www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اپنے ھی گھر کی دیوار سے ٹیک لگائے بڑی دیر سے کھڑا تھا۔ اندر سے آنے والی آوازیں اس کے بڑھتے قدم بار بار روک دیتیں۔ چھوٹے دونوں بچے تو شائد سو چکے تھے، مگر بڑی بچی بار بار ماں کے ساتھ ایک ھی بات کی تکرار کئے جا رھے تھی۔

ابا جو بھی لائے گا، میں لوں گی اور اپنی مرضی سے سب کو دونگی، اگر اس نے تمھارے بجائے میرے ھاتھ پر کھانا رکھا، تو میں تمھیں اپنی مرضی سے دونگی، ماں بھی جھوٹ موٹ کی لڑائی میں بیٹی کی دلجوئی کر رھی تھی۔ اگر اس نے تیرے ھاتھ پر رکھا، تو میں ابا سے بات ھی نھیں کرونگی، پھر تم بھی میری منتیں کرو گی اور ابا بھی، سکینہ نے بڑے مان سے جواب دیا۔ اچھا آھستہ بول بھائی کو اٹھائے گی کیا۔ کتنی مشکلوں سے تو سویا ہے۔ اپنے بابا کی جان سکینہ نے بھائی پر نظر ڈالی، اور آھستہ سے کھا، اماں ابا کو آج تو کام ملا ھوگا نا۔۔۔ سکینہ کی آھستہ آواز بھی باھر کھڑے رحیم داد کے کانوں سے ٹکرائی تو جیسے دل پر گھونسا سا پڑا۔ آنکھوں میں آنے والے پانی کو ضبط کرکے دروازے سے پلٹ کر مستری کے گھر کی جانب چل پڑا۔
ایک طرف شھر کے خراب حالات اور دوسری جانب بارشوں کا موسم، پانچ دنوں سے اس کی دیھاڑی نھیں لگی تھی، اور دو دنوں سے گھر میں کچھ نھیں پکا تھا۔ گذشتہ شب بھی سکینہ کی ماں نے باسی ٹکڑے پانی میں ابال کر بچوں کی بھوک مٹائی تھی اور آج تو گھر میں وہ باسی ٹکڑے بھی موجود نھیں تھے۔ پورے دن کے بھوکے تینوں بچے کھانے کی راہ تکتے رھے اور ماں ان کو اپنے بچپن کی غربت کے قصے سناتی رھی۔ رس بھرے جنگلی بیروں کی کھانی سنتے سنتے دو بچے تو سو گئے تھے، جبکہ سکینہ بھوک سے لڑتی باپ کے قدموں کی آھٹ کی منتظر تھی۔
ایک کمرے پر مشتمل خستہ حال گھر، ایک بیوی اور تین بچے، رحیم داد کی یھی کل کائنات تھی۔ محنت مزدوری سے کبھی نہ گھبرانے والا رحیم داد سب کچھ ھنسی خوشی سھہ لیتا تھا، بس نھیں سھہ پاتا تھا تو اپنے بچوں کی بھوک، جبھی تو دن میں مزدوری کرکے شام کو گھر سے کچھ فاصلے پر پلاسٹک فیکٹری میں صفائی کرنے چلا جاتا تھا۔ پوری فیکٹری کی صفائی کرنے کے بعد رات گئے واپس آتا اور بچوں کے ساتھ کچھ وقت بیتانے کے بعد سو جاتا۔
شھر کے حالات خراب ھوئے تو سب سے پھلے فیکٹری بند ھوئی، فیکٹری کے ساتھ وہ پچیس سو روپے بھی ملنے بند ھوگئے جو سکینے کی ماں ھمیشہ یہ کھہ کر سنبھال کے رکھ لیتی کہ یہ تو میں سکینہ کے بیاہ کے لئے رکھوں گی۔ بیٹیاں دنوں دنوں میں جوان ھوتی ہیں۔ ابھی سے کچھ نہ کیا تو کل کلاں سکینہ کے ھاتھ پیلے کیسے کریں گے۔ باقی دونوں کو کچھ نھیں دے گی، رحیم داد بھی بیوی کو تنگ کرنے سے انداز میں کھتا۔ ناں۔ وہ دونوں تو میرے شیر جوان ہیں۔ بڑے ھوکر تیرا ھاتھ بٹائیں گے۔ جب یہ بھی تیرے ساتھ کام پر جائیں گے تو پورے نو سو روپے روزانہ ملا کرا کریں گے۔ ان کے لیے جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
