www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یمن کے دارالحکومت صنعاء پر قبضے اور پھر سعودیہ کی جانب سے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد یمن کا حوثی قبیلہ دنیا بھر میں موضوع بحث بنا ھوا ہے، لیکن عوام کے ساتھ بھت سے صاحب علم افراد بھی حوثی قبیلے کی تاریخ اور مذھب کے بارے میں مستند معلومات نھیں رکھتے۔ 

 حوثی شیعہ مذھب کے زیدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ زیدی شیعہ عقائد کے اعتبار سے اثناء عشری (بارہ امامی) شیعہ سے مختلف ہیں۔ اثناء عشری شیعہ امامت پر نص کے اصول کے قائل ہیں۔ جس کے مطابق امام کے انتخاب کا حق اُمت کی بجائے خدا کو حاصل ہے، جبکہ زیدی شیعوں کا ماننا ہے کہ امامت اگرچہ اھل بیت (ع) کا حق ہے، تاھم اُمت اھل بیت میں سے کسی بھی ایسے راھنماء کو امام مان سکتی ہے جس کا عدل مشھور ھو اور جو ظلم کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے۔
معاملات کو سمجھنے کے لئے ھم یمن کی پچھلی ایک دو صدیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے شمالی یمن زیدی شیعہ اکثریتی علاقہ رھا ہے۔ زیدی شیعوں کے سیاسی تسلط کی تاریخ شمالی یمن میں کوئی ھزار سال تک پھیلی ھوئی ہے۔
اس میں ایسے ادوار بھی ہیں جن میں یہ تسلط شمالی یمن سے بڑھ کے تقریباً پورے یمن میں موجود رھا ہے۔ اس کے برعکس جنوبی یمن جس کا سیاسی دارالحکومت بالعموم عدن کی بندرگاہ ہے، تاریخی اعتبار سے سنیوں کے شافعی مکتبہ فکر کی اکثریت کا گھوارا رھا ہے۔
عدن کی بندرگاہ اور جنوبی یمن کے اکثر حصے اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں پھلے سلطنت عثمانیہ اور بعد میں براہ راست برطانوی سلطنت کے زیر اختیار چلے گئے تھے۔
تاھم شمالی یمن میں دو صدیوں سے قائم شیعہ زیدی امامت نے کسی نہ کسی طرح 1962ء تک اپنی سلطنت کو برقرار رکھا، اگرچہ اُس کی حیثیت کئی ادوار میں علامتی ھی تھی۔
1962ء میں مشرقِ وسطٰی میں جاری عرب سوشلسٹ نیشنلسٹ تحریک کے نتیجے میں مصر کے جمال عبدالناصر کے حامی فوجی افسران نے شمالی یمن میں شیعہ زیدی امامت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اس موقعہ پر سعودی عرب کی حکومت نے زیدی امام کا ساتھ دیا تھا جبکہ باغیوں کی امداد کے لئے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے مصری فوج اور بڑی مقدار میں اسلحہ یمن بھیجا تھا۔
یمن کی یہ خانہ جنگی 5 سال تک جاری رھی۔ 1967ء میں اسرائیل جنگ میں بدترین شکست کے نتیجے میں جمال عبدالناصر شمالی یمن سے مصری افواج کے انخلا پر مجبور ھوگیا تھا۔ یوں سعودی عرب اور مصر کے درمیان ایک مفاھمت کے نتیجے میں یمن دو حصوں میں تقسیم ھوگیا تھا۔
ایک طرف شمال میں جمھوریۂ یمن معرض وجود میں آیا تو دوسری طرف جنوبی یمن میں جاری نیشنلسٹ سوشلسٹ گوریلا تحریک کے نتیجے میں برطانیہ کا عدن اور جنوبی یمن کی دوسری نوآبادیوں سے انخلا عمل میں آیا۔ جس کی بدولت عوامی جمھوریۂ یمن یا سوشلسٹ یمن کا قیام عمل میں آیا، جو سرد جنگ کے زمانے میں عرب دنیا کی واحد سوشلسٹ جمھوریہ تھی۔
1990ء میں ایک معاھدے کے تحت شمالی اور جنوبی یمن میں اتحاد ھوگیا۔ یوں 22 مئی 1990ء کو علی عبداللہ الصالح متحدہ یمن کا پھلا صدر بن گیا۔
