www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

945695
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کا عھد دیگر ائمہ علیھم السلام کی نسبت ایک استثنائی عھد تھا ۔ ایک طرف اموی حکومت کی سانسیں اکھڑرھی تھیں، تو دوسری طرف عباسی حکمران اپنے قدم جمانے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے اور وہ بھی رضائے آل محمد علیھم السلام کے نام پر جو کم سے کم اس بات کی علامت ضرور تھا کہ ظاھراً ھی سھی لیکن مختصر مدت کے لئے خاندان علم وھدایت پابندیوں اور سختیوں سے محفوظ ہے ۔
حصول حکومت کی اس کشمکش میں ایک طرف عوام کو فکری آزادی نصیب ھوئی جو کسی معاشرہ کی استعداد اور صلاحیتوں کے نمایاں ھونے کا بھترین موقع ھوتا ہے لھذا علم ودانش کا وہ تخم جس کی کاشت دست نبوت سے ھوئی تھی جس کی آبیاری باب مدینة العلم نے کی تھی، علم و دانش کے جس شجر کو وارثان علم نے عھد جھالت و غفلت کی تیز زھریلی آندھیوں سے محفوظ رکھا تھا اب ثمر بارھونے کوتھا ۔
دوسری طرف اسلامی قلمرو میں وسعت اور مسلمانوں کے دیگر متمدن اقوام سے ارتباط پیدا ھونے کے نتیجہ میں ان پر علم و دانش کے کچھ نئے افق کھلے، جس کے مثبت اور منفی اثرات سے مسلمان معاشرے محفوظ نھیں رہ سکے، یہ درست ہے کہ اس نتیجے میں مسلمان دیگر اقوام کے باطل عقائد اور بیجا خرافات سے متاثر ھوئے لیکن ساتھ ھی ساتھ اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں تحقیق اور جستجو کا جذبہ پیدا ھوا، نظریات اور افکار میں نسبتاً وقت اور گھرائی پیدا ھوئی، وقتی آزادی ملی تو ذھنوں میں دبے ھوئے سوالات ابھر کر سامنے آئے، علمی مشکلات وجود میں آئیں، جس کے لئے ایک ایسے علمی سرچشمہ کی ضرورت پیش آئی جو ان مشکلات کو حل کر سکے ۔
دوراستے
ان حالات میں امام جعفرصادق علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے ۔ ایک یہ اپنے افراد کو جمع کرکے شمشیر بکف قیام کریں اور دونوں باطل قوتوں کا خاتمہ کرتے ھوئے عدالت پر مبنی ایک الھی حکومت کو قائم کریں، اس صورت میں دو احتمال تھے، ایک یہ کہ مطلوبہ ھدف ھوجائے اور قیام عدل کی دیرینہ آرزو پوری ھوجائے ۔ دوسرا احتمال یہ تھا کہ حسب ضرورت قوت اور وفادار افراد کے نہ ھونے کی صورت میں آپ کے ساتھی درجہ شھادت پر فائز ھوتے ۔
دوسرا راستہ یہ تھا کہ تلوار کو نیام میں رھنے دیں اور ایک ایسا علمی و تربیتی مرکز قائم کریں جس میں انسان سازی کا درس دیا جائے، علم و معرفت کے دریچے کھلیں، اسلام حقیقی کو تعارف کرایا جائے تا کہ امت مسلمہ روح اسلام سے آشنا ھوسکے ۔
انتخاب
امام جعفر صادق علیہ السلام نے مصلحت کو دیکھتے ھوئے راہ خون و شمشیر کو ترک کیا اور ایک ایسے علمی مرکز کو قائم کیا جس کے اثرات آج تک دنیائے علم پر باقی ہیں ۔ یہ بذات خود امام جعفر صادق علیہ السلام کی امامت عملی کا ایک نمونہ ہے، امام علیہ السلام نے اپنی الھی دید سے امت کے مرض کو تشخیص دے کر اس کے علاج کے لئے مناسب ترین قدم اٹھایا ۔
