یہ ھوتا ہے کہ جیسے گلدستہ میں مختلف پھول باھم مل کر ایک ملی جلی خوشبو سے فضا معطر کرتے ہیں، ویسے ھی کسی بھی فکر، لھر یا مذھب میں موجود مختلف خیالات اس فکر ھی کو جلا بخشتے ہیں۔ اسی لیے اعتدال پسند تو معاشرے کو گلدستہ کی خوشبو ھی سے معطر کرنے پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ وہ اختلافی امور پر عام بحث نھیں کرتے کہ یھی صوفیا کا راستہ تھا۔
پچھلے کچھ سالوں سے فرقہ واریت کے موضوع پر معتبر چینلوں پر جو بحثیں ھوئیں، انھوں نے مجبور کر دیا کہ آج ھمیں ان حساس اور انتھائی اھم معاملات پر بحثیں کرنے سے قبل کچھ بنیادی باتوں پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔
جیسے سیاست میں بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں یا نھیں، ایسے ھی مذاھب کے بارے میں بات کرتے ھوئے بنیادی اصول یھی ہے کہ آپ رواداری، بردباری اور اعتدال پسندی کو عملاً تسلیم کرتے ہیں یا نھیں۔ اگر آپ اس اصول کو مدنظر نھیں رکھتے تو پھر آپ فرقہ واریت کی مخالفت کرتے ھوئے فرقہ وارانہ استعارے ھی استعمال کرتے ہیں۔ یوں فرقہ وارانہ ماحول بدستور برقرار رھتا ہے۔
اس تحریر کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ 21ویں صدی میں ھم فرقہ پرستی کے جنجال سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ حیرت تو ان میڈیا دانشوروں پر ہے جو اکثر فرقہ واریت کی مخالفت بھی فرقہ وارانہ استعاروں سے کرتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا نظریہ یا مذھب نھیں جس کے ماننے والوں میں سو فی صد ھم آھنگی ھو کہ ھر مذھب یا نظریئے میں چھوٹے بڑے اختلافات موجود ھوتے ہیں۔
تنوع، رنگا رنگی یعنی diversity تو انسانی زندگی کا سب سے خوبصورت پھلو ہے جبکہ یکسانیت یعنی uniformity کسی بھی لحاظ سے مثبت نھیں۔ اختلافات کی موجودگی بذات خود منفی نھیں اور اختلاف رکھنے والے اپنا اپنا الگ مکتبہ فکر یعنی School of Thought بنا لیتے ہیں۔
یھودیت، مسیحیت، اسلام، بدھ مت، ھندومت، سکھ مت ھی نھیں بلکہ سوشلسٹوں، قوم پرستوں اور لبرلوں میں بھی لاتعداد مکتبہ فکر ہیں۔
اختلافات کے عمل کو "چھری" سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کہ آپ اختلافی نقطہ نظر کی بدولت نئی راھیں بھی ڈھونڈھ سکتے ہیں اور انھی اختلافات کو منفی رنگ دے کر دنگے فساد کو بھی بڑھاوا دے سکتے ہیں۔
ھر مکتبہ فکر خود کو "حق" اور دوسروں کو "باطل" قرار دیتا ہے۔ اسی طرح ھر مکتبہ فکر میں اعتدال پسند اور انتھا پسند پیروکار ھوتے ہیں۔
