www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حج تجلی گاہ اتحاد
ھجرت کا دوسرا سال تھا ،اسلام نو مولود تھا ،پیغمبراسلام بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز بجا لانے میں مصروف تھے کہ جبرئیل امیننازل ھوئے اور حضور اکرم(ص) کا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل کردیا اور آپ نے اس نماز کی باقی دو رکعتوں کو بیت اللہ الحرام کی طرف رخ کرکے ادا کیا ۔
تاریخ کا یہ عظیم مرحلہ اگر چہ خانۂ کعبہ کی قدر وقیمت اور بزرگی و عظمت کو ثابت کررھا ھے لیکن اس زمانے کے اکثر مسلمانوں کے لئے تبدیلی قبلہ کا فلسفہ اور اسکی حکمت واضح نھیں تھی لیکن آھستہ آھستہ کچہ مدت کے بعد تمام وابستگان ذات احدیت کے لئے یہ امر بخوبی آشکار ھو گیا کہ خدائے منان نے کعبۂ معظمہ کو کو اتحادواستقلال کا محورومرکز بنا دیا ھے اور اس ذات دانا نے اس تجلی گاہ اتحاد پر مسلمانان عالم کے اجتماع کو انکی شان و شوکت ،عظمت و جلالت، عزت واقتدار اور معنوی و مادی رشدوکمال کا سرچشمہ قرار دیا ھے ۔
ھاں! کعبہ خلیل اللہ کے قدرت مند ھاتھوں کے ذریعہ تعمیرھوا تاکہ مرکز توحید اور عنوان اتحاد بنے ۔پیغمبر اسلام کے زمانے میں جب کعبہ معظمہ کی تعمیر نو کامرحلہ آیا توایک حد تک دیوار کھڑی کرنے کے بعد حجرالاسود کو نصب کرنے کے سلسلہ میں قبائل عرب میں اختلاف پیدا ھو گیا کہ یہ عظیم افتخار کس قبیلہ کو نصیب ھو۔آخر کار سب نے اس بات پر اتفاق کر لیاکہ اس سلسلہ میں رسالت مآب کا جو نظریہ ھوگا وھی نافذ ھوگا ۔آنحضرت نے حکم فرمایاکہ ایک عبا زمین پر بچھا کر حجرالاسود کو اس عبا میں رکہ دیا جائے اور ھر قبیلہ اس عبا کے ایک گوشہ کو تھام کر خانہ کعبہ تک لائے ،جب سب نے اس حکم پر عمل کیااور حجرالاسودکعبہ کی دیوارکے نزدیک آگیاتو حضور اکرم نے اپنے دستھائے مبارک سے اسے دیوار کعبہ میں نصب کردیا ۔(۱۰)
پیغمبر اسلام نے اپنے اس خدا پسندانہ عمل سے اپنی امت کو عمومی اتحاد کی طرف دعوت دی ھے ۔آنحضرت کا یہ عمل اتحاد اور ھمدلی کا ایک ایسا درس ھے جسمیں قیامت تک آنے والے فرزندان توحید کے لئے چند اھم نکات پوشیدہ ھیں:
۱۔ دو مختلف قبیلوں یا گروھوں میں اختلاف کی صورت میں مسئلہ کو حل وفصل کرنے کی غرض سے فھیم اور سنجیدہ افراد آگے بڑھیں۔
۲۔اختلافی مسائل کو حل کرنے میں عدالت و مساوات کا ضرور خیال رکھا جائے۔
۳۔ فھیم افراد کی سعی و کوشش، تلخیوں کو حلاوت اور اختلافات کو وحدت میں تبدیل کر سکتی ھیں۔
۴۔ مقدس اور الھی مقامات سر چشمہٴ وحدت واتحاد ھونے چاھئیں نہ کہ مرکز نفرت و اختلاف۔
