www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

211324
بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم الحمد للّہ رب العالمین و الصلوٰة و السلام علی سید الانبیاء و المرسلین حبیب الٰہ العالمین ابی القاسم محمد و علی آلہ الطیبین الطاھرین المعصومین
امام خمینی﴿رہ﴾ کی روح مطھر ، مراجع عظام و علمائے کرام جنھوں نے ھم تک علوم اھل بیت (ع) کی میراث پھونچائی اور شھدائے اسلام جنھوں نے اسلام زندہ کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں ، ان سب کے اوپر درود و سلام۔
اس موسسہ ( موسسۂ امام خمینی﴿رہ﴾قم) میں آپ طلاب ھندوستان کی تشریف فرمائی کا ھم تھہ دل سے خیر مقدم کرتے ھیں اور بارگاہ ایزدی میں دعا گو ھیں کہ امام زمانہ (ع) کے الطاف و عنایات اور آپ کی خاص توجھات کے سائے میں ھم سبھی کو آپ کی دعاؤں میں شامل کرے ، نور ایمان کے ذریعہ معرفت کو ھمارے دل میں ثابت محکم اور استوار بنائے اور ھمیں اپنی ذمہ داریوں کو پھچاننے اور ا ن کی انجام دھی میں زیادہ سے زیادہ توفیق عنایت فرمائے ۔
میرے لئے باعث سرور ھے کہ مجھے توفیق حاصل ھوئی کہ میں آپ محترم طلاب سے کچہ دیر کے لئے ھمکلام ھوسکوں ۔
عالم اسلام صدیوں سے ھندوستان کے علوم اور وھاں کے باشندوں کی علمی ،تربیتی و فلسفی کاوشوں سے بھرہ مند رھا ھے اوروھاں ان بزرگوں کے بھت سے عظیم آثار موجود ھیں۔ خواہ وہ آثار، علمی میدان میں کتابوں اور دائرة المعارف مثلاً عبقات الانوار کی شکل میں ھوں یا وہ آثار ھنر سے متعلق ھوں جیسے مساجد ، مدارس اور امامباڑوں کی عمارتیں، جو شاید دنیا میں بے نظیر ھیں۔ لیکن آج کے دور میں ھم ان آثار و برکات کو نھیں دیکہ رھے ھیں! اسی لئے ایک زمانہ سے میری یہ خواھش تھی کہ اس عظیم ملک کو نزدیک سے دیکھوں ۔
آخر کار مجھے ایک سال قبل ھندوستان جانے کی توفیق نصیب ھو ھی گئی ۔ میں نے وھاں کے چند صوبوں کا دورہ کیا ۔ بعض علماء اور طلاب کی خدمت میں بھی حاضر ھوا ،نھیں معلوم آپ حضّار محترم میں سے بھی کوئی وھاں موجود تھا یا نھیں ؟
جب میں وھاں پھونچا اورعلماء اور مسلمانوں کے دینی آثار دیکھے، خصوصاً جب وھاں کے شیعوں کو نزدیک سے دیکھا تو میری حسرتوں میں اضافہ ھونے لگا کہ ایک زمانہ میں مسلمانوں اور تمام شیعوں کی کیا عظمت تھی، لیکن آج وہ کس قدر تنزلی کا شکار ھوگئے ھیں اور ان کے ضعف میں روز بروز اضافہ ھوتا جا رھا ھے !! اب نہ وہ علمی کاوشیں نظر آتی ھیں اور نہ مسلمانوں کی وہ عظمت ھی دکھائی دیتی ھے ۔ ان حالات کا معائنہ کرنے کے بعد میرے غم و اندوہ میں اضافہ ھو گیا ۔ اچانک میرا ذھن قرآن مجید کی اس آیت کی طرف گیا جو متعدد مقامات پر وارد ھوئی ھے کہ ھم مختلف اقوام کا امتحان لیتے ھیں، اگر وہ خدا کی نعمتوں کی قدردانی کرتے ھیں اور اپنے وظائف کو بخوبی انجام دیتے ھیں تو ان کی نعمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ھے اور اگر وہ خدا کی نعمتوں کی قدردانی نھیں کرتے تو وہ نعمتیں آھستہ آھستہ ان کے ھاتہ سے نکل جاتی ھیں۔
یھیں سے میرے ذھن میں یہ بات بھی آئی کہ ھمارے ملک ایران اور دیگر تمام ممالک کو ھندوستان اور بعض دیگر ممالک کے مسلمانوں کی سر گذشت سے عبرت حاصل کرنا چاھئے کہ ایک دور میں وہ کس شان و شوکت کے حامل تھے اور آج کیا سے کیا ھو گیا !!!
