www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

خطرات یا استکباری سازشیں
۱۔ ثقافتی یلغار:گزشتہ سطور میں اس مھلک حرب کی طرف اشارہ کیا جا چکا ھے ۔ثقافتی یلغار کے اھم آلات ووسائل درج ذیل ھیں :اخبارات، کتابیں،رسالے،ریڈیو ،ٹیلیویژن،فلمیں اور انٹرنیٹ وغیرہ۔
۲۔علمی یلغار :مغربی طاقتیں اپنی اخلاقی پسماندگی کے باوجود علم اور ٹکنولوجیکل لحاظ سے مسلسل ترقیاتی منزلوں کو طے کر رھی ھےں جس کی وجہ سے یہ طاقتیں اور حکومتیں دنیائے علم و تمدن کا قبلۂ آمال بنی ھوئی ھیں اور اس کے مقابلے میں ھم مسلمانوں کی پسماندگی اس بات کاباعث بنتی ھے کہ گزشتہ کی طرح آئندہ بھی مغربی طاقتوں کا تسلط ھم پر باقی رھے۔
۳۔عالم اسلام کے خلاف مغربی طاقتوں کا اتحاد:مغربی ممالک اپنے ما بین موجود ہ تمام اختلافات کے باوجود، مسلمانوں کی تضعیف اور غارتگری کی خاطر ھم پیمان ھیں اور وہ ھمیں علمی ،سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی لحاظ سے کمزور بنانے پر متحد ھیں ۔
۴۔ زمینوں پر قبضہ:دشمنان اسلام اور مغربی طاقتوں نے اسلامی سرزمینوں اور ملکوں پر ناجائز طریقہ سے قبضہ کر رکھا ھے اور آج تک ان کا یہ سلسلہ جاری ھے ۔عراق اور فلسطےن کی سلگتی سر زمین اور افغانستان کے مسلمانوں کی بے بسی اسی بات کو واضح کر رھی ھے ۔
۵۔اسلام مخالف فرقوں کا ظھور :ان میں سے بیشتر فرقے دشمنان اسلام کے ناپاک اھداف کے پےدا کردہ ھیں۔ قادیانیت اور بھائیت جیسے دیگر فرقے دشمنان اسلام کی ناپاک اولادیں ھیں جو مسلمانوں کے درمیان گمراہ کنندہ افکار کی سم افشانی کرتے ھیں اور ایسے اےسے حربوں کا استعمال کرتے ھیں جسکا فریب سب سے پھلے ھمارے جوان کھاتے ھیں ۔
۶۔علماء اور متفکرین اسلام کی غفلت:غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی اقلیتیں اور بالخصوص ان کے جوان رفتہ رفتہ دینی اقدار اور شریعت و احکام کو فراموشی کے سپرد کرتے جارھے ھیں اور یہ سب کچہ مسلمانوں کی دوسری امتوں کے ساتھ بلا قید وشرط باھمی تعلقات اور علماء و متفکرین اسلام کی غفلت کی وجہ سے ھو رھا ھے۔
۷۔اسلام کو دھشت گرد دین کے نام سے مشھور کرنا :استکباری نظام اور مغربی طاقتیں اسلام کے نام پر دھشت گرد تنظیموں کو وجود میں لاتی ھیں اور ان کو جنگی تربیت دینے کے بعد اسلامی ممالک میں بھیج دیتی ھیں پھر انھیں خود ساختہ تنظیموں سے اپنے ملک پر حملہ کرواتی ھیں تاکہ اسلام اور دھشت گردی کو لازم و ملزوم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور ساتھ ھی اسلامی ملک پر حملہ آور ھو نے کا بھانہ تلاش کر سکیں۔
اسلامی ممالک کی اندرونی مشکلات
اسلامی ممالک کی مختلف اندرونی مشکلات کے پیش نظر بھی اس پر آشوب ماحول میں اتحاد بین المسلمین اشد ضروری ھے ۔یہ داخلی مشکلات بھی بظاھر داخلی مشکلات ھیں ورنہ انکے اصل اسباب کی بازگشت بھی استکباری نظام اور مغربی طاقتوں کی طرف ھوتی ھے ۔وہ مشکلات مندرجہ ذیل ھیں جن سے اکثر و بیشتر اسلامی ممالک روبرو ھیں:
