www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

(تحریر: علامہ سید جواد نقوی)
قومیں جب جمود اور سکوت کا شکار ھوجائیں تو ان پر ھر طرح کا ظلم ڈھایا جاتا ہے ، ایسی قوموں میں ظلم عام ھوجاتا ہے، نا انصافی بڑھ جاتی ہے ، امن و امان کا خاتمہ ھوجاتا ہے ،

بھوک و افلاس کا منحوس سایہ چھا جاتا ہے ، یزید جیسے ظالم برسر اقتدار آجاتے ہیں ، بنو امیہ جیسے بیت المال کے لٹیرے قوم پر حاکم ھوجاتے ہیں ، عزت و ناموس لٹ جاتی ہے ، قیمتی جانیں ضائع ھو جاتی ہیں ، ملک غیر محفوظ ھوجاتا ہے ، ملت بے آبرو اور دین غیر محفوظ ھوجاتا ہے ۔
وطن کی فکر کر نادان - عوامی رد عمل کے فقدان کے اسباب
"۔ ۔ ۔إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ …'' (رعد١١)
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نھیں بدلی نہ ھو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ویسے تو پاکستان جب سے بنا ہے ھر روز پاکستانی قوم کو ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن گزشتہ ٢٠ سالوں سے پاکستان پیچیدہ ترین حالات کا شکار ہے۔ ان دو دھائیوں کی صورتحال دیکھ کر ھر پاکستانی کے ذھن میں متعدد سوالات سر اٹھاتے ہیں ، مثلاًیہ کہ پاکستان ان بحرانوں کا شکار کیسے ھوا؟ کون لوگ اس کے ذمہ دار ہیں؟ کس کس نے پاکستان کے ساتھ خیانت کی ہے؟ اس گمبھیر صورت حال میں بیرونی مداخلت کا کتنا حصہ ہے؟ داخلی عوامل کون کونسے ہیں؟ مختلف طبقات نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ حکمرانوں کا اس میں کیا رول ہے؟ سیاستدانوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کیا رھی ہے؟ مذھبی طبقے نے اس میں کیا گل کھلائے ہیں؟ سیکولر طبقے نے کیا کیا ہے؟ میڈیا کا رول اس صورت حال کی پیدائش میں کیا ہے؟ اھل قلم نے کیا کیا ہے ؟ تعلیم یافتہ طبقہ اس میں کتنا ذمہ دار ہے؟ بیوروکریسی نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ فوج اور فوجی جرنیل اس میں کس حد تک ملوّث ہیں؟ علماء کا کارنامہ کیا ہے؟
یہ سب نھایت اھم سوالات ہیں جو ھر باشعور پاکستانی کے ذھن کو جھنجھوڑتے ہیں ۔ مذکورہ طبقات کی کارکردگی اتنی واضح ہے کہ جواب کے لئے کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نھیں ھوتی ۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال میں پاکستانی عوام کا کردار
ھم اس تحریر میں ایک نھایت ھی پیچیدہ سوال کا جواب تلاش کر نے کی کوشش کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان ماضی میں جس صورت حال سے دوچار رھا ہے اور آج جو مشکلات پاکستان کے گریبان گیر ہیں ان میں عوام کا کردار کیا ہے ؟ کیونکہ آئے دن پیدا ھونے والے بحرانوں میں عوام پریشان ضرور ھوئے ہیں ، گھبرائے ضرور ہیں ، خوفزدہ بھی ھوئے ہیں لیکن عملی طور پر اس ساری صورت حال سے لاتعلق بھی رھے ہیں۔ ان بحرانوں میں ایسے حالات بھی پیش آئے ہیں جو پاکستان کو عوام سمیت ڈبو سکتے تھے۔ ایسے حالات میں بھی عوامی سطح پر خوف و ھراس اور گھبراہٹ و پریشانی کے علاوہ کوئی عکس العمل سامنے نھیں آیا۔
