www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ھر وہ مسلمان جس نے ایمان کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کو دیکھا ھو یا آنحضرت (ص) کی صحبت میں رھا ھو اور زندگی کے آخری لمحات تک اپنے ایمان پر باقی اور دین کا وفا دار رھا ھو تو وہ صحابی رسول (ص) اور محترم و با فضیلت ھوگا،

 کیونکہ اس کو نبی اکرم (ص) کےمعیت اور ھمراھی کا شرف حاصل ہے۔چنانچہ صحابہ محترم اور مقدس ہیں اور تمام مسلمانوں پر ان کا احترام واجب۔
اھل سنت کے بزرگ علماء کے مطابق صحابیت کے لقب کے لئے یہ ضروری نھیں ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی بارگاہ رسول خدا (ص) میں رھا ھوبلکہ صرف نبی اکرم (ص) کو ایمان کی حالت میں دیکھا بھی ھو تو صحابی ھونے کے لئے کافی ہے۔ چنانچہ بخاری فرماتے ہیں:
"وَمَنْ صَحِبَ النبی صلى الله علیه وسلم أورَآهُ من الْمُسْلِمِینَ فَهُوَمن أَصْحَابِهِ" (۱)
جس مسلمان نبی اکرم (ص) کو دیکھا ھو یا پھرآپ کے ساتھ رھا ھو تو وہ صحابی رسول (ص) کھہ لائے گا۔
امام احمد بن حنبل صحابی کی تعریف میں فرماتے ہیں:
" "أصحاب رسول اللّه صلى اللّه علیه وسلّم کلّ من صحبه شهراأویوماأوساعةأورآه"(۲)
ھر وہ شخص جس نے ایک ماہ، ایک دن یاپھر ایک گھنٹے کے لئے بھی رسول اکرم (ص) کے ساتھ رھنے کا شرف پایا ھو، وہ صحابی رسول(ص) ہے۔(۳)
چنانچہ اگر کوئی صحابی رسول(ص) ہے تو زندگی میں ھی نھیں بلکہ اس کے اس دنیا سے گزرجانے کے بعد بھی اس کا احترام واجب اور ضروری ہے۔ کیونکہ خدا کے نزدیک صحابہ کا خاص احترام ہے ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں امام قرطبی لکھتے ہیں:
"فالصحابةکلهم عدول أولیاءالله تعالى وأصفیاؤه وخیرته من خلقه بعدأنبیائه ورسله . هذامذهب أهلالسنة والذی علیهالجماعةمن أئمةهذه الأمة"(۴)
صحابہ سب کے عادل ہیں، وہ ولی خدا ، اس کے صفی اور انبیاء (ع) کے بعد اس کے مختار بندے ہیں اور یھی اھل سنت و جماعت ہے۔(۵)
ان جملوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ھوتا ہے کہ علماء اھل سنت کے نزدیک صحابہ کا کیا مقام ہے۔ اور سب سے اھم بات تو یہ ہے کہ وھابیوں اور تکفیری سلفیوں کا پورا دین صحابہ سے وابستہ ہے۔ اور حقیقت یھی ہے کہ رسول اکرم (ص) کے اس دنیا سے گزرجانے کےبعد حصول دین و شریعت کے اھم راستوں میں سے ایک، نیک و صالح صحابہ کرام ہیں۔ اور مسلمانوں نے تمام نیک و صالح صحابہ کو واجب الاحترام اور ذی شرف بتایا ہے۔ جناب حجر بن عدی بھی انھیں باوفا اور نیک و صالح صحابہ میں سے ہیں، جنھوں نے بارگاہ رسالت مآب میں کم وقت میں معرفت کے صدیوں کے سفر کو طے کرلیا تھا۔ مسلمانوں کے نزدیک جس طرح تمام صحابہ کرام بافضیلت ہیں، جناب حجر بن عدی انھیں میں سے ایک ہیں اور انھیں کئی شرف حاصل تھے: صحابی رسول (ص)، جنگ قادسیہ کے فداکار سپاھی ، فاتح مرج عذراء اور شھید راہ حق۔
