www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اس طرح کے اعمال اسلام میں ھمیشہ سے ممنوع رھے ہیں اور ان کے مرتکب ھونے والوں کے لیے اسلام نے سخت سے سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔

 البتہ یہ بات مدنظر رھے کہ قرآن کریم میں چند مقامات پر کلمہ "ارھاب" کہ جو موجودہ عربی زبان میں ٹروریزم کے معنی میں لیا جاتا ہے استعمال ھوا ہے لیکن قرآن میں اس کے معنی خدا سے ڈرنے اور خوف کھانے کے ہیں۔ مثال کے طور پر اس آیت " وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّة وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّاللّهِ.انفال/۶۰" میں کلمہ ارھاب اللہ کے دشمنوں کو ڈرانے کے معنی میں ہے اور یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض اوقات اس کی سفارش بھی کی گئی ہے اور وہ اس وقت جب کفار اور مشرکین جو مسلمانوں کے ساتھ ھم پیمان ہیں خیانت اور غداری کا ارادہ رکھتے ھوں اس صورت میں کفار کو ڈرانا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کی دلیل اسی سورہ کی دوسری آیت ہے جو اس کے بعد ذکر ھوئی ہے " وان جنحوا للسلم فاجنح لھا۔ انفال/۶۱" اوراگر وہ صلح کی طرف مائل ھوں تم بھی ان کی طرف بڑھو۔
۱۹۹۱ءمیں سوویت ریپبلیکس یونین (Soviet Republics Union) کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ وہ امریکہ، جس کااس زمانے تک واحد رقیب سوویت یونین تھا اور امریکہ اپنی تمام تر اندرونی اور بیرونی مشکلات کو آسانی سے اس یونین کی گردن پر ڈال کر اپنا شانہ خالی کر لیتا تھا اس اعتبار سے، ایک طرف سے امریکہ کےاعتراض کرنے والے شھریوں اور دنیا کی سادہ لوح عوام الناس کو اپنی ناکارہ حکومت اور سیاست کے سامنے خاموش رکھنے اور ان کی زبان اعتراض کو بند کرنے کے لیے سوویت یونین کی طاقت کا بھانہ بنا لیتا تھا اور دوسری طرف سے سوویت کمونیزم کو دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دے کر اپنے ھم پیمان ممالک کو متحد بنانے کا حربہ استعمال کرتا تھا اس سوویت یونین کے ختم ھونے کے بعد بین الاقوامی طور پر امریکہ اب کسی کو اپنا رقیب اور دشمن نھیں پیش کر سکتا تھا تاکہ اپنی نالائقیوں کو اس کی گردن پر ڈال کر اپنا شانہ خالی کر کے دنیا کے بڑے ممالک کو اپنے ساتھ لے کر چل سکے اور اپنی بڑھائی اور سوپر پاور ھونے کو ثابت کر سکے۔ در حقیقت امریکہ ایک پرامن فضا میں اپنے مقاصد تک نھیں پھنچ سکتا تھا لھذا اس طرح کی فضا کا ایجاد کرنا دنیا میں اس کے نفع میں تھا اس لیے کہ وہ اپنے جنگی ساز و سامان اور فوجی ٹیکنالوجی کے ذریعے ھی دنیا کے اقتصاد پر اپنا قبضہ جما سکتا ہے اور اس طریقے سے وہ دنیا میں ایک سپر پاور طاقت شمار ھو سکتا ہے۔
اس وجہ سے سوویت یونین کے پاش پاش ھونے کے بعد امریکہ مکمل طور پر اس تلاش و کوشش میں تھا کہ دنیا میں ایک اور طاقت اپنے رقیب کے طور پر وجود میں لائی جائے گر چہ وہ فرضی ھی کیوں نہ ھو۔ لہذا اس میدان میں امریکہ زدہ بین الاقوامی سیاستمدار کہ جو CIA کے ساتھ منسلک ہیں امریکی اھداف کے حصول کی خاطر فرضی دشمن سازی کرتے ہیں۔ Samuel p Huntington ان اھم افراد میں سے ایک ہے جو امریکہ کے خارجی سیاستمداروں میں سے شمار ھوتا ہے۔وہ دنیا کے تاریخی مسائل پر غور و فکر کرنے کے بجائے امریکہ کی سیاسی اور اقتصادی پالیسوں کے نغمے گاتا ہے اس نے ایک نظریہ "تمدنوں کے ساتھ رفتار" کے عنوان سے پیش کیا اور اس کےبارے میں ایک کتاب بھی تحریر کی۔ وہ اس کتاب میں کوشش کرتا ہے کہ مشرقی تمدن مخصوصا اسلامی تمدن کو مغرب کا دشمن ثابت کرے۔ لیکن کچھ ھی عرصے کے بعد اس کی یہ لاعلمی بے نقاب ھو گئی اور عدم واقعیت پر مبنی محفلیں بے رونق ھو گئیں اور دنیا کے علمی مراکز اور شخصیات نے اس کے نظریات کا استقبال کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد امریکی سیاستمدار اور نظریہ پرداز اس کوشش میں لگ گئے کہ اس نظریہ کو مفھومی دنیا سے نکال کر عینی اور خارجی دنیا میں لائیں۔ اور عملی طور پر اسلامی تمدن کو مغرب کا دشمن ثابت کریں۔ اسی وجہ سے ۱۱ ستمبر کے واقعہ کا نقشہ کھینچا اور دنیا کے سامنے ٹروریزم نام کا ھوّا پیش کیا اور اس سے باخبر رھنے کا اعلان کر دیا اور پوری دنیا کو اس کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔اور اس کے بعد سے ھر آئے دن ایک نہ ایک حادثہ ٹروریزم کے نام پر وجود میں لایا جاتا ہے۔ دلچسب تو یہ ہے کہ ٹروریزم اور پوری دنیا میں بد امنی پھیلانے والے گروپ کو کتاب "تمدنوں کے ساتھ رفتار" میں مسلمانوں کی طرف نسبت دی جاتی ہے اور وہ اس بات کے دعویدار ہیں کہ اسلامی تعلیم ھی در حقیقت ٹروریزم کی تعلیم ہے اور اسلامی اداروں میں اس کی ترویج ھوتی ہے۔ ہم اس مقالہ میں یہ کوشش کرنا چاھتے ہیں کہ ٹروریزم کو اسلام کے اندر تلاش کریں اور یہ تحقیق کریں کہ کیا ٹروریزم کا اسلام سے کوئی ربط ہے؟
