www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

محنت اور مزدوری کتنے خوبصورت الفاظ ہیں، جو لوگ محنت کرتے ہیں اسلام انھیں بے حد پسند کرتا ہے، مزدور کے بارے بھت سے فرامین اور احادیث پاک پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں

 اور امت کو محنت و مزدوری یعنی کام کی ترغیب دی گئی ہے، جبکہ نکمے پن اور سستی و کاھلی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
اگر کسی نے محنت و مزدوری کرکے حلال طریقہ سے اپنے بیوی بچوں اور والدین و خاندان کا پیٹ پالا ہے تو وہ ھر ایک کا محبوب ہے، کمانے والا (حلال) یقیناً اللہ کا دوست اور محبوب ہے۔ ھم بحیثیت مسلمان جن ھستیوں کو محبوب رکھتے ہیں، ان کی زندگیاں محنت مزدوری کرتے گذری ہیں، امیرالمومنین علی علیہ السلام اور کئی اصحاب رسول نے اپنی گذر اوقات کیلئے مزدوری کو ھی اختیار کیا ھوا تھا۔
معروف ہے کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام یھودی کے باغ میں مزدوری کرتے تھے، انھوں نے عرب کے بے آب و گیاہ صحرا میں کنویں کھودنے کا سخت کام کیا اور اس پر کبھی بھی عار محسوس نھیں کیا، کئی ایک انبیاء کی زندگیاں مزدوری و محنت کرتے گذری ہیں۔
اوائل دنیا سے لے کر اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ جس طبقہ کو استحصال کا سامنا ہے وہ یھی مزدور طبقہ ھی ہے، آپ بڑی بڑی فیکٹریوں سے لے کر گھروں اور دفاتر میں مزدوری کرنے والوں کو دیکھیں جو ظلم ان کے ساتھ ھوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ھمارے ملک میں مزدور کی کم از کم تنخواہ صرف نو ھزار مقرر ہے وہ بھی نھیں دی جاتی۔
یکم مئی پوری دنیا میں مزدور ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے، اس روز 1886ء میں شکاگو کے مزدروں نے ا پنے حقوق کے حصول کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کئے اور یھی وہ دن تھا جب مزدوروں نے گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنے ساتھی مزدوروں کے خون سے بھرے سرخ کپڑوں کے پرچم بنا کر لھرائے اور مزدور دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے، اس واسطے اس دن پوری دنیا میں ان جفاکشوں، ان محنت کشوں، ان قربانیاں پیش کرنے والوں کی عظمت کو سرخ سلام پیش کئے جاتے ہیں اور کیوں نہ پیش کئے جائیں یہ سرخ سلام، آج بھی استحصال اسی طرح جاری ہے، آج بھی مزدور فیکٹری کی بھٹیوں میں ڈالے جاتے ہیں اور اینٹوں کے بھٹوں پے کڑکتی، چمکتی دھوپ میں، جلتی آگ میں، بھڑکتے شعلوں میں زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں۔
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں
غریب ِ شھر ترستا ہے، اک نوالے کو!
امیرِ شھر کے کتے بھی، راج کرتے ہیں
دنیا میں جس طرف بھی نگاہ اٹھائیں، بلند و بالا عمارات، اونچے مکانات، عالیشان محلات، حکومتی و سرکاری جنت نما باغات، حتی دین کے نام پر کھڑے کئے گئے مقدس مقامات، وھاں آپ کو کسی غریب، کسی مزدور، کسی حقدار، کسی مستحق اور بے نوا کے نچوڑے ھوئے خون کے داغ مل جائیں گے، کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ دنیا بنی ھی استحصال اور غصب کیلئے ہے، جھاں کمزوروں کو، بے نواؤں اور مزدوروں کو ان کی کمزوری کی سزا دی جاتی ہے، اس بھری دنیا میں کوئی ان کا نھیں ہے، حتی وہ بھی نھیں جو مزدور کے نام پر سیاست کرتے ہیں، جو ریلیاں نکالتے ہیں، سیمینار کرتے ہیں اور مزدور ڈے پر بڑے فخر اور کر و فر سے تصویریں بنواتے ہیں، اور اخبارات کی زینت بنواتے ہیں۔
میرا تعلق چونکہ ایک مذھبی طبقہ سے ہے، اس لئے میں اپنے خیالات اور احساسات کے اظھار کے وقت مذھبی رھنماؤں علماء کرام جنھوں نے عوام کی قیادت و سیادت کا حلف اٹھایا ہے، انھیں ضرور یاد رکھتا ھوں، مزدوروں کے حوالے سے، کمزوروں اور بے نواؤں کے حوالے سے ھم ھمیشہ اس نظریہ کے قائل نظر آئے ہیں کہ امام مھدی (عج) اپنے ظھور کے بعد دنیا میں کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کو ساتھ ملا کر ان کی حکومت قائم کریں گے۔
