www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

812054
میری دعا ہے کہ میرا یہ اداریہ بھت جلد مر جائے، یا اپنا مفھوم کھو دے اور حالات اس کے برعکس ھوجائیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ ابھی کئی برس تک جئے گا۔ یہ اداریہ حُسن و دلکشی کے بارے میں ہے اور یہ تو آپ جانتے ھی ہیں کہ حسن و دلکشی انسان کی کمزوری ہے، انسان ھر لطیف و حسین شئے کو پسند کرتا ہے، خدا نے بھی جب انسان سے کلام کرنا چاھا تو انسان کی اس کی پسند کو مدنظر رکھا، اس نے خوبصورت الفاظ کو حسین پیرائے میں دلکش بیان کے ساتھ اس طرح سے پرویا کہ بڑے بڑے فصحا بھی اس کے کلام کا جواب نھیں لاسکے۔ دشمن بھی راتوں میں چھپ چھپ کر اس کے کلام کی شیرینی سے لطف اٹھاتے تھے اور شیاطین اس کی نزاکتِ الفاظ کو جادو کھہ کر فرار کرتے تھے۔
خدا نے الفاظ کے ساتھ نعوذباللہ بازی نھیں کی، بلکہ الفاظ کو وہ معانی اور مفاھیم عطا کئے ہیں کہ ایک طرف تو طبیعت بشر کی نفاست پسندی اس حسنِ انتخاب سے محظوظ ھوئی اور دوسری طرف انسانی علم اور تھذیب و تمدن نے ارتقاء کیا۔ یہ قرآن کا ھی دلکش اندازِ بیان اور اسلوبِ رواں تھا کہ جو مدتوں تک مسلمان دانش مندوں کی تحریر و تقریر پر حاوی رھا۔
معقولات و منقولات کے جو سوتے قلب اسلام سے پھوٹے ان کی تراوت عالم بشریت کی بریدہ شاخوں میں آج بھی لمس کی جاسکتی ہے اور ان سے لبریز جام رومی، سینا، فارابی، خوارزمی اور الکندی کی صورت میں آج بھی مغرب کے علمی میکدوں میں چھلک رھے ہیں۔
انسانیت کے بے نطق معاشرے کو قرآن اور اسلامی مفکرین نے ھی آکر نطق بخشا، یہ وہ زمانہ تھا جب قلم خریدنے کی کوشش کی جاتی تھی، چونکہ قلم وزن رکھتے تھے، دانشمندوں کے سروں کی قیمتیں لگتی تھیں چونکہ سر قیمتی ھوتے تھے، تھہ خانوں کے زندانوں میں محبوس بدن فانوس بن کر جلتے رھتے تھے، چونکہ تخیل کی چاپ کو آھنی حصاروں سے اسیر کرنا محال تھا، قلم کی سریر سے ایوان بالا کے کنگرے جگمگاتے تھے، طوفان بلا میں یھی تو اک نائو تھی، جس کے بادبان منزل کا تعین کرتے تھے، کبھی کبھی کاخِ شاھی کے ستونوں کو قلم دیمک بن کر چاٹ بھی جاتے تھے، اس کی خاموشی لشکروں کے غلغلے کو نگل جاتی تھی اور اس کی چھنکار ظِلّ الٰھی کی زنجیر عدالت پر بھی بھاری تھی۔
ھمارے ھاں برصغیر میں تو چشم فلک نے کئی مرتبہ یہ مناظر بھی دیکھے، جب کسی بادشاہ نے کسی ہیرے میں جڑ کر قلم کو اپنے تاجِ شاھی میں سجانا چاھا تو صاحبِ قلم نے طریقِ گدائی پر چلنا شروع کر دیا، اپنے سماجی سفر میں تاج کو اپنے تمام تر رعب و دبدبے کے باوجود تاراج ھوجانے کا خطرہ لاحق رھا، لیکن قلم کو شاہ ولی اللہ جیسے سرپرست ملے، جنھوں نے الفاظ کے برتاو میں خیانت نھیں کی اور اس عظیم مصلح نے شاھی مصلحتوں کو خاطر میں نھیں لایا، محمد حسین آزاد جیسے شمس العماء ملے، جنھوں نے اندازِ بیان میں سستی، کمی اور لغزشوں کی بھرپور حوصلہ شکنی کی، حالی جیسے امین ملے، جنھوں نے مفاھیم کی امانت کو الفاظ کی بھرپور صداقت کے ساتھ ادا کیا، میر انیس اور میرزا دبیر جیسے مشّاق ملے، جنھوں نے انسان کی قوت ناطقہ کو طائر تخیل کے ھمراہ پرواز کرنے کا حوصلہ بخشا، لیکن اب زمانہ اس دور میں داخل ھوچکا ہے کہ تجرید فکر کا گلا گھٹ گیا ہے۔