ٹرور کا مفھوم
کلمہ "ٹرور" فرانسوی زبان کا کلمہ ہے جس کے معنی ڈر اور وحشت کے ہیں۔ ٹروریزم کی کوئی جامع تعریف کرنا کہ جس سے اس کے تمام پھلو سامنے آجائیں بھت مشکل ہے۔ سازمان ملل ۱۹۷۲ سے ۱۹۷۹ تک اس کلمہ کی جامع تعریف پیش کرنے کی بھر پور کوشش انجام دیتی رھی ہے لیکن اس کی یہ تمام ترکوششیں ناکام ثابت ھوئیں اور ٹروریزم کے لیے کوئی جامع تعریف نھیں پیش کر سکی۔ لیکن اس کے باوجود اس موضوع کی اھمیت کی وجہ سے بعض لغت کی کتابیں اس کلمہ کی تعریف کرنے میں آگے بڑھی ہیں۔
ڈکشنری" فرھنگ دھخدا" اس کلمہ کے بارے میں لکھتی ہے: " ٹرور موجودہ دور میں رائج عربی کے لفظ " ارھاب " اور " اغتیال" کے مترادف استعمال ھوتا ہے۔
دوسری جگہ آیا ہے : ٹرور لغت میں وحشت اور خوف کے معنی میں آیا ہے۔ اور اصطلاح میں اسلحہ کے ساتھ سیاسی قتل کو ٹروریزم کھتے ہیں اور اس کے فاعل اور مرتکب ھونے والے کو ٹروریسٹ کھا جاتا ہے اس تعریف میں اسلحہ کے ذریعے سیاسی مقصد کی خاطر قتل کو ٹروریزم کھا گیا ہے اس بنا پر ٹرور سے مراد ھر طرح کا قتل و غارت اور خون خرابہ نھیں ہے۔
"ٹرورسٹی حکومت " پھلی بار سن ۱۷۹۳ میں فرانس کے اندر وجود میں آئی اس کے بعد یہ کلمہ سن ۱۷۹۶ میں فرانسوی لغات میں " وحشت انگیز نظام" کے معنی میں درج ھو گیا۔ اس کے بعد یہ کلمہ دوسری کتابوں کی طرف بھی سرایت کر گیا۔ ایک انگریزی ڈکشنری اس لفظ کی تعریف میں لکھتی ہے: ٹروریزم عبارت ہے: حکومتی اور غیر حکومتی تلاش و کوششیں جو وحشیانہ انداز میں اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرتی ہیں۔ اس تعریف میں ٹروریزم کی تعریف کا اصلی معیار "وحشیانہ اور ظالمانہ روش کو اپنانا ہے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر"۔ ایک اور انگریزی لغت کے اندر اس کی تعریف میں وحشیانہ روش کو سیاسی حکومت کی تبدیلی کی خاطر استعمال کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس تعریف میں واضح ھوا ہے کہ ٹروریزم یہ ہے کہ کسی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے یا معاشرے میں کوئی سیاسی یا سماجی تغیر و تبدل پیدا کرنے کے لیے دھشت کا ھتھیار استعمال کیا جائے۔
اسلامی کانفرانس ادارہ ٹروریزم کی تعریف میں یوں بیان کرتا ہے: اصطلاح ٹروریزم ھر طرح کے دھشت گردانہ عمل پر اطلاق ھوتا ہے جو انفرادی یا اجتماعی مجرمانہ اھداف کو حاصل کرنے کی خاطر لوگوں میں رعب و دبدبہ ایجاد کیا جاتا ہے یا انھیں نقصان پھنچانے یا ان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کو خطر ے میں ڈالنے، ان کی آزادی چھیننے اور ان کے حقوق پامال کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
اس تعریف کی بنا پر ٹروریزم ھر اس دھشت گردانہ اقدام کو کھا جاتا ہے جو قطع نظر اس کے اھداف کے لوگوں کو دھشت میں ڈالنے کی خاطر انجام دیا جاتا ہے اور لوگوں کی جانوں یا ان کے امن و سکون کو صدمہ پھچانے یا ان کے خصوصی یا عمومی اموال کو غارت کرنے کی خاطر انجام دیا جاتا ہے۔
بھرحال ٹروریزم کا اصلی اور بنیادی شاخص اور اس کی علامت کہ جس پر تمام اھل نظر متفق ہیں یہ ہے کہ ٹروریزم ایسا طے شدہ جرم ہے جو دھشت اور وحشت پھیلانے کے لیے انجام دیا جاتا ہے، جو لوگوں کے درمیان سیاسی مفاد کو حاصل کرنے کی خاطر رعب اور دبدبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر ھر طرح کا غیر قانونی اور غیر شرعی اقدام جو لوگوں کی زندگی میں خلل پیدا کرنے اور دھشت پھیلانے کی غرض سے انجام دیا جاتا ہے ٹرور کھلاتا ہے۔
ٹرور اور دھشت گردی اسلامی منابع میں
