www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دنیا میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نھیں ھوگا، جسے حرمین شریفین اپنی جان سے بڑھ کر عزیز نہ ھو۔ البتہ یہ موضوع ضرور قابل بحث ہے کہ آیا سعودی عرب اور یمنی قبائل کے درمیان شروع ھونے والی جنگ سے حرمین کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے یا نھیں؟

 یمن حضرت اویس قرنی کا دیس اور عشاق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگری ہے۔ یھاں اسلام کی روشنی خواجہ اویس نے پھیلائی اور اس طرح پھیلائی کہ 99 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔
یہ وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں روایات ملتی ہیں کہ اس زمین سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یمن کی جانب اشارہ کرکے فرمایا: "سنو! ایمان اھل یمن میں ہے"۔ (صحیح مسلم)۔ مزید فرمایا :"ایمان یمنی ہے، فقہ یمنی ہے، حکمت یمنی ہے"۔
26 مارچ کو سعودی عرب نے 9 اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ کیا۔ تادم تحریر ان اتحادی ممالک کے حملوں میں یمن کے 700 سے زائد شھری شھید ھوچکے ہیں۔ جن میں 72 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد دو ھزار سے متجاوز ہے۔
سعودی فرمانروا سے لے کر کسی بھی چھوٹے یا بڑے حکومتی عھدیدار نے یہ خدشہ ظاھر نھیں کیا کہ خدانخواستہ اس جنگ کے نتیجے میں کعبہ شریف یا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطرے میں ہے۔ آپ کوشش کریں اور گوگل کریں کہ 26 مارچ یمن پر حملہ کرنے کے دن سے آج تک سعودی عرب یا 9 اتحادی ممالک میں کسی ایک ملک میں بھی "حفاظت حرمین" کے حوالے سے کوئی ایک جلسہ ھوا ھو، کوئی جلوس نکلا ھو، کوئی ریلی برآمد ھوئی ھو یا کوئی کانفرنس منعقد ھوئی ھو۔
وھاں کے عوام بھت اچھی طرح یہ جانتے ہیں کہ حرمین کو دور دور تک کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نھیں۔ البتہ پاکستان میں کچھ جماعتوں کے ھاتھ "مال کماؤ پروگرام" آگیا ہے اور وہ حرمین کے مقدس ترین نام پر اپنی دکانیں چمکا رھے ہیں۔
میں حیران رہ گیا کہ اسلام آباد کے ایک پنچ ستارہ ھوٹل میں "حفاظت حرمین کانفرنس" منعقد ھوئی ہے۔ یہ پیسہ کون دے رھا ہے اور کسے دے رھا ہے، خدا کی ذات بھتر جانتی ہے۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو سعودی عرب دنیا میں امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 60 سے 70 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اڑھائی لاکھ افراد پر مشتمل فوج ہے۔
امریکہ کے 5 ائیر بیس سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جھاں 20000 امریکی سپاھی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کر رھے ہیں۔ پاکستانی افواج بھی کثیر تعداد میں پھلے سے ھی موجود ہیں۔ 9 دیگر ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر بھی شامل ہیں، جبکہ امریکی افواج انھیں مکمل جاسوسی اور لاجسٹک سپورٹ فراھم کر رھی ہیں۔
اس کے مقابلے میں اس "عظیم ترین لشکر" نے جن لوگوں پر حملہ کیا ہے۔ ان کی تعداد محض 20 سے 30 ھزار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تن پر ڈھنگ کا لباس ہے نہ پاؤں میں جوتی۔