سنت الٰھی
یہ تو سنت الٰھی ھے کہ تمام بندے خواہ وہ فرد ھو ں یا گروھی صورت میں ھوں یا کوئی معاشرہ ھو ،سب ھمیشہ امتحان و آزامائش کی حالت میں ھیں ۔ شاید قرآن مجید میں بنی اسرائیل سے زیادہ کسی قوم کی تعریف نھیں ھوئی ھو گی ، مجھے نھیں لگتا کہ قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے علاوہ کسی دوسری قوم کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے ھوں ” فضلنا ھم علیٰ العالمین “ سورہ بقرہ میں اس آیت کی دو مقام پر تکرار ھوئی ھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ کوئی قوم بھی بنی اسرائیل کے مانند خدا کی لعنت اور اس کے غیظ و غضب سے روبرو نھیں ھوئی ۔
” فباؤا بغضب علی غضب “ ”فباؤا بغضب من اللّہ “ ان آیات کا قرآن میں اس لئے ذکر نھیں ھوا ھے کہ قرآن بنی اسرائیل کے بارے میں ایک خاص دلچسپی رکھتا ھے ۔ چنانچہ فرما رھا ھے: ” فضلنا ھم علی العالمین “ اور نہ ھی قرآن مجید کسی سے کوئی ذاتی دشمنی رکھتا ھے ۔اگر صرف دشمنی ھوتی تو کبھی قرآن نہ کھتا:” فضّلناھم علی العالمین “ اور اگر صرف مدح و ستائش ھوتی تو قرآن یہ بھی کبھی نہ کھتا ”فباؤا بغضب علی غضب “ ، قرآن کبھی نہ کھتا کہ جو قوم خنزیر اور بندر کی شکل میں مسخ ھو گئی وہ قوم بنی اسرائیل تھی ” فقلنا لھم کونا قردة خاسئین “ ” و جعل منھم القردة و الخنازیر “ لھذا ایک قوم کے سلسلہ میں خدا کا دو مختلف رویے اختیار کرنا تمام اقوام کے لئے خطرے کا اعلان ھے کہ دیکھو اگر ھم کسی کو نعمتوں سے نوازیں اور انھیں دنیا والوں پر برتری دیں تو ان کو یہ اطمینان نھیں ھونا چاھئے کہ یہ حالت ھمیشہ ان کے لئے بر قرار رھے گی اور کبھی تبدیل نہ ھو گی !!جب کہ انھوں نے ایسا ھی سوچ لیا تھا۔ جب خدا نے ان کو نعمتوں سے نوازا ، ان کے درمیان بے شمار انبیاء کو مبعوث کیا ،حضرت سلیمان جیسی حکومت کا قیام انھیں کے لئے ھوا لیکن یہ لوگ یہ سمجہ بیٹھے کہ یہ آزاد بچوں کی طرح ھیں جو چاھیں کریں، خدا ان سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا اور ان لوگوں نے اپنا نام رکہ لیا ” شعب مختار “یعنی منتخب شدہ افراد اور اتنا آگے بڑہ گئے کہ کھنے لگے ”نحن ابناء اللّہ و احبائہ “نھیں ! نھیں ! ھم صرف ایک منتخب اور ممتاز قوم ھی نھیں بلکہ ھم تو اللہ میاں کے بچے ھیں۔ خدا نے ھم پر اتنا لطف فرمایا ھے کہ اس کا مطلب اپنا بچہ ھی سمجھا ھے۔ ” و قالوا لن تمسّنا النار الّا ایاماً معدودة “ ھم جب محبوب خدا ھیں ، فرزند خدا ھیں تو خدا ھم پر عذاب کیونکر کر ے گا ؟! کوئی باپ نھیں ھے جو اپنے بچوں کو آزار و اذیت دیتا ھو ۔ ھاں اگر کچہ لوگ زیادہ ھی گمراھی کا شکار ھو گئے ھوں تو” لن تمسنا النار الا ایاماً معدودة “آیا خداسے عھد و پیمان باندہ لیا ھے کہ تمھیں عذاب نہ کرے ،کیوںغیر سنجیدہ اور نا معقول باتیں خدا کی طرف منسوب کرتے ھو ،خدا پر تھمت لگاتے ھو ؟!! اس کا جواب واضح ھے کہ خدا نے کوئی عھد نھیں کیا ھے بلکہ بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا ایک شرط کے ساتھ، اور وہ یہ کہ جتنے انبیاء مبعوث ھونگے سبھی کا احترام کرنا ، ان پر ایمان لانااور ان کی باتوں پر عمل کرنا ۔
قرآن مجید میں اس وعدے کے مضمون کا ذکر آیا ھے کہ جب بنی اسرائیل نے اپنے وعدے پرعمل نھیں کیا تو خدا نے بھی اپنے وعدے کو پورا نھیں کیا کیونکہ اس کا وعدہ مشروط تھا ۔ بالکل اسی طریقے سے یھی قاعدہ تمام قوموں کے بارے میں بھی جاری ھو گا ۔ ایرانی بھی اس قاعدے سے جدا نھیں ھیں ۔ ” لیس بین اللّہ و بین احد قرابة “ خدا کی کسی سے رشتہ داری نھیں ھے ۔ نہ بنی اسرائیل سے جو کہ انبیا ء کی اولاد ھیں ۔ ان کی نسل حضرت یعقوب (ع) سے ملتی ھے، تمام بنی اسرائیل حضرت یعقوب (ع) کی اولاد ھیں اور یعقوب (ع) حضرت اسحاق (ع) کے فرزند ھیں ۔ اسحاق (ع) حضرت ابراھیم (ع) کے بیٹے ھیں ۔ بنی اسرائیل ایسے عظیم سلسلے کی کڑی تھے ملاحظہ کیجئے کہ جب انھوں نے پیمان شکنی کی اور خدا سے کئے وعدے کو پورا نہ کیا ”بآء و ابغضب علی غضب “ ” ضربت علیھم الذلة و المسکنة “ ۔
