www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اللہ خدائے وحدہ لا شریک کا اسمِ ذات ہے۔ دراصل لفظ اللہ دینِ اسلام کی بنیاد ہے، کیونکہ یہ ایک جامع لفظ ہے۔ اس لفظ اور جس ھستی کا یہ نام ہے، اس پر یقین کامل ھی اسلام میں داخل ھونے کا درست اور صحیح راستہ ہے۔

 لفظ اللہ ایسا جامع ہے کہ اگر اس کو مختلف حصے کرکے دیکھا جائے تو بھی مفھوم وھی نکلتا ہے، جس کا معنی معبود ہے اور یہ اس لفظ کا معجزہ ہے۔ اللہ سے اگر حرف "الف" جدا کر دیا جائے تو باقی "للہ" رہ جاتا ہے۔ جس کا معنی بنتا ہے اللہ کے لئے یا اللہ کی قسم۔
اگر حرف "ل" بھی ھٹا دیں تو "لہ" رہ جاتا ہے۔جس کا معنی اس کے لئے۔ ظاھر ہے "اس کیلئے" اشارہ اس ذات کی طرف ھوگا جو کہ ھمہ وقت ھر جا موجود ھو، اور اللہ کے سوا کوئی اور ذات ھمہ گیر اور ھمہ وقت موجود نھیں ھوتی۔
اسی طرح اگر" لہ" سے " ل "بھی ھٹا دیا جائے تو حرف "ہ" باقی رہ جاتا ہے۔ جس کا ایک معنی وہ بھی ہے۔ اب حرف "لہ" کی طرح "ہ" بھی اللہ کی ذات کے لئے ھر وقت استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگر صرف لفظ اللہ میں اتنا کچھ پنھاں ہے تو پھر اللہ تعالٰی کی ھستی کیا ھوگی۔ اللہ کے بارے میں کچھ کھنا یا لکھنا دنیا کا ایک ناممکن ترین کام ہے، کیونکہ اللہ کی ذات پاک ایسی ہے کہ اگر دنیا کے تمام درخت قلم، تمام سمندر سیاھی اور درختوں کے پتے صفحات بن جائیں، لکھنے والی عمر کروڑوں سال ھو تو بھی اللہ کے بارے میں جو لکھا جائے گا وہ اسکا عشرِ عشیر بھی نھیں ھوگا جو کہ حقیقت میں اللہ ہے۔
دنیا کا کوئی سا بھی مذھب ھو، سب کا اللہ کے بارے میں عقیدہ مشترک ہے۔ سب کی آواز ایک ہے کہ اس کائنات کی خالق کوئی ایسی ھستی ہے جو کہ ھر وقت موجود ہے اور اس کائنات کا نظام ایک خاص نظم و ضبط سے چلا رھی ہے۔
اسلام کے علاوہ بے شک باقی مذاھب اللہ کو بطور اللہ کے نھیں مانتے، لیکن پھر بھی وہ یہ ضرور کھتے ہیں کہ اتنی بڑی کائنات خود بخود وجود میں نھیں آسکتی۔ اس کا بنانے والا کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہے۔
دنیا میں ایک چھوٹا سا کارخانہ بنا انسانوں کے نھیں چل سکتا۔ بے شک آٹو میٹک ھو، مشینیں کام کرتی ھوں، لیکن ان مشینوں کو بھی تو بنانے والا کوئی ہے۔ ان کو کنٹرول کرنے والا بھی تو کوئی ہے۔ کمپیوٹر میں پروگرامنگ کی جاتی ہے، وہ بھی انسان ھی کرتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی ہے جس کی باقاعدہ پروگرامنگ کی گئی ہے اور وہ اسی پروگرامنگ کے تحت عمل کرتا ہے۔ اس قدر پیچیدہ پروگرام کس نے بنایا؟ سائنسدانوں نے اپنی زندگیاں لگا دیں یہ جاننے کے لئے کہ انسان ہے کیا، لیکن ابھی تک شاید بیس فیصد بھی نھیں جان سکے۔ وہ حیران ہیں کہ کس طرح ڈی این اے کے تحت سارا کام ھوتا ہے اور ڈین این اے کوئی لمبا چوڑا حصہ نھیں ہے بلکہ اگر اس کو انسانی جسم کا ایٹم کھا جائے تو بے جا نہ ھوگا۔ کیا یہ ڈی این اے خود بخود بن گیا، نھیں بلکہ انسانی جسم کا یہ کمپیوٹر پروگرام اللہ کی ذات نے تخلیق کیا ہے۔ تب ھی تو انسان اتنا پیچیدہ ہے۔
اس انسان کو، کائنات کو بنانے والی ھستی کو مختلف زبانوں میں اور مختلف مذاھب میں مختلف نام دیئے گئے ہیں۔ ھندی میں بھگوان (اگرچہ اب بھگوان بھی ان کا جدا ھوچکا ہے کہ دنیا کی ھر چیز چاھے وہ گائے ھو، بندر ھو سانپ ھو، ھاتھی ھو، شیر ھو، پتھر ھو، ستارے، چاند، سورج، سب کے سب ان کے بھگوان ہیں)۔ انگریزی میں گاڈ (God)، فارسی میں خدا وغیرہ ہیں۔ معنی بظاھر سب کا ایک ھی بنتا ہے یعنی اللہ۔