آپ علم و معرفت، اخلاقی فضائل، عبادت و بندگی اور نیکیوں کے تمام میادین میں صف اول کے مجاھد تھے۔
اھل سنت کے بزرگ علماء و دانشوروں کے اقوال و فرامین اور آپ کی عظیم شخصیت اور فضائل و کمالات کو دیکھ کر آسانی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شام میں صحابی رسول(ص) کی قبر کھود کر ان کا جنازہ نکالنے والوں نے کس طرح قلب رسول پاک (ص) اور مسلمانان عالم کو مجروح کیا ہے۔
 چنانچہ ذٰیل میں جناب حجر بن عدی کی چند اھم خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جارھا ہے جس کے بعد قارئین خود اس بات کا فیصلہ کر لیں گے کہ کیا اس جرم کے بعد بھی عالم اسلام سلفیوں اور تکفیری وھابیوں کے خلاف خاموش بیٹھا تماشا دیکھتا رھے گا یا جناب حجر بن عدی کے روضہ اور قبر مطھر کو مسمار کرنے والے مجرم انسانوں کو کیفر کردار تک پھنچائے گا؟
بارگاہ رسالت میں مختصر قیام
جناب حجر بن عدی نے فتح مکہ کے بعد اپنے بھائی ھانی بن عدی کے ھمراہ مدینہ آکراسلام قبول کیا ۔ بارگاہ رسالت مآب(ص)میں انھیں بھت زیادہ رھنے کا شرف نھیں مل پایا، لیکن رسول پاک (ص)کی بارگاہ میں ان کا مختصر سا قیام بھی بھت مفید رھا ۔ رسول اکرم (ص) کی ھدایات اور نورانی کلمات نے اس قدر ان کے دل کو مستعد بنایا کہ انھوں نےصدیوں کا معرفتی سفر مختصر سے وقت میں طے کرلیا۔ خدا و رسول (ص) پر ایمان اس طرح ان کے دل و جان میں راسخ ھواکہ زندگی کے آخری لمحات تک وہ ثابت قدم رھے اور ایک لمحہ کے لئے بھی حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔
 یہ ایک کلیہ بھی ہے کہ ایمان میں راسخ ھونے کے لئے طویل زمانہ کی ضرورت نھیں ہے بلکہ ایمان راسخ کے لئے ظرف قلب کا پاک ھونا ضروری ہے۔ چنانچہ اگر ظرف قلب پاک ھو تو صدیوں کا ایمانی سفر لمحوں میں طے ھوجاتا ہےگرچہ یہ آغاز اسی وقت اپنے انجام کو پھنچتا ہے جب صاحب ایمان ، اپنے راسخ عقیدہ کے ھمراہ ،شرعی احکام اور الٰہی فرامین کا پابند رھے۔
 لھذا جناب حجر بن عدی گرچہ زمانہ کے اعتبار سے بارگاہ رسالت مآب(ص) میں بھت زیادہ شرفیاب نہ ھو سکے لیکن آنحضرت(ص) کی معیت میں مختصر سا عرصہ اس قدر آپ کے وجود کے لئے مفید اور موثر رھا کہ رسول خدا (ص) کے بعد بھی حق کی راہ میں آپ ثابت قدم رھے اور تمام دینی محاذوں پر آپ کی شخصیت منفرد اور اپنے آپ میں ایک مثال رھی۔