اس وقت ھم ایرانی اور خاص طور سے اپنے لئے عرض کر رھا ھوں، اس کا آپ لوگوں سے سیدھا کوئی تعلق نھیں ھے، کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ کی ھدایت اور رھبری کے سبب خدائے متعال نے ھمارے ملک کو عزت دی ھے اور ایک عظیم انقلاب کا میاب ھوا نیزمسلمانوں کو شیطانوں کے مقابلے عظمت ملی لیکن ان تمام باتوں کی بقاء کی کوئی ضمانت نھیں ھے ۔ ضمانت بس اس وقت تک ھے کہ جب تک ھم اسلام کے وفادار رھیں ۔ اگر ایسا نہ ھوا تو خدا اپنے قانون کو نھیں توڑ ے گا ۔ اگر ھم نے نا شکری کی ، حق خدا کا لحاظ نہ کیا تو ھم نیست و نابود ھو جائیں گے ۔اچھااگر نیست و نابود ھوگئے آیا پھر تبدیلی کا امکان ھے یا نھیں ؟ نھیں، مگر یہ کہ انسان خدا کی جانب رجوع کرے، اپنے فرائض کو صحیح طور پر پھچانے اور عمل کرے تو خداوھی مھربان خدا ھے ” و ان عُدتُم عُدنَا “۔
مقدمہ آپ حضرات کے لئے اس لئے بیان کیا کیونکہ آپ لوگ ابھی جوان ھیں اور برّ صغیر میں تابناک ماضی کے علمبردار ھیں ۔حقیقت میں ھندوستان کو ایک براعظم کھنا چاھئے ۔ یھاں پر ایک ارب اور چند کروڑ آبادی ھے جو دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ھوتی ھے یعنی پوری دنیا کو اگر پانچ بر اعظم پر تقسیم کیا جائے تو ان میں سے ایک ھندوستان ھے ! البتہ اب تین ملکوں میں تقسیم ھو گیا ھے یہ الگ مسئلہ ھے ۔ آپ لوگ اپنے تابناک ماضی پر نگاہ ڈالیںاور دیکھیں کہ کتنے مسلمان اس ملک میں وارد ھوئے ۔ مختلف دلائل کے سبب ایسے لوگ ھندوستان پھونچے جو ایران سے ملک بدر ھوئے اور وھاں پھونچ کر اسلام اور تشیع کے رشد کا باعث بنے ۔ایک وقت جب وحشی اقوام نے ایران پر حملہ کر کے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا ،شھروں کو ویران کیا ،نیشاپور میں جو اس وقت علمی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا بھت سے علماء اور بزرگ افراد خوفزدہ ھو کر ھندوستان کی طرف ھجرت کرگئے ۔ اپنی جان بچانے کی خاطر ھجرت کرنا کس قدر برکتوں اور عظیم آثار ھمراہ لئے تھا کہ کثیر تعداد میں لوگ شیعہ ھوئے۔ البتہ آج ھندوستان کے شیعوں کی صحیح تعداد کا علم نھیں ھے اور کوئی منظم رابطہ بھی وھاں شیعوں کے درمیان نھیں ھے جوکہ ایک بڑا نقص ھے ۔
بھر حال تمام مسلمانوں کی شان و شوکت نے وھاں کی قدرت کو نابود کر دیا ۔اسی طرح اسلامی عرفان اور شیعی کلچر وغیرہ بھی اسی گروہ کی ھجرت کے سبب وجود میں آیا ،تو پھر آپ جیسے فداکار اور زحمت اٹھانے والے افراد بھی وھاں کروڑوں لوگوں کو گمراھی اور بت پرستی سے نجات دے سکتے ھیں لیکن گزشتہ افرادجب خدا کی نعمت و نوازش کو بھلا کرنا چیز منفعتوںکی خاطر آپس میں اختلاف کر بیٹھے، تو پھر مسلمانوں کا آپسی اتحاد و اتفاق بھی نا اتفاقی میں بدل گیا ۔ ھر گروہ نے وھیں ٹھوکر کھائی جھاں اس نے صرف اپنے فوائد کو مد نظر رکھا ۔ مسلمانوں کے درمیان شیعہ و سنی کا اختلاف یا ھر مذھب میں قبیلوں اور گروہ کا اختلاف صرف دنیوی فوائد کے سبب ھوتاھے ۔ یھی اختلاف سبب بنا کہ مسلمانوں کی عزت ، اقتدار اور شان و شوکت خاک میں مل گئی اور نوبت یہ آگئی کہ آج اس برّ صغیر میں مسلمان نھایت کمزور ھو گئے ۔ نھایت افسوس ناک ھے !!!