حضرت ختمی مرتبت(ص) نے اس درس کے ذریعہ کعبہ معظمہ کو منادی اتحاد کے عنوان سے دنیا کے سامنے پیش کیا ھے ۔یہ خانۂ خدا صرف منادی توحید واتحاد ھی نھیں بلکہ مساوات "سواءً العاکف فیہ والباد"(۱۱)،آزادی واستقلال طلبی "البیت العتیق"(۱۲) ،طھارت وپاکیزگی "طھّر بیتی"(۱۳) ،اور قیام اور استواری"قیاماًللناس"(۱۴)،کا کامل مظھر بھی ھے۔
حضور اکرم(ص) نے اپنی اس خوبصورت روش کے ذریعہ سیئات کو حسنات اور نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کر دیا ۔اسی لئے تو آج تک بیت اللہ الحرام سے اتحاد کا ضمضمہ سنائی دیتا ھے، اسکی دیواریں بظاھر خاموش مگر در حقیقت گویا ھیں اور ایک ایک فرزند توحید سے متحد ھونے کی التجا کر رھی ھیں کہ اے مسلمان! متحد ھو جا!اپنی گرانقدر میراث کولٹنے نہ دے! اپنی کھوئی ھوئی عزت کو دوبارہ حاصل کرنے میں کوشاں ھو جا ! بے حیائی کا لباس اتار پھینک ! استکباری نظام کے زیر سایہ نہ رہ اور الھی رنگ میں رنگ جا!

حج بھترین موقعہ
دین اسلام نے مسلمانوں کے اجتماع کو کافی اھمیت دی ھے ۔یھاں تک کہ اس دین مبین نے امت مسلمہ کو جماعت واجتماع کی طرف رغبت دلانے کی خاطر باجماعت ادا ھونے والے اعمال و فرائض میں بے انتھا ثواب قرار دیا ھے ۔جو ثواب واجب نمازوں کوبا جماعت ادا کرنے میں قرار دیا گیا ھے اتنا ثواب فرادیٰ نماز کو حاصل نھیں ھے جیسا کہ احادیث میں واردھوا ھے کہ اگر نماز جماعت میں نمازیوں کی تعداد دس افراد سے زیادہ ھوگی تو اس کاثواب خداوند عالم کے علاوہ کسی کے علم میں نھیں ھے ۔(۱۵)اسی طرح اگر یہ نماز عام مسجد میں قائم ھو تو اس کا ثواب اور بھی زےادہ ھے اور اگر وہ مسجد، جامع مسجدھو تو اس کے ثواب کی انتھا نھیں ھے۔اسی طرح اسلام نے دیگر اعمال و عبادات میں بھی مسلمان کی وحدت اور ان کے اجتماع کو بھت اھمیت دی ھے۔
لیکن کیا اسلام کایہ حسین قانون صرف معنوی حکمت کا حامل ھے؟نھیں ھرگز نھیں !ھم اسے ایک معنوی پھلو کا نام دیکر محدود نھیں بنا سکتے اسلئے کہ اگر خدا کو اس قدر ثواب دینا تھا تو وہ گھر میں پڑھی جانے والی فرادیٰ نماز میں بھی یہ ثواب قرار دے سکتا تھا ۔اس کے خزانے میں کوئی کمی نھیں ھے لیکن اجتماعی اعمال وافعال میں اس قدر ثواب کے موجود ھونے کا مطلب یہ ھے کہ اس میں معنوی پھلو کے علاوہ بھی کوئی اھم پھلو ھے جو براہ راست اس اجتماع سے مربوط ھوتا ھے اور وہ ھے اسلام کا سیاسی پھلو یعنی ایسے اجتماعات کا ھدف یہ ھے کہ امت مسلمہ عالم اسلام کے حالات سے آگاہ ھوتی رھے اور اسلام ومسلمین کی چارہ جوئی میں مصروف رھے۔