پاکستان ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ھوگیا لیکن عوامی سطح پر کوئی چشم دید حرکت سامنے نھیں آئی ، حکمران ھوسِ اقتدار میں مست ھوکر عوام پر ظلم ڈھاتے رھے لیکن ان کی طرف سے کوئی رد عمل ظاھر نھیں ھوا، لوگوں کا استحصال کرنے والے سرمایہ دار اور جاگیر دار عوام کے خون پسینے سے حاصل کی گئی ضروریات زندگی ان سے چھین کر غارت کرتے رھے لیکن پاکستانی قوم نے ان کے مقابلے میں کبھی کوئی خاطر خواہ احتجاج بھی نھیں کیا۔
آئے دن فوجی بغاوتوں کے ذریعے منتخب حکومتیں ختم کی گئیں ، مارشل لا لگائے گئے ، ملکی آئین توڑا گیا ، انتخابات میں دھاندلیاں ھوئیں ، عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ، کھلم کھلا بیت المال لوٹا گیا ، عدالت و انصاف کا دن دھاڑے گلا کاٹا گیا ، آمروں نے عوام کو بے دردی سے کچلا، ملک کو غیروں کے ھاتھ فروخت کیا گیا ، امریکہ کی ایما پر افغان جنگ میں نامعقول انداز سے حصہ لیا گیا ، پر امن ملک میں کلاشنکوف کلچر فروغ دیا گیا ، بچے بچے کو منشیات کا عادی بنایا گیا ، جھاد کے نام پر دھشت گرد پالے گئے ، حکومت کی سرپرستی میں فرقہ واریت کو ھوا دی گئی ، خفیہ سروسز کے ذریعے دھشت گردوں کے نیٹ ورک بنائے گئے ، عرب اور غیر عرب درندوں کو پاکستان میں بسایا گیا ، لشکر بناکر قوم کے بچوں کو جھاد کے نا م پر دھشت گردی کی راہ پر ڈالا گیا ، طالبان کی پرورش کے لئے مدارس بنائے گئے اور مدارس کی سرپرستی کی گئی ، سعودی عرب جیسے ممالک کو پاکستان میں تکفیری اور نفرت انگیز نظریات پھیلانے کی مھلت دی گئی ، اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کے لئے امریکہ جیسے خونخوار کا سھارا لیا گیا ، امریکی ایما پر تمام پالیسیاں بدل دی گئیں ، قدیر خان جیسے پاکستان کے محسن اور قوم کے ھیرو کو دنیا کے سامنے مجرم بناکر پیش کیا گیا، ایٹمی تنصیبات کے دروازے غیروں کے لئے کھول دیئے گئے ، دین و مذھب کا مذاق اڑانے کے لئے ھر بیھودہ ھتھکنڈا استعمال کیا گیا ، دھشت گردوں کو پناہ دے کر امریکی اور نیٹو افواج کی مداخلت کا جواز پیدا کیا گیا، پاکستان سے سادہ لوح افراد کو مجاھد بناکر افغانستان بھیجا گیا ، پھر افغانستان سے انھیں دھشت گرد بناکر پاکستان آباد کیا گیا ، ان درندوں کو اتنی مھلت دی گئی کہ پورے ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر سکیں ، ملک میں بے گناہ انسانوں کا خون بھانے کے لئے ان خونخوار بھیڑیوں کو مھلت دی گئی ، دھشت گردی کے خلاف نام نھاد جنگ میں پاکستان کا امن و امان تباہ کر دیا گیا ، اپنے ھی ملک پر غیر ملکی افواج کو حملے کی دعوت دی گئی ، پاکستان کی سر زمین پاکستانیوں کے لئے نا امن بنا دی گئی ، مصنوعی بحرانوں میں مبتلا کر کے قوم کو بنیادی ضرورتوں سے محروم کیا گیا ، مھنگائی کا عفریت ایجاد کر کے متوسط طبقے کو فقیر اور فقراء کو فاقوں کی حد تک پھنچا دیا گیا ، اقتدار میں آنے کے لئے سرعام امریکہ سے سودے بازی کی گئی ، سزا یافتہ مجرموں کے گھناؤ نے جرائم معاف کر کے انھیں حکومتی منصب تفویض کئے گئے ، مذھب کے نام پر پاکستانی مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنایا گیا ، وحدت کی بجائے تفرقہ اور محبت کے بجائے نفرت کے بیج بوئے گئے ۔