اللہ کے بارے میں واضح بات اس وقت کی جاسکتی ہے، جب اسکی حقیقت معلوم ھو اور حقیقت کیا ہے، یہ اللہ ھی جانتا ہے۔ پھر بھی اگر کم سے کم الفاظ میں ھم اللہ کو جاننے کی کوشش کریں تو پھلی چیز جو ھمیں اللہ تک لے کر جائے گی وہ الوھیت ہے، یعنی خدائی کا تصور۔ وسیع کائنات جس کے آغاز اور انجام کا خیال کرنے سے ھمارا ذھن تھک جاتا ہے، جو نامعلوم زمانہ سے چلی آرھی ہے۔ جس میں بیحد و بے حساب مخلوق پیدا ھوئی اور پیدا ھوتی چلی آرھی ہے۔ جس میں ایسے ایسے حیرت انگیز کرشمے ھو رھے ہیں کہ ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اس طرح کی کائنات میں خدائی کا دعویٰ صرف وھی کرسکتا ہے جو لامحدود ھو، ھمیشہ سے ھو اور ھمیشہ رھے۔ کسی کا محتاج نہ ھو۔ قادر مطلق ھو۔ حکیم اور دانا ھو۔ علیم و خبیر ھو۔ کوئی چیز اس سے مخفی نہ ھو۔ وہ سب پر غالب ھو اور کوئی اسکے حکم سے سرتابی نہ کرسکے۔ بے حساب قوتوں کا مالک ھو۔ کائنات کی ساری چیزوں کو اس سے زندگی اور زندگی کا سامان بھم پھنچے۔ عیب، نقص اور کمزوری کی تمام صفات سے پاک ھو اور کوئی بھی اسکے کاموں میں دخل نہ دے سکے۔
یہ تمام صفات صرف ایک ذات واحد میں جمع ھونا ضروری ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ دو ھستیاں برابر کی صفات رکھ سکیں، کیونکہ سب پر غالب اور سب پر حاکم تو صرف ایک ھی ھوسکتا ہے۔ یہ ممکن ھی نھیں کہ صفات تقسیم ھو کر بھت سے خداؤں میں بٹ جائیں، جس طرح ھندوؤں کا عقیدہ ہے، کیونکہ اگر ایک حاکم ھو، دوسرا عالم، تیسرا رازق ھو تو ھر ایک دوسرے کا محتاج ھو جائے گا اور ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیں گے تو یہ کائنات یک لخت فنا ھوجائے۔
جیسا کہ اللہ پاک قرآن پاک "سورہ الانبیاء، آیت ۲۲" میں ارشاد فرماتا ہے:"اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ھوتے تو زمین اور آسمان دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ بس پاک ہے اللہ جو عرش کا مالک ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رھے ہیں۔" کیونکہ اس طرح ممکن نھیں تھا کہ سب آزاد اور خود مختار خدا ھمیشہ ھر معاملے میں ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کرکے اتنی وسیع کائنات کے نظم و نسق کو آپس میں یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے، بلکہ ان کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ھوتا۔ ھر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ کسی نہ کسی طرح وہ ساری کائنات کا مالک بن جائے۔
خدا کے اس کامل اور صحیح تصور کو مدنظر رکھ کر جب ھم کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ عالم کی ساری موجودات میں سے ایک بھی ان صفات سے متصف نھیں ہے۔ وھی تمام صفات میں یکتا ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں محتاج ہیں، محکوم ہیں، بنتی بگڑتی ہیں، مرتی جیتی ہیں۔ کسی کو ایک حال پر قیام نھیں۔ کسی ایک کو بالا تر قانون کے خلاف بال برابر حرکت کرنے کا اختیار نھیں۔ ان کے حالات خود گواھی دیتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خدا نھیں بلکہ کسی چیز میں خدائی کی ادنٰی جھلک بھی نھیں۔ کسی کا خدائی میں ذرہ برابر دخل نھیں ہے۔
کائنات کی ساری چیزوں سے خدائی چھین لینے کے بعد ھمیں یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ پھر ایک ھی ھستی ایسی ہے جو سب سے بالا تر ہے، صرف وھی تمام خدائی صفات رکھتی ہے اور اس کے سوا کوئی اللہ نھیں۔ اسی لئے تو اسلام کے تمام عقائد اور تمام عملی نظام میں سب سے پھلی اور بنیادی چیز ایمان باللہ ہے یعنی اللہ پر ایمان۔
" سفیان بن عبداللہ ثقفی سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ اسلام سے متعلق انھیں کوئی ایسی پکی بات بتا دیں کہ پھر انھیں اسکے متعلق کسی سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت باقی نہ رھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس بات کا اقرار کر کہ میں ایمان لایا اللہ پر اور پھر اس پر قائم ھو جا۔"