شیعہ فقھی منابع اور کتب میں " ٹرور" نام کی کوئی چیز نظر نھیں آتی۔ لیکن کچھ ایسے عناوین پائے جاتے ہیں جو تقریبا اس کے مترادف معنی رکھتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں ٹرور ان کا مصداق ہے۔ اس طرح کے اعمال اسلام میں ھمیشہ سے ممنوع رھے ہیں اور ان کے مرتکب ھونے والوں کے لیے اسلام نے سخت سے سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ البتہ یہ بات مدنظر رھے کہ قرآن کریم میں چند مقامات پر کلمہ "ارھاب" کہ جو موجودہ عربی زبان میں ٹروریزم کے معنی میں لیا جاتا ہے استعمال ھوا ہے لیکن قرآن میں اس کے معنی خدا سے ڈرنے اور خوف کھانے کے ہیں ۔ مثال کے طور پر اس آیت " وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّة وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّاللّهِ. انفال/ ۶۰" میں کلمہ ارھاب ڈرانے کے معنی میں ہے اور یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض اوقات اس کی سفارش بھی کی گئی ہے اور وہ اس وقت جب کفار اور مشرکین جو مسلمانوں کے ساتھ ھم پیمان ہیں خیانت اور غداری کا ارادہ رکھتے ھوں تو اس صورت میں کفار کو ڈرانا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کی دلیل اسی سورہ کی دوسری آیت ہے جو اس کے بعد ذکر ھوئی ہے" و ان جنحوا للسلم فاجنح لھا۔ انفال/۶۱" اور وہ صلح کی طرف بڑھیں تو تم بھی ان کی طرف بڑھو۔ البتہ جیسا کہ بیان کیا گیا اس آیت کا اصطلاحی ارھاب یعنی ٹروریزم کے ساتھ کوئی ربط نھیں ہے۔ اور یہ آیت ھماری بحث سے بھی مربوط نھیں ہے اس کے لیے ایک مستقل گفتگو کی ضرورت ہے۔ سورہ اعراف کی نویں آیت میں بھی یہ کلمہ اسی معنی میں سحر اور جادو کے سلسلے میں استعمال ھوا ہے سورہ بقرہ کی دسویں آیت میں بھی یہ کلمہ " ارھاب" بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے جس کے معنی ہیں خدا سے خوف رکھنا۔
البتہ مذکورہ آیات میں سے کسی ایک آیت میں بھی اصطلاحی ٹروریزم کا حکم بیان نھیں ھوا ہے۔ اور نہ ھی اس کا حکم ان آیات سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ لھذا اس مسئلہ کی زیادہ وضاحت کے لیے فقھی کتب میں بیان شدہ دوسرے عناوین کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اس موضوع کو بھتر انداز میں واضح کرنے کے لیے اسے دو مرحلوں میں تقسیم کرتے ہیں:
پھلے مرحلہ: انسان کی جان و مال کی حرمت اور اس کی بزرگی کی طرف اشارہ کرتے ھوئے یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام میں انسان کی جان و مال کی کتنی زیادہ اھمیت و قیمت ہے۔ یھاں تک کہ اسلام کسی بھی صورت میں اجازت نھیں دیتا کہ اس اصل کے اندر ذرہ برابر بھی خدشہ وارد کیا جائے انسانوں کی جانوں اور ان کے اموال کو صدمہ پھچانا اور انھیں تھدید کرنا تو بھت دور کی بات ہے۔
دوسرے مرحلہ : روایات اور فقھا کی کتابوں کے اندر بیان شدہ عناوین جیسے " محاربہ، فتک، اور غدر" وغیرہ کہ ٹرور جن کا ایک مصداق ہے بیان کیا جاتا ہے۔
۱: انسان کی کرامت اور بزرگی
قرآن کریم کی نص صریح کی مطابق، خدا وند عالم نے اولاد آدم کو ذاتی طور پر کرامت اور بزرگی عطا کی ہے۔ "وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَ حَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَي كَثِير مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلا" اسراء/ ۷۰" اور ھم نے انسان کو کرامت عطا کی ہے اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بھت سوں پر فضیلت دی ہے۔
اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ تمام انسان، ھر رنگ و نژاد، ھر طبقہ اور نسل رکھنے والے خدا کے یھاں قابل احترام ہیں۔ اور دوسری تمام مخلوقات پر برتری رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے خدا وند عالم نے اس برتر موجود کو خلق کرنے کے بعد ملائکہ کو سجدے کا حکم دیا اور شیطان نے جب سجدے سے انکار کیا تو خدا نے اس سے پوچھا :"مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ"ص/ ۷۵" کس نے تجھے منع کیا ہے سجدہ کرنے سے اس کے آگے جس کو میں نے اپنے دونوں ھاتھوں سے خلق کیا ہے۔ یہ تعبیر بتا رھی ہے کہ انسان نھایت گرانقدر موجود ہے جس کے لیے خدا نے یہ فرمایا "خلقت بیدیّ" دونوں ھاتھوں کی تعبیر اس کے خصوصی احترام کی دلیل ہے۔ اس کرامت اور بزرگی کا لازمہ " حق سلامتی " ہے یعنی انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امن و امان کےساتھ زندگی گزارے اور یہ ایسا حق ہے کہ جو اس کی بزرگی اور کرامت کے ساتھ سازگاری رکھتا ہے۔