22 مئی 1990ء سے 27 فروری 2012ء تک یمن پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے علی عبداللہ صالح کا تعلق متحدہ یمن کے دارالحکومت صنعاء کے نواح میں مقیم احمر قبیلے سے ہے، جس کی اکثریت زیدی شیعہ ہے۔ خود عبداللہ کا تعلق بھی اسی مذہب ہے۔
عبداللہ الصالح کی متحدہ یمن پر حکومت کے قیام کو چند ماہ ھی گزرے تھے کہ اگست 1990ء میں کویت پر عراق نے قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد عرب کی تمام ریاستوں نے صدام حسین کی عراقی حکومت کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ لیکن یمن کا عمومی جھکاؤ عراق کی جانب تھا۔ جس کی وجہ سے یمن اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ھوگئے۔ خصوصاً خلیج کی دوسری جنگ کے موقعہ پر یمن نے کھل کر اپنا وزن عرب اتحاد کے مخالف پلڑے میں ڈال دیا تھا۔
یمن کی خارجہ پالیسی کے ردعمل میں سعودی عرب، کویت اور دیگر خلیجی ممالک کی عاقبت نااندیش قیادت نے اپنے ھاں سے بڑی تعداد میں یمنی شھریوں کو نکال دیا۔
خلیجی ممالک سے بڑے پیمانے پر انخلاء کی وجہ سے یمن میں عوام بھت زیادہ معاشی مشکلات کا شکار ھوگئے، خصوصاً یمن میں بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ھوگیا۔ اس معاشی ناگفتہ بہ صورت حال میں یمن کی عوام میں عرب حکومتوں کے خلاف جذبات کا پیدا ھونا فطری عمل تھا۔
1990ء میں عرب ممالک کی جانب سے یمن کی اقتصادی امداد کی کٹوتی اور عمومی سرد مھری کے رجحان کے بعد سید حسین بدرالدین حوثی نے "شباب المومنین" نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔
حسین ایک زبردست خطیب اور اپنے ساتھ لوگوں کو لے کر چلنے میں ماھر تھے۔ آپ نے سب سے پھلے نوجوانوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور بھت سے علاقوں میں ھسپتال، سکولز اور سوشل ویلفیئر کے دوسرے منصوبے شروع کئے۔ ان تمام اداروں میں خاص طور پر "امامی شیعہ دینیات" کے پڑھنے اور پڑھانے کا نظام قائم کیا گیا۔
سید حسین بدر الدین حوثی نے اپنی خطیبانہ مھارت اور انقلابی نعروں سے حوثی قبیلے کے شیعہ قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کرلیا۔ بھت سے فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ھوگئے۔
14 سال کی محنت کی بدولت سید حسین بدر الدین حوثی نے اتنی عسکری قوت مھیا کی کہ اُس نے 2004ء میں یمن پر سعودی عرب کے ایما پر یمنی فوج کی جارحیت کے خلاف اقدام کیا۔ شباب المومنین کا بانی سید حسین بدرالدین اور اُس کے بھت سے اھم رفقاء یمنی فوج کے ھاتھوں شھید ھوئے۔
خیال رھے کہ اس وقت یمن پر زیدی مذھب سے تعلق رکھنے والے علی عبداللہ الصالح کی حکومت تھی۔ سید حسین بدر الدین کی شھادت کے بعد تحریک کی قیادت اُس کے بھائی عبدالمالک الحوثی کے پاس آگئی۔ عبدالمالک الحوثی نے قیادت سنبھالتے ھی شباب المومنین کی تنظیم کو تحلیل کرکے اس کی جگہ نئی تنظیم انصاراللہ قائم کی، جسے عرف عام میں الحوثی تحریک کھا جاتا ہے۔
یمن کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ھوئی جب تیونس، مصر اور لیبیا میں عرب بھار کی کامیابی کے بعد یمن کے دارالحکومت صنعاء اور دوسرے شھروں میں مظاھرے شروع ھوگئے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔
حکومت نے مظاھرین سے سختی سے نمٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ 2 ھزار سے زائد افراد مارے گئے۔ 22 ھزار شدید زخمی ھوئے، جبکہ 7 ھزار افراد جیلوں میں قید کر دیئے گئے۔
علی عبداللہ الصالح کی ری پبلکن گارڈز کی جانب سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مظاھرین ڈٹے رھے۔ جس کی وجہ سے علی عبداللہ الصالح کو اقتدار سے محروم ھونا پڑا اور یمن کے تمام سٹیک ھولڈرز پر مشتمل حکومت کا قیام عمل میں آیا۔
نئی قائم ھونے والی حکومت کا صدر "عبد ربہ منصور ھادی" بنا، جو سیاسی اعتبار سے مضبوط شخصیت کے مالک نہ ھونے کے باعث ملکی سطح کوئی مضبوط پالیسی وضع نھیں کرسکا اور بیرونی قوتوں خاص طور پر سعودی عرب کے ھاتھوں استعمال ھوتا رھا اور ان کے اشاروں پر ملکی سیاست کو چلانے کی پوری کوشش کی، دوسری جانب وزارت عظمٰی کا عھدہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود تکفیری گروہ اخوان المسلمون کی یمنی شاخ جماعت الاصلاح کے پاس آگیا۔
اس طرح یمنی عوام کی اکثریت اقتدار سے محروم رھی، اسی احساس محرومی نے یمنی عوام کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے ایک بار پھر میدان میں آنے پر مجبور کر دیا۔ یھاں حالات نے ایک اور کروٹ لی، یمن کے اکثر علاقوں میں حوثیوں کی اقتدا میں اکثر یمنی قبائلیوں کی جانب سے انقلاب کے حق میں نعرے بلند ھونا شروع ھوئے اور سید عبدالمالک حوثی کی قیادت میں عوامی فورس نے پیش قدمی کرنا شروع کر دی، اور وہ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے دارالحکومت صنعاء پر قابض ھوگئے۔ جھاں انھوں نے سب سے پھلے تکفیری گروه "جماعت الاصلاح" کے وزیراعظم "سلیم باسندوا" کو برطرف کر دیا۔
یمن کے دارالحکومت صنعاء پر انقلابیوں کے مکمل قبضے اور موجودہ وزیراعظم کے استعفٰی کے بعد قصر صدارت میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بن عمر کی زیر نگرانی انقلابیوں کی نمائندگی کرتے ھوئے حوثی نمائندوں اور باقی یمنی سیاسی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ھوئے۔ جسے "اتفاقیۃ السلم والشراکۃ" (معاھدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاھدے کے تحت سابق یمنی حکومت کا خاتمہ ھوگیا۔ فوری طور پر ایک ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام پر اتفاق ھوا، جس کا وزیراعظم عوامی نمائندہ جماعت حُوثیوں میں سے ھونا قرار پایا اور مستعفی صدر "عبد ربہ ھادی منصور" کو اس مجوزہ حکومت کا عبوری صدر نامزد کیا گیا۔
حُوثیوں نے اس امن معاھدے کی سیاسی دستاویز پر دستخط کر دیئے۔ معاھدے کے بعد جب سعودی عرب نے دیکھا کہ اس معاھدے کی رو سے یمن میں عوامی حکومت قائم ھوگی، جس کی رو سے یمن کے اندرونی معاملات میں وہ اپنے ناپاک عزائم میں ناکام ھوسکتا ہے۔
اسی لئے "عبد ربہ ھادی منصور"کے ذریعے معاھدے کی مخالفت کرنے کی کوشش کی اور مستعفی صدر "عبد ربہ ھادی منصور"کو یمنی عوام کے خلاف استعمال کرنے کیلئے دارالحکومت صنعا سے یمن کے دوسرے بڑے شھر عدن فرار کرانے میں کامیاب ھوا اور اسی کے ساتھ عدن کو یمن کا دارالحکومت قرار دیتے ھوئے اپنے سفارتی عملے کو بھی عدن منتقل کر دیا اور انقلاب یمن کو کچلنے کیلئے القاعدہ اور دوسرے تکفیری گروھوں کے ساتھ اتحاد قائم کی، جسکی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جانے لگا۔