کسی زمانے میں ھندوستان میں مسلمان خاص طور سے شیعہ سب سے زیادہ دولتمند ھوتے تھے ۔ بھت سی زمین ، بے حد جواھرات اور پُر رونق تجارت ھندوستان کے اکثر علاقوں میں شیعوں کے ھاتہ میں تھی ، اور ابھی کچہ وقت پھلے تک بھی تھی لیکن انھیںآپسی اختلافات کے سبب یہ اقتصاد بھی ھاتھوں سے جاتارھا ۔امیر المومنین (ع) نے خطبۂ قاصعہ میں (جو کہ نھج البلاغہ کے برجستہ خطبات میں سے ایک ھے، اگر اس کا مطالعہ نھیں کیا ھے تو میں آپ سے گزارش کرتا ھوں کہ نھایت توجہ سے اس کا مطالعہ فرمائیے) قوموں کی ترقی یا پستی کے بارے میں فرمایا ھے کہ کس طریقے سے بھت سے افراد صاحب عزت و قدرت ھوئے اور دوسرے بھت سے ذلت و رسوائی کا شکار بنے۔حضرت یعقوب (ع) اور حضرت اسماعیل (ع) کی اولاد کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا کہ جب تک یہ ھماھنگ اور متحد رھے، ایک دوسرے کے ساتھ مھر و محبت سے پیش آئے اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا، اس وقت تک دنیا میں ان کے بے مثال اقتدار کا دور رھا لیکن جیسے ھی ان میں اختلاف پھوٹا اور وہ لوگ آپسی جنگ و جدال اور لڑائیوں کا شکار ھوئے، دن بدن ان کی عزت گھٹتی رھی اور آخر کار ذلیل و رسوا ھوئے ۔
اگر نھج البلاغہ کے اس آدھے صفحے سے ھم درس حاصل کریں اور اگر ھمیں یقین ھو کہ حضرت علی (ع) نے ھی ارشاد فرمایا ھے، ھمیں اطمینان ھو کہ حضرت علی (ع) بالکل صحیح سمجھے ھیں، تو پھر ھم سے زیادہ کون لائق ھے کہ اس مطلب کو اپنی زندگی کا عنوان قرار دے اور اپنی گذشتہ زندگی پر تطبیق کرے اور ملاحظہ کرے کہ آھستہ آھستہ جو ھماری عزت خاک میں ملی ھے اس کی وجہ کیا تھی ؟! وہ اسباب جو مسلمانوں کی عزت خاک میں ملنے کا باعث بنے ھمارے درمیان ھیں یا نھیں ؟!
ھندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ
ان تمام باتوں کے دو سبب ھو سکتے ھیں اور حقیقت میں ایک ھی سبب ھے ۔ یہ تمام اختلافات اور پستی ،دنیوی امور میں کشمکش کا نتیجہ ھے۔ فلاں کام میرے ھاتہ میں ھونا چاھئے یا نھیں ؟! یہ ملکیت میری ھو یا اس کی ھو یا کسی کی بھی نہ ھو ؟ یا اس بازار پر ھمارا قبضہ ھو یا کسی دوسرے کا قبضہ ھو ؟ کوئی بھی قوم اس وقت ترقی یافتہ ھوتی ھے جبکہ پورے سماج کی مصلحتوں کو مد نظر رکھے اور سب سے پھلے کوشش یھی ھو کہ ایسی سیاست بنائے، ایسی ترکبیں سوچے اور ایسے کام انجام دے جس میں سارے سماج کا فائدہ ھو، نہ کسی ایک فرد کا، نہ کسی ایک خاندان کا ۔ جب لوگ صرف اپنے یا اپنے خاندان یا اپنی قوم یا صرف اپنے شھر والوں کا فائدہ نظر میں رکھیں اور تمام ھم مذھب لوگوں کا لحاظ نہ کریں اور یھی فکر ھو ”جو ھوتا ھے ھونے دو ھم تو صحیح و سالم ھیں “،تویھی نظریہ مسلمانوں کی کمزوری کا سبب بن جاتاھے ۔ مسلمانوں کو، تمام امت اسلامیہ کو، ایک خاندان بلکہ ایک خانوادہ کی طرح تصور کیا جاناچاھئے ۔ ھمیں کوشش کرنا چاھئے کہ کم از کم جتنا ممکن ھو سکے اس عقیدے کو اپنے دل و دماغ میں پختہ کریں ۔ ھر فرد عزم کر لے کہ ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کے بارے میں سوچنا ھے اور جھاں کھیں ذاتی و فردی مفادات اجتماعی مفاد ات سے ٹکراؤ رکھتے ھوں ،وھاں اجتماعی مفادات کو ذاتی مفاد ات پر ترجیح دینا ھے تو شاید امت اسلامی کی عزت برقرار رھے ۔ البتہ اس کام کے لئے بھی تربیت کی سخت ضرورت ھے ۔ یقینا ان تمام اختلافات اور کسی بھی قوم کے انحطاط کی سب سے بڑی وجہ دنیوی کشمکش ھی ھے ۔ میری بات نہ مانیے، امیر المومنین (ع) کی بات مانئے !! سب سے پھلے ھمیں حضرت (ع) کے اقوال پر یقین ھونا چاھئے ،پھر بربادی و فساد اور تنزلی کے اس حقیقی سبب سے مقابلہ کرنا چاھئے ،چاھے ھمیں ذاتی مفادات سے چشم پوشی کرنا پڑے ۔ پھر اس نظریہ کو عمل زندگی میں جگہ دینے کی کوشش کرنا چاھئے ۔ اس کام کو ھمیں اپنے گھر سے ھی شروع کر دینا چاھئے ۔ گھروں میں بچوں کی اسی عقیدے کے تحت تربیت ھونا چاھئے۔ آپ لوگ الحمد للّہ بچپن سے گذر کر جوانی کے مرحلہ میں قدم رکہ چکے ھیں، اسی کام کو مدرسہ میں اپنے حجرے سے شروع کیجئے ،یعنی صبح جب اٹھیں تو اپنے آرام و آسائش کو سوچنے کے بجائے یہ خیال رکھیئے کہ آپ کا دوست اور ساتھی آرام و آسائش میں رھے۔ اگر یہ فکر پیدا ھو گئی تو پھر کل ھم اپنے پڑوسی کے آرام کے بارے میں بھی سوچیں گے، اور آگے بڑہ کر ھم اپنے شھر والوں کے آرام و آسائش کا بھی خیال رکھیں گے اور اس کے بعد تمام شیعوں کی آسائش کے بارے میںبھی سوچیں گے اور پھر تمام مسلمانوں کے مفادات کے سلسلہ میں لیکن اگر یھاں پر یہ کام شروع نہ کیا تو ھمیشہ ذاتی مفادات ھماری نظر میں رھیں گے۔
ھمارے بزرگ علماء بچپن اور نوجوانی سے ھی ایسی فکر اور عقیدہ رکھتے تھے ۔ ان کے سلسلہ میں جو واقعات نقل ھوئے ھیں ان سے واضح ھوتا ھے کہ یہ لوگ جو عظیم معنوی مقامات تک پھونچے ھیں جیسے کہ حضرت امام خمینی ۺ ،ان میںیہ عزم و حوصلہ بچپن سے ھی موجود تھا یعنی راہ اھلبیت علیھم السلام کو ان لوگوں نے صحیح پھچانا اور عزم محکم کے ساتھ اس پر عمل پیرا ھوئے ۔ انسان صرف حسین حسین کھنے سے، شیعہ نھیںھوتا ،عزاداری اورصرف آگ پرپا برھنہ چلنے سے شیعہ نھیں ھوتا ۔ آپ لوگ اپنے ملک کے بارے میں باخبر ھیں کہ ھندو بھی آگ پر چلتے ھیں اور امام حسین (ع) کی خاطر یہ کام انجام دیتے ھیں ۔
میں نے سنا ھے کہ نویں اور دسویں محرم کوبغرض ماتم آگ فراھم کرنے کے لئے ھندو بھی نذر کرتے ھیں اور جائداد وقف کرتے ھیں ۔
میرے ایک دوست نے بتایا کہ خود انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے کہ ایک ھندو نے نویں یا دسویں محر م کو ( مجھے تاریخ کا دقیق علم نھیں ھے ) اپنے چہ ماہ کے بچے کو آگ کے اوپر رکہ کر چھوڑ دیا!! البتہ یہ اس بات کی دلیل ھے کہ مکتب اھل بیت (ع) لوگوں کے دلوں میں کس قدر رسوخ رکھتاھے حتی ان لوگوں کے دلوں میں بھی جو اسلام کو نھیں مانتے ۔ سید الشھداء (ع) کتنی عظیم نعمت ھیں ،آپ کا نام نامی کتنا مقدس اور آپ کا انقلاب کتنا با برکت ھے ،جس سے پوری کائنات متحیر اور ھر چیز متاثر ھے، لیکن پھلے مرحلے میں خود ھمیں غیروں سے زیادہ متاثر ھونا چاھئے ۔ خود آئمہ علیھم السلام نے فرمایا ھے کہ جس چیز کی ھمارے شیعوں سے توقع ھے اور شیعہ ھونے کے ناطے انھیں اس میں آئیڈیل ھونا چاھئے، وہ سچائی اور امانت داری ھے ، صداقت اور حسن عمل ھے۔ حتی کثرت عبادت بھی نہ دیکھو کہ یہ معیار فضیلت نھیں ھے، چونکہ کثرت عبادت بعض اوقات بر بنائے عادت ھوتی ھے ” لاتنظر وا الی طول رکوع المرء و سجودہ “ معیار یہ ھے کہ انسان سچا ھے کہ نھیں، سچ بولنے کا پابند ھے کہ نھیں ، لوگوں کے اموال سے متعلق امین ھے یا سوئے استفادہ کا خواھاں ھے ․․․․ شیعیان امام صادق (ع) ایسے تھے کہ مذھبی اعتبار سے ان کے مخالفین جو انھیں ستاتے بھی تھے، سفر کے وقت اپنی امانتیں امام صادق(ع) کے شیعوں کے پاس رکہ کر جاتے تھے ۔
فلسفۂ عزائے حسین علیہ السلام
میں کھنا یہ چاھتا ھوں کہ ھمیں چاھئے کہ اسلامی اقدار کو اپنی رفتار و گفتار اور عملی زندگی میںجگہ دے کر دنیا کو اسلام اور تشیع سے آشنا کرائیں۔ صرف ذکر اھلبیت (ع) ،گریہ و زاری ،عزاداری اور مجلس و محفل کافی نھیں ھیں ،یہ لوگوں کو اس مکتب کی طرف راغب کرنے کا پھلا قدم ھے ۔ اصل یہ ھے کہ ائمہ علیھم السلام کے دستورات پر عمل کیا جائے۔ ان کی آمد کا فلسفہ یھی ھے، امام حسین (ع) کی شھادت کا مقصد اسلامی احکام کا نفاذ ھے اور آپ پر رونے کے لئے جو کھا گیا ھے اور روایتوں میں وارد ھوا ھے کہ آنسو تم کو جنت تک لے جائیں گے تواس کا فلسفہ یہ ھے کہ اس گریہ و زاری کے سبب امام حسین (ع) کے حوالے سے تمھارے احساسات کو تقویت ملے گی، جس کے نتیجے میں تمھارے اندر امام حسین (ع) کے راستہ پرچلنے کا عزم و حوصلہ پیدا ھوگا، نہ یہ کہ صرف آنسوؤں کے چند قطرے سارے گناھوں کو دھو ڈالیں گے اور مسئلہ حل ھو جائے گا ۔