اسی طریقے سے آیت " و لقد کرمنا۔۔۔" سے یہ بھی معلوم ھوتا ہے کہ انسان حق حیات کے مالک ہیں اور دوسرے اس کی رعایت کے مکلف ہیں اور جب تک کہ انسان خود اپنی کرامت اور بزرگی کو وحشیانہ اعمال کے ساتھ مخدوش نہیں کرے گا دوسرے مکلف ہیں کہ اس کا احترام کریں۔ یہ چیز تمام ادیان الھی کے اندر پائی جاتی ہے لیکن اسلام انسان کی ذاتی کرامت و بزرگی کے علاوہ معتقد ہے کہ انسان اس بزرگی کے علاوہ ایک عظیم بزرگی اور کرامت کا مالک بن سکتا ہے اور وہ بزرگی اور کرامت تقوائے الھی کے سائے میں میسر ھو سکتی ہے۔ "يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَر وَ أُنثَي وَ جَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَاللَّهِ أَتْقَاكُمْ"حجرات/۱۳" اے انسانو ھم نے تمھیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئیے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ہے جو زیادہ پرھیز گار ہے اور اللہ ھر شئے کا جاننے والا اور ھر شئے سے باخبر ہے۔
ذاتی کرامت اور بزرگی انسان کے لیے صرف شرافت کا زمینہ فراھم کرتی ہے۔ خداوند عالم انسان سے اس سے بالا تر کرامت اور بزرگی کا طلبگار ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے اختیار اور تلاش و کوشش سے اس تک پھنچے۔ اگر انسان اپنی شھوات اور ھویٰ و ھوس کی زد میں آ کر خدادادی استعدادوں کو پامال کر دے گا ان سے منہ موڑ لے گا اور اپنی ذاتی کرامت کو کھو دے گا اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے گا یقینا ایسا شخص نہ صرف اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کو کھو چکا ہے بلکہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے اورمعاشرے کی اجتماعی زندگی میں خلل ایجاد کرنے کی وجہ سے مجرم شمار ھوگا اور معاشرے کے افراد کے امنیت کو مد نظر رکھتے ھوئے اس کو سزا دی جائے گی اور اسے اس کے کیفر کردار تک پھنچایا جائے گا۔
اسلام کی نظر میں انسانی کرامت اتنی اھمیت کی حامل ہے کہ جن کے اندر روح ڈل جانے کے بعد اس کا سقط کرنا تمام فقھا کے اجماع ھو جانے کی بنا پر حرام ھو جاتا ہے۔ مگر یہ کہ کوئی اشد ضرورت یا اس سے بالاتر مصلحت پائی جاتی ھو۔ اس طریقے سے اسلام میں خود کشی سخت قابل مذمت قرار پائی ہے اور گناہ کبیرہ شمار ھوتی ہے۔ یھاں پر قرآن فرماتا ہے: "مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْس أَوْ فَسَاد فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً" مائده/ ۳۲" جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین پر فساد کی سزا کے علاوہ قتل کر ڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا ہے اس آیت کی بنا پر مذکورہ دو موارد( قصاص اور روئے زمین میں فساد) کے علاوہ کسی انسان کو قتل کرے گا تو گویا یہ تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے البتہ توجہ رھے کہ فساد کا مفھوم بھت وسیع ہے ٹرور کو بھی شامل ھوتا ہے۔ اس آیت کے یھاں پر بیان کرنے کی غرض صرف یہ تھی کہ اس نکتہ کو بیان کیا جائے کہ اسلام انسان کی منزلت اور شرافت کے لیے کہ جس کے مصادیق میں سے ایک انسانی زندگی بھی ہے بے انتھا اھمیت کا قائل ہے۔
دوسری آیت میں خدا وند عالم فرماتا ہے: "وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ"اسراء/ ۳۳ " اور کسی نفس کو جسکو خدا نے محترم بنایا ہے بغیر حق کے قتل بھی نہ کرنا۔
مذکورہ آیت کے علاوہ جو واضح طور پر قتل نفس کی ممنوعیت پر دلالت کرتی ہے اس سلسلے میں بھت ساری روایات بھی موجود ہیں جو لوگوں کے حقوق کی رعایت کرنے کو لازمی سمجھتی ہیں۔ حضرت علی (ع) مالک اشتر کو خطاب کر کے فرماتے ہیں: "و اَشعِر قلبكَ الرحمةَ لِلرعيَّةِ و لا تكوننَّ عليهم سَبعاً ضارياً تغتنم أكلَهم، فانّهما صنفانِ: اِمّا أخٌ لكَ في الدينِ أو نظيرٌ لكَ فِي الخلقِ"; اپنے دل کو لوگوں کی محبت اور عطوفت سے بھر دو اور ان کے ساتھ درندہ جانور کی طرح جو چیر پھاڑ کھانے کو غنیمت سمجھتا ہے ،رفتار نہ کرنا ۔اس لیے کہ لوگ دو طرح کے ہیں یا تمھارے دینی بھائی ہیں یا خلقت میں تمھارے مشابہ ہیں۔ حضرت امیر المومنین علی (ع) کے ان جملات سے یہ واضح ھوتا ہے کہ انسان کلی طور پر صاحب کرامت اور لائق احترام ہے۔
امیر المومنین(ع) دوسری جگہ زکات جمع کرنے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ لوگوں حتی ان کے جانوروں کو نہ ڈرائیں۔"... و لا تنفرنَّ بهيمةً و لا تفزعنَّها و لا تسوئنَّ صاحبها فيها..."