۱۔ مسلمانوں کا مغربی تمدن میں ڈھل جانا اور انکی جدید ٹیکنولوجی سے مرعوب ھوجانا۔
۲۔ بعض اسلامی ممالک کی حکومتوں کا مستقل نہ ھونا اور استکباری طاقتوں سے ھم پیمانی کو ، اسلامی عزت واقتدار پر ترجیح دینا۔
۳۔ فقر و غربت کا رواج اور اقتصادیات کی بدترین حالت جسکی وجہ سے علمی اور ثقافتی پسماندگی مسلمانوںکاجزء لاینفک بن گئی ھے نیز روحی ،جسمی اور نفسیاتی امراض بھی غربت اور فقر کا ھی نتیجہ ھیں ۔
۴۔اسلامی ممالک کے مابین اختلافات کا وجود اور ایک دوسرے کے لئے ان کی سیاسی قدرت نمائیاںیا ایک اسلامی ملک کا دوسرے اسلامی ملک کے خلاف اپنا کاندھا اسلام دشمن عناصر کے حوالے کر دیناتاکہ وہ دشمن اس پر بندوق رکہ کر گولی چلا سکے ۔یہ اسلامی ممالک بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی امداد کرتے ھوئے ظلم و استکبار کا دنداںشکن جواب دیتے ،اسرائیل ، امریکہ ،فرانس ،بر طانیہ اور روس جیسی اسلام مخالف طاقتوں کے سامنے اسلامی ممالک کے خلاف دوستی کا ھاتہ بڑھا دیتے ھیں ۔
۵۔ مسلمانوں کے درمیان مذھبی اختلافات کا وجود جو اکثر اوقات علمی بحث و گفتگو سے باھر نکل کر جنگ کے میدان تک پھونچ جاتا ھے اور ھزاروں بے گناہ جانیں چلی جاتی ھیں ، بچے یتیم ،عورتیں بےوہ اور مائیں بے اولاد ھوجاتی ھیں ۔ ایک دوسرے پر کفر وفسق کا الزام لگایا جاتا ھے حتی یہ نادان مسلمان اسقدر اندھے ھو جاتے ھیں کہ مسجدوں اور زیارت گاھوں کو خون سے رنگین کرنے میں بھی ذرا ساتاٴمل نھیں کرتے ۔
بیشک اس طرح کی نادانیاں دشمنان اسلام کی مسرت اور اسلام و مسلمین کی بربادی کا باعث بنتی ھیں۔اگر مذاھب کے بعض نظریات ایک دوسرے سے مختلف ھیں تو انھیں جدال احسن اور علمی مناظروں اور نشستوں سے برطرف کرنا چاھئے "و جدالھم بالتی ھی احسن "،مسجدوں ،زیارت گاھوں اور امام باڑوں میںخودکش حملوں اور ایک دوسرے پر لعنت وملامت کرنے سے نہ کوئی سنی، شیعہ ھوجائے گا اور نہ کوئی شیعہ سنی بلکہ انتقام کی آگ اور بھی زیادہ شعلہ ور ھوتی جائے گی ۔بعض مسلمانوں کی یہ نادانیاں تو بری ھیں ھی لیکن اس سے زیادہ برا کام وہ دانا مگر غافل مسلمان کر رھے ھیں جو قرآن مجید کی اس آیت پر عمل نھیں کرتے:"وان طائفتان من الموٴمنین اقتتلوافاصلحوابینھمافان بغت احداھما علیٰ الاخریٰ فقاتلوا التی تبغی حتیٰ تفیٴ الیٰ امر اللہ فان فائت فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین"( سورۂ حجرات/۹)
(اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کرےں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراوٴ اور اس کے بعد اگر ایک گروہ دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ھے یھاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل وانصاف کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ھے۔)