اعتدال پسند وہ لوگ ھوتے ہیں جو ھر دم رواداری اور بردباری کو اولیت دیتے ہیں۔ یھی نھیں بلکہ وہ اختلافات کو گلدستے میں لگے مختلف پھولوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ھوتا ہے کہ جیسے گلدستہ میں مختلف پھول باھم مل کر ایک ملی جلی خوشبو سے فضا معطر کرتے ہیں، ویسے ھی کسی بھی فکر، لھر یا مذھب میں موجود مختلف خیالات اس فکر ھی کو جلا بخشتے ہیں۔ اسی لیے اعتدال پسند تو معاشرے کو گلدستہ کی خوشبو ھی سے معطر کرنے پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ وہ اختلافی امور پر عام بحث نھیں کرتے کہ یھی صوفیا کا راستہ تھا۔
اس کے برعکس انتھا پسند ھر وقت اختلاف کو سامنے رکھتے ہیں۔ وہ چاھتے ہیں کہ ھر کوئی انھی کے مکتبہ فکر کو معتبر سمجھے۔ یھی نھیں بلکہ انتھا پسند اپنے نقطہ نظر کو دوسروں پر مسلط کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ وہ اگر اقلیت میں ھوں یا ان کے پاس نسبتاً کم طاقت ھو تو وہ اپنی مظلومیت کی رام کھانی سناتے ہیں اور اگر وہ اکثریت میں ھوں یا ان کے پاس اقتدار کی طاقت آجائے تو وہ ھر مرد و عورت پر اپنی فقہ تھوپنے کو ضروری گردانتے ہیں۔
یہ انتھا پسند ھی ھوتے ہیں جو کسی بھی مکتبہ فکر کو "فرقہ" میں ڈھال دیتے ہیں۔ یوں جس نقطہ نظر پر پھرہ دینے کے لیے وہ مکتبہ فکر بنایا گیا ھوتا ہے اس کا اصل مقصد تو کھیں کھو جاتا ہے اور فرقہ پرستی ھی کو عروج حاصل ھوتا ہے۔
انتھا پسند درحقیقت، مخالف یا متحارب نقطہ نظر کو برداشت نھیں کرسکتے، اسی لیے وہ اسے نیست و نابود کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں۔
یوں یاد رکھیں، ھر انتھا پسند فرقہ پرست ھوتا ہے اور ھر فرقہ پرست انتھا پسند۔ یہ لوگ رنگا رنگی یعنی diversity کے خلاف ھوتے ہیں اور اختلافات کو برداشت کرنے کی بجائے طاقت سے مٹانا چاھتے ہیں۔
اب ذرا ان باتوں کی روشنی میں اپنے خطے، اپنے مکتبہ فکر اور اپنے پنڈ، محلہ، خاندان، تعلیمی ادارے یا دفتر کے ماحول کا جائزہ لیں تو حقیقت حال آپ پر خود بخود واضح ھو جائے گی۔ آپ کو خود بخود معلوم ھوتا جائے گا کہ کھاں کھاں اعتدال پسند ہیں اور وہ کون ہیں جو انتھا پسندیوں اور فرقہ پرستیوں کے پرستار ہیں۔
کون سا گھر یا خاندان ہے جس میں اختلاف نہ ھو؟ اصل مسئلہ اختلاف نھیں بلکہ "اختلافات کے ساتھ جینا" ہے۔ جنھیں اختلافات کے ساتھ جینے کا ھنر آتا ہے وھی اعتدال، رواداری اور بردباری کا رستہ اپناتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اختلافات کو یکسر ختم کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ھی کوئی مثبت عمل، البتہ یہ ممکن ہے کہ ھم سب اختلافات کے ساتھ جینا سیکھ جائیں۔
جو اختلافات کے ساتھ جینا نھیں جانتا وھی فرقہ پرست بھی ہے اور انتھا پسندیوں کا مبلغ بھی۔
1970ء کی دھائی سے ھمارے یھاں ھر مکتبہ فکر میں انتھا پسندوں اور فرقہ پرستوں کا زور بڑھ چکا ہے، جبکہ اعتدال پسند پیچھے کی صفوں میں دھکیل دیئے گئے ہیں۔