ھمیں چاھئے کہ اھلبیت (ع) کے ارشادات کو سمجھیں اور پابندی کے ساتھ ان پر عمل کریں، خصوصاً وہ ارشادات جو مسلمانوں کے سماجی مسائل کے بارے میں ھیں ۔
ممکن ھے آپ کھیں کہ فقط ھم چند لوگوں کے اجتماعی طور پر سوچنے سے کیا فائدہ ؟ایک پھول سے بھار تو آ نھیں سکتی مگر آپ یاد رکھیں! اجتماعی امور ھمیشہ ایک ھی فرد سے شروع ھوتے ھیں اور ھر فرد اپنے وجود کی وسعت اور اپنی سماجی فعالیت کے مطابق معاشرے کو متاثر کرتا ھے، چاھے اس کا اثر بھت مختصر ھی کیوں نہ ھو۔ البتہ اگر انسان صداقت اور خلوص کے ساتھ کوئی پروگرام شروع کرتا ھے اور اس راہ میں قربانیاں دیتا ھے تو خدا اس کام کو اتنا با برکت بنا دیتا ھے کہ اس کی وجہ سے پورا سماج بدل جاتا ھے ۔اگر امام خمینی ۺکی تحریک نہ ھوتی تو آج ایران کھاں ھوتا ؟ یقینا ایران کا شمار بھی انھیں ممالک میں ھوتا جو اسلامی کھے جاتے ھیں مگر ان کے اندر اسلام کا نام و نشان بھی نھیں ھے ۔البتہ آج بھی ھم لوگوں کو فخر نھیں کرنا چاھئے کہ حقیقی اسلام ھمارے ھی پاس ھے اور ساری چیزیں اسلامی ھو گئی ھیں! ابھی بھی بھت سی خامیاں باقی ھیں لیکن جس حد تک بھی جو اسلامی عزت و عظمت ھمیں نصیب ھوئی ھے وہ صرف ایک فرد کی تحریک کی برکت سے ھے۔ اس کی نشر و اشاعت ایک فرد نے کی لیکن جب اللہ نے اس کے خلوص و ایثار کو دیکھا تو اس کی تحریک کو اتنی برکت دی کہ ھمہ گیر اور عالمی ھو گئی ۔ کیا ھم اور آپ میں سے کوئی اس فردکے مانند نھیں ھو سکتا ؟ خدا کسی کا رشتہ دار نھیں ھے !جو اس کے لئے قیام کرتا ھے وہ اس کی مدد کرتا ھے بشرطیکہ پھلے اپنی اصلاح کر چکا ھو۔ انسان کو اگر دین سے محبت ھے تو پھلے اپنی زندگی میں دین کو جگہ دے ۔ھم دنیا میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کے نعرے لگائیں اور خود ھماری زندگی اسلامی تعلیمات سے بے بھرہ ھواور اس کو کوئی بھی نہ جانتا ھو لیکن خدا کو تو بھر حال علم ھو گا کہ یہ جھوٹ بول رھا ھے ،اگر سچے ھو تو خود کیوں نھیں عمل کرتے ” اتامرون الناس باالبرّ و تنسون انفسکم“ اگر کوئی چیز اچھی ھے تو اسے خود کیوں نھیں اپناتے؟!! ۔اگر ھم اتحاد بین المسلمین کی دعوت دیتے ھیں تو اپنے پڑوسی کے ساتھ متحد کیوں نھیں ھیں ، ایک شھر کے دو عالم آپس میں کیوں نھیں متحد ھو جاتے، دو گھرانے کیوں نھیں ایک دوسرے سے گھل مل جاتے ؟!! یہ نعرے اس وقت واقعی شمار ھو ں گے جب حتی الامکان ھم خود ان پر عمل کریں ۔
میری ان گزارشات کے دو اھداف ھیں:
(1)ھم اپنے خطیر وظائف کی طرف متوجہ ھوں ، اگر ھم امت مسلمہ کو اسلامی شان و شوکت اور عزت و عظمت سے دوبارہ ھمکنار کرنا چاھتے ھیں تو جو ذلت و رسوائی اورپسماندگی مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے شامل حال ھوئی ھے اس کو اپنے سے دور کریں ، اس بد نما دھبہ کو دھو ڈالیں یہ ھم سب کی ایک اھم ذمہ داری ھے ۔
(2)ھم ان وظائف کو اس وقت انجام دے سکتے ھیں جب انھیں انجام دینے کے صحیح طریقوں سے باخبر ھوں ۔سب سے پھلے ھمیں جاننا چاھئے کہ اس انحطاط کا سبب کیا ھے ، یہ مسائل کھاں سے جنم لے رھے ھیں تاکہ صحیح روک تھام کر سکیں ۔حضرت علی (ع) فرماتے ھیں : ذلت و رسوائی کا سبب تمھارے اختلافات ھیں ۔اگر ھم شیعہ ، علی (ع) کے ارشاد پریقین نہ کریں گے تو پھر کسی اور سے کیا توقع ھو سکتی ھے ؟ اور اگر ھم نے یقین کر لیا ھے کہ مسلمانوں کی ذلت کا سبب آپسی اختلاف و انتشار ھے تو سب سے پھلے خود اپنے اور اپنے گھریلو اختلافات کو برطرف کرنا چاھئے اور یہ کام بغیر ایثار و تحمل کے نھیں ھو سکتا ۔ اگر ھم اتحاد کی دعوت دیں اور کھیں کہ سب ھمارے تابع ھو جائیں تو ھرگز اتحاد نھیں ھو سکتا ،لیکن اگر ھم کھیں اتحاد کی خاطر میں اپنی شخصیت ،احترام ، حیثیت سب سے چشم پوشی کر کے تمھارا تابع ھو جاتا ھوں ،میں یکجھتی اور میل ملاپ کی خاطر تمھاری جوتیوں کو سیدھا کرتا ھوں تو یقینا خدائے عزوجل اگر ھمارے اندر یہ سچائی دیکھے گا تو وہ خود بھتر جانتا ھے کہ کس راستے سے ھمیں عزتوں سے نوازے! لیکن مشکل یہ ھے کہ ھمارے دعووں میں صداقت کی کمی ھے ۔