اب جو لوگ الفاظ کی علامتی توانائی کو درک نھیں کرسکے تھے، وہ اسے خیالی کھہ کر بھاگ نکلتے ہیں اور جھاں پر قلمکار کو تجرید فکر کے بنیادی اصولوں کی ھوا نہ لگی ھو، وھاں قلمکار تولید فکر کے نام پر گھسی پٹی عبارتوں، بے رنگ اندازِ بیان، پھیکی اصطلاحات اور غلط ملط جملوں کا انبار تو لگا سکتا ہے، لیکن کسی تمدن کی تعمیر نو اور علمی مباحث کی تعبیرِ جدید کا فریضہ انجام نھیں دے سکتا۔
جھاں پر مفروضے کو تجربے میں ڈھالنے کے لئے فنّی اھتمام نہ ھو اور مفروضے اور تجربے کے ملاپ سے مشاھدے کی تولید کے لئے بنیادی عناصر کی خبر ھی نہ ھو اور پھر تولید شدہ مشاھدے کو نظریاتی قوانین سے گزارے بغیر اور تجرید فکر کے اصولوں پر چانچے بغیر پیش کیا جاتا ھو، وھاں پر پھر کھنے کو سوائے کیچڑ اچھالنے کے کیا رہ جاتا ہے۔
تحریر کے ساتھ ساتھ آج کل ھمارے ھاں فن تنقید کا بھی یھی حال ہے۔ جس طرح انسانی جسم کے لئے تنفس ضروری ہے، اسی طرح انسانی افکار کی بالیدگی کے لئے تنقید بھی اھم ہے، لیکن علمی تنقید کے بھی کچھ بنیادی اصول اور ضوابط ہیں۔ جس معاشرے میں بیان (تحریر) اور تنقیدی جائزہ دونوں بے لگام ھوجائیں، وھاں پر عوام کو دشنام دینا کسی طور بھی روا نھیں۔
آج ھمیں اس تاریکی کو محسوس کرنا چاھیے کہ نور کے نام پر ظلمت کا کاروبار ھو رھا ہے۔ اس جدید اور ماڈرن تاریکی کے عھد میں یہ صاحبان علم و شعور کا کام ہے کہ وہ اس قوم کی آنکھ بن کر رھنمائی کریں، دماغ بن کر اس کی فکر کریں اور عصاء بن کر اسے سھارا دیں۔
جس معاشرے میں صاحبان علم و شعور کی ھمتیں پست، زبانیں گنگ، قلم کُند، افکار کھنہ، مجالس غیر علمی، محافل غیر مفید ھوجائیں، وھاں پر علمی نگارشات اور نظریاتی تولید کی جگہ الزام و دشنام اور غیبت و حسد کو مل جاتی ہے اور جھاں پر علمی و نظریاتی تولیدات کا حسن ماند پڑ جائے، وھاں ان کی طلب بھی کم ھو جاتی ہے اور جھاں پر ان کی طلب کم ھو جائے، وھاں پر بدی فاتح اور نیکی مفتوح، ظالم حاکم اور عادل محکوم ھو کر رھتا ہے۔
جب تک ھمارے ھاں صاحبانِ علم و شعور کی ھمتیں پست، زبانیں گنگ، قلم کُند، افکار کھنہ، مجالس غیر علمی، محافل غیر مفید ہیں، تب تک ھمارے معاشرے میں پر بدی فاتح اور نیکی مفتوح، ظالم حاکم اور عادل محکوم بن کر جینے پر مجبور ہے۔
لھذا میری دعا ہے کہ خدا کرے حالات بدل جائیں، یعنی ھمارے دانشمندوں کی ھمتیں بلند، زبانیں فصیح، قلم گویا، افکار نو، مجالس علمی اور محافل مفید ھوجائیں اور اگر ایسا ھوجائے تو یہ اداریہ خود بخود مر جائے گا۔
تحریر: نذر حافی

Add comment


Security code
Refresh