ان حالات میں امام علیہ السلام اگر تلوار اٹھاتے تو یہ احتمال ضرور تھا کہ وقتی طور پر بنی امیہ اور بنی عباس کے فتنے ختم ھوجاتے اور حکومت آپ کے ھاتھوں میں آجاتی لیکن سوال یہ ہے کہ آیا صرف حکومت حاصل کرلینے سے امت کی مشکلات حل ھوسکتی تھیں ؟ اس میں کوئی شک نھیں کہ حکومت یقیناً کسی مکتب کے نفاذ کے لئے بھت موثر ہے، لیکن کون سی حکومت ؟ آیا وہ حکومت جس کے ارکان ابو مسلم خراسانی اور ابو سلمہ جیسے افراد ھوں ۔
حکومتی انقلاب برپا کر آسان ہے لیکن اس کو باقی رکھنا مشکل ہے ۔ حکومت کی بقا کے لئے مخلص، معتبر اور تجربہ کار افراد کی ضرورت ھوتی ہے جو امام علیہ السلام کے پاس موجود نھیں تھے ۔ امام علیہ السلام کس پر بھروسہ کرتے ؟ ابومسلم خراسانی پر جس کی اقتدار پرستی اور جاہ طلبی نے چھ لاکھ بے گناھوں کو اپنی گورنری کی بھینٹ چڑھادیا، جو طلحہ و زبیر سے کھیں زیادہ بدتر کردار ادا کرنے کے لئے امام علیہ السلام کو قیام اور حکومت کی پیش کش کررھاتھا ﴿١﴾ یا ابوسلمہ پر جو اپنے اور حکومت کے درمیان فاصلے کو طے کرنے کے لئے فرزنداں علی علیہ السلام میں سے کسی ایک فرد کو مھرابنانے کی کوشش کررھا تھا، خواہ وہ فرد کوئی بھی ھو عبداللہ بن حسن، عمر الاشرف بن زین العابدین علیہ السلام یا امام صادق علیہ السلام جیسا کہ اس کے ان خطوط سے ظاھر ھوتا ہے جو اس نےایک ھی وقت میں ایک مضمون کے ساتھ اس تین افراد کے نام لکھے ۔ ﴿۲﴾
امام علیہ السلام کے پاس تلوار چلانے والے ساتھی بھت تھے اور شاید وہ جوانمردی کے ساتھ تلوار چلاتے لیکن امام علیہ السلام کو اشعث بن قیس، خوارج یا کوفیوں جیسے شیشیر زن کے بجائے مالک اشتر اور حبیب بن مظاھر جیسے ناصروں کی ضرورت تھے اور امام علیہ السلام کو ان لاکھوں افراد میں کوئی مالک اور حبیب نظر نھیں آرھا تھا ۔
اسی لئے امام علیہ السلام نے سدیر صرفی کے سامنے اپنے دل کی حسرت بیان کی کہ اگر اس گلے کی تعداد میں بھی ھمارے ناصر موجود ھوتے تو ھم اپنی جگہ پر نہ بیٹھتے ﴿۳﴾ لھذا اپنے ساتھیوں سے فرمایا: اپنی زبان کو بند رکھو اور گھروں کے باھر نہ آؤ کیونکہ جو چیز تم سے مخصوص ہے ( حقیقی اسلامی حکومت ) وہ اتنی جلدی تم تک پھونچنے والی نھیں ہے۔ ﴿۴﴾
قیام حسینی اور قیام جعفری
ممکن ہے کسی ذھن میں یہ سوال پیدا ھو کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کی مانند قیام کیوں نھیں کیا اور راہ شھادت کے انتخاب کرنے سے کیوں گریز کیا؟
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ جس طرح امام علیہ السلام کی زندگی بے ھدف نھیں ھوتی اسی طرح امام علیہ السلام کی موت بھی ھدف سے خالی نھیں ھوتی ۔ ایک الھی راھنما کے نزدیک اصل مسئلہ اپنی زندگی یا شھادت کا نھیں ھوتا بلکہ اس کو ساری فکر امت کی ھدایت اور بشری تکامل کی ھوتی ہے، فکر امت کی ھدایت کریا موت کے ذریعے ۔ یہ ھدف اگر زندگی سے حاصل ھوتا ہے تو زندگی کی قدر کرتے ہیں اور اگر موت سے حاصل ھوتا ہے تو شھادت کو گلے لگالیتے ہیں ۔ قرآن کی روشنی میں قیام برائے خدا، نہ صرف ائمہ علیھم السلام بلکہ ھر مسلم فرد پر لازم ہے حتی اگر لوگوں کی غفلت اور بے شعوری کی وجہ سے اجتماعی قیام نہ ھو تو فرد فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خدا کے لئے قیام کرے ۔
