www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سٹیفن آر کووے کا شمار امریکہ کی پھلی پچیس متاثرکن شخصیات میں ھوتا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انتھائی کامیاب معلم، بزنس مین اور تخلیق کار تھے۔

انھوں نے بھت ساری کتابیں لکھیں۔ ان کی ایک کتاب The Seven Habits of Highly Effective People کی فروخت ھونے والی جلدوں کی تعداد کم و بیش دو کروڑ بتائی جاتی ہے، جس کے بتیس سے زائد زبانوں میں تراجم ھوچکے ہیں اور بیسویں صدی کی دو اھم ترین کتابوں میں سے ایک یہ ہے۔
کووے کی یہ کتاب ان اصولوں کی طرف رھنمائی کرتی ہے جنھیں اپنا کر ایک کامیاب زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ کووے کے مطابق ھم ھمیشہ باھر کی تبدیلی کے متمنی رھتے ہیں، جبکہ اصل تبدیلی اپنے اندر سے لانے کی ضرورت رھتی ہے۔ وہ انداز فکر کو تبدیل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اس کتاب کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پھنچا کہ کووے بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات سے متاثر ہے۔ فکر یعنی سوچ کے دو ھی پھلو ہیں مثبت یا منفی۔ سوچ اگر مثبت ھو تو دین اسلام میں اسے حُسن ظن اور اگر منفی ھو تو اسے بدظنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
حضور پاک ﷺنے بدظنی کو بڑا جھوٹ قرار دیا ہے۔ آئمہ اطھار علیھم السلام کی تعلیمات بدظنی کی ممانعت اور حسن ظن کی ترغیب دیتی ہے۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے اپنا ایک بیس سالہ پرانا واقعہ یاد آگیا ہے۔ ایک عالم دین کی میں نے بھت تعریف سن رکھی تھی کہ وہ علمی اعتبار سے بلند پایہ اور متقی تھے۔ ایک دن ھمارے علاقے کے ایک دینی پروگرام میں انھیں خطاب کرنا تھا۔ بدقسمتی سے میں کسی مصروفیت کے سبب ان کے خطاب سے مستفید تو نہ ھوسکا لیکن یہ سوچ کر اس جگہ پھنچ گیا کہ چلیں ان کی کسی طور زیارت تو ھو جائے گی۔ وہ علامہ صاحب مسجد سے باھر تشریف لائے تو ایک آدمی نے آگے بڑھ کر ان کے پاوں میں بوٹ پھنائے اور تسمے باندھنے لگا۔ وہ اس دوران بڑی بے نیازی سے ایک دوسرے شخص سے باتیں کرنے میں لگے رھے۔ میری نظر میں ان کی عاجزی و انکساری کا قدآور بت زمین بوس ھوگیا۔ میں انھیں ایک متکبر شخصیت سمجھتے ھوئے بغیر ملے باھر آگیا اور دل میں تھیہ کر لیا کہ آئندہ اس شخص کو کبھی نھیں سنوں گا، جس کا کردار اور گفتار ایک دوسرے کی ضد ہے۔ اس کے بعد ان علامہ صاحب کا کئی بار ھمارے علاقے میں آنا ھوا۔ وہ جب بھی آتے میرے ایک دوست کے گھر قیام فرماتے، لیکن میرے اندر ان کے خلاف جو ابال تھا وہ اترنے کا نام نھیں لے رھا تھا۔