میرے دوستو! اللہ نے آپ کے لئے جو امکانات اور وسائل فراھم کئے ھیں ان کے پیش نظر آپ کچہ چیزوں کو اپنی مطمع نظر بنا لیجئے ۔
اولاً موجودہ حالات سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ھوئے بھتر سے بھتر طور پر اسلامی معارف کو درک کرنے کی بھر پور کوشش کیجئے یعنی خوب محنت سے اور اچھی طرح پڑھئے ۔افسوس کہ اس زمانے میں صورت حال کچہ ایسی ھو گئی ھے کہ تمام ادیان کے طلاب میں علم و تحقیق کا شوق کم ھو گیا ھے ، ھمیں اس آفت سے نجات حاصل کر کے اپنے علمائے ما سلف کی پیروری کرنا چاھئے ۔ مثلاً آپ ھندوستان کے ان علماء کی پیروی کیجئے جن کے واقعات آپ نے بھت بھتر طور پر سن رکھے ھیں ۔ان علماء نے اسلام اور تشیع کے لئے کس قدر زحمتیں اٹھائی ھیں ۔تعلیم میں جانفشانی آپ کا پھلا قدم ھے ۔
ثانیاً تعلیم کے ساتھ ساتھ خود سازی،تزکیہ نفس اور تربیت پر بھی توجہ دیجئے بالخصوص اپنے دوستوں کے لئے ایثار و فدا کاری کی زیادہ مشق کیجئے۔ مثلاً کوشش کیجئے کہ کمرے کے برتن ھمیشہ آپ دھویئے ،یہ انتظار نہ کیجئے کہ اگر ایک دن آپ نے دھوئے ھیں تو دوسرے دن حتماً آپ کا روم پاٹنر بھی دھوئے۔
ایک سچی داستان
آپ لوگوں نے امام خمینی﴿رہ﴾ کے بارے میں یہ داستان بارھا سنی ھو گی جو آپ کے اخلاق و کردار کا ایک نمونہ ھے کہ آپ کے کچہ دوست و احباب تھے جن کے ساتھ آپ برابر اٹھتے بیٹھتے تھے منجملہ آقائے بھاء الدینی ۺ بھت ھی قریبی تھے، آپ لوگوں نے جن کا نام یقینا اخلاق کے بزرگ علماء کی فھرست میں سنا ھو گا ۔ایک مرحوم آقائے صدوقی یزدی ﴿رہ﴾ تھے جو شھدائے محراب میں سے ھیں، ان کے علاوہ اور بھی بھت سے علماء امام خمینی ﴿رہ﴾ کے بھت قریبی دوست تھے ۔یہ حضرات گرامی تعطیلات میں معمولاً ایک ساتھ مشھد مقدس تشریف لے جاتے تھے ۔ امام خمینی ﴿رہ﴾ کے ان دوستوں نے متفقہ طور پر نقل کیا ھے کہ آپ زیادہ تر دنوں میں کسی نہ کسی بھانے سے زیارت کے لئے حرم نھیں جاتے تھے اور سب کے چلے جانے کے بعد برتن دھو کر کھانا تیار کرتے تھے ،کمرے میں جھاڑو دے کر صحن کی صفائی کر کے فرش بچھاتے تھے اور جب رفقاء کی واپسی کا وقت ھو جاتاتھا تو چائے کا پانی چولھے پر چڑھا دیتے تھے۔ سب لوگ حرم میں گریہ و زاری اور دعا و مناجات میں مشغول ھوتے تھے اور امام خمینی﴿رہ﴾ ان کی خدمت میں ۔
جب وہ حرم سے تھکے ھوئے پلٹتے تھے تو دیکھتے تھے کہ چائے ، کھانا سب کچہ آمادہ ھے ، صحن دھلا ھوا ھے، فرش بچھا ھوا ھے ،یہ سارے کام کرنے والے امام خمینی ﴿رہ﴾ تھے ۔دوسروں کی خدمت اور ایثار کا جذبہ اللہ کو بھت پسند ھے ۔شاید امام خمینی ﴿رہ﴾ کے اس کام کا ثواب زیارت کے ثواب سے دسیوں گنا زیادہ رھا ھو اور یقینا ایسا ھی ھے، چونکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ خدا کے نزدیک کون سا عمل زیادہ محبوب اور عظیم ھے چنانچہ آپ اسی کا انتخاب کرتے تھے یہ ھمارے لئے ایک نمونۂ عمل ھے ۔
اگر ھم اس جوانی میں اتحاد و یکجھتی اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے لئے ایثار و قربانی کی کوشش کریں تو آھستہ آھستہ غرور و تکبر ، انانیت اور خود پسندی ( جو انسان کی ساری بد بختیوں اور مشکلات کا سبب ھیں ) کا خاتمہ ھو جائے گا ۔
