www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

عرض ناشر

عالم اسلام کی موجودہ صورت حال ، مسلمان حکومتوں اور ملکوں کا باھم متحد نہ ھونا اسلامی اخوت و مساوات کا فقدان، اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بجائے غیر اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان اور الٰھی طاقت و قوت پر اعتماد کے بجائے ان کا غیر الٰھی اور کھوکھلی طاقتوں پر ایمان۔

 نتیجہ میں استعماری طاقتوں اور عالمی صھیونزم  کا ان پر تسلط مسلمانوں کا بے مھابا قتل عام اور ان کے طبیعی و زمینی ذخائر کی اندھا دھند  لوٹ کھسوٹ  اور ساتھ ھی کلمہ ٴ  لا الہ الا الله پڑھنے والوں کی بے بسی و بیکسی ایک صائب اور صحیح فکر رکھنے والے مسلمان کو بھت  کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ھے۔

ھم چودہ سو سال سے آج تک متفرق کیوں ھیں ۔ مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے اس فرقہ واریت کے اسباب کیا ھیں ، مسلمانون میں کلام الٰھی کی یہ عملی تصویر کیوں نظر نھیں آتی جس میں وہ ارشاد فرماتا ھے < اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم  فاصبحتم بنعمتہ اخواناً> بلکہ مسلمان خود ایک دوسرے کے جانی دشمن کیوں بنے ھوئے ھیں کیا ھم عملاً کھہ سکتے ھیں کہ اسلامی تعلیمات عالم انساںیت کی فلاح کےلئے بھترین تعلیمات ھیں ۔قرآن کے آئیڈیل مسلمان جو <اشداء علی الکفار رحماء بینھم>کی عملی تصویر ھیں  پوری اسلامی تاریخ میں انگلیوں پر گننے کے قابل کیوں ھیں۔

 اس کا صاف جواب یہ ھے کہ ھمارے پاس آنحضرت  کی رحلت کے بعد سے کوئی عملی قرآنی لیڈر شب نھیں رھی مسلمانوں نے ابتدا ھی سے پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعد نہ قرآنی  تعلیمات پر سنجیدگی  سے عمل کیا اور نہ پیغمبر اکرم  (ص)کے ارشادات پر کان دھرے اور خدا پسند مسلمان بننے کے بجائے خود پسند مسلمان بنے۔ قرآن کریم کے معلم اول حضرت  محمد  (ص)اپنے  بعد قرآن کے جن معلموں  کو ” حدیث ثقلین“ کی روشنی میں ھمارے درمیان چھوڑ گئے تھے مسلمانوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں محفوظ ھے اور کسی باھوش مسلمانوں سے پوشیدہ نھیں ھے۔

 لھذا ان حالات کی روشنی میں آج بھی یہ بحث تازہ اور گرما گرم ھے کہ پیغمبر اکرم  (ص)جو خدا کی جانب سے بھیجے گئے تھے اور الٰھی تعلیمات اور قرآنی دستور العمل ھماری حیات کےلئے لئے آئے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد کیا مسلمان تمام الٰھی تعلیمات اور قرآنی دستور حیات سے اتنے آگاہ ھوچکے تھے کہ انھیں پھر کسی الٰھی معلم قرآن کی ضرورت نھیں رہ گئی تھی اور وہ اپنی مرضی سے الٰھی نظام حیات کو چلا سکتے تھے؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ خدا سے زیادہ اپنے حالات و معاملات سے آگاہ ھوگئے تھے؟

 یا ” عدول“ کا لقب پانے والے آنحضرت  کے اصحاب نے خدا ، قرآن اور پیغمبر اکرم  (ص)کے دستورات کے خلاف  خدا و رسول  کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی کو عملی جامہ پھنایا اور ” امت کی رھبری“ اپنے ھاتھوں میں لے لی۔ انجام کار سامنے ھے کہ مسلمان آج چودہ سو برسوں سے ترقی کے بجائے زوال کی طرف مائل ھیں اور خدا کی جانب سے ” مغضوب“ اور ” ضالین“ شمار کی جانے والی قومیں ان پر غالب ھیں ۔

 یہ کتاب ” امت کی رھبری“ جو آپ کے ھاتھوں میں ھیں اسی موضوع پر آیة اللہ شیخ جعفر سبحانی مد ظلہ کی ایک بھترین کاوش ھے جسے موجودہ افکار و خیالات کی روشنی میں نئے رخ سے پیش کیا گیا ھے امید ھے کہ خداوند عالم اس کے ذریعہ حق کے جویا افراد کی ھدایت فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین              

 ناشر   


 اس کتاب کی تحریر کامقصد

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امت کی قیادت ورھبری کامسئلہ اسلام کے ان اھم مسائل میں سے ھے جس کی تحقیق ھر طرح کے تعصب وغرض و مرض سے دور پر سکون ماحول میں کی جانی چاھئے۔

 سب سے پھلا مسئلہ جو پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد زبانوںپر آیا اور بحث کا موضوع بنا اور آج بھی اس پر بحث وتحقیق جاری ھے وہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی سیاسی وسماجی قیادت ورھبری کا مسئلہ تھا کیونکہ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پیغمبراکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ھر جھت سے مسلمانوں کے س رپرست ورھبر تھے ۔ قرآن کی متعدد آیتیں آنحضرت کی وسیع قیادت ورھبری کی گواھی دیتی ھیں جن میں سے بعض آیتیں ھم یھاں ذکر کرتے ھیں:

1۔  ”اطیعوااللہواطیعواالرسول واولی الامر منکم “  (1)

 اللہ ،رسول اور اپنے حاکموںکی اطاعت کرو

 2۔  ”النبی اولیٰ بالموٴمنین من انفسھم “( 2)

پیغمبر مومنوں (کی جان ومال )پر ان سے زیادہ سزاوار ھے۔

 اس وسیع وعریض قیادت ورھبری کاایک پھلو اسلامی سماج میں عدالت قائم کرنا ھے ۔پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممدینہ میں اپنے قیام کے دوران خود یامدینہ سے باھر دوسروں کے ذریعہ سماج میں عدالت برقرار کرتے تھے ۔قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاھے کہ اپنے معاملات اور اختلافات میںپیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلوں کو بے چون وچرا تسلیم کریں:

 فلا وربک لا یوٴمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما“ ( 3)

(تمھارے پروردگار کی قسم وہ لوگ ھرگز مومن واقعی شمار نھیں ھوں گے جب تک وہ اپنے اختلاف میں تمھیں حَکَم اور قاضی قرار نہ دیں اوراس پر ذرا بھی ملول نہ ھوں اور تمھارے فیصلہ پر مکمل تسلیم ھوں)

 پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی سماجی رھبری کاایک پھلو اسلام کے مالی واقتصادی امور کاادارہ کرناھے کہ ٓانحضرت اپنی حیات میں ان کاموںکوانجام دیتے تھے۔قرآن مجید نے ان الفاظ میں آپ  کوخطاب کیاھے:

 خذ من اموالھم صدقة تطھرھم وتزکیھم بھا“( 4)

 ان کے اموال میں سے زکوات لو اور اس طرح انھیں پاک کرو۔

 دوسری آیات میں زکات اور ٹیکس کی مقدار اور ان کے مصارف کا بھی پوری باریکی کےساتھ ذکر کیا گیاھے۔

 ان آیات کے معانی،ان کی وضاحت کرنے والی روایات اور خود آنحضرت  کاطرز عمل یہ بتاتاھے کہ آنحضرت مسلمانوں کے سرپرست ،سماج کے حاکم ،اور ملت وامت کے فرمانروا تھے۔اور جو سماج کامطلق العنان حاکم انجام دیتا ھے وہ انجام دیتے تھے ۔ فرق یہ تھا کہ یہ سرپرستی اور حکومت لطف الٰھی کی شکل میں خدا کی طرف سے آپ کو عطا ھوئی تھی۔لوگوں نے آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس منصب کے لئے منتخب نھیں کیاتھا۔نقطہ ٴحساس یہ ھے کہ ھم یہ جانیںکہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت کی باگڈور اور سرپرستی کس کے ذمہ ھے اور اسلامی سماج کی اجتماعی وسیاسی قیادت کس کے ھاتھ میں ھونی چاھئے جو سماج کو ھرج ومرج ،فساد اور پسماندگی سے محفوظ رکھے؟

 اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ اسلام جیسے عالمی وجاودانی دستور میں اس امر کو فراموش نھیں کیاگیا ھے اور اس کے لئے ایک بنیادی منصوبہ پیش کیاھے اور وہ ھے ”اولی الامر“کی پیروی واطاعت جو ھم پر واجب کی گئی ھے اور اس سلسلہ میں کوئی بحث نھیں ھے۔پس یھاں جو نکتھ قابل بحث ھے یہ ھے کہ جن حکام کی اطاعت واجب کی گئی ھے مسلمان ان کی شخصیت کو پھچانیں تاکہ خوب اطاعت کریں۔

 مسلمانوںکا ایک گروہ یہ کھتاھے کہ خود پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خداوند عالم کے حکم سے اسلامی سماج کے سیاسی واجتماعی امور کو ادارہ کرنے کے لئے اپنے بعد حاکم ےا حکام معین کئے ھیں ۔اس گروہ کے مقابل ایک دوسرا گروہ ھے جو یہ کھتا ھے کہ خداوند عالم نے لوگوں کو یہ اختیار دیاھے کہ

پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعداپنے لئے حکام کاانتخاب کریں۔شیعہ پھلے نظریہ کے اوراھل سنت دوسرے نظریہ کے طرفدار ھیں۔

اگر مسلمانوں کی امامت وپیشوائی کامسئلہ اسی حد میں ھو کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم(کی رحلت کے بعد اسلام کے اس سیاسی واجتماعی منصب پر کون فائز ھوا،اس شخص کی تعیین کس شکل میں ھوئی پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس منصب پر کسی کو معین کیا یاکوئی شخص عوام کی جانب سے اس منصب کے لئے منتخب ھوا ،تو یہ بحث صرف ایک تاریخی پھلو کی حامل ھوگی اور چودہ صدیوں کے بعد آج کی نسل کے لئے کوئی خاص سازگار اور مفید نھیں ھوگی۔(اگر چہ ان افراد کی شناخت بھی اس عھد کے لوگوں کے لئے ضروری اور اھم شمار ھوتی تھی)لیکن اگر بحث کی شکل تبدیل ھو اور یہ کھا جائے کہ بحث کا موضوع پیغمبر اکرم   (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اسلامی سماج کی صرف سیاسی و اجتماعی قیادت ھی نھیں ھے بلکہ پیغمبر اکر م   (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اس منصب کے علاوہ ”دین کے اصول و فروع میں بھی مرجعیت ورھبری کا منصب رکھتے تھے ۔تو اب سوال یہ ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس پھلو کی قیادت کس کے ذمہ ھے؟ اور کیسے اشخاص کو حلال و حرام اور امر و نھی کا منصب دار ھونا چاھئے تا کہ اسلامی حقائق کے سلسلہ میں ان کے اقوال اور نظریات صبح قیامت تک انسانوں کے لئے حجت ھوں؟اس صورت میں امام کی شناخت اور دینی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں بحث ھر مسلمان کی زندگی کا حصہ قرار پاتی ھے اور کوئی شخص بھی اس معرفت سے بے نیاز نھیں ھوسکتا ۔اب اس مطلب کی و ضاحت پر توجہ دیں:

اسلامی معارف و احکام میں قیادت و مرجعیت:

 اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی قیادت و رھبری صرف سیاسی و سماجی امور میں نھیں تھی بلکہ آپ قرآنی آیات کے مطابق اس الٰھی کتاب کے معلم  1 ، قرآن کے مشکل مطالب کی تبیین و وضاحت کرنے والے  2  ،اور الٰھی احکام و سنن کو بیان کرنے والے تھے  3  ۔اس اعتبار

  1۔”یعلمھم الکتاب والحکمة“ (5)

  2۔”و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما انزل الیھم“)6)

  3۔” وما آتاکم الرسول فخذوہ و مانھاکم عنہ فانتھوا“ (حشر/7)(7)

سے پورے اسلامی معاشرہ کا اس پر اتفاق ھے اور قرآنی نصوص بھی گواھی دیتی ھیں کہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور بندوں کے فرائض میں آنحضرت کا قول و عمل لوگوں کے لئے سند اور حجت ھے۔

اس کتاب کے چوتھے حصہ میںواضح طور سے بیان کیا گیا ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ لوگوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت پوری نھیں ھوئی تھی اور ابھی اسلام کی علمی و عملی تحریک اپنے کمال کو نھیں پھنچی تھی کہ پھر سماج کو معصوم رھبروں کی ضرورت نہ رھے۔لھٰذا ضروری ھے کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد کوئی شخص یا جماعت اسلام کے احکام اور اس کے علمی ،فکری وتربیتی اصول کی رھبری و مرجعیت کا عھدہ اس روز تک سنبھالے جب تک اسلام کا یہ انقلاب پوری طرح سے بارور ھوجائے۔

 اب دیکھنا یہ ھے کہ اس منصب و مقام کے لئے کون سے افراد شائستہ ھیں تا کہ اسلامی معاشرہ ھر عھد اور ھر زمانہ میں ان کے افکار و کردار و گفتار سے فائدہ اٹھائے۔اور ان کی ھدایات و رھنمائی میںحلال خدا کو حرام سے اور واجبات کو محرمات سے تشخیص دے سکے ۔نتیجہ میں اپنے دینی فرائض پر عمل کرسکے ۔اس گروہ کی شناخت اور ان کی تعلیمات و ھدایات سے آگاھی حاصل کرنا ھر مسلمان پر لازم و ضروری ھے۔ اس کتاب میں اسی بات کی کوشش کی گئی ھے کہ پیغمبر اکرم کے شائستہ اور سچے جانشینوں کا تعارف کرایا جاسکے۔

 ظاھر ھے کہ (پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد امت کی رھبری )کی بحث کو پیش کرنے کا مطلب یہ ھرگز نھیں ھے کہ موجودہ حساس حالات میں مذھبی اختلافات کو بھڑ کایا جائے یا تعصب آمیز اور بے ثمر و غیر مفید بحث کو جاری رکھا جائے۔ کیونکہ ان حساس اور نازک حالات میں نہ صرف حالات کو پھیلنے سے روکا جانا ضروری ھے بلکہ انھیں کم سے کم کرنے کی کوشش کرنا چاھئے اور در حقیقت انسان کی عمر اس سے کھیں زیادہ قیمتی ھے کہ تعصب آمیز بحث چھیڑی جائے اور اپنی اور دوسروں کی عمر تباہ کی جائے۔بلکہ مقصد یہ ھے کہ ھر طرح کے تعصب و کینہ سے دور رہ کر ایک اھم اور اساسی مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے حقائق کی بنیاد پر اس کی محققانہ اور منطقی تحقیق کی جائے۔تا کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان مزید قربت اور تفاھم پیدا ھو اور وہ زھر افشانیاں ختم ھوجائیں جو ھمارے دانا دشمن اور نادان دوست اس سلسلہ میں کیا کرتے ھیں۔امت کی رھبری سے مربوط بحثوں میں دو بنیادی اصل ھمارے پیش نظر ھیں:

1۔پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی جیسے اھم مسئلہ میں حقائق و واقعیات کو پھچانا جائے۔

2۔مسلمانوں کے درمیان مفاھمت اور قربت پیدا کرنے میں مدد کی جائے اور ان عوامل و اسباب کو بر طرف کیا جائے جو سوء ظن کا باعث ھوتے ھیں اور جن سے دشمن فائدہ اٹھا کر ھم میں اختلاف پیدا کرتا ھے۔

 اس کتاب کے مطالب چند برس پھلے تھران میں یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے (حسینیہ ٴبنی فاطمہ(ۡع)) میں درس کے طور پر بیان کے گئے تھے جو کافی حد تک لوگوں کو مکتب اھل بیت(ۡع)سے آشنا کرنے اور آنحضرت کے شائستہ جانشینوں کی معرفت کا باعث ھوئے تھے۔جنھیں شائقین کے اصرار پر کتابی شکل میں شائع کیا جارھاھے یہ کتاب اس بحث کا پھلا حصہ ھے جو   24چوبیس فصلوں پر مشتمل ھے ۔انشاءاللہ دوسرا حصہ بھی جلد شائع ھوگا۔

وماتوفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب

     جعفر سبحانی   

  حوزہٴ علمیہ قم المقدسہ، اسلامی جمھوریہ ایران


پھلی فصل

امام کی شناخت کا فلسفہ

 مسلمانوں کا اتحاد و یکجھتی ایک ایسی واضح چیز ھے جس کی ضرورت سے کسی بھی عقلمند کو انکار نھیں ھے،کیونکہ جو لوگ ایک کتاب کی پیروی کرتے ھیں اور اساسی و اصولی مسائل پراتفاق رائے رکھتے ھیں وہ مختلف فرقوں ،گروھوں دشمن جماعتوں کی شکل میں کیوں رھیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ھوں؟اگر ماضی میں لوگوں کے اکثر طبقوں کو اس اتحاد کی ضرورت کا احساس نھیں تھا تو آج جب کہ استعماری طاقتیں اسلامی ممالک کے قلب پرحملہ آور ھیں اور ھر روز آگے بڑھتی نظر آتی ھیں ایسے میں ھر عاقل و ھوشیار شخص کو اتحاد کی ضرورت کا بھر پور احساس ھے۔

 کون غیرت مند مسلمان ھوگا جو فلسطین،بوسنیہ ،کشمیر ،چچنیہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی ناقابل بیان حالت کو دیکھے اور خون کے آنسو نہ روئے اور اس بے حسی اور پراکندگی پر گریہ نہ کرے؟!/span>

 مسلمان ، دنیا کی ایک چوتھائی جمعیت کو تشکیل دیتے ھیں۔اورانسانی طاقت ،زمینی ذخائر اور اصیل اسلامی ثقافت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ غنی جمعیت ھیں ۔ ایسی مادی اور معنوی طاقتوں سے سرشار مسلمان سیاست کے میدان میں سب سے زیادہ باوزن ھوسکتے ھیں اور دنیا کی سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی قیادت و رھبری اپنے ھاتھ میں لے سکتے ھیں اور استعمار نیز اسلامی اتحاد کے مخالفوں کی بنائی ھوئی بھت سی جغرافیائی حدوں کو نادیدہ قرار دے کر مسلمانوں کی باھمی ضرورتیں پوری کرسکتے ھیں نیز اقتصادی و ثقافتی مبادلات کے ذریعہ اپنے حالات بھتر بنا سکتے ھیں ۔اس طرح اپنی سیادت و سرداری دوبارہ حاصل کر سکتے ھیں لیکن اتحاد کی اس اھمیت کو مد نظر رکھنے کے با وجود امام کی شناخت و معرفت کے موضوع کو اسلامی اتحاد کی راہ کا کا نٹا نھیں سمجھنا چاھئے اور اسے اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نھیں سمجھنا چاھئے ،جس کی ضرورت کو سبھی محسوس کرتے ھیں ۔

 اکثر دیکھا گیا ھے کہ بعض سادہ لوح یا فریب خوردہ جوان اسلامی اتحاد کو حضرت عثمان کا کرتھ بنا کر طالبان حقیقت پر سخت تنقید کرتے ھوئے کھتے ھیں:

 ابوبکر و علی(ع)  کی خلافت کی بحث اور یہ کہ صحیح جانشین کون ھے ایک غیر مفید اور بے ثمر بحث ھے۔اس لئے کہ زمانہ کا پھیا اب پیچھے نھیں گھومے گا اور ھم پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حقیقی جانشین کو زندہ نھیں کر پائیں گے کہ اسے اس کا حق دلائیں اور مسند خلافت پر بٹھائیں اور مخالف کی تنبیہ اور اس کا مواخذہ کریں پس بھتر ھے کہ یہ فائل ھمیشہ کے لئے بند کر دی جائے اور اس کے بجائے کوئی دوسری گفتگو کی جائے!

 اس خیال کے حامل افراد اس بحث کے درخشان نتائج سے غافل ھیں لھٰذا انھوں نے اسے غیر اھم ،بے فائدہ اور اسلامی اتحاد کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا ھے ، لیکن ھمارے خیال سے یہ فکر امام شناسی کے فلسفہ سے غفلت اور لا علمی کے علاوہ اور کچہ نھیں ھے کیوں کہ اگر اس بحث کا مقصد جھوٹے دعویداروں کے درمیان صرف پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حقیقی جانشین کا پھچاننا ھو تو اس صورت میں ممکن ھے کہ اس طرح کی بحثوں کو غیر مفید و بے ثمر کھیں اور افراطیوں کی طرح جو ھر طرح کی علمی ومنطقی بحث کو اسلامی اتحاد کے خلاف سمجھتے ھیں ھم بھی اسے اتحاد کی راہ کا کانٹا سمجھیں ۔اس لئے کہ اب کیا فائدہ ھے کہ چودہ صدیوں کے بعد حق کو ناحق سے تشخیص دینے کی کوشش کی جائے اور غاصب کے خلاف ایک غائبانہ حکم صادر کیا جائے جس کی کوئی عملی ضمانت نھیں ھے۔

 لیکن یہ اعتراض اس وقت بیجا ھے جب ھم علمائے اھل سنت کی طرح اسلامی امامت و خلافت کو ایک طرح کا عرفی منصب جانیں جس کا فریضہ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنا،دفاعی طاقتوں کو مظبوط کرنا، عدل و انصاف کو رواج دنیا، حدود الٰھی کو قائم کرنا اور مظلوموں کو ان کا حق دلانا وغیرہ ھو ،کیونکہ اس صورت میں  اس قسم کی بحثوں کی نوعیت یہ ھو گی کہ ھم بیٹہ کر یہ بحث کریں کہ پندرھویں صدی عیسوی میں برطانیہ پر کس شخص کی حکومت تھی یا لوئی پنجم کے بعد تخت حکومت پر بیٹھنے کا حق کس کو تھا؟!

 لیکن شیعی نقطہ نظر سے جو امامت کو رسالت کا سلسلہ اورنبوت کے فیض معنوی کا تتمہ سمجھتے ھیں، اس طرح کی بحث لازمی وضروری ھے کیونکہ اس صورت میں امام کے فرائض صرف مذکورہ بالا امور میں ھی خلاصہ نھیں ھوتے ھیں۔بلکہ ان تمام امور کے علاوہ امام ،حضرت رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد احکام الٰھی کو بیان کرنے والا،قرآن کی مشکل آیات کا مفسر اور حرام و حلال کو بتانے والا بھی ھے ۔اس صور ت میں یہ سوال پیش آتا ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کو احکام الٰھی کی تعلیم دینے اور حرام و حلال بتانے والا کو ن ھے تا کہ پیش آنے والے نئے مسائل میں قرآن کی نص اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی کوئی معتبر حدیث موجود نہ ھونے کی صورت میں مسلمان اس کی طرف رجوع کریں اور اس کا قول ان موارد میں حجت قرار پائے۔ (1)

 اصولا اسلامی امت قرآن کے مشکلات اور اختلافی مسائل میں کہ جن کی تعداد محدود بھی نھیں ھے آخر کس صاحب منصب کی طرف رجوع کریں اور کس کے قول و عمل کو اپنی زندگی کے لئے حجت اور چراغ راہ قرار دیں؟  (2)

 یھی وہ منزل ھے جھاں ھم رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے علمی جانشین کے بارے میں بحث کی ضرورت محسوس کرتے ھیں اور یھاں یہ مسئلہ مکمل طور سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ھے کیونکہ اس نظریہ کی روشنی میں امام ،الٰھی معارف اور اصول و احکام میں امت کا رھنما ھوتا ھے اور جب تک یہ منصب قطعی دلائل کے ذریعہ پھچانا نہ جائے صحیح نتیجہ تک نھیں پھنچاجاسکتا ۔

 اگر مسلمان تمام اصو ل و فروع میںاتفاق و اتحاد رکھتے تو امامت کے سلسلہ میں بحث اس قدرضروری نہ ھوتی ،لیکن افسوس کہ ان کے یھاں کم ھی مسائل میں اتحاد پایاجاتا ھے ۔اب ھم جوپیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے چودہ سو سال بعد وجود میں آئے ھیں،ھمارا وظیفہ کیا ھے ؟آیا اس زمانہ میں پیدا ھونے والے مسائل ، مشکلاتِ قرآن اور اختلافی مسائل میں کسی نہ کسی صحابی کی رائے منجملہ (ابوحنیفہ یا شافعی) کی طرف رجوع کریں یا حضرت علی ں اوران کی گرانقدراولاد کی طرف رجوع کریں جن کے لئے شیعوںکا دعویٰ ھے کہ ان کی فضیلت ،عصمت،طھارت، وسیع و عمیق علم اور پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانب سے ان کے منصب امامت پر فائز کئے جانے کے سلسلہ میں عقلی و نقلی دلیلیں موجود ھیں؟

 اس سوال کا جواب اسی ”امام شناسی“ کے موضوع اور ولایت کی بحث میں ملے گا جس میں تحقیق ،انسان کو مذکورہ بالا مشکلات میں حیرت و سرگردانی سے نجات دے دیگی۔حتی اگر ھم مسئلہ خلافت کو بھی چھوڑ دیں اور پیغمبر اکر م  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کی سرپرستی و حاکمیت جو حقیقت میںایک معصوم کا حصہ ھے، سے چشم پوشی کرلیں تو صرف اسی مسئلہ کی تحقیق کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کا دینی و علمی مرجع و راھنما کون ھے،بھت سی جھات سے بڑی اھمیت رکھتا ھے اور مسلمانوںکی مکمل سعادت و خوشبختی بھی اس سے وابستہ ھے اس لئے ضروری ھے کہ جو باتیں ھم بعد میں وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے یھاں بھت اختصار کے ساتھ ذکر کردیں:

 اگر ھم اس وقت خلافت و حاکمیت کے مسئلہ سے صرف نظر کردیں تو پورے اطمینان کے ساتھ کھہ سکتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مکرر تصریحات و تاکیدات کی روشنی میں آپ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے پاس قرآن کے علاوہ صرف ایک دینی و علمی مرجع و ملجاھے اور وہ پیغمبر اکر م  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت علیھم السلام ھیں،کیونکہ آنحضرت نے مختلف موقعوں پر کتاب و عترت کے اٹوٹ رشتہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیاھے:

یا اٴیھا الناس انی یوشک ان ادعی فاجیب و انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہو عترتی کتاب اللہحبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اھل بیتی و ان اللطیف اخبرنی انھما لن یفترقا

اے لوگو!میں عنقریب خدا کی دعوت پر لبیک کھنے والا ھوں۔میں تمھارے درمیان دو گرانقدر اور سنگین امانتیں چھوڑے جارھاھوں ۔ ایک اللہ کی کتا ب اور دوسری میری عترت ھے ۔اللہ کی کتاب وحی الٰھی اور ریسمان نجات ھے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ھوئی ھے اور میری عترت اور اھل بیت(ۡع)۔ خدائے لطیف نے مجھے خبر دی ھے کہ یہ دونوں ھرگز جدا نھیں ھوںگے

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوںحجتوں کی باھم ملاذمت کو دینے آخری حج کے روز عرفہ یا غدیر کے دن منبر سے یا اپنی بیماری کے دوران بستر پر لیٹے ھوئے جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ھوا تھا صراحت سے بیان کیا اور آخر میں فرمایا ھے کھ:

ھذا علی مع القرآن و القرآن مع علی لایفترقان“  (3)

یہ علی(ۡع)ھمیشہ قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی(ۡع) کے ھمراہ ھے۔یہ دونوں ایکدوسرے سے جدا نھیں ھوں گے۔

 حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے ایک دو نھیں ھیں جن کو یھاں ذکر کردیا جائے ۔اس حدیث کے مدارک علامہ میر حامد حسین ھندی نے اپنی گرانقدر کتاب ”عبقات الانوار“ کی بارھویں جلد میں بیان کئے ھیں اور یہ کتا ب ھندوستان میں چھپ چکی ھے اور چند سال پھلے چہ جلدوں میں اصفھان میں بھی دوبارہ چھپی ھے،اور دار التقریب مصر سے بھی اس سلسلہ میں ایک کتاب چھپ چکی ھے جس کی بنیاد پر جامعہ الازھر کے سر براہ شیخ شلتوت نے چار مذاھب کی پیروی کے انحصار کو توڑا اور فتوا دیا کہ فقہ امامیہ کی پیروی بھی صحیح اور مجزی ھے۔شیخ شلتوت سے پوچھا گیا کہ بعض لوگوں کا اعتقاد ھے کہ ھر مسلمان پر لازم ھے کہ اپنی عبادات اور معاملات صحیح کرنے کے لئے چار مشھور مذاھب (حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی) کی تقلید کرے کہ شیعہ اثنا عشری اور زیدی مذھب ان میں سے نھیں ھیں،کیا جناب عالی بھی اس کلی نظریہ سے اتفاق رکھتے ھیں اور اثنا عشری مذھب کی تقلید و پیروی کو منع فرماتے ھیں ؟ تو انھوں نے جواب میں کھا:

 1۔ اسلام نے اپنے کسی پیروکار پر یہ واجب نھیں کیا ھے کہ (فرعی احکام میں) کسی معین مذھب کی پیروی کرے۔ھم کھتے ھیں کہ ھر مسلمان کو یہ حق ھے کہ ھر اس مذھب کی پیروی کرے جو صحیح مدارک کے مطابق ھم تک نقل ھواھے اور اس کے احکام کو مخصوص کتابوں میں تدوین کیا گیاھے ۔اسی طرح جن لوگوں نے کسی  ایک مذھب کی پیروی کی ھے   --- چاھے وہ جوبھی  مذھب ھو --- وہ دوسرے  مذھب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں اور اس میں کوئی حرج نھیں ھے۔

 2۔جعفری مذھب ،مشھور اثنا عشری امامیہ مذھب ھے اور ان مذھبوں میں سے ھے کہ اھل سنت کے تمام مذھبوں کی طرح اس کی بھی تقلید کی جاسکتی ھے ۔

 لھذا بھتر ھے کہ تمام مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ھوں اور کسی خاص مذھب سے تعصب کرنے سے پرھیز کریں کیونکہ اللہ کا دین اور اس کا قانون کسی خاص مذھب کے تابع اور کسی معین و مخصوص مذھب میں منحصر نھیںھے۔(اسلامی مذاھب کے پیشوا) سب مجتھدین اور خداوند عالم کے نزدیک مقبول ھیں اور جو لوگ اھل نظر اور صاحب اجتھادنھیں ھیں ان کے لئے جائز ھے کہ ان حضرات کی تقلید کریں اور جو کچہ انھوں نے فقہ میں مقرر کیا ھے اس پر عمل کریں۔اس سلسلہ میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نھیں ھے ۔  (4)


دوسری فصل

امامت کے سلسلہ میں دو نظر یئے

  خلافت ،علمائے اھل سنت کی نظر میں ،ایک ایسا اجتماعی و سماجی عھدہ و منصب ھے جس کے لئے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نھیںھے۔جب کہ شیعی نقطہ ٴ   نظر سے امامت ایک الٰھی منصب ھے جس کا تعین خدا کی طرف سے ضروری ھے اور وہ بھت سے حالات اور ذمہ داریوںمیں پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر و یکساں ھے۔

 لھٰذا امامت کی حقیقت کے سلسلے میں علماء کے یھاں دو نظر یئے پائے جاتے ھیں ایک نظریہ اھل سنت کے علماء کا ھے اور دوسرا شیعہ علماء کا نظریہ ھے:

الف۔ علمائے اھل سنت کا نظریہ 

 علمائے اھل سنت کی عقائد و کلام کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ھیں کہ امامت ان کی نظرمیں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کے دینی و دنیوی امور کی سر پرستی ھے اور خود ”امام “اور ان کی اصطلاح میں ”خلیفھ“ وہ شخص ھے جو پیغمبراکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ھے اور مسلمانوں کے دینی و دنیاوی امور سے مربوط ھر گرہ اسی کے ذریعہ کھلتی ھے۔

یہ علماء ،امامت کی یوں تعریف کرتے ھیں:

 الامامة رئاسة عامة فی امور الدین و الدنیا خلافة عن النبی(ص)“ (5)

 اھل سنت کے نظر یہ کے مطابق یہ عظیم دینی و اجتماعی عھدہ و منصب ایک سماجی بخشش ھے جو لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا ھوئی ھے اور خلیفہ انتخاب کے ذریعہ اس مرتبہ پر فائز ھوا ھے ۔  خلیفہ کی ذمہ داریوںکا دائرہ بھی مذکورہ تعریف میں پورے طور سے مشخص کر دیا گیا ھے۔

الف:۔دینی امور کی سرپرستی :اس سے مراد یہ ھے کہ لوگوں کے دینی مشکلات خلیفہ کے ھاتھوں حل ھوتے ھیں مثلا پوری دنیا میں جھاد کے ذریعہ اسلام کی توسیع ایک دینی امر ھے جس کا عھدہ دار امام کو ھونا چاھئے ۔

ب: ۔ دنیاوی امور کی سرپرستی :امام و خلیفہ کو چاھئے کہ طاقت کے ذریعہ عمومی امن و امان قائم کرے اور لوگوں کے اموال ان کی ناموس اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔

 اس تعریف اورخلیفہ کے سپرد کی گئی ذمہ داریوں پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ھے اور وہ یہ کہ امام یا خلیفہ ان کے نقطہ نظر سے ایک فرعی اور ایک سماجی حاکم ھے جو ملکی قوانین کا اجراء کرنے عمومی امن و امان قائم کرنے اور سماجی عدل وانصاف برقرار کرنے کے لئے منتخب ھوا ھے اور اس طرح کی حاکمیت کے لئے لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط نھیں ھے (نہ اسلامی احکام کے کلی و وسیع علم کی ضرورت ھے اور نہ سھو وخطا سے معصوم ھونے کی ضرورت ھے)

 دوسرے لفظوں میں کوئی بھی معاشرہ چاھے جتنا بھی گناہ اور فسادسے پاک ھو پھر بھی برائی پورے طور سے اس سے دور نھیں ھوتی اور کھیں نہ کھیں گوشہ و کنار میں ایسے شر یر افراد ضرور نظر آتے ھیںجو جوا وشراب کی طرف ھاتھ بڑھاتے نظر آتے ھیں یا لوگوں کے عمومی اموال و جائداد پر زبردستی ڈاکاڈالتے ھیں اور ان پر قابض ھو جاتے ھیں یا لوگوں کی عزت و ناموس پر حملے کی فکر میں رھتے ھیں۔

 اس لئے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد ایک ایسے شائستہ و لائق شخص کی ضرورت ھے جو گناہ گاروں اور فسادیوں کی الٰھی قانون کی روشنی میں تنبیہ کرکے اس طرح کی برائیوں اور آلودگیوں کو روکے ۔یہ اور اسی طرح کے امور وہ ھیں جو انسان کی دنیا سے مربوط ھیں، جن کی سرپرستی      پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امام کے حوالے کی گئی ھے۔

 مذکورہ امور کے مقابل کچہ دوسرے امور بھی ھیں جو دنیا میں اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ سے مربوط ھیں اور جن کا تعلق انسان کے دین سے ھے ۔ مثلاً امام کا ایک فریضہ یہ ھے کہ اسلحوں سے لیس ایک منظم اور مضبوط فوج تیار کرے جو نہ صرف اسلامی سرحدوں کو ھر طرح کے باھری حملوں سے محفوظ رکھے بلکہ اگر ممکن ھو تو جھاد کے ذریعہ توحید کا پیغام پوری دنیا میں پھیلاسکے۔

 اب یھاں آپ یہ کھیں گے کہ پھر لوگ اپنے حرام و حلال اور دینی و علمی مسائل کس سے دریافت کریں گے، اور اس عھدہ کا ذمہ دار کون ھوگا ؟ تو اس کے جواب میں علمائے اھل سنت کھیں گے کہ اصحاب پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جنھوں نے آنحضرت سے حرام و حلال کے احکام سیکھے ھیں اس طرح کے مسائل میں امت کے مرجع ھیں ۔

 اگر امام کی ذمہ داری ان ھی امور کی دیکہ بھال میں منحصر ھو ،جنھیں ھم نے اھل سنت کی زبانی نقل کیاھے ، تو ظاھر ھے کہ ایسے امام کے لئے صرف تھوڑی سی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی بھی اخلاقی فضیلت اور انسانی کمال کی ضرورت نھیں ھے ، چہ جائیکہ اس کے بارے میں وسیع علم اور خطا و گناہ سے بچانے والی عصمت کی شرط رکھی جائے۔

 افسوس کہ امام کا معنوی و روحانی مرتبہ و منصب اھل سنت کی نظر میں رفتھ رفتھ اس قدر گر گیا کہ قاضی باقلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتاھے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خصلتوں کی غلاظت اور اپنے کالے سیاسی کارناموں کے باوجود امت کی قیادت و رھبری کے منصب پر باقی رہ سکتا ھے !وہ کھتا ھے:

لا یخلع الامام بفسقہ و ظلمہ بغصب الاموال و تناول النفوس المحترمة و تضییع الحقوق و تعطیل الحدود“ ( 6)

یعنی امام اپنے فسق وفجور اور ظلم کے ذریعہ ،لوگوں کے اموال غصب کرکے ، محترم افراد کو قتل کرکے ،حقوق کو ضائع کرکے اور الٰھی حدود و قوانین کو معطل کرکے بھی اپنے منصب سے معزول نھیں ھوتا بلکہ یہ امت پر ھے کہ اس کی برائیوں کو درست کریں اور اس کی و ھدایت کریں!

 اور ھمیں مزید تعجب نہ ھوگا اگر ھم محقق تفتازانی جیسے عالم کو خلیفہ ٴ  پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بارہ میں ایسے خیالات کا اظھار کرتے ھوئے دیکھیں،وہ لکھتے ھیں:

 یہ ھرگز ضروری نھیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ھو یاامت کی سب سے اعلیٰ فرد شمار ھو۔ امام کی نافرمانی اور الٰھی احکام سے اس کی جھالت منصب خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ھرگز نھیں ھوسکتی․(7)

 خلیفہ ٴاسلام کے بارے میں اس طرح کے فیصلوں اور نظریوں کی بنیاد یہ ھے کہ ان لوگوں نے امام کو ایک عرفی اور انتخابی حاکم سمجہ لیا ھے ۔کیونکہ ایک عرفی حاکم کے لئے بنیادی شرط یہ ھے کہ وہ نظام کو چلانے اور معاشرہ میں آرام و سکون برقرار کرنے کی لازمی صلاحیت رکھتا ھو اور فسادیوں کو کنٹرول کرسکے ۔خود اس کا گناہ سے آلودہ ھونا یا اس کی غلطیاںاس منصب کی راہ میں رکاوٹ نھیں بنتیں جس کے لئے وہ منتخب ھواھے ۔

ب۔ شیعہ علماء کا نظریہ 

 مذکورہ بالا نظریہ کے مقابل ایک دوسرا نظریہ بھی ھے جس پر شیعہ علماء تکیہ کرتے ھیں ۔یہ نظریہ کھتاھے کہ :امامت ایک طرح کی الٰھی ولایت ھے جو خداوند عالم کی جانب سے بندہ کو دی جاتی ھے۔ واضح الفاظ میں یوں کھیں کہ : امامت ،نبوت کی طرح ایک انتصابی منصب ھے اور اس کا عھدہ دار خود خدا کی طرف سے ،معین و منصوب ھوتا ھے ۔

 اس بنیاد پر امام رسالت ھی کا سلسلہ ھے فرق یہ ھے کہ پیغمبر شریعت کی بنیاد رکھنے والا اورآسمانی پیام لانے والاھے اور امام شریعت کو بیان کرنے والا اور اس کا محافظ و نگھبان ھے ۔امام ، نزول وحی کے علاوہ تمام مراتب میں پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر اور قدم بقدم ھے اور وہ تمام شرائط جوپیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ضروری و لازم قرار دیے گئے ھیں (مثلاً اسلام کے معارف،اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ھر طرح کی خطاو گناہ سے اس کا محفوظ ھونا) بعینہ امام کے لئے بھی لازم و ضروری ھیں۔

 یہ نظریہ رکھنے والے معتقد ھیں کھ: صحیح ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)لوگوں کے لئے مکمل دستور حیات لائے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات اور دین حق کے تمام کلیات لوگوں کے حوالے کردئیے لیکن پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات کے بعد کوئی تو ایسا شخص ھونا چاھئے جو ان کلیات سے جزئی احکام کو استنباط کرے اورنکالے اور یہ کام علم (اور وہ بھی وسیع اور خدا داد علم )کے بغیر ممکن نھیں ھے۔

 صحیح ھے کہ اسلام کے تمام احکام کی تشریح پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ میں ھوئی ھے اور یہ احکام وحی الٰھی کے ذریعہ انھیں بتائے گئے ھیں۔لیکن مساعدحالات نہ ھونے یا روزانہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کے لئے احکام کا بیان امام کے ذمہ بھی کیا گیا ھے ،اور اس منصب کا سنبھالنا اللہ سے وابستہ اور مستند علم کے بغیر ممکن نھیں ھے۔اسی لئے شیعوں کا اعتقاد ھے کہ امام کو شریعت کے تمام امور سے واقف و آگاہ ھونا چاھئے۔  (۸)

 لیکن امام معصوم کیوںھو؟تو جواب یہ ھے کہ شیعہ امام کو امت کا معلم و مربی جانتے ھیں اور تربیت سب سے زیادہ عملی پھلو رکھتی ھے اور مربی کے عمل کے ذریعہ انجام پانی چاھئے۔اگر مربی خود قانون توڑنے والا اور حدود کو پھچاننے والا نہ ھوتو لوگوںپر مثبت اثر کیسے ڈال سکے گا؟لھٰذا یہ نظریہ کھتا ھے کہ امت کے لئے ایسے شخص کی شناخت وسیع و خداداد علم اور ھمہ جھت عصمت کے ذریعہ ھی ممکن ھے اور امام کو خدا کی جانب سے منصوب ھونا چاھئے۔

 یہ دو نظریے ھیں جو ان دونوں گروھوں کے علماء کے ذریعہ بیان ھوئے ھیں۔اب ھم دیکھیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ صحیح و استوا ر نیز قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی معتبر حدیث سے سازگار ھے ۔


تیسری فصل

شیعہ نظریہ کی صحت کی دلیلیں

 عقلی اور نقلی دلائل گواھی دیتے ھیں کہ امامت کا منصب نبوت کے مانند ایک الٰھی منصب ھے اور امام کو خدا کی جانب سے معین ھونا چاھئے اور جو شرائط پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لئے (وحی اور بانی ٴ شریعت ھونے کے علاوہ ) معتبر ھیں وہ امام میں ھونے چاھئے۔

اب ھم دلائل کا جائزہ لیتے ھیں:

پیش آنے والے نئے مسائل:

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی حیات طیبہ میں اسلام کے اصول و فروع کے تمام کلیات بیان کردئیے تھے اور اسلام اسی طریقہ سے خود پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل پایا۔لیکن کیا یہ اصول و کلیات امت کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کسی مرکزی علمی شخصیت کے بغیر کافی ھیں؟یہ طے شدہ بات ھے کہ کافی نھیں ھیں۔بلکہ آنحضرت کے بعد ایسے معصوم پیشواوٴں کی ضرورت ھے جو اپنے وسیع و بے پایان عظیم علم کے ذریعہ کلیات قرآن و اصول اورسنت پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی روشنی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں امت کی علمی ضرورت کی تکمیل کریں۔خصوصاً ایسے مسائل میں جو پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نھیں آئے تھے اور نہ حضرت کے زمانہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ھے۔

 دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی بعثت کے بعد رسالت کے تیرہ سال مکہ میں بت برستوں کے خلاف جدو جھد میںبسر کئے۔اور اس عرصہ میں حالات اور ماحول سازگار نہ ھونے کی وجہ سے آپ الٰھی شریعت کے احکام بیان کرتے ھیں کامیاب نہ ھوئے بلکہ آپ نے اپنی پوری توجہ اسلامی اصول و مبدا  اور معاد یعنی توحید و قیامت کے سلسلہ میں لوگوں کا  ذھن ھموار کرنے میں صرف کی،اور چونکہ حرام و حلال اور الٰھی فرائض و سنن بیان کرنے کے حالات نھیںتھے،لھٰذا آپ نے احکام کے اس حصہ کو بعد کے لئے اٹھار کھا۔

 جب آنحضرت مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے سامنے مسائل ومشکلات کا ایک لشکر تھا۔ مدینہ میں آپ کی زندگی دس سال سے زیادہ نہ رھی لیکن آپ نے اسی مدت میں ستائیس مرتبہ خود بت پرستوں نیز مدینہ اور خیبر کے یھودیوں کے خلاف جنگوں میں شرکت فرمائی ۔دوسری طرف منافقوں کی ساز شوں نیز اھل کتاب سے مناظرہ و مجادلہ میں بھی آپ کا بڑا قیمتی وقت صرف ھوا۔

 یہ حادثات و واقعات سبب بنے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کے دوران زیادہ تر اسلام کے فروع و احکام کے کلیات بیان کریں اور ان کلیات سے دوسرے احکام کے استنباط و استخراج کا کام دوسرے شخص کے حوالے کیا جائے۔

 اگر قرآن یہ فرماتا ھے کہ ”الیوم اکملت لکم دینکم“  (9)  تو اس سے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور اسلام کی اس وقت کی حالت و کیفیت کو دیکھتے ھوئے آیت کے نزول یعنی دس ھجری کے وقت مراد یہ ھے کہ توحید و قیامت سے متعلق معارف و عقائد اور فروع و احکام کے تمام اصول و کلیات آیت کے نزول کے وقت خو د پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل ھوگئے اور اس اعتبار سے دین کے ارکان میں کوئی نقص باقی نھیں رھا اور یھی کلیات صبح قیامت تکامت کوپیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے میں بنیاد و اساس کا کام کریں گے۔

 اب یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سا شخص ان اصول و کلیات کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی تمام ضرورتوں اور مسائل کا جواب دے سکتا ھے۔احکام سے متعلق قرآن میں ذکر شدہ آیات اور پیغمبر اکرم  کی محدود احادیث کے ذریعہ صبح قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کا حل اور احکام کا استنباط کرنا بھت ھی دشوار اور پیچیدہ کام ھے جو عام افراد کے بس کا نھیں ھے ۔کیونکہ قرآن مجید میں فقھی و شرعی احکام سے متعلق آیات کی تعداد تین سو سے زیادہ نھیں ھے۔اسی طرح سے حلال و حرام اور فرائض سے متعلق آنحضرت کی احادیث کی تعداد چارسو سے زیادہ نھیں ھے اور ایک عام انسان اپنے محدود علم کے ذریعہ ان محدود مدارک سے مسلمانوں کے روز افزوں مسائل و مشکلات کا حل نکال نھیں سکتا ۔بلکہ اس کے لئے ایک ایسے لائق اور شائستہ شخص کی ضرورت ھے جو اپنے الٰھی اور غیبی علم کے ذریعہ ان محدود دلائل سے الٰھی احکام نکال کر امت کے حوالے کرسکتا ھو۔

 ساتھ ھی ساتھ ایساشخص اپنے اس وسیع و لا محدو دعلم کی وجہ سے گناہ و خطا سے محفوظ بھی ھونا چاھئے تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرسکیں اور ایسے شخص کو خدا کے علاوہ کوئی اور نھیں جانتا لھٰذا وھی اسے معین بھی فرمائے گا۔

تکمیل دین کی دوسری نوعیت

 یھاں ایک دوسری بات بھی کھی جاسکتی ھے ،اور وہ یہ ھے کہ آیت اکمال جو اسلام کی تکمیل سے متعلق ھے اسلام کی بقا دوام کو بیان کررھی ھے ۔کیونکہ یہ آیت کریمہ اسلامی محدثین کی متعدد و متواتر روایات کے مطابق غدیر کے دن حضرت علی ںکی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد نازل ھوئی ھے ۔اب رھی فرائض و محرمات اور دوسرے احکام سے متعلق تکمیل دین کی بات تو یہ اس آیت کے مقصد سے باھر کی چیز ھے ۔اس حصہ میں اسلام کے مسلمات کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ کھا جانا چاھئے کہ اس میں کوئی کلام نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم   (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد وحی الٰھی کا سلسلہ منقطع ھو گیا اور اب کوئی امین وحی کسی اسلامی حکم کو لےکر نھیں آئے گا ،بلکہ انسان کو صبح قیامت تک جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب جبرئیل امین رسول خدا   (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس لا چکے ۔دوسری طرف ھم دیکھتے ھیںکہ دنیا کے تمام ھونے تک اسلامی معاشرہ کو پیش آنے والے مسائل کا حکم بیان کرنے کے لئے فقھی دلائل ھمارے پاس کافی نھیں ھیں بلکہ بھت سے احکام قرآن و حدیث میں بیان ھی نھیں کئے گئے ھیں۔