خلیفہ دوم کے زمانے میں شامات کو فتح کیا گیا اور شام کے علاقہ "مرج عذراء" جھاں گزشتہ چند دنوں قبل تک جناب حجر بن عدی کا مقبرہ تھا، کو فتح کرنے کرنے والے خود حجر بن عدی تھے۔حاکم شام کے سپاھی جب انھیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو قید کر کے مرج عذراء لیکر آئے تو انھوں نے دریافت کیا کہ یہ کونسی جگہ ہے؟ سپاھیوں نے بتایا: یہ مرج عذراء ہے۔ جناب حجر نے ٹھنڈی سانس لیکر کھا: یہ وہ سرزمین ہے، جس پر جنگ قادسیہ میں سب سے پہلے میں نے تکبیر کھی ہے۔ (۶)
جناب حجر بن عدی کے فضائل و کمالات
جناب حجر بن ایک با فضیلت، پارسا، عبادت گزار، زاھد ، مجاھد اور مستجاب الدعا صحابی تھے۔ آپ کے زھد اور پارسائی کے سبب آپ کو "راھب اصحاب محمد " کھا جاتا تھا۔(۷) آپ کا باطن بھی آپ کے خوبصورت ظاھر کی طرح حسین اور جمیل تھا اور آپ کی فضیلتوں کے سبب آپ کو حجر الخیر بھی کھاجاتا ہے۔(۸)
خلفیہ دوم کے زمانے میں جنگ قادسیہ میں آپ نے شرکت کی تھی اور "مرج عذراء" کو فتح کرنے والے بھی آپ ھی تھے(۹)۔ چنانچہ اسد الغابۃ میں ذکر ھوتا ہے:
"وفد على النبي صلى الله عليه وسلم هو وأخوه هانئ، وشهد القادسية۔۔۔"(۱۰)
آپ اپنے بھائی ھانی کے ساتھ خدمت رسول اکرم (ص) میں شرفیاب ھوئے تھے اور جنگ قادسیہ میں آپ نے شرکت کی تھی۔۔۔(۱۱)
خلیفہ سوم کے دورمیں جناب ابوذرغفاری کو شھربدر کرنے کے جب ربذہ بھیجا گیا تو جناب مالک اشتر کے ھمراہ آپ ان کی زیارت کو گئے اور وفات کے بعد جناب ابو ذر کے جنازہ پر ان دونوں نے نماز بھی پڑھی۔ (۱۲)
حجر بن عدی رکاب حضرت علی(ع) میں
جناب حجربن عدی حضرت علی (ع) سے خاص عقیدت اور لگاؤ رکھتے تھے اور آپ کا شمار حضرت علی (ع) کے شجاع، وفادار،جنانبازاورمطیع و فرماں بردار صحابیوں میں ھتا تھا۔ چنانچہ جب حضرت علی (ع) نے ناکثین کامقانلہ کرنے کے لئے کوفہ اور بصرہ میں لوگوں کو پیغام بھجوایا تو جناب حجر بن عدی منجملہ ان افراد میں سے تھے جنھوں نے سب سے پھلے حمایت کا اعلان کیا اوربارگاہ حضرت علی (ع) میں اخلاص و صدق نیت اور بھادری کی ایسی مثال قائم کی کہ جنگ صفین میں حضرت علی (ع)نے آپ کو لشکر کے میمنہ کا علمبردار بنادیا۔(۱۳)
جناب حجر بن عدی ایک حق گو اور صریح اللسان انسان تھے۔ آپ ،ظلم کے آگے کبھی بھی خاموش نھیں رھے۔آپ کا شمار کوفہ کے ان چند انگشت شمار لوگوں میں ھوتا تھا ، جن سےحاکم شام کو خطرہ تھا ۔ یھی وجہ ہے کہ جب حاکم شام نے زیاد بن ابیہ کو کوفہ کا گورنر بناکر بھیجا تو اس نے کوفہ کے سرکردہ شیعوں پر خاص نظر رکھی تا کہ انھیں قابو میں رکھ سکے۔