ایمان باللہ کے علاوہ باقی جتنے عقائد و اعمال ہیں، سب اسی ایک کے تابع ہیں۔ فرشتوں پر ایمان اسلئے ہے کہ وہ اللہ کے فرشتے ہیں اور اسکے حکم سے ھر وقت اسکی عبادت میں مصروف رھتے ہیں۔ کوئی حالت قیام میں ہے، کوئی رکوع کر رھا ہے، کوئی سجدے میں ہے، کوئی تشھد میں بیٹھا ھوا ہے تو تا قیامت انکی یہ حالت رھے گی اور اسی حالت میں وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے رھیں گے۔ کتابوں پر ایمان اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کی نازل کی ھوئی ہیں اور ان میں اللہ کے ھی احکامات درج ہیں۔ رسولوں پر ایمان اس لئے کہ وہ اللہ پاک نے ھی اپنے بندوں کی رھنمائی و ھدایت کے لئے بھیجے ہیں۔ یومِ آخرت پر ایمان اس لئے ہے کہ وہ خدا کے انصاف کا دن ہے۔ اسی طرح نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج، جھاد وغیرہ اسلئے فرائض میں شامل ہیں کہ اللہ نے ان کو مقرر کیا ہے۔ غرض ھر وہ چیز جو اسلام میں داخل ہے، خواہ وہ عقیدہ ھو یا عمل، اسکی بنیاد ایمان باللہ پر قائم ہے۔
اس ایک چیز کو الگ کر دیجئے پھر نہ ملائکہ کوئی چیز ہیں نہ یومِ آخرت۔ نہ رسول پیروی کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور انکی لائی ھوئی کتابیں۔ نہ فرائض اور عبادات میں کوئی معنٰی باقی رہ جاتے ہیں اور نہ حقوق و واجبات میں۔ گویا اس ایک مرکز کے ھٹتے ھی یہ سارے کا سارا نظام درھم برھم ھو جاتا ہے، بلکہ اسلام ھی کسی چیز کا نام باقی نھیں رہ جاتا کہ اسلام کے معنی سلامتی کے اور جب کوئی چیز ھی سلامت نھیں رھی تو اسلام کھاں رھا۔
قرآن ھمیں بتاتا ہے کہ خدا کا اعتراف انسان کی فطرت میں شامل ہے اور یہ اس عھد و پیمان کا نتیجہ ہے جو روزِ اول کو خالق و مخلوق کے درمیان ھوا تھا۔ "اور جب تمھارے رب نے آدم کی پشت سے اس کی نسل کو پیدا کیا اور ان کو انھی پر گواہ کیا اور کھا کہ کیا میں تمھارا رب نھیں ھوں؟ انھوں نے کھا۔ ھاں۔ ھ گواہ ہیں۔ (سورۃ الاعراف۔۱۷۲)" یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی خارجی اثرات سے انسان کا یہ جذبۂ فطرت دب جاتا رھا ہے اور پھر وحی الٰھی کے ذریعہ سے بار بار انسان کے اس دبئے ھوئے جذبے کو ابھارا گیا۔
چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک جتنے بھی انبیاء کرام آئے، ان سب نے ھی توحید کا پرچار کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے۔
"جب اللہ کے رسول ان کے پاس آگے اور پیچھے کی طرف سے آئے اور انھیں سمجھایا کہ خدا کی سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ ( حٰم السجدہ۔۱۴)
انبیاء سے بڑھ کر خود خالق کائنات کی گواھی ہے، جو اس چیز کی شھادت دے رھا ہے کہ پورے عالم میں اس کی ذات کے سوا کوئی ایسی ھستی نھیں، جو خدائی کی ذات سے متصف اور خدائی کے اقتدار کی مالک ھو۔ اسکے بعد فرشتے جو کائنات کے انتظامی اھل کار ہیں۔ وہ اپنے ذاتی علم کی بنا پر شھادت دے رھے ہیں کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ھستی نھیں ہے، جس کی طرف زمین و آسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رجوع کرتے ھوں۔ اسکے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بھت علم حاصل ھو، ان سب کی آغاز دنیا سے آج تک یہ متفقہ شھادت رھی ہے کہ ایک ھی خدا اس اس پوری کائنات کا مالک ہے۔ اللہ پاک خود فرماتے ہیں۔
"اللہ نے خود اس بات کی شھادت دی ہے کہ اسکے سوا کوئی خدا نھیں اور فرشتے اور سب اھلِ علم بھی ثابت قدمی اور انصاف کے ساتھ اس پر گواہ ہیں کہ اس زبردست اور حکمت والے کے سوا کوئی خدا نھیں ہے۔ (آل عمران۔ ۱۸)"
تحریر: ابنِ نیار
 

Add comment


Security code
Refresh