  ان دو باتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے ھم یہ کھنے پر مجبور ھیں کہ تمام الٰھی احکام خود پیغمبر اکرم کے زمانہ میں آچکے تھے اور آپ کو ان کی تعلیم دی جا چکی تھی ۔اب چوں کہ رسالت کی مدت بھت ھی مختصر تھی،ساتھ ھی ھر روز کے مسائل اور دشواریاں ،نتیجہ میں آپ ان تمام احکام کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نھیں ھوئے لھٰذا آپ نے وہ تمام تعلیمات الٰھی اور جو کچہ بھی آپ  نے وحی کے ذریعہ الٰھی احکام اور اسلامی اصول و فروع کی شکل میں حاصل کیا تھا سب کچہ اپنے اس وصی و جانشین کے حوالے کردیا اور اسے سکھا دیا ،جو خود آنحضرت کی طرح خطا و غلطی سے بری اور محفوظ تھا ۔تاکہ وہ آپ  کے بعد یہ تعلیمات اور احکام رفتھ رفتھ امت کو بتائے ۔ظاھر ھے کہ ایسے شخص کی شناخت جو اس قدر وسیع علم رکھتا ھو اور ھر طرح کی خطا و لغزش سے پاک ھو صرف پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے تعارف اور اللہ کی جانب سے نصب و تعیین کے ذریعہ ھی ممکن ھے ۔امت انتخابات کے ذریعہ ایسے کسی شخص کو نھیں پھچان سکتی۔

 یہ بھی عرض کردوں کہ ھم جو یہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو کچہ امت سے بیان نہ کرسکے وہ انھوں نے اپنے وصی و جانشین کو تعلیم دے دیا تو اس سے مراد وہ معمولی تعلیم نھیں ھے جو ایک شاگرد اپنے استاد سے چند پرسوں میں حاصل کرتا ھے کیوں کہ اگر ایسا ھوتا تو پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ایک شخص کو اس طرح کی تربیت دینے کے بجائے ایک گروہ یا بھت سے لوگوں کی تعلیم و تربیت فرماتے ۔جب کہ یہ تعلیم ایک غیر معمولی تعلیم تھی جس میں آنحضرت نے اپنے وصی کی روح و قلب پر تصرف فرما کر تھوڑی ھی دیر میں اسلام کے تمام حقائق و تعلیمات سے انھیں آگاہ کر دیا اور کوئی چیز پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین سے مخفی و پوشیدہ نھیں رہ گئی ۔

 آخر میں یہ یاد دھانی بھی کرادوں کہ جب اسلام دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو مسلمان نئے نئے حالات سے دو چار ھوئے جن سے پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے عھد میں سابقہ نھیں پڑا تھا اور آنحضرت نے ان نئے حالات اور حادثات کے سلسلہ میں کوئی بات نھیں بتائی تھی۔

 قرآن وحدیث کے اصول وکلیات سے اس طرح کے نئے حالات و مسائل کا حکم کشف کرنا اور نکالنا بھت ھی پیچیدہ اور اختلاف انگیز ھے ۔اس سلسلہ میں تکمیل شریعت کا تقاضا یہ ھے کہ خاندان وحی سے وابستہ کوئی فرد ان نئے مسائل کا حکم قرآن و حدیث سے استنباط کرے یا ان کا حکم اس وھبی علم کے ذریعہ بیان کرے جو آنحضرت  نے اس کے حوالے کیا ھے۔

 اھل سنت معاشرہ کی ایک مشکل یہ بھی ھے کہ احکام سے متعلق قرآن کریم کی محدود آیات اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی چار سو حدیثوں سے ھی اسلام کے تمام احکام کا استنباط و استخراج کرنا چاھتے ھیں لیکن جونکہ بھت سے مواقع پر ناتوانی کا احساس کرتے ھیں اور مذکورہ بالا دلیلوں کو کافی نھیں پاتے لھٰذا قیاس و استحسان جن کی کوئی محکم اساس و بنیاد نھیں ھے ،کا سھارا لے کر امت کی ضرورتوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ھیں ۔ وہ خود جانتے ھیں کہ ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس یا فقھی استحسان کے ذریعہ کسی مسئلہ کا حکم بیان کرنا کوئی صحیح بنیاد نھیں رکھتا ۔لیکن اگر امت میں کوئی ایسا شائستہ ولائق شخص ھو جو اپنے وسیع علم کے ساتھ اس قسم کے مسائل کا حکم ایک خاص طریقہ سےپیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے حاصل کرکے امت کے حوالے کرے اور گمان و شک پر عمل کی اس بے سرو سامانی کا خاتمہ کردے تو یہ روش شریعت کی تکمیل اور لوگوں کے حقیقت تک پھچنے کی راہ میں زیادہ موٴثر ثابت ھوگی ۔

 پھر بھی گنتی کے چند نادر موارد میں قیاس و استحسان کی ضرورت پیش آئی تو ھم یہ کھہ سکتے ھیں کہ ان جزئی موارد میں اسلام نے آسانی کے لئے ان پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ھے ۔ لیکن اگر شریعت کے پورے پیکر کو ظن و گمان پر استوار کریں اور ایسے قوانین دنیا کے حوالے کریں جن کی بنیاد حدس و گمان اور استحسان اور ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس ھو تو ایسی صورت میں ھم نے ایسے اسلامی احکام اور اسلام کا ایسا حقوقی و جزائی مکتب فکر اور اخلاقی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ھے جس کی اساس و بنیاد ھی ناھموار اور پھس پھسی ھے کیا ایسی صورت میں ھم یہ توقع رکہ سکتے ھیں کہ دنیا کے لوگ ایسے اسلام کے حقوقی و جزائی احکام پر عمل کریں گے جس کے بیشتر احکام وحی الھٰی سے دور کا بھی واسطہ نھیں رکھتے۔

خلفاء امت کی لا علمی

 تاریخ اسلامی امت کے حکام و خلفاء کی اسلامی اصول و فروع سے لا علمی کے بھت سے واقعات اپنے دامن میںلئے ھوئے ھے۔علمی محاسبات یہ تقاضا کرتے ھیں کہ امت کے درمیان ایک عالم وآگاہ امام و پیشوا کا وجود ضروری ھے جو اسلامی احکام کا محافظ اور ان کا خزانہ دار ھو اور مستقل الٰھی تعلیمات کولوگوں تک پھنچاتارھے۔ھم یھاں پر خلفا کی لاعلمی اور اسلام کے بنیادی احکام سے ان کی جھالت کے چند نمونے پیش کرتے ھیں:

 1۔حضرت عمر نے اصحاب کے مجمع میںایک شوھر دار حاملہ عورت کو جو زنا کی مرتکب ھوئی تھی سنگسار کرنے کا حکم دیا لیکن آخر کار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی راھنمائی کے ذریعہ یہ حکم تبدیل کیا گیا۔کیونکہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ماں نے گناہ کیا ھے تو وہ قصور وار ھے لیکن بچہ نے کیا قصور کیا ھے جو ابھی اس کے رحم میں ھے؟

 2۔خلیفہ نے ایک ایسے شادی شدہ شوھرکو جس کی بیوی دوسرے شھر میں رھتی تھی زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔جبکہ ایسے شخص کے لئے جس کی بیوی اس سے دور ھو اللہ کا حکم سو تازیانہ (کوڑے) کی سزاھے ،سنگسار نھیں ھے ۔چنانچہ یہ حکم بھی حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تبدیل کیا گیا۔

 3۔پانچ بدکار مردوں کو خلیفہ کے پاس لایا گیا اور گواھی دی گئی کہ یہ لوگ زنا کے مرتکب ھوئے ھیں ۔خلیفہ نے حکم دیا کے سب کو ایک طرف سے سو سو کوڑے لگائے جائیں۔امام علی علیہ السلام اس جگہ موجود تھے آپ نے فرمایا:ان میں سے ھر ایک کی سزا جدا جدا ھے۔ایک کافر ذمی ھے،اس نے اپنے شرائط پر عمل نھیں کیاھے۔وہ قتل کیاجائے گا۔دوسرا شادی شدہ مرد ھے جسے سنگسار کیا جائے گا ۔ تیسرا جوان آزاد ھے اور غیر شادی شدہ ھے، اسے سو کوڑے لگائے جائیںگے ۔ چوتھا غیر شادی شدہ غلام ھے ،اسے آزادکی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے، اور پانچواںشخص دیوانہ ھے، اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

 4۔حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ایک مسلمان نے شراب پی لی تھی لیکن اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایسے لوگوں میں زندگی بسر کرتا رھا ھے جو سب کے سب شراب پیتے تھے اور وہ نھیں جانتا تھا کہ اسلام میں شراب پینا حرام ھے ۔ خلیفہ اور ان کے وزیر حضرت عمر نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور اس مشکل کو حل کرنے میں ناکام رھے آخرکار مجبور ھوکر انھوںنے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ آپ(ۡع)نے فرمایا: اس شخص کو مھاجرین و انصار کے مجمع میں پھراوٴاگر ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ کھہ دیا کہ اس نے تحریم شراب کی آیت اسے سنائی ھے تو اس پر حجت تمام ھے اور اس پر حد جاری ھوگی ورنہ اسے معذور سمجہ کر چھوڑ دیا جائے گا۔

 5۔ایک شادی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اسے سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا:اس عورت سے مزید تحقیق کی جائے،شاید اس کے پاس اس جرم کا کوئی عذر موجود ھو۔عورت کو دوبارہ عدالت میںپیش کیا گیا۔اس نے اس جرم کے ارتکاب کی وجہ یوں بیان کی کہ میں اپنے شوھر کے اونٹوں کو چرا نے صحرا لے گئی تھی ۔ اس بیابان میں مجہ پر پیاس کا غلبہ ھوا میں نے وھاں موجود شخص سے بھت منت سماجت کی اور اس سے پانی مانگا لیکن وہ ھر بار یہ کھتا تھا کہ تم میرے آگے تسلیم ھوجاوٴتو میں تمھیں پانی دوںگا۔جب میں نے محسوس کیا کہ پیاس سے مرجاوٴںگی تو میں مجبوراًاس کی شیطانی ھوس کے آگے تسلیم ھوگئی۔

 اس وقت حضرت علی ںنے تکبیر بلند کی اور فرمایا:”اللہاکبر فمن الضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ “یعنی اگر کوئی اضطرار اور مجبوری کی حالت میں کوئی غلط کام کرے تو اس پر کوئی گناہ نھیں ھے۔

 اس طرح کے واقعات خلفاء کی تاریخ میں اس قدر زیادہ ھیں کہ ان پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ھے ۔ ان تمام حوادث کا حکم بیان کرنے کا ذمہ دار کون ھے ۔اس طرح کے حوادث

پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نھیںآئے تھے کہ امت ان کاحکم مرکز وحی یعنی خود آنحضرت سے حاصل کرلیتی۔ پھر آنحضرت کی رحلت کے بعد اس قسم کے احکام بیان کرنے والا اور الٰھی احکام کا محافظ و خزانہ دار کسے ھونا چاھئے ۔کیا یہ کھنا درست ھوگا کہ خداوند عالم نے ایسے حالات میں امت کو خود اس کے حال پر چھوڑ دیا ھے اور اپنے معنوی فیضان کو امت سے دورکرلیا ھے ۔چاھے امت کی نادانی و جھالت کی وجہ سے لوگوں کی ناموس خطرے میں پڑجائے اور احکام حق کی جگہ باطل احکاملے لیں۔(10)


چوتھی فصل

پیغمبر امامت کو الٰھی منصب سمجھتے ھیں

 اس میں کوئی کلام نھیں ھے کہ امت کی رھبری کا مسئلہ مسلمان معاشرہ کے لئے اساسی اور حیاتی حیثیت رکھتا ھے۔چنانچہ اسی مسئلہ پر اختلاف پیدا ھوا اور اس نے امت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان گھرا اختلاف پیدا کردیا ۔

 اب یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تمام چیزوں کے بارے میں واجب، مستحب ،حرام و مکروہ سے متعلق تو ساری باتیں بیان فرمائیں لیکن امت کی قیادت و رھبری اور حاکم کے خصوصیات سے متعلق کوئی بات کیوں بیان نھیں کی؟ کیا انسان یہ سوچ سکتا ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اتنے اھم موضوع پر کوئی توجہ نہ دی ھوگی بلکہ خاموشی اختیار کی ھوگی اور امت کو بیدار نہ کیا ھوگا؟!

 علمائے اھل سنت فرماتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے قیادت وامامت کے طریقہ کے سلسلہ میں نفیاًو اثباتاً کوئی بات نھیں بیان کی اور یہ واضح نھیں کیا کہ قیادت و رھبری کا مسئلہ انتخابی ھے یا تعیینی ھے۔

 سچ مچ کیا عقل باور کرتی ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس انتھائی اھم اور حیاتی مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ھوگی اور قضیہ کے ان دونوں پھلوں سے متعلق کوئی اشارہ نہ کیا ھوگا؟

 عقل کے فیصلہ سے آگے بڑہ کر تاریخ اسلام کا جائزہ بھی اس نظریہ کے خلاف گواھی دیتا ھے ۔اور یہ بات صاف ظاھر ھوتی ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مختلف موقعوں پر یہ یاد دھانی کی ھے کہ میرے بعد امت کی قیادت و رھبری کا مسئلہ خدا سے مربوط ھے اور وہ اس سلسلہ میں کوئی اختیار نھیں رکھتے ۔یھاں ھم تاریخ اسلام سے چند نمونے پیش کرتے ھیں:

 جب مشرکوں کے ایک قبیلہ کے سردار ”اخنس“ نے اس شرط پر پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حمایت کا اظھارکیا کہ اپنے کے بعد امت کی قیادت و سرپرستی آپ ھمارے حوالے کر جائیں گے تو پیغمبر اسلام  نے اسے جواب دیا کھ”الا مر الیٰ اللہیضعہ حیث یشاء “یعنی امت کی قیادت کا مسئلہ خدا سے مربوط ھے وہ جسے بھتر سمجھے اس امر کے لئے منتخب کرے گا ۔قبیلہ کا سردار یہ بات سن کر مایوس ھو گیا اور اس نے آنحضرت  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جواب میں کھلایا کہ یہ بات بالکل درست نھیں ھے کہ رنج و زحمت میں اٹھاؤں اور قیادت و رھبری کسی اور کو ملے! (11)

 تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بھی ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ”یمامھ“ کے حاکم کو خط لکہ کر اسے اسلام کی دعوت دی اس نے بھی ”اخنس “ کے مانند آنحضرت  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے آپ کی جانشینی کا تقاضا کیا تو آنحضرت  نے اسے انکار میں جواب دیتے ھوئے فرمایا:”لا ولاکرامة“ یعنی یہ کام عزت نفس اور روح کی بلندی سے بعید ھے۔ (12)

 امت کی قیادت و رھبری کا مسئلہ اتنا اھم ھے کہ اس کی اھمیت کو صرف ھم ھی نے محسوس نھیں کیا ھے بلکہ صدر اسلام میں بھی یہ مسئلہ بھت سے لوگوں کی نظر میں بڑی اھمیت رکھتا تھا ۔ مثلا جس وقت خلیفہ دوم ،ابو لوٴ لوٴ کی ضرب سے زخمی ھوئے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اپنے باپ کو مرتے ھوئے دیکھا تو اپنے باپ سے کھا جتنی جلدی ھو سکے اپنا ایک جانشین معین کیجئے اور امتمحمدی کو بے حاکم وبے سر پرست نہ چھوڑئے ۔

 بالکل یھی پیغام ام الموٴمنین عائشہ نے بھی خلیفہ دوم کو کھلایا اور ان سے درخواست کی کہ امت محمدی کے لئے ایک محافظ و نگھبان معین کر جائیں۔اب کیا یہ کھنا صحیح ھوگا کہ ان دو شخصیتوں نے امت کی قیادت و رھبری کے مسئلہ کی اھمیت کو تو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لیکن رسول اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان دو افراد کے بقدر بھی اس مسئلہ کی اھمیت کو سمجہ نھیں پائے تھے ؟!

  پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مدینہ کی دس سالہ زندگی کا ایک ھلکا سا جائزہ لینے کے ساتھ ھی یہ بات پوری طرح ثابت ھو جاتی ھے کہ آنحضرت  جب بھی کھیں جانے کے لئے مدینہ سے نکلتے تھے کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کر جاتے تھے ،تاکہ اس مختصر سی مدت میں بھی جب پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مدینہ میں تشریف نھیں رکھتے لوگ بے سر پرست اور بے پناہ نہ رھیں ۔ کیا یہ بھتر ھے کہ جو جانشین معین کرنے کی اھمیت سے آگاہ ھو اور یہ جانتا ھو کہ حتّٰی مختصر مدت کے لئے بھی جانشین معین کئے بغیر مدینہ کو ترک نھیں کرنا چاھئے ۔وہ دنیا کو ترک کرے اور اپنا کوئی جانشین معین نہ کرے یا کم از کم قیادت و رھبری کی شکل ونوعیت اور حاکمیت کے طریقہ ٴ  کار کے بارے میںکچہ نہ کھے ؟!

  پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب کسی علاقہ کو فتح بھی کرتے تھے تو اسے ترک کرنے سے پھلے وھاں ایک حاکم معین فرماتے تھے پھر ان حالات میں یہ کیسے کھا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا جانشین معین کرنے میں غفلت سے کام لیا ھوگا اور اس کے لئے میں کوئی فکر نہ کی ھوگی ،جو ان کے بعد امت کی قیادت و رھبری اپنے ھاتھ میں لے سکے اور اسلام کے نو پا درخت کی نگھبانی و سرپرستی کر سکے؟!

نبوت و امامت باھم ھیں

 متواتراحادیث اور اسلام کی قطعی تاریخ صاف گواھی دیتی ھیں کہ نبوت اور امامت دونوں کا اعلان ایک ھی دن ھوا اور جس روز پیغمبراکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خدا کی طرف سے اپنے خاندان والوں کے درمیان اپنی رسالت کا اعلان کرنے پر مامور ھوئے تھے اسی روز آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین بھی معین فرمادیاتھا۔

 اسلام کے گرانقدر مفسرین و محدثین لکھتے ھیں کہ جب آیت”و انذر عشیرتک الاقربین“ (شعراء /214) نازل ھوئی تو پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو خاندان والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا جنھیں آنحضرت نے مھمان بلایا تھا۔حضرت علی علیہ السلام نے بھی پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے کھانا تیار کیا اور بنی ھاشم کی پینتالیس شخصیتیں اس مجلس میں اکٹھا ھوئیں۔پھلے روز ابو لھب کی بیھودہ باتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کا پیغام سنانے میں کامیاب نھیں ھوئے۔دوسرے روز پھر یہ دعوت کی گئی اور مھمانوں کے کھانا کھالینے کے بعد پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی جگہ کھڑے ھوئے اور خداوند عالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا:

 میں تم لوگوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے خدا کا پیغامبر ھوں اور تم لوگوں کے لئے دنیا وآخرت کی بھلائی لایا ھوں۔خدانے مجھے حکم دیا ھے کہ میں تم لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو شخص اس کام میں میری ا مدد کرے گا وہ میرا وصی اور جانشین ھوگا۔

 اس وقت حضرت علی بن ابیطالب ںکے علاوہ کسی نے بھی اٹہ کر پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نصرت و مدد کا اعلان نھیں کیا۔پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو بیٹہ جانے کا حکم دیا اور دوبارہ اور تیسری بار بھی اپنا جملہ دھرایا اور ھر بار حضرت علی ںکے علاوہ کسی نے آپ کی حمایت اور اس راہ میں آپ کی نصرت و فدا کاری کا اظھار نھیں کیا۔اس وقت پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے خاندان والوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”ان ھذااٴخی و وصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا و اطیعوا“ یعنی علی(ۡع)میرا بھائی اور تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے،پس تم پر لازم ھے کہ اس کا فرمان سنو اور اس کی اطاعت کرو۔  (13)

 تاریخ کا یہ واقعہ اس قدر مسلّم ھے کہ ابن تیمیہ جس کا خاندان اھل بیت(ۡع)سے عناد سب پر ظاھر ھے ،کے علاوہ کسی نے بھی اس کی صحت سے انکار نھیں کیا ھے۔یہ حدیث حضرت علی ںکی امامت کی دلیل ھونے کے علاوہ اس بات کی سب سے اھم گواہ ھے کہ امامت کا مسئلہ امت کے اختیار میں نھیں ھے۔اس سے یہ بھی ظاھر ھوتا ھے کہ جانشین کا اعلان اس قدر اھم تھا کہ نبوت و امامت دونوں منصبوں کے مالک افراد کا اعلان ایک ھی دن پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے خاندان والوں کے سامنے کیا گیا ۔

 یہ واقعہ تین بعثت کو پیش آیا اور اس وقت تک پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعوت مخصوص افراد کے ذریعہ لوگوں تک پھنچائی جاتی تھی اور تقریباً 50پچاس افراد اس وقت تک مسلمان ھوئے تھے۔


پانچویں فصل

اسلامی قوانین اور کتاب خدامعصوم کی تفسیر سے بے نیاز نھیں

 اسلامی قوانین چاھے جتنے بھی روشن و واضح ھوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ھے بالکل یوں ھی جیسے آج ملکوں کے قوانین چاھے جس قدر روز مرہ کی زبان میں تنظیم کئے جائیں پھر بھی ان کی وضاحت کے لئے زبر دست قسم کے ماھروں کی ضرورت ھوتی ھے جو ان کے اھم پھلوؤں کو واضح کر سکیں ۔ اور اسلامی قوانین بھی حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زبان سے نقل ھوئے ھیں توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نھیں ھیں ۔اس کے گواہ مسلمانوں کے درمیان وہ سیکڑوں اختلافات ھیں جو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کے سلسلہ میں نظر آتے ھیں۔

 کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نھیںھے جوپیغمبر اکرم   کے علوم کا وارث ھو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ھو ؟اور کیا اختلافات دور کرنے فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نھیں تھا؟

 حضرت عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یھاں چہ ھی مھینہ میں بچہ پیدا ھو گیا ھے ۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو سنگسار کر دو ۔راستہ میں اس عورت کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے چیخ کر کھا :اے ابو الحسن میری فریاد کو پھنچئے ۔ میں ایک پاک دامن عورت ھوں اور میں نے اپنے شوھر کے علاوہ کسی سے قربت نھیں کی ھے ۔ حضرت علی علیہ السلام جب واقعہ سے آگاہ ھوئے تو انھیں یہ سمجھنے میں دیر نھیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی ھے ۔ آپ(ۡع) نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کھا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ھے ؟خلیفہ نے کھا کہ شوھر سے اس عورت کی قربت کو صرف چہ ماہ گزرے ھیں ۔ کیا کھیں چہ مھینے میں بچہ پیدا ھوتا ھے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نھیں پڑھا جس میں آیا ھے ” وحملہ و فصالہ ثلاثون شھرا“  (14)  یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ھے۔خلیفہ نے جواب دیا درست ھے ۔ پھر حضرت علی ںنے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نھیں معین کیا ھے کہ ارشاد ھوتا ھے: ” والولدات یرضعن اولادھن حولین کاملین“ (15) یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں ۔خلیفہ نے جواب دیا :سچ فرمایا: اس پر حضرت علی ںنے فرمایا : کہ اگر دودہ پلانے کے چوبیس مھینوں کو تیس مھینوں سے کم کرو توچہ ھی ماہ باقی رھتے ھیں ۔ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چہ ماہ ھے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ھے۔

  حضرت امیر الموٴمنین علی ںنے دو آیتوں کو باھم ضمیمہ کرکے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نھیں تھے اب کیا یہ کھا جا سکتا ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس الٰھی کتاب قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رھنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ھے اپنے بعد کوئی اقدام نھیں فرمایا ھے؟

 ممکن ھے یہ کھا جائے کہ ایسے نادر مسئلہ میں اختلاف سے جو انسانی زندگی میں بھت کم پیشآتا ھے پورے اسلامی معاشرہ کے اتحاد کو خطرہ لاحق نھیں ھو سکتا ،تو اس کے جواب میں یہ کھا جائے گا کہ اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نھیں ھے بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتا ھے اور ظاھر ھے کہ ھر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نھیں کی جا سکتیں اور یہ تصور نھیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجھتی پر کوئی ضرب نھیں پڑتی ھے۔

 قرآن مجید نے اپنے سورہ مائدہ آیت /6 میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ھے اور صدر اسلام میں مسلمان ھر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو وضو کرتے ھوئے دیکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قرآن مجید دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتھاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقھی احکام سے متعلق آیات پر رفتھ رفتھ بحث و تحقیق ھوئی لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ھوگیا اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ھے کیوں کہ شیعہ علماء اپنے ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ھیں اور پیروں کا مسح کرتے ھیں لیکن علمائے اھل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ھیں۔

 اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رھبر موجود ھو کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم اور اس کی پیروی کرتے ھوں تو ھر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نھیں آئے گا اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دھی میں یک رنگ و یک شکل ھوگا۔

قرآن کی تفسیر میں اختلاف

 اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ھاتھ کاٹنے کا قانون ھے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقھی کتابوں میں درج ھے ابھی ابھی دو تین صدی پھلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نھیں پھنچے تھے چور کی تنھا سزا اس کاھاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ھے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نھیں ھو سکے

 معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ھجرت پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ھاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ھوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نھیں کر پارھے تھے کہ چور کا ھاتھ کھاں سے کاٹنا چاھئے ۔ایک کھتا تھا :ھاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کھتا تھا : ھاتھ کھنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کھتا تھا : ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ آخر کار خلیفہ ٴ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: چور کے ھاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ھے تو آپ(ۡع)نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ھے:” و ان المساجد اللہ“ سجدہ کی جگھیں خدا کے لئے ھیں اور اس سے متعلق ھیں ۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ھتھیلی بھی ھے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ھے اور جو چیز خدا سے متعلق ھو اسے کاٹا نھیں جا سکتا۔

 اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ھو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاھی رکھتا ھو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاھر ھے کہ بھت سے اختلافات آسانی سے دور ھو جائیں گے اور امت ایک ھی سمت میں ایک ھی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ھوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔

 قرآن مجید ھر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ھے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نھیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماٴخذ میں باھم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باھم ٹکراو ٴرکھتی ھوں تو ھم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ھوگی۔

 لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ھیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ھے ھی نھیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ھو ؟ یہ دعویٰ وھی کر سکتا ھے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نھیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ھم آھنگ نھیں ھے ۔صحیح ھے کہ قرآن کی بھت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ھیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ھوتی ھیںاور وہ قرآنی آیات بھی جومبھم ھیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ھو جاتی ھیں ۔ (16)  اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ھیں جو یا نزول کے وقت سے ھی مبھم ھیں یا زمانہٴ  وحی سے دوری کی وجہ سے مبھم ھوگئی ھیں۔ اس قسم کی آیات چاھے ان کی تعداد کم ھی کیوں نہ ھو کیسے حل کی جا سکتی ھیں؟

 کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نھیں ھونی چاھئے جو اس قسم کی آیات کا ابھام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ھیں؟

 حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انھیں یہ حکم دیا تھا کہ :”لاتخا صمھم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون“ یعنی ان سے ھرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ھیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمھیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔

 یہ مسلم ھے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نھیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پھلووالی ھیں ،بظاھرروشن و واضح نھیں ھیں اور ان کا مفھوم و مفاد قطعی نھیں ھے۔

 اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امام معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سےپوری طرح آگاہ ھو ،قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ھو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناھگاہ ھو۔ اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ھو، لازم و ضروری ھے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیرغلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ھو جانے کا باعث ھوگی۔

ھشام ابن حکم

 ھشام ،امام جعفر صادقںکے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ھجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے انھوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلہ کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ھے کہ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا عمر وبن عبید سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث کی شروع اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو ۔ عمر و بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ھشام نے پوچھا:

 تمھارے آنکھ ھے ؟

 ھاں

 اس سے کیا کام لیتے ھو ؟

 اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتاھوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ھوں۔

 تمھارے کان ھے؟

 ھاں؟

 اس سے کیا کام لیتے ھو؟

 اس سے آواز سنتا ھوں ۔

 تمھارے ناک ھے ؟

 ھاں۔

 اس سے کیا کام لیتے ھو؟

 اس سے بو سونگھتا ھوں۔

 اس کے بعد ھشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ھاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ھشام نے پوچھا : تمھارے دل ھے ؟ ھاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ھے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچہ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ھیں قلب کے ذریعہ انھیں تشخیص دیتا ھوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ھے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ھوتا ھے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ھے اور اپنے شک کو دور کردیتا ھے۔

 اس وقت ھشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ھوئے کھا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناھگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ھے کیا یہ ممکن ھے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ھی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رھبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے !  (17)

 امام جعفر صادق(ع)،جانشین پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ھیں:  پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ھے جو الٰھی احکام کو ھر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔  (1۸)  ھشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق ںکی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور استفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ھر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ھے ؟ اس نے کھا: ھاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت یعنی ان کی احادیث ھیں ۔ ھشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ھیں ۔اس نے جواب دیا ھاں ۔تو ھشام نے کھا اگر کافی ھیں تو پھر ھم دونوں جو ایک مذھب رکھتے ھیں اور ایک ھی درخت کی شاخیں ھیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ھیں؟ اور ھم میں سے ھر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ھے جو دوسرے کے خلاف ھے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔  (19)


چھٹی فصل

خطرناک مثلث

اسلام کے تین دشمن

 جس وقت پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دنیا سے رحلت فرمائی تو اسلام کے اس نوجوان وجود کو باھر اور اندر سے تین طرح کے دشمن گھیر ے ھوئے تھے اور ھر لمحہ اس کو خطرہ تھا کہ یہ تینوں طاقتیں باھم ایک ھو کرایک مثلث بنائیں اور اسلام پر حملہ آور ھوں ۔

پھلا دشمن:

 داخلی دشمن یعنی مدینہ اور اس کے آس پاس کے منافقین تھے جنھوں نے کئی بار پیغمبر اکرم  کی جان لینے کی کوشش کی تھیں اور جنگ تبوک سے واپسی کے وقت ایک خاص منصوبہ کے تحت جو پورے طورسے تاریخ میںذکرھوھے،پیغمبرکرم کے اونٹ کو بھڑکاکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لینا چاھتے تھے۔

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان لوگوں کی سازش سے آگاہ ھو کر وہ تدبیر اپنائی کہ ان کا منصوبہ نا کام ھو گیا ۔ ساتھ ھی اسلام کی عمومی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے آنحضرت نے اپنی زندگی میں ھی ان کے نام بعض خاص افراد مثلا ”حذیفہ یمانی“ کو بتا دیئے تھے۔

 اسلام کے یہ دشمن جو بظاھر مسلمانوں کے لباس میں چھپے ھوئے تھے،آنحضرت کی موت کا انتظار کر رھے تھے اور در حقیقت اس آیت کو اپنے دل میں دھرا رھے تھے جسے قرآن پیغمبرکی حیات میں کافروں کی زبانی نقل کرتاھے:”انما نتربص بہ ریب المنون“  (20) یعنی ھم اس کی موت کا انتظار کر رھے ھیں کہ وہ فوت ھوجائے اور اس کی شھرت ختم ھوجائے۔

 یہ لوگ یہ سوچ رھے تھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ ھی اسلام کی رونق ختم ھوجائے گی،اس کا پھیلاوٴ رک جائے گا۔ کچہ لوگ یہ بھی سوچتے تھے کہ اسلام آنحضرت کے بعد کمزور پڑجائے گا اور وہ دوبارہ زمانہ ٴجاھلیت کے عقائد کی طرف پلٹ جائےں گے۔

 آنحضرت  کی رحلت کے بعد ”ابوسفیان “ نے چاھا کہ قریش اور بنی ھاشم کے درمیان اختلاف پیدا کردے اور جنگ بھڑکاکر اسلامی اتحاد کے اوپر کاری ضرب لگائے اس مقصد کے پیش نظر وہ بڑے ھمدردانہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ھوا اور ان سے بولا :اپنا ھاتھ بڑھایئے کہ میں آپ کی بیعت کروں تاکہ تمیم اور عدی قبیلوںکے لوگ آپ کی مخالفت کی جراٴت نہ کریں․امام نے پوری ھوشیاری کے ساتھ صف اسلام میںاختلاف پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی اس کی شازش کو سمجہ لیا لھٰذا فورا ًٹکا سا جواب دیا اور خود پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تجھیز و تکفین میں مشغول ھو گئے۔ (21)

 مسجد ضرار جو نویں ھجری میں بنائی گئی تھی اور پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے عمار یاسر کے ھاتھوں منھدم کی گئی تھی پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات کے آخر ی دنوں میں منافقوں کی خفیہ سازشوں کا ایک نمونہ تھی اور دشمن خدا (ابن عامر) سے ان کے تعلقات کو ظاھر کرتی تھی ابن عامر وہ شخص ھے جو فتحمکہ کے بعد روم بھاگ گیا اور وھاں سے اپنے گروہ کی ھدایت و رھنمائی کیا کرتا تھا۔ ھجرت کے نویں سال جب پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جنگ تبوک پر جانے کے لئے مدینہ سے نکلے تو داخلی سطح پر منافقوں کے ممکنہ فساد و سازش کے خطرہ سے بھت زیادہ پریشان تھے ۔اسی لئے آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور آپ  کے لئے وہ تاریخی جملہ فرمایا تھا” انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ “ (22) یعنی اے علی(ۡع)تم کو مجہ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کو موسیٰ(ۡع)سے تھی۔اس کے بعد آپ نے ان سے تاکید کی کہ داخلی سطح پر مدینہ میں سکون و آرام برقرار رکھنے اور فتنہ و فسد کی روک تھام کے لئے مدینہ میں ھی رھو ۔

 منافقوں اور ان کی خطرناک سازشوں سے متعلق بھت سی آیتیں قرآن کریم کے مختلف سوروں میں موجود ھیں اور سب کی سب اسلام سے ان کی دیرینہ عداوت کو بیان کرتی ھیں ۔ اور ابھی یہ فسادی مدینہ میں موجود ھی تھے کہ آنحضرت  نے دنیا سے رحلت فرمائی۔

 پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قبائل عرب میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو آپ  کے بعد کفر و شرک کی طرف پلٹ گئے اور ماموران زکوٰة کو باھر نکال کر انھوں نے اسلام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا ۔یہ لوگ اگرچہ منافق نھیں تھے ،لیکن ایمان کے اعتبار سے اتنے کمزور تھے جو پت جھڑ کے پتوں کی طرح ھر رخ کی ھوا پر ادھرادھر ھی اڑنے لگتے تھے ۔اگر انھیں کفر و شرک کا ماحول مناسب لگتا تو اسلام کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کر لیتے تھے۔

 ایسے خونخوار دشمنوں کے ھوتے ھوئے جو اسلام کی کمین میں بیٹھے تھے اور اسلام کے خلاف سازش و شورش میں مشغول تھے کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے عاقل ،سمجھدار اور دور اندیش پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان ناگوار حوادث کی روک تھام کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کریں اور امت واسلام کو دشمنوں کے درمیان اس طرح حیران و سر گردان چھوڑ جائیں کہ ھر گروہ یہ کھتا نظر آئےکہ ”منا امیر منا امیر“ یعنی یہ کھے کہ امیر ھم میں سے ھونا چاھئے اور وہ کھے کہ امیر ھم میں سے ھونا چاھئے ؟!

باقی دو دشمن

 اس مثلث کے بقیہ دو دشمن اس وقت کی ایران و روم کی دو بڑی طاقتیں تھیں ۔ روم کی فوج سے اسلام کی پھلی جنگ ھجرت کے آٹھویں سال فلسطین میں ھوئی جو لشکر اسلام کے بڑے بڑے سردار وں ”جعفر طیار“ ، ”زید بن حارث“اور ”عبداللہ بن رواحہ “ کے قتل اور لشکر اسلام کی انتھائی سخت شکست پر تمام ھوئی اور لشکر اسلام خالد بن ولید کی سرداری میں مدینہ واپس آیا ۔کفر کی فوج سے لشکر اسلام کی اتنی سخت شکست سے قیصر روم کے حوصلے بلند تھے اور ھر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ کھیں وہ لوگ مرکز اسلام پر حملہ نہ کریںاسی وجہ سے آنحضرت  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھجرت کے نویں سال ایک بڑا لشکر جس کی تعداد تیس ھزار تھی لیکر شام کی طرف روانہ ھوئے تاکہ فوجی مشق کے علاوہ دشمن کے ممکنہ حملہ کو روک سکیں اور راہ کے بعض قبائل سے تعاون یا غیر جانبداری کا عھد و پیمان لے سکیں ۔ اس سفر میں جس میں آنحضرت  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مسلسل رنج و زحمت اٹھانا پڑی آپ  رومیوں سے لڑے بغیر مدینہ واپس آگئے۔

 اس کامیابی نے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو مطمئن نھیں کیا آپ  لشکر اسلام کی شکست کے جبران کی کوشش میں لگے رھے ۔اس کے لئے آپ نے اپنی بیماری سے چند روز پھلے ”اسامہ بن زید “ کو لشکر اسلام کا علم دے کر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اسامہ کی سرداری میں شام کی طرف روانہ ھوں اور اس سے پھلے کہ دشمن ان پر حملہ کرے وہ جنگ کے لئے تیار رھیں۔

 یہ تمام واقعات اس بات کی حکایت کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)شمال یعنی روم کی طرف سے بھت نگراں تھے اور کھا کرتے تھے کہ ممکن ھے قیصر روم کی طرف سے اسلام کو سخت حملہ کا سامنا کرنا پڑے ۔

 تیسرا دشمن ایران کی ساسانی شھنشاھی تھی ۔یھاں تک کہ خسرو پرویز نے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا خط پھاڑ ڈالا تھا ،سفیر کو قتل کر دیا تھا اور یمن کے گونر کو لکھا تھا کہ (معاذ اللہ ) پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کرکے ان کا سر میرے پاس مدائن روانہ کرے ۔

 حجازاور یمن عرصہ سے حکومت ایران کا حصہ شمار ھوتے تھے لیکن اسلام کے آنے کے بعد حجاج نہ صرف آزاد ھو گیا تھا بلکہ خود مختار ھو گیا تھا اور یہ امکانات بھی پیدا ھو گئے تھے کہ یہ محروم اور کچلی ھوئی قوم اسلام کے سایہ میں پورے ایران پر مسلط ھو جائے۔

 اگر چہ خسرو پرویز پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات میں گزر گیا تھا لیکن ساسانیوں کی حکومت سے یمن اور حجازکا جدا ھو جانا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا دھکا تھا جو خسرو کے جانشینوں کے ذھن سے دور نھیں ھو ا تھا ۔ساتھ ھی یہ بڑھتی ھوئی نئی طاقت جو ایمان و اخلاص اور فداکاری سے آراستہ تھی ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔

 ایسے طاقتور دشمنوں کے ھوتے ھوئے کیا یہ درست تھا کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس دنیا سے چلے جائیں اور امت اسلام کے لئے اپنا کوئی فکری و سیاسی جانشین معین نہ کریں؟ ظاھر ھے کہ عقل ، ضمیر اور سماجی محاسبات ھرگز اس کی اجازت نھیں دیتے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس طرح کی بھول ھوئی ھوگی ۔ اور انھوں نے ان تمام حادثات و مسائل کو نادیدہ قرار دیتے ھوئے اسلام کے گرد کوئی دفاعی حصار نہ بنایا ھوگا اور اپنے بعد کے لئے ایک آگاہ ،مدیر و مدبر اور جھاندیدہ رھبر معین نہ کیا ھوگا۔


ساتویں فصل

روحی و معنوی کمال

معصوم امام کے سایہ میں

 اس دنیا میں ھر وجود ایک مقصد کے تحت خلق ھو اھے اور اس وجود کی غرض خلقت اور کمال اسی وقت حاصل ھوتا ھے جب اس تخلیق کا مقصد پورا ھوجائے ۔ قدرت بھی موجوداتکو کمال تک پھنچانے کے لئے ھر وہ وسیلہ اس کے حوالے کرتی ھے جو اسے کمال تک پھنچانے میںموٴثر ھوتا ھے ۔ اس راہ میں وہ صرف ضروری وسائل پر اکتفا نھیں کرتی بلکہ ھر جزئی اور غیرضروری وسائل بھی اسے عطا کرتی ھے ۔ خوش قسمتی سے اس بارہ میں عالم طبیعت سے متعلق علوم(NATURAL SCIENCES) نے ھمارے زمانہ میں اپنی وسعت کے پیش نظر ھمیں ھر طرح کی مثال اور وضاحت سے بے نیاز کر دیا ھے۔

 اگرھم صرف انسانی جسم میں سننے اور دیکھنے کے حیرت انگیز وسائل پر غور کریں تو ان میں سے ھر ایک یہ پکار پکار کر کھتا نظر آئے گا کہ نظام خلقت نے ھر وجود کو اس کے کمال ---جس کے لئے وہ خلق کیا گیا ھے ---تک پھنچانے پر خاص توجہ دے رکھی ھے۔

 اب ذرا ھم جسم کے دوسرے حصوں کے بارے میں غور کریں جن کی طرف سے زیادہ تر غفلت برتی گئی ھے اور اھمیت کے اعتبار سے اسے دوسروں پر ثانوی حیثیت دی گئی ھے ۔ !مثال کے طور پر ھم انسان کے تلوؤں کی ساخت اور ان کے خاص انداز کے گڑھوں پر غور کریں ۔ان کو خدا نے اس غرض سے بنایا ھے کہ انسان کو چلنے میں آسانی ھو۔ حتٰی جن کے پاؤں کے تلوے پیدائشی طور سے بالکل ھموار ھو ں وہ آپریشن کے ذریعہ تلوؤںمیں گڑھے بنواتے ھیں تاکہ آسانی سے چل سکیں۔

 ھماری انگلیاں لمبائی اور موٹائی کے لحاظ سے باھم فرق رکھتی ھیں کیوں کہ اگر وہ سب یکساں ھوتیں تو انسان ان سے جو بھت سے مختلف کام کرتا ھے نھیں کر پاتا ۔ انگلیوں کے اس اختلاف ھی کی وجہ سے انسان ظریف اور باریک صنعتوں اور بھترین ھنر اور فنون کا خالق بنا ھے ۔اس کی ھتھیلیوں اور انگلیوں میں ایسے خطوط اور لائینیں ھیں جو ھر چھوٹی اور بڑی چیز کے اٹھانے یاپکڑنے میں اس کی مدد کرتی ھیں ،اور چوں کہ ھر انسان کی انگلیوں کے خطوط ایک دوسرے سے جدا ھیں لھٰذا ھر فرد کی شناخت کے لئے اس کی انگلیوں کے نشانات لئے جاتے ھیں۔

 یہ اور ان جیسی دوسری مثالوں سے ھم یہ نتیجہ لیتے ھیں کہ دست قدرت نے ھر طرح کے وسیلہ کو خواہ اس کے لئے ضروری ھو یا غیر ضروری جو بھی اس کے کمال کے لئے موٴثر ھے اس کے اختیار میں دیا ھے اور اس راہ میں اس کے لئے انتھائی سخاوت مندی کا مظاھرہ کیا ھے۔

 اب یہ سوال پیش آتا ھے کہ جو خدا اس حد تک انسان کی سعادت و کمال کا خواھاں ھے ،آخر یہ کیسے ممکن ھے وہ اس کے معنوی و روحانی کمال سے چشم پوشی کر لے؟!

 یہ بیان جس طرح خدا وند عالم کی جانب سے انبیاء و مرسلین کی بعثت کی ضرورت کو ثابت کرتا ھے ،اسی طرح تمام معارف و احکام کے اسرار سے آگاہ امام معصوم کے تعین کو بھی لازمی قرار دیتا ھے۔ کیونکہ وحی الٰھی کی جانب سے ایک ایسے امام کا تعین اسلامی معاشرہ میں بھت سی کشمکشوں،جنگوں ، نفاق اور معاشرہ کی پسماندگی کے خاتمہ کا سبب بنتا ھے اور مسلمانوں کو ایک جماعت اور ایک گروہ کی مشکل میں تبدیل کردیتا ھے اور ھر طرح کے اختلاف و تفرقہ سے جو رھبر و خلیفہ کے انتخاب کا لا زمہ ھے نجات دے دیتاھے ۔ نتیجہ میں مسلمانوں کو ”سقیفہ بنی ساعدہ “ اور دوسری پر اسرار شوراوٴں کا سامنا نھیں کرنا پڑتا۔

 مسلمان پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد الٰھی نص (خدا کی طرف سے کی جانے والی تعیین ) سے چشم پوشی کرکے یا(جیسا کہ علمائے اھل سنت تصور کرتے ھیں) اللہ کی جانب سے نص نہ ھونے کی صورت میں۔ اس قدر اختلا ف وتفرقہ کا شکار ھوئے کہ اس کے منحوس آثار چودہ صدیوں کے بعد بھی دور نھیں ھوئے۔اور آج بھی استعماری طاقتیں جو مسلمانوں کو متحد دیکھنا نھیں چاھتیں مسلمانوں میں اختلاف برقرار رکھنے کے لئے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کرتی رھتی ھیں۔

 لیکن اگر مسلمان معاشرہ کا رھبر خدا کی جانب سے معین ھو اور مسلمان اپنے نا پختھ اور خام خیالات کو الٰھی نص و ھدایت پر مقدم نہ کریں تو مسلّم طور سے مسلمانوں کی حالت ھر زمانہ میں اس سے کھیں بھتر ھو۔اس کے علاوہ ھر طرح کے گناہ ،خطا اور اشتباہ سے محفوظ اور شریعت کے معارف و احکام کے اسرار سے آگاہ امام معصوم کا وجو د انسانی معاشرہ اور افراد کی روحانی ترقی اور کمال کی راہ میں ایک بڑا قدم ھے۔ پھر کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ایسے رھبر کا وجود کیا انگلیوں اور ھتھلیوں کی لائینوں ، پیروں کے تلووٴں کی گھرائیوں اور آنکھوں کے اوپر ابرو کے جتنا بھی اھمیت نھیںرکھتا ھے؟!

