www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ شخصیت جس نے محرومین کو زبان عطا کی اور ظالم و جابر کو ببانگِ دھل ظالم کھنے کا شعور دیا اور دنیا بھر کے دانشوروں کے سامنے قیادت کا بے لوث معیار پیش کیا۔اس کا نام سید روح اللہ الموسوی الخمینی  ہے

اورآج ھمیں بھی ان اسلامی جام میں"ولایتی شراب"پیش کرنے والوں سے چھٹکارے کا واحد راستہ راہِ امام خمینی (رہ) کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
حالات کے دوش پر سفر کرنے والا کردار تاریخ کا کردار ہے لیکن حالات کی تخلیق کرنے والا کردار"تاریخ ساز کردار "ہے۔ مردانِ ھمت تاریخ اور وقت کے دربارِ کجکلاھی میں جان نہ چھوڑنے والے سائل کی طرح کا سہ بردار گدا گر نھیں بنتے بلکہ اپنی جرات و ھمت اور فکر وتدبر سے تاریخ کے دھارے کو بدل دیتے ہیں یا ان بانکے نوجوانوں کی طرح جنھوں نے بسترِ شباب کو حقارت سے دیکھ کر عروسِ شھادت کو گلے سے لگا لیا اور قدسیوں کی ضیافت میں پھنچ گئے کے راستے کو اپنا لیتے ہیں۔
حالات کے سائے میں سفر کرنے والے کو اگر ابن الوقت کھتے ہیں تو حالات کے ساتھ ٹکرا کر نبضِ وقت کو اپنی گرفت میں لینے والے کو ابوالوقت کھنا چاھیے۔ وقت کے بدلتے حالات میں سیاستدان اور نام نھاد مذھبی رھنما حصولِ اقتدار کی خاطر بنیادی پالیسی تبدیل کردیتے ہیں ۔صبح ایک نوٹیفیکشن جاری کرتے ہیں اور شام کو کھتے ہیں نھیں ھم نے نھیں کیا اور اس طرح اپنے بنیادی نظریہ سے منحرف ھو جاتے ہیں یھی ابن الوقتی ہے۔دنیا میں اس وقت کم و بیش پچاس ایسی حکومتیں ہیں جو اسلامی حکومتیں کھلاتی ہے کیا یہ سب حکومتیں واقعاً اسلامی حکومتیں ہیں؟ یا صرف اس بنا پر کہ ان کے حکمران واقعاً یا برائے نام مسلمان ہیں۔ان حکومتوں پر اسلامی حکومت کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے اگر اس مسئلہ پر حقائق کی روشنی میں انصاف سے غور کیا جائے تو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ درحقیقت حکمران کا مسلمان ھونا اس بات کی دلیل نھیں کہ حکومت بھی اسلامی ھو۔اس وقت آپ عوام کو چھوڑئیے پڑھا لکھا طبقہ خواہ وہ یونیورسٹی کا فارغ الحتصیل ھو یا دینی طلاب کا طبقہ ھو اسلام کو درست طریقہ سے نھیں سمجھا اور غلط فھمی میں مبتلا ہے جس طرح لوگ اجنبی مسافر کو نھیں پھچانتے اسی طرح یہ لوگ اسلام کو نھیں پھچانتے ۔اسلام اس وقت دنیا میں غریب الوطنی کی زندگی بسر کررھا ہے اور اگر کوئی اسلام کی بات کرے تو معاشرے میں موجود روایتوں کی سیاہ پوشاک پھننے والے استعماری ایجنٹ یا عدم ریاضت والے مبلغین شورو غوغا مچا دیتے ہیں۔اور اس طرح اگر کوئی جمھوریت،آمریت و شھنشائیت کے مقابلے میں اسلامی حکومت کی بات کرنا چاھے تو اسے استعمار سے زیادہ لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اگر ھم تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو جب اسلامی اقدار روبہ زوال تھی،اسلامی احکام کا سرعام مذاق اُڑایا جا رھا تھا۔ اسلام بنی امیہ کی سفاک نسل کے خونی پنجوں میں سسک رھا تھا اور باطل اسلام کی نقاب پھن کر اسلام کو مٹانے کیلئے یزید کے روپ میں منبرِ دمشق سے تکذیب رسالت کررھا تھا تب اسلام کی نگاھیں وارثِ رسول،سردار جوانانِ جنت حسین ابن علی (ع) پر مرتکز ھو کر رہ گئیں۔
امام حسین (ع) کا مشھور خطبہ جو آپ نے منیٰ کی سرزمین پر ھزاروں مذھبی عمائدین کے رو برو دیا اس بات کی گواھی ہے کہ قوانین و احکام کی تشکیل کا حق صرف اور صرف خدا کی ذات کو ہے نہ کہ عوام کے منتخب شدہ نمائندوں کو جو قیمتی سگاروں کی دھواں چھوڑنے کے بعد ڈینگیں مارتے ہیں۔
امام حسین (ع) کے اس مشھور خطبہ منیٰ کو سلیم بن قیس ھلالی(وفات90ھجری) اور چوتھی صدی ھجری کے عظیم محدث حسن بن شعبہ حرانی نے اپنی گرانقدر کتاب"تحف العقول" میں نقل کیا ہے۔ خطبے کے ایک حصہ میں امام حسین (ع)فرماتے ہیں:"تعجب ہے! اور کیوں تعجب نہ ھو ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ھاتھ میں ہے۔اس کے مالیاتی عھدے دار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے گورنر مومنوں کیلئے سنگ دل اور بے رحم ہیں اللہ ھی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ھمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وھی ھمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔ بارالھا!تو جانتا ہے کہ جو کچھ ھماری طرف سے ھوا ہے وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اور نہ ھی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ھم چاھتے ہے کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کردیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں"امام حسین (ع) اپنے اس نورانی اور تاریخی خطبے میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اگر اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم نہ کی جائے تو پھر قدرتی طور پر یہ ھوگا کہ اس کی جگہ ظالم و ستمگر اور بد قماش افراد معاشرے پر چھا جائیں گے۔
اس اسلامی پس منظر اور آزادی کیلئے جدوجھد کے باوجود پاکستان کے مذھبی رھنما نہ تو دینی بنیادی پر متوازن نظام حکومت عوام کے سامنے پیش کرسکے ہیں اور نہ ھی عامتہ الناس کو مذھبی طبقہ کی فکری تخلیقی صلاحیت پر اعتماد ہے۔ بد قسمتی سے مذھبی قیادت گروھی اور مسلکی تنازعات میں اس قدر اُلجھی ھوئی ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا پروگرام ھی نھیں جس میں لوگوں کو ظلم و جبر سے نجات کا راستہ نظر آتا ھو۔ سیاسی سطح پر آج پاکستان کے شھری بے یقینی کا شکار ہے کیونکہ انھوں نے محسوس کر لیا ہے کہ مٹھی بھر سیاسی اکابرین نے قوم کو یرغمال بنا لیا ہے ۔سیاسی قیادت سے فوجی لیڈر شپ تک انقلاب کا جھوٹا نعرہ لگا کر اقتدار پر قابض ھوتی ہے۔مذھبی اکابرین نے نظام مصطفی(ص) کا نعرہ دے کر لوگوں کو بے یقینی کے صحرا میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔یہ نام نھاد رھنما اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے سر گرداں نظر آتے ہیں۔ جمھوریت کا نام اس لئے لیتے ہیں کہ ان کے وسائل محفوظ رھیں۔ وہ نظام جس کی بنیاد استحصال اور دریوزہ گری پر ھو وہ قوم کے مسائل کا حل پیش نھیں کرسکتے۔ یہ نظام تو فرعون اور قارون کی وراثت ہے جسے ارکان حکومت قائم رکھے ھوئے ہیں۔
بقول مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال

گریزازطرز جمھوری غلامِ پختہ کارِ شو
کہ از مغز دوصد خرفکر انسانی نمے آید
"جمھوری نظام سے دور بھاگو اور کسی صاحب کردار،صاحب علم و عمل پختہ کار کو اپنا رھبر بناؤ کیونکہ دو سو گدھوں کی عقل مل کر انسانی عقل کے برابر نھیں ھو سکتی"۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ شخصیت جس نے محرومین کو زبان عطا کی اور ظالم و جابر کو ببانگِ دھل ظالم کھنے کا شعور دیا اور دنیا بھر کے دانشوروں کے سامنے قیادت کا بے لوث معیار پیش کیا۔اس کا نام سید روح اللہ الموسوی الخمینی اورآج ھمیں بھی ان اسلامی جام میں"ولایتی شراب"پیش کرنے والوں سے چھٹکارے کا واحد راستہ راہِ امام خمینی (رہ) کو اپنانے کی ضرورت ہے۔پاکستانی معاشرہ میں اسلامی انقلاب کے اثرات آھستہ آھستہ مرتب ھو رھے ہیں ۔ ھمارے دانشوروں اور عوام نے انقلاب کے محرکات و اسباب و تنائج اور انقلابی طور طریقوں پر غور کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ کافی پھلے ھو جانا چاھیے تھا۔اب ھمارے مذھبی عمائدین کو بھی معلوم ھو گیا ہے اس وطن عزیز کو بار بار جمھوریت و آمریت کے سپرد کر دیا جاتا ہے جس کے حکام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے خود سری دیکھاتے ہے۔ پاکستان کے بھت سے حصوں میں پینے کیلئے صاف پانی میسر نھیں ہے اور دوسری طرف ان حکمرانوں کی ٹائیلٹ میں منرل واٹر استعمال ھوتا ہے ریاستی ایجنسیاں اور سیاسی کارکن انقلابی فکر و انقلابی عمل کا گلا گھوٹنے کی ناکام کوشش میں مصروف عمل ہیں لیکن جن لوگوں نے انقلابِ اسلامی کو قریب سے دیکھا ہے وہ انقلابی عمل سے وارفتگی کی حد تک وابستگی رکھتے ہیں اورتا دمِ آخر اس پیغام کوھر طبقے تک پھنچاتے رھیں گے ۔
اب آخر میں یہ پیغام احمد فراز مرحوم کے اشعار کی صورت میں عرض کرتا چلوں۔
میرا قلم نھیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چھرے پہ دوھرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم نھیں تسبیح اُس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ھر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
تبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے

میں کٹ گروں کہ سلامت رھوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
تحریر: حسن رضا تقوی,سابق صدر امامیہ اسٹوڈنٹس اورگنازیشن پاکستان 

Add comment


Security code
Refresh