یہ روایت اولا، واضح طور پر زکات جمع کرنے والے افراد کو لوگوں کے ساتھ بد رفتاری کرنے سے منع کرتے ہیں پس بدرجہ اولی ٹرور کو بھی شامل ھو گی جو بد رفتاری کا آشکار مصداق ہے۔ ثانیا، آپ نے انھیں جانوروں کو بھی اذیت کرنے سے منع فرمایا ہے کہ حتی انکے جانوروں کو بھی نہ ڈرایا جائے لہذا کیسے ممکن ہے کہ انسانوں پر رعب و دبدبہ ڈالنے انھیں وحشت زدہ کرنے کو یعنی ٹروریزم کو جائز قرار دے دیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام کی نظر میں انسان صاحب کرامت اور شرافت ہے لہذا ھر وہ عمل جو انسان کی کرامت اور شرافت کو صدمہ پھنچائے اسلام کی نظر میں ممنوع اور قابل مذمت ہے منجملہ ٹروریزم۔
۲۔ ٹرور اور شیعہ فقہ میں دیگر ممنوعہ عناوین
۱لف: محاربہ
لغوی تعریف: محاربہ مادہ " حرب " سے " سلم " کی ضد ہے۔ زبیدی سھیلی سے نقل کرتے ہیں: " حرب؛ تیر پھینکنا، نیزہ مارنا،تلوار چلانا اور کشتی کرنا ہے کہ جو لڑائی کے دوران دو افراد کے درمیان وجود پاتا ہے"۔ پس " محاربہ" لغوی اعتبار سے دو طرفوں کے درمیان جنگ و جدال کو کھا جاتا ہے۔
" محارب" فقھاء کی اصطلاح میں وہ شخص جو دوسروں کو ڈرانے کے لیے اسلحہ اٹھا لے۔ صاحب جواھر شرائع الاسلام سے نقل کرتے ھوئے لکھتے ہیں: "المحاربُ كلُّ مَن جرَّد السلاحَ لاِخافةِ الناسِ في برٍّ او بحر ليلا او نهاراً في مصر و غيره." محارب کی یہ تعریف تھوڑے بھت جزئی اختلاف کے ساتھ بھت سارے دیگر فقھا کے یھاں مقبول واقع ھوئی ہے جیسے محقق اردبیلی نے مجمع الفائدہ، محقق حلی نے شرائع میں، علامہ حلی نے ارشاد الاذھان اور تبصرۃ المتعلمین میں، فخر المحققین نے ایضاح الفوائد میں، شھید ثانی نے مسالک الافھام میں، کاشف الغطاء نے کشف الغطاء میں رواندی نے فقہ القران میں اور شھید اول نے دروس میں محارب کی یھی تعریف کی ہے۔
فقھا نے اس تعریف کے اندر کچھ قیود اور عناصر کو ذکر کیا ہے کہ جن کی اھمیت کی وجہ سے ان کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ھوں:
۱: تجرید السلاح ( برھنہ ھتھیار) : ھتھیار اور اسلحہ کو صرف پاس رکھنا محارب ھونے کا سبب نھیں بنتا۔ بلکہ اسلحہ برھنہ ھو تاکہ محارب کی اصطلاح اس پر صدق کرے۔
۲: مکان: فقھا کی تعریف میں کوئی خاص مکان اور جگہ کو مد نظر نھیں رکھا گیا جھاں کھیں بھی کوئی ھتھیار کھینچے گا چاھے خشکی میں ھو یا تری میں، شھر میں ھو یا دیھات میں، دار السلام میں ھو یا دار الکفر میں، محارب کھلائے گا۔
۳: زمان: محارب کے لیے زمانے کی بھی کوئی قید و شرط نھیں ہے لھذا جس زمانے میں بھی یہ عمل انجام دیا جائے چاھے دن ھو یا رات محارب کھلائے گا۔
۴: ڈرانے کا قصد: اسلحہ کا برھنہ کرنا اور کھینچنا کافی نھیں ہے بلکہ یہ کام دوسروں کو ڈرانے اور لوگوں میں وحشت پیدا کرنے کی غرض سے ھو ۔ پس اگر کوئی کسی اور نیت اور قصد سے اسلحہ کو برھنہ کر کے گھومتا ہے تو وہ محارب نھیں کھلائے گا۔
معاشرے میں لوگوں کو ڈرانا: صرف اسلحہ کا گھر میں بیٹھ کر اس نیت کے ساتھ برھنہ کرنا کہ میں لوگوں کو ڈرا رھا ھوں کافی نھیں ہے بلکہ یہ عمل منظر عام پر انجام پائے، معاشرے میں کھا جائے کہ فلاں شخص نے اسلحہ اٹھا رکھا ہے اور لوگوں میں دھشت پھیلا رھا ہے۔ اسے محارب کھا جائے گا۔ اکثر فقھا نے " اخافۃ الناس" کی تعبیر استعمال کی ہے۔ اور ان کی مراد ان لوگوں کو ڈرانا ہے جن کو ڈرانا حرام ہے، چاھے کفار ھی کیوں نہ ھوں۔ پس بطور کلی لوگوں کے درمیان وحشت ایجاد کرنا جائز نھیں ہے چاھے کوئی بھی فرقہ ھو۔ مگر یہ کہ کوئی دلیل اور وجہ پائی جاتی ھو۔ صاحب جواھر نے اپنی اس بات کو قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت کیا ہے اور اجماع کا دعوی بھی کیا ہے۔