 اس صورت میں کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ خداوند عالم نے انسان کے جسمانی کمال کے لئے تو ھر طرح کے وسائل اس کے اختیار میں دے دئیے لیکن معنوی کمال کے وسائل سے،جو اس کی روح کی ترقی میں موثر کردار ادا کرتے ھیں ،اسے محروم کردیا ھے۔

 شیخ الرئیس ابن سینا نے کتاب ”شفا“ کی نبوت کی بحث میں مذکورہ بالا بیان سے انبیاء کی بعثت کی ضروت کو ثابت کیا ھے۔(23)  لیکن جیسا کہ ھم عرض کرچکے ھیں یہ بیان جس طرح انبیاء ومرسلین کی بعثت کی ضرورت کو ثابت کرتا ھے اسی طرح ایک معصوم اور شریعت کے اسرار سے آگاہ امام کی تعیین کو بھی پوری طرح ثابت کرتا ھے ، جو انسانوں کے روحی کمال کا ذریعہ ھے۔


آٹھویں فصل

کیا شیعوں کا نظریہٴ امامتآزادی کے خلاف ھے

 حریت و آزادی کا لفظ انسانوں کے کانوں میں پڑنے والا اب تک کا سب سے لطیف اور پرجوش لفظ ھے ۔ اس لفظ کا سننا ھی لوگوں کے اندر کیف و نشاط ،وجد و خوشی کی لھر پیدا کر دیتا ھے ۔ ایک صحیح فکر رکھنے والے انسان کی سب سے بڑی آرزو اور تمنا قید و بند سے نجات ،استعمار سے جھاد اور آزادی کی بلند بام چوٹی کو فتح کرنا ھے ۔ آزادی سے متعلق انسان کا لگاؤ اتنازیادہ ھے کہ اس نے اس راہ میں بھت سی قربانیاں دی ھیں اور حد سے زیادہ فداکاریاں کی ھیں۔

 یہ درست ھے کہ انسان نے یہ بخوبی محسوس کر  لیا ھے کہ اجتماعی زندگی ایک ایسے حاکم کے بغیر ممکن نھیں ھے جس کی رائے نافذ اور جس کا فیصلہ قطعی۔ لیکن ساتھ ھی وہ اس پر بھی ھرگز آمادہ نھیں ھے کہ اپنے مقدرات کسی ایسے شخص کے ھاتھ میں دے دے جس کے انتخاب کااختیار اس کے ھاتھ میں نہ ھو ۔یھی وجہ ھے کہ خاص طور سے عصر حاضر میں معاشرہ کے حاکم و ذمہ دار کے تعین کے طریقوں میں وہ صرف اسی روش کو صحیح جانتا ھے ،جس میں وہ اپنے رھبر کے انتخاب میں خود مختار اور آزادھو۔ جو حاکم ایک قوم کی سرنوشت کو اپنے ھاتھ میں لیتا ھے وہ خود عوام سے ابھرے اور عوام نے اسے منتخب کیا ھو ۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ ایک فرد کی حکومت کو اصول آزاد کے خلاف اور جبر کی حاکمیت سمجھتا ھے۔

 اب دیکھنا یہ ھے کہ امامت کے سلسلہ میں پائے جانے والے دو نظریوں میں کون سا نظریہ ڈیموکریسی کے اصول سے زیادہ سازگار ھے ،یہ کہ منصب امامت ایک انتخابی منصب ھے یعنی امام کو ”عام لوگوں کے ذریعہ یا اسلام کی اعلیٰ کمیٹی “ کے ھوتھوں چنا جانا چاھئے ۔یا یہ کہ رھبر اور جانشین پیغمبر  کا انتخاب عوام کے ھاتھ میں نہ ھو بلکہ وہ سو فیصد ی خدا کی جانب سے منصوب ھو یعنی امام کوخدا اور پیغمبر کی جانب سے معین ھونا چاھئے ؟

 بعض لوگوں کا خیال ھے کہ پھلا نظریہ آزادی کے اصول سے زیادہ ھم آھنگ ھے ۔ اگر ھم رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی کے منصب کو انتخابی سمجھیں تو اس صورت میں ھمیں یہ فخر کرنا چاھئے کہ لیبرلیزم اور آزادی مغرب میں پروان چڑھنے سے پھلے مشرق میں اور ایک ھزار چار سو سال پھلے قابل عمل تھی ۔ لیکن اس راہ سے ھم اس جگہ پھنچتے ھیں جھاں پھلے نظریہ پر عمل ھی نھیں ھوا ۔

 آج اھل سنت معاشرہ کے بعض اھل قلم شیعہ نظریہ یعنی امامت کے انتصابی ھونے کے موضوع پر تنقیدکرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی کا نصبی ھونا آج کے سماجی نظریات اور آزادی کی روح سے کسی بھی طرح سازگار نھیں ھے۔

 جواب :  شاید جو سب سے اھم اور دلچسپ منطق امام کے انتخابی ھونے کے سلسلہ میں پیش کی جا سکتی ھے اور جسے آج کے انسانی معاشرہ کے خیالات سے قریب قرار دیا جاسکتا ھے، وھی منطق ھے جسے ھم اوپر بیان کر چکے ھیں اور جو کم و بیش بعض علمائے اھل سنت کے قلم سے بھی ظاھر ھو چکی ھے ۔اس طرز استدلال کا تفصیلی جواب اس پر منحصر ھے کہ موجودہ بحث کے تین اساسی نکتے پوری طرح واضح ھوں:

    1۔ منصب امامت کانصبی یا منصوبی ھونا ”استبداد “ اور جبر سے بالکل جدا ھے۔

    2۔ مغرب کی جمھوری حکومتیں جو اقلیت پر اکثریت کی حکومت کی اساس پر استوار ھیں ۔ وہ ان غیر عادلانہ سیاسی نظاموں میں سے ھیں جنھیں آج کے انسانوں نے مجبور ا ًقبول کیا ھے۔

    3۔ اگر یہ فرض کر لیں کہ حاکم کے انتخاب کے لئے یھی روش صحیح ودرست ھے تو کیا صدر اسلام میں خلفاء کے انتخاب میں اس روش پر عمل ھو اھے؟

 ان تین نکتوں خاص طور سے دوسرے اور تیسرے نکتہ پر مفصل بحث کی ضرورت ھے کہ ھم اختصار کے ساتھ ان میں سے ھر ایک پر روشنی ڈالتے ھیں۔

الف) ۔امام کا منصوب کیا جانا استبداد نھیں

 استبدادی حکومتیںوہ انتھائی ظالمانہ طریقہٴ حکومت ھے جن سے انسان دو چار رھا ھے ۔ استبدادی نظام جبر و تشدد کا وہ جانکاہ نظام ھے جنھیں انسانی معاشرہ زمانہ ٴ قدیم سے جھیلتا آرھا ھے اور انسان کی معاشرتی زندگی میں اس کی مختلف شکلیں (گاؤں کا زمیندار ،تعلقدار،قبیلہ کا سردار ،یا مطلق العنان حاکم جو زمین کے وسیع علاقہ پر خود سرانہ حکومت کرتا ھے) نظر آتی رھی ھیں۔

 استبداد کی بڑی شکل یہ کہ ایک شخص داخلی سطح پر بغاوت کے ذریعہ حاکم کو معزول کرکے خود حاکم ھو جاتا ھے یا غلبہ اور دوسرے ملک کی فوجی طاقت کے ذریعہ حاکم ھو جاتا ھے اور ایسی حکومت کی بنیاد ڈالتا ھے جس میں صرف حاکم کی بات یا اس کا حکم ھی نافذ ھوتا ھے اور اپنے بعد کے حاکم کے لئے بھی اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ھوتا ھے۔

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جانشینی کے سلسلہ میں شیعوں کا نظریہ اس طرح کی حکومتوں سے میلوں کا فاصلہ رکھتا ھے ۔امام کے منصوبی ھونے سے شیعوں کا مقصد یہ ھے کہ امام خدا کی جانب سے---جو سب کا خالق ھونے کے اعتبار سے تمام انسانوں پر اولویت اور حاکمیت کا حق رکھتا ھے  -- ایک سب سے زیادہ شائستہ فرد کی حیثیت سے جو ھر طرح کی جسمی و روحی آلودگی ،برائی اور لغزش سے پاک ھے اور صرف اللہ کے حکم پر عمل کرتا ھے ،  پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعدمسلمانوں کا رھبر و پیشوا معین کیا جائے۔

 یہ کھنے کی ضرورت نھیں ھے کہ ایسا شخص اپنے منصب پر فائز ھونے کے بعد ھر طرح کی خودسری وخود رائی سے دور ھوگا اور صرف پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لائے ھوئے قوانین کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کو چلائے گا۔

 چونکہ خدا وند عالم خالق ھونے کی بنا پر فطری طور سے سب پر حکومت کا حق رکھتا ھے اورتمام  قوموں نے اس کے قوانین کو جان و دل سے تسلیم کیا ھے لھٰذا امام بھی ان ھی قوانین کی بنیاد پر حاکم ھوا ھے اور معصوم ھونے کی بنا پر ھر طرح کے عمدی سھوی ظلم و ستم سے محفوظ ھے ،ایسی حکومت معقول ترین حکومت ھے ۔اس طرح کی حکومت میں اقلیت و اکثریت (یعنی اکثریت کی ڈکٹیٹر شپ) کا تصور ھی نھیں ھے ۔اس میں صرف خدا کی رضااور مخلوق کی مصلحت ھی پیش نظر ھوتی ھے (کوئی شخصی مرضی نھیں تھوپی جاتی اور نہ ان افراد کی خوشی مدنظر ھوتی ھے جنھوں نے اسے حاکم بنایا ھے)۔

 یہ الٰھی و آسمانی حکومت جس میں کسی بھی طرح کی خود سری اور خود خواھی نھیں ھے بھلا اس کا ان ظالم و استبدادی حکومتوں سے کیا تقابل ۔یہ دونوں طرز حکومت ایک دوسرے سے اس قدر فاصلہ رکھتی ھیں کہ ان میں کسی بھی مشترک پھلو کاتصور کیا ھی نھیں جا سکتا ۔

(ب )۔ جمھوری حکومتوں کی کمزوریاں

 آج کی جمھوری حکومتوں کی کمزوریاں ایک دو نھیں ھیں کہ یھاں ان پر تفصیل سے بحث کی جائے لیکن ھم یھاں نمونہ کے طور پر ان ھیں سے دو اھم کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔

    1۔ اس طریقہٴ  حکومت میں جو حاکم کسی پارٹی یا عوام کی ھاتھوں منتخب ھوتا ھے وہ ان کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں رھتا ھے ۔ ان کی ھدایت و رھبری کی فکر میں نھیں رھتا ۔ کسی پارٹی یا گروہ کے سیاستداں کے لئے یہ اھم نھیں ھے کہ وہ حق کا ساتھ دے ،اھم یہ ھے عوام کی حمایت سے اسے ھاتھ نہ دھونا پڑے ۔ اس کام میںکبھی اس کے لئے لازم و ضروری ھو جاتا ھے کہ اپنے ذاتی اعتقادات اور حقائق سے بھی آنکھیں بند کر لے ۔یہ وہ حقیقت ھے جس کا اظھار و اقرار دنیا کے ان عظیم سیاستدانوں نے بھی کیا جو عرصہ تک پوری دنیا کی سیاست سے کھیلتے رھے ھیں امریکہ کا ایک گزشتھ صدر جان۔ایف کنیڈی اپنی کتاب میں لکھتا ھے:

 کبھی سینیٹر مجبور ھوتا ھے کہ کسی اھم موضوع کے سلسلہ میں عام جلسہ میں فوراً ھی اپنی رائے اور نظریہ کا اظھار کرے ۔ اس میں شک نھیں ھے کہ وہ بھی غور وفکر کرنے کے لئے وقت چاھتاھے تاکہ چند جملوں میں یا مختصر اصلاح کے ذریعہ شبھہ واختلاف کو بقدر امکان دور کرے ،لیکن نہ اسے غور کرنے کا موقع ملتا ھے نہ وہ خود کو لوگوں سے چھپا سکتا ھے اور نہ ھی اپنی رائے کے اظھار سے گریز کرسکتاھے ۔بالکل ایسا لگتاھے جیسے تمام موکل جنھوں نے اسے سنیٹر بناےاھے اس کی طرف آنکھیں گاڑے ھوئے اس بات کے منتظر ھیں کہ اس شخص کے رائے ،جس سے اس کی سیاست کا مستقبل وابستہ ھے ،کیا ھوگی۔

 ان تمام باتوں کے علاوہ اس بات کی فکر کہ سنیٹر کی مراعات اس سے سلب نہ کر لی جائےں اور کھیں وہ اس چرب و نرم مشغلہ سے محروم نہ کر دیا جائے بڑے سے بڑے سیاستداں کی نیندیں حرام کئے رکھتی ھے۔

 یھی وجہ ھے کہ بعض سنیٹر اس نکتھ کی طرف متوجہ ھوئے بغیر آسان اور کم خطرہ راہ اختیار کرتے ھیں ۔ یعنی جب بھی ان کے ضمیر اور ان کے فیصلوں کے درمیان ٹکراوٴ ھوتا ھے تو اپنی خود ساختھ منطق کے ذریعہ ضمیر کو مطمئن کر دیتے ھیں اور خود کو اپنے ووٹروں کے خیالات سے ھم آھنگ کر دیتے ھیں ایسے لوگوں کو ڈرپوک نھیں کھا جاسکتا بلکہ یہ کھنا چاھئے کہ یہ وہ لوگ ھیں جنھیں رفتھ رفتھ عام لوگوں کے رجحان و خیالات کی پیروی کرنے کی عادت پڑگئی ھے اور اپنی بھلائی اسی میں دیکھتے ھیں کہ بھتی گنگا میں ھاتھ دھوئیں ۔ لیکن ان میں کچہ ایسے لوگ بھی ھیں جو اپنے ضمیر کو کچل ڈالتے ھیں اور اپنے عمل کی توجیہ یوں کرتے ھیں ۔ لوگوں میں نفوذ کرنے کے لئے پوری سچائی کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز سے کانوں کو بند کر لیتے ھیں۔ ”فرینک کینٹ “ کے بقول سیاست کو خلاف اخلاق مشغلہ نھیں کھا جا سکتا بلکہ یہ کھنا چاھئے کہ ”سیاست اخلاقی مشغلہ نھیں ھے“ (24)

 سیاسی رائٹر” فرنیک کنیٹ“لکھتا ھے” کہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا مسئلہ بھت ھی اھم اور سنجیدہ ھے ۔اس کے حصول کی راہ میں بلاوجہ کے مسائل مثلا ”اخلاق“ یا ”حق و باطل“ پر کوئی توجہ نھیں کرنا چاھئے ۔

 اس سلسلہ میں ”مارک اشکال “ نے اپنے ایک ساتھی کو  1920ئع کے امریکہ کے انتخابات میں بھترین نصیحت کی اور وہ یہ کہ ”تم عوام کو فریب دینا نھیں چاھتے ۔یعنی تم نمائندہ بننے کی راہ میں اپنے ضمیر کو کچل نھیں رھے ھو ،بلکہ تم یہ بات سیکھو کہ ایک سیاسی آدمی کے لئے ایسے حالات پیش آتے ھیں جن میں وہ اپنے ضمیر سے چشم پوشی کرنے پر مجبور ھے۔“  (25)

 یہ آج کی دنیا کے جمھوری لوگوں کی زبان میں سب سے زیادہ منصفانہ باتیں ھیں ۔اب آپ اس اجمال سے تفصیل کا اندازہ کرلیں ۔یہ آزاد ملکوں کی حکومتوں کی حقیقت ھے ۔کیا عقل و منطقاس کی اجازت دیتی ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کوجسے بھت سی جھات میں ان ھی کی طرح ھونا چاھئے ،اس جمھوری طریقہ پر یعنی عوام کے خیالات کے ذریعہ یا ارباب حل وعقد کی بیعت یا مھاجرین و انصار کی بیعت کے ذریعہ منتخب ھونا چاھئے ؟ ھرگز نھیں۔ ۔ ۔ ۔  کیوں کہ اس طریقہ سے منتخب ھونے والا شخص فکری طور سے مستقل مزاج نھیں ھوتا بلکہ اپنے ووٹروں کے افکار و خیالات کا ترجمان ھوتا ھے ۔ایسے افراد بھت ھی کم اور نادر ھیں جو اپنی شھرت کو ٹھوکر مارنے پر آمادہ ھو جائیں اور عمومی خیالات و رجحان کے طوفان سے نہ ڈریں اور جو بات امت کی بھلائی کے لئے ھو اسی پر عمل کریں۔

 ممکن ھے یہ خیال کیا جائے کہ ووٹروں کی رضا مندی کا لحاظ اسی وقت لازم ھے جب حکومت کی مدت چند سال میں محدود ھو ،لیکن چونکہ امام کی رھبری دائمی ھے اور دائمی حاکم کی حیثیت رکھتی ھے جیسا کہ آج بھی بعض ملکوں میں عملی طور پر رائج ھے لھٰذا ضروری نھیں کہ خلافت کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد امام و خلیفہ عوام کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں ھو۔

تو جواب یہ ھے کہ یہ خیال بھت ھی خام اور بیجا ھے ،کیوں کہ:

 اول تو:خود اس دائمی حاکمیت میں بھی عام انتخاب کرنے والوں کے خیالات و رجحان کو نادیدہ نھیں کیا جاسکتا،کیونکہ بے توجھی کی صورت میں حاکم کو انقلاب ،شورش اور بغاوت کا سا منا کرنا پڑے گا۔

 دوسرے یہ کہ: کئی امید واروںکی موجودگی میں کسی ایک شخص کا ایک گروہ کی طرف سے منتخب کھاجانا کسی تعاون وھم خیالی کے وعدہ کے بغیر عملی نھیں ھے ۔ اور اس بات کو دیکھتے ھوئے اگر وہ اپنے کئے ھوئے وعدہ سے چشم پوشی کرلے تو یہ خود ایک بھت بڑی خرابی ھے کیونکہ اس صورت میں معاشرہ کے مربی نے عملا وعدہ خلافی کی ھے اور دوسروں کو بھی اس راہ پر چلنا سکھا یا ھے۔

 عمر نے اپنی موت کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے جو چہ نفری کمیٹی بنائی تھی اس میں” عبد الرحمن بن عوف“ نے جس کا جھکاوٴکمیٹی کے دوگروھوں کے درمیان فیصلہ کن تھا،

حضرت علی ں سے کھا: میں آپ کی بیعت کرتا ھوں لیکن اسی شرط پر کہ آپ اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت اور شیخین کی سیرت پر عمل کریں گے،حضرت علی ںنے فرمایا: میں صرف خدا کی کتاب ،رسول کی سنت اور اپنی عقل و فکر کی بنیاد پر عمل کروںگا۔اس موقع پر عبد الرحمان بن عوف نے عثمان سے بھی اسی جملہ کا اقرار لیا اور عثمان نے عبدالرحمان کی شرط پر اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور خلیفہ منتخب ھوگئے(اور بعد میںسب نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط کردیا۔)

 مختصر یہ کہ اکثر لوگوں کا انتخاب کرنے والے ایسی شرطیں رکھتے ھیں جس کا ماننا ایک با ایمان اور با ضمیر شخص کے لئے بڑا ھی سخت اور ناگوار ھوتا ھے۔ظاھر ھے کہ حق شناس ان افرادشرطوں کو تسلیم نھیں کرتے لھٰذا منتخب بھی نھیں ھوتے اور ان کی جگہ غیر صالح افراد ھر طرح کی شرط قبول کرلیتے ھیں اورمنتخب ھوجاتے ھیں۔

 امریکہ کے صدر کے انتخاب میں آزاد سے آزاد شخص بھی عالمی صھیونزم کی مدد کو اپنے دستور العمل میں اولویت دینے پر مجبور ھوتا ھے اور ووٹ بنانے والی کمیٹیوں سے یہ وعدہ کرتا ھے کہ اگر منتخب ھوگیا تو اسرائیل کی مدد کرے گا۔چاھے وہ یہ جانتا ھو کہ اس کا یہ عمل عدالت اور انسانیت کے اصول کے سراسر خلاف ھے۔

 2۔مغرب کی جمھوری حکومتوں پر دوسرا اعتراض یہ ھے کہ اس جمھوریت کی بازگشت ایک طرح کے ظلم و ڈکٹیٹر شپ ” تعداد کی ڈکٹیٹر شپ“اور ”اکثریت کا اقلیت پر استبداد و ظلم ) ھے۔ کیونکہ اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ انتخابات بالکل صحیح اور کسی چالبازی کے بغیر انجام پائے ھیں اس کے باوجود اکثریت جو صرف ایک ووٹ سے جیتی ھے اس اقلیت پر حکومت کرے گی جو صرف ایک ووٹ سے نھیں جیتی جب کہ ممکن ھے کہ بھت سے موارد میں حق اقلیت کے ساتھ ھو اس کا مطلب یہ ھے صرف ایک ووٹ کے ذریعہ ایک ملک اور قوم کے منافع و مصلحتیں ضائع ھوجائیں! اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ 49پر51 افراد کی حکومت ایک طرح کی ظالمانہ حکومت ھے جسے انسان نے مجبوری کی بناپر اور اس سے بھتر طریقہ نہ ھونے کی صورت میں یا کسی اور راہ کی طرف توجہ دئیے بغیر، جس کی طرف اسلام نے رھنمائی کی ھے، اپنا پاھے۔

 لیکن خدا کی جانب سے پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے انتخاب میں جیسا کہ اوپر بیان ھوچکا ھے ان تمام نا انصافیوں کا سد باب کردیا گیاھے۔ امام کو وہ منتخب کرتا ھے جس کے حق حاکمیت پر سب راسخ ایمان رکھتے ھیںاور امام ان قوانین کے مطابق حکومت کرتا ھے جسے تمام لوگ قبول کرتے۔ یھاں پر اقلیت و اکثریت کا مسئلہ ھی پیش نھیں آتا ۔

 ان سب باتوں کے علاوہ جمھوری نظاموں میں اکثر یت کی خواھشات اور آرزوئیں قانون کی شکل اختیار کر لیتی ھیں اور ان کے ارادے قطعی فیصلوں اور محکم حکم کی صورت میں تمام لوگوں پر لاددئیے جاتے ھیں ،لیکن اسلامی قوانین کی روح ،جس میں ھمیشہ انسانی معاشرہ کی مصلحتوں کو ھی شریعت کا رنگ ملتا ھے ،ایسے پست نظر یہ کی تائید نھیں کر سکتی۔

 قرآن مجید جس نے ھمیشہ لوگوں کے افکار و خیالات کو خطا و غلطی سے آلودہ بتایا ھے اور اکثریت کے بارہ میں فرماتا ھے (واکثرھم لایعقلون ) اور (واکثرھم لایشعرون)پھر وہ دین کے سب سے اھم موضوع یعنی امت کی امامت یا قیادت کے انتخاب کے سلسلہ میں معاشرہ کی اکثریت کے رجحان کو کیسے موٴثرو نافذ سمجہ سکتا ھے ؟ کیا قرآن کریم نے یہ نھیں فرمایا: (وعسٰی ان تکرھو ا شیئا وھو خیرلکم و عسٰی ان تحبوا شیئا و ھو شرّلکم)  (26) یعنی بعض اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ھو جب کہ وہ تمھارے لئے مفید و نفع بخش ھوتی ھے اور بعض اوقات کسی چیز کو تم پسند کرتے ھو جب کہ وہ تمھارے لئے مضر و نقصان دہ ھے ۔ یہ وہ قانون ھے جو معاشرہ کی اکثریت کی نفسانی خواھشات کو صراحت کے ساتھ خطا شمار کرتا اور فرماتا ھے اکثر لوگوں کے خواھشاتایسی چیز کاتقاضا کرتے ھیں جو خطرناک اور نقصان دہ ھوتی ھے اور کبھی ایسی چیز سے نفرت کا اظھارکرتے ھیں جو سو فی صد ی ان کے لئے مفید ھوتی ھے ۔اس روشنی میں امام  کے انتخاب یا تعیین کو جو پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد سب سے اعلیٰ دینی منصب ھے ،ناقابل اعتبار اکثریت کے حوالے نھیں کیا جاسکتا ۔

(ج)۔ کیا صدر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب اکثریت نے کیا؟

 بعض توجیھیں واقعہ کے گزر جانے کے بعد اسباب تراشی کرتی ھیںاکثر ایسا ھوتا ھے کہ ایک معاشرتی واقعہ بعض حالات و شرائط کے تحت وجود میں آتا ھے ۔ بعد میں آنے والے اس واقعہ کو وجود میں لانے والوں کے فیصلوں کی بنیاد اپنے حدس و گمان پر رکھتے ھیں اور اس واقعہ کے لئے بے جھت خوش بینی کی بنا پر ایسے اخلاقی ،فکری اور سماجی اسباب و علل تراشتے ھیں کہ واقعہ کو وجود میں لانے والوں کی روح کوان کی بھی خبر نھیں ھوتی۔

 اتفاق سے خلفا کی حکومت کے لئے جمھوری نوعیت اور عوام پر عوام کی حکومت یا اقلیت پراکثریت کی حکومت کی توجیہ اس کا روشن و واضح مصداق ھے در اصل صدر اسلام کے خلفاء کے انتخاب میں جو چیز وجود میں نھیں آئی وہ عوام کے ذریعہ خلفاء کا انتخاب تھا ۔کیوں کہ نہ اھل سنت کے محقق علماء خلیفہ کے انتخاب میں اس اصل کے معتقد ھیں اورنہ خلفاء کا انتخاب اس طریقہ سے انجام پایا ۔اس کے با وجود عصر حاضر کے بعض اھل قلم ان خلفاء کی خلافت کو صحیح و درست بتانے کے لئے ھمارے زمانہ کی چیز یعنی جمھوریت اور مغربی لیبرلیزم کا سھارالیتے ھیں اور عوام پر عوام کی حکومت یا اقلیت پر اکثریت کی حکومت کی مثال پیش کرتے ھیں جب کہ اس طرح کی توجیھات واقعہ کے وجود میں آنے کے بعد عالم تخیل میں اس کی اسباب تراشی ھے اور خلافت کا ھر گز اس سے کوئی ربط نھیںرھا ھے۔

اب ھم مزید اطمینان کے لئے اس سلسلہ میں بعض قدیم علماء کے اقوال نقل کرتے ھیں:قاضی ایجی اپنی مشھور کتاب شرح مواقف میں لکھتے ھیں : امام کے انتخاب کے لئے کسی فرد کے خلافت پر اجماع یا امت کے اتفاق کی ضرورت نھیں ھے بلکہ اصحاب پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایک یا دو شخص کی بیعت یا پیمان سے ھی اس شخص کی خلافت قانونی صورت اختیار کرلیتی ھے اور اس کی دلیل یہ ھے کہ اصحاب پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دینی امور میں کمال ایمان کی وجہ سے صرف حضرت ابوبکر کی رائے کو کافی سمجھا جنھوں نے عمر کو اپنے بعد خلافت کے لئے معین کیا اور نہ صرف تمام مسلمانوں کے اتفاق رائے کو شرط نھیں جانا بلکہ خود مدینہ میں رھنے والے صحابہ کے اتفاق رائے کو بھی ضرورینھیں سمجھا  ۔ (27)

 احکام السلطانیہ“کے موٴلف لکھتے ھیں :بعض لوگ یہ تصور کرتے ھیں خلیفہ کا انتخاب اسلامی شھروں میں رھنے والی بزرگ اسلامی شخصیتوں کی تصویب سے انجام پاتاھے،جبکہ ابو بکر سقیفہ بنی ساعدہ میں صرف پانچ افراد کی رائے سے خلیفہ ھوئے ،عمر ،ابو عبیدہ ،اسید بن حضیر ،بشر بن سعد اور سالم مولیٰ ابو حذیفھ۔  (2۸)

 اسلامی خلافت کی تاریخ گواہ ھے کہ عمرنے کی خلافت صرف حضرت ابوبکر کی تعیین کے ذریعہ قانونی ھو گئی اور حضرت عمر نے بھی خلافت کے لئے کسی شخص کے انتخاب کا اختیار چہ نفری کمیٹی کے حوالے کر دیا اور بقیہ تمام مسلمانوں کو انتخاب ھونے اور انتخاب کرنے سے محروم کر دیا ۔

 قاضی باقلانی لکھتے ھیں : ابوبکر کا انتخاب حضرت عمر کی کوشش اور دوسرے چار افراد کے ذریعہ انجام پایا؟۔  (29)حضرت امیر الموٴمنین علی ںکی شھادت کے بعد خلافت بنی امیہ اور بنی عباس کے خاندانوں میں موروثی سلطنت کی شکل اختیار کر گئی ،جس کی کھانی بھت ھی دردناک ھے اور یھاں اس کے بیان کی گنجائش بھی نھیں ھے۔


نویں فصل

اسلام میں مشورہ

 اس میں کسی بحث کی ضرورت نھیں کہ مشورہ کے ذریعہ بھت سی انفرادی و اجتماعی مشکلات حل ھوتی ھیں۔دو فکروں کا ٹکراو گویا بجلی کے دو مثبت ومنفی تاروں کے ٹکرانے کے مانند ھے جس سے روشنی پیدا ھوتی ھے اور انسان کی زندگی کی راہ روشن ھوجاتی ھے۔

 مشورہ مشکلات کے حل کے لئے اس قدر اھم ھے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوحکم دیتاھے کہ زندگی کے مختلف امور میں مشورہ کرو۔چنانچہ فرماتاھے:

وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہان اللہےحب المتوکلین“  (30)

یعنی اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کرلو توخدا پر بھروسہ کرو۔بلا شبھہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے ۔

 خداوند عالم ایک دوسری آیت میں صاحبان ایمان کی یوں تعریف کرتاھے:

والذین استجابوالربھم واقامواالصلوٰةوامرھم شوریٰ بینھم ومما رزقناھم ینفقون“  (31)

 یعنی جو لوگ اپنے خدا کی آواز پر لبیک کھتے ھیںاورنمازقائم کرتے ھیںاوران کے فیصلوںاور کاموںکی بنیادان کاآپسی مشورہ ھے اورجوکچہ خداانھیںرزق دیتاھے اس میں سے انفاق کرتے ھیں۔

 لھٰذا ھم دیکھتے ھیں کہ عقل اور نقل دونوں نے مشورہ کی اھمیت کو واضح کیا ھے اور کیا اچھا ھو کہ مسلمان اسلام کے اس عظیم دستور کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت وخوشبختی اور سماج کی ترقی پوشیدہ ھے۔

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نہ صرف لوگوں کو یہ روش اپنانے کاحکم دیتے تھے بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں خود بھی خدا کے اس فرمان پر عمل کیاھے ۔جنگ میں جبکہ ابھی دشمن کاسامنا نھیں ھواتھا ،بدر کے صحرا میں آگے بڑھنے اور دشمن سے مقابلہ کے سلسلہ میں آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان سے فرمایا :”اشیروا الیّ ایھا الناس“قریش سے جنگ کے سلسلہ میں تم لوگ اپنا نظریہ بیان کروکہ ھم لوگ آگے بڑھکر دشمن سے جنگ کریں یا یھیں سے واپس ھوجائےں ؟مھاجرین وانصار کی اھم شخصیتوں نے دو الگ الگ اور متضاد مشورے دیئے لیکن آخر کار پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انصار کا مشورہ قبول کیا۔  (32)

 اُحد کی جنگ میں بڑے بوڑھے لوگ قلعہ بندی اور مدینہ میں ھی ٹھھرنے کے طرفدار تھے تاکہ برجوں اور مکانوں کی چھتوں سے دشمن پر تیر اندازی اور پھتروں کی بارش کرکے شھر کا دفاع کریں،جبکہ جوان اس بات کے طرفدار تھے کہ شھر سے باھر نکل کر جنگ کریں اور بوڑھوں کے نظریہ کو زنانہ روش سے تعبیر کرتے تھے ۔یھاں پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسرے نظریہ کو اپنایا ۔ (33) جنگ خندق میں پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک فوجی کمیٹی تشکیل دی اور مدینہ کے حساس علاقوں کے گرد خندق کھودنے کا جناب سلمان کا مشورہ قبول کیا اور اس پر عمل کیا ۔ (34)

 طائف کی جنگ میں لشکر کے بعض سرداروں کے مشورہ پرفوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔  (35)

 لیکن اس بات پر توجہ ھونی چاھئے کہ کیا صرف مشور ہ اور تبادلہٴ  خیالات ھی مشکلات کاحل ھے یا یہ کہ پھلے عقل وفکر کے اعتبار سے بانفوذ مرکزی شخصیت جلسہ تشکیل دے اور تمام آراء کے در میان سے ایک ایسی رائے منتخب کرے اور اس پر عمل کرے جو اس کی نظر میںبھی حقیقت سےقریب ھو۔

 معمولاً مشوروں کے جلسوں میں مختلف افکارونظریات پیش کئے جاتے ھیں اور ھرشخص اپنے نظریہ کا دفاع کرتے ھوئے دوسروں کی آرا ء کو ناقص بتاتا ھے ۔ایسے جلسہ میں ایک مسلم الثبوت رئیس و مرکزی شخص کا وجود ضروری ھے ،جو تمام لوگوں کی رائے سنے اور ان میں سے ایک قطعی رائے منتخب کرے۔ورنہ دوسری صورت میں مشورہ کا جلسہ کسی نتیجہ کے بغیر ھی ختم ھو جائے گا۔

 اتفاق سے وہ پھلی ھی آیت جو پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کا حکم دیتی ھے مشورہ کے بعد سے یوں خطاب کرتی ھے :”فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ پس جب تم فیصلہ کر لو تو خداپر بھروسہ کرو ۔اس خطاب سے مراد یہ ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے یہ بات کھی جا رھی ھے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرنے والی مرکز ی شخصیت خود پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذات ھے لھٰذاپیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کو ھی فیصلہ کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا چاھئے۔

 جمعیت کا پیشوا و رھبر ،جس کے حکم سے مشورہ کاجلسہ تشکیل پایا ھے ممکن ھے کہ لوگوں کے درمیان کسی تیسرے نظریہ کو اپنائے جو اس کی نظر میں ”اصلح “ یعنی زیادہ بھتر ھو۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے اصحاب کے عمومی خیالات کی مخالفت کی اور مسلمانوں اور قریش کے بت پرستوں کے درمیان صلح کی قرار داد باندھی اور خود صلح یا صلح نامہ کے بعض پھلووٴں سے متعلق اپنے اصحاب کے اعتراضات پر کان نھیں دیئے اور زمانہ نے یہ بات ثابت کردی کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں مفید تھا ۔

 اسلام میں مشورہ اور جمھوری حکومتوں کے مشورہ جس میں ملکی قوانین پاس کرنا پارلمینٹ اور سینٹ دونوں مجلسوں کے اختیار میں ھے اور حکومت کا صدر صرف ان دو مجلسوں کے تصویب شدہ قوانین کا  اجرا کرنے والا  ھے  - میںزمین آسمان کا  فرق ھے۔یھاں حکومت کارئیس  وحاکم جوخود پیغمبراکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھیں، اقلیت یا اکثریت کی آراء کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نھیں ھے ۔بلکہ آخری رائے یا آخری فیصلہ کا اظھار ،چاھے وہ اھل مجلس کی رائے کے ،موافق ھو یا مخالف ،خودپیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اوپر ھے۔اور یہ پھلے عرض کیا جاچکا کہ مشورہ کے بعد قرآن کریمپیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو حکم دیتاھے کہ اب آپ خدا پر توکل کریں ،فیصلہ کریںاور آگے بڑھیں۔

 دوسری آیت کا مطلب بھی یھی ھے۔دوسری آیت تبادلہٴ  خیال کو بایمان معاشرہ کی ایک بھترین خوبی شمار کرتی ھے ۔لیکن یہ باایمان معاشرہ پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں ھرگز ایک نافذ اور مطلق العنان رئیس سے خالی نھیں تھا اور عقل یہ کھتی ھے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی بایمان معاشرہ کو ایسی شخصیت سے خالی نھیں رھنا چاھئے ۔یہ آیت ایسے معاشروں کی طرف اشارہ کررھی ھے جنھوں نے حاکم ورھبر کے تعین کامرحلہ طے کرلیا ھے اور اب دوسرے مسائل میں مشورہ یا تبادلہٴ  خیال کرتے ھیں ۔

 اس بیان سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ بعض علمائے اھل سنت کا ان آیات سے مشورہ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو صحیح قرار دینا درست نھیں ھے ۔کیونکہ جیسا کہ ھم عرض کرچکے ھیں مذکورہ آیات ان معاشروں سے متعلق ھےں جن میں حاکم کے تعین کی شکل پھلے سے حل ھوچکی ھے اور مشورتی جلسے اس کے حکم سے تشکیل پاتے ھیں تا کہ مسلمان اپنے دوسرے امور میں تبادلہ ٴخیال کریں ، خاص طور سے پھلی آیت جو صاف طورسے پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے جومسلمانوں کے رھبر ھیں۔خطاب کرتی ھے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرلو اور اس کے مطابق عمل کرو۔

 اس کے علاوہ عمومی افکار و خیالات کی طرف رجوع اس سلسلہ میں ھے جس میں خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے کوئی فریضہ معین نہ کیا گیا ھو۔ایسے میں مسلمان تبادلہ ٴخیال کے ذریعہ اپنا فریضہ معلوم کرسکتے ھیں،لیکن جس امر میں نص کے ذریعہ سب کا فریضہ معین کیا جاچکا ھے اس میں مشورہ کی ضرورت ھی نھیں ھے۔

 یھی وجہ ھے کہ جب ”حباب منذر“پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آئے اور فوج کے مرکز کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے خطاب کرکے عرض کیا ”فان کان عن امر سلّمنا و ان کا عن الرای فالتاٴخر عن حصنھم“ (36)یعنی اگر اس سلسلہ میں کوئی الٰھی حکم ھے تو ھم تسلیم ھیں اور اگر ایسی بات ھے کہ ھم اس میں اپنی رائے دے سکتے ھیں تو لشکر اسلام کی مرکزی کمان کو دشمن کے قلعہ سے دورمیں ھی بھلائی ھے۔

 حضرت علی ںکی خلافت و جانشینی کا موضوع ایسا مسئلہ ھے جسے بھت سے نقلی دلائل نے ثابت اور واضح کردیا ھے اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے بھت سے موقعوں پر مثلاً یوم الدار ،غدیر خم، اوربیماری کے ایام میں ان کی خلافت و جانشینی کو صراحت سے بیان کردیاھے۔پھر ابمشورہ  کے ذریعہ آنحضرت کی جانشینی کی تعیین کا مسئلہ حل کیا جانا ھے کیا معنی رکھتا ھے۔کیا یہ عمل نص کے مقابلہ میں اجتھاد اور خدا کے قطعی حکم یا دلیل کے مقابل اپنے نظریہ کا اظھار نھیں ھے؟

 قرآن مجید ایک آیت کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاھے : جب پیغمبر اکرم  کے منہ بولے بیٹے زید نے اپنی بیوی جناب زینب کو طلاق دے دی اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے جناب زینب سے شادی کرلی تو یہ بات مسلمانوں کو بھت بری لگی کیونکہ جاھلیت کے زمانہ میں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور جس طرح نسبی بیٹے کی بیوی سے شادی نا پسندیدہ اور حرام تھی اسی طرح منہ بولے بیٹے کی بیوی سے بھی شادی نا روا اور قبیح سمجھی جاتی تھی۔

 مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ آنحضرت ھمارے نظریات کے پیرو ھوں گے اور ھمارے خیالات کا احترام کریں گے ۔جبکہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے یہ عمل خدا وند عالم کے حکم سے اور جاھلیت کے رسم و رواج کو غلط قرار دینے کے لئے انجام دیا تھا ۔ اور ظاھر ھے کہ خدا کے حکم کے ھوتے ھوئے عام لوگوں کے افکار و خیالات کی طرف توجہ دینا کوئی معنی نھیں رکھتا ۔

 یھی وجہ ھے کہ قرآن کریم نے مندرجہ ذیل آیت کے ذریعہ ان موارد میں اپنی مداخلت اور اپنے خیالات کے اظھار کو شدت سے محکوم کیا ھے ، جن میں اللہ کے حکم نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص فریضہ معین کر دیا ھو ۔قرآن فرماتا ھے:

وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی اللہو رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرة من امرھم ومن یعص اللہو رسولہ فقد ضل ضلالا مبینا“  (37)

یعنی جب خدا اور اس کا رسول کسی سلسلہ میں حکم دے دیں پھر کسی مومن یا مومنہ کو اپنے امور میں کوئی اختیار نھیں ھے (انھیں بھر حال خدا کے حکم کی پیروی کرنا ھوگی) اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کے فرمان سے سرتابی کرے گا وہ کھلا ھوا گمراہ ھے


حوالے

   1و2۔ان مطالب کی تفصیل دوسرے حصہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

(3)۔الصواعق المحرقھ،ابن حجر ،فصل دوم ۔باب نھم ،حدیث 41ص/57

(4)۔رسالة الاسلام،طبع مصر ،شمارہ سوم،گیارھواںسال

(5)  شرح تجرید ،علاء الدین قوشجی ص/472۔ اس کے علاوہ اور بھی تعریفیں علماء اھل سنت نے بیان کی ھیں لیکن اختصار کے پیش نظر ھم ان سے گریز کرتے ھیں۔

(6)التمھید  ص/1۸6

(7)شرح مقاصد ،ج/2،ص/271

(۸)چونکہ شیعہ علماء اھل سنت کے نظریہ کے برخلاف ،امامت کو ایک الٰھی منصب سمجھتے ھیں لھذا وہ امامت کی یوں تعریف کرتے ھیں ”الامامة رئاسة عامة الٰھیة فی امور الدین و الدنیا و خلافة عن النبی  “امامت لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں ایک عام الٰھی سرپرستی اور پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینی ھے۔

(9)مائدہ /3 ۔  یعنی آج میں نے تمھارا دین مکمل کردیا

(10)اسلام کے فروعی احکام سے متعلق امت کے حکام اور خلفاء کی لاعلمی کی ان رودادوں کی وضاحت کی ھمیں ضرورت نھیں ھے ان قضیوں کی تشریح تاریخ حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں موجود ھے۔علامہ امینی ۺنے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی،ساتویں،اور آٹھویں جلد میں خلفاء کی عملی لیاقت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ھے۔شائقین مزید معلومات کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کریں۔

(11)۔تاریخ طبری ،ج/2،  ص/172

(12)تاریخ کامل، ج/2،ص/63

(13)۔تاریخ طبری ج/2،ص/62۔63․   تاریخ کامل ج/2،ص/40۔41․  مسند احمد ،ج/1،ص/111 ۔اور دیگرمآخذ

(14) سورہ احقاف/15

(15) سورہ بقرہ /232

(16)۔ حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ھیں :”کتاب اللہ تبصرون بہ ،وتسمعون بہ و ینطق بعضہ ببعض و یشھد بعضہ علی بعض

(17)  اصول کافی ،ج/1ص/170

(1۸) اصول کافی ،ج/1ص/172

(19) اصول کافی ،ج/1ص/17۸

(20)۔سورہ طور/30

(21)  الدرجات الرفیعہ ص/77 حضرت علی ںنے اس موقع پر ابو سفیان سے اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ” ما زلت علی و الاسلام و اھلہ “ تو ھمیشہ اسلام اور اھل اسلام کا دشمن رھا ھے ۔ الاستیعاب ،ج/2ص/690

(22) یہ حدیث شیعہ و سنی دونوں ماخذ میں تواتر کے ساتھ آئی ھے

(23)شفاء،الالھیات، فصل یکم از مقالہ دھم ص/4۸۸،تحقیق آیة ا․․․حسن زادہ آملی

(24)  سیمائے شجاعان ،ص/33و34

(25)  سیمائے شجاعان ،ص/34

(26) سورہ بقرہ /216

(27)  شرح مواقف ،ج/3ص/265

(2۸)  الاحکام السلطانیہ ،ص/4

(29)التمھید ، ص 17۸۔

(30)  آل عمران /159

(31)  شوریٰ /3۸

(32)  سیرہ ابن ھشام ، ج/1ص/615 ،مغازی واقدی ص/4۸

(33)  سیرہ ابن ھشام ، ج/2،ص/63 ،مغازی واقدی،ج / ،1 ص/209

(34)  تاریخ کامل ،ج/2ص/122

(35)  مغازی واقدی ،ج/3ص/925

(36)مغازی ،واخدی،ج/3  ص/925

(37)  احزاب /36


دسویں فصل

یکطرفہ فیصلہ نہ کریں

 اسلام میں وہ تنھا خلیفہ، جو مھاجر و انصار کی قریب با اتفاق اکثریت سے منتخب ھوا ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام تھے ۔ اسلامی خلافت کی تاریخ میں یہ امر بالکل بے نظیر تھا اور اس کے بعد بھی اس کی کوئی مثال نظر نھیں آتی ۔

اس دوران جب معاویہ ( جس نے مدتوں پھلے شام میں اپنی بادشاھت اور مطلق العنانیت کی داغ بیل ڈالی تھی اور خاندان رسالت  کے ساتھ دیرینہ اور عمیق بغض و عداوت رکھتا تھا ) اس امر سے آگاہ ھوا کہ مھاجرین و انصار نے حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ منتخب کرلیا ھے ،تو سخت برھم ھوا اور امام(ع)سے بیعت کرنے کےلئے تیار نہ ھوا ۔ اس نے نہ صرف امام(ع)کی بیعت کرنے سے انکار کیا بلکہ حضرت(ع)پر حضرت عثمان کے قتل اور اس کے قاتلوں کی حمایت کی تھمت بھی لگادی!

 امام (ع)، معاویہ کو خاموش کرنے اور اس کےلئے ھر قسم کے عذر کے راستوں کو مسدود کرنے کےلئے اپنے ایک خط میں اسے تحریر فرماتے ھیں کہ :

 ”وھی لوگ جنھوں نے ابو بکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی، میری بھی بیعت کرچکے ھیں، اگر ان کی خلافت کو اس لحاظ سے قابل احترام سمجھتے ھو کہ مھاجرین و انصار نے ان کی بیعت کی تھی تو یہ شرط میری خلافت میں بھی موجود ھے“۔

امام(ع)کے خط کا متن :

”انہ  بایعنی القوم الّذین بایعوا اٴبابکر و عمر و عثمان علی ما بایعوھم علیہ فلم یکن للشاھد اٴن یختار و لا للغائب اٴن یرد و إنّما الشوریٰ للمھاجرین و الاٴنصار  اجتمعوا علی رجل و سموہ إماماً کان ذلک (لله) رضا“  (نھج البلاغہ ، خط نمبر/6)

” جن افراد نے ابوبکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی ، وہ میرے ساتھ بھی بیعت کرچکے ھیں اس صورت میں مدینہ میں حاضر شخص کو کسی اور کو امام منتخب کرنے اور مرکزِ شوریٰ سے دور کسی فرد کو ان کا نظریہ مسترد کرنے کا حق نھیں ھے ۔ شوریٰ کی رکنیت صرف مھاجر و انصار کا حق ھے۔ اگر انھوں نے کسی شخص کی قیادت و امامت پر اتفاق نظر کیا اور اسے امام کھا ، تو یہ کام خدا کی رضا مندی کا باعث ھوگا۔

امام علیہ السلام کے اس خط کا مقصد ، معاویہ کو خاموش کرنے ، اس کی ھر قسم کی بھانہ تراشی اور خود غرضی کا راستہ بند کرنے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں”مجادلہ احسن“ کے سوا اور کچھ نھیں تھا۔ کیونکہ معاویہ شام میں حضرت عمر اور اس کے بعد حضرت عثمان کی طرف سے مدتوں گورنر رہ چکا تھا اور انھیں خلیفہ رسول  اور اپنے آپ کو ان کا نمائندہ جانتا تھا ۔ ان حضرات کی خلافت کا احترام اسی جھت سے تھا کہ وہ مھاجر و انصار کی طرف سے منتخب ھوئے تھے ، اور بالکل یھی انتخاب واضح اور مکمل صورت میں امام علیہ السلام کے حق میں بھی انجام پایا تھا س لئے کوئی وجہ نھیں تھی کہ ایک کو قبول اور دوسرے کو مسترد کیا جائے۔

امام علیہ السلام نے قرآن مجید میں حکم شدہ مجادلہٴ کے ذریعہ (38)  اپنی خلافت کے بارے میں معاویہ کی مخالفت کی مذمت کرتے ھوئے فرمایا :

”جنھوں نے ابو بکر اور عمرو عثمان کی بیعت کی تھی ، وھی میری بیعت بھی کرچکے ھیں،  لھذا اب تم میری خلافت کو جائز کیوں نھیں سمجھتے ھو؟“

مجادلہ کی حقیقت اس کے سوا کچھ اور نھیں ھے کہ جس چیز کو مخالف مقدس اور محترم جانتا ھو اسے استدلال کی بنیاد قرار دیکر مخالف کو اسی کے اعتقاد کے ذریعہ شکست دی جائے۔ اس لحاظ سے ، یہ خط ھرگز اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ امام علیہ السلام مھاجرین و انصار کی شوریٰ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو سو فیصد صحیح جانتے تھے اور امام(ع)کا عقیدہ بھی یھی تھا کہ خلیفہ کا انتخاب مھاجرین و انصار کی مشورت کے ذریعہ ھی انجام پانا چاھئے اور مسئلہ امامت ھرگز ایک انتصابیمسئلہ  نھیں بلکہ انتخابی مسئلہ ھے۔

اگر امام علیہ السلام کا مقصد یھی ھوتا ، تو انھیں اپنے خط کو گذشتہ تین خلفاء کی بیعت کی گفتگو سے شروع نھیں کرنا چاھئے تھا ، بلکہ انھیں ان خلفاء کی خلافت کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی بات کویوں شروع کرنا چاھئے تھا  :

”مھاجرین و انصار نے میری بیعت کی ھے اور جس شخص کی وہ بیعت کرلیں وہ لوگوں کا امام و پیشوا ھوگا “

یہ جو امام بعد والے جملوں میں فرماتے ھیں :” فان اجتمعوا علی رجل و سموہ اماماً، کان ذلک (لله) رضا“ تو یہ احتجاج بھی مخالف کے عقیدہ کی روشنی میں ھے اور کلمہ ”الله“ نھج البلاغہ کے صحیح نسخوں میں موجود نھیں ھے بلکہ مصر میں چھپے نسخوں میں بریکٹ کے اندر پایا جاتا ھے (اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ امام(ع)کے خط میں اس کلمہ (الله)  کے ھونے میں شک پا یا جاتا ھے ) حقیقت میں امام(ع)فرماتے ھیں کہ : اگر مسلمان اپنے پیشوا کے انتخاب میں ایک فرد پر اتفاق کریں ، تو ایسا کا م پسندیدہ ھے ، یعنی تم لوگوں کے عقیدہ کے مطابق یہ کام پسندیدہ اور رضا مندی کا باعث ھے اور یھی کام تو میرے بارے میں انجام پایا ھے ، اب کیوں میری بیعت کرنے میں مخالفت کرتے ھو؟

سب سے پھلا شخص ، جس نے اس خطبہ سے اھل سنت کے نظریہ کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں استدلال کیا ھے ، شارح نھج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ھے ۔ اس نے اس خط میں اور نھج البلاغہ کے دیگر خطبوں میں موجود قرائن کے سلسلہ میں غفلت کے سبب اس سے اھل سنت کے نظریہ کی حقانیت پر استدلال کیا ھے اور امام(ع)کے فرمائشات کو ایک سنجیدہ امر سمجھتے ھوئے اسے آپ(ع)کا عقیدہ تصور کیا ھے(39)۔ شیعہ علما ء جب بھی اس خطبہ کی شرح پر پھنچتے ھیں تو انھوں نے وھی مطلب بیان کیا ھے جس کا ھم اوپر اشار کرچکے ۔

تعجب ھے کہ احمد کسروی نے اپنی بعض تحریروں میں اس خطبہ کو بنیاد بنا کر اسے شیعوں کے عقیدہ کے بے بنیاد ھونے کی دلیل قرار دیا ھے اور اس سے بڑہ کر تعجب ان لوگوں پر ھے جو ان دو افراد کی باتوں کو نیا روپ دیگر اسے دھوکہ کھانے والوں کے بازار میں ایک نئی چیز کے طور پر پیش کرتے ھیں اور یہ نھیں جانتے کہ ھر زمانے میں مذھب تشیع کے ایسے محافظ موجود ھوتے ھیں جو خودغرضوں کی سازشوں کا پردہ چاک کردیتے ھیں ۔

یک طرفہ فیصلہ نہ کریں !