اسی لئے حوثیوں کی قیادت میں انقلابیوں نے جنوبی علاقوں کی جانب پیش قدمی کرتے ھوئے عدن کا محاصرہ کرلیا اور اس طرح یمن کے اندر سعودی عرب کے تمام ناپاک عزائم انقلابیوں کے ھاتھوں خاک میں مل گئے اور یمنی عوام سے ناکامی کا بدلہ لینے کیلئے عین اسی وقت مستعفی صدر "عبد ربہ ھادی منصور" کی قانونی حکومت کو بچانے کے بھانے سعودی عرب نے کچھ خلیجی ملکوں کے ساتھ مل کر فضائی حملوں کا آغاز کیا، جسکے نتیجے میں اب تک ھزاروں بے گناہ افراد جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے، شھید اور زخمی ھوئے۔
واضح رھے کہ یمن میں جمھوریت کے تحفظ کا دعویٰ سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے محض جھوٹا پروپیگنڈا ہے، کیونکہ سعودی عرب اور اس کی تمام حلیف حکومتوں میں دور دور تک جمھوریت کا نام و نشان تک نھیں پایا جاتا اور جس ملک کے اندر جمھوریت نہ ھو، وہ کس طرح دوسرے ملکوں میں جمھوریت کا ڈنڈورا پیٹ سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ سعودی عرب کو اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ یمن میں انقلاب کی کامیابی کے اثرات سعودی عوام میں بھی مترتب ھوسکتے ہیں اور سعودی مظلوم عوام کیلئے یمن کا انقلاب آئیڈیل بن سکتا ہے، جو صدیوں سے آل سعود کے مظالم کا شکار رھے ہیں۔
خیال رھے کہ سعودی عرب کی ڈیڑھ ھزار کلومیٹر طویل سرحد یمن سے ملتی ہے اور سعودی عرب کے تین صوبے "نجران، جازان اور عسیر" ماضی میں یمن کی سابق سلطنت کا حصہ رھے ہیں، جس پر سعودی عرب نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔
سعودی عرب کی منافقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سعودی عرب اسلامی ملک یمن کی عوام کے خلاف جارحیت کے لئے تو اتحاد قائم کرتے ھوئے بے گناہ افراد کو قتل کرنے میں مصروف ہے جبکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے فلسطینوں کے خلاف اسرائیل کے حملوں میں فلسطینی مظلوم عوام کی آواز پر مذمتی بیان تک جاری نھیں کیا گیا، یھاں تک سعودی دسترخوان پر پروان چڑھنے والے مفتیوں نے دنیا بھر میں فلسطینی عوام کے حق میں ھونے والے مظاھروں کو حرام قرار دیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی اور اس کے اتحادیوں کیلئے یمن کی سرزمین ویٹنام بنے گی اور عنقریب انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑیگا کیونکہ اس وقت یمن کی 70 فیصد آبادی زیدی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو ایمانی جذبے سے سرشار ہے۔
20 فیصد آبادی سنی بھائیوں کی ہے، جن میں اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، جو زیدیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ انقلاب کی کامیابی کیلئے جدوجھد کر رھے ہیں، اس لئے یمن میں سعودی عرب اور اس کے حامیوں کے لئے کوئی جگہ نھیں۔
تحریر: محمد علی جوھری
 

Add comment


Security code
Refresh