شھر کے حالات مزید بگڑتے گئے اور نوبت یھاں تک آن پھنچی کہ جس دن دیھاڑی لگ جاتی، وہ دن ان کے گھر میں عید کا سماں پیدا کر دیتا۔ کتنی بار سکینہ کی ماں نے رحیم داد سے کھا کہ وہ لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پونچا کر لیا کرے گی اور کچھ نھیں تو صاحب لوگ بچھا کچھا کھانا تو دے ھی دیتے ہیں، اس کی پڑوسن بھی کرتی ہے محنت مزدوری، مزدوری میں کیسی شرم۔ مگر ھر بار رحیم داد بیوی کی بات ٹال جاتا تھا۔ ایک تو اس کی غیرت گوارا نھیں کرتی تھی کہ اس کی پردے میں رھنے والی بیوی صاحب لوگوں کے گھروں میں جائے، اور دوسرا اس کے چھوٹے بچوں کو گھر میں کون سنبھالے۔ پھر آئے روز بڑے گھروں کے اندر سے نئی نئی کھانیاں بھی تو باھر نکلتی ہیں۔ چند روز پھلے بھی اڈے کا ٹھیکیدار ایک مستری کو بتا رھا تھا کہ ایک میڈم نے گلاس ٹوٹنے پر کام والی کو مار مار کے مار دیا۔ چھپر ھوٹل والے سیٹھ نے اسے پرانے اخبار میں لکھی وہ خبر بھی سنائی تھی کہ صاحب نے اپنی نوکرانی کو دوسری منزل سے نیچے دھکا دے دیا تھا۔ دل ڈرتا تھا رحیم داد کا، لیکن دن بہ دن ھونے والے فاقے اس کے فیصلوں کو کمزور کرتے جا رھے تھے، اور آج وہ اتنی ھمت بھی نھیں جتا پایا کہ اپنے ھی گھر میں داخل ھو پاتا۔
اگر مستری نے کھانا نہ دیا تو کھاں جاؤں گا، کیونکہ آج تو مستری کی بھی دیھاڑی نھیں لگی تھی۔ چھپر ھوٹل والے سیٹھ کے بھی ابھی سات سو روپے نھیں چکائے۔ وہ تو پھلے ھی جان کو آیا ھوا ہے۔ اڈے کے ٹھیکیدار نے بھی دس روپے فی مزدور ٹوکن رکھا ھوا ہے۔ جس مزدور کی دیھاڑی لگتی ہے، ٹھیکیدار کو دس روپے دیتا ہے۔ جواب میں فٹ پاتھ پر بیٹھنے کی صرف اجازت ملتی ہے۔ جبکہ ھر مستری کو بیس روپے ٹھیکیدار کو دینے پڑتے ہیں اور دس روپے ڈیوٹی والے سپاھی کو، کیونکہ مستری کے پاس سامان بھی ھوتا ہے شائد اس لیے، مگر اس نے تو آخری دیھاڑی والے دس روپے بھی ٹھیکیدار کو نھیں دیئے تھے۔ دن کو مزدوری کر لیا کروں اور رات میں کسی ھوٹل پر کوئی کام ڈھونڈ لیتا ھوں، اگر ھوٹل والا پیسے نہ بھی دے صرف روزانہ رات کو چار روٹیاں اور دال بھی دے دیا کرے تو بھی بچوں کا گزارا ھو جائے گا۔
اسی ادھیڑ بن میں چلتا رحیم داد مستری کے دروازے پر آن پھنچا۔ آھستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا، کون، اندر سے مستری کی آواز آئی۔ جی میں ھوں، رحیم۔ او رحیمے۔ خیر ہے اتنی رات کو، کیوں تنگ کرنے آیا گیا ہے۔ تجھے کھا تو تھا میں نے ایک جگہ کام کی بات کرلی ہے۔ تجھے ساتھ ھی رکھوں گا۔ مستری کے قدموں کی چاپ کے ساتھ ساتھ اس کی آواز بھی اونچی ھوتی گئی۔ بڑی مھربانی استاد جی۔ اگر رات یا کل کا بچا کوئی کھانا پڑا ہے تو تھوڑا دیدو۔ سکینہ بھی بھوکی ہے اور باقی سب بچے بھی۔ دروازے سے باھر آئے مستری کی خدمت میں رحیمے نے عرضی پیش کی۔ اچھا اچھا۔ میں دیکھتا ھوں۔ تھوڑی دیر بعد مستری خالی ھاتھ گھر سے باھر آیا تو رحیم داد کو تو جیسے سانس ھی سینے میں رکتی محسوس ھوئی۔
