www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

مرج العذراء کی سرزمین وہ علاقہ ہے جسے خلیفہ دوم عمر ابن خطاب کے زمانے میں " حجر ابن عدی " نے فتح کیا تھا اور وھاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تھی اورآج بھی اس سرزمین پر ان کی بے شمار یادگاریں موجود ہیں

۔جب حکومت کے اھلکار ان کا ھاتھ باندھ کر اس سرزمین پر لائے تو انھوں نے کھا : میں سب سے پھلا مسلمان تھا جس نے اس علاقے میں تکبیر کھی تھی اور خدا کو یاد کیا تھا اور اس وقت یہ لوگ مجھے یھاں قید کرکے لائے ہیں ۔
امیر شام معاویہ ابن ابو سفیان کی نظر میں حجر ابن عدی کا سب سے بڑا جرم ان کا محب علی(ع) ھونا تھا۔اسی لۓ اس نے ایک گروہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ موجودہ شام کے علاقے مرج العذراء جائیں اور حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیں۔ جب امیر شام معاویہ ابن سفیان کے سپاھیوں نے انھیں گرفتار کیا تو ان سے کھا : اگر تم لوگ علی(ع) سے اظھار برات اور دوری اختیار کرو اور ان کی شان میں گستاخی کرو تو ھم تمھیں آزاد کردیں گے اوراگر ایسا نھیں کروگے تو تمھیں قتل کردیں گے حجرابن عدی اور ان کےساتھیوں نے کھا : تیز تلوار کےمقابلے میں صبر ورضا پر ایمان ھمارے لئے اس چیز سے بھت ھی آسان ہے جس کے بارے میں تم ھمیں دھمکیاں دے رھے ھو۔ خدا و رسول(ص) اور حضرت امام علی علیہ السلام کے دیدار پر ایمان، دوزخ میں داخل ھونے سے زیادہ محبوب تر ہے ۔اس وقت حجر ابن عدی نے کھا : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا اے حجر تم علی(ع) کی محبت میں ظلم و بربریت سے قتل کئے جاؤگے اور جب تمھارا خون زمین پر گرے گا تو اس کے نیچے سے ایک چشمہ جاری ھوگا جو تمھارے سر کے زخموں کو دھو دے گا ۔
اور پھر یکے بعد دیگرے حجر ابن عدی کے باوفا ساتھی اپنے خون میں غلطاں ھوئے اور انھوں نے شھادت کا جام پی کر اپنی پاکیزہ زندگی کے نقوش کو تاریخ کے دامن میں ھمیشہ کے لئے ثبت کردیا اور آخر میں حضرت حجر بھی شھید ھوگئے ۔
پیغمبر اسلام (ص) کے عظیم صحابی حجر ابن عدی جوانی کے دور ھی سے شجاعت و بھادری جیسی صفت سے مزین تھے اور جس دن سے وہ اسلام لائےتھے اسی دن سے مشرکوں اور کافروں سے بر سر پیکار تھے آپ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران فتح شام ، سرزمین مدائن اوراسلام کی اھم جنگوں میں بڑی شجاعت ودلیری کے ساتھ اسلام کا دفاع کرتے رھے اور مرج العذراء علاقے کے وہ سب سے پھلے مسلمان شھید تھے جنھوں نے مصلی شھادت پر پھنچنے کے باوجود دورکعت نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تاکہ عظمت پروردگار کے حضور میں راز ونیاز کرکے اپنی روح کو بالیدگی بخشیں ۔چنانچہ آپ نے مصلی شھادت پر دو رکعت نماز پڑھنے کی مھلت طلب کی ۔ دشمنوں کی نظرمیں ان کی نماز طولانی ھونے لگی تو انھوں نےکھا : تم نے نماز کو بھت طول دیدیا ہے کھیں ایسا تو نہیں کہ موت سے ڈر گئے ؟ حضرت حجر نے نھایت دلیری سے کھا یقین کرو کہ میری زندگی کی یہ سب سے کم وقت میں پڑھی جانے والی نماز تھی جو میں نے ابھی پڑھی ہے بالآخر حجر ابن عدی شھادت کے درجے پر فائز ھوگئے اور جھاد کے سنگین بوجھ کو سرحد شھادت یعنی آخری منزل تک پھنچادیا لیکن تاریخ کے رنگین صفحات پر ھمیشہ کے لئے امیر شام کی ذلت وخواری کی داستان لکھ دی ۔ حضرت حجرابن عدی کی شھادت کے بعد معاویہ بن سفیان نے اعتراف کیا " اگر میرے ساتھیوں میں حجر ابن عدی جیسے چند افراد ھوتے تو میں بنی امیہ کی حکومت کو پوری دنیا میں قائم کردیتا لیکن افسوس صد افسوس، میں کس طرح حجر ابن عدی جیسے افراد کو، جو پوری شجاعت ودلیری اور جذبہ ایمانی کے ساتھ میدان عمل میں ڈٹےرھے ، اپنے پاس اکٹھا کرسکتا ھوں ؟