کسی فیصلہ کےلئے خود سری سے کام نھیں لینا چاھئے اور ” نھج البلاغہ “ میں موجود امام (ع)کے دوسرے ارشادات سے چشم پوشی نھیں کرنا چاھئے ، بلکہ امام علیہ السلام کے تمام بیانات سے استفادہ کرکے ایک نتیجہ اخذ کرناچاھئے ۔

یھی امام جو اس خط میں لکھتے ھیں :

” جن لوگوں نے گذشتہ تین خلفا کی بیعت کی تھی ، انھوں نے میری بھی بیعت کی ھے اور جب کبھی مھاجر و انصار کسی کی امامت کے بارے میں اتفاق رائے کا اظھار کریں ، تو وہ لوگوں کا پیشوا ھوگا اور کسی کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نھیں ھے“۔

 خلافت خلفاء کے بارے میں خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ھیں :

” خدا کی قسم ! فرزند ابو قحافہ نے پیراھن خلافت کو کھینچ تان کر پھن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا خلافت کی چکی میرے وجود کے گرد گردش کرتی ھے اور میرا خلافت میں وھی مقام ھے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ھوتا ھے ۔ میں وہ (کوہ بلند ) ھوں جس سے علوم و معارف کا سیلاب نیچے کی طرف جاری ھے اور کسی کے وھم و خیال کا پرندہ بھی مجھ تک نھیںپھنچ سکتا ۔ لیکن میں نے جامہ خلافت کو چھوڑ دیا اور اس سے پھلو تھی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ھوئے ھاتھوں (کسی ناصر و مددگار کے بغیر ) سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں ، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ھوجاتا ھے اور مؤمن اس میں رنجیدہ ھو تا ھے یھاں تک کہ وہ اپنے پروردگارکے پاس پھنچ جاتا ھے مجھے اس اندھیر پر صبر ھی قرین عقل نظر آیا۔ لھذا میں نے صبر کیا حالانکہ آنکھوں میں ( غم و اندوہ کے تنکے کی) خلش تھی اور حلق میں ( غم و رنج کی ) ھڈی پھنسی ھوئی تھی ۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکہ رھا تھا ، یھاں تک کہ پھلے ( ابو بکر ) نے اپنی راہ لی اور وہ اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا ۔ تعجب ھے کہ وہ زندگی  میں تو خلافت سے سبکدوش ھونا چاھتا تھا ۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کےلئے استوار کرتا گیا۔ ان دونوں نے خلافت کو دو پستانوں کے مانند آپس میں بانٹ لیا اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت جگہ قرار دے دیا ۔

آپ نے مزید فرمایا :

” یھاں تک کہ دوسرا (عمر ) بھی اپنی راہ لگا ، اور اس نے خلافت کا معاملہ ایک جماعت کے حوالے کردیا ۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد قرار دیا ۔ اے الله ! میں تجہ سے اس شوریٰ کی تشکیل اور اس کے مشورہ سے پناہ مانگتا ھوں جبکہ انھوںنے  مجھے بھی اس کا ھم ردیف قرار دے دیا ۔ ۔(40)

 امام علیہ السلام اپنے ایک خط میں اپنی مظلومیت اور آپ(ع)سے بیعت لینے کے طریقے پر سے پردہ اٹھاتے ھوئے معاویہ کے ایک خط کے جواب میں__جس میں اس نے حضرت(ع)کو لکھا تھا کہ انھیں اونٹ کی ناک میں نکیل ڈال کر کھینچنے کی صورت میں ابو بکر کی بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لے گئے تھے__لکھتے ھیں :

” تم نے لکھا تھا کہ : مجھے اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالکر کھینچنے کی صورت میں بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لئے گئے تا کہ میں بیعت کروں ۔ خدا کی قسم تم نے چاھا کہ میری ملامت کرو لیکن اس کے بجائے تم میری ستائش کر گئے ھو اور مجھے رسوا کرنا چاھتے تھے لیکن خود رسوا ھوگئے ھو ( کیونکہ تم میر ی مظلومیت کا واضح طور پر اعتراف کرگئے ھو ) کیونکہ مسلمان کےلئے__ جب تک اس کے دین میں شک اور یقین میں خلل نہ ھو __مظلومیت اور ظلم و ستم سھنے میں کوئی عار نھیں ھے “  (41)

  کیا امام(ع)کی اپنی مظلومیت کے بارے میں اس صراحت کے باوجود کہ آپ(ع)سے زورز بردستی  اور جبراً بیعت لی گئی ھے ، یہ تصور کیا جاسکتا ھے کہ آپ(ع)نے خلفاء کی خلافت کی تائید کی ھوگی اور ان کو امت کے امام و پیشوا کے طور پر تسلیم کیا ھوگا ؟ ھر گز نھیں ، لھذا اس سے ثابت ھوتا ھے کہ زیرِ بحث خط میں آپ(ع)کا مقصد مجادلہ اور طرف کو لاجواب کرنا تھا ۔

امام علیہ السلام اپنے ایک اور خط میں __جسے آپ(ع)نے اپنے گورنر مالک کے ھاتہ مصر بھیجا تھا __لکھتے ھیں :

” خدا کی قسم ! میں کبھی سوچ بھی نھیں سکتا تھا کہ عرب پیغمبر  کے بعد خلافت کو آپ کے خاندان سے نکال کر کسی دوسرے کو سونپ دیں گے اور ھمیں اس سے محروم کردیں گے ۔ ابو بکر کی بیعت کےلئے لوگوں کی پیشقدمی نے ھمیں رنج و مصیبت میں ڈالدیا “  (42)


گیارھویں فصل

سقیفہ بنی ساعدہ کی غم انگیر داستان

پیغمبرکی تشویش کھیں امت جاھلیت کی طرف پلٹ نہ جائے !

قرآن مجید کی آیات اور تاریخی قرائن اس امر کے شاھد ھیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلامی معاشرے کے مستقبل کے بارے میں سخت فکر مند تھے ۔ اور ( غیبی الھامات سے قطع نظر ) بعض سلسلہ وار ناگوار حوادث کو دیکھتے ھوئے آپ  کے ذھن میں یہ احتمال تقویت پارھا تھا کہ ممکن ھے ایک گروہ یا بھت سے لوگ آپ(ع)کی رحلت کے بعد جاھلیت کے زمانے کی طرف پلٹ جائیں اور سنن الھی کو پس پشت ڈال دیں اس احتمال اور خدشہ نے اس وقت آپ(ع)کے ذھن میں اور زیادہ قوت پائی جب آپ(ع)نے جنگ اُحد میں ( جب دشمن کی طرف سے پیغمبر اسلام  کے قتل ھونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی ) اس بات کا عینی مشاھدہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت نے بھاگ کر پھاڑوں اور دور دراز علاقوں میں پناہ لے لی۔ اور بعض لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ منافقوں کے سردار ” عبدالله ابن ابی “ کے ذریعہ ابو سفیان سے امان حاصل کریں ۔ اتنا ھی نھیں بلکہ ان لوگوں کا مذھبی عقیدہ اتنا کمزور اور متزلزل ھوا تھا کہ وہ خدا کے بار ے میں بد گمان ھو کر جاھلانہ افکار کے مرتکب ھوگئے تھے ۔ قرآن مجید نے اس راز کا یوں پردہ چاک کیا ھے :

(وَ طاَئِفةٌ قَدْاٴَھَمَّتْھُمْ اٴَنْفُسُھُمْ یِظُنُّونَ بَاللهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّةِ یَقُولُونَ ھَلْ لَّنٰا مِن َ الاٴَمْرِ شَیْءٌ) (43)

( اصحاب پیغمبر میں سے ایک گروہ کو ) اپنی جان کی اس قدر فکر تھی کہ وہ خداکے بارے میں دور ان جاھلیت کے جیسے باطل خیالات کے مرتکب ھوگئے تھے اور وہ یہ کھہ رھے تھے کہ آیا   (مسلمین پر حاکمیت ) جیسی کوئی چیز ھم پر ھے ؟

قرآن مجید ایک اور آیہ کریمہ میں اصحاب رسول خدا  کے آپسی اختلافات کے بارے میں اشارتاً خبر دیتے ھوئے فرماتا ھے :

( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا  رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہ الرُّسُلُ اٴَفَإِنْ مَاتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اٴَعْقَٰبِکُمْ وَ مَنْ یَنقَلِبْ عَلَٰی عَقِبَیْہ فَلَنْ یَضُرَّ اللهَ شیْئاً  وَ سَیَجْزِی اللهُ الشَّٰکِرِینَ) (44)

” اور محمد   تو صرف خدا کی جانب سے ایک رسول ھیں جن سے پھلے بھت سے رسول گذر چکے ھیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ھوجائیں تو تم الٹے پیر پلٹ جاؤ گے ؟ تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نھیں کرے گا اور خدا عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا  دے گا “۔

یہ آیہٴ شریفہ اصحاب رسول خدا  کو دو حصوں یعنی عصر جاھلیت کی طرف لوٹ جانے والے اور ” ثابت قدم و شکر گزار “ گروہ میں تقسیم کرکے اشارتاً یہ بیان کرتی ھے کہ پیغمبر اسلام  کی رحلت کے بعد مسلمان افتراق و اختلاف کے شکار ھو کر دو گروہ میں بٹ جائیں گے ایک گروہ عصر جاھلیت کی طرف پلٹ جائے گااور دوسرا گروہ ثابت قدم و شکر گذار رھے گا ۔

کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ پیغمبر اسلام ایک ایسی امت کو جو اختلاف و افتراق سے دو چارھو ، اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان کےلئے ایک امام و پیشوا اور حاکم و فرمان روا مقرر نہ فرمائیں؟

پیغمبر  کےلئے یاقومی اتحاد کے قائل افراد کےلئے بھی یہ ھر گز جائز نھیں کہ ایک ایسے لوگون کی اجتماعی و سیاسی زندگی کی باگ ڈورخود ان کے ھاتہ میں دیدیں ، بلکہ حالات پر قابو رکھنے کےلئے لازم بن جاتا ھے کہ ایک لائق اور قابل شخص کو امت کے امام و پیشوا کی حیثیت سے مقرر کیا جائے تا کہ حتی الامکان اختلاف و افتراق اور ناامنی سے معاشرے کو بچایا جاسکے ۔

پیغمبر اسلام جانتے تھے کہ آپ کی امت میں اختلاف و افتراق پایا جاتا ھے اور یہ امت  بھی گزشتہ امتوں کی طرح مختلف گروھوں میں بٹ جائے گی ، حتی آپ نے اپنی امت کے بارے میں پیشینگوئی کے ذریعہ فرمایا ھے :

” ستفترق امتی علی ثلاث و سبعین فرقة ، فرقة ناجیة و الباقون فی النار“

عنقریب میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے صرف ایک گروہ اھل نجات ھوگا اور باقی فرقے جھنمی ھوں گے“(45)

یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اطلاع و آگاھی رکھنے کے باوجود کہ امت کی رھبری کا انتخاب بھت سے اختلافات کا سد باب بن سکتا ھے کس طرح اس اھم امر کو ایک متلون مزاج جمعیت کے سپرد کیا ، جس کے نتیجہ میں امت میں یہ وسیع اختلافات و شگاف پیدا ھوگیا ؟!

 اسلامی سماج ، ان دنوں مختلف گروھوں میں بٹ گیا تھا اور ھر گروہ ایک آرزو اور مقصد رکھتا تھا: انصار دو معروف گروھوں یعنی ” اوس“ و ” خزرج“ پر مشتمل تھے ، اور مھاجر ، بنی ھاشم اور بنی امیہ کے علاوہ قبائل ” تیم “ اور ” عدی “ پر مشتمل  تھے ۔ ھر گروہ چاھتا تھا معاشرے کی قیادت اس کے ھاتہ میں آجائے اور ان کے قبیلہ کا سردار اس عھدہ کا مالک بنے ۔

کیا ان متضاد گروھوں کے ھوتے ھوئے امت میں اتحاد و یکجھتی اور دین کے سلسلے میں مسلمانوں کے استحکام و پائیداری کی امید کی جاسکتی ھے یا سب سے پھلے اختلاف و افتراق کے اسباب کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاھیے تب ایسی امید رکھنی چاھئے ؟

پیغمبر اسلام   کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں جوسب سے بڑی دراڑ پیدا ھوئی اور جس سے ان کے اتحاد و یکجھتی پر کاری ضرب لگی وہ اسلامی قیادت کے بارے میں اختلاف نظر کا سبب تھا ۔ اگر مسلمان اس موضوع پر اختلاف و افتراق کے شکار نہ ھوتے تو بھت سے اختلافات قیادت کے مسئلہ میں اتفاق نظر اور اتحاد کی وجہ سے حل ھوجاتے ۔ لیکن اسی اھم اور بنیادی امر پر اختلاف ھی بعد والے اختلافات ، جنگوں اور فتنوں کا سبب بنا نتیجہ کے طور پر امت مختلف گروھوں اور جماعتوں میں تقسیم ھوگئی اور بعض گروہ ایک دوسرے کی مخالفت اور ٹکراؤ پر اتر آئے ۔

اھل سقیفہ کی منطق

قرآن مجید یاران پیغمبر   کو تنبیہ کرتا ھے کہ مبادا آپ  کی رحلت کے بعد وہ زمانہ جاھلیت کے افکار کی طرف پلٹ جائیں۔

  سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ھوئے گروہ کی سرگزشت کی تحقیقات اورمطالعہ سے بخوبی معلوم ھوتا ھے کہ کس طرح اس دن پوشیدہ اسرار اور کینہ و عداوت سے پردے اٹہ گئے اور اصحاب رسول  کی گفتگو میں ایک بار پھر قومی اور قبیلہ ای تعصبات اور جاھلیت کے افکار رونما ھوئے اور واضح ھوگیا کہ اسلامی تربیت نے  ابھی بھت سے اصحاب رسول  کے دلوں کی گھرائیوں تک رسوخ نھیں کیا تھا اور اسلام ، جاھلیت کے منحوس چھرے پر ایک نقاب کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

اس تاریخی واقعہ کے مطالعہ اور تحقیق سے بخوبی معلوم ھوتا ھے کہ اس اجتماع کا مقصد کیا تھا،جھگڑالوں تقریروں ،ایک دوسرے پر حملوں کا مقصد ذاتی منفعت طلبی اور سود جوئی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ھر شخص خلافت کا لباس شائستہ ترین شخص کو پھنانے کے بجائے اپنے بدن پر زیب تن کرنے کی کوشش میں تھا ، اور جو موضوع اس مجلس میں زیر بحث نہ آیا وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ یا اس منصب کےلئے ایک شائستہ ترین فرد کی تلاش کرنا تھا ، جو عقلمندانہ تدبیر ، وسیع علم ، عظیم روح اور پسندیدہ اخلاق سے اسلام کی ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پھنچانے میں قیادت کے فرائض انجام دیتا ۔

حادثہ سقیفہ کے مطالعہ و تجزیہ سے بخوبی پتا چلتا ھے کہ سقیفہ کے ھدایت  کار اپنے اور اپنے منافع کے علاوہ کوئی اور فکر نھیں رکھتے تھے اور ھر شخص اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں تھا۔

تاریخی المیہ !

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا جسداطھر ابھی زمین پر تھا ، بنی ھاشم اور آنحضرت  کے بعض سچے اصحاب ، پیغمبر اسلام  کی تجھیز و تکفین کے مقدمات میں مصروف تھے کہ اچانک انصار کا گروہ پیغمبر اسلام  کے گھر سے چند قدم کی دوری پر ” سقیفہ بنی ساعدہ'' نام کے ایک سائبان کے نیچے جمع ھوا تا کہ پیغمبر اکرم  کا خلیفہ و جانشین مقرر کرے۔ گویا ان لوگوں کی نظر میں خلیفہ کا تقرر پیغمبر اسلام   کی تجھیز و تکفین و تدفین سے انتھائی فوری اوراھم مسئلہ تھا !۔

جس وقت حضرت علی علیہ السلام بنی ھاشم اور مھاجرین کے ایک گروہ کے ھمراہ گھر کے اندر اور اس کے باھر پیغمبر اسلام  کی نماز جنازہ اور تدفین کی تیاریوں میں مصروف تھے ، اچانک حضرت عمر نے جو گھرکے باھر تھے ، انصار کے سقیفہ میں جمع ھونے کی خبر سنی ۔ کسی کے ذریعہ فوراً حضرت ابو بکر کو اطلاع دی کہ جتنی جلد ھوسکے گھر سے باھر آئے ۔ حضرت ابوبکر حضرت عمر کے بلاوے کے سبب سے آگاہ نہ تھے اس لئے عذر خواھی کے ساتھ جواب دیا کہ : ” میں یھاں پر کام میں مصروف ھوں لیکن آخر کار حضرت عمر کے اصرار پر مجبور ھوکر گھر اور پیغمبر  کے جسد اطھر کو چھوڑ کر باھر آئے ۔ جب وہ بھی حضرت عمر کی طرح ماجرا سے آگاہ ھوئے توانھوں نے بھی سب کچھ چھوڑ کر سقیفہ کی راہ لی ۔دونوں سقیفہ کی طرف چلے اور ابو عبیدہ ابن جراح کو بھی اپنے ساتھ لئے گئے ۔اب ذرا غور سے طرفین کے مناظرہ اور استدلال کو سنیے کہ یہ لوگ کس منطق کے تحت خود کو اور اپنے قبیلہ کو خلافت کےلئے دوسرے سے لائق و شائستہ سمجھتے تھے۔

اس جلسہ میں انصار کے ترجمان سعد بن عبادہ اور حباب بن منذر تھے اور مھاجرین کی ترجمانی کا فریضہ ابوبکر ، عمر اور ابو عبیدہ انجام دے رھے تھے ، آخر میں انصار کی طرف سے بھی دو افراد نے سعد بن عبادہ کے کام میں روڑے اٹکانے کےلئے تقریریں کی ۔ اب پورا قضیہ ملاحظہ ھو :

سعد ( انصار سے مخاطب ھوکر ) : تم لوگ ایسی فضیلت اور برتری کے مالک ھو کہ دوسرے اس سے محروم ھیں ، پیغمبر گرامی  نے سالھا سال اپنے لوگوں کو توحید کی دعوت دی ، لیکن چند لوگوں کے علاوہ کوئی آپ  پر ایمان نہ لایا اور وہ بھی آپ  کا دفاع کرنے کی طاقت نھیں رکھتے تھے۔ لیکن تم لوگ انصار ! آنحضرت پر ایمان لائے آنحضرت  اور آپ  کے اصحاب کا دفاع کیا ۔ آپ  کے دشمنوں سے جنگ لڑی جس کے نتیجہ میں لوگوں نے آپ  کا دین قبول کیا ۔ یہ تم لوگوں کی تلواریں تھیں جس کی وجہ سے عرب آنحضرت  کے سامنے ھتھیار ڈالنے پر مجبور ھوئے ۔ جب پیغمبر اسلام  اس دنیا سے رخصت ھوئے تو تم لوگوں سے راضی اور پر امید تھے اس لحاظ سے ضروری ھے کہ امر خلافت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لو کیونکہ تم لوگ اس امر میں تمام لوگوں سے شائستہ اور بھتر ھو ۔(46)

سعد کی منطق یہ تھی ، چونکہ ھم نے پیغمبر  اور آپ  کے اصحاب کو پناہ دی ھے ، آپ  اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ھے اور آپ  کے دشمنوں سے جنگ لڑی ھے اس لئے ھم قیادت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لینے میں دوسروں سے سزاوار اور لائق ھیں ۔

اب دیکھئے کہ اس کے مقابلے میں مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

حضرت ابو بکر :مھاجرین اولین گروہ ھیں جو دین پیغمبر  پر ایمان لائے اور اس فضیلت پر

افتخار کرتے ھیں ۔ انھوںنے مشکلات اور سختیوں میں صبر و تحمل سے کام لیا ھے ، افراد کی کمی پر نھیں ڈرے ھیں ، دشمنوں کی اذیتوں کو برداشت کیا ھے اور آنحضرت   پر ایمان اور آپ  کے دین سے منہ نھیں موڑا۔ ھم ، آپ ، انصار کے فضائل اور خدمات سے ھر گز انکار نھیں کرتے اور بے شک مھاجرین کے بعد دیگر لوگوں پر آپ فضیلت اور برتری رکھتے ھیں ۔ اس لئے قیادت و رھبری کی باگ ڈور مھاجرین کے ھاتہ اور وزارت آپ لوگوں کے ھاتہ میں ھوگی اور ھم حاکم ھوں گے اور آپ وزیر اور کوئی بھی کام آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر انجام نھیں پائے گا (47)

مھاجرین کی برتری کا استدلال یہ تھا کہ وہ سب سے پھلے پیغمبر  پر ایمان لائے ھیں اور آپ کے دین کو قبول کیا ھے ۔

حباب بن منذر : اے جماعت انصار ! حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ھاتہ میں لے لو۔ دوسرے لوگ تمھاری ھی قدرت کے سائے میں زندگی بسر کرتے ھیں اور کوئی تمھارے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جراٴت نھیں کرسکتا تم لوگ صاحب قدرت ھو اور تعداد میں بھی زیادہ ھو۔اپنی صفوں میں ھر گز اختلاف و تفرقہ پیدا نہ ھونے دو، اختلاف کی صورت میں تباھی اور بردباری کے سوا کوئی نتیجہ نہ ھوگا۔ اگر مھاجرین نے اقتدار پر قبضہ کرنے پر اصرار کیا تو ھم مسئلہ کو ” دو امیر“ کے طریقے سے حل کریں گے اور ایک قائد اور حاکم ھم میں سے اور ایک حاکم ان میں سے مقرر ھوگا (48)

 اس مناظرہ میں انصار کی منطق افراد کی کثرت اور ان کے دھڑے کی طاقت پر منحصر ھے ۔ وہ کھتے ھیں چونکہ ھم طاقتور ھیں اس لئے حاکم ھم میں سے ھونا چاھئے ۔

حضرت عمر: ایک غلاف میں ھرگز دو تلواریں نھیں سما سکتی ھیں۔ خدا کی قسم عرب تم لوگوں کی فرمانروائی کے سامنے ھرگز تسلیم نھیں ھوں گے کیونکہ ان کا پیغمبر  آپ لوگوں میں سے نھیں ھے۔ لیکن اگر حکومت پیغمبر  کے کسی رشتہ دار کے ھاتہ آئے تو عرب کو اس پر اعتراض نھیں ھوگا ۔ کس کی جراٴت ھے کہ اس حکومت کے بارے میں ھمارا مقابلہ کرے اور ھم سے لڑے جس کی داغ بیل حضرت محمد  نے ڈالی ھے ، جب کہ ھم آپ  کے رشتہ دار ھیں ۔

اس گفتگو میں حضرت عمر نے زمام حکومت کو ھاتہ میں لینے کا معیار پیغمبر کے ساتھ اپنی رشتہ داری اور قرابت کو قرار دیا اور اس طرح مھاجر اور ان میں قبیلہ قریش کو خلافت کےلئے شائستہ و حقدار جتلایا ھے (۔49)

 ” حباب بن منذر“ نے ایک بار پھر انصار کی طاقت کا سھارا لیتے ھوئے کھا:

 اے انصار کی جماعت ! عمر اور اس کے ھم فکروں کی بات پر کان نہ دھرو وہ تم لوگوں سے قیادت اور فرمان روائی چھیننا چاھتے ھیں ۔ اگر انھوں نے ھماری بات نہ مانی تو ان سب کو اس سرزمین سے نکال باھر کرو تم لوگ اس کام (فرمانروائی) کےلئے  دوسرے لوگوں سے زیادہ شائستہ ھو ۔ تم ھی لوگوں کی تلواروں کی جھنکار کے نتیجہ میں لوگوں نے یہ دین قبول کیا ھے ۔

 عمر : خدا تجھے موت دے

 حباب : خدا تجھے موت دے۔

 ابو عبیدہ نے گویا انصار کو ایک رشوت دیتے ھوئے مھاجرین کو حکومت دیئے جانے کی یوں تائید کی :

اے انصار کی جماعت ! تم لوگ وہ پھلے افراد تھے جنھوں نے پیغمبر اسلام  کی حمایت اور مدد کی اب یہ ھر گز سزاوار نھیں ھے کہ تم ھی لوگ سب سے پھلے پیغمبر  کی سنت کو بھی بدل دو۔

 یھاں پر انصار میں سے سعد بن عبادہ (جو خلافت کےلئے انصار میں سے تقریباً آدھے لوگوں کا امیدوار تھا )کا چچیرا بھائی بشیر بن سعد ، اٹہ کھڑا ھوا ، امیدتھی وہ انصار کے حق میں بول کر قضیہ کو ختم کردے گا لیکن اس نے اس کے برخلاف ، سعد بن عبادہ کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت کی وجہ سے حضرت عمر کے استدالال کی تائید کی اور اپنے رشتہ داروں کی طرف مڑکر کھا:

محمد   قریش میں سے ھیں اور آپ  کے رشتہ دار خلافت کےلئے دوسروں سے اولیٰ اور شائستہ ھیں ، میں یہ ھرگز نھیں دیکھنا چاھتا کہ آپ لوگ اس مسئلے میں ان سے ٹکرائیں طرفین نے اپنی اپنی بات سنادی اور کوئی دوسرے کو مطمئن نہ کرسکا تو حضرت ابو بکر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ھوئے ایک تجربہ کار سیاستداں کی طرح ایک نئی تجویز پیش کی اور ایک قدم آگے بڑھاتے ھوئے یہ فیصلہ کیا کہ دو آدمیوں کو پیش کرے تا کہ لوگ ان دونوں میں سے ایک کی بیعت کرلیں ، خاص کر انھوں نے مشاھدہ کیا کہ انصار میں اتفاق رائے نھیں ھے اور بشیر بن سعد ، سعد بن عبادہ ( قبیلہ خزرج کے سردار ) کا مخالف ھے ۔

اس لئے ایک خاص انداز میں بحث و مباحثہ کو ختم کرتے ھوئے بولے:

” میری درخواست ھے کہ مھربانی کرکے اختلاف و تفرقہ سے پرھیز  کیجئے میں آپ لوگوں کا خیر خواہ ھوں ، بھتر ھے بات کو مختصر کیجئے اور عمرو ابو عبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کر لیجئے“

عمرو ابوعبیدہ دونوں نے کھا: 

ھمارے لئے ھرگز یہ مناسب نھیں ھے کہ آپ جیسی شخصیت کے ھوئے ھوئے حکومت و خلافت کی باگ ڈور ھم اپنے ھاتہ میں لے لیں ۔ مھاجرین میں سے کوئی بھی آپ کے برابر نھیں ھے ۔ آپ غار ثور میں پیغمبر  کے ھمنشین تھے ،آپ نے پیغمبر  کی جگہ پر نماز پڑھائی ھے اور آپ کی مالی حالت بھی بھتر ھے ، اپنے ھاتہ کو آگے بڑھائے تا کہ ھم آپ کی بیعت کریں۔

یھاں پر حضرت ابو بکر نے بلاکسی تکلف کے بغیر کچھ کھے اپنا ھاتہ پھیلادیا اور دل میں موجود راز سے پردہ اٹھادیا ، اور یہ بات کھل گئی کہ عمر اور ابو عبیدہ کو آگے بڑھانے کا مقصد اپنے لئے راہ ھموار کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔

لیکن اس سے پھلے کہ عمر ، ابو بکر کے ھاتہ پر بیعت کرے ، بشیر بن سعد نے سبقت کی اور حضرت ابو بکر کے ھاتہ پر دوسروں سے پھلے بیعت کی۔ اس کے بعد عمر اور ابو عبیدہ نے بھی جانشین رسول کی حیثیت سے حضرت ابو بکر کی بیعت کی۔ اسی وقت گروہ انصار میں وہ گھری دراڑ پڑگئی جس کا امکان بشیر کی تقریر کے بعد پیدا ھوچکا تھا ۔ اس طرح انصار کی ناکامی قطعی ھوگئی۔

حباب بن منذر ، بشیر کی بیعت ( جو خود انصار میں سے تھا ) پر آگ بگولا ھوگیا اور فریاد بلند کرتے ھوئے بولا: بشیر ! تم نے نمک حرامی کی اور اپنے چچیرے بھائی سے رشک کی بنا پر اسے حاکم بننے نھیں دیا۔

بشیر نے کھا:

ھر گز ایسا نھیں ھے بلکہ میں یہ نھیں چاھتا تھاکہ خدا نے جو حق گروہ مھاجر کےلئے مخصوص کیا تھا ، اس پر جھگڑا برپا کروں۔

” اسید بن حضیر“ قبیلہ اوس کا سردار__جس کے دل میں ابھی بھی خزرج کے سردار کی طرف سے کینہ تھا__ اٹھا اور اپنے قبیلہ سے مخاطب ھوکر بولا :

 اٹھوا اور ابو بکر کی بیعت کرو ، کیونکہ اگر سعد حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتہ میں لے لے گا تو قبیلہ خزرج ھم پر ایک قسم کی برتری پیدا کرلے گا اس پر قبیلہ اوس نے بھی اپنے سردار کے حکم سے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی۔

اس موقع پر سیدھے سادھے لوگوں کی جماعت جن میں فکری شعور نھیں پایا جاتا اور جو اپنے سردار کے حکم کی پیروی کرتے ھوئے حضرت ابو بکر کی بیعت کےلئے اس طرح آگے بڑھے کہ سعد قدموں تلے روند ڈالا گیا۔

ایک نامعلوم شخص نے پکارتے ھوئے کھا:

خزرج کا سردار پیروں تلے روند ڈالا گیا ! اس کا خیال کرو!

لیکن حضرت عمر اس بے احترامی سے خوش ھوئے اور کھا :

 خدا اسے موت دے ، کیونکہ ھمارے لئے ابو بکر کی بیعت سے بالاتر کوئی چیز نھیں ھے !

خود حضرت عمر جب بعد میں سقیفہ کا ماجرا بیان کرتے تھے تو حضرت ابو بکر کے حق میں اپنی بیعت کی وضاحت یوں کرتے تھے :

اگر ھم اس دن نتیجہ حاصل کئے بغیر جلسہ کو ترک دیتے تو ممکن تھا ھمارے چلے جانے کے بعد انصار اتفاق رائے پیدا کرلیتے اور اپنے لئے کسی قائد کا انتخاب کرلیتے ۔

بالآخر سقیفہ کا جلسہ بیان شدہ صورت میں خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کے انتخاب کے اوپر ختم ھوا اور حضرت ابو بکر مسجد رسول   کی طرف بڑھے جبکہ حضرت عمر ، ابو عبیدہ اور قبیلہ اوس کا ایک گروہ انھیں اپنے درمیان میں لئے ھوئے تھا اور سعد بھی اپنے تمام ساتھیوں کے ھمراہ اپنے گھر کی طرف روانہ ھوگیا (50)


بارھویں فصل

انصار اور مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

سقیفہ کے واقعہ کے بغور مطالعہ کے بعد اب مناسب ھے کہ اس کے قابل توجہ نکات اور اسے وجود میں لانے والوں کی منطق پر غور کیا جائے ۔ اس ”جلسہ “ کے قابل توجہ نکات کا خلاصہ ذیل کے چند امور میں کیا جا سکتا ھے :

1۔ قرآن مجید کا حکم ھے کہ مؤمن آپس میں جمع ھو کر اپنے مشکلات کی گتھیوں کو تبادلہ خیال کے ذریعہ سلجھائیں۔ اس کے اس گراں بھا حکم کا مقصد یہ ھے کہ عقلمند اور حق پسند لوگوں کی ایک جماعت ایک پر سکون جگہ پر جمع ھوں اور حقیقت پسندانہ نیز تعصب سے عاری غور و فکر کے ذریعہ زندگی کی راہ کو روشن کریں اور مسائل کو حل کریں۔

کیا سقیفہ کے جلسہ میں ایسا رنگ ڈھنگ پایا جاتا تھا؟ اور کیا حقیقت میں اسلامی معاشرے کے عقلا وھاں پر جمع ھوئے تھے کہ خلافت کی گتھی کو گفتگو کے ذریعہ حل کریں؟ یا مطلب اس کے بالکل بر عکس تھا؟

اس جلسہ میں مھاجرین میں سے صرف تین افراد حاضر تھے اور ان تین افراد نے دیگر مھاجرین کو اس امر سے مطلع نھیں کیا تھا کہ وہ یہ کام انجام دینے جارھے ھیں ۔ کیا ایسے جلسہ کو جس میں عالم اسلام کی عظیم شخصیتیں ، جیسے علی (ع)ابن ابیطالب ، سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد ، حذیفہ ، ابی بن کعب ، طلحہ و زبیر اور ان جیسی دسیوں شخصیتیں موجود نہ ھوں عالم اسلام کےلئے صلاح و مشورہ اور تبادلہ خیا کا جلسہ کھا جاسکتا ھے ؟

کیا یہ صحیح تھا کہ ایک ایسے اھم موضوع کے لئے ایک چھوٹی سی میٹینگ پر اکتفا کی جاتی جس میں چیخ و پکار اور داد و فریاد  بلند کی گئی اور انصار کے امیدوار کو قدموں تلے کچل ڈالا گیا ؟! یا یہ کہ ایسے اھم موضوع کے بارے میںکئی جلسے منعقد کرنا ضروری تھا جن میں عالم اسلام کی اھم مدبر اور شائستہ شخصیتیں بیٹہ کر اس اھم مسئلہ پر صلاح مشورہ کریں اور بالآخر اتفاق نظر یا اکثریت آراء سے مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کیا جاتا ؟

اس جلد بازی کے ساتھ حضرت ابو بکر کو خلافت کےلئے منتخب کرنا اس قدر ناپختہ اور خلاف اصول تھا کہ ، بعد میں خود حضرت عمر اس سلسلے میں کھتے تھے:

”کانت بیعة ابی فلتة وقی الله شرّھا فمن دعاکم الی مثلھا فاقتلوہ“  (51)

”یعنی خلافت کےلئے ابو بکر کا انتخاب ایک اتفاق سے زیادہ نھیں تھا او یہ کام صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال کی بنیاد پر انجام نھیں پایا ، اب جو کوئی بھی تم لوگوں کو ایسے کام کی دعوت دے، اسے قتل کرڈالو“

          2۔دوسرا قابل توجہ نکتہ خود اھل سقیفہ کی منطق ھے ۔

          گروہ مھاجر کا استدلال غالباً دو چیزوں کے گرد گھوم رھا تھا : ایک ان کا خدا و پیغمبر اسلا م پر ایمان لانے میں پیش قدم ھونا اور دوسرا پیغمبر اسلام سے ان کی قرابت و رشتہ داری! اگر ان کی برتری کا معیار یھی دو چیزیں تھیں تو خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کو حضرت عمر و ابو عبیدہ کا ھی سھارا  نھیں لینا چاھئے تھا، کیونکہ مدینہ میں اس وقت ایسے افراد بھی موجود تھے جو ان دو افراد سے بھت پھلے دین اور توحید پر ایمان لا چکے تھے اور پیغمبر اسلام  سے نزدیکی قرابت بھی رکھتے تھے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے پھلے شخص تھے اور پیدائش کے دن سے ھی آپ  کے دامن مبارک میں تربیت پائے ھوئے تھے اور رشتہ داری کے لحاظ سے بھی آپ  کے چچیرے بھائی اور داماد تھے ۔ اس کے باوجود کس طرح ان تین افراد نے خلافت کی گیند کو ایک دوسرے کی طرف پاس دیتے ھوئے بالآخر اسے حضرت ابو بکر کے حوالے کر دیا؟! عمر نے ابو بکر کی برتری کی توجیہ ان کی دولت مندی ،غار ثور میں رسول اللہ کی ھمراھی ، اور پیغمبر  کی جگہ پر نماز پڑھنے کے ذریعھکی۔

          دولت مند ھونے کے بارے میں کیا کھا جائے ، یہ وھی ایام جاھلیت کی منطق ھے جب دولت اور ثروت کو برتی و فضیلت کا سبب جانتے تھے ۔ مشرکین کا ایک اعتراض یھی تھا کہ یہ قرآن مجید کیوں ایک دولتمند فرد پر نازل نھیں ھوا  (52)

          اگر رسول خدا کے ساتھ غار ثور میں ھمسفر ھونا خلافت کےلئے شائستگی اور معیار ھوسکتا ھے تو امیرالمؤمنین(ع)کو خلافت کےلئے اس سے بھی زیادہ شائستہ و حقدار ھونا چاھئے۔کیونکہ آپ(ع)شب ھجرت  اپنی جان پر کھیل کر پیغمبر اسلام  کے بسترہ پر سوئے تھے مفسرین کا اتفاق ھے کہ درج ذیل آیت آپ(ع)کے بارے میں نازل ھوئی ھے :

(وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہ وَاللهُرَءُ وفٌ بِالْعِباَدِ) 

اور لوگوں میں وہ بھی ھیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ھیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مھربان ھے ۔ (53)

          آنحضرت  کی بیماری کے دوران پیغمبر  کی جگہ حضرت ابو بکر کا نماز پڑھانا ، بذات خود ایک نامشخص اور مبھم داستان ھے اور یہ بات ثابت ھی نھیں کہ وہ نماز پڑھانے میں کامیاب بھی ھوئے کہ نھیں؟اور یہ کام پیغمبر  کی اجازت سے انجام پایا تھا یا ایک من مانی حرکت تھی اور پیغمبر کی بعض بیویوں کے اشارہ پر نماز میں پیغمبر کی جانشینی پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی ؟! ( اس بحث کی تفصیل آیندہ فصلوں میں ملاحظہ فرمائیں)

          بھر حال اگر یھی امر امت اسلامیہ کی خلافت کی شائستگی کےلئے دلیل ھو ، تو پیغمبر  بارھا مسافرت کے وقت اپنی جانشینی کی ذمہ داری من جملہ نماز کی امامت بعض افراد کو سونپتے رھے ھیں ۔ ایسے افراد کا سراغ حیات پیغمبر  کی تاریخ میں ملتا ھے ، یہ کیسے ممکن ھے کہ ان سب جانشینوں میں سے صرف ایک آدمی ، وہ بھی صرف ایک نماز پڑھانے کی وجہ سے باقی لوگوں پر پیغمبر کی جانشینی کا حقدار بن جائے ؟

          3۔ شریعت کے اصول و فروع کا علم رکھنا ، اسلامی معاشرے کی تمام ضرورتوں سے باخبر ھونا اور گناہ و خطا سے پاک ھونا ، امامت و رسول خدا  کی جانشینی کی دو بنیادی شرطیں ھیں ، جبکہ سقیفہ کے جلسہ میں اگر کسی چیز پر گفتگو نھیں ھوئی تو وہ یھی دو موضوع تھے۔

          کیا یہ مناسب نھیں تھا کہ یہ لوگ قومیت ، رشتہ داری اور دیگر بیھودہ معیاروں پر انحصار کرنے کے بجائے علم و دانش اور عصمت اور پاک دامنی کے موضوع کو معیار قرار دے کر اصحاب پیغمبر  میں سے امت کی زعامت کےلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے جو دین کے اصول و فروع سے بخوبی واقف ھو اور ابتدائے زندگی سے اس لمحہ تک اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ھوئی ھو ؟ اس طرح خود خواھی کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھا جاتا ؟

          4۔ ان دونوں گروھوں کے استدال کے طریقے سے معلوم ھوتا ھے کہ یہ لوگ پیغمبر  کی خلافت و جانشینی سے ظاھری حکومت اور لوگوں پر فرماں روائی کے علاوہ کوئی اور مقصد نھیں رکھتے تھے۔ انھوں نے پیغمبر اسلام   کے دیگر منصبوں سے چشم پوشی کر رکھی تھی اور ان کی طرف کوئی توجہ نھیں رکھتے تھے ۔ یھی وجہ تھی کہ انصار ، افراد کی کثرت اوراپنے قبیلہ کی طاقت پر ناز کرتے ھوئے اپنے کو دوسروں پر فضیلت دیتے اور حقدار سمجھتے تھے۔

          یہ صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام   مسلمانوں کے حاکم اور فرماں روا تھے ، لیکن آپ  اس مقام و منزلت کے علاوہ کچھ دوسرے فضائل اور منصبوں کے بھی مالک تھے کہ مھاجر و انصار کے امیدوارں میں ان کا شائبہ تک نھیں ملتا تھا ۔ پیغمبر اسلام  شریعت کی تشریح کرنے والے ، اصو ل و فروع کو بیان کرنے والے ، اور گناہ و لغزش کے مقابلے میںمعصوم تھے۔ ان افراد نے پیغمبر  کی جانشینی کا انتخاب کرتے وقت پیغمبر اسلام  کی ان معنوی فضیلتوں کو کیسے نظر انداز کردیا جن کی وجہ سے آپ  اسلامی معاشرہ میں برتر اور حکمراں قرار پائے تھے بلکہ اسے ظاھری و سیاسی حکومت کے زاویہ سے دیکھا جو عموماً دولت ، قدرت اور قبائلی قرابت کی بنیادوں پر قائم ھوتی ھے ۔

          اس غفلت یا تغافل کی وجہ واضح ھے ، کیونکہ اگر اسلامی خلافت کو اس زاویہ سے دیکھتے تو انھیں اپنے آپ کو خلافت سے محروم کرنے کے سوا کوئی نتیجہ نھیں ملتا۔ اس لئے کہ دین کے اصول و فروع سے ان کی آگاھی بھت محدود تھی، حتی حضرت ابو بکر کا مجوزہ امیدوار (حضرت عمر) سقیفہ کی میٹینگ سے تھوڑی ھی دیر پھلے پیغمبر اسلام  کی وفات کا منکر ھوچکا تھا اور اپنے ایک دوست کی زبانی قرآن مجید کی آیت  1#   سننے کے بعد خاموش ھوا تھا ۔ اس کے علاوہ حکمرانی کے دوران اور اس سے پھلے بھی ان لوگوں کی بے شمار غلطیاں اور خطائیں کسی سے پوشیدہ نھیں ھیں ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت کی داغ بیل ڈال سکیں جس کی بنیاد علم و دانش ، تقویٰ و پرھیزگاری ، معنوی کمالات اور عصمت پر مستحکم ھو؟!

 

اصحاب سقیفہ کی منطق پر امیر المؤمنین کا تجزیہ

          امیر المؤمنین علیہ السلام نے سقیفہ میں موجود مھاجرین و انصار کی منطق پر یوں تنقید فرمائی :

جب ایک شخص نے  امام(ع)کی خدمت میں آکر سقیفہ کا ماجرا بیان کیا کہ : مھاجر و انصار کے دو گروہ اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھ رھے تھے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:

1۔( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا  رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہ الرُّسُلُ اٴَفَإِنْ مَاتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اٴَعْقَٰبِکُمْ)( آل عمران 144)

”تم نے انصارکوجواب کیوںنہ دیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھم سے کھا ھے کہ ھم ان کے نیک افراد کے ساتھ نیکی کریںاور ان کے خطاکاروں کی تقصیر معاف کردیں“۔

          اس کے بعد امام علیہ السلام نے پوچھا : قریش کس اصول پر اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے ؟ اس شخص نے جواب دیا : وہ کھتے تھے ھمارا تعلق رسول خدا  کے خاندان سے ھے اور ھمارا اور آپ  کا قبیلہ ایک ھی ھے۔

          حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انھوں نے درخت سے اپنے لئے استدلال کیا اور اس کے پھل اور میوہ کو ضایع و برباد کردیا ۔ اگر وہ اسی لحاظ سے خلافت کے حقدار ھیں تو وہ ایک درخت کی ٹھنیاں ھیں اور میں اس درخت کا پھل اور آنحضرت  کا چچیرا بھائی ھوں ، پھرخلا فت کا حقدار میں کیوں نھیں ھوں (54)

 

امیر المؤمنین کی خلافت کےلئے خود شائستہ ھونے کی منطق

          سقیفہ کا ماجر انتھائی ناگفتہ بہ حالت میں اختتام کو پھنچا اور حضرت ابو بکر ایک فاتح کی حیثیت سے جلسہ سے باھر نکلے ، کچھ لوگ انھیں اپنے گھیرے میں لئے ھوئے تھے اور لوگوں سے کھتے تھے : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کی بیعت کرواور بیعت کو عمومی بنانے کےلئے لوگوں کے ھاتہ پکڑ پکڑ کر حضرت ابو بکر کے ھاتہ پر رکھتے تھے۔

          ان ناگفتہ بہ حوادث کے تحت کہ یھاں پرھم ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ھیں ، حضرت علی  کو مسجدمیں لایا گیا تا کہ وہ بھی بیعت کریں ۔

          امام علیہ السلام نے خلافت کےلئے اپنی شائستگی اور سنت رسول  سے متعلق اپنے وسیع علم اور عدالت کی بنیادوں پر حکومت کرنے کی اپنی روحی توانائی و صلاحیت کے ذریعہ خلافت کےلئے اپنی لیاقت و شائستگی پر استدلال کرتے ھوئے فرمایا:

” اے گروہ مھاجر ! جس حکومت کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنیاد ڈالی ھے ، اسے آنحضرت کے خاندان سے خارج کرکے اپنے گھروں میں نہ لے جاؤ ۔ خدا کی قسم ھم اھل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ھیں ۔ ھمارے درمیان ایسے افراد موجود ھیں جو قرآن مجید کے مفاھیم کا مکمل علم رکھتے ھیں ۔ دین کے اصول اور فروع  کو اچھی طرح جانتے ھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے اچھی طرح آگاہ ھیں ، اور اسلامی سماج کو بخوبی ادارہ کرسکتے ھیں ۔ برائیوں کی روک تھام کرسکتے ھیں اور غنائم کو عادلانہ تقسیم کرسکتے ھیں ۔

جب تک معاشرے میں ایسے افراد موجود ھیں دوسروں کی باری نھیں آتی ، ایسا شخص خاندان نبوت  سے باھر کھیں نھیں مل سکتا ۔ خبردار ! ھویٰ و ھوس کے غلام نہ بنو کیونکہ اس طرح راہ خدا سے بھٹک جاؤ گے اور حق و حقیقت سے دور ھوجاؤ گے ! (55)

          شیعہ روایات کے مطابق ، امیر المؤمنین  بنی ھاشم کے ایک گروہ کے ھمراہ حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور خلافت کے لئے مذکورہ صورت میں قرآن و سنت سے متعلق اپنے علم ، اسلام میں سبقت اور جھاد میں ثابت قدمی ، بیان میں فصاحت و بلاغت ، شھامت اور شجاعت کو دلائل کے طور پر پیش کرکے اپنی شائستگی کو ثابت کیا اور فرمایا :

” میں پیغمبر اسلام کی حیات اور آپ   کی وفات کے بعد منصب خلافت کا مستحق اور سزاوار ھوں ، میں اسرار کا خزانہ اور علوم کا مخزن ھوں ۔ میں صدیق اکبر اور فاروق اعظم ھوں ۔

میں پھلا شخص ھوں جو پیغمبر پر ایمان لایا اس راہ میں آپ کی تصدیق کی ۔ میں مشرکین کے ساتھ جنگ و جھاد کے دوران سب سے زیادہ ثابت قدم ، کتاب و سنت کےعلم سے سب سے زیادہ آگاہ ، دین کے اصول و فروع سے سب سے زیادہ واقف ، بیان میں سب سے زیادہ فصیح اور ناخوشگوار حالات میں سب سے زیادقوی اور بھادر فرد ھوں ، تم لوگ اس وراثت میں میرے ساتھ جنگ و جدال پر کیوں اتر آئے ھو ۔ (56)

          اسی طرح امیر المؤمنین  اپنے ایک خطبہ میں خلافت کا حقدار ایسے شخص کو سمجھتے ھیں جو امت میں حکومت چلانے کےلئے سب سے بھادر حکم الٰھی کو سب سے زیادہ جاننے والا ھو :

”ایھا الناس انّ احق الناس بھذا الامر اقواھم علیہ و اعلمھم بامر الله فیہ فان شغب شاغب استعتب فان بی قوتل “ (57)

یعنی اے لوگو! حکومت کےلئے سب سے شائستہ فرد  وہ ھے جو ، سماج کا  نظام چلانے میں سب سے زیادہ طاقت ور اور حکم الھی کو جاننے میں سب سے زیادہ عالم ھو۔ اگر کوئی شخص فساد کو ھوا دے اور وہ حق کے سامنے تسلیم نہ ھو تو اس کی تنبیہ کی جائے گی اور اگر اپنی غلطی کو جاری رکھے تو قتل کیا جائے گا- ۔

          یہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی منطق نھیں ھے بلکہ آپ(ع)کے بعض مخالفین بھی جب بیدار ضمیر کے ساتھ بات کرتے ھیں تو خلافت کےلئے حضرت علی(ع)کی شائستگی کا اعتراف کرتے ھیں کہ آپ کا حق چھین لیا گیا ۔

          جب ابو عبیدہ جراح حضرت ابو بکر کی بیعت سے حضرت علی علیہ السلام کے انکار کے بارے  میں آگاہ ھوئے تو امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے بولے :

” حکمرانی کو ابو بکر کےلئے چھوڑ دیجئے ، اگر آپ زندہ رھے اور طولانی عمر آپ کو نصیب ھوئی تو آپ حکمرانی کےلئے سب  سے شائستہ ھیں کیونکہ آپ کی فضیلت ، قوی ایمان ، وسیع علم ، حقیقت پسندی ، اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی اور پیغمبر اسلام کے ساتھ آپ کی قرابت کسی سے پوشیدہ نھیں ھے( 58)


تیرھویں فصل

نماز کی امامت ، خلافت کےلئے دلیل نھیں!