تقریباً دس سال بعد ان کا انتقال ھوگیا۔ ایک دن اسی دوست کے پاس بیٹھا ھوا تھا تو علامہ صاحب کا ذکر چھڑ گیا۔ اس شخص کی آنکھیں نم ھوگئیں کھنے لگا علامہ صاحب عاجزی و انکساری کا مجسمہ تھے۔ میں نے اپنی پوری زندگی ایسا متقی اور منکسر المزاج شخص نھیں دیکھا۔ علامہ صاحب کی زندگی کے مختلف پھلووں پر گفتگو کرتے ھوئے بتایا کہ علامہ صاحب کمر کی تکلیف کا شکار تھے، جس کے باعث وہ نیچے کی جانب جھک نھیں سکتے تھے۔ انھیں جوتے پھننے میں سخت دقت ھوتی۔ اس مقصد کے لئے مجبوراََ انھیں ایک ملازم رکھنا پڑا جو انھیں جوتے پھناتا تھا۔
اپنے اس عمل سے وہ تادم مرگ سخت بیزار تھے اور اسے اپنے لئے سخت اذیت و خجالت کا باعث قرار دیتے۔ گو کہ اس کے عوض وہ اس شخص کو نہ صرف تنخواہ دیتے تھے بلکہ اس کے دو بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی مستقل طور پر اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ آج ان میں سے ایک بچہ وکالت کر رھا ہے اور دوسرا عالم دین بن چکا ہے۔ یہ سنتے ھی میں سٹپٹا گیا۔ میری اس بدظنی نے مجھے ایک متقی عالم دین سے دور کئے رکھا۔
مذکورہ بالا واقعہ سنانے کا مقصد یہ تھا کہ ضروری نھیں ھم جو سوچتے ہیں وہ سو فیصد درست ھی ھو۔ ھمیں اپنی رائے کے اظھار میں تمام پھلووں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ھوتی ہے۔ انداز فکر کا اثبات میں ھونا ایک تعمیری شخصیت کو پروان چڑھاتا ہے۔
ھم جب تک اپنے رویوں کو نھیں بدلیں گے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے رھیں گے تو ھمارا یہ طرز ِعمل معاشرے کی تنزلی کا سبب بنتا رھے گا۔
سٹیفن کووے نے اپنی اسی تصنیف میں ایک اور دلچسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں ٹرین میں سفر کر رھا تھا۔ انتھائی پرسکون ماحول تھا، سب سفر سے لطف اندوز ھو رھے تھے، اس دوران کسی اسٹیشن سے ایک شخص سوار ھوا، اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ٹرین پھر منزل کی طرف رواں دواں تھی، لیکن اب سکون نھیں تھا۔ وہ بچے کبھی ایک کی چیزوں کو چھیڑتے کبھی دوسرے کی، کبھی لڑنا شروع کر دیتے اور کبھی چھینا چھپٹی، لیکن وہ شخص بدستور انتھائی پرسکون انداز میں ایسے آنکھیں بند کئے ھوئے تھے، جیسے اُس پر ان کا کوئی اثر نھیں ھو رھا۔ میرے لئے یہ بات انتھائی ناگوار اور برداشت سے باھر ھوتی جا رھی تھی کہ وہ اپنے ان بچوں کو منع کیوں نھیں کر رھا، جنھوں نے تمام مسافروں کو ستایا ھوا ہے۔
آخر میں نے تنگ آکر اس شخص کو کھا سر آپ اپنے ان بچوں کی شرارتوں کو دیکھ رھے ہیں؟؟ جی ھاں میں دیکھ رھا ھوں، اس نے لمبی آہ بھرتے ھوئے جواب دیا اور پھر یوں آنکھیں بند کر لیں جیسے میری بات کا اُس پر کوئی اثر نھیں ھوا۔ اُس شخص کی اِس بے حسی پر میرے غصے میں اضافہ ھوگیا۔ میں نے اسے کاندھوں سے ھلایا اور کچھ کھنے ھی لگا تھا کہ وہ خود مخاطب ھوا۔ ایک گھنٹہ پھلے ان کی والدہ کا انتقال ھوگیا ہے اور میری سمجھ میں کچھ نھیں آ رھا کہ میں ان معصوم بچوں سے یہ بات کیسے شیئر کروں۔ اس کی آنکھیں ویران اور لھجے سے شدید درد جھلک رھا تھا۔ یہ سننا تھا کہ میرا انداز فکر فوراً تبدیل ھوگیا۔ وھاں موجود مسافر جو پھلے ان بچوں کی حرکتوں سے نالاں تھے، وہ سب ان سے ھمدردی کے اظھار میں اب پیش پیش تھے۔ اب وہ ان کی شرارتوں میں ساتھ ساتھ شریک تھے اور انھیں اپنے سامان میں سے کھانے پینے کی اشیا نکال نکال کر دے رھے تھے۔ ایک واقعہ نے سب کے زاویہ نگاہ کو کس طرح یکسر بدلنے پر مجبور کر دیا۔
سوچنے کا انداز حقیقت کھلنے پر تبدیل ھو جانا ایک فطری عمل ہے۔ جب تک سوچ کی ڈوری حقیقت پسندی کی بجائے ذاتی کیفیت کے ساتھ جڑی رھتی ہے، ھم خود کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھ رھے ھوتے ہیں، ھمارا کردار و گفتار ھماری سوچ کے عملی اظھار کا نام ہے۔
اگر ھم حسن ظن کو اپنا لیں اور دوسروں کے بارے میں خوش گماں رھیں تو بھت سارے گناھوں اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے، بصورت دیگر خود پسندی اور غیبت جیسے گناھوں کے اشجار کی آبیار بدگمانی سے ھی پروان چڑھتی ہے۔ جس کی اسلام میں قطعاََ اجازت نھیں۔ دوسروں کے بارے میں بدگمانی کا گناہ خاندانوں کے مابین انتشار کا بنیادی سبب ہے۔
اس وقت دنیا میں غیر مسلم قومیں اسلامی تعلیمات کو بنیاد بنا کر کامیابی اور معاشرتی عدل و انصاف کے اصول متعین کر رھی ہیں، لیکن ھماری بدقسمتی ہے کہ ھم نے مذھب کو محض لڑنے جھگڑنے کے لئے اختیار کر رکھا ہے۔ اگر ھم آج اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات سے ھم آھنگ کر لیں تو پھر نفرتوں کے سارے باب ختم ھوجائیں گے، لیکن شرط خود احتسابی ہے، تبدیلی کا آغاز اپنے اندر سے کیا جائے، بجائے دوسروں کو تبدیل کرنے کے۔
تحریر: امتیاز حسین کاظمی
 

Add comment


Security code
Refresh