اس کا وعدہ قرآن کی آیہ مجیدہ میں بھی کیا گیا ہے، جب امام مھدی (عج) کمزوروں کی حکومت قائم کریں گے اور ظالموں سے اقتدار و طاقت چھین لیں گے تو پھر یہ کارِ امام ان کے وارث ھونے کے دعوے دار کیوں نھیں کرتے؟ میرے کھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کمزوروں کو طاقت ور کرنے اور انھیں ظالموں سے نجات دلانے کا کام ھمارے علماء کی بنیادی ذمہ داری بنتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ھمارے علماء کا طرز زندگی مزدور، محنت کش دوست ھوتا ہے یا پھر امراء کا انداز زندگی ان میں در آیا ہے۔؟
ھماری محفل میں کوئی ایسا وارث انبیاء بھی ہے جو ان غریبوں کیساتھ راتیں بسر کرتا ہے، جن کی کمائی بھرے بازار میں کسی دھشت گرد نے لوٹ لی تھی، اس کا جرم بھی کوئی نھیں تھا، آج کوئی ایسا دکھائی دیتا ہے جو مٹی اور میل سے اٹے آبلہ پا مزدور کے ھاتھوں کو آگے بڑھ کے چوم کر اسوہء نبوی کو زندہ کرتا ھو؟
کون ہے جو وارث انبیاء ھونے کا دعویدار ھو اور راتوں کو اٹھ کر، تاریکی میں کسی مزدور کے گھر پر کھانے پینے کی اشیاء اور آٹا، دال یا سبزی کی گٹھڑی دینے جاتا ھو؟
کون ہے ایسا وارثِ انبیاء جو اپنے کسی ھمسائے، کسی شھر کے باسی، کسی رشتہ دار مزدور کو مزدوری نہ ملنے پر دلاسے دینے ھی چلا جاتا ھو؟
کون ہے جو ناامیدوں کو امید کی کرن دکھاتا ھو، مایوس دلوں کو خشک پتوں کی طرح بکھر جانے سے پھلے پانی سے سیراب کر دیتا ھو، یہ دنیا دردوں سے بھری ھوئی ہے، درد کے مارے بھٹکتے پھر رھے ہیں، انھیں کوئی سھارا نھیں دکھتا۔۔ انھیں کوئی کنارا نھیں ملتا۔
کسی نے کیا خوب عکاسی کی ہے ان درد کے ماروں کی، جن کو ھم اکثر اس حالت میں دیکھتے ہیں
اس قدر بھوکا ھوں صاحب دھوکہ بھی کھا لیتا ھوں
میں نے بڑے بڑے علماء (ھر مکتب فکر کے) کے ھاتھوں کو چومنے کیلئے مزدوروں کو دھکے کھاتے تو کئی ایک بار دیکھا ہے، مگر کبھی یہ سعادت نھیں پا سکا کہ امام حسین علیہ السلام کی طرح فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی دل جوئی کرتے ھوئے کوئی عالم دین ان پر مھربان ھوا ھو اور ان کی مھمان نوازی کا لطف اٹھا رھا ھو۔
آج یوم مزدور منایا جا رھا ہے اور آپ ذر ا یہ خبر ضرور لیجئے گا کہ کون ایسا درد مند تھا جس نے اپنا یہ دن ان بھوک سے بلکتے بچوں کیساتھ گذارا جو تھر (سندھ) کی سخت گرمی میں اس انتظار میں رھے کہ کوئی ان کی بھوک مٹا دے، اور کون ایسا احساس کرنے والا ہے جو اس دن بھوک سے بچ کر پانی کی بوند بوند کو ترسنے والوں کے کرب کو محسوس کرتے ھوئے پانی کے ٹینک لیکر ان کے پاس پھنچ گیا، اے کاش ھمارے انبیاء کے وارثان ھونے کے دعویدار عرب کے جاھل معاشرے میں رسوخ پا جانے والے غلامی کے کلچر کے خلاف عملی جدوجھد کہ غلاموں کو خرید کر آزاد کرتے تھے، کی سنت کو زندہ کرنے کیلئے اینٹوں کے بھٹوں پر غلامی میں جکڑے ھوئے انسانوں کو رھائی دلوانے کیلئے بے تاب دکھائی دیتے۔
مجھے اس خبر نے تڑپا دیا ہے کہ ایک محنت کش، ایک مزدور، ایک غریب، ایک بھوکے نے اپنے پیٹ کے جھنم کو بھرنے کیلئے جب ایک ریڑھی سے ایک خربوزہ، جو انتھائی کم قیمت پھل ہے، اٹھایا تو اس پر سارا شھر ھی پل پڑا، مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا اور اس کو ایسی سزا دی کہ شائد وہ کسی کو چھرہ دکھانے کے قابل بھی نہ رھا، میڈیا کو ایک گرما گرم خبر مل گئی مگر اس مزدور، اس بھوکے، اس غریب کی فوٹیج چلنے سے اس کی عزت اس کے خاندان اور علاقے میں ھمیشہ کیلئے چلتی بنی، نہ جانے اس صنعتی شھر، اس پھلوانوں کے شھر، اس خوش خوراکوں کے شھر میں سب ھی بھوکے رھتے ہیں کہ کسی نے آگے بڑھ کر اس ایک خربوزے کی قیمت ادا نھیں کی اور اس بھوکے شخص کے درد کو کسی نے سمجھنے کی بجائے اسے پولیس کے حوالے کر دیا، جس نے اس بھوکے شخص سے (رشوت میں) اپنی گاڑی دھلوا کر رھائی دی۔
اس شخص پر بھی شھر کے کتے جھپٹ پڑے
روٹی اٹھا رھا تھا، جو کچرے کے ڈھیر سے
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 

Add comment


Security code
Refresh