مذکورہ آیت ھر مسلمان کو حکم دے رھی ھے کہ مسلمانوں کے دو مختلف گروھوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں ان کے درمیان صلح برقرار کرو ۔
کیا اسلام اور مسلمین کی ٹھیکہ داری کا دم بھرنے والے لوگ اس آیت پر عمل کر رھے ھیں ؟ کیا دو اسلامی ملکوں کے باھمی اختلافات کو ختم کرنے کی غرض سے کوئی تیسرا سلامی ملک ثالثی کرنے کو تیار ھے ؟یا یہ کہ ھر مسلمان ،ھر اسلامی ملک اور ھر اسلامی گروہ صرف اپنے شخصی و ذاتی مفاد کو مد نظر رکھے ھوئے ھے؟
۶۔اسلام دشمن عناصر کے جانب سے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان قومیت پرستی کی آگ کو شعلہ ور کرنا ۔اس مرحلے میں بھی مسلمان فریب کا شکار ھو چکا ھے جو اپنے آپ میں ایک زھریلی بیماری ھے جبکہ اسلام نے کسی طرح کی برتری کو فضیلت شمار نھیں کیا ھے بلکہ فضیلت اور برتری کا معیار صرف اورصرف تقویٰ الھی کو جانا ھے۔"ان اکرمکم عنداللہ اتقیٰکم"۔
اے کاش !یہ مسلمان عصر حاضر کے تقاضوں کو درک کرلیتا اور قوم پرستی اور نسلی و نژادی تعصبات سے کنارہ گیری اختیار کرکے اسلامی غیرت کو اپنا سرمایۂ حیات بنا لیتا!!
۷۔اسلامی معاشروں میں طبقاتی فاصلوں کا وجود اور اسی طرح کی دیگر مشکلات۔

ھماری ذمہ داریاں
تمام مسلمانوں اور خصوصاً علمائے اسلام کے کاندھوںپر تو بھت سی ذمہ داریاں ھیں جنکو اگر نبھایا جائے تو مسلمان ھر درد و غم سے نجات پا سکتا ھے لیکن اس مقام پر صرف چند وظائف کی طرف اشارہ کیا جا رھا ھے:
۱۔ مسلمانوں کے امور کی طرف توجہ دینا اور اس سلسلہ میں چارہ اندیشی کرنا :پیغمبر اسلام فرماتے ھیں : "من اصبح ولم یھتم باٴمور المسلمین فلیس منی عنی" جو مسلمان اس حالت میں رات گذار دے کہ مسلمانوں کے امور کے سلسلہ میں چارہ اندیشی نہ کرے تو وہ مجھ سے نھیں ھے۔
لھذا ھر مسلمان کا فریضہ ھے کہ دوسرے مسلمان کے ھر طرح کے اقتصادی ، علمی ،ثقافتی اور سیاسی امور میں اپنی توانائی کے مطابق امداد کرے۔ اس سلسلہ میں علماء اور دانشوران اسلام کی ذمہ داری عام مسلمان کے وظائف سے کھیں زیادہ ھے۔
۲۔ بیان شدہ اندرونی اور بیرونی مشکلات سے مقابلے کے لئے علماء، دانشوروں اور بارسوخ شخصیتوں کی اپنے بیانات ،مضامین ، تحریروں اور مختلف تحریکوں کے ذریعہ سعی و کوشش ۔
۳۔مسلمانوں کے مثبت نکات، انکی اسلامی غیرت اور دینی جذبات سے مکمل طور پراستفادہ کرتے ھوئے انھیں اسلام مخالف سیاستوں سے آگاہ کرنا اور قرآن و اسلام کے احکام پر صحیح طریقہ سے عمل کرنے کی دعوت دینا۔
۴۔چوتھی ذمہ داری جو سب سے اھم ھے اور جسکا بیشتر تعلق علماء اور بااثر ورسوخ شخصیتوں سے ھے وہ یہ ھے کہ وہ لوگ مسلمانو ں کو اختلافات پر اکسانے کے بجائے ان کے درمیان محبت و دوستی اور اتحاد کا بیج بونے کی مسلسل کوشش کرتے رھیں اس لئے کہ اتحاد ھی ایسی دوا ھے جس کے ذریعہ مسلمانوں کے ھر طرح کے دردوغم کا مداوا ھو سکتا ھے اور وہ اپنی کھوئی ھوئی عزت اور اقتدار کو دوبارہ حاصل کرسکتے ھیں۔

Add comment


Security code
Refresh