اس بات کا کافی حد تک امکان پایا جاتا ھے کہ دین اسلام نے جماعت میں فرادیٰ کی بنسبت زیادہ ثواب رکھا ھے تاکہ اھل خاندان اور پڑوسی ایک جگہ جمع ھوںاور ایک دوسرے کے ا حوال سے آگاہ ھوں۔ مسجد میں پڑھی جانے والی نماز جماعت کا ثواب گھر میں پڑھی جانے والی نماز جماعت کے ثواب سے زیادہ قرار دیا گیا ھے تاکہ ایک محلہ اور ایک گاوٴں کے مسلمان ایک دوسرے کے احوال سے با خبر ھوں اور در پیش مشکلات کے بارے میں غور وفکر کرنے پر مجبور ھوں ،اسی طرح نماز جمعہ کا ایک فلسفہ یہ ھے کہ قرب و جوار اور اکناف و اطراف کے مسلمان ایک مقام پر اکٹھا ھوں اور اپنی مشکلات کے بارے میں چارہ اندیشی کریں ،اسی سلسلے کو برقرار رکھتے ھوئے اسلام نے پوری دنیا میں پھیلے ھوئے فرزندان توحید کو ایک مقام پر جمع کرنا چاھا تو حج کو واجب کر دیا *تاکہ مسلمانان عالم پوری دنیائے اسلام کے حالات سے باخبر ھوں ،تبادلہ خیال کریں ،اسلام اور مسلمین کو مشکلات کی دلدل سے نکالیں اور توحید کے زیر سایہ آکر اتحاد کا پرچم بلند کریں۔
لشکر اسلام کا یہ عظیم اجتماع دشمنان اسلام کی تمام کوششوں کو نقش بر آب کرکے پیروان دین مبین کو کائنات ھستی میں دوبارہ سر بلندی عطا کر سکتا ھے مگر ضرورت ھے وحدت و اتحاد، نظم وانسجام ، عزم راسخ اور قلب محکم کی ۔اسی لئے تو اسلام محمدی ھر موحد کو آواز دے رھا ھے:
جھان رنگ و خو کو چھوڑ کر ملت میں گم ھو جا
نہ ایرانی رھے باقی نہ تورانی نہ افغانی(علامہ اقبال)

امام خمینی(رہ)کی نظر میں حج کا سیاسی پھلو
علامہ اقبال اور جمال الدین اسدآبادی جیسے منادیان اتحاد کی فھرست میں ایک درخشاں نام انقلاب اسلامی کے رھبر کبیر حضرت آیة اللہ العظمیٰ روح اللہ موسوی خمینی رحمة اللہ علیہ کا بھی موجود ھے جنکا تا نفس آخر سارا ھم وغم اسلام ومسلمین کی فلاح و بھبودی تھا ۔اسی مقدس ھم وغم کی آھوں نے ھی آپ کے ان بیانات کی شکل اختیار کر لی جنکو سن کر ھر با ضمیر مسلمان اپنے اندر ایک عجیب انقلابی کیفیت کا مشاھدہ کرتا ھے اور وہ یہ کھتا ھوا نظر آتا ھے کہ یہ تو میرے ھی دل کی آواز ھے ! ھاں ! یہ ایسا منادی اتحاد تھا جو مومنوں کے قلوب میں پوشیدہ مقدس آرزووٴں اور پاک و طاھر آوازوں کوسمیٹ کر ھویدا کر دیا کرتا تھا تاکہ ھر مسلمان خواب غفلت سے بیدار ھو کر اسلام کی صدائے استغاثہ پر لبیک کھے۔
حج کے موقعہ پر امام خمینی زائرین بیت اللہ کو ایک پیغام دیتے ھیں جس کا اےک اقتباس ذیل الذکر ھے:
