www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 امتوں کے فرائض :
قرآن مجید میں خدا وند متعال نے امت کے دو بڑے فریضے مقرر کئے ہیں :
ایک الٰھی احکام اور الٰھی رھبروں کے فرامین کے مطابق عمل کریں ،جس کا نام اطاعت رکھا گیا ہے ۔
دوسرا غیر الٰھی نظام ، طاغوتوں اور طغیان گری کے خلاف عکس العمل ،دکھائیں جسے دفاع کا عنوان دیا گیا ہے ۔
پس امت کے دواصلی فرائض عمل اور عکس العمل ہیں ، یعنی اطاعت اور دفاع۔ جس امت میں ان دو پر عمل ھوا اسے دنیا میں عزت و سرفرازی ، ترقی و کامیابی ، غلبہ اور اقتدار نصیب ھوا لیکن جس نے ان دو کاموں سے روگردانی کی اسے رسوائی ، ذلت اور خواری نصیب ھوئی ۔
اطاعت کے بارے میں قرآن مجید میں بار بار یاددھانی کرائی گئی ، خدا کی اطاعت ، رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت۔
امیرالمومنین نے عزت کا راستہ اطاعت کو قراردیا ہے۔
آپ فرماتے ہیں :
'' اذا طلبت العزّة فاطلبہ بالطاعة ''
اگرعزت کے طلبگار ھو تو اطاعت کے ذریعے طلب کرو۔
ایک دوسری روایت میں ہے :
''انّ ربّکم یقول کل یوم انا العزیز فمن اراد عزة الدارین فیطع العزیز''
پروردگار ھر روز فرماتا ہے کہ میں عزیز ھوں لھٰذا جسے دنیاو آخرت کی عزت چاھیے اسے عزیز کی اطاعت کرنی چاھیے۔
دفاع کے بارے میں قرآن مجید کا فرمان ہے :