حجر ابن عدی کو شھید کرنے کے بعد امیر شام کو بھت سی مشکلات سے دوچار ھونا پڑا اور جب حج کے ارادے سے مدینہ گئے تو ام المومنین عائشہ سے ملاقات کی خواھش ظاھر کی لیکن حضرت عائشہ نے دو دلیلوں کی بنیاد پر ملنے سے انکار کردیا پھلے یہ کہ انھوں نے ان کے بھائی محمد ابن ابو بکر کو کیوں شھید کیا دوسرے یہ کہ اس نے حجر ابن عدی کو کیوں شھید کیا ۔امیر شام نے حضرت عائشہ سے معافی مانگی لیکن انھوں نے مناقات کی اجازت نہ دی مگر جب اصرار زيادہ بڑھا تو حضرت عائشہ نے مجبورا ملاقات کی اجازت دے دی اور پھر پیغمبر اسلام (ص) کی یہ حدیث پڑھ کر اسے سنائی کہ پیغمبر (ص) نے فرمایاتھا کہ " سرزمین مرج العذراء پر ایک گروہ قتل ھوگا جن کے قتل سے پروردگار عالم اور اھل آسمان بھت زيادہ غضبناک ھوں گے " کھتے ہیں کہ امیر شام زندگی کے آخری لمحے تک اس دلخراش منظرکو یاد کرتا رھا اور حجر ابن عدی کے قتل پر اظھار پشیمانی کرتارھا ۔یھاں تک کہ موت کی ھولناک وادی میں جا پھنچا مگر مرج العذراء میں شھید ھونے والے زندہ جاوید ھوگئے اور ان کا نام عشق و آزادی اور شرافت میں سرفھرست درج ھوگیا ۔
یقینا حجر ابن عدی جیسے افراد کا ایمان ، انسان کی روحانی و باطنی عظمتوں اور جلوؤں کو خاشع و خاضع بنا دیتا ہے یھی ایمان و شجاعت تھی جو پیروان حق کی جانب سے آشکار ھوئی جس نے باطل طاقتوں کو لرزہ براندام کردیا ایسا خوف، جو چودہ سو برسوں کے بعد آج بھی جاری ہے کیونکہ پیغمبر اسلام (ص) ، اھل بیت طاھرین اور آپ کے عظیم صحابیوں کی حقانیت کے خلاف اھل باطل کے دلوں میں آج بھی بغض و کینہ اور حسد بھرا ھوا ہے اسی لئے کبھی وہ توھین آمیز کارٹون بناکر ، کبھی توھین آمیزمن گھڑت داستانیں لکھ کر، تو کبھی مضحکہ خیز فلم دکھاکر اپنی عداوت و دشمنی کا مظاھرہ کررھے ہیں ۔اور اب تو حد یہ ھوگئی ہے کہ حال ھی میں انھوں نے ایک گھناؤنا اور بدترین کام انجام دیا ہے اور وھابیت کے ٹکڑوں پر پلنے والے ان کے ایجنٹوں نے پیغمبر اسلام (ص)کے جلیل القدر صحابی حجر ابن عدی کے مرقد مطھر پر حملہ اور نبش قبر کرکے ان کی ضریح مبارک کو مسمارکردیا اور ان کے جسد اطھر کو جو چودہ سو برسوں کے بعد آج بھی تر وتازہ اور خون آلود تھا نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔ نبش قبر جیسے غیرانسانی فعل کی نسبت کسی بھی مسلمان کی طرف نھیں دی جاسکتی۔ یہ وھی لوگ ہیں جو سینکڑوں بے گناہ بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کا خون بھاتے ہیں صرف یھی نھیں بلکہ نوجوانوں کی گردنوں کو بڑی بے رحمی سے تلواروں سے اڑاکر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور پھر ان لاشوں کی تصاویر کو انٹرنیٹ اور سیٹیلائٹ پر نشر کرتے ہیں اور خود کو مسلمان ثابت کرکے اسلام کا بدترین چھرہ دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
شاید یہ بات بےجا نہ ھوگی اگر ھم ان لوگوں کا تذکرہ کریں جنھوں نے پیغمبر اسلام (ص) کے صحابی کی قبر کی بے حرمتی کی ہے وہ کن فکروں کے پروردہ تھے آئیے ذرا تفصیل سے وھابیت کے عقائد سے آشنائی پیدا کرتے ہیں ۔ درحقیقت وھابیت کا آغاز ابن تیمیہ کے افکار سے ھوتا ہے سورہ طہ کی پانچویں آیت میں ارشاد ھوتا ہے کہ " وہ رحمن عرش پر اختیار اور اقتدار رکھنے والا ہے ۔ لیکن ابن تیمیہ اس آیت کی تفسیر میں کھتا ہے کہ خدا آسمان پرایک تخت پر بیٹھا ہے۔ حالانکہ خدا جسم و جسمانیات سے مبرہ ومنزہ ہے لیکن وہ خدا کے جسم کا قائل ھوا ہے ۔