امام خمینی﴿رہ﴾نے بارھا تاکید کی ھے کہ ھمیں ”میں ،میری پسند اور میرا نظریہ “یہ کھنے کے بجائے خدا ، خدا کی رضا ، اسلام کی پسنداور اپنے دوستوںنیز اسلامی معاشرہ کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا چاھئے ۔ اپنے روم پارٹنر سے لیکر سارے مسلمانوں کی بہ نسبت ھمارے اندر ایثار و فداکاری کا یھی جذبہ پایا جانا چاھئے۔ ھمارے اندر دوسروں کی خدمت کا جذبہ بھر حال ھونا چاھئے ۔ البتہ پھلے ان تک رسائی کی کوشش کرنا چاھئے جو ایمان و معرفت اور اسلامی اھداف کے اعتبار سے ھم سے زیادہ نزدیک ھیں ۔ اس مرحلہ کے بعد دائرہ وسیع ھو جائے گا اور دائرہ یکے بعد دیگرے اسی طرح بڑھتا رھے گا، یھاں تک کہ سارے انسانوں اور پوری کائنات پر محیط ھو جائے گا ۔پھلے شیعوں کے لئے، پھر سارے مسلمانوں کے لئے ،پھر سارے انسانوں کے لئے ، اس لئے کہ سب بندگان خدا ھیں لیکن چونکہ ھماری طاقت محدود ھے لھذا ھم قریبی لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے ھیں ورنہ ھمارا ھدف پوری کائنات کی خدمت ھے ۔
ثالثاً تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ منزل مقصود تک پھونچنے کے لئے ھمیں اپنے بزرگوں اور علمائے ما سلف کے اقوال و افکار اور تجربات کے سایہ میں (جو اھلبیت (ع) کے ارشادات سے ماخوذ ھیں ) سماجی مسائل کا مطالعہ بھی کرتے رھنا چاھئے ۔ اس سلسلے میں خود امام خمینی ﴿رہ﴾ کی زندگی ، آپ کے اقوال ، تقاریر اور کتابیں ھمارے لئے کلیدی رول ادا کر سکتی ھیں، اس لئے کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ کی با برکت زندگی اھلبیت علیھم السلام کے کلی ارشادات کا مجسم نمونہ ھے اور انسان کلیات کی بہ نسبت جزئیات اور چشم دید نمونہ سے زیادہ متاثر ھوتا ھے ، انسان کوئی بات سننے سے زیادہ اس بات کوکسی کے اندر دیکھ کر زیادہ متاثر ھوتا ھے اور بآسانی اپنا لیتا ھے ۔امام خمینی ﴿رہ﴾ جیسے افراد کی زندگی کا مطالعہ اس لئے بھی اھمیت رکھتا ھے کہ آپ کی زندگی جھاں اسلامی اخلاق کی مجسم تصویر ھے وھیں سیاسی اور سماجی مسائل میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے بھتر ین مشعل راہ بھی ھے ۔ یہ وہ اھم ترین امور ھیں جن کو ھمیں اپنی توجھات کا مرکز بنا نا چاھئے ۔
بلا شک و شبہ اس راہ میں ثبات و استقلال کے ساتھ بڑھنے والا ھر قدم نتیجہ بخش ھے ، محال ھے کہ اللہ کی راہ میں کوئی مخلصانہ قدم اٹھایا جائے اور اس کا نتیجہ سامنے نہ آئے، ایسا ھر گز نھیں ھو سکتا!!! بلکہ قضیہ اس کے بر عکس ھے ، کچہ ایسے لوگوں نے جن کے پاس کھانے کو بھی نھیں تھا، اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جب ایک کام خلوص کے ساتھ خدا کے لئے انجام دیا تو اللہ نے اس کی برکتوں کو ھمہ گیر کر دیا۔ اس سلسلے میں علمائے ھند و ایران اور دوسری شخصیتوں کے نمونے بے شمار ھیں، دامن وقت میں اتنی بھی گنجائش نھیں ھے کہ ان کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ ان داستانوں کا مطالعہ اور انھیںایک دوسرے کے لئے نقل کرنا آپ لوگوں کے لئے نھایت مفید ثابت ھو سکتا ھے ۔
میں خدا کو انبیاء و اولیاء اور امام زمانہ (ع) کے حق کی قسم دیتا ھوں کہ ھمیں خواب غفلت سے بیدار کرے ۔ھمارے دلوں میں اپنی اور اپنے اولیاء کی معرفت اور محبت میں اضافہ کرے ۔ ھم کو اپنے انفرادی اور اجتماعی وظائف سے زیادہ سے زیادہ آگاہ کر کے انھیں انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔
امام خمینی ﴿رہ﴾اور آغاز اسلام سے لے کر اب تک کے علماء اور شھداء کو جنھوں نے اسلام کی راہ میں قربانیاں دی ھیں، انبیاء اور اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے اور ھمیں بھی ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔خدا یا !بحق محمد و آل محمد علیھم السلام ولی عصر (ع) کے ظھور میں تعجیل فرما۔ ھمیں اپنے قائم کے سچے خدمت گزاروں میں قرار دے اور ان کی رکاب میں شھادت کا شرف عطا فرما ۔ وصلی اللّہ علی محمد و آلہ الطاھرین ۔

Add comment


Security code
Refresh