'' الَّذِینَ ُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ ِلاَّ َنْ یَقُولُوا رَبُّنَا اﷲُ وَلَوْلاَدَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَع وَصَلَوَات وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اﷲِ کَثِیرًا وَلَیَنصُرَنَّ اﷲُ مَنْ یَنصُرُہُ ِنَّ اﷲَ لَقَوِیّ عَزِیز ''(سورہ حج،آیت٤٠)
''جو لوگ اپنے گھرو ں سے ناحق نکالے گئے ہیں وہ یہ کھتے تھے کہ ھمارا پروردگار فقط اﷲ ہے اور اگروہ بعض لوگوں کے ذریعے دوسرے بعض کو نہ روکتا تو گرجاگھروں ، کلیسائوں ، عبادت گاھوں اور مساجد کو جن میں کثرت سے اﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے منھدم کر دیا جاتا اور اﷲ یقینا اس کی مدد کرتا ہے جو اﷲ کی مدد کرے ، اﷲ یقینا بڑا طاقتور اور غالب آنے والا ہے ۔ ''
اس آیت کریمہ میں ردّ عمل اور دفاع کو نجات کا ذریعہ بتایا گیا ہے ۔ اگر لوگ ظالموں ، جنایتکاروں ، طاغوتوں اور حملہ وروں کے خلاف ردّ عمل نھیں دکھائیں گے تو انھیں اپنے شھروں ، آبادیوں اور ملکوں سے نکال باھر کیا جائے گا، ان کی مساجد ، عبادت گاھیں ، تعلیمی مراکز ویران کر دیئے جائیں گے ، جیسا کہ اس وقت پاکستان میں ھو رھا ہے ۔
پاکستان کی موجودہ صورت حال میں متعدد عوامل کا عمل دخل ہے لیکن قرآن کی رو سے اس تباھی اور ویرانی کے پیچھے ایک اھم عنصر یہ کارفرما ہے کہ لوگ اور عوام وہ کردار ادا نھیں کر رھے جو انھیں کرنا چاھیے ، یعنی اس طغیانی اور سرکشی کے خلاف وہ عکس العمل نھیں دکھا رھے جو انھیں دکھانا چاھیے ، پس قرآن کریم عوام کو بھی بحران کا ذمہ دار سمجھتا ہے ۔ نہ صرف ذمہ دار سمجھتا ہے بلکہ عکس العمل نہ دکھانے پر مذمت بھی کرتا ہے ۔
سورہ نساء میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
'' وَمَا لَکُمْ لاَتُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اﷲِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا َخْرِجْنَا مِنْ ھذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ َھلھَا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیرًا ''(سورہ نساء،آیت ٧٥)
''آخر تم لوگوں کو کیا ھوگیا ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں ان بے بس اور ضعیف و کمزور مرد ، عورتوں اور بچوں کی خاطر نھیں لڑتے جو مسلسل پکار رھے ہیں کہ اے ھمارے پروردگار ھمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں ، تو اپنی طرف سے کسی کو ھمارا ولی بنا اپنی جانب سے کسی کو ھمارے لئے مددگار بنا۔ ''
سورہ نساء کی اس آیت کے لب و لھجے سے بخوبی واضح ھوتا ہے کہ جب کچھ لوگ ناحق مارے جارھے ھوں تو پوری قوم کو اس پر عکس العمل دکھانا چاھیے، جب ظالموں کے نرغے میں اسیر مظلوم فریادیں بلند کر رھے ھوں اور مدد کے لئے پکار رھے ھوں تو سب کو ان کی مدد کرنی چاھیے۔ ایسے موقع پر جو بھی لا تعلق اور خاموش تماشائی بنا رھے اس کا کردار قابل مذمت ہے ۔
پیغام امام حسین(ع) اور امت کی ذمہ داریاں :
سیدالشھداء(ع) کے زمانے میں مسلمان سلطنت کی کم و بیش وھی حالت تھی جو آج پاکستان کی ہے۔ یزیدجیسا فاسق ، فاجر ، فاسد، شراب خوار، زانی ، قاتل اور ظالم مسلمانوں پر حکومت کر رھا تھا جبکہ تمام طبقات سکوت اختیار کیے ھوئے تھے ۔یزید نے تمام حدود الٰھی کو پائمال کر دیا اور علمائے دین خاموش بیٹھے تھے۔ اس نے اسلامی اقدار کو نابود کر کے جاھلیت کو دوبارہ زندہ کر دیا لیکن مسلمان چپ سادھے رھے ۔ نبی(ص) کے دین کو ملعبہ اوربازیچہ بنادیا لیکن دیندار بولے تک نھیں ۔ یزید مقدسات دین کی بے حرمتی کرتا رھا جبکہ اھل حرم اپنی عبادتوں میں مشغول رھے۔ آل رسول(ع)کو طرح طرح کی اذیتیں پھنچائی جا تی رھیں اور پیروا ن نبی گوشۂ عا فیت میں بیٹھے رھے ۔
سیدالشھداء(ع) نے واقعۂ کربلا سے ایک سال پھلے موسم حج میں عالم اسلام کی تمام برجستہ اور نمایاں شخصیات کو اکٹھا کر کے منیٰ کے اندر معروف خطبہ بیان فرمایا جس میں حکومت کے ظلم وجور اور طاغوتوں کی طغیانی کا حوالہ دینے کے بعد محفل میں موجود تمام طبقات کی پرزور مذمت کی اور فرمایا کہ تم اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رھے ھو لیکن کوئی ردّ عمل نھیں دکھاتے۔ آپ نے علمائے یھود کی مذمت میں آنے والی آیات پڑھ کر حاضرین کو بتایا کہ خدا نے یھود کی اسی لئے مذمت کی کیونکہ وہ منکرات کے ارتکاب ، فساد و فحشا اور قتل انبیاء جیسے جرائم اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے لیکن کسی قسم کا ردّ عمل نھیں دکھاتے تھے لھٰذا خدا وند تعالیٰ نے انھیں ملعون قرار دیا اور آنے والی امتوں کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دیا ۔
سیدالشھدا(ع) نے اپنے مقدس قیام کے دوران امت مسلمہ کو خطاب کر کے سرزنش کے لھجے میں فرمایا:
'' الاترون الی الحق لا یعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ ''
کیا نھیں دیکھتے کہ حق پر عمل نھیں ھو رھا اور باطل سے اجتناب نھیں کیا جا رھا ہے۔
امام گویا حیرت کے انداز میں بیان فرما رھے ہیں کہ حق کو پائمال ھوتا دیکھ کر اور باطل کی ترویج مشاھدہ کرنے کے بعد بھی تم کسی قسم کا عکس العمل نھیں دکھا رھے۔
قومیں جب جمود اور سکوت کا شکار ھوجائیں تو ان پر ھر طرح کا ظلم ڈھایا جاتا ہے ، ایسی قوموں میں ظلم عام ھوجاتا ہے، نا انصافی بڑھ جاتی ہے ، امن و امان کا خاتمہ ھوجاتا ہے ، بھوک و افلاس کا منحوس سایہ چھا جاتا ہے ، یزید جیسے ظالم برسر اقتدار آجاتے ہیں ، بنو امیہ جیسے بیت المال کے لٹیرے قوم پر حاکم ھوجاتے ہیں ، عزت و ناموس لٹ جاتی ہے ، قیمتی جانیں ضائع ھو جاتی ہیں ، ملک غیر محفوظ ھوجاتا ہے ، ملت بے آبرو اور دین غیر محفوظ ھوجاتا ہے ۔ 

Add comment


Security code
Refresh