اس کے فکری انحرافات صرف خدا سے ھی مخصوص نھیں رھے بلکہ اس نے پیغمبر اسلام(ص) اھل بیت طاھرین(ع) اور صالحین کے بارے میں بھی اپنی ناقص فکروں کو روا رکھا ہے چنانچہ اس نے پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ طاھرین علیھم السلام سے طلب دعا کو توحید کے خلاف اور شرک شمار کیا ہے یھی نھیں بلکہ اس نے پیغمبر اسلام(ص) اور اھل بیت طاھرین(ع) کے قبور کی زیارت و احترام کو بھی غلو ، بدعت اور مشرکوں کے کام سے تعبیر کیا ہے البتہ اھل سنت حضرات نے ابن تیمیہ کے اس نظریئے کی سخت مخالفت کی ہے کیونکہ یہ عقیدہ قرآن کریم کی بھت سی آیتوں اور بے شمار معتبر روایتوں کے منافی ہے ۔
ابن تیمیہ کا ایک شاگرد بنام محمد ابن عبد الوھاب تھا جس نے عصر حاضر میں موجود وھابیت کا بیج بویا ۔وھابیوں کے عقیدے کے مطابق خدا کے علاوہ کسی کی قسم کھانا شرک ہے حالانکہ قرآن کریم میں خدا کی قسم کے علاوہ تقریبا چالیس مقامات پر آسمان، چاند ، سورج ، زمین ، رات ، دن، انجیر، زیتون ، اور پیغمبر کی جان کی قسم کھائی ہے خلاصہ یہ کہ اس فرقے کا عقیدہ بے بنیاد مفروضوں پر مشتمل ہے جس نے دولت و ثروت اور غلط پروپگینڈے کے ذریعے اس بات کی کوشش کی ہے کہ مغرب زدہ استعماروں کے اھداف و مقاصد کے مطابق مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان تفرقہ پیداکردے۔
بھرحال پیغمبر اسلام (ص) اور امیرالمومنین کے عظیم صحابی حجر ابن عدی کی قبر کو کھود کر ان کے جسداطھر کو نامعلوم مقام پر منتقل کرنا سلفیوں کی ایک نئی سازش اور بدترین جارحیت ہے ۔مذھب اسلام میں قبر کھودنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے جب کہ اس وقت کچھ لوگوں نے مسلمان ھونے کے باوجود صدر اسلام کی عظیم و موثر شخصیتوں میں سے ایک عظیم فرد کی قبر اقدس کو مسمار کردیا ہے۔ اور بے حیائی و جسارت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس متعصب گروہ نے اعلان کردیاہے کہ بارگاہ حضرت زينب اور حضرت سکینہ سلام اللہ علیھا کو مسمار کرکے ان کی بھی قبریں بھی کھود ڈالیں گے ۔ یہ بات عقل قبول نھیں کرتی کہ شام کے حکومت مخالفین جو شام کو آزادی دلانا چاھتے ہیں اس طرح کی غیر انسانی حرکتیں انجام دے کر کیاکرنا چاھتے ہیں اور اس کا رونماھونے والے توھین آمیز واقعات سے کیا تعلق ہے ؟ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ عالمی ادارے ، سیاسی حلقے اور مغربی ذرائع ابلاغ جنھوں نے دوہزار ایک میں افغانستان کے صوبہ بامیان میں سلفی ھمفکر گروہ کے ھاتھوں بدھشٹوں کے مجسموں کو مسمار کرنے پر بھت زیادہ شور مچایا تھا مسلمانوں کی اس عظیم و بزرگ ھستی کی ویرانی قبر پر کیوں خاموش تماشائی بنےھوئے ہیں اور ظالموں اور مجرموں کی پشت پردہ حمایت کررھے ہیں ۔
پییغمبر اسلام (ص) کے عظيم صحابی حجر ابن عدی کے مزار اقدس کی توھین اور اس طرح کے امور کے دوبارہ انجام دینے کی دھمکی ، شاید اس سلفی گروہ کی ایک نئی سازش اور حربہ ھو کیونکہ جو لوگ شام کے بحران اور قتل و غارتگری کے باوجود اپنے اھداف و مقاصد تک نھیں پھنچ سکیں ہیں انھوں نے توھین آمیز اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے تاکہ اس کے ذریعے شام میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑکا سکیں۔
لیکن جس طرح سے حجر ابن عدی کو قتل کرکے امیر شام معاویہ ابن سفیان ھمیشہ کے لئے ذلیل و خوار ھوگیا اسی طرح وھابیوں کے ھاتھوں ، جو اپنے کو مسلمان کھتے ہیں ،حجر ابن عدی کی قبر کو کھود کر ان کی لاش کو غائب کرنے سے اس گروہ کا حقیقی چھرہ پھلے سے زيادہ کھل کر سامنے آگیا ہے ۔
 

Add comment


Security code
Refresh