شھادت اور اس کے مقدمات
کوفہ کے حالات پر مکمل قابو پانے کے لئے حاکم شام نے زیادہ بن ابیہ کو گورنر بناکر بھیجا کیونکہ زیاد بن ابیہ شیعوں کو اچھی طرح جانتا تھا اور حاکم شام کے ھاتھوں اپنی آخرت کا سودہ کرنے سے قبل کبھی یہ حضرت علی (ع) کے چاھنے والوں میں سے تھا۔ لیکن دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ھوئے حق سے باطل کی طرف چلا گیا۔ التبہ زیادہ بن ابیہ کا حاکم شام سے ملنا شیعوں کے لئے خطر ناک تھا، کیونکہ وہ کوفہ کے شیعوں کو بھتر جانتا تھا۔ یھی وجہ ہے کہ جب وہ گورنر بن کر کوفہ آیا تو اس نےجناب حجر بن عدی کو بلا کر نھایت نرمی کے ساتھ کھا کہ اگر تم خاموش رھے اور میری مخالفت نھیں کی تو کوفہ کا خزانہ تمھارے لئے کھلا رھے گا، لیکن اگر میری مخالفت کی تو میں تمھارے خون کو اپنے لئے مباح سمجھوں گا۔(۱۴)
زیاد بن ابیہ 6 مھینہ کوفہ اور 6 مھینہ بصرہ میں رھتا تھا۔ چنانچہ بصرہ کی طرف روانہ ھونے سے قبل عمروبن حریث کو اپنا جانشین بناگیا، لیکن کچھ ھی دنوں میں کوفہ کے حالات بگڑنے کی خبر سن کر کوفہ واپس آگیا اور حاکم شام کے فرمان کے مطابق جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھ بارہ لوگوں کو گرفتار کر کے شام روانہ کر دیا۔
چنانچہ شام پھنچنے کے کچھ دنوں کے بعد، بعض لوگوں کی درخواست پر حاکم شام نے چھہ (6)لوگوں کو آزاد کردیا ، لیکن جناب حجر اور ان کے دیگرساتھیوں کو شھید کروادیا۔
 شھادت سے قبل جناب حجر اور ان کے ساتھیوں کے لئے قبر کھودی گئی، کفن تیار کیا گیا اور پھر اس کے بعد انھیں شھید کردیاگیا۔ چنانچہ وقت آخر جناب حجر نے کھا: عجب اتفاق ہے۔ کافروں کی طرح ھمیں قتل کرتے ہیں اورمسلمانوں کی طرح دفن کرتے ہیں۔(۱۵)
 رسول خدا (ص)کے اس جلیل القدر اور با وفا صحابی کو سن 51 ھجری میں شام کے مرج عذراء نامی علاقہ میں شھید کرکے وھیں سپرد خاک کردیا گیا۔
لمحہ فکریہ
بھرحال جناب حجربن عدی صحابی رسول تھے اور یہ تمام مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ چاھے کل انھیں شھید کروانے والا حاکم شام ھواور یا پھر آج ان کی قبر کو کھود کر ان کا جنازہ نکالنے والے سلفی ھوں، کیا صحابی رسول (ص) کا یھی احترام ھوتا ہے؟ اورسلفی جو خود کو پاسدار اور پیروے صحابہ کھتے ہیں، تمام عالم اسلام کو ان سے پوچھنا چاھیے کہ کیا صحابہ کی پیروی کا مطلب یھی ہے؟