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت کی قیادت کا موضوع گزشتہ چودہ صدیوں  سے عقائد اور مذاھب کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مسلسل مورد بحث قرار پاتا رھا ھے ، لیکن آج تک ایک محقق بھی ایسا پیدا نھیں ھوا جو یہ توجیہ کرے کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اسلام  کی نص کے مطابق عمل میں آئی ھے اور یہ کھے کہ پیغمبر خدا صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم  نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں اپنی حیات میں لوگوں کو وصیت کی تھی۔

          حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں سنی علماء کے تمام دلائل مھاجرین و انصار کی بیعت اور خلافت پر اتفاق نظر تک محدود ھیں اور یہ امر کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اکرم  کی نص کے مطابق نھیں تھی ، یہ بات خود سقیفہ میں حضرت ابو بکر اور ان کے ھمفکروں کے بیانات سے بالکل ظاھر اور واضح ھوجاتی ھے ۔ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں پیغمبر  کی طرف سے کوئی نص موجود ھوتی تو وہ خود سقیفہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ کا ھاتہ پکڑ کر ھر گز یہ نہ کھتے کہ : ” قد رضیت لکم ھذین الرجلین “ میں ان دو افراد کو خلافت کےلئے صالح اور شائستہ جانتا ھوں اور ان دونوں کے انتخاب پرراضی ھوں۔

  اس کے علاوہ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے سلسلے میں کوئی الٰھی نص موجود ھوتی ، تو سقیفہ میں  قریش کی پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے قرابت اور ان کی اسلام  میں سبقت کے ذریعہ استدلال نھیں کیا جاتا اور ان کے دوست و ھم فکر کبھی حضرت ابو بکر کے پیغمبر  کے ساتھ غار ثور میں ھم سفر ھونے اور نماز میں پیغمبر  کی جانشینی جیسے مسائل سے اپنے استدلال کو تقویت نہ بخشتے۔

 خود حضرت ابو بکر نے سقیفہ کے دن انصار کے امیدوار کی تنقید کرتے ھوئے کھا:

”ان العرب لا تعرف ھذا الامر الّا القریش اوسط العرب داراً و نسباً“، عرب معاشرہ قریش کے علاوہ __جو حسب و نسب کے لحاظ سے دوسروں پر برتری رکھتے ھیں  __کسی کو خلافت کےلئے شائستہ نھیں جانتا ۔

 اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے حق میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک لفظ بھی بیان ھوا ھوتا تو ان کمزور دلائل سے استدلال کرنے کے بجائے اس کا سھارا لیکر خود حضرت ابو بکر کھتے : اے لوگو! پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فلاں سال اور فلاں روز مجھے مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ کے طور پر منتخب کیا ھے۔

 یہ کیسے کھا جاسکتا کہ حضرت ابو بکر کی خلافت کو پیغمبر  نے معین فرمایا ھے جب کہ وہ خود بیماری کی حالت میں تمنا کرتے تھے، کہ کاش میں نے پیغمبر اسلام  سےیہ پوچہ لیا ھوتا کہ ”امت کی قیادت“ کا حقدار کون ھے؟

 عالم اسلام کے مشھور مؤرخ ، طبری اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کرتے ھوئے لکھتے ھیں :

” جب ابو بکر بیمار ھوئے اور قریش کا ایک معروف  سرمایہ دار عبد الرحمان بن عوف ان کی عیادت کیلئے آیا تومقدماتی گفتگو کے بعد ابو بکر نے انتھائی افسوس کے ساتھ لوگوں کی طرف رخ کرکے کھا:

 میری تکلیف کی پھلی وجہ وہ تین چیزیں ھیں جن کو میں نے انجام دیا ھے ، کاش میں نے انھیں انجام نہ دیا ھوتا ! اور تین چیزیں اور ھیں کہ کا ش میں نے ان کے بارے میں پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا ھوتا ۔

 وہ تین چیزں جنھیں کاش میں نے انجام نہ دیا ھوتا حسب ذیل ھیں :

1۔ کاش فاطمہ  کا گھر نہ کھلوایا ھوتا چاھے جنگ و جدال کی نوبت آجاتی ۔

2۔ کاش میں نے سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہ لی ھوتی اور اسے عمر یا ابو عبیدہ کے سپرد کرکے خود وزیر و مشیر کے عھدہ پر رھتا ۔

3۔ کاش ایاس بن عبد الله کو جو راھزنی کرتا تھا ، آگ میں جلانے کے بجائے تلوار سے قتل کرتا۔

  اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں  کاش میں نے پیغمبر اکرم  سے پوچہ لیاھوتا یہ ھیں :

1۔ کاش میں نے پوچہ لیا ھوتا کہ خلافت و قیادت کا حقدار کون ھے ؟ اور خلافت کا لباس کس کے بدن کے مطابق ھے؟

  2۔ کاش میں سوال کرلیا ھوتا کہ کیا اس سلسلے میں انصار کا کوئی حق بنتا ھے؟

 3 کاش میں نے پھوپھی اور بھن کی بیٹی کی میراث کے بارے میں پیغمبر اسلام سے دریافت کرلیا ھوتا! (59)

 

نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی

          اھل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاھے اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کھنا چاھا کہ جب پیغمبر   نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ھوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ھونا چاھئے جو ایک دنیوی امر ھے ۔

جواب :یہ استدلال کئی جھتوں سے قابل رد ھے :

          1۔ تاریخی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ثابت نھیں ھے کہ نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی پیغمبر  کی اجازت سے انجام پائی ھو ۔ بعید نھیں ھے کہ انھوں نے خود یا کسی کے اشارہ پر یہ کام انجام دیا ھو۔ اس امر کی تائید اس واقعہ سے ھوتی ھے کہ حضرت ابو بکر نے ایک بار اور پیغمبر  کی اجازت کے بغیر آپ  کی جگہ کھڑے ھوکر نماز کی امامت خود شروع کردی تھی ۔

          اھل سنت کے مشھور محدث امام بخاری اپنی صحیح میں نقل کرتے ھیں : ایک دن پیغمبر   قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی طرف گئے تھے ۔ نماز کا وقت ھوگیا ابو بکر پیغمبر  کی جگہ پر کھڑے ھوگئے اور نماز کی امامت شروع کردی جب پیغمبر  مسجد میں پھنچے اور دیکھا کہ نماز شروع ھوچکی ھے تو نمازکی صفوں کو چیرتے ھوئے محراب تک پھنچ گئے اور نماز کی امامت خود سنبھال لی اور ابو بکر پیچھے ھٹ کر بعد والی صف میںکھڑے ھوئے۔ (60)

          2۔ اگر ھم فرض کرلیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر  کے حکم سے آپ  کی جگہ پر نماز پڑھائی ھوگی تو نماز میں امامت کرنا ھرگز حکومت اور خلافت جیسی انتھائی اھم ذمہ داری کی صلاحیت کےلئے دلیل نھیں بن سکتا ۔

          نماز کی امامت کےلئے قرائت کے صحیح ھونے اور احکام نماز جاننے کے علاوہ کوئی اور چیز معتبر نھیں ھے ( اور اھل سنت علماء کی نظر میں عدالت تک کی شرط نھیں ھے ) لیکن خلافت اسلامیہ کے حاکم کےلئے سنگین شرائط ھیں جن میں سے کسی ایک شرط کو نماز کی امامت کےلئے ضروری نھیں سمجھا جاتا ھے ،جیسے : اصول اور فروع دین پر مکمل دسترس اور کامل آگاھی رکھنا۔

احکام اور حدود الٰھی کے تحت مسلمانوں کے امور کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھنا ۔

گناہ اور خطا سے مبرّا ھونا

          اس استدلال سے پتا چلتا ھے کہ استدلال کرنے والے نے امامت کے منصب کو ایک معمولی منصب تصور کرلیا ھے اور اس سے پیغمبر  کی جانشینی کوایکعام حکمرانی کے سوا کچھ اور نھیں سمجھا ھے اسی لئے وہ کھتا ھے کہ : جب پیغمبر  نے ابو بکر کو دینی امر کےلئے منتخب کرلیا تو لازم اور ضروری ھے کہ ھم ان کی خلافت پر اور بھی زیادہ راضی ھوں ، جو ایک دنیوی امر ھے۔

          اس جملہ سے معلوم ھوتا ھے کہ کھنے والے نے اسلامی حکمرانی سے وھی معنی مراد لیا ھے جو دنیا کے عام حکمرانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ھے ۔ جبکہ پیغمبر  کا خلیفہ ظاھری حکومت اور مملکت کے امور کو چلانے کے علاو کچھ ایسے معنوی منصبوں اور اختیارات کا بھی مالک ھوتا ھے جو عام حکمراں میں نھیں پائے جاتے اور ھم اس سلسلے میں اس سے پھلے مختصر طور پر بحث کرچکے ھیں۔

          3۔ اگر نماز کیلئے  حضرت ابو بکر کی امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے انجام پائی تھی ، تو پیغمبر اکرم  بخار اور ضعف کی حالت میں ایک ھاتہ کو حضرت علی(ع)کے شانے پر اور دوسرے ھاتہ کو ” فضل بن عباس “ کے شانے پر رکہ کر مسجد میں کیوں داخل ھوئے اور حضرت ابو بکر کے آگے کھڑے ھوکر نماز کیوں پڑھائی؟ پیغمبر کا یہ عمل امامت کےلئے حضرت ابو بکر کے تعین سے میل نھیں کھاتا۔اگر چہ اھل سنت علماء نماز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرکت کی اس طرح توجیہ کرتے ھیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر اکرم  کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابو بکر کی اقتداء کی ۔ اسی صورت میں نما زپڑھی گئی (61)

          واضح ھے کہ یہ توجیہ بھت بعید اور ناقابل قبول ھے ، کیونکہ اگر یھی مقصود تھا تو کیا ضرورت تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ضعف و بخار کی حالت میں اپنے چچیرے بھائیوں  کا سھارا لیکر مسجد میں تشریف لا تے اور نماز کےلئے کھڑے ھوتے؟ بلکہ اس واقعہ کا صحیح تجزیہ یہ ھے کہ پیغمبر اکرم  اپنی اس کاروائی سے حضرت ابو بکر کی امامت کو توڑ کر خود امامت کرنا چاھتے تھے۔

          4۔ بعض روایتوں سے پتا چلتا کہ کہ نماز کےلئے حضرت ابو بکر کی امامت ایک سے زیادہ بار واقع ھوئی ھے اور ان سب کا پیغمبر کی اجازت سے ثابت کرنا بھت مشکل اور دشوار ھے کیونکہ پیغمبر اکرم  نے اپنے بیماری کے آغاز میں ھی اسامہ بن زید کے ھاتہ میں پرچم دیکر سب کو رومیوں سے جنگ پر جانے اور مدینہ ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ اور لوگوں کے جانے پر اس قدر مصر تھے کہ مکرر فرماتے تھے :

”جھّزو جیش اسامة  “اسامہ کے لشکر کو تیار کرو۔

          اورجو افراد اسامہ کے لشکر میں شامل ھونے سے انکار کررھے تھے ، آپ  ان پر لعنت بھیج کر خدا کی رحمت سے محروم ھونے کی دعا فرماتے تھے (62)

ان حالات میں پیغمبر  ابوبکر کو امامت کے فرائض انجام دینے کی اجازت کیسے دیتے ؟!

           5۔ مؤرخین اور محدثین نے اقرار کیا ھے کہ جس وقت حضرت ابو بکر نماز کی امامت کرنا چاھتے تھے ، پیغمبر اکرم  نے حضرت عائشہ ، ابو بکر کی بیٹی سے فرمایا:”فانّکنّ صواحب یوسف“” تم مصر کی عورتوں کے مانند ھو جنھوں نے یوسف(ع)کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا“اب دیکھنا چاھئے کہ اس جملہ کا مفھوم کیا ھے، اور اس سے پیغمبر  کا مقصد کیا تھا؟

           یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ھے کہ حضرت عائشہ پیغمبر اکرم  کی تنبیہ کے باوجود اسی طرح خیانت کی مرتکب ھوئی تھیں ، جس طرح مصر کی عورتیں خیانت کی مرتکب ھوئیں تھی اور زلیخا کو عزیز مصر سے خیانت کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔

          جس خیانت کے بارے میں یھاں پر تصور کیا جاسکتا ھے ، وہ اس کے سوا کچھ نھیں کہ حضرت عائشہ نے پیغمبر اکرم  کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کو پیغام بھیجا تھا کہ پیغمبر  کی جگہ پر نماز پڑھائیں۔

          اھل سنت کے علماء ، پیغمبر اسلام  کے اس جملہ کی دوسرے انداز میں تفسیر کرتے ھیں اور کھتے ھیں :

پیغمبر  اصرار فرماتے تھے کہ حضرت ابو بکر آپ  کی جگہ پر نماز پڑھائیں ، لیکن حضرت عائشہ راضی نھیں تھیں ، کیونکہ وہ کھتی تھیں کہ لوگ اس عمل کو فال بد تصور کریں گے اور حضرت ابو بکر کی نما زمیں امامت کو پیغمبر  کی موت سے تعبیر کریں گے اور حضرت ابو بکر کو پیغمبر  کی موت کا پیغام لانے والا تصور کریں گے “

کیا یہ توجیہ پیغمبر اسلام کے عمل ( مسجد میں حاضر ھوکر امامت کو سنبھالنے ) سے میل کھاتی ھے؟!!

 یھاں  پر میں اپنی بات تمام کرتے ھوئے اس قضیہ کی صحیح نتیجہ گیری کا فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتا ھوں۔


چودھویں فصل

حکومت ،روحانی قیادت سے جدا نھیں

          اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے حاکم و فرماں روا ھونے کے ساتھ معنوی اور روحانی پیشوا بھی تھے۔ قرآنی آیات ، اسلامی متون اور معتبر تاریخ اس امر کے شاھد ھیں کہ پیغمبر اسلام  نے مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے ابتدائی لمحات سے اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی اور حقیقی حکمرانی کی تمام ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھائیں اور اسلامی معاشرے کے بعض سیاسی ، سماجی اور اقتصادی امور کو اپنی سرپرستی میںبعض شائستہ اور لائق افراد کو سونپا۔

          پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدا کی طرف سے فرماں روا اور حاکم ھونے کی بھت سی مثالیں ھیں یھاں ھم قارئین کرام کی توجہ کے لئے ذیل میں صرف چند مثالیں پیش کرتے ھیں :

          1۔ قرآن مجید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مسلمانوں کی جانوں سے اولیٰ قرار دیتے ھوئے فرماتا ھے :

(النَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ اٴَنْفُسِھِمْ )(63)

بیشک نبی  تمام مؤمنین پر ان کی جانوں سے زیادہ اولیٰ ھے ۔

          2۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کوحاکم و قاضی قرار دیتا ھے کہ مسلمانوں کے درمیان الٰھی قوانین کے تحت فیصلے کرے ، چنانچہ اس سلسلے میں فرماتا ھے :

(فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اٴَنْزَلَ اللهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اٴَھْوَآئَھُمْ )(64)

” آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور خدا کی طرف سے آئے ھوئے حق سے الگ ھوکر ان کے خواھشات کا اتباع نہ کریں“

          3۔ پیغمبر اکرم  لوگوں میں نہ صرف خود فرماں روائی اور حکمیت کے فرائض انجام دیتے تھے بلکہ ھر علاقے کو فتح کرنے کے بعد، وھاں پر خود ایک شائستہ شخص کو بعنوان حاکم، دوسرے کو قاضی کی حیثیت سے اور تیسرے کو قرآن و احکام الٰھی کی تعلیم دینے کےلئے دینی معلم کی حیثیت سے مقرر فرماتے تھے اور بعض اوقات یہ تینوں عھدے ایک ھی فرد کو سونپتے تھے۔

          پیغمبر اکرم  کے زمانے میں ھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام عبد الله ابن مسعود، ابی ابن کعب اور زید بن ثابت وغیرہ قضاوت اور حکمیت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔(65)

          جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ اور یمن کو فتح  کیا تو ” عتاب بن اسید“ کو مکہ کا گورنر اور ”بازان“ کو یمن کا حاکم منتخب فرمایا:

          کتاب ”التراتیب الاداریہ“ کے مؤلف ” عبد الحی کتانی “ نے اپنی کتاب میں ان مسلمان گورنروں کی فھرست ذکر کی ھے ، جنھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے اپنے زمانے میں مختلف علاقوں کے سماجی ، سیاسی اور اقتصادی امور کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے منتخب فرمایا تھا ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے پیغمبر اسلام  کے ذریعہ تشکیل دی گئی اسلامی حکومت کے طریقہ کار کا اشارہ ملتا ھے(66)

          اسلام نے جھاد کی دعوت دے کر اور دینِ الٰھی کو پھیلانے کیلئے جھاد کے خصوصی قوانین بیان  کئے اور مسلمانوں میں جنگی اور دفاعی تربیت کو وسیع پیمانے پر رائج کیا۔ ساتھ ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 27 جنگوں میں بذات خود حصہ لیا اور 55 ”سریہ“ (67)   میں لشکر کے سردار معین کئے۔ اس طرح سے اسلامی حکومت کا چھرہ لوگوں کے سامنے نمایاں فرمایا اور یہ ثابت کردیا کہ آپ(ع)کی دعوت حضرت عیسی علیہ السلام کی دعوت کے مانند فقط روحانی ، معنوی دعوت نھیں ھے آپ کی رھبری احکام بیان کرنے اور تبلیغ دین کے لئے صرف وعظ و نصیحت تک محدود نھیں ھے بلکہ آپ کی دعوت و معنوی رھنمائی ایک طاقتور حکومت کی تشکیل کے ھمراہ تھی تا کہ اپنے پیروؤں کو دشمنوں کے گزند سے محفوظ رکہ سکیں ، کتاب خدا اور دین اسلام کو ان سے بچا سکیں اور یہ حکومت انسانی سماج میں الٰھی قوانین کے نفاذ کی ضامن بن سکے۔

          اسلام کا اقتصادی نظام ، حکومتی آمدنی ، جیسے انفال وغیرہ اور عوامی آمدنی جیسے زکات و خمس وغیرہ اس امر کی واضح دلیل ھے کہ اسلام ایک جامع و کامل نظام ھے جس نے انسانو ں کی سماجی زندگی کے تمام پھلوؤں میں ایک مکمل اور ھمہ گیر نظریہ پیش کیا ھے اور صرف محدود پیمانے پر خشک مذھبی مراسم ، وہ بھی ھفتہ میں ایک روز کی عبادت پر اکتفاء نھیں کیا ھے ۔

          لیکن اس جملے کا ھرگز یہ مطلب نھیں ھے کہ حقیقی عیسائی دین کی بنیاد یھی تھی ، بلکہ مسیحیت کے خود غرض مدعیوں نے قیصر و پاپ کے روپ میں دین مسحیت کو رفتہ رفتہ اس صورت میں تبدیل کیا ھے اور حضرت عیسی(ع)کے دین کو سماجی میدان سے خارج کرکے رکہ دیا ھے جب کہ بھت سے پیغمبر اس مقام و منصب کے مالک تھے۔

          قرآن مجید بالکل واضح طور پر حضرت لوط اور حضرت یوسف علیھما السلام کے بارے میں کھتا ھے :

 ” کہ ھم نے انھیں حکومت اور فرمان روائی دی “(68)

 خود حضرت یوسف بارگاہ الٰھی میں حمد و ثنا کرتے ھوئے فرماتے ھیں :

( رَبِّ ءَ اتَیْتَنِی مِنَ الْمُلْکِ )

پروردگارا ! تو نے مجھے ملک عطا کیا  (69)

          قرآن مجید نے حضرت داؤد کی قضاوت اور ان کی حکومت ، اور حضرت سلیمان و طالوت کی فرمان روائی اور حکومت کےلئے ان کی امتیازی حیثیتوںکا ذکر کیا ھے ۔ اس طرح پیغمبروں کو الٰھی حکومت کے بانی اور حکم الٰھی نافذ کرنے والوں کی حیثیت سے پھچنوایا ھے ۔

          امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے وسیع ابواب جو حکومت اسلامی کے نفاذ کی عملی بنیادوں میں سے ایک ھیں اور اسی طرح معاملات ، حدود ، دیات اور فقہ کے دیگر ابواب کے تمام قوانین کے مطالعہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے قائم کی گئی حکومت کا طریقہ کار ھر شخص کےلئے واضح و روشن ھوتا ھے ۔

          یہ مسئلہ اس قدر واضح ھے اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی زندگی اور خلفاء کی حکومت ، خصوصاً امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی الٰھی حکومت کے دور اس امر کے اتنے نمایاں گواہ ھیں کہ ھم اس سلسلے میں مزید وضاحت سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتے ھیں ۔

 

 

بیان احکام اور لوگوں کی رھنمائی

          پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  حکومت اور سیاسی فرمان روائی کے علاوہ احکام الٰھی کو بیان کرنے والے الٰھی قوانین کے مفسر اور قرآن مجید کی آیات کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے عھدہ دار بھی تھے۔

          قرآن مجید آپ  کو مندرجہ ذیل آیہ شریفہ میں کتابِ خدا کے عالی مفاھیم بیان کرنے والے کی حیثیت سے پھچنوایا ھے :

 ( وَاٴَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ  لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ)

اور آپ کی طرف ذکر ( قرآن ) کو نازل کیا ھے تا کہ لوگوں کےلئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ھیں ۔(70)

          آیہ شریفہ میں کلمہ ” لِتُبَیِّنَ“  تا کہ آپ بیان کریں ) سے واضح ھوتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے علاوہ اس امر پر بھی ماٴمور تھے کہ ان آیات کے مفاھیم اور مضامین کی وضاحت فرمائیں ۔ اگر آپ  کا فریضہ صرف آیات الٰھی کو پڑھنا ھوتا تو کلمہ ” لِتُبَیّنَ “ کے بجائے ”لِتُقْرَاٴ“ یا ”لِتُتْلٰی“ ھوتا ۔

          بیشک قرآن مجید کے حکم کے مطابق آنحضرت  کتابِ خدا اوراس کے حکیمانہ احکام کے معلّم ھیں ، جیسا کہ فرماتا ھے :

          (ھُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الاُمِیِّینَ رَسُولاً مِنْھُمْ یَتْلُوا عَلَیھِمْ آیَاتِہ وََ یُزَکِّیھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ)

” اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“ (71)

          پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اپنی زندگی کے دوران ان دو عھدوں ( حاکمیت اور الٰھی احکام کے نفاذ) نیز احکام کی رھنمائی و تبلیغ پر فائز تھے اور یقینا آپ  کی رحلت کے بعد بھی ، اسلامی معاشرے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ان دو منصبوں کا حامل ھو۔

          اب ھمیں دیکھنا چاھئے کہ ان خصوصی شرائط کا حامل کون شخص ھے جو ان دو امور میں معاشرے کی باگ ڈور سنبھال سکے؟

          واضح ھے کہ احکام بیان کرنا اور لوگوں کو حلال و حرام بتانا، اخلاقی فضائل اور ان کی فطری خوبیوں کی راھنمائی کرنا یعنی ایک جملہ میں یوں کھا جائے کہ : دینی رھبری اور معنوی امور کی قیادت کےلئے عصمت اور خطا و گناہ سے پاک ھونے اور وسیع علم کا مالک ھونے کی ضرورت ھے کیونکہ لوگوں پر مکمل قیادت ، جس میں پیشوا کا قول و فعل لوگوں کے لئے ھادی و رھنما ھو ، اس کی مکمل پرھیزگاری (جسے عصمت کھتے ھیں ) اور وسیع علم پر منحصر ھے ۔

          دوسرے الفاظ میں : اسلامی معاشرے کے قائد کو احکام اور اصول و فروع دین پر مکمل دسترس ھونی چاھئے ، اس کے بغیروہ لوگوں کےلئے مکمل راھنما اور الٰھی رھبر نھیں بن سکتا ، اگلے صفحات میں ھم ثابت کریں گے کہ ھمہ گیر رھبری و رھنمائی عصمت کے بغیر ممکن نھیں ھے ۔

          قرآن مجید خدائے تعالیٰ کی طرف سے طالوت کو فرمان روائی کے عھدے کیلئے منتخب کرنے کا سبب دو چیزیں بیان فرماتا ھے:

          1۔ علم و دانش میں برتری

          2۔ جسمانی لحاظ سے طاقتور ھونا ، جس کی وجہ سے دن رات ، وقت بے وقت قوم کےلئے کام کرسکے اور قیادت  کی ذمہ داری سنبھال سکے (حکام کے لئے دوسری شرط زمانہ قدیم سے تجربہ کے ذریعہ ثابت ھوچکی ھے ، حتی یہ بات ضرب المثل بن گئی ھے کہ : صحیح عقل و فکر صحت مند بدن میں ھوتی ھے)اب یہ آیہ شریفہ ملاحظہ ھو :

(اِنَّ اللهَ اصْطَفَٰ-ہ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہ  بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ )

” انھیں ( طالوت کو ) الله نے تمھارے لئے منتخب کیا ھے اور ان کے علم و جسم میں وسعت فرمائی ھے “ (72)

امیر المؤمنین علیہ السلام جب اپنے سپاھیوں اور افسروں کو خطاب فرماتے تھے اور انھیں خدا کی راہ میں جھاد کرنے کی ترغیب و دعوت دیتے تھے تو اسلامی معاشرے کو ھر جھت سے ادارہ کرنے کی اپنی صلاحیت اور شائستگی بیان کرنے کےلئے اسی آیہ شریفہ سے استدلال کرتے تھے اور فرماتے تھے :

          لوگو! اس قرآن مجید کی پیروی کرو اور اس سے نصیحت حاصل کرو جسے خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر  پر نازل کیا ھے ھم قرآن مجید میں پڑھتے ھیں کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسیٰ (ع)کی وفات کے بعد اپنے پیغمبر سے درخواست کی کہ خداوند عالم ان کےلئے ایک حاکم و فرماں روا منتخب کرے جس کی رھبری میں وہ خدا کی راہ میں جھاد کریں ۔ خدائے تعالیٰ نے حضرت طالوت کو ان کی فرماں روائی کیلئے منتخب فرمایا، لیکن بنی اسرائیل نے ان کی اطاعت نھیں کی ، اور اس کام کےلئے ان کی صلاحیت اور شائستگی میں شک کرنے لگے ۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ ان لوگوں سے کھدو کہ اس منصب کےلئے طالوت کے انتخاب کا سبب علمی لحاظ سے ان کی برتری اور جسمی توانائی ھے۔

          لوگوا ! ان قرآنی آیات میں تم لوگوں کےلئے پند و عبرت پوشیدہ ھے ۔ خدا ئے تعالی نے اس لئے طالوت کو ان کےلئے حاکم اور فرمانروا قرار دیا تھا کہ وہ علم و جسمی توانائی میں ان سے برتر تھے اور وہ ان خصوصیات کی بنا پر جھاد و جد و جھد کرسکتے تھے(73)

          حضرت امام حسن مجتبیٰ  (ع)بھی اھل بیت رسول   کی خلافت و امامت کےلئے شائستگی ثابت کرنے

کے لئے تمام الھٰی احکام اور امت کی تمام ضرورتوں کے بارے میںان کے علم پر تکیہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں :

          لوگو! امت کے پیشوا ھمارے خاندان سے ھیں اور پیغمبر  کی جانشینی کی صلاحیت ھمارے علاوہ کوئی نھیں رکھتا ، خدا ئے تعالی ٰ نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر  کے ذریعہ ھمیں اس منصب کےلئے شائستہ قرار دیا ھے ، کیونکہ علم و دانش ھمارے پاس ھے ، اور ھم قیامت تک رونما ھونے والے ھر حکم ، حتی بدن پر لگی ایک معمولی خراش کے حکم سے بھی آگاہ ھیں(74)

 

 

دو منصبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا صحیح نھیں

          حاکمیت کو معنوی قیادت کے منصب سے جدا کرنا ایسی چیز نھیں ھے جو اھل سنت علماء کی تازہ فکری پیداوار ھو بلکہ یہ بھت پرانی تاریخ ھے۔

          اس کی وضاحت یہ ھے کہ سقیفہ کا ماجرا ختم ھوا اور حضرت ابو بکر نے امور اپنے ھاتہ میں لئے اور ظاھراً حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں میں ایک گروہ ایسا تھا ، جو امیر المؤمنین کو خلافت کے عھدے سے محروم کرنے پر سخت ناراض تھا ، کیونکہ جنگ تبوک (75)

کےلئے مدینہ سے باھر نکلتے وقت ، غدیر(76)کے دن اور اپنی بیماری (77) کے ایام میں پیغمبر اسلام  کے ارشادات بھی ان کے کانوں میں گونج رھے تھے۔

اس لئے کچھ حق پسند افراد اس ڈرامائی اندازمیں خلافت کے غصب کرنے پر سخت غصے میں آئے ، یہ لوگ کسی فریق کی طرفداری کئے بغیر خلیفہ کے پاس جاکر علی(ع)کے بارے میں سوال کرتے تھے ، خلیفہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نھیں تھا کہ دو منصبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ضروری ھے وہ کھتے تھے کہ ” منصب حکومت اور معنوی قیادت ھرگز ایک ساتھ ایک خاندان میں جمع نھیں ھوسکتے  “

 رسول خدا کا ایک صحابی بریدہ بن خصیب ، پیغمبر  کی رحلت کے وقت مدینہ سے باھر ماموریت پر گیا تھا ۔ وہ پیغمبر  کی رحلت کے بعد واپس مدینہ آیا اور اس نے حالات کو دگرگوں پایا، تو ایک پرچم حضرت علی(ع)کے دروازے پر نصب کرکے غصہ کی حالت میں مسجد میں داخل ھوا اور خلیفہ اور ان کے ھمفکروں کے ساتھ بحث کرتے ھوئے کھنے لگا :

’ ’ کیا تم لوگوں کو یاد نھیں ھے کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھم سب کو حکم دیا تھا کہ حاکم اور امیر المؤمنین کی حیثیت سے حضرت علی علیہ السلام کو سلام کرو اور کھو:” السلام علیک یا امیر المؤمنین  (78)  اب کیا ھوا ھے کہ تم لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت اور سفارش کو فراموش کر بیٹھے ؟

          خلیفہ نے ”بریدہ“ کے سوال کے جواب میں دونوں منصبوں کو جدا کرنے کا اپنا نظریہ بیان کرتے ھوئے کھا: خدائے تعالیٰ ھر دن ایک کام کے بعد دوسرا کام انجام دیتا ھے اور ایک خاندان میں نبوت (معنوی قیادت ) اور حکمرانی کو جمع نھیں کرتا ۔

          یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت(ع)یا امت کے معنوی پیشوا ھوں گے تا کہ احکام و شریعت الٰھی کو بیان کریں یا حکمراں ، یہ دونوں منصب ایک ساتھ جمع نھیں ھوسکتے ،

          خلیفہ کی بات پر ذرا دقت سے غور کریں ان کا مقصد یہ نظر نھیں آتا کہ یہ دو منصب ھر گز کبھی ایک ساتھ جمع نھیں ھوسکتے ، کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں منصبوں کے مالک تھے۔ آپ  مسلمانوں کے حاکم بھی تھے اور معنوی قائد بھی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ حضرت سلیمان (ع)جیسے دوسرے پیغمبر بھی ان دونوں عھدوں پر فائز تھے ۔

          یقینا ان کا مقصد یہ تھا کہ پیغمبر  کی رحلت کے بعد یہ دو مقام اور منصب آنحضرت  کے خاندان میں جمع نھیں ھوں گے ، لیکن یہ نظریہ بھی گزشتہ نظریہ کی طرح باطل اور بے بنیاد ھے ۔ لھذا جب حضرت امام باقر علیہ السلام اصحاب سقیفہ کے اس نظریہ ”جدائی“ کونقل کرتے تھے تو فوراً مندرجہ ذیل آیہ شریفہ ،__جو فرزندان ابراھیم میں ان دونوں منصبوں کے جمع ھونے کی حکایت کرتی ھے__ سے اس نظریہ کو باطل قرار دیتے تھے۔

          (اٴَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلٰی مَا ءَ اتَ-ٰ-ھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِہ فَقَدْ آتَیْنٰا ءَ الَ إِبْرَاھِیمَ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ آتَیْنَا ھُمْ مُلکاً عَظِیماً  ) (79)

          یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ھیں جنھیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بھت کچھ عطا کیا ھے تو پھر ھم نے آل ابراھیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم ( بڑی فرمانروائی ) سب کچھ عطا کیا ھے “

          امام باقر علیہ السلام نے مذکور آیہ شریفہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

” فکیف یقرّون فی آل ابراھیم و ینکرونہ من آل محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم“

پس یہ لوگ کس طرح ان دونوں منصبوں کے خاندان ابراھیم(ع)میں جمع ھونے کا اعتراف کرتے ھیں ، لیکن اسی چیز کے خاندان محمد  میں جمع ھونے کا انکار کرتے ھیں “

 

عیسائی تفکر

حقیقت میں ان دونوں منصبوں کا ایک دوسرے سے جدا ھونا ، ایک قسم کا عیسائی تفکر ھے جو اس نظریہ کے ھمفکروں کی زبان پر جاری ھوا ھے ۔ کیونکہ یہ موجودہ تحریف شدہ عیسائی دین ھے جو یہ کھتا ھے کہ میں اس امر پر ماٴمور ھوں کہ امور قیصر کو خود قیصر کو سونپ دوں ، لیکن دین اسلام کے تمام قوانین ایک مکمل مادی و معنوی ضابطہ حیات کی حکایت کرتے ھیں کہ جو بشر کی تمام سماجی ، اخلاقی ، سیاسی اور اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ھے ۔

          دین اسلام ، جس کی بنیاد اور احکام و قوانین کے تانے بانے انسانی سیاست یعنی اسلامی سماج کے امور کی تدبیر کو تشکیل دیتے ھیں اس میں معنوی رھبری کو حکومت اور فرماں روائی سے جدا نھیں کیا جاسکتا ھے۔

          بیشک اسلام میں لوگوں پر حکومت و فرماں روائی بذات خود مقصد نھیں ھے بلکہ اسلامی حاکم اس لحاظ سے اس منصب کو قبول کرتا ھے کہ اس کے سائے میں حق کو زندہ کرسکے اور باطل کو نابود کرے۔

          امیر المؤمنین علیہ السلام حکومت کو احیائے حق کا وسیلہ جاننے کے بجائے خود حکومت کو مقصد قرار دئےے جانے پر اعتراض کرتے ھوئے  فرماتے ھیں :

” و انّ دنیاکم ھذہ ازھد عندی من عفطة عنز“ (80)

یعنی تم لوگوں کی دنیا اور یہ حکومت جس کےلئے ھاتہ پاؤں ماررھے ھو ، میری نظر میں بکری کی ناک سے بھنے والے پانی کے برابر بھی قدر و قیمت نھیں رکھتے ۔

          ماضی اور حال کے کچھ روشن خیال افراد یہ سوچتے ھیں کہ شیعہ و سنی کے درمیان اتحاد کا طریقہ یہ ھے کہ ان دو منصبوں کو خلفاء اور اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تقسیم کردیا جائے ، حکومت اور فرماں روائی کو خلفاء کا حق اور معنوی قیادت کو اھل بیت علیھم السلام کا حق جان لیں ۔ اس طرح اس چودہ سو سالہ جھگڑے کو ختم کردیں اور مسلمانوں کو مشرق و مغرب کی دو سامراجی طاقتوں کے خلاف متحد و طاقتور بنائیں۔

          لیکن یہ نظریہ بھی غلط ھے کیونکہ اس طرح اس اتحاد کی بنیاد ایک غلط نظریہ پر قائم ھوگی جس سے ایک قسم کی عیسائیت اور سیکولرزم کی بو آتی ھے ۔ ھم قرآن مجید کے واضح حکم کے خلاف ان دو منسبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے اسے قربانی کے گوشت کی طرح کیوں تقسیم کریں ؟!

          مسلمانوں کے درمیاں اتحاد و یکجھتی کےلئے دوسرا راستہ موجود ھے اوروہ ایسے مشترکات ھیں جو دونوں فرقوں میں پائے جاتے ھیں ۔ کیونکہ سب ایک کتاب ، ایک پیغمبر اور ایک قبلہ کی پیروی کرتے ھیں اور بھت سے اصول و فروع میں اتفاق نظر رکھتے ھیں ، لھذا دوسرے مسائل میں اختلاف آپس میں ٹکراؤ  اور خوں ریزی کا سبب نھیں ھونا چاھیے ۔لیکن سیاسی  اتحاد و یکجھتی کے تحفظ کے ساتھ ھر فرقہ کو اپنے عقائد کے صحیح اور منطقی دفاع کا پورا پورا حق ھونا چاھئے اور اپنے عقائد کے دفاع کے ساتھ ساتھ اپنے مشترک دشمن ( سامراج اور صیھونزم) کے خلاف دیگر مسلمانوں کے ساتھ اتحاد و یکجھتی کی ضرورت کو فراموش نہ کرنا چاھئے ۔


پندرھویں فصل

اسلامی احکام سے خلفاء کا ناآشنا ہونا

          گزشتہ گفتگو سے یہ پوری طرح ثابت ھوا کہ ایک مکمل مذھبی قیادت کےلئے دین کے اصول و فروع سے متعلق وسیع علم اور اسلامی معاشرہ کی ضرورتوں سے مکمل آگاھی ضروری ھے اور اس طرح کی مکمل آگاھی کے بغیر مذھبی قیادت ممکن نھیں ھے ۔

          کیونکہ بشر کی تخلیق کا مقصد یھی ھے کہ وہ شریعت الٰھی پر عمل کرتے ھوئے اور ارتقاء و کمال تک پھنچنے اورپیغمبروں کے بھیجے جانے اور شرعی وقوانین کے نفاذ کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ نھیں کہ انسان کو گمراھیوں سے بچا لیا جائے اور اسے کمالات و فضائل  کی طرف رھنمائی کی جائے۔ الٰھی قوانین پر عمل کرتے ھوئے ترقی کی منزلیں طے کرنا اس صورت میں ممکن ھے جب الٰھی فرائض و احکام بندوں کی دسترس میں ھوں تا کہ کمال کی راہ  طے کرنے والوں کےلئے کوئی عذرو بھانہ باقی نہ رھے یا ان کی راہ سے رکاوٹیں دور کی جائیں۔

          تمام احکام تک رسائی حاصل کرنے کےلئے شرط ھے کہ پیغمبر کے بعد لوگوں میں کوئی ایسا شخص موجود ھو جو سماج کی دینی ضرورتوں سے پوری طرح آگاہ ھو۔ تا کہ لوگوں کو ارتقاء و کمال کا راستہ اور صراط مستقیم دکھائے اور تخلیق کے مقاصد کو صحیح ثابت کرنے میں ذرا بھی غفلت سے کام نہ لے ۔

          خلفائے ثلاثہ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے واضح ھوتا ھے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان خصوصیات کا حامل نہ تھا اور احکام و لوگوں کی دینی ضروریات کے بار ے میں ان کے معلومات بھت ضعیف تھے۔

          قرآن مجید کے بعد اسلامی معاشرہ کو ارتقاء بخشنے کا واحد راستہ سنن و احادیث پیغمبر  سے آگاھی ھے کہ ان کا اعتبار اور حجیت تمام مسلمانوں کی نظر میں مسلّم ھے ۔ قرآن مجید نے بھی بھت سی آیات میں سنّت اور احادیث پیغمبر  پر عمل کو ضروری قرار دیا ھے مثال کے طور پر درج ذیل آیہ شریفہ ملاحظہ ھو:

          (مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہ فَانْتَھُوا ) (81)

” جو رسول   تمھیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ“

          لیکن مذکورہ خلفاء اسلامی احکام کے بارے میں کوئی نمایاں آگاھی نھیں رکھتے تھے اور ان ناقص اور معمولی معلومات کے ذریعہ انسانی قافلہ کو ھرگز کمال کی منزل تک نھیں پھنچایا جاسکتا ھے ، جس کےلئے خود اسلامی احکام پر عمل پیرا ھونا لازم ھے۔

          احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں جو روایتیں حضرت ابو بکر سے نقل کی ھیں ان کی کل تعداد 80 احادیث سے زیادہ نھیں ھے (82) جلال الدین سیوطی نے انتھائی کوشش کرکے ان کی تعداد 104 تک پھنچائی ھے (83)

          سر انجام حضرت ابوبکر سے نقل کی گئی روایتوں کی آخری تعداد 142 بتائی گئی ھے (84)  ان میں سے بھی بعض روایتیں نھیں ھیں بلکہ یہ باتیں ھیں جو ان سے نقل کی گئی ھیں مثلا ایک حدیث جو ان سے نقل کی گئی ھے اور انھی 142 احادیث میں شمار ھوتی ھے یہ جملہ ھے :

” ان رسول اللّٰہ اھدی جملاً لاٴبی جھل“

یعنی پیغمبر نے ابو جھل کو ایک اونٹ ھدیہ کے طور پر دیا “

          اس کے علاوہ ان سے نقل کی گئی کئی احادیث قرآن مجید اور عقل کے منافی ھیں مثلاً درج ذیل دو حدیثیں ملاحظہ ھوں:

1۔ ”ان المیت ینضح علیہ حمیم ببکاء الحی “

یعنی ، زندہ لوگوں کے رونے سے مردے پر گرم پانی ڈالا جاتا ھے ۔

واضح ھے کہ اس حدیث کا مضمون چند لحاظ سے مردود ھے :

اولاً: میت پر معقول رونا ، انسانی جذبات کی علامت ھے اور پیغمبر اکرم  نے اپنے بیٹے حضرت ابراھیم (ع)کے سوگ میں شدت سے آنسو بھائے تھے اور فرماتے تھے :

” پیارے ابراھیم ! ھم تیرے لئے کچھ نھیں کرسکتے ، تقدیر الٰھی ٹالی نھیں جاسکتی ، تیری موت پر تیرے باپ کی آنکھیں اشک بار ھیں اور اس کا دل محزون ھے ، لیکن میں ھرگز ایسی بات زبان پر جاری نھیں کروں گا قھر خدا کا سبب  بنے ۔(85)

جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ”جنگ مؤتہ “ میں ” جعفر ابن ابو طالب “ کی شھادت کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو آپ  اس قدر روئے کہ آپ کی ریش مبارک پر آنسو جاری ھوگئے تھے (86)

دوسرے یہ کہ ھم فرض بھی کرلیں کہ اس قسم کا رونا صحیح نہ ھوگا، تو آخر کسی ایک کے عمل سے دوسرا کیوں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔ قرآن مجید فرماتا ھے :

(وَ لاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وَزْرَ اُخْرَیٰ )(87)  اور کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجہ نہ اٹھائے گا ۔

پھر ابو بکر کے نقل کے مطابق پیغمبر اکرم  نے یہ کیسے فرما دیا کہ کسی کے رونے سے ، ایک بے بس مردہ عذاب میں مبتلا ھوگا؟!

2۔ ”انما حرّ جھنمّ علی امتی مثل الحمّام“

یعنی ، میری امت کےلئے جھنم کی گرمی حمام کی گرمی کے مانند ھے۔

          یہ بیان گناھگاروں کے گستاخ ھونے کا سبب بننے کے علاوہ ، جھنم کے بارے میں قرآن مجید میں بیان شدہ نصوص کے بالکل خلاف ھے ۔ جیسے ” وقودھا الناس و الحجارة “ اس کا ایندھن پتھر اور انسان ھیں اور اس آگ کے کوہ پیکر شعلے بیدار دلوں کو پگھلادیتے ھیں

          بھر حال جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا  ، جو احادیث حضرت ابو بکر سے نقل ھوئی ھیں وہ یا ان کے معمولی بیانات ھیں یا وہ چیزیںھیں جو عقل و قرآن مجید سے ٹکراؤ رکھتی ھیں ۔ اور جسے حدیث کا نام دیا جائے ان میں بھت کم ملتی ھے۔

          ظاھر ھے کہ ایسا شخص ، ان ضعیف اور ناچیز معلومات کے ساتھ اسلامی معاشرے کو ارتقا اور کمال کی طرف رھنمائی نھیں کرسکتا اور امت کی ضروریات کو پورا نھیں کرسکتا ۔

          خلیفہ ، خود اپنے ایک بیان میں اپنی معلومات سے پردہ اٹھاتے ھوئے کھتے ھیں :

”انّی ولیت و لست بخیرکم و ان راٴیتمونی علی الحق فاٴعینونی و ان راٴیتمونی علی الباطل فسدونی  (88)

           اے لوگو ! تمھارے امور کی باگ ڈور میرے ھاتہ میں دیدی گئی ھے ، جبکہ میں تم میں سے بھترین فرد نھیں ھوں ، اگر تم لوگ مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر مجھے باطل پر دیکھو تو میری مخالفت کرو اور مجھے اس کام سے روکو“

دین و مذھب کے قائد کو جس کے نقش قدم پر اسلامی معاشرے کو چلنا ھے دینی مسائل میں امت سے مدد کا محتاج نھیں ھونا چاھئے ۔ یہ ھرگز مناسب نھیں ھے کہ دینی قائد بجائے اس کے کہ امت کو تخلیق کے مقصد کی طرف راھنمائی کرے اپنی غلطیاں اور گمراھیاں سدھارنے کےلئے امت سے مدد مانگے ۔

 

خلیفہ اول کی لاعلمی کے چند نمونے

          یھاں پر ھم خلیفہ کے معلومات سے متعلق چند نمونے پیش کرتے ھیں جو بذات خود دینی مسائل کے بارے میں ان کے معلومات کی سطح کے گواہ ھیں ۔ یہ نمونے اس امر کی حکایت کرتے ھیں کہ وہ بھت سے روز مرہ کے مسائل کے جواب سے بھی ناواقف تھے:

          1۔ ”دادی“ کی وراثت کا مسئلہ عام مسائل میں سے ھے خلیفہ اس کے بارے میں آگاھی نھیں رکھتے تھے ۔ ایک عورت کا پوتا فوت ھوگیا تھا اور اس نے اس سلسلے میں ان سے حکم خدا پوچھا ، انھوں نے جواب دیا کہ : کتاب خدا اور پیغمبر  کے ارشادات میں اس بارے میں کچھ بیان نھیں ھوا ھے ۔ اس کے بعد اس عورت سے کھا: تم جاؤ ، میں رسول خدا  کے صحابیوں سے پوچھوں گا کہ کیا انھوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ سنا ھے ؟! مغیرة بن شعبہ جو اسی مجلس میں موجود تھا ، اس نے کھا : میں پیغمبر خدا  کی خدمت میں تھا، آپ  نے دادی کےلئے میرا ث میں سے 3/1 حصہ مقرر فرمایاتھا ۔  (89)

          خلیفہ کی لاعلمی زیادہ تعجب خیز نھیں ھے بلکہ تعجب اس بات پر ھے کہ اس نے مغیرہ جیسے آلودہ اور بد کردار شخص سے حکم الھی سیکھا ۔

          2۔ ایک ایسا چور خلیفہ کے پاس لایا گیا جس کا ایک ھاتہ اور ایک پاؤں کاٹا جاچکا تھا ، انھوں نے حکم دیا اس کا پاؤں کاٹ دیا جائے ، خلیفہ دوم نے اشارہ کیا کہ ایسے موقع پر سنت پیغمبر  یہ ھے کہ ھاتہ کاٹا جائے ، اس پرخلیفہ نے اپنا نظریہ بدل دیا اور خلیفہ دوم کے نظریہ کی پیروی کی (90)

ان دونمونوں سے فقہ اسلامی کے بارے میں خلیفہ کی معلومات کے کمی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ھے اور واضح ھے کہ اس قدر معلومات کے فقدان اور مغیرہ جیسے افراد سے رجوع کرنے والے شخص کے ھاتھوں میںمعاشرے کی معنوی قیادت کی باگ ڈور ھرگز نھیں  دی جاسکتی ھے جس کی بنیادی شرط اسلامی احکام سے متعلق وسیع معلومات کا حامل ھونا ھے۔

 

خلیفہ دوم کی معلومات کا معیار

          حضرت عمر نے جن احادیث کو پیغمبر  سے نقل کیا ھے ان کی تعداد پچاس سے زیادہ نھیں ھے ۔ درج ذیل داستان خلیفہ دوم کے فقھی معلومات کی سطح کی صاف گواہ ھے :

          1۔ ایک شخص نے حضرت عمر کے پاس آکر ان سے دریافت کیا: مجنب ھوں اور پانی تک رسائی نھیں حاصل کرسکا۔ ایسے میں میرا فریضہ کیا ھے ؟

          حضرت عمر نے جواب دیا: تم سے نماز ساقط ھے ، خوشبختی سے ” عمار “ اس جگہ موجود تھے انھوںنے خلیفہ کی طرف رخ کرکے کھا: یاد ھے کہ ایک جنگ میں ھم دونوں مجنب ھوئے تھے اور پانی نہ ھونے کی وجہ سے ، میں نے مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھی تھی ، لیکن تم نے نماز نھیں پڑھی تھی ؟ جب پیغمبر  سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ  نے فرمایا: کافی تھا اپنے ھاتھوں کو زمین پر مارکر چھرے پر ملتے یعنی تیمم کرتے ۔

          خلیفہ نے عمار کی طرف رخ کرکے کھا: خدا سے ڈرو ؟ ( یعنی اب اس بات کو بیان نہ کرنا )

عمار نے کھا: اگر آپ نھیں چاھتے تو میں اس واقعہ کو کھیں بیان نھیں کروں گا  (91)

          یہ واقعہ اھل سنت کی کتابوں میں مختلف صورتوں  میں نقل ھوا ھے اور یہ تمام صورتیںاس امر کی حکایت کرتی ھیں کہ خلیفہ دوم مجنب کے بارے میں جس کے پاس پانی نہ تھا حکم الٰھی سے بے خبر تھے۔

          قرآن مجید نے دو سوروں (92)  میں ایسے شخص کا فریضہ بیان کیا ھے ۔لیکن ایسا لگتا ھے کہ قرآن مجید کی یہ دو آیتیں خلیفہ کے کانوں تک نھیں پھنچی تھیں !

