www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

فلسفہ حج اور اتحاد بین المسلمین
تمام تعریفیں اس ذات بے ھمتا سے مخصوص ھیں جو کریم ھے اور رحیم ۔جس نے اپنے حبیب محمد کو مصطفیٰ بنا کر مبعوث بہ ر سالت فرمایا اور ان کے دین کو "ان الدین عند اللہ الاسلام"کی بے نظیر سند سے نوازا ۔یہ سند شرف ،فضیلت، کرامت،عزت ،اخوت اور وحدت کی سند ھے ،جس کے زیر سایہ آکر فرزندان توحید سر فرازی کے ساتھ یہ نعرہ بلند کرتے ھیں کہ "ھم مسلمان ھیں "۔یہ نعرہ وہ قرآنی نعرہ ھے جس کی تعلیم خود خدائے منان نے مسلمانوں کو دی ھے "وانّ ھذہ امتکم امةًواحدة وانا ربّکم فاتقون"(۱)یہ شعار وھی قرآنی شعار ھے جس کی آغوش عطوفت میں مسلمانوں کی اخوت پروان چڑھی ھے" انما المؤمنون اخوة"۔(۲)
اگر مسلمانان عالم کے درمیان شمع اخوت و وحدت فروزاں رھے گی، تو یقیناان کے اردگرد پروانہ عزت وکرامت کا طواف ھوگا اور اگر ان کی مختصر سی غفلت کی وجہ سے یہ شمع وحدت بجھی، تو پروانۂ عزت بیگانہ چراغ کی طرف رخ کرلے گا ۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے مسلمانوں کو صدر اسلام میں ھی ھوشیار کر دیا کہ "یا ایھاالذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ ولا تموتنّ الاّوانتم مسلمون واعتصموا بحبل اللہ جمیعاًولا تفرقوا"۔(۳)
(اے ایمان والو !خدا کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جو اس کے تقوے کا حق ھے اور موت کو گلے نہ لگاو مگر یہ کہ حالت اسلام میںاور خدا کی رسّی کو تھام لو اور تفرقہ نہ کرو)
خدائے واحد، قرآن مجید میں مسلمانوں کی وحدت کے علل واسباب کو اپنی طرف منسوب کر رھا ھے اور پیغمبر اسلام(ص) کو اس بات سے آگاہ کررھاھے کہ اے رسول!اگر صرف اور صرف آپ یہ چاھتے کہ ان لوگوں کے قلوب میں بذر اتحاد بو دیں، تو تمام وسائل و اسباب اور دولت و ثروت کے باوجود بھی یہ کام آپ کے بس میں نہ تھا"والّف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعاًما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الّف بینھم انّہ عزیز حکیم"(۴)
(اور ان کے دلوں میں محبت پیدا کر دی ھے کہ اگر آپ ساری دنیا خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں باھمی الفت پیدا نھیں کر سکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت اور محبت پیدا کر دی ھے کہ وہ ھر شئی پر غالب اور صاحب حکمت ھے)۔
اسی وجہ سے پیغمبر اسلام نے خداوند عالم کے لطف و کرم کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور امت مسلمہ کے ما بین ایک الھی رابطہ قائم کر دیا ۔ مسلمان بھی اس گرانقدر رابطہ میں خود کو گرہ لگا کر توحید ،نبوت ،معاد،قرآن اور کعبہ کے مشترک عقیدہ پر گامزن ھو گئے، جس کی وجہ سے انکی وحدت شھرہ آفاق بن گئی اور ان کی ھےبت سے مرکز کفر کانپ اٹھا۔
قرآن میں اتحاد کی قسمیں
قرآن مجید نے اتحاد کو چند قسموں میں تقسیم کیا ھے:
۱۔امت کا اتحاد: "انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاعبدون"(۵)
(بے شک یہ تمھارادین ایک ھی دین اسلام ھے اور میں تم سب کا پروردگار ھوں لھذا میری ھی عبادت کیا کرو)۔
۲۔آسمانی ادیان کے پیرو کاروں کا اتحاد:" قل یا اھل الکتاب تعالوا لیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم الاّنعبد الاّ اللہ ولا نشرک بہ شیئاً"(۶)
(اے پیغمبر! آپ کھہ دیں کہ اھل کتاب آوٴ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں)۔
۳۔تمام ادیان کا اتحاد:"شرع لکم من الدین ما وصیٰ بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ وعیسیٰ اٴن اقیموا الدین ولاتتفرقوافیہ" (۷)
(اس نے تمھارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ھے جس کی نصیحت نوح کو کی ھے اور جس کی وحی اے پیغمبر تمھاری طرف بھی کی ھے اور جس کی نصیحت ابراھیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ھے کہ دین کو قائم کرو اور تفرقہ نہ کرو)۔
۴۔تمام انسانوں کا اتحاد:"یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثیٰ وجعلنا کم شعوباًو قبائل لتعارفوا"(۸)
(اے انسانو! ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ھے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ھےں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو)۔
ان آیات کے پیش نظر ھمیں یہ یقین کرنا ھو گا کہ سب سے پھلے مرحلہ میں اتحاد بین المسلمین کا فریضہ ھر مسلمان پر واجب ھے یعنی اتحاد اسی وقت مکمل طور پر نمایاں ھو گا جب امت اسلامیہ کی ایک ایک فرد اس فریضۂ مفروضہ پر عمل پیرا ھو۔ اس لئے کہ اتحاد بین المسلمین کا فریضہ واجب کفائی نھیں ھے جو کسی ایک خاص فرد یاگروہ کے عمل کرنے کے ذریعہ ادا ھو جائے یا دوسروں کی گردن سے اس کا وجوب ساقط ھو جائے، بلکہ اتحاد ایک ایسی حقیقت واحدہ ھے جس کے وجوب کے گھےرے میں ھر ایک فرزند توحید شامل ھے۔
اسلامی اتحاد اس عمارت کی مانند ھے جس کی ایک ایک اینٹ اسکے قیام اور ثبات میں حصہ دار ھے اور ھر مخالف اتحاد قول و عمل ،اسلامی بنائے اتحاد سے ایک اینٹ کو نابود کرنے کے مساوی ھے جس کی تکرار اس خوبصورت عمارت کو کسی پرانے کھنڈر میں تبدیل کرکے اسے تاریخ کے کسی سسکتے ھوئے گوشے کا نام دے سکتی ھے ۔

