www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

عرض ناشر

عالم اسلام کی موجودہ صورت حال ، مسلمان حکومتوں اور ملکوں کا باھم متحد نہ ھونا اسلامی اخوت و مساوات کا فقدان، اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بجائے غیر اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان اور الٰھی طاقت و قوت پر اعتماد کے بجائے ان کا غیر الٰھی اور کھوکھلی طاقتوں پر ایمان۔

 نتیجہ میں استعماری طاقتوں اور عالمی صھیونزم  کا ان پر تسلط مسلمانوں کا بے مھابا قتل عام اور ان کے طبیعی و زمینی ذخائر کی اندھا دھند  لوٹ کھسوٹ  اور ساتھ ھی کلمہ ٴ  لا الہ الا الله پڑھنے والوں کی بے بسی و بیکسی ایک صائب اور صحیح فکر رکھنے والے مسلمان کو بھت  کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ھے۔

ھم چودہ سو سال سے آج تک متفرق کیوں ھیں ۔ مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے اس فرقہ واریت کے اسباب کیا ھیں ، مسلمانون میں کلام الٰھی کی یہ عملی تصویر کیوں نظر نھیں آتی جس میں وہ ارشاد فرماتا ھے < اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم  فاصبحتم بنعمتہ اخواناً> بلکہ مسلمان خود ایک دوسرے کے جانی دشمن کیوں بنے ھوئے ھیں کیا ھم عملاً کھہ سکتے ھیں کہ اسلامی تعلیمات عالم انساںیت کی فلاح کےلئے بھترین تعلیمات ھیں ۔قرآن کے آئیڈیل مسلمان جو <اشداء علی الکفار رحماء بینھم>کی عملی تصویر ھیں  پوری اسلامی تاریخ میں انگلیوں پر گننے کے قابل کیوں ھیں۔

 اس کا صاف جواب یہ ھے کہ ھمارے پاس آنحضرت  کی رحلت کے بعد سے کوئی عملی قرآنی لیڈر شب نھیں رھی مسلمانوں نے ابتدا ھی سے پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعد نہ قرآنی  تعلیمات پر سنجیدگی  سے عمل کیا اور نہ پیغمبر اکرم  (ص)کے ارشادات پر کان دھرے اور خدا پسند مسلمان بننے کے بجائے خود پسند مسلمان بنے۔ قرآن کریم کے معلم اول حضرت  محمد  (ص)اپنے  بعد قرآن کے جن معلموں  کو ” حدیث ثقلین“ کی روشنی میں ھمارے درمیان چھوڑ گئے تھے مسلمانوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں محفوظ ھے اور کسی باھوش مسلمانوں سے پوشیدہ نھیں ھے۔

 لھذا ان حالات کی روشنی میں آج بھی یہ بحث تازہ اور گرما گرم ھے کہ پیغمبر اکرم  (ص)جو خدا کی جانب سے بھیجے گئے تھے اور الٰھی تعلیمات اور قرآنی دستور العمل ھماری حیات کےلئے لئے آئے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد کیا مسلمان تمام الٰھی تعلیمات اور قرآنی دستور حیات سے اتنے آگاہ ھوچکے تھے کہ انھیں پھر کسی الٰھی معلم قرآن کی ضرورت نھیں رہ گئی تھی اور وہ اپنی مرضی سے الٰھی نظام حیات کو چلا سکتے تھے؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ خدا سے زیادہ اپنے حالات و معاملات سے آگاہ ھوگئے تھے؟

 یا ” عدول“ کا لقب پانے والے آنحضرت  کے اصحاب نے خدا ، قرآن اور پیغمبر اکرم  (ص)کے دستورات کے خلاف  خدا و رسول  کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی کو عملی جامہ پھنایا اور ” امت کی رھبری“ اپنے ھاتھوں میں لے لی۔ انجام کار سامنے ھے کہ مسلمان آج چودہ سو برسوں سے ترقی کے بجائے زوال کی طرف مائل ھیں اور خدا کی جانب سے ” مغضوب“ اور ” ضالین“ شمار کی جانے والی قومیں ان پر غالب ھیں ۔

 یہ کتاب ” امت کی رھبری“ جو آپ کے ھاتھوں میں ھیں اسی موضوع پر آیة اللہ شیخ جعفر سبحانی مد ظلہ کی ایک بھترین کاوش ھے جسے موجودہ افکار و خیالات کی روشنی میں نئے رخ سے پیش کیا گیا ھے امید ھے کہ خداوند عالم اس کے ذریعہ حق کے جویا افراد کی ھدایت فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین              

 ناشر   

Add comment


Security code
Refresh