          ایسا شخص جو بارہ سال تک کوشش کے بعد صرف سورہ بقرہ یاد کر سکے اور اس کے شکرانہ کے طور پر قربانی کرے(93)  ، بھلا وہ کس طرح ان آیات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ھے ؟!

          2۔ شکیات نماز کے احکام ایسے احکام ھیں جن کی ھر مسلمان کو ضرورت ھوتی ھے ، بھت کم ایسے متدین افراد پیدا ھوں گے جو ان احکام سے آشنائی نہ رکھتے ھوں اب ذرا دیکھئے کہ اس سلسلے میںخلیفہ کی معلومات کس سطح کی تھی ؟

          ابن عباس کھتے ھیں : ایک دن حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنی نماز کی تعداد کے بارے میں شک کرے تو اس کا فریضہ کیا ھے ؟ میں نے خلیفہ کو جواب دیا کہ : میں بھی اس مسئلہ کے حکم سے واقف نھیں ھوں ، اسی اثنا میںعبد الرحمان بن عوف آئے اور انھوں نے اس سلسلے میں رسول خدا  کی ایک حدیث بیان کی (94)

          شاید اس سلسلے  میں ابن عباس کاجواب سنجیدہ نہ تھا ، اور اگر رھا بھی ھو تو بھی خلیفہ کی ایسے موضوع کے سلسلہ میں نا آگاھی واقعاً حیرت انگیزھے !!

          3۔مستحب ھے کہ عورتوں کا مھر چار سو دینار  سے زیادہ نہ ھو ، حتی حدیث کی اصطلاح میں فقھا اسے ” مھر السنة“ کھتے ھیں ، لیکن اس کے باوجو د ھر فرد اپنی شریک حیات کی رضا مندی حاصل کرنے کےلئے اس سے زیادہ مھر مقرر کرسکتا ھے۔

          ایک دن خلیفہ نے منبر سے مَھر زیادہ ھونے کے خلاف تنقید کی اور اس مخالفت کا اس حد تک اظھار کیا کہ اعلان کردیا کہ مھر کی زیادتی منع ھے ۔ جب خلیفہ منبر سے نیچے اترے تو ایک عورت نے سامنے آکر ان سے سوال کیا : آپ نے عورتوں کے مھر میں اضافہ پر پابندی کیوں لگا دی ، کیا خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ نھیں فرمایا ھے :

          (وَ آتَیْتُمْ اِحْدیٰھُنَّ قِنطَاراً )  (95)

اگر عورتوں میں سے ایک کو زیادہ مال دیدیا ھے تو حرج نھیں ھے “

          اس وقت خلیفہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور بارگاہ الٰھی میں رخ کرکے کھا : ” خدا یا ! مجھے بخش دے اور اس کے بعد کھا: تمام لوگ احکام الٰھی کے بارے میں عمر سے زیادہ واقف ھیں (96)  اس کے بعد دوبارہ منبر پر جا کر اپنی بات کی تردید کردی (97)

          4۔ شاید ھی کوئی ایسا شخص ھوگا جو یہ نہ جانتا ھو کہ الٰھی فرائض کی انجام دھی کےلئے عقل ، طاقت اور بلوغ شرط ھے ۔ اس کے باوجود ، حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں ایک پاگل عورت کو بد0 کاری کے جرم میں خلیفہ کے حضور میں لایا گیا اور انھوں نے حکم صادر کردیا کہ اسے سنگسار کیا جائے ۔ خوشبختی سے جب ماٴمور اسے سنگسار کرنے کےلئے لے جارھے تھے ،حضرت علی(ع)سے ملاقات ھوگئی ۔ امام جب حقیقت سے آگا ہ ھوئے تو انھیں واپس لوٹنے کا حکم دیا ۔ جب خلفیہ کے پاس پھنچے تو ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: کیا تمھیں یاد نھیں ھے پیغمبر اکرم  نے فرمایا ھے : نابالغ ، پاگل اور ..پر سے  فرائض معاف کردیے گئے ھیں ؟

اس پر حضرت عمر نے ایک تکبیر کھی اور اپنا حکم واپس لے لیا ۔

اس قسم کے ناحق فیصلے خلیفہ دوم کی زندگی کی تاریخ میں بھت  ملتے ھیں ۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر کی چھٹی جلد میں احکام اسلام کے بارے میںخلیفہ کی نا آگاھی کے سو واقعات مستند حوالوں کے  ساتھ ذکر کئے ھیں اور ان کا نام ” نوادر الاٴثر فی علم عمر “ رکھا ھے ۔

          ان امور کے جائزہ سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ اسلامی معاشرے کی قیادت ھرگز ایسے فرد کے ھاتھوں میں نھیں دی جا سکتی ھے جو کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کے سلسلے میں اتنا بھی نھیں جانتا ھو کہ دیوانہ اور پاگل پر کوئی فریضہ عائد نھیں ھوتا۔

          کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ لوگوں کی ناموس اور اسلامی سماج کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ھاتھوں میں دے دی جائے جو عاقل اور دیوانہ میں فرق نہ کرسکتا ھو؟

          کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ خدائے عادل لوگوں کی جان و مال کو ایک ایسے شخص کے سپرد کردے جو یہ بھی نہ جانتا ھو کہ عورت چہ ماہ میں بچے کو جنم دے سکتی ھے اور ایسی عورت پر بدکاری کی تھمت نھیں لگائی جاسکتی اور نہ اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا جا سکتا ھے ؟   (98)

 

خلیفہ ٴ سوم کے معلومات کا معیار

          الٰھی احکام کے بارے میں تیسرے خلیفہ کے معلومات بھی گزشتہ دو خلفاء سے زیادہ نھیں تھے ۔ ان کے ذریعہ پیغمبر  سے نقل کی گئی احادیث کی کل تعداد 146 سے زیادہ نھیں ھے (99)

           اسلام کے اصول و فروع کے سلسلے میں حضرت عثمان کی آگاھی بھت کم اور ناچیز تھی قارئین کرام کی آگاھی کےلئے اسلامی تعلیمات سے ان کی بے خبری کے سلسلہ میں صرف ایک اشارہ پر اکتفا کی جاتی ھے :

          اسلام کے واضح احکام میں سے ایک حکم یہ ھے کہ مسلمان اور کافر کا خون برابر نھیں ھے اور پیغمبر اسلام  نے اس سلسلے میں فرمایا ھے :

          ”لا یقتل مسلم بکافرٍ“

          کافر کو قتل کرنے پر مسلمان کو قتل نھیں کیا جاسکتا ، بلکہ قاتل دیت ادا کرے گا ۔

          لیکن افسوس ھے کہ خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران جب ایک ایسا واقعہ پیش آیا تو خلیفہ نے قاتل کو قتل کرنے کا حکم صادر کردیا پھر بعض اصحاب رسول  کی یاد دھانی پر اپنے حکم کو بد لا (100)

          خلیفہ سوم کی زندگی میں ایسے بھت سے نمونے ملتے ھیں ۔ بیان کو مختصر کرنے کیلئے ھم ان کی تفصیلات سے صرف نظر کرتے ھیں اور ایک بار پھر بحث کے نتیجہ کی طرف آتے ھیں:

          امت اسلامیہ کی مذھبی قیادت کےلئے الٰھی احکام سے متعلق وسیع علم اور معلومات کا مالک ھونا شرط ھے اور ایسا علم عصمت یعنی گناھوں سے محفوظ رھے بغیر ممکن نھیں ھے اور افسوس ھے کہ پھلے تینوں خلفاء اس لطف الٰھی سے محروم تھے۔


سولھویں فصل

پیغمبر  کے صحابی ، گناہ و خطا سے معصوم نھیں

          شاید مھاجرین و انصارکے ایک گروہ پرھماری تنقید سُنی برادری کے بعض افراد کیلئے تعجب کا سبب بنے اور یہ سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ھے ان حضرات کے قول و فعل کی عیب جوئی کرکے ان کو خطاکار قرار دیاجائے جبکہ قرآن مجید نے دو موقعوں پر ان کی ستائش کی ھے :

( وَالَسَّابِقُونَ الاٴَوَّلُونَ مِنَ المُھٰاجِرِینَ وَ الْاٴَنْصَارِ وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوھُمْ بِإِحْسَٰنٍ رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَ رَضُوا عَنْہ وَ اٴَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَھَا الاٴَنْھَارُ خٰلِدِینَ فِیھٰآ اٴَبَداً ذٰلِکَ الْفَوزُ الْعَظِیمُ)

” اور مھاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں  نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ھے ، ان سب سے خدا راضی ھوگیا ھے اور یہ سب خدا سے راضی ھیں اور خدا نے ان کےلئے وہ باغات مھیّا کئے ھیں جن کے نیچے نھریں جاری ھیں اور یہ ان میں ھمیشہ رھنے والے ھیں اور یھی بھت بڑی کامیابی ھے“ (101)

          2۔ ایک دوسر ے سورہ میں ان افراد کے بارے میں ، جنھوں نے سرزمین ” حدیبیہ پر ایک درخت کے سایہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیعت کی تھی ، یوں فرمایا ھے :

 (لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبٰایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِھِمْ فَاٴَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْھِمْ وَ اٴَثَابَھُمْ فَتْحاً قَرِیباً)

” یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ھوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ  کی بیعت کررھے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکہ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان سب پر سکون نازل کردیا اور انھیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی“  (102)

          خلاصہ : پھلی آیہ کریمہ میں خدائے تعالیٰ مھاجرین و انصار میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ھے جو دوسرے لوگوں سے پھلے اسلام لائے اس کے بعد ان افراد کی بھی تعریف کرتا ھے جنھوں نے ان میں سے کسی ایک کی پیروی کی ھو۔

          دوسری آیہ شریفہ میں ، خداوند کریم ان افراد کے بارے میں رضا مندی اور خوشنودی کا اظھار کرکے انھیں آرام و سکون اور فتح مکہ کی بشارت دیتا ھے ، جنھوں نے ساتویں ھجری کو سرزمین ” حدیبیہ“ پر پیغمبر  کی بیعت کی تھی۔

          خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس ستائش اور اظھار خوشنودی کے ھوتے ھوئے کس طرح ممکن ھے کہ پیغمبر اکرم  کی رحلت کے بعد رسول کے اصحاب اپنے فیصلوں میں خطا یا گناہ کے مرتکب ھوتے ھوں ؟!

          مذکورہ بالا آیات کے مقاصد کی وضاحت کرنے سے پھلے ایک مطلب کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے اور وہ یہ ھے کہ اھل سنت کے علماء نہ فقط ان دو گروھوں ( مھاجرین و انصار اور تابعین) کو __جن کے بارے میں ان دو آیتوں میں اشارہ ھوا ھے__عادل اور پاک دامن جانتے ھیں بلکہ ان کی اکثریت کا اعتقاد یہ ھے کہ تمام اصحابِ رسول  عادل ، منصف ، متقی اورپرھیزگار تھے ۔ مگر یہ کہ کسی ایک کے بارے میں کسی واقعہ میں فسق و انحراف ثابت ھوجائے ۔

مختصر یہ کہ جس کسی نے پیغمبر اسلام  کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ھے اسے عادل اورپاک دامن جاننا چاھئے ، مگر یہ کہ اس کے برخلاف کچھ ثابت ھوجائے۔

          اس جملہ کا مفھوم یہ ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابیوں جن کی تعدا د ایک لاکہ سے زیادہ ھے ، کے تانے بانے ھی جدا ھیں ، یعنی جوں ھی کوئی فرد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم    کے حضور مشرف ھوتا تھا ، ایک روحانی انقلاب پیدا کرکے اس لمحہ کے بعد اپنی پوری زندگی میں صحیح ، عادل اور پاک دامن ھونے کی سند حاصل کرلیتا تھا۔

          صحابیوں کے بارے میں ایسی بات کھنا ، ان میں سے ایک گروہ کی بد کرداری پر پردہ ڈالنے کے مترادف ھے ، کیونکہ ایسے افراد کا ضعیف عمل اور بعض مواقع ، جیسے ، جنگ احد و جنگ حنین میں ان کا فرار کرنا ان کے ایمان میں کمزوری خود رسالت مآب اور آپ  کے عالی مقاصد کے تئیں ان کی بے توجھی کی واضح دلیل ھے قارئین کرام جنگ ” احد“ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کی بے وفائی کے بارے میں نازل شدہ آیات کی تحقیق کرکے حقیقت کو بخوبی محسوس کرسکتے ھیں ۔

          یہ کس طرح کھا جاسکتا ھے کہ تمام صحابی عادل اورپاک دامن تھے ، جبکہ قرآن مجید ان کے ایک گروہ کے حلقہ منافقین میں ھونے کے بارے میں یوں فرماتا ھے :

          (وَ اِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُہ إلَّا غُرُوراً )

          ” اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں  مرض تھا ، یہ کھہ رھے تھے کہ خدا اور اس کے رسول نے ھم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سراسر دھوکہ ھے “  (103)

          کیا ایسی بات کھنے والوں کو عادل و منصف کھا جاسکتا ھے ؟ جبکہ ایسا کھنے والے کو حقیقی مسلمان بھی نھیں کھا جاسکتا ھے۔

          قرآن مجید صحابہ کے ایک گروہ کا تعارف ” سمّاعون“ کی حیثیت سے کراتا ھے ۔

          اس لفظ سے مراد و ہ افراد تھے جو منافقین کی باتوں کو فوراً قبول کرلیا کرتے تھے ، فرماتا ھے :

( لَوْ خَرَجُوا فِیکُمْ مٰا زَادُوکُمْ إِلَّا خَبَالاً وَلاََوْضَعُوا خِلَٰ-لَکُمْ یبْغُونَکُمُ الْفِتْنَةَ وَ فِیکُمْ سَمَّٰعُونَ لَھُمْ وَ اللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ) 

          اگر یہ ( منافقین ) تمھارے ساتھ نکل بھی پڑتے تو تمھاری وحشت میں اضافہ ھی کرتے اور تمھارے درمیان فتنہ کی تلاش میں گھوڑے دوڈاتے پھرتے اور تم میں ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی باتوں کو خوب سننے والے تھے اور الله تو ظالمین کو اچھی طرح جانتا ھے ۔ (104)

          اس گروہ کے تمام افراد کو کیسے عادل و پاک دامن جانا جاسکتا ھے ،جبکہ خالد بن ولید ( بعض اھل سنت مصنفین کے عقیدہ کے مطابق اس نے پیغمبر  سے ” سیف اللہ “ کا لقب حاصل کیا تھا ) فتح مکہ کے سال ایک خطر ناک جرم کا مرتکب ھوا اور قبیلہ ” بنی خزیمہ'' کی ایک جماعت کو ضمانت اور عھد وپیمان کے بعد دھوکہ و فریب سے قتل عام کرڈالا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس مجرمانہ حرکت کی خبر سنی تو قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ھوئے اور اپنے ھاتھوں کو بلند کرکے ”استغاثہ'' کی حالت میں فرمایا :

” اللھم انّی اٴبرءُ الیک ممّا صنع خالد بن ولید“

خدا ! جو کچھ خالد بن ولید نے انجام دیا ھے ، میں اس سے بیزار ھوں ۔ (105)

          اس نام نھاد ” سیف اللہ “ کے کارناموں کی سیاہ فائل یھیں پر بند نھیں ھوتی  بلکہ پیغمبر اسلام  کی رحلت کے بعد مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلہ کے ساتھ کئے گئے اس کے بھیمانہ جرائم تاریخ کے صفحات میں ضبط ھوچکے ھیں ۔ اس نے مالک کو__جو ایک مسلمان تھا__قتل کرڈالا اور اس کی بیوی کے ساتھ اسی شب اپنا منہ کالا کیا۔

 

حق و باطل پھچاننے کا راستہ

          اصولی طور پر یہ سب سے بڑی غلطی ھے کہ ھم حق و باطل کو افراد کے ذریعہ پھچانیں اور ان کی رفتار و گفتار کی حقانیت کےلئے ان کی شخصیت کو معیار قرار دیں ، جبکہ ایک شخص کا عقیدہ اور قول و فعل اس کی حقانیت کی علامت ھوتا ھے ، نہ کہ بر عکس۔

          ” بریٹنڈرسل “ علم ریاضی کا ایک بڑا دانشور ھے اور ریاضیات میں اس کے نظریے نمایاں اور علماء کے لئے قابل قبول ھیں ، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ملحد ھے اور خدا و الھی مقدسات کا منکر شمار ھوتا ھے ، وہ اپنی کتاب ” میں کیوں عیسائی نھیں ھوں“ میں خدا پرستوں کے دلائل سے ناواقفیت  کے سبب صراحت کے ساتھ لکھتا ھے :

” میں ایک زمانے میں خدا پرست تھا اور اس کی بھترین دلیل ” علة العلل“ جانتا تھا لیکن بعد میں اس عقیدہ سے پھر گیا ۔ کیونکہ میں نے سوچا اگر ھر چیز کےلئے ایک علت اور خالق کی ضرورت ھے تو خدا کےلئے بھی ایک خالق ھونا چاھئے “ (106)

          کیا عقل ھمیں اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ ” رسل“ کی شخصیت کو خدا کے بارے میں اس کے فاسد  فلسفی نظریہ__جبکہ کائنات کے تمام ذرات خدا کے وجود کی گواھی دیتے ھیں__ کے  صحیح ھونے کی بنیاد قرار دیں ؟ واضح ھے کہ ھمیں اپنے فیصلوں میں افراد کی علمی و سیاسی شخصیت سے متاٴثر نھیں ھونا چاھئے اور ان کے افکار و اعتقادا اور قول و فعل کو ھر طرح کے حب و بغض سے اوپر اٹھ کر صرف عقل و منطق کے معیار پر تولنا چاھئے۔

          یھاں مناسب ھے کہ ھم اس موضوع کے بارے میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے پائیدار اور مستحکم نظریہ کی طرف بھی اشارہ کردیں۔

          جنگِ جمل میں کچھ لوگ حضرت علی(ع)کے طرفدار اور کچھ لوگ طلحہ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ کے طرفدار تھے ۔ اس حالت میں دو دلی کا شکار ایک آدمی جو حضرت علی(ع)کی عظیم شخصیت سے بھی آگاہ تھا، آگے بڑھا اور بولا :

          کیسے ممکن ھے کہ یہ لوگ باطل پر ھوں ، جبکہ ان کے درمیان طلحہ ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ جیسی شخصیتیں موجود ھیں ، کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ان افراد نے باطل کا راستہ اختیار کیا ھوگا ؟!

          امیر المؤمنین(ع)نے اس کے جواب میں ایک ایسی بات بیان فرمائی کہ مصر کا مشھور دانشور ڈاکٹر طہٓ حسین اس کے بارے میں کھتا ھے :

” وحی کا سلسلہ بند ھونے کے بعد انسان کے کانوں نے اب تک ایسی با عظمت بات نھیں سنی ھے “

          امام(ع)نے فرمایا:

”انک لملبوس علیک، ان الحق و الباطل لا یعرفان باٴقدار الرجال ، اعرف الحق تعرف اھلہ ، اعرف الباطل تعرف اٴھلہ “

          یعنی ، تم نے حق و باطل کو پھچاننے کے معیار میں غلطی کی ھے ۔ حق و باطل ھرگز افراد کے ذریعہ نھیں پھچانے جاتے ، بلکہ پھلے حق کو پھچاننا چاھئے پھر اھل حق کو پھچانا جاسکتا ھے ، پھلے باطل کو پھچاننا چاھئے پھر اھل باطل کی تمیز دی جاسکتی ھے ۔

          امیر المؤمنین کی یہ عظیم فرمائش __ کہ بقول ڈاکٹر طھٓ حسین ، وحی الٰھی کے بعد انسان کے کانوں نے ایسا کلام نھیں سنا ھے__ بعض سنی علماء کے اس اصول کو پوری طرح بے بنیاد ثابت کرتا ھے کہ پیغمبر اسلام  کے تمام اصحاب عادل ھیں ۔

          اب ھم یھاں پر قرآن مجید کی مذکورہ بالا دو آیتوں کے سلسلہ میں بحث کرتے ھیں۔

          اس میں کوئی شک نھیں کہ پھلی آیت اس امر کی حکایت کرتی ھے کہ خدائے تعالیٰ دو گروھوں سے راضی ھوا ھے اور اس نے اپنی بھشت کو ان کےلئے آمادہ کیا ھے ۔ یہ دو گروہ حسب ذیل ھیں :

1۔ مھاجریں و انصار کا ایک گروہ ، جنھوں نے ایمان اور اسلام لانے میں دوسرے لوگوں پر سبقت حاصل کی ھے اور نازک لمحات میں دین کی راہ میں قربانیاں دی ھیں ۔

2۔ وہ لوگ جنھوں نے شائستہ طورپر مھاجریں و انصار کی پیروی کی ھے ۔

قرآن مجید نے پھلے گروہ کے بارے میں ( السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ) اور دوسرے گروہ کے بارے میں (وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوھُمْ بِاِحْسان ) کی اصطلاح استعمال کی ھے ۔

          لیکن قابل غور امر یہ ھے کہ کیا ، جو چیز ان سے خدا کی خوشنودی و رضا مندی کا سبب بنی صرف ان کی اسلام اور پیغمبر  پر ایمان لانے میں سبقت تھی ، اور کیا اس خوشنودی و رضا مندی کی بقاء و دوام بلا قید و شرط ھے ؟

          واضح تر الفاظ میں : کیا اگر یہ افراد بعد والے زمانوں میں فکری یا اختلافی انحراف کا شکار ھوکر ظلم و جبر کے مرتکب ھوجائیں ، تو کیا پھر بھی وہ خدا کی رضا مندی اور خوشنودی کے حقدار ھوں گے اور قھر و غضب ان کے شامل حال نھیں ھوگا؟ یا یہ کہ اسلام لانے میں ان کی سبقت کےلئے خدا کی رضا مندی اور خوشنودی کا باقی رھنا اس امر پر مشروط ھے کہ ان کا ایمان و عمل صالح ان کی زندگی کے تمام ادوار میں باقی رھے ، اور اگر ان دو شرائط ،،میں ان کی زندگی میں کبھی خلل پیدا ھوجائے تو ان کی اسلام میں سبقت اور مھاجر و انصار کے عنوان کا کوئی فائدہ نھیں ھوگا؟

          قرآن مجید کی دیگر آیات کی تحقیق سے قطعی طور پر دوسرے نظریہ کی تائید ھوتی ھے کہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں کےلئے کامیابی اور خوشنودی کی بقا اسی شرط پر ھے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں ایمان اور عمل صالح پر قائم و دائم رھیں ۔ ملاحظہ ھوں اس قسم کی چند آیات کے نمونے :

          قرآن مجید سورہ حشر (107) میں مھاجرین کی ایک جماعت کی اس بات پر ستائش کرتا ھے کہ انھوں نے اپنا سب مال و منال چھوڑ کر مدینہ ھجرت کی تھی ، اس کے بعد ان کی ستائش کا سبب مندرجہ ذیل عبارتوں میں بیان فرمایا ھے ۔

          (یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَاناً وَ یَنْصُرُونَ اللهَ وَ رَسُولَہ)

وہ لوگ ھمیشہ خدا کے فضل و کرم اور اس کی مرضی کے طلبگار رھتے ھیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ھیں ۔

          یہ آیہ شریفہ اس بات کی حکایت کرتی ھے کہ انسان کی نجات کےلئے ھجرت کرنا گھر بار اور مال و منال کو چھوڑنا ھی کافی نھیں ھے بلکہ خدا کی خوشنودی کے اسباب فراھم کرنے کی مسلسل کوشش کرنا اور اپنے نیک اعمال کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول  کی مدد کرنا بھی ضروری ھے ۔

          قرآن مجید فرماتا ھے : فرشتے ، جو عرش کے اطراف میں خدائے تعالیٰ کی تسبیح کرتے ھیں ، با ایمان افراد کےلئے اس طرح دعائے مغفرت کرتے ھیں :

( فَاغْفِر لِلَّذِین تٰابُو وَ اتَّبَعُوا سَبِیلَک)

” خدایا ! جو تیری طرف لوٹ آئے ھیں اور تیرے دین کی پیروی کرتے ھیں ، انھیں بخش دے “

          قرآن مجید اصحاب پیغمبر  میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ھے جو کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ھیں اور آپس میں مھربان ھیں ، رکوع و سجود بجالاتے ھیں ، خدا کے کرم و خوشنودی کے طالب ھیں اور ان کے چھروں پر سجدوں کی نشانیاں نمایاں ھیں  (108)

اس کے علاوہ قرآن عفو و بخشش اور عظیم اجر کا حقدار ان اصحاب رسول  کو جانتا ھے جو  خدا پر ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیتے ھیں (109)

          مذکورہ آیات او ران کے علاوہ دیگر آیات اس بات کی گواہ ھیں کہ مھاجرین و انصاریا سابقین و تابعین کے عنوان ، سعادت مند و نجات یافتہ ھونے کے لئے کافی شرط نھیں ھیں بلکہ اس فضیلت کے ضمن میں دیگر فضائل ، جیسے نیک اعمال کی انجام دھی اور بُرے کاموں سے پرھیز کی شرط بھی ضروری ھے ، ورنہ یہ لوگ درج ذیل آیات کے زمرے میں شامل ھوں گے :

          1۔ (فَإِنَّ اللهَ لاَ یَرْضیٰ عَنِ  القَوْمِ الفَاسِقٖینَ)

خدائے تعالیٰ فاسقوں کے گروہ سے راضی نھیں ھوتا ۔(110)

          2۔ (وَ اللهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمینَ )

          خدائے تعالیٰ ظالموں کو دوست نھیں رکھتا ۔(111)

          پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایمان کے بلند ترین مقام پرفائز اور فضیلت و اخلاق کا نمونہ تھے ، لیکن پھر بھی خدائے تعالیٰ واضح الفاظ میں آپ(ع)کو خبردار کرتے ھوئے فرماتا ھے :

          (لِئِنْ اٴَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُونَنَّ مِنَ الخَاسِرِینَ)  (112)

اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد ھو جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ھوگا “

          بیشک پیغمبر اکرم  کا قوی ایمان اور آپ  کی عصمت ایک لمحہ کےلئے بھی آپ  کو شرک کی طرف مائل نھیں کرسکتی ، لیکن یھاں پر قرآن مجید آپ سے مخاطب ھوکر در حقیقت دوسروں کو خبردار کرتا ھے کہ چند نیک اعمال کے دھوکے میں نہ رھیں بلکہ کوشش کریں کہ زندگی کی آخری سانس تک اسی نیک حالت پر باقی رھیں ۔

          اس بنا پر ھمیں ھرگز یہ تصور نھیں کرنا چاھئے کہ پیغمبر کا صحابی ھونا اور سابقین و تابعین کے زمرے میں شمار ھونا کسی کو ایسا تحفظ بخش دے گا کہ اگر وہ بعد میں کوئی غلط قدم بھی اٹھائے ، پھر بھی خدا کی خوشنودی کا مستحق قرار پائے گا۔

          ان ھی مھاجرین اور انصار یا سابقین و تابعین میں سے بعض افراد خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ھی مرتد ھوگئے تھے اور پیغمبر خدا کی جانب سے انھیں سخت ترین سزا کا حکم سنا دیا گیا ، اس وقت کسی نے بھی اعتراض نھیں کیا کہ : اے پیغمبر  ! خدا وند کریم ان سے راضی ھوگیا ھے ، آپ  انھیں کیوں یہ سخت سزا سنارھے ھیں ؟

اس سیاہ فھرست  کے چند نمونے ملاحظہ ھوں:

          1۔ عبد الله بن سعد بن ابی سرح : وہ مھاجرین میں سے تھا اور کاتب وحی تھا اس کے بعد مرتد ھوگیا اور اس نے کھا:

(سَاٴُنْزِلُ مِثْلَ مٰا اَنْزَ لَ اللهُ ) (113)

میں بھی خدا کی طرح کی باتیں نازل کرسکتا ھوں!

          فتح مکہ میں پیغمبر اسلام  نے چند افراد کے قتل کا حکم دیدیا اور فرمایا: جھاں کھیںوہ ملیں انھیں فوراًقتل کردیا جائے ، ان میں سے ایک یھی ” عبدالله“ تھا ، لیکن فتح مکہ کے بعد اس نے حضرت عثمان کے وھاں پناہ لے لی ، کیونکہ وہ حضرت عثمان کا رضاعی بھائی تھا  حضرت عثمان کی سفارش اور اصرار کے سبب پیغمبرا کرم  نے اسے چھوڑدیا ۔

          پیغمبر  اس شخص سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ اس کو معاف کرنے کے بعد آنحضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا : جب تم لوگوں نے دیکھا کہ میں اسے معاف کرنے سے انکار کررھا ھوں اس وقت تم لوگوں نے اسے قتل کیو ں نھیں کرڈالا؟ (114)

          2۔ عبید اللہ بن جحش : وہ اسلام کے سابقین اور مھاجرین حبشہ میں سے تھا ، لیکن حبشہ ھجرت کرنے کے بعد اسلام چھوڑ کراس نے عیسائی دین قبول کر لیا ۔

          3۔ حکم بن عاص : وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام  نے چند وجوھات کی بنا پر اسے طائف جلا وطن کردیا۔

          4۔ حرقوص بن زھیر : اس نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی ، لیکن غنائم کی تقسیم پر اس نے پیغمبر اسلام  سے تند کلامی کی اس پر رحمة للعالمین پیغمبر  برھم ھوگئے اور فرمایا: وائے ھو تم پر ، اگر میں انصاف و عدالت کی رعایت نہ کروں گا تو کون انصاف کرے گا ؟! اس کے بعد اس کے خطر ناک مستقبل کے بارے میںفرمایا : حرقوص ایک ایسے گروہ کا سردار بنے گا جو دین اسلام سے اسی طرح دور ھوجائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل کر دور جاتا ھے“ (115)

          پیغمبر اسلام  کی یہ پیشین گوئی آپ کی رحلت کے سالھا بعد حقیقت ثابت ھوئی ۔ یہ شخص خوارج کا سردار بنا اور جنگ نھروان میں حضرت علی(ع)کی تلوار سے قتل ھوا ۔

          یہ اس سیاہ فھرست کے چند نمونے تھے جس میں بھت سے اصحاب پیغمبر  (مھاجر و انصار ) موجود ھیں ۔ پیغمبر اسلام  کے صحابیوں کی تحقیق کے دوران ھمیں چند دوسرے افراد بھی نظر آتے ھیں : جیسے :حاطب بن ابی بلتعہ ، جو اسلام کے خلاف جاسوسی کرتا تھا یا ولید بن عقبہ ، جسے قرآن مجید نے سورہ حجرات   (116)  میں فاسق کھا ھے یا خالد بن ولید ، جس کا نامہ اعمال اس کے کالے کرتوتوں سے بھرا پڑا ھے (117)

          کیا صحابیوں میں ایسے افراد کی موجودگی کے باوجود بھی یہ کھا جاسکتا ھے کہ خدائے تعالیٰ  سابقین اور تابعین سے راضی ھوچکا ھے اب کسی کو بھی ان کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کا حق نھیں ھے ؟!

          مختصر یہ کہ خداکی رضا و خوشنودی ، ان کے عمل سے مربوط ھے ، یعنی خدائے تعالیٰ ان افرادسے راضی و خوشنود ھوا ھے ، جنھوں نے غربت کے زمانے میں اسلام اور رسول خدا  کی حمایت و مدد کی ھے  لیکن اس قسم کی خوشنودی کا اظھار اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ ان کی یہ خوشنودی ان افراد کی زندگی کی آخری سانس تک باقی رھے گی ۔ بلکہ اس کی بقا کی شرط یہ ھے کہ ان کا ایمان اسی حال میں باقی رھے اور وہ ایسا کوئی کام انجام نہ دیں جو ان کے کفر ، ارتداد ، فسق اور اعمال صالح کے برباد ھوجانے کا سبب بنے۔

          دوسرے الفاظ میں ، مھاجر ین وانصار کا ایمان و اخلاص ، بھی دوسرے نیک اعمال کی طرح اس پر مشروط ھے کہ بعد میں کوئی ایسا کام انجام نہ دیں جو ان کے اس عمل کو بے اثر بنا کردے ورنہ ان کا یہ نیک عمل باقی نہ رھے گا ۔ علماء کی اصطلاح میں جس پاداش کا اس آیت میں ذکر ھوا ھے ( رضا مندی و بھشت) یہ ایک ” نسبی “ پاداش ھے ۔ یعنی وہ اس لحاظ سے ایسی پاداش کے حقدار ھیں لیکن اس سے بھی انکار نھیں ھے کہ اگر یھی لوگ بعد میں خدا کی نافرمانی کے کام انجام دیں گے تو غضب الھی اور جھنم کے مستحق ھوجائیں گے ۔ اس قسم کی آیات کا ھرگز یہ مطلب نھیں ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سابق صحابیوں کو تحفظ بخش دیں چونکہ خداوند تعالیٰ ان سے خوشنود ھوگیا ھے ، لھٰذا وہ جو چاھیںا نجام دیں یا ان میں سے اگر کوئی کسی غیر شرعی کام کا مرتکب ھوگیا ھو تو ھم اس آیت کے حکم کی تاویل و تحریف پر مجبور ھوں کیونکہ اس آیت نے ان کے سلسلے میں قطعی حکم صادر کردیا ھے !

          نھیں ایسی ضمانت انبیاء اور اولیاء میں بھی کسی کو نھیں ملی ھے حتی خود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ایسی ضمانت نھیں ملی ھے ۔

          قرآن مجید حضرت ابراھیم (ع)اور ان کے فرزند وں جیسے اسحاق (ع)، یعقوب (ع)، موسی (ع)و ھارون (ع)وغیرہ کے بارے میں فرماتا ھے :

 ( وَ لَو اٴَشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْھم مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )  (118)

اگر یہ لوگ شرک اختیار کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ھوجاتے “


سترھویں فصل

حضرت علی(ع)کی پیشوائی کے نقلی دلائل

          گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت ھو اکہ خد ا کی طرف سے امام کا تعین دنیاوی” مطلق العنان “ نظام سے بالکل مختلف ھے ، لوگوں میں قوانین الٰھی کی روشنی میں حکم کرنے اور انصاف  قائم کرنے کےلئے جو حاکم خدا کی طرف سے معین ھوتا ھے ، اس کی حکومت روئے زمین پر قابل تصور حکومتوں میں سب سے زیادہ عادل اور مستحکم حکومت ھے ۔

          اس قسم کی حکومت میں ، حاکم و فرماں روا خدا کی طرف سے منتخب ھوتا ھے ۔ خدا بھی اپنے حکیمانہ ارادہ سے ھمیشہ بھترین وشائستہ ترین فرد کو رھبر کے عنوان سے منتخب کرتا ھے اور خدا کے علم و تشخیص میں کسی بھی قسم کی غلطی و خطا یا غیر منطقی میلان کا امکان نھیں پایا جاتا ۔

          خدائے تعالیٰ انسان کے بارے میں مکمل آگاھی رکھتا ھے اور اپنے بندوں کے بارے میں ان کی مصلحتوں اور ضرورتوں سے ان سے زیادہ واقف ھے ۔ جس طرح خدا کے قوانین اور احکام بھترین اور عالی ترین قوانین و احکام ھیں اور کوئی بھی قانون خدا کے قانون کے برابر نھیں ھے ، اسی طرح خدا کی طرف سے معین شدہ پیشوا اور رھبر بھی بھترین پیشوا اور شائستہ ترین و رھبر ھوگا ایک ایسا قائد و فرمان روا جس کی زندگی دسیوں سھو و خطا اور نفسانی خواھشات سے آلودہ ھو وہ خدا کی طرف سے منتخب شدہ رھبر وقائد کا ھم پلہ ھرگز نھیں ھوسکتا ھے۔

          گزشتہ بحثوں میں یہ بھی ثابت ھوا کہ اسلامی معاشرہ ھمیشہ ایک ایسے معصوم امام کا محتاج ھے جو الٰھی قوانین اور احکام سے آگاہ ھوتا ھے،کہ امت کےلئے فکری اور علمی پناہ گاہ بن سکے ۔

          اصولی طور پر اسلامی معاشرہ فکری اور علمی لحاظ سے ارتقا ء کی اس حد تک نھیں پھنچا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اپنا نظم و نسق خود سنبھال سکے اور اس قسم کے ایک الٰھی رھبر سے بے نیا ھوجائے۔

          اب ھم غور کریں اور دیکھیں کہ ان تمام حالات کے تناظر میں پیغمبر الٰھی نے اسلامی امت کی قیادت کےلئے کس کو معین فرمایا تھا اور اس مسئلہ کو ھمیشہ کےلئے حل کردیا تھا ۔

          یھاں پر ھم ایسے نقلی دلائل کا سھارا لیتے ھیں وہ دلائل جو قطعی طور سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صادر ھوئے اور اصطلاحاً متواتر ھیں اور ان میں جھوٹ اور جعل سازی کا ھرگز امکان نھیں ھے ۔ اس کے علاوہ ایسی روایتوں کا مفاد یہ ھے کہ ان ، کی دلالت کسی خاص فرد یا افراد کی امامت و پیشوائی کے بارے میں اتنی واضح اور روشن ھو کہ ھر قسم، کے شک و شبھہ کو دلوں سے نکال دے اور کسی بھی انصاف پسند انسان کےلئے سوال اور تذبذب کی گنجائش باقی نہ رھے۔

          لھذا ھم یھاں پر چند ایسے نقلی دلائل کی طرف اشارہ کریں گے جن کی روایت پیغمبرا کرم  سے قطعی اور مقصود کے بارے میں ان کی دلالت بھی واضح ھے۔ کتاب کے صفحات اور قارئین کرام کے وقت کی کمی کے پیش نظر ھم یھاں لوگوں پر امیر المؤمنین(ع)کی پیشوائی و ولایت کے سلسلے میں نقل ھوئے دلائل کی ایک بڑی تعداد میں سے حسب ذیل کا انتخاب کرتے ھیں :

 

1۔ حدیث منزلت

          شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ھونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررھی ھے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بھتر ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ھوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ھزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ھوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔

          چند مخبروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ مدینہ کے منافق منصوبہ بندی کررھے ھیں کہ آپ   کی عدم موجودگی میں مدینہ میں بغاوت کرکے خون کی ھولی کھیلیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھر قسم کے حادثہ کی روک تھام کے لئے  حضرت علی(ع)کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انھیں حکم دیا کہ آپ  مدینہ میں ھی رھیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔

          جب منافقین حضرت علی علیہ السلام کے مدینہ میں رھنے کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو انھیں اپنی سازشیں ناکام ھوتی نظر آئیں ۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے وہ چاھتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی علیہ السلام  مدینہ سے باھر چلے جائیں ۔ لھذا انھوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ حضرت علی(ع)اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان رنجش پیدا ھوگئی ھے اسی لئے پیغمبر  نے علی(ع)کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے کہ انھیں اس اسلامی جھاد میں شرکت کرنے کی اجازت نھیں دی!

           مدینہ میں حضرت علی(ع)کے بارے میں __جو روز پیدائش سے ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مھر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے__اس قسم کی افواہ کا پھیلنا ، حضرت علی(ع)اور آپ(ع)کے دوستوں کےلئے شدید تکلیف کا سبب بنا ۔ لھذا حضرت علی(ع)اس افواہ کی تردید کےلئے مدینہ سے باھر نکلے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پھنچے ،جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے آپ (ع)نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ فرمایا۔ یھاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظھار کرتے ھوئے آپ  کے مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملہ میں بیان فرمایا:

” اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ ، الّا انہ لا نبیّ بعدی، انّہ لا ینبغی ان اذھب الّا و انت خلیفتی “

” یعنی کیا تم اس پر راضی نھیں ھو کہ تمھیں مجھ سے وھی نسبت ھے جیسی ھارون(ع)کو موسی(ع)سے تھی ، بس فرق  یہ ھے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا؟ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد تم ھی میرے جانشین اور خلیفہ ھوگے “

          یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ھے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ھے۔

          مرحوم محدث بحرانی نے کتاب ” غایة المرام“ میں ان افراد کا نام ذکر کیا ھے ، جنھوں نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ایک دقیق و صحیح تحقیق سے ثابت کیا ھے کہ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو 150  طریقوں سے نقل کیا ھے جن میں 100 طریقے اھل سنت علماء و محدثین تک منتھی ھوتے ھیں (119)

          مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی کتاب ” المراجعات “ میں اس حدیث کے اسناد کو اھل سنت محدثین کی کتابوں سے نقل کیا ھے اور ثابت کیاھے کہ یہ  حدیث ان کی دس حدیث اور رجال کی کتابوں میں نقل ھوئی ھے “(120)

          اس حدیث کے صحیح ھونے کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ اھل سنّت کے صحا ح لکھنے والوں ”بخاری“ اور ” مسلم “ نے بھی اسے اپنی صحاح میں ذکر کیا ھے (121) اس حدیث  کے محکم ھونے کے بارے میں یھی کافی ھے کہ امیر المؤمنین کے دشمن ” سعد و وقاص “ نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کی تین نمایاں فضیلتوں میں سے ایک فضیلت شمار کیا ھے ۔

          جب معاویہ اپنے بیٹے ” یزید“  کے حق میں بیعت لینے کےلئے مکہ میں داخل ھوا ، اور ” الندوة“ کے مقام پر ایک انجمن تشکیل دی جس میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے بعض شخصیتیں جمع ھوئیں۔ معاویہ نے اپنی تقریر کا آغاز ھی حضرت علی(ع)کو بر ابھلا کھنے سے کیا، اسے امید تھی ، کہ ” سعد و وقاص“ بھی اس کی ھاں میں ھاں  ملائے گا ۔ لیکن سعد نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کھا: جب بھی مجھے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین درخشان کارنامے یاد آتے ھیں تو صدق  دل سے کھتا ھوں کہ کاش ! ان تین فضیلتوں کا مالک میں ھوتا! اور یہ تین فضیلتیں حسب ذیل  ھیں :

          1۔ جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے کھا:

” تمھیں مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھاون کو موسیٰ(ع)سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا“

          2۔ (پیغمبر اکرم  نے ) جنگ خیبر کے دوران ایک دن فرمایا:

” کل میں علم ایسے شخص کے ھاتہ میں دوںگا جسے خدا و رسول  دوست رکھتے ھیں اور وہ فاتح خیبر ھے ۔ فرار کرنے والا نھیں ھے“ ( اس کے بعد آنحضرت نے علم علی(ع)کے ھاتہ میں دیدیا )۔

          3۔ ” نجران“ کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ کے دن پیغمبر اکرم  نے علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع)، و حسین(ع)کو اپنے گرد جمع کیا اور فرمایا:

          ”پروردگارا ! یہ میرے اھل بیت(ع)ھیں “ (122)

          لھذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کرنا چاھئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑہ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاھئے ۔

          پھلے مرحلہ میں جملہ ” الاّ انہ لا نبی بعدی“  قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے ” جملہ استثنائی “ کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں ۔

          اس حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ذات سے حضرت علی علیہ السلام کی نسبت کو حضرت ھارون (ع)کو ، حضرت موسی(ع)سے نسبت کے مانند بیان فرمایا ھے، اور صرف ایک منصب کو استثناء قرار دیا ھے ، وہ یہ ھے کہ حضرت ھارون(ع)پیغمبر تھے لیکن  پیغمبر اسلام  چونکہ خاتم النبیین ھیں لھذا آپ (ع)کے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا ۔ اور علی(ع)پیغمبری کے مقام پر فائز نھیں ھوں گے۔

          اب دیکھنا یہ ھے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق حضرت ھارون(ع)کے پاس وہ کون سے منصب تھے کہ حضرت علی(ع)( بجز نبوت کے کہ خود پیغمبر نے اس حدیث کے ضمن میں اسے استثناء قرار دیا ھے ) ان کے مالک تھے ۔

          قرآن مجید کے مطالعہ سے ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ حضرت موسیٰ نے خدائے تعالی سے حضرت ھارون کےلئے درج ذیل منصب چاھے تھے اور خد ا نے حضرت موسی(ع) کی درخواست منظور فرما کر وہ تمام منصب حضرت ھارون(ع)کو عطا فرمائے تھے:

          1۔ وزارت کا عھدہ :  حضرت موسیٰ بن عمران(ع) نے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضرت ھارون(ع)کو ان کا وزیر قراردے :

(وَاجْعَلْ لِی وَزِیراً مِنْ اٴَھْلِی ، ھَا-ٰرُون  اٴَخِی) 

” پروردگارا! میرے اھل بیت میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر قرار دیدے “ (123)

          2۔ تقویت و تائید: حضرت موسیٰ (ع)نے خدا سے درخواست کی کہ ان کے بھائی حضرت ھارون(ع)کے ذریعہ ان کی تائید و تقویت فرمائے :

(اُشْدُدْ بِہ اٴَزْرِی )

اس سے میری پشت کو مضبوط کردے  (124)

          3۔ رسالت کا عھدہ : حضرت موسی (ع)بن عمران نے خدائے تعالی سے درخواست کی کہ حضرت ھارون(ع)کو امر رسالت میں ان کا شریک قرار دے :

          ( وَ اَشْرِکہ فِی اٴَمْرِی ) (125)

           اسے امر رسالت میں میرا شریک قرار دیدے ۔

قرآن مجید اشارہ فرماتا ھے کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت موسی(ع) کی تمام درخواستوں کا مثبت جواب دیکر یہ تمام عھدے حضرت ھارون (ع)کو عطا کئے :

          ( قَدْ اُوتِیتَ رسُوْلَکَ یَٰمُوسَیٰ ) (126)

یعنی اے موسی (ع)! بیشک تمھارے تمام مطالبات تمھیں عطا کردیے گئے اس کے علاوہ حضرت موسیٰ (ع)نے اپنی غیبت  کے دوران بنی اسرائیل میں حضرت ھارون(ع)کو اپنا جانشین مقرر کرتے ھوئے فرمایا:

(وَ قَالَ مُوسیٰ لِاٴَخِیہ ھَٰرُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی )

یعنی ، موسی نے ھارون سے کھا: تم قوم میں میرے خلیفہ و جانشین ھو۔ (127)

          مذکورہ آیات کا مطالعہ کرنے پر ھارون(ع)کے منصب اور عھدے بخوبی معلوم ھوتے ھیں اور حدیث منزلت کی رو  سے مقام نبوت کے علاوہ یہ سب منصب اور عھدے حضرت علی علیہ السلام کےلئے ثابت ھونے چاھئیں۔

          اس صورت میں حضرت علی(ع)، امام ، وزیر ،ناصر و مدد گاراور رسول  خدا(ع)کے خلیفہ تھے اورپیغمبر کی عدم موجودگی میں لوگوں کی رھبری و قیادت کے عھدہ دار تھے۔

 

ایک سوال کا جواب :

          ممکن ھے یہ کھا جائے کہ حضرت علی علیہ السلام کےلئے پیغمبر اکرم  کی جانشینی انھیں ایام سے مخصوص تھی جب آپ  مدینہ سے باھر تشریف لے گئے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ حضرت علی(ع)پیغمبر اسلام  کی رحلت کے بعد آپ  کے مطلق خلیفہ اور جانشین تھے۔

          لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا ایک سرسری مطالعہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ھوجاتا ھے۔

ایک : حضرت علی علیہ السلام پھلے اور آخری شخص نھیں تھے۔ جنھیں پیغمبر اکرم  نے اپنی عدم موجودگی میں مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا ھو ۔ بلکہ پیغمبر اکرم  مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران ، جب کبھی مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے تھے تو کسی نہ کسی شخص کو اپنی جگہ پر جانشین  مقرر کرکے ذمہ داریاں اسے سونپتے تھے اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جملہ کے ذریعہ امام(ع)کو ھارون سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف آپ(ع)کے مدینہ میں عدم موجودگی کے دوران امام(ع)کی جانشینی تھا ، تو پیغمبر اسلام  نے یہ جملہ اپنے دیگر جانشینوں کےلئے کیوں نھیں فرمایا ، جبکہ وہ لوگ بھی جب پیغمبر  جھاد یا حج خانہ خدا کےلئے مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے ، آپ کے جانشین ھوا کرتے تھے ؟پھر اس فرق کا سبب کیا تھا؟

          دو: ایک مختصر مدت کےلئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی صورت میں پیغمبر  کو اس طرح تفصیلی جملہ بیان کرکے منصب رسالت کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کی ضرورت ھی نھیں تھی!