ان انتھا پسندوں اور فرقہ پرستوں کو استعمال کرنے والے گروہ اور طاقتیں بھی بھت سی ہیں، کیونکہ ان میں غصہ اور تعصب حد سے زیادہ ھوتا ہے، اس لیے انھیں استعمال کرنا بھی قدرے آسان ھوتا ہے۔
19ویں صدی سے استوار کیے گئے جدید ریاستی بندوبست یعنی وطنی ریاستوں کی دنیا میں تو انھیں استعمال کرنا اور بھی آسان ھوچکا ہے کہ اقتدار یا طاقت کی لڑائی میں اولیت نہ ھی فقھا کو حاصل ھوتی ہے نہ ھی نظریئے کو بلکہ اصل مدعا یا مقصد اقتدار پر قبضے یا طاقت کا حصول ھی ھوتا ہے۔
جھاں فرقہ پرست و انتھا پسند خیالات ھوں گے، وھیں ان کو اپنے مقاصدکے تحت استعمال کرنے والوں کو بھی کامیابی ملے گی۔
جھاں نصاب اور میڈیا میں فرقہ وارانہ استعارے استعمال کرنے کی آزادی ھو، وھاں باھر والوں کی تو موجیں ھو جاتی ہیں۔
یاد رکھیں کہ جب سے دنیا بنی ہے اس میں اختلافات بدرجہ اتم موجود رھے ہیں۔ کون سا گھر یا خاندان ہے جس میں اختلاف نہ ھو؟ اصل مسئلہ اختلاف نھیں بلکہ "اختلافات کے ساتھ جینا" ہے۔
جنھیں اختلافات کے ساتھ جینے کا ھنر آتا ہے وھی اعتدال، رواداری اور بردباری کا رستہ اپناتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اختلافات کو یکسر ختم کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ھی کوئی مثبت عمل، البتہ یہ ممکن ہے کہ ھم سب اختلافات کے ساتھ جینا سیکھ جائیں۔ جو اختلافات کے ساتھ جینا نھیں جانتا وھی فرقہ پرست بھی ہے اور انتھا پسندیوں کا مبلغ بھی۔

جب 1920ء میں عدم تعاون کی تحریک کو بڑھاوا دینے کے لیے تحریک خلافت کے رھنماؤں نے نومولود علیگڑھ یونیورسٹی میں چند طلباء کو ساتھ لے کر "جامعہ ملیہ" بنائی تھی تو مھاتما گاندھی نے اس مجوزہ یونیورسٹی کے لیے علامہ اقبال کو خط لکھ کر پھلا وائس چانسلر بننے کی دعوت دی تھی۔
زیرک اقبال نے مھاتما گاندھی کو جو جواب میں لکھا تھا اسے کراچی کے خرم علی شفیق نے علامہ پرلکھی جا رھی 6 جلدوں پر مشتمل ضخیم سوانح کی تیسری جلد میں نقل کیا ہے۔ یہ کتابیں لاھور کی اقبال اکیڈیمی مسلسل چھاپ رھی ہے۔ جامعہ ملیہ بظاھر تو مسلمانوں کی قومی تعلیم کے لیے بنائی جارھی تھی، مگر اقبال کا استدلال تھا کہ مسلمانوں کی تعلیم سے قبل تمام مسلم مکاتب فکر کے درمیان ھم آھنگی ھونا لازم ہے، وگرنہ ایسی تعلیم سے فرقہ واریت پھوٹے گی۔
اقبال نے جس اندیشے کا اظھار کیا تھا وہ آج حقیقت بن چکا ہے۔ یھی استدلال انھوں نے خطبہ الہٰ آباد میں بھی دھرایا اور 11 اگست 1947ء کی تقریر میں بھی قائداعظم نے اسی سوچ کو اولیت دی تھی کہ اس میں رنگارنگی کو تسلیم کرنے اور رواداری کو اپنانے کا درس بدرجہ اتم موجود تھا۔ اب آپ سوچیں کہ ھم نے آج اس ملک میں فرقہ واریت اور انتھا پسندیوں کا خاتمہ کرنا ہے تو ھمیں اعتدال، رواداری اور معقولاتی (Rational) سلسلوں کو ھی آگے بڑھانا ھوگا۔
تحریر: عامر ریاض
 

Add comment


Security code
Refresh