یاد رھے کہ اگر آج مسلمان ایک صحابی رسول (ص) کی قبر کے نبش پر خاموشی ظاھر کریں گے تو عین ممکن ہے کہ کل یہ ھاتھ قبر رسول(ص) تک بھی پھنچیں اور ان کی جرائت میں مزید اضافہ ھو۔ لھذا اگر آج اس چنگاری کو نہ بجھایا گیاتو کل یہ ایک بھت بڑا شعلہ اور آتش فشاں بن کر عالم اسلام پر برسے گا اور اس وقت بارگاہ خدا میں دعائیں بھی مستجاب نھیں ھونگی، کیونکہ جو قوم امر بالمعروف اور نھی از منکر سے دست بردار ھوجائے تو اس کے اشرار ، ابرار پر غالب ھوجاتے ہیں اور وقت مصیبت دعاؤں بھی استجابت کا دروازہ بھی بندہ ھوجاتا ہے۔لہذا اس غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل کے خلاف تمام مسلمانوں کو آواز اٹھانی ھوگی اور اس کے ذریعہ اپنی زندہ دلی کا ثبوت دینا ھوگا ، ورنہ کل بھت دیر ھوچکی ھوگی۔ اس کے ساتھ ھی ساتھ مسلمانوں کو اپنی آنکھیں بھی کرلینی ھوگی کہ اور یہ دیکھنا ھوگا کہ کہھیں ایسا تو نھیں ہے وھابیت کی شکل میں یھودیوں نے اسلام کا لبادہ پھن لیا ہے اور اندر سے دیمک کی طرح اسلام کی جڑیں کاٹ رھے ہیں؟!!!۔
حوالے جات:
۱ ۔ صحیح البخاری ج 3 ص 1335 کتاب فضائل الصحابة بَاب فَضَائِلِ أَصْحَابِ النبی ۔
۲۔ أسدالغابةج 1ص 12 ،العدّةفی أصول الفقس،الفراءالحنبلی ج 3 ص 888۔
۳۔ اس مقام پر اس سے بحث نہیں ہے کہ مذکورہ تعریفیں کس قدر صحیح ہیں۔ ان شواہد صرف یہ استدلال مقصود ہے کہ وہ سلفی جو خود صحابہ کا پیرو اور ان کا پاسدار بتاتے ہیں۔ جناب حجر بن عدی کی قبر کے ساتھ توہین کے بعد، انہوں اپنے ہی ہاتوں اپنے اس اصول کو توڑدیا دنیا کے سامنے یہ آشکار کردیا کہ ان کے سلسلہ صحابہ کرام نہیں بلکہ کہیں اور جاکر ملتے ہیں۔ کیونکہ صحابہ کا ماننے والا کبھی ان کی توہین نہیں کرے گا۔
۴۔ ۔الجامعلأحکامالقرآن )تفسیرالقرطبی( ج 16 ص 288 ،اسمالمؤلف: أبوهبداللهمحمدبنأحمدالأنصاریالقرطبیالوفاة: 671 ،دارالنشر : دارالشعب - القاهرة۔
۵۔ گرچہ عدالت صحابہ ایک مستقل موضوع ہے اور ضروری نہیں ہے کہ امام قرطبی کے بیان ہم متفق نہ ہوں، لیکن اس مقام پر ان تعبیروں کو بیان کرنے کا مقصد صرف سلفیوں کا مبانی کو پیش کرنا ہے۔ اور پھر اس کے بعد یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح وہ اپنے ہی اصولوں کے خلاف عمل کرتے ہیں۔
۶۔ اعیان الشیعه، ج ۴، ص ۵۸۰.
۷۔ حاکم نیشابوری، مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۴۶۸.
۸۔ الاغانی، ج ۱۶، ص ۸۹.
۹ ۔اعیان الشیعه، ج ۴، ص ۵۸۰.
۱۰ ۔ وفد على النبي صلى الله عليه وسلم هو وأخوه هانئ، وشهد القادسية۔۔۔
۱۱۔ اعیان الشیعه، ج ۴، ص ۵۸۰.
۱۲ ۔ ابن حجر، الاصابه، ج ۱، ص ۳۲۹.
۱۳۔ وقعه صفین، ص ۱۰۴۔
۱۴۔ ابن سعد، طبقات، ج ۶، ص ۱۵۱.
۱۵۔ الدرجات الرفیعه، ص ۴۲۸.
 

Add comment


Security code
Refresh