یمن کی آبادی تقریباً 40 فیصد زیدی شیعہ یعنی انصاراللہ اور 60 فیصد سنی افراد پر مشتمل ہے۔ جن میں اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یمنی صدر ھادی منصور کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک میں شیعہ اور سنی دونوں مسلمان شامل ہیں اور ان کے بنیادی مطالبات بدعنوانی کا خاتمہ، پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور قومی حکومت کی تشکیل ہے۔
صدر ھادی منصور ملک سے فرار ھوا تو انھی افراد نے حکومت تشکیل دی اور تمام طبقوں کو آئینی حقوق اور آزادی دی۔ سابق صدر علی عبداللہ صالح اور اس کی حامی افواج بھی انصاراللہ کی حمایت کر رھی ہیں۔
البتہ سعودی عرب کو مسلکی حوالوں سے فکر لاحق ھوئی کہ انصاراللہ بھی حزب اللہ کی طرح ایران کا حمایتی گروپ نہ بن جائے۔ اس حوالے سے ایران پر حوثیوں کو اسلحہ فراھم کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ جس کی ایران نے سختی سے تردید کی۔ بالآخر سعودی عرب نے اتحادیوں کی حمایت اور امریکہ کی مشاورت سے یمن پر حملہ کر دیا۔
انصاراللہ اور اس سے منسلک یمنی اتحادیوں کی امن پسندی کی اس سے بڑی مثال کیا ھوگی کہ یہ جانتے ھوئے کہ پاکستان علی الاعلان سعودی عرب کا اتحادی ہے، انھوں نے یمن میں موجود کسی بھی پاکستانی کو نہ صرف گزند نھیں پھنچائی بلکہ ان کی بحفاظت واپسی کو بھی یقینی بنایا اور پرنم آنکھوں سے انھیں وداع کیا۔
کیا یھی پاکستانی طالبان یا داعش کے علاقے میں ھوتے، تو کیا انکی زندہ واپسی کا تصور کیا جاسکتا تھا۔؟ حیرت ہے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان پر جو اس مسئلہ پر اھل یمن کی بجائے سعودی عرب کا شکریہ ادا کر رھے تھے، "جو چاھے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے"۔
پاکستان اس وقت بھت نازک پوزیشن میں ہے۔ افواج پاکستان کو اندرونی و بیرونی دونوں جگہ دشمن کا سامنا ہے۔ حالات اس نھج پر پھنچ گئے ہیں کہ سات سال بعد پھلی دفعہ افواج پاکستان نے 23 مارچ کو پریڈ کرنے کا "رسک" لیا۔ بھت عرصہ بعد عوام اور افواج دھشت گردوں کے خلاف ایک صفحہ پر موجود ہیں، مگر ابھی تو ابتدا ہے۔
فاٹا بدستور دھشتگردوں سے بھرا ھوا ہے، کراچی جل رھا ہے، مساجد امام بارگاھیں، چرچ، سکولز، مارکیٹیں حتی کہ آرمی کے مراکز اور پولیس سنٹرز بھی محفوظ نھیں ہیں۔
افغانستان سے ابھی بھی دھشتگرد داخل ھو رھے ہیں۔ ایسے میں افواج پاکستان کو سعودی عرب بھیجنا ایسا ھی ہے جیسے آپ کے گھر چور گھسے ھوں اور آپ اپنے چوکیداروں کو ھمسائیہ کی حفاظت کے لئے بھیج دیں۔ کھنے والے تو یھاں تک کھہ رھے کہ یمن پر حملہ سعودی عرب نے نھیں کیا بلکہ امریکہ نے کروایا ہے۔
بالکل اس طرح جس طرح صدام سے پھلے ایران پر حملہ کرایا، پھر کویت پر اور اسی کی آڑ میں امریکی افواج "حفاظت" کی غرض سے سعودی عرب میں داخل ھوگئیں۔ اس حملہ کا مقصد دراصل پاکستان کو ایک نئی جنگ میں الجھا کر کمزور کرنا اور پھر مکمل ختم کرنا ہے۔ ھماری مقتدر قوتوں کو اس نازک وقت میں اپنا ملک بچانے کی فکر کرنی چاھیئے۔ جنگیں شروع کرنا اپنے اختیار میں ھوتا ہے مگر ختم اپنی مرضی سے نھیں ھوتیں۔
تحریر: احسن شاہ
 

Add comment


Security code
Refresh