مسجدوں میں عبادت کے بجائے نفاق کی تعلیم دی جا رھی ہے ، تعلیمی مراکز تباہ حال اور ویران ھو رھے ہیں ، فساد و فحشا کا بازار گرم ہے ، لوگوں کی جان، مال ، عزت حتیٰ کہ زندگی تک محفوظ نھیں ہے، پاکستان سیاسی طورپر ناکام ریاست ، مالی طورپر دیوالیہ ، عسکری لحاظ سے مفلوج ، اجتماعی لحاظ سے تباہ اور سلامتی کے حوالے سے خطرناک ترین اور نا امن ترین سرزمین کا لقب پاچکا ہے ، قوم پرستی ملکی وحدت کو نگل رھی ہے ، صوبوں میں احساس محرومیت زور پکڑتا جا رھا ہے ، پاکستانی حکمرانوں ، سیاستدانوں اور جرنیلوں کی گرفت روز بروز ڈھیلی پڑتی جا رھی ہے ، دنیا میں بدنام ترین مملکت کا اعزاز پاکستان کو مل چکا ہے ، پاکستان اپنے دوستوں کو مکمل طور پر کھوچکا ہے ، عالمی خصوصاً مغربی اور امریکی میڈیا میں پاکستان کے ٹوٹنے اور معاذ اﷲ خاتمے کے دن گنے جا رھے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود پاکستانی عوام کی جانب سے کسی قسم کا رد عمل سامنے نھیں آیا اور مستقبل قریب میں اس کی امید بھی نھیں ہے ، لوگ پرانے زخموں کو بھول کر نئے شکنجوں کی انتظار میں بیٹھے ہیں ، بد سے بدتر کی توقع قوم کا مزاج بن چکی ہے ، ھر فاسد حکمران کے بعد اس سے بڑے لٹیرے کو انتخاب کرنے کے لئے الیکشن میں بھرپور حصہ لیتے ہیں ، ایک تباھی کے بعد دوسری تباھی کو اپنا مقدر سمجھ کر خاموش بیٹھے ہیں، میڈیا جیسے خناس کے وسوسوں میں الجھے ھوئے اذھان اس مخمصے میں پڑے ہیں کہ خونخوار درندوں کو مجرم کھیں یا ھیرو سمجھیں ، خود کش حملوں میں مرنا قضائے الٰھی سمجھ کر اپنی قسمت پر راضی رھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ھماری سوچ اور قرآن کاقانون
مجرموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ، فسادی ملاؤں کو امام ماننا، کرپٹ بیوروکریسی کے ساتھ سمجھوتہ کرنا اور بدکردار سیاستدانوں کی شیطانی سیاست پر کھیلنا آھستہ آھستہ اس قوم کا مزاج بن گیا ہے، گویا پاکستانی قوم اس بات پر یقین کر بیٹھی ہے کہ پاکستان کے حالات کبھی نھیں سدھریں گے لھٰذا انھیں اور ان کی نسلوں کو ایسے ھی زندہ رھنا ھوگا جبکہ اﷲ تعالیٰ کا حکم اس سے ھٹ کر ہے ۔ قرآن کا فرمان اس سوچ کے برخلاف ہے ۔ عقل سلیم اس بے منطقی کو قبول کرنے کے لئے تیار نھیں ہے ۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
"۔ ۔ ۔إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ۔ ۔ ۔"
خدا وند تعالیٰ کے اس آسمانی اور قرآنی فارمولے کا ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے بھت خوبصورت انداز میں کیا ہے ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نھیں بدلی نہ ھو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
قرآن مجید میں خدا وند متعال نے بھت ساری قوموں کے حالات مسلمانوں کی ھدایت کے لئے ذکر فرمائے ہیں جن میں قوموں کے عروج اور زوال کو عینی شواھد کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کس طرح قومیں وجود میں آتی ہیں، کس طرح عروج کی منزلیں طے کرتی ہیں اور کیسے زوال پذیر ھوتی ہیں ، قوموں کو عزت کیسے ملتی ہے اورذلیل کیسے ھوتی ہیں۔ قرآن نے قوموں کی کامیابی اور ناکامی کے اسباب بیان کئے ہیں اور ان کی ترقی اور انحطاط کے راستے بھی ذکر کئے ہیں۔