مزید دو قیدیں جو بعض فقھا کی تعریفوں میں ملاحظہ ھوئی ہیں ایک تعداد ہے یعنی چاھے ایک آدمی کو ڈرائے یا زیادہ کو ، یا محارب چاھے ایک شخص ھو یا زیادہ ھو فرق نھیں کرتا۔ دوسری قید جنسیت ہے جو مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے۔
بنا بر ایں اکثر فقھا کی نظر میں محارب کی تعریف کے اندر دو اھم قیود پائیں جاتی ہیں۔ پھلی قید یہ ہے کہ " اپنے اسلحہ کو برھنہ کرے" ۔ دوسری قید یہ ہے کہ جو شخص اسلحہ کو اپنے ساتھ رکھتا ہے " لوگوں کو ڈرانے کا ارادہ رکھتا ھو" چنانچہ بعض لوگ ذاتی طور پر خوف کا احساس کرتے رھتے ہیں یا اپنے کسی فعل سے ڈرتے ہیں بغیر اس کے دوسروں کو بھی ڈرائیں وہ محارب نھیں ہیں۔ دونوں قیود تعریف کے اندر دخالت رکھتی ہیں۔ لھذا گذشتہ تعریف کو مد نظر رکھتے ھوئے کھا جا سکتا ہے کہ ٹرور محارب کے آشکارا مصادیق میں سے ایک ہے۔
ب:فتک؛ اسلامی رویات میں " فتک" سے منع کیا گیا ہے۔ فتک کے معنی "سامنے والے کو قتل کرنا اس حال میں کہ وہ غافل ھو" کے ہیں۔ معتبر روایات میں آیا ہے کہ ابو صباح کنانی نے امام جعفر صادق (ع) سے عرض کیا: ھمارا ھمدان میں ایک پڑوسی ہے جب ھم امیر المومنین علی (ع) کے فضائل کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ گالیاں دیتا ہے۔ خدا کی قسم اگر اجازت دیں تو میں اس کی کمین میں بیٹھوں اور تلوار سے اس کی گردن الگ کر دوں۔ امام نے جواب میں فرمایا: "يا ابا الصباح، هذا الفتك، فقد نهي رسول الله(صلي الله عليه وآله) عن الفتك. يا ابا الصباح، انّ الاسلامَ قيَدَ الفتكَ." اے ابا صباح! یہ عمل فتک یعنی ٹرورہے اور رسول خدا (ص) نے اس عمل سے منع کیا ہے اے اباصباح اسلام فتک اور ٹرور کرنے سے شدیدا منع کرتا ہے۔
اسلام میں امام کو سب و شتم کرنا نبی کو سب وشتم کرنے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود امام صادق (ع) نے سب و شتم کرنے والے کو ٹرور کرنے سے منع کر دیا۔ اگر چہ یہ حکم ایک معین شخص کے بارے میں ہے لیکن روایت کے ذیل کی طرف توجہ کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے جو فتک کرنے سے منع فرمایا ہے وہ مطلق ہے کہ اسلام ٹرور کرنے سے منع کرتا ہے لہذا کسی بھی زمانے میں کسی کو بھی ٹرور کرنا اسلام کی نظر میں جائز نھیں ہے۔
ایک اور روایت اسی مضمون لیکن الفاظ میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ مسلم بن عقیل نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کی ہے۔ جب شریک بن عبد اللہ اعور ھانی کے گھر میں مریض ھوا عبید اللہ نے اس کی عیادت کا ارادہ کیا شریک نے مسلم سے کہا : کل وہ خبیث میری عیادت کو آئے گا میں اسے باتوں میں الجھا رکھوں گا جب پانی طلب کروں گا تم باھر آنا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دینا۔ دوسرے دن جب عبید اللہ شریک کی عیادت کرنے آیا مسلم ایک مخفی جگہ میں اس کے قتل کی نیت سے بیٹھ گئے لیکن جب قتل کرنے کا موقع آیا مسلم قتل کرنے سے منصرف ھوگئے۔ جب شریک نے منصرف ھونے کی وجہ معلوم کی تو جناب مسلم نے دو دلیلیں جواب میں ذکر کیں۔ پھلی دلیل یہ تھی کہ ھانی کے گھر میں عبید اللہ کو قتل کرنا مناسب نھیں ہے۔ اور دوسری دلیل یہ تھی کہ مجھے رسول خدا (ص) کی حدیث یاد آگئی کہ آپ نے فرمایا: "اِنّ الايمانَ قَيَد الفتكَ و لا يفتك مؤمنٌ" ایمان ٹرور کرنے کی اجازت نھیں دیتا اور مومن کبھی ٹرور نھیں کرتا۔اس روایت کو شیعہ سنی دونوں نے نقل کیا ہے۔ ایک اور روایت جو اس سلسلے میں پائی جاتی ہے اور اسے بھی شیعہ سنی دونوں نے نقل کیا ہے پیغمبر اکرم (ص) کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "مَن فتك بمؤمن يُريد نفسه و مالَه فدَمُه مباحٌ" جو شخص کسی مومن کی جان و مال کو ٹرور کرنے کا قصد رکھتا ھو اس کا خون مباح ہے۔