" قل انما اعظکم بواحدة ان تقوموا للہ مثنی و فرادی ﴿۵﴾
لیکن حالات کے تقاضے کے تحت قیام کی نوعیت بدلتی رھتی ہے ۔ تمام انبیاء کی ذمہ داری تھی کہ خدا کے لئے قیام کریں مگر ان کے قیام کی نوعیت الگ الگ تھی جس طرح ایک طبیب مرض کی شناخت کرکے اس کے علاج کے لئے اقدام کرتا ہے اسی طرح ایک ذمہ دار اور فرض شناس انسان، خواہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ھو، اپنے عھد کے اجتماعی امراض کی شناخت کرکے اس کا علاج کرتا ہے ۔
عصر امام حسین علیہ السلام میں امت کا مرض غفلت، بے حسی اور لاتعلقی تھا جس کا علاج ایک خونین قیام کے ذریعے ھی ممکن تھا ۔ غافل سوئے ھوئے بے حس انسان کو تعلیم نھیں دی جاسکتی اور نہ ھی ان کی تربیت ممکن ہے ۔ تعلیم و تربیت کے لئے شعور و بیداری شرط ہے ۔
لیکن عھد امام جعفرصادق علیہ السلام میں امت کے مرض کی نوعیت مختلف تھی ۔ وھاں غفلت و بے حسی نھیں تھی ورنہ وہ کشمکش اور جنگی حالات پیدا ھی نھیں ھوتے ۔ ایک بھت بڑی تعداد اپنی جان ھتھیلی پر لیکر قیام حق کے لئے کوشاں تھی، مگر ان کی مشکل تھی حق کی درست اور بے شناخت نہ ھونا، ان کی مشکل تھی فقدان بصیرت اور بے شعوری ۔ وہ حق کو چھوڑ کر ظاھری حق نما نعروں پر اپنی جان دینے کے لئے تیار تھے ۔ لھذا اب یھاں قیام حسینی کی ضرورت نھیں تھی ان کی ضرورت تھی ایک ایسے مرکز کا قیام جوان کے اندر بصیرت اور آگاھی پیدا کرسکے، جو انکے شعور میں پختگی ایجاد کرسکے، جوان کو اسلام کی حقیقی روح سے آشناکر سکے، جوان کے لئے اسلام کے صحیح خدوخال کو نمایاں کرسکے بعد از وفات رسول آنحضرت کی احادیث کے بیان پر لگائی جانے والی پابندی، جس کا سلسلہ پورے سو سال تک جاری رھا اور اس کے بعد یا اسی اثنا میں رسول اللہ (ص) کی طرف منسوب جھوٹی حدیثوں نے دین الھی کا روشن چھرہ مسخ کر رکھا تھا،ضمیر فروش علماء اور جھوٹے راویوں کے ھاتھوں ادیان دیگر کے بے بنیاد خرافاتی عقائد، نظریات اور اعمال کو دین کا جز بنادیا گیا تھا ۔
اب ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی جو حقیقی اسلام کی صحیح تصویر پیش کر سکے اور اس میں امام علیہ السلام ایسے افراد کی تربیت کرسکیں جو قیامت تک کے لئے دین خدا کے محافظ بن جائیں، لھذا امام علیہ السلام نے جنگ کے راستے کو چھوڑ کر تعلیم کے راستے کو اپنایا ۔ جس کے آثار آج تک علمی دنیا میں موجود ہیں ۔
تحریر اختر عباس جون
حوالہ
١۔ ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، بیروت، 1977 ج 10 ص 72 ۔
۲۔ مسعودی، مروج الذھب، بیروت، ج 3 ص 1253 ۔ 254 ۔
۳۔ کلینی، اصول کافی، تھران، مکتبہ الصدوق ،1381 ھ ج2 ص 242 ۔
۴۔ مجلسی، مجلسی، بحار الانوار، ج47، ص 133 ۔
۵۔ سورہ سبا،آیت 46 ۔

Add comment


Security code
Refresh