ان قرآنی آیات کا مقصد ھرگز یہ نھیں تھا کہ ان پر خوش خطی کی جائے،انھیں مُردوں پر پڑھا جائے، ان پر سریں جمائی جائیں، ان سے استخارے نکالے جائیں یا ان پر تفسیری علوم و فنون کی مشقیں کی جائیں۔
بلکہ اس قسم کی آیات کے نزول کا مقصد مخاطبین قرآن کو یہ بتانا تھا کہ ان کا ملک آباد کیسے ھوتا ہے ، اس میں امن و امان کیسے برقرار ھوتا ہے، اس کے اندر رزق کی فراوانی کیسے ھوتی ہے ، لوگوں کے جان و مال کیسے محفوظ رھتے ہیں ، دھشت گردی پر کیسے قابو پایا جاتا ہے ، مھنگائی کیسے کنٹرول کی جاتی ہے ، عزت و عظمت تک کیسے پھنچا جا تا ہے ، ملک کا دفاع کیسے مضبوط ھوتا ہے ، محبت و الفت کیسے بڑھتی ہے ، سیاسی استحکام کیسے پیدا ھوتا ہے ، غلامی سے کیسے نجات ملتی ہے ، فاسد سیاستدانوں سے کیسے نجات ملتی ہے ، دین فروش ملاؤں سے کیسے چھٹکارا ملتا ہے ، مساجد ضرار کیسے ڈھائی جاتی ہیں ، مستکبر اور مستبد آمروں سے کیسے نجات ملتی ہے ، فقر و فاقہ اور افلاس سے ملک کیسے دور ھوتا ہے ، علم و ٹیکنالوجی میں ترقی کیسے ھوتی ہے ، دشمنوں کے مقابلے میں طاقت کیسے حاصل ھوتی ہے ، منافقوں کی پھچان کیسے ھوتی ہے ، جان پر کھیل کر ملک و ملت بچانے والے کون لوگ ھوتے ہیں ، عوام کو دھوکا دینے والے کون ھوتے ہیں ، مکاروں کے مکر سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور زمانے کی سختیوں کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے ۔
ان تمام مقامات ، اقدامات اور اعمال کی کلید بھی قرآن نے ذکر کی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ قوموں کو خود ھی کرنا ھوتا ہے ، کوئی دوسری طاقت کسی قوم کی جگہ آکر کچھ بھی نھیں کر سکتی حتیٰ کہ خالقِ کائنات ، خدائے عزیز و قدیر بھی کسی قوم کی حالت نھیں بدلتا جب تک خود وہ قوم قیام نہ کرے ، ھاتھ پہ ھاتھ رکھ کر بیٹھے رھنے سے کوئی تبدیلی نھیں آسکتی ، سکوت کے عالم میں انتظار ِفردا کوئی فائدہ نھیں دیتا اور وِرد و دعا بھی غیر مؤثر ھوجاتی ہیں ۔
اﷲ کے قانون کے مطابق قوم کا کام خود قوم کو کرنا ہے ، امت کا فریضہ امت کو انجام دینا ہے اور اﷲ کا کام اﷲ کو کرنا ہے۔ جو کام امتوں کے ذمہ ہیں وہ ھرگز خدا نھیں کرتا، اگرچہ اسے رورو کے پکارا جائے ، گڑگڑا کے پکارا جائے اور صبح و شام پکارا جائے ۔
خدا وند تعالیٰ نے امتوں کی ھدایت کے لئے آسمانی کتابیں نازل کی ہیں، انبیاء و رُسل بھیجے ہیں اور ائمہ مقرر کئے ہیں ۔ انھی کتابوں میں الٰھی رسل کے ذریعے اور الٰھی ائمہ کی زبان سے برملا طور پر یہ بتا دیا گیا کہ ملتوں کا کام ملتوں کو کرنا ہے قرآن کو نھیں ، قوموں کا فریضہ قوموں کو انجام دینا ہے رُسل کو نھیں اور امتوں کی ذمہ داری خود امتوں کونبھانی ہے ائمہ کو نھیں ۔
اگر مذکورہ الٰھی نظام کے مطابق عمل کیا جائے تو انبیاء اور ائمہ کی زحمتوں کا نتیجہ نکلتا ہے اور امتیں بھی سعادت مند ھوکر نجات پا سکتی ہیں لیکن اگر اس کے برخلاف عمل کیا جائے یعنی امتیں اپنے فرائض ترک کر کے انبیائ اور ائمہ پر چھوڑ دیں تو اس صورت میں نجات کا کوئی امکان نھیں رھتا۔

Add comment


Security code
Refresh