بعض روایتیں جھاد کے آداب کے بارے میں وارد ھوئی ہیں کہ جنھوں نے ٹرور کرنے کو جنگ کی حالت میں بھی منع کیا ہے۔ امن و امان کی حالت میں تو بدرجہ اولیٰ ممنوع قرار دیا ہے۔
ج: غدر؛ لغت میں عھد و پیمان کو توڑنے کے معنی میں ہے۔ اور اصطلاح میں دشمن کو امان دینے کے بعد اسے قتل کرنے کے معنی میں استعمال ھوتا ہے۔ بنا بر ایں، دوسروں کے ساتھ عھد و پیمان میں ھر طرح کا مکر و فریب غدر شمار ھوتا ہے۔ شیعہ فقھا نے حتی کفار کے ساتھ غدر کو حرام قرار دیا ہے۔ مرحوم علامہ حلی اس بارے میں لکھتے ہیں: "و یحرم الغدر بالکفار" بعض دوسرے فقھا بھی اسی مضمون کے ساتھ اس کے عدم جواز کی طرف اشارہ کرتےہیں جیسے" ولا يجوزُ التمثيلُ بِالكفّار ولا الغدر بهم ولا الغلولُ مِنهم." قاضی بن براج نے کلمہ "کفار" کی جگہ کلمہ " عدو " کو استعمال کیا ہے۔ "ولا يجوز التمثيل بالعدو ولا الغدر به." صاحب جواھر نے اس کے عدم جواز پر فقھا کے اجماع کا دعوی کیا ہے۔ اور دو چیزیں اس کی دلیل کے طور پر بیان کی ہیں ایک اھلبیت (ع) سے صریح روایت اس کے عدم جواز پر اور دوسرے یہ کہ غدر ذاتی طور پر فعل قبیح ہے کہ جس پر عمل کرنا اسلام سے دور ھونے کے مترادف ہے۔
علامہ حلی غدر کے جائز نہ ھونے پر رسول اسلام (ص) کی حدیث سے دلیل پیش کرتےہیں کہ آپ نے فرمایا: : "لاتغلوا و لا تمثّلوا ولا تغدروا". اور اسی طرح سے امام باقر علیہ السلام کی ایک روایت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ "ما مِن رجل آمَنَ رجلا علي ذمّته ثُمّ قَتلَه الاّ جاءَ يومَ القيامةِ يَحملُ لواءَ الغدرِ"; جو شخص کسی دوسرے کو امان دے اس کے بعد اسے قتل کر دے قیامت کے دن عھد توڑنے والے کا پرچم اٹھا کر چلے گا۔
ایک اور روایت جس سے اس سلسلے میں اکثر فقہا نے استناد کیا ہے امام صادق (ع) کی روایت ہے «لا ينبغي للمسلمينَ الغدرُ ولا يامروا بالغدر ولا يُقاتلوا معَ الّذين غَدَروا» مسلمانوں کے لیے سزاوار نہیں ہے کہ وہ پیمان شکنی کریں اور پیمان شکنی کا حکم نہ دیں اور پیمان توڑنے والوں کے ساتھ جنگ نہ کریں۔
پھلی روایت میں غدر کے حرام ھونے کی تصریح ھوئی ہے لیکن امام صادق اور امام باقر علیھما السلام کی روایات سے اگر چہ غدر کی حرمت نھیں سمجھ میں آتی لیکن پھلی روایت کے نص کی طرف توجہ کرنے سے اس میں موجود نھی کو حرمت پر حمل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ صاحب جواھر نے اشارہ کیا غدر قبح ذاتی رکھتا ہے اور جو چیز بھی ذاتی طور پر قبیح ھو شریعت کی نظر میں حرام ہے۔
حضرت علی (ع) نھج البلاغہ کے ایک خطبہ میں غدر کو ناپسند قرار دیتے ھوئے اسے گناہ کبیرہ میں سے شمار کرتے ہیں اور اس کے مرتک ھونے والے کو کافر گردانتے ہیں "والله، ما معاوية بادهي مِنّي ولكَّنه يَغدرُ و يفجُر، و لولا كراهية الغدرِ لكنتُ مِن ادهي الناسِ، ولكن كلُّ غدرة فجرةٌ، و كلٌ فجرة كفرةٌ، و لكلِ غادرِ لواءٌ يُعرف به يومَ القيامة" خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاستمدار نھیں ہے لیکن وہ حیلہ باز اور غدار ہے اگر مکاری اور غداری بری چیز نہ ھوتی میں سب سے زیادہ اس معاملہ میں تیز ھوتا لیکن مکاری گناہ اور ھر گناہ ایک طرح کا کفر ہے۔ اور ھر مکر و فریب کرنے والے کا روز قیامت ایک پرچم ھو گا وہ اس سے پھچانا جائے گا۔ خدا کی قسم میں فریب کاریوں سے غافل نھیں رھوں گا اور سختیوں کے آگے کمزور نھیں پڑوں گا۔