"حج کی انجام دھی کی غرض سے سر زمین وحی پر جمع ھونے والے آپ تمام فرزندان توحید پر واجب ھے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائےں اور چارہ اندیشی کریں ۔مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی غرض سے تبادلۂ خیال کریں ۔اس موقعہ پر آپ سبھی پر واجب ھے کہ اسلام کے مقدس اھداف ،شریعت طاھرہ کے عالی مقاصد، مسلمانوں کی ترقی اور اسلامی معاشرہ کی وحدت و ھم دلی کی راہ میں کوشاں ھو جائےں ۔استقلال کے حصول اور استعماری سرطان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر ھم فکر و ھم پیمان ھو جائیں، مختلف مملکتوں سے آئے ھوئے مسلمانوں کی زبان سے ان کی مشکلات کو سنیں اور اسے حل وفصل کرنے میں ذرہ برابرکوتاھی نہ کریںنیزاسلامی مملکت کے غرباء وفقراء کے سلسلہ میں چارہ اندیشی کریں ۔اسلامی سرزمین فلسطین کو اسلام کے سب سے بڑے دشمن صھیونزم کے پنجوں سے نجات دینے کے بارے میں غوروفکر کریں ۔تمام ممالک سے آئے ھوئے علماء اور دانشوروں پر لازم ھے کہ ملت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لئے تبادلۂ نظر کے ساتھ مستدل بیانات مسلمانوں کے درمیان پھےلائیں نیز اپنے ملک کی طرف مراجعت کے بعد ان بیانات کو وھاںبھی منتشر کریں اور اسلامی ممالک کے روٴساء کو اس بات کی تاکید کریںکہ وہ اسلامی اھداف کو اپنا نصب العین قرار دیں ۔"(۱۶)
امام خمینی (رہ) انھیں امورووسائل کے تناظر میں حج کے سیاسی پھلو پر زیادہ زور دیتے تھے۔ امت مسلمہ کو خانہ کعبہ کی طرف متوجہ کراتے ھوئے آپ فرماتے ھیں:اے مسلمانان عالم! اپنی عزت اور اپنے اقتدار کو اسلام اور بیت اللہ کے ذریعہ حاصل کرو۔(۱۷)
ھاں !یہ صرف خمینی کبیر کی آواز ھی نھیں بلکہ یہ ایک خوشخبری اور مژدہ بھی ھے۔ سرفرازی کا مژدہ !سربلندی کا مژدہ !حیات کا مژدھ!نجات کامژدہ!
لیکن یہ خوشخبری اور مژدہ صرف مژدہ ھی بن کر رھے گا اگر مسلمانان عالم نے اتحاد کی طرف قدم نہ بڑھائے۔اسلامی سماج اسی وقت با حیات نظر آئے گا جب اسکے بے جان جسم میں روح اتحاد پھونکی جائے گی ۔
خدا وند منان تمام مسلمانان عالم کو راہ اتحاد پر گامزن ھونے کی توفیق عطا فرمائے! (آمین)
حوالے:
۱۔سورۂ مومنون/۵۲۔
۲۔سورہ ٴحجرات /۱۰ ۔
۳۔ سورۂ آل عمران ۱۰۲،۱۰۳۔
۴۔سورۂ انفال/۳۶۔
۵۔ سورۂ انبیاء /۹۲۔
۶۔ سورۂ آل عمران /۶۴۔
۷۔سورۂ شوریٰ /۱۳ ۔
۸۔سورۂ حجرات/۱۳۔
۹۔ سورۂ حجرات/۹۔
۱۰۔ وسائل الشیعھ۔۹/۳۲۹۔۳۳۰۔
۱۱۔ سورہ ٴحج /۲۵۔
۱۲۔ سورۂ حج/۲۹و۳۳۔
۱۳۔ سورۂ حج /۲۶۔
۱۴۔ سورۂ مائدہ /۹۷۔
۱۵۔ مستدرک الوسائل ،ج۱،ص۴۸۷۔
۱۶۔ حج کنگرۂ عبادی سیاسی ،ص۱۵۔۱۹۔
۱۷۔ صحیفۂ نور،ج۱۸،ص۷۱۔   

Add comment


Security code
Refresh