اتحاد کی ضرورت
اتحاد بین المسلمین کیوں ضروری ھے ؟یہ ایک ایسا سوال ھے کہ جس کے جواب کے لئے نہ کسی دانشور کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور نہ ھی کسی کتب خانے میں جاکر کتابوں کی چھان بین کرنی ھوگی، بلکہ آج کا بے چارہ مسلمان اگر اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالے تو اسے خود بخود اس اھم سوال کا جواب بآسانی حاصل ھو جائے گا ۔
مملکت کفر تو بھت دور کی بات ھے حتی اسلامی مملکت کھے جانے والے ملکوں میں بھی مسلمان بے بس نظرآرھا ھے۔ لیکن ایسا کیوں؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں لاچار ھے؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں تبعیض، تحقیراور استحصال کا شکار ھے ؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں فقیر ونادارھے جبکہ دوسرے ادیان کے پیرو کاروں کا اقتصاد کافی مضبوط ھے ؟
ان تمام سوالوں کا جواب وہ استکباری نظام ھے جس کے شیطانی شعلوں سے پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام جھلس رھا ھے ۔یہ نظام ایسا ھی ھے جس کا لازمہ مسلمانوں کی تباھی ھے ۔اسلام مخالف عناصر کی مطلق العنان ریشہ دوانیاں دور حاضر میں زندگی بسر کرنے والے کسی شخص سے پوشیدہ نھیںھیں ۔ استکباری طاقتوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے پیکر اسلام کمزور و ناتواں ھوتا چلا جارھا ھے ۔ یہ استکباری نظام جب چاھتا ھے کسی بھی اسلامی ملک پر اقتصادی پابندی عائد کر دیتا ھے ، جب چاھتا ھے اسے جنگ کی دھمکی دے دیتا ھے اور دوسری طرف سے اسلامی ممالک پر اسکی ثقافتی یلغاروں کا سلسلہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ھے جس کی طرف نہ صرف یہ کہ بیشتر اسلامی ممالک کی کوئی توجہ نھیں ھے بلکہ افسوسناک بات تو یہ ھے کہ خود یھی ممالک اس زھریلی یلغار میں دشمنان اسلام کے برابر کے سھیم نظر آتے ھیں لیکن یقین کے ساتھ یہ کھا جا سکتا ھے کہ دشمنان اسلام کے مذکورہ تمام اسلام مخالف حربے ان کے اس حربے کے سامنے پھیکے دکھائی دیتے ھیں جس کے ذریعہ انھوں نے سالھاسال مختلف ملکوں کو اپنا غلام بنائے رکھاھے اور وہ حربہ یہ نعرہ ھے "پھوٹ ڈالو حکومت کرو"۔
اسی نعرہ اور حربہ پر عمل کرنے کی وجہ سے ھی ان کا استکباری نظام دنیا پر آج تک قائم و دائم ھے ۔ اسی نعرہ کے رائج اور نافذ ھونے کی وجہ سے آج کا مسلمان علمی، ثقافتی ،اقتصادی اور اجتماعی میدانوں میں کافی پیچھے رہ گیا ھے۔
لھذا اگر مسلمانوں کی پسماندگی کی سب سے اھم وجہ ان کے درمیان پایا جانے والا اختلاف ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ اس پسماندگی کو قبر تاریخ میں دفن کرکے ھمہ جھتی ترقیاتی منزلوں تک پھونچنے کا سب سے بھترین اور پر امید راستہ اتحاد ھے۔
عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین کی اھمیت و ضرورت کو بھتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ھے کہ ان خطرات پر مزید نظر ڈالی جائے جو عالم اسلام کو عالم استکبار سے لاحق ھیں۔

Add comment


Security code
Refresh