قرآن کریم نے واضح طور پر " غدر" کی طرف اشارہ نھیں کیا اور کسی فقیہ نے بھی قرآن کی کسی آیت سے استناد نھیں کیا صرف مرحوم شیخ طوسی نے اپنی کتاب الخلاف میں اس آیت " و ثیابک فطھر" ( مدثر،۴) کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ ابن عباس کا کھنا ہے: "معناہ فطھر من الغدر" یعنی اپنے آپ کو غدر سے پاکیزہ رکھو۔
نتیجہ
اسلام کی نظر میں انسان ذاتی کرامت اور شرافت کا مالک ہے اور اس کا خون محترم ہے مگر یہ کہ کچھ لوگ اپنے اختیار سے اپنی حرمت کو توڑ کر اپنے خون کو مباح قرار دیں۔ قرآن کریم نے اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور لوگوں کو انسانی حرمت کا دائرہ توڑنے سے منع کیا ہے مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے کو جان بوجھ کر قتل کر دیتا ہے اس کے ورثا حق رکھتے ہیں کہ اس سے قصاص لیں ۔ کلی طور پر انسان کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھنا واجب ہے اور اس کی حرمت کو توڑنا ٹرور کے مترادف ہے۔ البتہ خاص طور پر بھی بعض روایات میں فتک ، محاربہ اور غدر وغیرہ کی نھی ھوئی ہے کہ جن میں سے بعض روایات جنگ کے موقع سے مخصوص ہیں ان روایات سے معلوم ھوتا ہے کہ جب جنگ کے میدان میں یہ چیزیں جائز نھیں ہیں توکیسے عام حالات میں سماج کے اندر یہ چیزیں (غدر و فتک ) جائز ھو سکتی ہیں؟
مذکورہ تعبیرات کے علاوہ بعض دوسری روایات اور فقھا کی عبارتوں سے مخصوص جو روایات آداب جھاد کے بارے میں وارد ھوئی ہیں ان سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اصلا روح اسلام ٹرور کے ساتھ مخالف ہے۔ مثال کے طور پر فقھا نے صراحتا یہ کھا ہے کہ کفار کے پانی میں زھر ملانا جائز نھیں ہے "لا يجوزُ اَن يُلقي السّمُّ في بلادِهم." اس عبارت سے بخوبی یہ معلوم ھوتا ہے دشمن کو ختم کرنا ھر ممکن راستے سے جو انسانیت کے خلاف ھو جائز نھیں ہے۔ شیعہ فقھا شبخون مارنے کو حتی جنگ کے دوران بھی جائز نھیں سمجھتے۔ مرحوم صاحب جواھر نے مختلف فقھی کتابوں سے اس مسئلہ کو نقل کیا ہے۔ اور نبی اکرم (ص) کی سیرت یہ تھی کہ کبھی کسی پر رات کی تاریکی میں حملہ نھیں کیا۔
امیر المومنین (ع) کی سیرت میں جنگ صفین کے دوران یھی چیز نظر آتی ہے جب معاویہ کے لشکر نے آپ کے لشکر والوں پر فرات کا پانی بند کر دیا اس کے بعد امیر المومنین کے لشکر والوں نے ان پر شجاعانہ حملہ کیا اور فرات کو واپس لے لیا آپ کے ایک سپاھی نے پیشنھاد دی کہ ھمیں بھی ان کے ساتھ ویسا ھی سلوک کرنا چاھیے لیکن امیرالمومنین (ع) نے اس کی پیشنھاد کو رد کر دیا اور دشمن پر پانی بند نھیں کیا۔ اس واقعہ سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ غیر مردانہ حرکت اور روش اسلام کے اندر کسی بھی صورت میں جائز نھیں ہے چاھے جنگ کا زمانہ ھو یا امن کا۔چہ جائیکہ ٹرور۔
المختصر مذکورہ تمام بحثوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسلام میں دھشت گردی اور ٹروریزم کی بالکل کوئی جگہ نھیں ہے بلکہ قابل مذمت، ممنوع اور محکوم ہے اور اسلام دھشت گردانہ اور ٹرورسٹی افعال انجام دینے والوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا حکم دیتا ہے۔ (تحریر :سید افتخار علی جعفری) 

Add comment


Security code
Refresh