دیکھ رحیمے روٹی شوٹی تو گھر میں نھیں پڑی، اور تیری طرح میری بھی دیھاڑی نھیں لگی، کہ میں تجھے پیسے دیتا۔ گھر والی بھی سوئی ھوئی ہے کہ اس سے پوچھوں۔ توں ایسا کر آج کی رات کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لے، کل اگر میری دیھاڑی نہ بھی لگی تو اڈے کے ٹھیکیدار سے بات کرکے میں تیری دیھاڑی ضرور لگوا دونگا۔ نھیں تو میں کسی سے سو روپے پکڑ کر تجھے ضرور دونگا۔ جاتے جاتے ڈھابے سے چکر لگا لینا، اگر کھلا پڑا ھوا تو سیٹھ سے کھانا مانگ لینا۔ مستری سے مایوس ھوکر رحیم داد نے تھکاوٹ بھرے قدم ڈھابے کی جانب بڑھا دیئے، ایک کلومیٹر سے طویل مسافت طے کرنے کے بعد بند ڈھابہ بھی جیسے منہ چڑا رھا تھا۔ آدھی رات تو بیت چکی تھی، باقی آدھی ڈھابے کے تندور پر ھی خالی پیٹ رحیم داد نے گزارنے کا ارادہ کیا۔ بھوک کی وجہ سے نقاھت تھی یا بچوں کی بھوک کا صدمہ، کھلی آنکھوں سے بچوں کے ساتھ جی بھر کے کھانا کھانے کے خواب دیکھتے دیکھتے وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا۔
اماں، ابا رات بھر گھر نھیں آیا، ھاں میری بچی۔ خدا خیر کرے، شائد ڈبل دیھاڑی لگائی ھوگی، جس کی وجہ سے ابھی تک نھیں آیا۔ آتا ھی ھوگا۔ توں فکر نہ کر، اماں بھوک لگی ہے، ھاں میری بچی تو بھائیوں کا خیال رکھ، میں باجی حمیدہ سے تھوڑا آٹا مانگ لاتی ھوں، اماں تھوڑی چینی بھی لانا۔ بھائی خالی روٹی صبح صبح کیسے کھائے گا،۔ اچھا۔ میری شھزادی۔ ماں نے برقع لیا اور نہ چاھتے ھوئے بھی دو روٹی کا آٹا ادھار لینے پڑوس میں چل پڑی۔
کام کرنے والوں کے شور شرابے سے کافی سارے لوگ اکٹھے ھوچکے تھے۔ تندور کے قریب چارپائی کے گرد لوگوں کا رش بڑھتا جارھا تھا۔ اوئے یہ تو اپنا رحیم داد ہے ڈھابے پر روٹیاں لگانے والے پرانے ملازم نے کی آواز پر لوگوں اظھار افسوس کرتے ھوئے آھستہ آھستہ بکھرتے گئے۔ سیٹھ نے چار بندوں کی ڈیوٹی لگائی کہ جاکر رحیم داد کو گھر پر چھوڑ آئیں۔ پولیس والا کسی صورت ان چاروں کو چارپائی سمیت سڑک عبور کرنے کی اجازت دینے پر تیار نھیں تھا۔ اوئے تم لوگ پاگل تو نھیں ھوگئے۔ میں کیسے تم کو گزرنے کی اجازت دے سکتا ھوں۔تمھیں نھیں پتہ کہ ابھی یھاں سے وزیراعظم نے گزرنا ہے، میں تمھیں جانے بھی دوں تو آگے تمھیں پکڑ لیں گے۔
وزیراعظم کا یھاں کیا کام، وہ یھاں ھمارے علاقے میں پھلے تو کبھی نھیں آئے۔
چارپائی کا ایک پایہ اٹھائے ڈھابے والے تندوریچی نے کھا،
اوئے۔۔ تمھیں نھیں پتہ آج یکم مئی ہے، یوم مزدور ہے۔
وزیراعظم آج مزدوروں سے ملنے آ رھے ہیں،
جب تک ان کا قافلہ نھیں گزر جاتا چپ چاپ وہ دور جاکر کھڑے رھو۔
مجبوراً چاروں چارپائی لئے سڑک سے کچھ دور کھڑے رھے،
کچھ دیر کے بعد کئی گاڑیوں پر مشتمل ایک طویل قافلہ گزرا۔
جس میں کئی گاڑیاں سائرن بھی بجا رھی تھیں۔
قافلے کے ھمراہ خالی ایمبولینسز بھی بھاگ رھیں تھیں۔
سڑک سے دور چارپائی پر دو دن سے بھوکے، میلی سی چادر اوڑھے رحیم داد کی لاش موجود تھی۔
چھرہ بتا رھا تھا کہ مارا ہے بھوک نے
سکینہ کی ماں بھی پڑوس سے خالی ھاتھ لوٹ آئی ہے،
سکینہ کو نھیں معلوم آج یکم مئی ہے،
جس کے باعث اس کے بابا کو لانے میں تاخیر ھوئی۔
رحیم داد کو بھی خبر نہ تھی کہ مزدور کا بھی دن ہے کوئی
ماں کو خبر ہے فقط اتنی کہ تینوں بچے دو دن سے بھوکے ہیں
تحریر: عمران خان
 

Add comment


Security code
Refresh