          اس کے علاوہ اس قسم کی جا نشینی کسی خاص فخر کا سبب نہ ھوتی اور اگر فرض کرلیں کہ یہ ایک اعزاز تھا تو اس صورت میں یہ چیز حضرت علی(ع)کے خاص فضائل میں شمار نھیں ھوتی کہ برسوں کے بعد سعد و قاص  اس فضیلت کو سیکڑوں سرخ اونٹوں کے عوض خریدنے کی تمنا کرتا ! اور خو د حضرت علی(ع)کے انتھائی اھم فضائل ( فاتح خیبر اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ میں نفس پیغمبر  اور آپ کے اھل بیت(ع))کے مقام تک پھنچنے کی آرزو کرتا !!

          تین : اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف جنگ تبوک کےلئے جانے کے موقع پر اس تاریخی جملہ کو بیان فرمایا ھوتا تو کسی کے ذھن میں ایسا سوال  پیدا ھونا بجا تھا ۔ لیکن پیغمبر اسلام  نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ اھم جملہ دیگر مواقع پر بھی فرمایا ھے اورتاریخ اور حدیث کے صفحات میں یہ واقعات ثبت و ضبط ھوچکے ھیں ۔ ھم یھاں پر اس کے صرف دو نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں  (وَجَعَلْنَا مَعَہ اَخَاہ ھَٰرُونَ وَزِیراً )

          ھم نے موسی کے بھائی ھارون کو ان کا ویزر قرار دیا“(128)

          1۔ ایک دن حضرت ابو بکر ، عمر اور ابو عبیدة بن جراح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت علی علیہ السلام کے شانہ پر رکہ کر فرمایا:

” یا علی انت اول المؤمنین ایماناً و اوّلھم اسلاماً ، و انت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ “ (129)

” اے علی ! تم وہ پھلے شخص ھو جو مجھ پر ایمان لائے اور دین اسلام کو قبول کیا اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی“

          2۔ ھجرت کے ابتدائی ایام میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار کو جمع کیا اور انھیں آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنایا صرف حضرت علی علیہ السلام کو کسی کا بھائی قرار نہ دیا۔ حضرت علی(ع)کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، آپ(ع)نے پیغمبر  سے عرض کی: یا رسول اللہ ! کیا مجھ سے کوئی غلطی سرزد ھوئی ھے کہ آپ  نے ھر فرد کےلئے ایک بھائی معین فرمایا، اور میرے لئے  کسی کا انتخاب نھیں کیا؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یھاں پر صحابیوں کے مجمع میں اپنا وھی تاریخی جملہ دھرایا:

          ” وَ الَّذی بعثنی بالحق ما اخرتک الا لنفسی و انت منی بمنزلة ھارون من موسی غیر انہ لا نبیّ بعدی  و انت اخی و وارثی “ (130)

          ” قسم اس خدا کی جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ھے ، میں نے تمھیں صرف اپنا بھائی بنانے بنانے کیلئے یہ تاخیر کی ھے ، اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون (ع)کو موسی(ع)سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر  نھیں ھوگا ، تم میرے بھائی اور میرے وارث ھو“(131)

          حضرت علی(ع)ان تمام عھدوں اور منصبوں کے مالک تھے جو حضرت ھارون (ع)کو ملے تھے  اس بات کی ایک اور دلیل یہ ھے کہ پیغمبر اسلام  خدا کے حکم سے مختلف طریقوں سے کوشش فرماتے تھے کہ لوگ اس سے آگاہ ھوجائیں کہ حضرت علی(ع)کی حیثیت آپ  کی نسبت وھی ھے جو ھارون (ع)کی موسی (ع)کی بنسبت تھی اور نبوت کے علاوہ اس میں کسی اور قسم کی کمی نھیں ھے۔

          لھذا جب حضرت زھرا  علیھا السلام سے حضرت علی علیہ السلام کے دو بیٹے پیدا ھوئے ، تو پیغمبر  نے علی(ع)کو حکم دیا کہ ان کے نام ” حسن  (ع)و حسین  (ع)“ رکھیں جیسا کہ ھارون(ع)کے بیٹوں کے نام ” شبر وشبیر “ تھے کہ عربی زبان میں  ان کا مطلب حسن و حسین ھوتا ھے ۔

          ان دو جانشینوں (یعنی حضرت علی (ع)اور حضرت ھارون (ع))کے بارے میں تحقیق و جستجو سے چند دیگر مشابھتوں کا سراغ بھی ملتا ھے ھم یھاں پر ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ھیں ، مرحوم شرف الدین نے کتاب ” المراجعات “ میں اس سلسلے میں مفصل بحث کی ھے۔ (132)


اٹھارھویں فصل

حدیث غدیر (پھلا حصہ)

          اسلام کی عالمی تحریک ، ابتداء سے ھی قریش بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے عام بت پرستوں کی طرف سے جنگ اور مخالفتوں سے روبرو ھوئی ۔ جو گوناگوں سازشوں کے ذریعہ اس شمع الٰھی کو بجھانے کے در پے تھے ، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی خاص کا میابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کی آخری خیالی امید یہ تھی کہ اس عظیم تحریک کے پائے اس کے پیشوا اور بانی کی وفات کے بعد اس طرح ڈھہ جائیں گے جس طرح پیغمبر  سے پھلے بعض لوگوں کی یکتا پرستی کی دعوت (133)  ان کی وفات کے  بعد خاموش ھوگئی۔

          قرآن مجید جس نے اپنی بھت سی آیات میں ان کی سازشوں اور منصوبوں سے پردہ اٹھایا تھا اس دفعہ بت پرستوں کی آخری خیالی امید یعنی وفات پیغمبر  کے بارے میں درج ذیل آیت میں اشارہ فرماتا ھے :

(اٴَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ  نَّتَرَبَّصُ بِہ رَیْبَ الْمَنُونِ { قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِینَ{ اٴَمْ تَاٴْمُرُھُمْ اٴَحْلَامُھُمْ بِھَذَا اٴَمْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ) (134)

” یا یہ لوگ یہ کھتے ھیں کہ پیغمبر شاعر ھے اور ھم اس کی موت کا انتطار کررھے ھیں ۔ تو آپ کھہ دیجئے کہ بیشک تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ھوں! کیاان کی خام عقلیںانھیں اس بات پر آمادہ کرتی ھیںیا وہ واقعاً سرکش قوم ھیں “

          مناسب ھے کہ یھا ںپر بت پرستوں کی طرف سے رسالتماب  کے ساتھ چھیڑی گئی بعض خائنانہ جنگوں اور روڈے اٹکانے کی منحوس حرکتوں کی ایک فھرست بیان کی جائے اور اس کے بعد دیکھا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے ان کی آخری امیدوں کو کیسے ناکام بنایا اور آغوش پیغمبر  میں حضرت علی(ع)جیسے لائق و شائستہ شخص کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کی حیثیت سے منتخب کرکے ان کی سازشوں کو خاک میں ملادیا ۔

 

1۔ تھمت کا حربہ

          کفار مکہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  پر شاعر ، کاھن ، دیوانہ اور جادوگر ھونے کی تھمتیں لگا کر یہ کوشش کی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   کے ارشادات کے اثرات کم کریں ، لیکن سماج کے مختلف طبقوں میں اسلام کی نمایاں ترقی نے ثابت کردیا کہ آپ کی مقدس ذات ان تھمتوں سے بالاتر تھی ۔

 

2۔ آپ کے پیروؤں کو آزار پھچانا

          کفار مکہ کا ایک اور منصوبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیرؤوں کو آزار پھنچانا اور انھیں جسمانی اذیتیں دینا اور قتل کرنا تھا تاکہ آپ  کے ارشادات و ھدایت کے وسیع اثرات کو روک سکیں ۔ لیکن پیغمبر  کے حامیوں کی ھر ظلم و جبر اور اذیت و آزار کے مقابلے میں استقامت و پامردی نے قریش کے سرداروں کو اپنے منحوس مقاصد تک پھنچنے میں ناکام بنادیا ۔ آنحضرت کے حامیوں کی آپ کے تئیں والھانہ عقیدت و اخلاص نے دشمنوں کو حیرت زدہ کردیا ، حتی ابو سفیان کھتا تھا، ” میں نے قیصر وکسریٰ کو دیکھا ھے لیکن ان میں سے کسی کو اپنے پیرؤوں کے درمیان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا با عظمت نھیں دیکھا جن کے پیرؤوں نے ان کے مقاصد کی  راہ میں اس قدر جاںبازی اور فداکاری کا ثبوت دیا ھے  (135)

 

3۔ عرب کے بڑے داستان گو کو دعوت

          قرآن مجید کے روحانی اور جذباتی اثرات سے کفار قریش حیرت زدہ تھے اور تصور کرتے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو سننے کےلئے لوگوں کا پروانہ وار دوڑنا اس سبب سے ھے کہ قرآن مجید میں گذشتہ اقوام کی داستانیں اورکھانیاں بیان ھوئی ھیں ۔ اس لئے کفار مکہ نے دنیائے عرب کے سب سے مشھور داستان گو ” نصر بن حارث “ کو دعوت دی کہ وہ خاص موقعوں پر مکہ کی گلی کوچوں میں ’ ایران “ اور ” عراق“ کے بادشاھوں کے قصے سنائے تا کہ اس طرح لوگوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف مائل ھونے سے روک سکیں ! یہ منصوبہ اس قدر احمقانہ تھا کہ خود قریش یہ داستانیں سننے سے تنگ آچکے تھے اور اس سے دور بھاگتے تھے۔

 

4۔ قرآن مجید سننے پر پابندی

          قریش کا ایک اور منحوس منصوبہ قرآن مجید سننے پر پابندی عائد کرنا تھا اس شمع الٰھی کے پروانوں کی استقامت سے ان کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔ قرآن مجید کی زبر دست شیرینی اور دلکشی نے مکہ کے لوگوں کو اس قدر فریفتہ بنا دیا تھا کہ وہ رات کے اندھیرے میں گھروں سے نکل کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کے اطراف میں چھپ جاتے تھے تا کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز شب اور تلاوت قرآن مجید کےلئے اٹھیں تو وہ قرآن کی تلاوت سن سکیں ۔ قریش کے کفار صرف لوگوں کو قرآن سننے سے ھی  منع نھیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کو پیغمبر سے ملنے جلنے سے منع کرتے تھے ۔ جب عرب کی بعض بزرگ شخصیتیں جیسے ، اعشی و طفیل بن عمر پیغمبر  سے ملنے کےلئے مکہ میں آئے تو قریش نے مختلف ذرایع سے ان کو پیغمبر  تک پھنچنے سے روک دیا (136)

 

5۔اقتصادی پابندی

          کفار قریش نے ایک دستور کے ذریعہ لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ کسی کو بنی ھاشم یا محمد  کے طرفداروں کے ساتھ لین دین کرنے کا حق نھیں ھے ۔ جس کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اپنے ساتھیوں اور اعزّہ کے ساتھ ” شعب ابی طالب  (ع)“ میں پورے تین سال تک انتھائی سخت اور قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ھوئے ۔ لیکن قریش کے بعض سرداروں کے اقدام اور بعض معجزات کے رونما ھونے کی وجہ سے یہ بائیکاٹ ختم ھوگیا۔

 

6۔ پیغمبر اکرم   کو قتل کرنے کی سازش

          قریش کے سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے قریش کے چالیس جوان رات کے اندھیرے میں پیغمبر  کے گھر پر حملہ آور ھوں اور آپ   کو آپ کے بسترہ پر ھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ۔ لیکن خداوند کریم (جو ھر وقت آپ کا حافظ و نگھبان تھا )نے پیغمبر  کو دشمنوں کی اس سازش سے آگاہ کردیا اور پیغمبر خدا  نے  خدا کے حکم سے حضرت علی(ع)کو اپنے بسترہ پر سلا کر خود مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت کی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی مدینہ کی طرف ھجرت اور اوس و خزرج جیسے قبیلوں کا اسلام کی طرف مائل ھونا اس کاباعث ھوا کہ مسلمانوں کو ایک امن کی جگہ مل گئی اور پراکندہ مسلمان ایک پر امن جگہ پر جمع ھوکر دین کا دفاع کرنے کے لائق ھوگئے۔

 

7۔ خونین جنگیں

          مسلمانوں کے مدینہ منورہ میں اکٹھا ھونے اور حکومت اسلامی کی تشکیل کو دیکھتے ھوئے جزیرہ نمائے عرب کے بت پرست خوفزدہ  ھوگئے اور اس دفعہ یہ فیصلہ کیا کہ ھدایت کی شمع فروزاں کو جنگ اور قتل و غارت کے ذریعہ ھمیشہ کےلئے بجھادیں ۔ اسی غرض سے کفار نے مسلمانوں سے بدر، احد ، خندق اور حنین کی خونین جنگیں لڑیں ۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے یہ جنگیں مسلمانوں کی فوجی طاقت میں اضافہ کا باعث بنیں اور انھوں نے بت پرستوں کو عرب میں ذلیل و خوار کرکے رکھدیا۔

 

8۔پیغمبر اسلام کی وفات

          دشمنوں نے اپنے ناپاک عزائم کے سلسلے میں آخری امید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رحلت سے باندھی تھی ۔ وہ سوچ  رھے تھے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی وفات کے ساتھ ھی اس تحریک کی بنیادیں اکھڑ جائیں گی  اور اسلام کا بلند پایہ محل زمین بوس ھوجائے گا ۔ اس مشکل کو دور کرنے اور اس سازش کو ناکام بنانے کےلئے دو راستے موجود تھے :

          1۔ امت اسلامیہ کی فکری و عقلی نشو و نما اس حد تک پھنچ جائے کہ مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی وفات کے بعد اسلام کی اس نئی تحریک کی عھد رسالت کے مانند ھدایت و رھبری کرسکیں اور اسے ھر قسم کے انحراف سے بچاتے ھوئے ” صراط مستقیم“ پر آگے بڑھائیں ۔

          پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رحلت کے بعد امت کی ھمہ جھت قیادت کی سخت ضرورت تھی کیونکہ ابھی جو بد قسمتی سے امت کے افراد میں سازگار حالات نھیں پائے جاتے تھے ۔ اس وقت یہ مناسب نھیں ھے کہ ان حالات کے ھونے یا نہ ھونے پر مفصل بحث کریں ، لیکن مختصر طور درج ذیل چند اھم نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے :

          الف) ایک ملت کی مختلف میدانوں میں ترقی اور بنیادی انقلاب کا پیدا ھونا چند روز یا چند سالوں میں ممکن نھیں ھوتا اور مختصر مدت میں ایسے مقاصد تک نھیں پھنچا جاسکتا ھے بلکہ انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے اور اسے لوگوں کے دلوں کی گھرائیوں میں اتارنے کیلئے ایسے ممتاز اور غیر معمولی فرد یا افراد کی ضرورت ھوتی ھے جو اس تحریک کے بانی کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور  سنبھال سکیں اور انتھائی ھوشیاری اور پیھم تبلیغ کے ذریعہ سماج کو ھر قسم کے غلط رجحانات سے بچا سکیں تا کہ پرانی نسل کی  جگہ ایک ایسی نئی نسل لے لے جو ابتدا ء سے ھی اسلامی آداب و اخلاق کے ماحول میں پلی ھو ۔ ورنہ دوسری صورت میں تحریک کے بانی کی وفات کے ساتھ ھی بھت سے لوگ اپنی پرانی روش کی طرف پلٹ جائیں گے ۔

          اس کے علاوہ تمام الٰھی تحریکوں میں اسلام ایسی خصوصیت کا حامل تھا جس میں اس تحریک  کے استحکام کےلئے ممتاز افراد کی اشد ضرورت تھی ۔ دین اسلام ایسے لوگوں کے درمیان وجود میں آیاتھا جو دنیا کی پسماندہ ترین قوم  شمار ھوتے تھے اور اس معاشرہ کے لوگ سماجی و اخلاقی قواعد و ضوابط کے لحاظ سے انتھائی محرومیت کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے مذھبی آداب و رسوم  کے طور پر وہ اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ھوئی  ( جو خرافات اور برائیوں سے بھری تھیں ) کے علاوہ کوئی اور چیز نھیں جانتے تھے ۔ حضرت موسی (ع)اور حضرت عیسی (ع)کے دین نے ان کی سرزمین پر کوئی اثر نھیں ڈالا تھا اور حجاز کے اکثر لوگ اس سے محروم تھے اور اس کے مقابلہ میں جاھلیت کے عقائد اور رسم و رواج ان کے دلوں میں راسخ ھوکر ان کی روح میں آمیختہ ھوچکے تھے۔

          ممکن ھے کہ ایسے معاشروں میں مذھبی اصلاح زیادہ مشکل نہ ھو لیکن اس کا تحفظ اور اس کی بقا، ایسے لوگوں میں جن کی روح میں منفی عوامل نفوذ کرچکے ھوں ، انتھائی مشکل کام ھوتا ھے اس کےلئے مسلسل ھوشیاری اور تدبیر کی ضرورت ھوتی ھے تا کہ ھر قسم کے انحرافات اور رجعت پسندی کو روکا جاسکے ۔

          ” احد“ اور ” حنین“ کے دل دوز حوادث کے مناظر ، جب گرما گرم جنگ کے دوران تحریک کے حامی رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میدان کارزار میں تنھا چھوڑ کر باگ کھڑے ھوئے تھے اس بات کے واضح گواہ ھیں کہ تحریک کے مؤمن افراد ، جو اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینے پر حاضر تھے ، بھت کم تھے اور معاشرے کے زیادہ تر لوگ فکری و عقلی رشد و بلوغ کے لحاظ سے اس مقام پر نھیں پھنچے تھے کہ پیغمبر اسلام  نظام کی باگ ڈور ان کے ھاتہ میں دیدیتے اور دشمن کی آخری امید یعنی پیغمبر  کی رحلت کے انتظار، کو ناکام بنادیتے ۔

          یہ وھی امت ھے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رحلت کے بعد اختلاف و تفرقہ کا مرکز بن گئی اور رفتہ رفتہ 72 فرقوں میں بٹ گئی۔

          جو باتیں ھم نے اوپر بیان کیں اس سے یہ واضح ھوجاتا ھے کہ پیغمبر  کی رحلت کے وقت فکری اور عقلی رشد کے لحاظ سے امت اسلامیہ اس حد تک نھیں پھنچی تھی کہ دشمنوں  کے منصوبے ناکام ھوجاتے اسلئے کسی دوسری چارہ جوئی کی ضرورت تھی کہ ھم ذیل میں اس کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

          2۔ تحریک کو استحکام بخشنے کےلئے آسان اور سادہ طریقہ یہ ھے کہ تحریک کے اصول و فروع پر ایمان و اعتقاد کے لحاظ سے پیغمبر  جیسا ایک لائق و شائستہ شخص تحریک کی قیادت و رھبری کےلئے خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے  انتخاب کیا جائے اور وہ قوی ایمان ، وسیع علم اور عصمت کے سائے میں انقلاب کی قیادت کو سنبھال کر اس کو استحکام اور تحفظ بخشے۔

          یہ وھی مطلب ھے جس کے صحیح اور مستحکم ھونے کا دعویٰ شیعہ مکتب فکر کرتا ھے ۔ اس سلسلے میں بھت سے تاریخی شواھد بھی موجود ھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے حجة الوداع سے واپسی کے دوران 18 ذی الحجة کو خدا کے حکم سے اس گتھی کو سلجھادیا اور خدا کی طرف سے اپنا جانشین اور ولی مقرر فرما کر اپنی رحلت کے بعد اسلام کو استحکام اور تحفظ بخشا۔اس کا واقعہ یوں ھے ، کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے  10 ہ ء میں حج بجالانے کےلئے مکہ کی طرف عزیمت فرمائی ، چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے حج کا یہ سفر آپ  کی زندگی کا آخری سفر تھا اس لئے یہ حجة الوداع کے نام سے مشھور ھوا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے ساتھ شوق سے یاا حکام حج کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھنے کےلئے جن لوگوں نے اس سفر میں آپ  کا ساتھ دیا ان کی تعداد کے بارے میں مؤرخین نے ایک لاکہ بیس ھزار کا تخمینہ لگایا ھے ۔

          حج کی تقریبات ختم ھوئیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم راھی مدینہ ھوئے جوق در جوق لوگ آپ  کو الوداع کررھے تھے لیکن مکہ میں آپ سے ملحق ھونے والوں کے علاوہ سب آپ  کے ھمسفر تھے ۔ کاروان ، جحفہ سے تین کلو میٹر کی دوری پر ” غدیر خم“ کے ایک صحرا میں پھنچا ، اچانک وحی الٰھی نازل ھوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو رکنے کا حکم ملا۔ پیغمبر  نے بھی حکم دیا کہ سب حجاج رک جائیں تا کہ پیچھے رھنے والے لوگ بھی پھنچ جائیں ۔

          پیغمبر کی طرف سے ایک تپتے ریگستان میںد وپھر کو تمازتِ آفتاب میں رکنے کے حکم پر لوگ تعجب میں تھے۔ اور سرگوشیاں کررھے تھے کہ ضرور خدا کی طرف سے کوئی خاص حکم پھنچا ھے اور اس کی اھمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ھے کہ خدا کی طرف سے پیغمبر  کو امر ھوا ھے کہ وہ ان نامساعد حالات میں لوگوں کو روک کر فرمان الٰھی پھنچائیں۔

          پیغمبر اکرم   کو یہ فرمان الٰھی درج ذیل آیہ شریفہ کے ذریعہ ملا ۔

( یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )  (137)

 ” اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا آپ خدا کی رسالت کو نھیں بجا لائے اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“

          اس آیہ شریفہ کے مضمون پر غور کرنے سے ھمیں مندرجہ ذیل نکات کی طرف ھدایت ملتی ھے :

          اولاً: جس حکم الھٰی کو پھنچانے کی ذمہ داری پیغمبر اسلام   کو ملی  تھی وہ اتنا اھم اور عظیم تھا کہ اگر پیغمبر اکرم  ( بفرض محال ) اسے پھنچانے سے ڈرتے اور نہ پھنچاتے تو گویا آپ  نے اپنی رسالت کا کام ھی انجام نھیں دیا ھوتا ، بلکہ -( آیندہ اس کی وضاحت کریں گے کہ ) اس ماٴموریت کو بجالانے سے ھی آپ(ع)کی رسالت مکمل ھوتی ھے ۔  

دوسرے الفاظ میں ( مَا اٴُنْزِلَ اِلَیْکَ ) ( جو آپ پر نازل کیا گیا ھے ) کا مقصود قرآن مجید کی تمام آیات اور احکام اسلامی نھیں ھوسکتے ھیں ،کیونکہ یہ بات بالکل واضح ھے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احکام الٰھی نہ پھنچاتے تو اپنی رسالت کو انجام ھی نہ دیا ھوتا اور اس قسم کے بدیھی امر کے بارے میںکچھ کھنے اور آیت نازل کرنے کی ضرورت ھی نھیںتھی ، بلکہ اس کا مقصد ایک خاص موضوع کو پھنچانا ھے کہ اس کا پھنچانا رسالت پھنچانے کے برابر شمار ھوتا ھے اور جب تک اسے نہ پھنچا یا جائے ، رسالت کی عظیم ذمہ داری اپنے کمال  تک نھیں پھنچتی۔

          اس بنا پر اس ماٴموریت کا مسئلہ اسلام کے اھم اصولوں میں سے ایک ھونا چاھئے جو اسلام کے دوسرے اصول و فروع سے پیوستہ ھو اور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رسالت کی طرح یہ بھی ایک اھم مسئلہ ھو ۔

          ثانیاً : سماجی حالات اور ان کے محاسبات کے پیش نظر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  یہ گمان کرتے تھے کہ اس ماٴموریت کو انجام دینے کی صورت میں ممکن ھے  لوگوں کی طرف سے آپ   کو کوئی نقصان پھنچے ، اس لئے خدائے تعالیٰ نے آپ  کے ارادہ کو قوت بخشنے کےلئے فرمایا:

          ( و َ اللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)

          ” خدا آپ  کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“

          اب یہ دیکھنا ھے کہ مفسرین اسلام نے اس آیت کے موضوع کے بارے میں جو احتمالات  (138) بیان کئے ھیں ان میں سے کون سا احتمال اس آیہ شریفہ  کے مضمون سے قریب تر ھے ۔شیعہ محدثین کے علاوہ اھل سنت محدثین کے تیس 1#  افراد نے لکھا ھے کہ یہ آیہ شریفہ غدیر کے دن نازل ھوئی ھے ، جس دن خدا نے پیغمبر   کو مامور کیا کہ علی(ع)کو ”مؤمنین  کے مولا “ کے طور پر پھچنوائیں۔

          امت پر پیغمبر   کی جانشینی کے عنوان سے امام(ع)کی قیادت کا مسئلہ ھی اتنا ھی اھم اور سنجیدہ تھا کہ اس کا پھنچانا رسالت کی تکمیل کا باعث اور نہ پھنچانا رسالت کے نقصان اور رسول کی زحمتوں  کے تباہ ھوجانے کا سبب شمار ھوتا۔

           اسی طرح  پیغمبر اکرم  کا اجتماعی محاسبات کے پیش نظر خوف و تشویش سے دوچار ھونابجا تھا، کیونکہ حضرت علی(ع)جیسے صرف 33 سالہ شخص کا جانشین  اور وصی قرار پانا اس گروہ کےلئے انتھائی سخت اور دشوار تھا جو عمر کے لحاظ سے آپ(ع)سے کھیں زیادہ بڑے تھے (139)

          اس کے علاوہ ایسے افراد بھی مسلمانوں کی صفوں میں موجود تھے جن کے اسلاف مختلف جنگوں میں حضرت علی(ع)کے ھاتھوں قتل ھوچکے تھے اور قدرتی طور وہ کینہ توز ایسے شخص کی حکومت کی شدید مخالف کرتے ۔

          اس کے علاوہ حضرت علی(ع)پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے، اور تنگ نظر لوگوں کی نظر میں  ایسے شخص کو خلافت  کے عھدہ پر مقرر کرنا اس کا سبب ھوتا کہ وہ اس عمل کو کنبہ پروری  تصور کرتے۔

          لیکن ان تمام ناسازگار حالات کے باوجود خدائے تعالی کا حکیمانہ ارادہ یھی تھا کہ رسول  کا جانشین مقررفرما کر اسلامی تحریک کو تحفظ بخشے اور اپنے نبی  کی عالمی رسالت کا رھبر و راھنما مقرر کرکے اسے تکمیل تک پھنچائے۔

 

اب اس تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔


انیسویں فصل

حدیث غدیر(دوسراحصہ)

غدیر کا تاریخی واقعہ ایک ابدی حقیقت

          18 ذی الحجة کی دوپھر کا وقت تھا ، سورج کی تمازت نے غدیر خم کی سرزمین کو  جھلسا  رکھا  تھا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد__جس کے بارے میں 70 ھزار سے 120 ھزار تک لکھا گیا__ پیغمبر  کے حکم سے وھاں پر پڑاؤ  ڈالے ھوئے تھی اور یہ لوگ اس دن رونما ھونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کررھے تھے۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ، لوگوں نے اپنی ردائیں تہ کرکے آدھی سر پر  اور آدھی پاؤں کے نیچے رکھی تھیں ۔

  ان حساس لمحات میں اذان ظھر کی آواز سے تمام صحرا گونج اٹھا ، اور لوگ نماز ظھر کےلئے آمادہ ھوئے ، پیغمبر اکرم  نے اس عظیم اور پرشکوہ اجتماع __ کہ سرزمین غدیر پہ ایسا عظیم نھیں ھوا تھا__کے ساتھ نماز ظھر ادا کی ۔ اس کے بعد آپ لوگوں کے درمیان تشریف لائے اور اونٹوں کے پالان سے بنے ایک بلند منبر پرجلوہ افروز ھوکر بلند آواز سے خطبہ دینا شروع کیا اور فرمایا:

” حمد و ستائش تنھا خدا کے لئے ھے ، ھم اسی سے مدد چاھتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں ، اور اسی پر توکل کرتے ھیں ، اور اپنے نفس امارہ اور برائی کے شر سے محفوظ رھنے کےلئے اس خدا کی پناہ لیتے ھیں ، جس کے سوا گمراھوں کی ھدایت و راھنمائی کرنے والا کوئی نھیں ھے ۔ ھم گواھی دیتے ھیں کہ جس کی خداوند کریم ھدایت کرے کوئی اسے گمراہ نھیں کرسکتا ھم اس خدا کی گواھی دیتے ھیں جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور محمد  خدا کا بندہ اور اس کا رسول  ھے ۔

اے لوگو! خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ھے کہ ھر پیغمبر کی رسالت کی مدت اس سے پھلے کی رسالت کی آدھی ھوتی ھے ، اور میں جلدی ھی دعوت حق کو لبیک کھنے والا اور تم سے رخصت ھونے والا ھوں ، میں ذمہ دار ھوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ھو ، میرے بارے میں کیا سوچتے ھو؟

  اصحاب رسول  نے کھا: ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ  نے دین خدا کی تبلیغ کی ، ھمارے بارے میں خیر خواھی کی اور ھماری نصیحت فرمائی اور اس راہ میں سعی و کوشش کی ، خدائے تعالی آپ کو جزائے خیر عطا کرے ۔

  مجمع پر خاموشی چھاگئی تو پیغمبر  نے فرمایا: کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی خدا نھیں ھے اور محمد  خدا کا بندہ اور اس کا رسول  ھے ، جنت ، جھنم اور موت حق ھے ۔ بے شک قیامت آئے گی اور خدائے تعالیٰ زمین میں دفن لوگوں کوپھر سے زندہ کرے گا ؟

  اصحاب رسول  : جی ھاں ! جی ھاں ! ھم گواھی دیتے ھیں ۔

  پیغمبر  : میں تم لوگوں کے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رھا ھوں تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو گے؟

  ایک شخص : یہ دو گراں قدر چیزیں کیا ھیں ؟

  پیغمبر : ثقل اکبر خدا کی کتاب ھے کہ اس کا ایک سرا خدا سے وابستہ اور دوسرا سرا تمھارے ھاتہ میں ھے ، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ ے رھو تا کہ گمراہ نہ ھواور ” ثقل اصغر“ میری عترت اور اھل بیت(ع)ھیں ۔ خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ میری یہ دو یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گی۔

          خبردار، اے لوگو: خدا کی کتاب اور میری عترت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ ان سے پیچھے رھنا تا کہ نابودی سے بچے رھو۔

          اس موقع پر پیغمبر  نے علی(ع)کا ھاتہ پکڑ کر انھیں اس قدر بلند کیا کہ آپ  کے بغل کے نیچے کی سفیدی نمایاں ھوگئی اور تمام لوگوں نے علی(ع)کو پیغمبر  کے پھلومیں دیکھا اور انھیں اچھی طرح سے پھچان لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اس اجتماع کا مقصد، علی(ع)سے مربوط کوئی اعلان ھے ۔ سب شوق و بے تابی کے ساتھ پیغمبر  کی بات سننے کے منتظر تھے۔

          پیغمبر : اے لوگو! مؤمنوں پر ، خود ان سے زیادہ سزاوار کون ھے ؟

          اصحاب پیغمبر : خدا اور اس کا پیغمبر  بھتر جانتے ھیں ۔

          پیغمبر : ” خدا میرا مولا اور میں مؤمنوں کا مولا اور ان پر ، خود ان سے زیادہ اولی و سزاوار ھوں ۔ اے لوگو ! ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' یعنی جس  جس کا میں مولا ---__ خود اس سے زیادہ اس پر سزاوار __ ھوں اس کے علی(ع)بھی مولا ھیں “ اور پیغمبر  نے اس جملہ کو تین بار فرمایا(140)

           اس کے بعد فرمایا:  پروردگارا! اس کو دوست رکہ ، جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکہ جو علی(ع)سے دشمنی کرے۔ خدایا ! علی(ع)کے دوستوں کی مدد فرما اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما ۔ خداوندا ! علی  کو مرکز حق قرار دے “

           اس کے  بعد پیغمبر نے فرمایا: ضروری ھے کہ اس جلسہ میں حاضر لوگ اس خبر کو غیر حاضروں تک پھنچادیں اور دوسروں کو بھی اس واقعہ سے باخبر کریں۔

           ابھی غدیر کا اجتماع برقرار تھا کہ فرشتہ وحی تشریف لایا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو بشارت دی کہ خداوند کریم فرماتا ھے : میں نے آج اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور اس پر راضی ھو اکہ یہ کامل شدہ اسلام تمھارا دین ھو   (141)

          یھاں پر پیغمبر اسلام نے تکبیر کی آواز بلند کرتے ھوئے فرمایا: میں خدا کا شکر گزار ھوں کہ اس نے اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع)کی ولایت پر خوشنود ھوا۔

          اس کے بعد پیغمبر  اپنی جگہ سے نیچے تشریف لائے ، آپ  کے اصحاب گروہ گروہ آگے بڑھے اور علی (ع)کو مبارکباددی اور انھیں اپنے اور تمام موٴمنین و مومنات کا مولا کھا۔

          اس موقع پر رسول خدا  کا شاعر ” حسان بن ثابت “ اٹھا اور اس نے اس تاریخی روداد کو شعر کی صورت میں بیان کرکے اسے ابدی رنگ دیدیا۔ اس کے اس قصیدہ سے صرف دو ابیات کا ترجمہ یھاں پر ذکر کرتے ھیں :

          ” پیغمبر  نے علی(ع)سے فرمایا : کھڑے ھوجاؤ! میںنے تمھیں اپنے بعد لوگوں کی قیادت اور راھنمائی کےلئے منتخب کیا ھے ۔(142)    جس کا میں مولا ھوں ، اس کے علی(ع)بھی مولا ھیں ۔

          لوگو! تم لوگوں پر لازم ھے کہ علی(ع)کے سچے اور حقیقی دوست رھو ۔

          اوپر بیان شدہ روداد غدیر کے واقعہ کا خلاصہ ھے جو اھل سنت علماء کے اسناد و مآخذمیں ذکر ھوا ھے ۔ شیعوں کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ھوا ھے ۔

          مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب ” احتجاج“ میں پیغمبر  خدا سے ایک مفصل خطبہ نقل کیا ھے ، شائقین اس کتاب میں اس خطبہ کا مطالعہ کرسکتے ھیں (143)

 

غدیر کا واقعہ لافانی و جاویدانی ھے

          خدائے تعالیٰ کا حکیمانہ ارادہ یھی تھا کہ غدیر کا تاریخی واقعہ تمام زمانوں اور صدیوں میں ایک زندہ تاریخ کی صورت میں باقی رھے تا کہ ھر زمانے کے لوگ اس کی طرف جذب ھوں اور ھر زمانے میں اسلام کے اھل قلم  تفسیر ، حدیث ، کلام اور تاریخ پر قلم اٹھاتے وقت اس موضوع پر لکھیں اور مذھبی مقررین ، وعظ و سخن کی مجلسوں میں اسے بیان کرتے ھوئے اس کو امام (ع)کے ناقابل انکار فضائل میں شمار کریں ۔ ادباء و شعراء بھی اس واقعہ سے الھام حاصل کرکے اپنے ادبی ذوق و شوق کو اس واقعہ سے مزین کرکے مولا کے تئیں اپنے جذبات مختلف زبانوں میں بھترین ادبی نمونوں کی صورت میں پیش کریں۔

          یہ بات بلا سبب نھیں کہ انسانی تاریخ میں بھت کم ایسے واقعات گزرے ھیں جو واقعہ غدیر کی طرح علماء ، محدثین ، مفسرین ، متکلمین ، فلاسفہ ، مقررین ، شعراء ، مؤرخین و سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ھیں ان سب نے اس واقعہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ھیں ۔

          بیشک اس واقعہ کے لافانی اور جاویدانی ھونے کا ایک سبب یہ بھی ھے کہ اس واقعہ سے مربوط قرآن مجید میں دو آیتیں(144)   نازل ھوئی ھیں ۔چونکہ قرآن لافانی اور ابدی ھے اس لئے یہ واقعہ بھی لافانی ھوگیا ھے اور ھر گز ختم ھونے والا نھیں ھے۔

          اس کے علاوہ چونکہ گزشتہ زمانہ میں اسلامی معاشرہ اور آج کا شیعہ معاشرہ اس روز کو مذھبی عیدوں میں ایک عظیم عید شمار کرتا ھے اور اس مناسبت سے ھر سا ل با شکوہ تقریبات منعقد کرتا ھے لھذا قدرتی طور پر غدیر کے تاریخی واقعہ نے ابدیت کا رنگ اختیار کرلیا ھے اور کبھی فراموش ھونے والا نھیں ھے۔

          تاریخ کا مطالعہ کرنے سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ 18 ذی الجة الحرام کا دن مسلمانوں کے درمیان عید غدیر کے طور پر معروف تھا ، یھاں تک کہ ” ابن خلکان “ فاطمی خلیفہ مستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ھے :

” سن 487ء ہ عید غدیر کے دن ، کہ 18 ذی الحجة الحرام ھے ، لوگوں نے اس کی بیعت کی (145)  المستنصر بالله کے بارے میں ” العبیدی“ لکھتا ھے:

” وہ سن 487 ھء میں جب ماہ ذی الحجة میں 12 شبیں باقی بچی تھیں ، فوت ھوا ، یہ شب وھی  8 اویں ذی الحجة کی شب ھے ، اور شب عید غدیر ھے“  (146)

          ابن خلکان نے ھی اس شب کو عید غدیر کی شب کا نام نھیں دیا ھے بلکہ ” مسعودی“ (147) #  اور ”ثعالبی“ (148)   نے بھی اس شب کوامت اسلامیہ کی مشھور و معروف شبوں میں شمار کیا ھے۔

          عید غدیر کے دن جشن و سرور کی تقریبات کا سلسلہ اس دن خود پیغمبر  کے عمل سے شروع ھوا ھے۔ کیونکہ اس دن پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار بلکہ اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا تھا کہ علی(ع)کے پاس جاکر انھیں اس عظیم فضیلت کی مبارکباد دیں۔

          زید بن ارقم کھتے ھیں : مھاجرین میں سے سب سے پھلے جن افراد نے علی(ع)کے ھاتہ پر بیعت کی ، ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ اور زبیر تھے اور مبارکبادکی یہ تقریب اس دن سورج ڈوبنے تک جاری رھی۔

 

واقعہ کی لافانیت کے دیگر دلائل

          اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ 110 صحابیوں نے اسے نقل کیا ھے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ھی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ھے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف 110 راوی ذکر ھوئے ھیں ۔ یہ بات صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے ایک لاکہ کے مجمع میں تقریر فرمائی، لیکن ان میں بھت سے لوگ حجاز سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ، جن سے کوئی حدیث نقل نھیں ھوئی ھے ، یا اگر نقل ھوئی بھی ھو تو ھم تک نھیں پھنچی ھے۔ ان میں سے اگر کسی جماعت نے اس واقعہ کو نقل بھی کیا ھے تو تاریخ  ان کے نام درج کرنے میں کامیاب نھیں ھوئی۔

          دوسری صدی ھجری میں -- __جو عصر تابعین کے نام سے مشھور ھے __ نواسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔

          بعد والی صدیوں میں حدیث کے بھت سے راوی سنی علماء تھے ان میں سے تین سو ساٹہ راویوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ان میںسے بھت سے لوگوں نے اس حدیث کے صحیح اور محکم ھونے کا اعتراف بھی کیا ھے۔

          تیسری صدی ھجری میں 92 (بانبے) سنی علماء نے ، چوتھی صدی میں تینتالیس( 43) ، پانچویں صدی میں جوبیس (24) ، چھٹی صدی میں بیس (20)، ساتویں صدی میں اکیس (21) ، آٹھویں صدی میں اٹھارہ (18) ، نویں صدی میں سولہ (16) ، دسویں صدی میں (14) چودہ  ، گیارھوں صدی میں بارہ (12) ، بارھویں صدی میں تیرہ (13) ، تیرھویں صدی میں بارہ (12) اور چودھویں صدی میں بیس (20) سنی علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔

          مذکورہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کی نقل پر ھی اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ اس کے اسناد اور مفھوم پر مخصوص کتابیں لکھی ھےں۔

          عالم اسلام کے عظیم اور نامور تاریخ دان ، طبری نے ” الولایة فی طرق حدیث الغدیر “ کے موضوع پر کتاب لکھی ھے اور اس میں اس حدیث کو ستر(70) سے زیادہ طریقوں سے ، پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ھے۔

          ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ” ولایت“ میں اس حدیث کو ایک سو پچاس (149) افرادسے نقل کیا ھے۔     

          جن افراد نے اس تاریخی واقعہ کی خصوصیات کے بارے میں مخصوص کتابیں لکھی ھیں ، ان کی تعداد چھبیس (26) ھے ۔ ممکن ھے اس سے زیادہ افراد ھوں جنھوں نے اس موضوع پر کتابیں یا مقالات لکھے ھیں لیکن تاریخ میں ان کا نام درج نھیں ھوا ھے یا ھماری رسائی ان تک نھیں ھے۔

          شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ پر گراں بھا کتابیں لکھی ھیں کہ ان تمام کتابوں میں جامع ترین اور تاریخی کتاب علامہ مجاھد مرحوم آیت اللہ امینی ۺ کی کتاب ” الغدیر“ ھے ۔

 ھم نے امام (ع)کی زندگی کے اس پھلوکے بارے میں ان کی اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ھے۔


 بیسویں فصل

حدیث غدیر(تیسرا حصہ)

غدیر کے با شکوہ اجتماع کا مقصد ؟

گزشتہ بحثوں سے اچھی طرح واضح اور ثابت ھوگیا کہ غدیر کا واقعہ قطعی اور یقینی طور پر ایک تاریخی واقعہ ھے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبھہ کرنا بدیھی امور میں شک کرنے کے مترادف ھے ۔ اسلامی احادیث میں شاید ھی کوئی ایسی حدیث ھو جو متواتر اور قطعی ھونے کے لحاظ سے اس حدیث کی برابری کر سکے ۔

 اس لئے ھم اس کی سند کے بارے میں مزید بحث و گفتگو نھیں کریں گے بلکہ اب اس کے مفاد و مفھوم کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔

 اس حدیث کو سمجھنے کی کنجی یہ ھے کہ جملہ ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' میں وارد شدہ لفظ ”مولیٰ“ کو سمجھ لیں اس لفظ کے معنی کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر حدیث کا مفھوم بھی واضح ھوجائے گا ۔

  سب سے پھلے یہ امر قابل غور ھے کہ قرآن مجید میں لفظ ”مولیٰ“ ، اولی“ اور ” ولی“ کے معنی میں استعمال ھو ا ھے ، جیسے:

1۔( فاَلْیَومَ لاَ یُؤْخَذُ  مِنْکُمْ فِدْیَةٌ وَ لاَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مَاٴْوَاکُمُ النّارُ ھِیَ مَولَ-ٰک-ُمْ وَ بِئْسَ الْمَصِیرُ)

تو آج ( قیامت کے دن) نہ تم سے کوئی فدیہ یا عوض لیا جائے گا اور نہ کفار سے ، تم سب کا ٹھکانا جھنم ھے وھی تم سب کا صاحب اختیار (مولا) ھے اور  تمھارا بدترین انجام ھے۔ (150)

          اسلام کے بڑے اور نامور مفسرین اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں کھتے ھیں : اس آیت میں ”مولیٰ“ کا لفظ ” اولی“ کے معنی میں ھے ، کیونکہ یہ افراد ، جو ناشائستہ اور برے اعمال کے مرتکب ھوئے ھیں تو ان کےلئے ان اعمال کے عوض جھنم کی آگ کے سوا کوئی اور چیز سزاوار نھیں ھے(150)

2۔( یَدْعُوا لَمَنْ ضَرَّہ اٴَقْرَبُ مِنْ  نَّفْعِہ لَبِئْسَ الْمَولٰی  وَ لَبِئْسَ الْعَشِیرُ)

”یہ اس بت کو پکارتا ھے جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ قریب تر ھے وہ اس کا بدترین سرپرست ( ولی ) اور بدترین ساتھی ھے “۔(151)

           یہ آیہ شریفہ اپنے مضمون اور گزشتہ آیات کے قرینہ کی روشنی میں مشرکوں اور بت پرستوں کے عمل سے متعلق ھے کہ وہ بتوں کو اپنا صاحب اختیار ( ولی) جانتے تھے اور اسے اپنے سرپرست ( ولی) کی حیثیت سے مانتے تھے اور ” ولی“ کی حیثیت سے ھی ان کو پکارتے تھے۔

          ان دو آیتوں اور اسی طرح دوسری آیات _  جن کے ذکر سے ھم صرف نظر کرتے ھیں _ سے اجمالی طور سے ثابت ھوتا ھے کہ ”مولیٰ“ کے معنی وھی ” اولیٰ“ اور ” ولی“ کے ھیں ۔

           اب دیکھنا یہ ھے کہ جملہ ”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ''  کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس کا مقصد وھی نفوس پر تصرف رکھنے میں اولیٰ ھونا ھے جس کا لازمہ کسی شخص کا انسان پر ولایت مطلقہ رکھنا ھے یا حدیث کا مفھوم کچھ اور ھے جیسا کہ بعض لوگوں نے تصور کیا ھے کہ حدیث غدیر میں ”مولیٰ“ دوست اور ناصر کے معنی میں ھے۔

          بے شمار قرائن اس کے گواہ ھیں کہ ” مولیٰ“ سے مراد وھی پھلا معنی ھے جسے علماء اور دانشوروں نے ولایت مطلقہ سے تعبیر کیا ھے اور قرآن مجید نے خود پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ھے:

(اَلنَّبِیُّ اَوْلَٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مَنْ اٴَنْفُسِھِمْ )  (152)

 بیشک نبی تمام مؤمنین سے ان کے نفوس کی نسبت زیادہ اولیٰ ھے۔

          اگر کوئی شخص ( تسلط اور تصرف کے لحاظ سے ) کسی کی جان پر خود اس سے زیادہ شائستہ و سزاوار ھو تو وہ قدرتی طور پر اس کے مال پر بھی یھی اختیار رکھتا ھوگا۔ اور جو شخص کسی انسان کی جان و مال پر اولی بالتصرف  ھو ، وہ اس کے بارے میں ولایت مطلقہ رکھتا ھے۔

          اس بنا پر انسان کو اس( ولی) اس کے تمام احکام کی موبمو اطاعت کرنی چاھئے اور جس چیز سے وہ منع کرے اس سے با ز رھنا چاھئے۔

           یہ عھدہ اور منصب ، خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا گیا تھا ۔ آپ  خود ذاتی طور پر ھرگز اس منصب و مقام کے حامل نھیں تھے۔

          واضح تر الفاظ میں یوں کھا جائے گا کہ یہ خدائے تعالیٰ ھے جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوںکی جان و مال پر مسلط فرمایا ھے ۔ آپ کو ھر قسم کے امر و نھی کے اختیارات دئے ھیں اور آپ  کے احکام و اوامر کی مخالفت کو خدا کے احکام کی مخالفت جانا ھے ۔

          چونکہ قطعی اور یقینی دلائل سے یہ ثابت ھو چکا ھے کہ اس حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی وھی ھیں جو آیہ شریفہ میں ” اولیٰ“ کے ھیں ، لھذا قدرتی طور پر امیر المؤمنین حضرت علی(ع)اسی منصب و مقام کے حامل ھوئے جس کے آیہ شریفہ کی نص کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  تھے ، یعنی اپنے

زمانے میں امت کے پیشوا اور معاشرے کے رھبر اور لوگوں کی جان و مال پر اولی وبالتصرف کا اختیار رکھنے والے اور امامت کا یھی وہ عظیم اور بلند مرتبہ ھے جسے ولایت الھیہ سے تعبیر کیا جاتا ھے ( یعنی وہ ولایت جو خدا کی طرف سے بعض خاص افراد کو وسیع پیمانے پر عطا ھوتی ھے )

          اب ھم وہ قرائن و شواھد بیان کرتے ھیں جن سے پوری طرح ثابت ھوتا ھے کہ اس حدیث میں لفظ ” مولیٰ“ کے معنی تمام امور میں ( اولی بالتصرف)  اور صاحب اختیار ھونے کے علاوہ کچھ اور نھیں ھے۔

ذیل میں ایسے چند شواھد ملاحظہ ھوں:

          1۔ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شاعر حسّان بن ثابت حضور اکرم  سے اجازت حاصل کرکے کھڑے ھوئے اورپیغمبر اکرم  کے بیانات کے مضمون کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ۔ یھاں قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس فصیح ، بلیغ ، اور عربی زبان کے رموز سے واقف شخص نے لفظ ”مولیٰ“ کی جگہ پر امام و ھادی کا لفظ استعمال کیا ھے ، ملاحظہ ھو:

 

فقال لہ قم یا علی فاننی

رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا

 

یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے حضرت علی (ع)کی طرف  رخ کرکے ان سے فرمایا: اٹھو کہ میں نے تمھیں اپنے بعد لوگوں کا امام و ھادی مقرر کردیا ھے “

          واضح رھے کہ حسّان نے پیغمبر  کے کلام میں موجود  لفظ ” مولیٰ“ سے امت کی امامت ، پیشوائی اور ھدایت کے علاوہ کوئی اور معنی نھیں لئے ھیں (153)

          صرف حسّان ھی لفظ” مولیٰ“ سے یہ نھیں سمجھے  ، بلکہ اس کے بعد بھی اسلام کے عظیم شعرا __جن میں سے اکثراعلیٰ درجے کے شعرا اور بعض عربی زبان کے استاد شمار ھوتے تھے__   نے بھی اس لفظ سے وھی معنی لئے ھیں جو حسان نے سمجھے تھے ، یعنی امت کی امامت  و پیشوائی۔

           2۔ امیر المؤمنین(ع)نے معاویہ کو لکھے گئے اپنے چند اشعار میں حدیث غدیر کے بارے میں یوں فرمایا ھے:

و اوجب لی ولایتہ علیکم

رسول الله یوم غدیر خم

 

” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری ولایت کو تم لوگوں پر غدیر کے دن واجب فرمایا ھے “

          علی(ع)سے بھتر کون ھوسکتا ھے جو ھمارے لئے حدیث کے حقیقی مفھوم کو واضح کر سکے ؟ جبکہ شیعہ و سنی آپ(ع)کے علم ،امانتداری اور تقویٰ کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں ۔ چنانچہ ھم دیکھتے ھیں کہ حضرت (ع)حدیث غدیر سے استدلال کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

          ” پیغمبر خدا  نے غدیر کے دن میری ولایت کو تم لوگوں پر واجب فرمایا“

کیا اس  وضاحت سے یہ مطلب نھیں نکلتا ھے کہ غدیر کے دن حاضر تمام لوگوں نے آنحضرت (ع)کے بیانات سے دینی سرپرستی اور معاشرے کی رھبری کے علاوہ کوئی اورمفھوم نھیں سمجھا  تھا؟

          خود حدیث میں ایسے قرائن موجود ھیں جو اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ پیغمبر اسلام کے اس جملہ کا وھی مطلب ، یعنی حضرت علی(ع)کا ” اولی بالتصرف“  و صاحب اختیار ھوناھے ۔ کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ”  من کنت مولاہ “  فرمانے سے پھلے یوں فرمایا تھا :

          ”الست اولیٰ بکم من انفسکم“

          کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفوس سے زیادہ اختیار نھیں رکھتا ھوں ؟

 اس جملہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ” اولی بکم من انفسکم “ سے استفادہ فرمایا ھے اور اپنے آپ کو تمام لوگوں پر ان کے نفوس سے زیادہ صاحب اختیار بتایا ھے ۔

اس کے فوراً بعد فرماتے ھیں : ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“ 

          ان دو جملوں کی ترتیب سے ذکر کئے جانے کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد یہ نھیں ھے کہ علی(ع)بھی میر ی طرح لوگوں کے نفوس پر صاحب اختیار ھےں جسے آپ  نے پھلے اپنے لئے ثابت فرمایا اور یہ جو آپ  نے فرمایا کہ : ” اے لوگو! وھی منصب و مقام جس کا میں حامل ھوں ، علی(ع)بھی اسی منصب کے حامل ھیں “ اگر پیغمبر  کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ھوتا تو اپنی اولویت کے بارے میں پھلے لوگوں سے اقرار لینے کی ضرورت ھی نھیں تھی۔

          4۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے اپنی تقریر کی ابتدا ء میں لوگوں سے اسلام کے تین اھم اصول ( توحید، نبوت ، معاد) کے بارے میں اقرار لیتے ھوئے فرمایا:

”اٴَلَسْتمُْ تَشْھُدُون َ اٴَنَّ لاإِلہ إِلَّا اللهَ و َ اٴَنَّ مُحمّداً عَبْدُہ وَ رَسُولُہ وَ اٴَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌ وَ النَّارَ حَقٌ“

یعنی ، کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی پروردگار نھیں ھے ، محمد  اس کا بندہ اور رسول  ھے اور بھشت و جھنم حق ھیں۔

          یہ اقرار لینے کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ھے کہ پیغمبر  اسلام لوگوں کے ذھنوں کو اس پر آمادہ کرنا چاھتے تھے کہ علی  کے بارے میں جس منصب کا اعلان کرنے والے ھیں وہ انھی اصولوں کے مانند اھم ھے ، اور لوگ جان لیں کہ آپ  کی ولایت و خلافت کا اقرار اسلام کے مذکورہ تین اصول کے مانند ھے جس کا سب نے اقرار و اعتراف کیا ھے ؟ اگر ”مولیٰ“ کا مقصد دوست اور مددگار لیا جائے تو اس صورت میں جملوں کا سلسلہ ھی ٹوٹ جاتا ھے اور پیغمبر  کے کلام کی بلاغت و پائداری ختم ھوجاتی ھے ۔ کیونکہ منصب ولایت سے الگ ھٹ کر حضرت علی (ع)خودایسے عظیم مسلمان تھے جنھوں نے ایسے معاشرہ میں پرورش پائی تھی جھاں پر تمام مؤمنوں سے دوستی کی ضرورت کوئی ڈھکی چھپی بات نھیں تھی چہ جائیکہ علی (ع)جیسے مؤمن سے دوستی جسے پیغمبر  اس اھتمام و شاٴن کے ساتھ ایک بڑے اجتماع میں اعلان فرماتے ! اور اس صورت میں یہ امر اتنا اھم بھی نھیں تھا کہ اسلام کے تین بنیادی اصولوں کے برابر قرار پاتا ۔

          5۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خطبہ کے آغاز میں اپنی رحلت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں :

” انہ یوشک ان ادعی فاجیب “

” قریب ھے کہ میں دعوت حق کو لبیک کھوں“

          یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اپنی رحلت کے بعد کےلئے کوئی اھتمام و اقدام کرنا چاھتے تھے تا کہ اپنے بعد پیدا ھونے والے خلاٴ کو پر کریں۔

           اور بلاشبہ واضح ھے کہ جو چیز اس خلاٴ کو پر کرسکتی تھی وہ صرف حضرت علی(ع)کی خلافت و امامت تھی کہ رسول خدا  کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور حضرت علی(ع)اپنے ھاتہ میںلے لیں ، نہ کہ علی(ع)کی محبت و دوستی یا ان کی نصرت و مدد !

          6۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے جملہ ”من کنت مولا ہ''کے بعد یوں فرمایا:

الله اکبر علی اکمال الدین  و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بن ابی طالب

          میں خدا کی طرف سے تکمیل دین ، اتمام نعمت ، اپنی رسالت اور علی(ع)ابن ابیطالب کی ولایت پر تکبیر کھتا ھوں۔

          7۔ اس سے واضح اور بھتر کیا گواھی ھوسکتی ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے منبر سے نیچے تشریف لانے کے بعد شیخین اور اصحاب رسول  کی ایک بڑی جماعت نے حضرت علی(ع)کی خدمت میں مبارک باد پیش کی اور مبارک بادی کا یہ سلسلہ سورج ڈوبنے تک جاری رھا؟

          مزے کی بات یہ ھے کہ شیخین پھلے افراد تھے جنھوں نے امام(ع)سے کھا:

”ھنیئاً لک یا علی بن ابی طالب اصبت و امسیت مولی کل مؤمن و مومنة“

” مبارک ھو آپ کو یہ منصب ، اے علی (ع)! کہ آپ ھر مومن زن و مرد کے مولیٰ ھوگئے“

          حقیقت میں حضرت علی(ع)اس روز امت کی سرپرستی و رھبری کے علاوہ کسی اور منصب کے مالک نھیں بنے تھے جبھی وہ اس قسم کی مبارکباد کے مستحق قرار پائے اور اسی وجہ سے اس دن ایسے کی بے مثال تقریب اور ایسے عظیم اجتماع کا اھتمام کیا گیا ۔

          8۔ اگر مقصد صرف علی(ع)کی دوستی کا اعلان تھا تو یہ ضروری نھیں تھا کہ پیغمبر اسلام  ایسے موسم گرما میں حجاج کے ایک لاکہ کے مجمع کو رکوا کر اور لوگوں کو تپتی ریت پر بٹھا کر مفصل خطبہ بیان کرتے اور اس کے بعد ا س مسئلہ کو پیش کرتے ۔

          کیا قرآن مجید نے مؤمن افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نھیں پکارا ھے ؟ جیسا کہ فرمایا ھے :

(اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ )(154)

” با ایمان لوگ آپس میں ایک دوسر کے بھائی ھیں“

           کیا قرآن مجید نے مؤمنوں کا تعارف ایک دوست کے دوسرے کی حیثیت سے نھیں کرایا ھے جیسا کہ فرماتا ھے :

( و َ المُؤمِنُونَ وَ المُؤْمِنَٰتُ بَعْضُھُمْ اٴَوْلِیاءُ بَعْضٍ)

”با ایمان لوگ ایک دوسرے کے دوست ھیں “(155)

          علی(ع)بھی تو اسی با ایمان معاشرے کی ایک فرد تھے ، اس لئے اس کی ضرورت ھی نھیں تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الگ سے اور وہ بھی اس اھتمام کے ساتھ علی(ع)کی دوستی اور محبت کا اعلان فرماتے !!

          جو کچھ ھم نے بیان کیا اس سے بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ، کہ حدیث غدیر کا مقصد علی(ع)کی دوستی یا ان کی نصرت و مدد کو ضروری قرار دینا تھا اور پیغمبر  کے خطبہ میں لفظ ”مولیٰ“ دوست یا ناصر کے معنی میں ھے ، در حقیقت تعصب پر مبنی ایک قسم کی غیر منصفانہ تفسیر اور بھت بچگانہ باتیں ھیں ۔ گزشتہ قرائن اور اس خطبہ کے اول سے آخر تک بغور مطالعہ کے بعد یہ ناقابل انکار حقیقت معلوم ھوجاتی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے خطبہ میں ”مولیٰ“ کا ایک ھی معنی  ھے ، یعنی ” صاحب اختیار“ (اولی بالتصرف) ھونا۔ اور اگر یہ کھا جائے کہ اس کا مقصد سیادت اور آقائی ھے اور مولیٰ ” سید “ کے معنی میں ھے تو اس سیادت کا مقصد وہ دینی والٰھی سیادت ھے جو امام کی اطاعت کو لوگوں پر واجب اور ضروری قرار دیتی ھے۔


حوالے

38۔(وجادلھم بالتی ھی احسن )(نحل/ 125)

39۔1۔شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 14، ص 36

40شرح نھج البلاغہ ، ج1 ، خطبہ شقشقیہ ۔

41۔ و قلت إنّی کنت اقاد کما یقاد الجمل المخشوش لا بایع ، و لعمر الله لقد اٴردت اٴن تذم فمدحت ، و اٴن تفضح فافتضحت و علی  المسلم  من غضاضة فی ان یکون مظلوماً ما لم یکن شاکاً فی دینہ و لا مرتاباً بیقینہ “ ( نھج البلاغہ ، خط 28)

42۔”و لا یخطر ببالی انّ العرب تزعج ھذا الاٴمر من بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن اٴھل بیتہ ولا انّھم منحوہ عنی من بعدہ فما راعنی إلا انثیال الناس علی فلان یبایعونہ..․“ (نھج البلاغہ ، خط 62)

43۔آل عمران /154۔

44۔آل عمران : 144

45۔ صحیح ابن ماجہ ، باب فتن و غیرہ ۔

46۔الامامة و السیاسة ج 1، ص 5

47۔ الامامة و السیاسة ج 1 ، ص 5۔

48۔انصار نے  دو امیروں کی تجویز پیش کرکے اپنے پیروں پر کلھاڑی ماری ۔ اس مقابلہ میں ایک قدم پیچھے ھٹے اور مھاجرین کے مقابلے میں اپنے ضعف و کمزوری کا اعتراف کیا ۔ اس لئے جب قبیلہ خزرج کے سردار نے ” حباب“ سے یہ بات سنی تو انتھائی افسوس کے ساتھ بول اٹھا : ھذا اول الوھن ، یہ تجویز ھماری کمزوری کی نشانی ھے

49۔ آیندہ بحث میں اس  سلسلے میں امیر المؤمنین کی تنقید بیان ھوگی۔

50۔ حادثہ سقیفہ کی تفصیلات کو تاریخ طبری ج3،(حوادت سال یازدھم ) اور الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ج1، اور شرح ابن ابی الحدید ج2 ص 22 ۔60  سے نقل کیا گیا ھے ۔

51۔سیرہ ابن ھشام ، ج4، 308۔ ارشاد شیخ مفید ، ص 260

52۔( لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا القُرْء انُ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ) ( زخرف / 31) و نیز رجوع کریں اسراء /90 ۔91)

53۔ بقرہ / 207۔

54۔ ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “( نھج البلاغہ خطبہ 64)

55۔الله الله یا معشر المھاجرین لا تخربوا سلطان محمّد فی العرب عن دارہ و قعر بیتہ الی دورکم و قعور بیوتکم و لا تدعوا اٴھلہ عن مقامہ فی الناس و حقّہ ، فو الله یا معشر المھاجرین لنحن اٴحق الناس بہ ، لاٴنا اٴھل البیت و نحن اٴحقّ بھذا الاٴمر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیہ فی دین الله ، العالم بسنن الله، المضطلع باٴمر الرعیة ، المدافع عنھم الاٴُمور السیئّة ․ القسم بینھم با لسویة، و الله انّہ لفینا ، فلا تتبعو الھوی فتضلوا عن سبیل الله فتزدادوا من الحقّ بعداً “ ( الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ، ج1 ، ص 12 ، احتجاج طبرسی ، ج1 ، ص 96)

56۔ اٴنا اٴولی برسول الله حیاً و میّتاً و اٴنا وصیّہ و وزیرہ و مستودع سرّہ و علمہ ، و اٴنا الصّدیق الاٴکبر و الفاروق الاٴعظم، اٴوّل من آمن بہ و صدّقہ ، واٴحسنکم بلاءً فی جھاد المشرکین، و اٴعرفکم بالکتاب و السنة ، اٴفقھکم فی الدین و اعلمکم بعواقب الاٴمور و اٴذر بکم لساناً و اٴثبتکم جناناً فعلام  تنازعو فی ھذا الاٴمر ( احتجاج طبرسی ، ج 12 ، ص 95)

57۔  نھج البلاغہ، عبدہ ، خطبہ 168۔

58۔لامامة و السیاسة، ج 1  ص 12

59۔ تاریخ طبری ،ج3 ، ص 234 ۔

60۔ صحیح بخاری ج 2، ص 25۔

61۔ صحیح بخاری ، ج 2، ص 22۔

62۔ شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید ، ج 6، ص 52 ، نقل از : کتاب السقیفہ ، تالیف ابو بکر احمد بن عبد العزیز جوھری۔

63۔ احزاب /6

64۔ مائدہ /48

65، التراتیب الاداریة ، ج1 ،ص 285۔

66۔ التراتیب الاداریة ، ج1 ،ص 285۔

67۔ سریہ اس جنگ کو کھتے ھیں جس میں آنحضرت   شامل نہ تھے۔

68۔ انبیاء / 72 ، یوسف / 22۔

69۔ یوسف / 101

70۔نحل /44

71۔جمعہ /2

72۔ بقرہ / 247

73۔ احتجاج طبرسی ، ج 1، ص 353 ، تلخیص کے ساتھ

74۔”ان الاٴئمة فینا و ان الخلافة لا تصلح الّا فینا و انّ الله جعلنا اھلہ فی کتابہ وسنة  نبیہ و ان العلم فینا و نحن اھلہ و انہ لا یحدث شیٴ الی یوم القیامة حتی ارش الخدش الّا وھو عندنا“ ( احتجاج طبری ، ج 3 ص 6)

75۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبوک کی جنگ پر جانے کا فیضلہ کیا تو، حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کرکے فرمایا” انت منی بمنزلة ھارون من موسی الّا انہ لا نبی بعدی“ تم میرے لئے ویسے ھی ھو جیسے ھارون موسی کےلئے تھے ، فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا ، پیغمبر اسلام نے اس جملہ سے ، نبوت کے علاوہ تمام منصبوں کو علی(ع)کےلئے ثابت کردیا

76۔ حدیث غدیر کی تفصیل انیسویں فصل میں آئے گی ۔

77۔ یھاں مقصود  حدیث ثقلین  ھے کہ اس کے بارے میں بائیسوں فصل میں گفتگو آئے گی ۔

78۔ پیغمبر نے اپنے اصحاب سے فرمایا: سلّموا علی علیّ بامرة المؤمنین ۔

79۔ نساء / 54

80۔ نھج البلاغہ ، خطبہ سوم

81۔ حشر / 7۔

82۔ مسند احمد ، ج 1، 2۔14۔

83۔ تاریخ الخلفاء ، ص 59 ۔ 66۔

84۔ الغدیر ج 7 ص 108

85۔ سیرہ  حلبی ، ج 3 ، ص 34، بحار ج 22، ص 157۔

86۔ مغازی واقدی ، ج2، ص 766 ، بحار ، ج21، ص 54 ۔

87۔ انعام / 164

88۔ طبقات ابن سعد، ج 3،ص 151۔

89۔ موطاٴ ابن مالک ص 335۔

90۔ سنن بیھقی ، ج8 ص 273۔

91۔ سنن ابن ماجہ ، ج 1، ص 200۔

92۔ نساء ․ 43، مائدھ/ 6۔

93۔ الدر المنثور ج1،ص 21۔

94۔ مسند احمد ، ج 1 ،ص 192۔

95۔ نساء/ 20

96۔  ”کل  الناس افقہ من عمر”

97۔ الغدیر ، ج 6․ ص 87 ( اھل سنت کی مختلف اسناد سے منقول)

98۔ اس کی تفصیل پانچویں فصل میں گزری ھے ۔

99۔ الاٴضواء ، ص 204

100۔ سنن بیھقی ، ج 8 ص 33۔

101۔توبہ / 100۔

102۔ فتح /18۔

103۔احزاب / 12

104۔توبہ / 47۔

105۔ سیرہ ابن ھشام ، ج 2 ، ص 430۔

106۔ چرا مسیحی نیستم

107۔ حشر / 8۔

108۔ (مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَ الَّذِینَ مَعَہ اٴَشِدَّآءُ عَلَٰی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ تَرٰیھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ  فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَاناً سِیمَاھُم فِی وُجُوھِھِمْ مِنْ اٴَثَرِ السُّجُودِ)( فتح/ 29)

109۔( وَعَدَ اللهُ الّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْھُمْ مَغْفِرَةً وَ اٴَجْراً عَظِیماً) (فتح/ 29)    

110۔توبہ/ 96۔

111۔آل عمران /57۔

112۔زمر /65

113۔ نعام / 93۔

114۔ الاصابة ، ج 2، ص 38

115۔ ان افراد میں سے ھر ایک کی زندگی کے حالات علم رجال کی کتابوں ، جیسے : الاستیعاب ،الاصابة ، اسد الغابة وغیرہ میں درج ھیں

116۔ حجرات / 6۔

117۔ مذکورہ افرادا ن منافقوں کے گروہ کے علاوہ ھیں جن کی داستان مفصل ھے ۔

118۔ انعام / 88۔

119۔ غایة المرام ، ص 107 ۔ 152۔

120۔ المراجعات ، ص 131۔ 132

121۔ صحیح بخاری ج 3،  ص 58 ، صحیح مسلم ج 2 ص 323۔

122۔ صحیح مسلم ، ج 7 ص 120۔

123۔ طٓہ / 29۔30۔

124۔ طٓہ / 31۔

125۔ طٓہ / 32

126۔ طہ/ 36اس کے علاوہ قرآن مجید ایک دوسری آیت میں حضرت ھارون (ع)کی نبوّت کے بارے میں صراحت سے فرماتا ھے :

(وَوَھَبْنَا لَہ من رَحْمَتِنَآ اٴَخاَہ ھَٰرُونَ نَبِیًّا)(مریم / 53)

127۔ اعراف / 142۔ ایک اور آیت میں حضرت ھارون کی وزارت کے بارے میں صراحت  سے فرماتا ھے:

 (128) (فرقان / 35 )

129۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملہ کو مختلف مواقع پر سات بار بیان فرمایا ھے ، لیکن ھم اختصار کی وجہ سے یھاں پر صرف دو مورد کا ذکر کرتے ھیں۔

130۔ کنز العمال ، ج 6، ص 395 ، حدیث نمبر 6032 ۔

131۔ منتخب کنزل العمال ( مسند کے حاشیہ میں ) ج 5، ص 31

132۔ المراجعات / ص 141 ، 147

133۔جیسے ، ورقةبن نوفل جس نے عیسائی کتابوں کے مطالعہ کے بعد بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائی مذھب قبول کرلیا تھا۔

134۔طور/ 30 ۔32

135۔سیرہ ابن ھشام ، ج 2 ، ص 172

136۔ سیرہ ابن ھشام ، ج1 ص 386، 410

137۔ مائدہ /67

138۔ فخرر ازی نے اپنی تفسیر (ج3، ص 635) میں پیغمبر   کی اس ماموریت کے بارے میں دس احتمالات بیان کئے ھیں  جب کہ ان میں سے ایک احتمال بھی __ جبکہ ان کا کوئی صحیح ماخذ بھی نھیں ھے __ مذکورہ دو شرائط کا حامل نھیں ھے ، جنھیں ھم نے مذکورہ آیت سے اس کے موضوع کے تحت بیان کیا ھے ، ان میں سے زیادہ تر احتمالات ھرگز اس قدر اھم نھیں ھیں کہ ان کے نہ پھنچانے پر رسالت کو کوئی نقصان پھنچتا یا پیغامات کا پھنچانا خوف و وحشت کا سبب بن جاتا  یہ احتمالات حسب ذیل ھیں :

          1۔ یہ آیت ، گناھگار مردوں اور عورتوں کو سنگسار کرنے کے بارے میں ھے ۔

          2۔یہ آیت ، یھودیوں کے پیغمبر  پر اعتراض کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔

          3۔ جب قرآن مجید نے پیغمبر کی بیویوں کو تنبیہ کی کہ اگر وہ دنیا کے زر و زیور کو چاھیں گی تو پیغمبر  ا ن کو طلاق دیدیں گے ، پیغمبر  اس حکم الھی کو پھنچانے سے ڈرتے تھے کہ کھیں وہ دنیا کو ترجیح نہ دیں۔

          4۔ یہ آیت ، پیغمبر  کے منہ بولے بیٹے زید کے واقعہ سے متعلق ھے کہ پیغمبر   کو خدا کی طرف سے حکم ھوا کہ وہ زید کی طلاق یافتہ بیوی سے شادی کرلیں۔

          5۔ یہ آیت لوگوں اور منافقین کو جھاد کی طرف دعوت دینے سے مربوط ھے ۔

          6۔ بتوں کی برائی کرنے سے پیغمبر  کی خاموشی سے مربوط ھے۔

          7۔یہ آیت حجة الوداع میں اس وقت نازل ھوئی ھے جب پیغمبر  شریعت اور مناسک بیان فرمارھے تھے۔

          8۔ پیغمبر   قریش ، یھود اور نصاری سے ڈرتے تھے اس لئے یہ آیت آپ  کے ارادے کو قوت بخشنے کےلئے نازل ھوئی ھے۔

          9۔ ایک جنگ میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک درخت کے سایہ میں آرام فر مارھے تھے ، ایک عرب ننگی تلوار لے کر پیغمبر  پر حملہ آور ھوا اور آپ  سے مخاطب ھوکر کھا: ” اب تمھیں مجھ سے کون بچا سکتا ھے“ ، پیغمبر  نے جواب میں فرمایا: ” خدا “ اس وقت دشمن پر خوف طاری ھوا وہ پیچھے ھٹ گیا اور اس کا سر درخت سے ٹکرا کر پھٹ گیا ، اس وقت یہ آیت نازل ھوئی (والله یعصمک من الناس) آیہ شریفہ کے مفاد کا مذکورہ احتمالات کے مطابق ھونا ( مثلا ً آخری احتمال) بھت بعید ھے جب کہ غدیر خم کے واقعہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے ۔

1۔ مرحوم علامہ امینی نے ان تیس افراد کے نام اور خصوصیات اپنی تالیف ، الغدیر ، ج 1، ص 196 ۔ 209۔میں مفصل بیان کئے ھیں ان میں ، طبری ، ابو نعیم اصفھانی ، ابن عساکر ، ابو اسحاق حموینی اور جلال الدین سیوطی وغیرہ جیسے افراد بھی شامل ھیں کہ انھوں نے ابن عباس، ابو سعید خدری اور براء بن عازب سے یہ حدیث نقل کی ھے ۔

139۔ خاص طور پر عرب قوم میں ھمیشہ بڑے عھدوں کو قبیلہ کے عمر رسیدہ لوگوں کے سپرد کرنے کی رسم تھی اور جوانوں کو اس بھانے سے ایسے عھدے سونپنے کے قائل نہ تھے کہ جو ان زمانہ کا تجربہ نھیں رکھتے ھیں ۔ لھذا جب پیغمبر   نے ” عتاب بن ولید“ کو مکہ کا گورنر اور اسامہ کو سپہ سالار مقرر فرمایا تو عمر رسیدہ لوگوں نے آپ  پر اعتراض کیا پھر لوگ اس امر کی طرف توجہ نھیں دیتے کہ حضرت علی(ع)دیگر جوانوں سے مختلف ھیں ، یہ لائق اور شائستہ شخص الھی عنایتوں کے سایہ میں ایسے مقام تک پھنچا ھوا ھے کہ ھر قسم کی خطا اور لغزشوں سے محفوظ ھے اور ھمیشہ عالم  بالا سے امداد حاصل کرتاھے۔

140۔ احمد بن حنبل کا کھنا ے کہ پیغمبر  نے اس جملہ کو چار بار فرمایا

141۔ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِینًا )(مائدہ/ 3)

142۔فقال لہ قم یا علی فاننی

رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا

فمن کنت مولاہ فھذا  ولیہ

فکونو لہ اتباع صدق موالیا

143۔ احتجاج طبرسی ، ج 1 ص 71 تا 74  طبع ، نجف ۔

144۔ آیہ ، ( یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک ") (مائدہ / 67 )، اور آیہ شریفہ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی") (مائدہ /3)

145۔ وفیات الاعیان ، ج1، ص 60 ۔

146۔ وفیا ت الاعیان ، ج1، ص 223۔

147۔ التنبیہ و الاشراف ، ص 22 ۔

148۔ ثمارة القلوب ، ص 511۔

149۔حدید/ 15

150۔  ای اولی لکم ما اسلفتم  من الذنوب۔

151۔ حج / 13۔

152۔ احزاب 6

153۔ مناقب خوارزمی ص 80  وغیرھ۔

154۔ حجرات / 15

155۔توبہ / 71


فھرست

دسویں فصل

یک طرفہ فیصلہ نہ کریں

گیارھویں فصل

سقیفہ بنی ساعدہ کی غم انگیر داستان      

اھل سقیفہ کی منطق

تاریخی المیہ

بارھویں فصل 

انصار و مھاجرین کی منطق کیا تھیہ

امیر المؤمنین کی خلافت کیلئے خود شائستہ ھونے کی منطق

تیرھویں فصل 

نماز کی امامت ، خلافت کیلئے دلیل نھیں

نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی

چودھویں فصل

حکمرانی ، معنوی رھبری سے جدا نھیں ھے

بیان احکام اور لوگوں کی رھنمائی

دو منصب کو ایک دوسرے سے جدا کرنا صحیح نھیں

عیسائی تفکر

پندرھویں فصل

اسلامی احکام سے خلفاء کی ناآگاھی

خلیفہ اول کی لاعلمی کے چند نمونے

خلیفہ دوم کی معلومات کا معیار

خلیفہ ٴ سوم کے معلومات کا معیار

سولھویں فصل

پیغمبر  کے صحابی ، گناہ و خطا سے معصوم نھیں

حق و باطل پھچاننے کا راستہ

اس سیاہ فھرست کے چند نمونے

سترھویں فصل

حضرت علی(ع)کی پیشوائی کے بارے میں نقلی دلائل

1۔حدیث منزلت

اٹھارھویں فصل

حدیث غدیر (پھلا حصہ)

1۔تھمت کا حربہ

                             2۔ آپ کے پیرؤں کو آزار پھنچانا

                             3۔عرب کے بڑے داستان گو کو دعوت

                             4۔ قرآن مجید سننے پر پابندی

                             5۔ اقتصادی پابندی

                             6۔ پیغمبر اکرم   کو قتل کرنے کی سازش

                             7-۔ خونین جنگیں

                             8۔ پیغمبر اسلام  کی وفات

انیسویں فصل                                                                     

                   حدیث غدیر (دوسرا  حصہ)

                   غدیر کا تاریخی واقعہ ایک ابدی حقیقت

                             غدیر کا وقعہ لافانی و جادیدانی ھے

                             واقعہ کی ابدیت اور لافانی کے دیگر دلائل

          بیسویں فصل

          حدیث غدیر (تیسرا حصہ)

          غدیر کے باشکوہ اجتماع کا مقصد کیا تھا؟

اکیسوں فصل

دو سوالوں کے جواب

          دو سوال

          پھلے سوال کا جواب

          دوسرے سوال کا جواب

بائیسویں فصل

حدیث -ثقلین اور حدیث سفینھ

          قرآن و عترت کا باھم اٹوٹ رشتھ

          حدیث ثقلین کا مفاد

          امیر المؤمنین  کا حدیث ثقلین سے استدلال

          ایک نکتہ کی یاددھانی

          عترت پیغمبر  سفینہ نوح کے مانند

          حدیث سفینہ کا مفاد

تئیسویں فصل

ایک شخص کا معصوم ھونا کیسے ممکن ھے؟

          عصمت کیا ھے

          چوبیسویں فصل

رھبران الھی کےلئے عصمت کی دلیلیں

1۔ تربیت عمل کے سایہ میں

2۔ اعتماد جذب کرنا

پچیسویں فصل

جن کے رتبے میں سوا ان کو سوا۔۔۔

قرآن کی راھنمائی

ایک سوال کا جواب

قرآن کی دوسری راھنمائی

چھبیسویں فصل 


اکیسویں فصل

دو سوالوں کے جواب

دو سوال

 پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںکی بلا فصل خلافت کا اعلان غدیر خم میں کر دیا اور ان کی اطاعت و پیروی تمام مسلمانوں پر لازم و واجب قرار دے دی ۔یھاں دو سوال سامنے آتے ھیں۔

   1۔    جب حضرت علی ںکی جانشینی کا اعلان ایسے مخصوص دن کر دیا گیاتھا تو پھر اصحاب نے آنحضر ت کی رحلت کے بعدحضرت علیںکی وصایت و ولی عھدی کو اندیکھا کرتے ھوئے کسی اور کی پیروی کیوں کی ؟

   2۔    امام علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیوں نھیں کیا؟

پھلے سوال کا جواب :

 اگرچہ اصحاب پیغمبر  کے ایک گروہ نے حضرت علی ںکی جانشینی کو فراموش کرتے ھوئے غدیر کے الٰھی فرمان سے چشم پوشی کرلی اور بھت سے لاتعلق و لاپرواہ لوگوں  نے  -- جن کی مثالیں ھر معاشرہ میں بھت زیادہ نظر آتی  ھیں--  ---  --ان لوگوں کی پیروی کی ،لیکن  ان کے مقابل ایسی نمایاں شخصیتیں اور اھم افراد بھی تھے جو حضرت علیںکی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں وفادار رھے ۔ اور انھوں نے امام علی ںکے علاوہ کسی اور کی پیروی نھیں کی ۔ یہ افراد اگر چہ تعداد میں پھلے گروہ سے کم اور اقلیت شمار ھوتے تھے ،لیکن کیفیت و شخصیت کے اعتبار سے پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ممتاز اصحاب میں شمار ھوتے تھے جیسے :سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،مقداد بن اسود ، عمار یاسر ،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ،خزیمہ بن ثابت ،بریدھٴ اسلمی ، ابوھثیم بن التیھان،خالد بن سعید اور ایسے ھی بھت سے افراد کہ تاریخ اسلام نے ان کے نام اور ان کی زندگی کے خصوصیات و نیک صفات ، موجودہ خلافت پر ان کی تنقیدیں اورامیر الموٴمنین علی ںسے ان کی وفاداریوں کو پوری باریکی کے ساتھ محفوظ کیا ھے۔

          تاریخ اسلام نے دو سو پچاس صحابیوں کا ذکر کیا ھے کہ یہ سب کے سب امام کے وفادار تھے اور زندگی کے آخری لمحہ تک ان کے دامن سے وابستہ رھے ۔ ان میں سے بھت سے لوگوں نے امام کی محبت میں شھادت کا شرف بھی حاصل کیا۔   (156)

          افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی وصایت و ولایت کا مسئلہ ھی نھیں ھے جس میں آنحضرت کے صریح و صاف حکم کے باوجود پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض صحابیوں نے مخالفت اور آنحضرت  کے حکم سے چشم پوشی کی ،بلکہ تاریخ کے صفحات کی گواھی کے مطابق خود پیغمبر  کے زمانہ میں بھی بعض افراد نے آنحضرت  کے صاف حکم کو اندیکھا کیا ، اس کی مخالفت کی اور اس کے خلاف اپنے نظریہ کا اظھار کیا ۔

          دوسری لفظوں میں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعض اصحاب جب آنحضرت  کے حکم کو اپنے باطنی خواھشات اور سیاسی خیالات کے مخالف نھیں پاتے تھے تو دل سے اسے قبول کرلیتے تھے ۔ لیکن اگر پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تعلیمات کے کسی حصہ کو اپنے سیاسی افکار و خیالات اور اپنی جاہ پسند خواھشات کے خلاف پاتے تھے تو پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کی انجام دھی سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور اگر پیغمبر  اپنی بات پر جمے رھتے تو آنحضرت  کے حکم سے سرتابی کی کوشش کرتے تھے یا اعتراض کرنے لگتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ خود پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کی پیروی کریں۔

         

ذیل میں ھم بعض اصحاب کی اس ناپسندیدہ روش کے چند نمونے بیان کرتے ھیں:

   1۔    پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ میرے لئے قلم و دوات لے آؤ تاکہ میں ایک ایسی تحریر لکہ دوں جس کی روشنی میں میرے بعد میری امت کبھی گمراہ نہ ھو۔لیکن وھاں موجود بعض افراد نے اپنی مخصوص سیاسی سوجہ بوجہ سے یہ سمجھ لیا کہ اس تحریر کا مقصد اپنے بعد کے لئے جانشین کے تعین کا تحریری اعلان ھے لھٰذا پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صریحی حکم کی مخالفت کر بیٹھے اور لوگوں کو قلم و کاغذ لانے سے روک دیا!

          ابن عباس نے اپنی آنکھوں سے اشک بھاتے ھوئے کھا : مسلمانوں کی مصیبت اور بدبختی اسی روز سے شروع ھوئی جب پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیمار تھے اور آپ  نے اس وقت قلم کا غذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسی چیز لکہ دیں کہ ان کے بعد امت اسلام گمراہ نہ ھو ۔لیکن اس موقع پر بعض حاضرین نے جھگڑا اور اختلاف شروع کردیا ۔بعض لوگوں نے کھا: قلم ،کا غذ لے آؤ بعض نے کھا نہ لاؤ ۔ آخر کار پیغمبر  نے جب یہ جھگڑا اور اختلاف دیکھا تو جو کام انجام دینا چاھتے تھے نہ کر سکے۔  (157)

   2۔    مسلمانوں کے لشکر کے سردار ”زید بن حارثہ"رومیوں کے ساتھ ،جنگ موتہ میں قتل ھوگئے

اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک فوج تشکیل دی اور مھاجرین وانصار کی تمام شخصیتوں کو اس میں شرکت کاحکم دیا اور لشکر کاعلم اپنے ھاتھوں سے ”اسامہ ابن زید“کے حوالے کیا۔ناگھاں اسی روز آنحضرت کو شدید بخار آیاجس نے آنحضرت کو سخت مریض کردیا۔اس دوران پیغمبر کے بعض اصحاب کی جانب سے اختلاف ،جھگڑے اور پیغمبر خدا کے صاف حکم سے سرتابی کاآغاز ھوا۔بعض لوگوں نے ”اسامہ"جیسے جوان کی سرداری پر اعتراض کرتے ھوئے اپنے غصہ کااظھار کیا اور آنحضرت سے اس کی معزولی کامطالبہ کیا۔ ایک گروہ جن کے لئے آنحضرت کی موت قطعی ھوچکی تھی،جھاد میں جانے سے ٹال مٹول کرنے لگا کہ ایسے حساس موقع پر مدینہ سے باھر جانا اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھا نھیں ۔

          پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی اپنے اصحاب کی اس ٹال مٹول اور لشکر کی روانگی میں تاخیر سے آگاہ ھوتے تھے تو آپ کی پیشانی اور چھرہ سے غصہ کے آثار ظاھر ھونے لگتے تھے اور اصحاب کو آمادہ کرنے کے لئے دوبارہ تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے :جلد ازجلد مدینہ ترک کرو اور روم کی طرف روانہ ھوجاوٴ۔لیکن اس قدر تاکیدات کے باوجود ان ھی اسباب کے پیش نظر جو اوپر بیان ھوچکے ھیں،ان افراد نے آنحضرت کے صاف وصریح حکم کو ان سنا کردیا اور اپنی ذاتی مرضی آگے پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیھم تاکیدات کو ٹھکرادیا۔

   3۔    پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان سے بعض اصحاب کی مخالفت کے یھی دو مذکورہ نمونے نھیں ھیں۔ اس قسم کے افراد نے سرزمین ”حدیبیہ" پر بھی،جب آنحضرت قریش سے صلح کی قرار داد باندہ رھے تھے،سختی کے ساتھ آنحضرت کی مخالفت کی اور ان پر اعتراض اور تنقیدیں کیں۔

          پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی آنحضرت کے دستورات سے مخالفت اس سے زیادہ ھے۔کیونکہ ان ھی افراد نے بعض اسباب کے تحت نماز اور اذان کی کیفیت میں تبدیلی

کردی ”ازدواج موقت“کی آیت کو ان دیکھا کردیا ماہ رمضان مبارک کی شبوں کے نوافل کوجنھیں فرادیٰ پڑھنا چاھئے ایک خاص کیفیت کے ساتھ جماعت میں تبدیل کردیا اور میراث کے احکام میں بھی تبدیلیاں کیں۔

          ان میں سے ھر ایک تبدیلیوں اور تحریفوں اور آنحضرت کے حکم سے ان سرتا بیوں کے اسباب و علل اور اصطلاحی طور سے ”نص کے مقابلہ میں اجتھاد“کی تشریح اس کتاب میں ممکن نھیں ھے۔ اس سلسلہ میں کتاب ”المراجعات“کے صفحات 218۔282تک اور ایک دوسری کتاب ”النص و الاجتھاد “ کا مطالعہ مفید ھوگا ،جو اسی موضوع سے متعلق لکھی گئی ھے۔

          اصحاب پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مخالفت اور شرارت اس قدربڑہ گئی تھی کہ قرآن مجید نے انھیں سخت انداز میں رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے دستورات سے مخالفت اور ان پر سبقت کرنے سے منع کیا چنانچہ فرماتا ھے:

”فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنة او یصیبھم عذاب الیم“  (158)

یعنی جو لوگ رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان کی مخالفت کرتے ھیں وہ اس بات سے ڈریں کہ کھیں کسی بلا یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ھوں۔

اور فرماتاھے :

”یا اٴیھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی اللہو رسولہ واتقوا اللّٰہ ان اللہسمیع علیم“  (159)

اے ایمان لانے والو!خدا اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو کہ بلا شبہ اللہ سننے اور جاننے والا ھے۔

          جولوگ یہ اصرار کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان کے نظریات و خیالات کی پیروی کریں خداوند عالم انھیں بھی وارننگ دیتا ھے:

”واعلموا ان فیکم رسول اللہلو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم“   (160)

اور جان لو کہ تمھارے درمیان رسول خدا جیسی شخصیت موجود ھے۔اگر بھت سے امور میں وہ تمھارے نظریات کی پیروی کریں گے تو تم زحمت میں پڑجاوٴگے۔

          یہ حادثات اور یہ آیات اس بات کی صاف حکایت کرتی ھےں کہ اصحاب پیغمبر میں ایک گروہ تھا جو آنحضرت کی مخالفت کرتا تھا اور جیسی ان کی اطاعت کرنا چاھئے اطاعت نھیں کرتا تھا ۔بلکہ یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ جو احکام الٰھی ان کے افکار اور سلیقہ سے سازگار نھیں تھے،ان کی پیروی نہ کریں۔حتیٰ یہ کوشش کرتے تھے کہ خود رسول خدا کو اپنے نظریات کا پیرو بنائیں۔

          افسوس رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد سیاسی میدان میں دوڑنے والے اور سقیفہ نیز فرمائشی شوریٰ کی تشکیل دینے والے یھی لوگ جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صاف حکم اور نص الٰھی کو اپنی باطنی خواھشات کے مخالف پایا لھٰذابھت تیزی سے اسے بھلادیا۔

 

 

دوسرے سوال کاجواب:

          جیسا کہ اس سوال میں در پردہ ادعا کیا گیا ھے ،یہ یاد دلانا ضروری ھے کہ حضرت علی ں نے اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی حقانیت اور اپنی خلافت پر استدلال کیا ھے۔حضرت امیرالمومنین جب بھی موقع مناسب دیکھتے تھے مخالفوں کو حدیث غدیر یاد دلاتے تھے ۔ اس طرح سے اپنی حیثیت لوگوں کے دلوں میں محکم فرماتے تھے اور حقیقت کے طالب افراد پر حق کو  آشکار کردیتے تھے ۔

          نہ صرف حضرت امام علی (ع)بلکہ بنت رسول خدا حضرت فاطمہ زھرا(ع)اور ان کے دونوں صاحب زادوں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام اور اسلام کی بھت سی عظیم شخصیتوں مثلاً عبداللہ بن جعفر،عمار یاسر،اصبغ بن نباتہ،قیس بن سعد، حتیٰ کچھ اموی اور عباسی خلفاء مثلاً عمر بن عبد العزیز اور مامون الرشید اور ان سے بھی بالاتر حضرت(ع)کے مشھور مخالفوں مثلا عمروبن عاص اور....نے حدیث غدیر سے احتجاج واستدلال کیاھے۔

          حدیث غدیر سے استدلال حضرت علی (ع)کے زمانہ سے آج تک جاری ھے اور ھر زمانہ وھر صدی میں حضرت (ع)کے دوست داروں نے حدیث غدیر کو حضرت کی امامت وولایت کے دلائل میں شمار کیاھے۔ھم یھاں ان احتجاجات اور استدلالوںکے صرف چند نمونے پیش کرتے ھیں:

          1۔سب جانتے ھیں کہ خلیفہ دوم کے حکم سے بعد کے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چہ رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی کمیٹی کے افراد کی ترکیب ایسی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی (ع)تک نھیں   پھنچے گی کیونکہ عمر نے اس وقت کے سب سے بڑے سرمایہ دار عبدالرحمان بن عوف (جو عثمان کے قریبی رشتہ دار تھے)کو ویٹو پاور دے رکھا تھا۔ان کا حضرت علی (ع)کے مخالف گروہ سے جو رابطہ تھا اس سے صاف ظاھر تھا کہ وہ حضرت علی (ع)کو اس حق سے محروم کردیں گے ۔

          بھر حال جب خلافت عبد الرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کو بخش دی گئی تو حضرت علی (ع)نے شوریٰ کے اس فیصلہ کو باطل قرار دیتے ھوئے فرمایا:میں تم سے ایک ایسی بات کے ذریعہ احتجاج کرتاھوں جس سے کوئی شخص انکار نھیں کرسکتا یھاں تک کہ فرمایا :میں تم لوگوں کو تمھارے خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس کے بارہ میں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا ھو ”من کنت مولاہ فھذا علیّ مولاہ، اللّٰھم وال من والاہ وانصر من نصرہ لیبلغ الشاھد الغائب“ یعنی میں جس جس کا مولاھوں یہ علی (ع)بھی اس کے مولا ھیں۔خدا یاتواسے دوست رکہ اور اس کی مدد فرما جو علی (ع)کی مدد کرے۔حاضرین ھر بات غائب لوگوں تک پھنچائیں۔

           اس موقع پر شوریٰ کے تمام ارکان نے حضرت علی (ع)کی تصدیق کرتے ھوئے کھا: خدا کی قسم یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور میں نھیں پائی جاتی ۔  (161)

          امام علی (ع)کا احتجاج و استدلال اس حدیث سے صرف اسی ایک موقع پر نھیں تھا بلکہ امام نے حدیث غدیر سے دوسرے مقامات پر بھی استدلال فرمایا ھے۔

          2۔ ایک روز حضرت علی ں کوفہ میں خطبہ دے رھے تھے۔تقریر کے دوران آپ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں ،جوشخص بھی غدیر خم میں موجود تھا اور جس نے اپنے کانوں سے سنا ھے کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ھے وہ کھڑے ھو کر گواھی دے۔لیکن صرف وھی لوگ کھڑے ھوں جنھوں نے خود اپنے کانوں سے پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ بات سنی ھے۔وہ نہ اٹھیںجنھوں نے دوسروںسے سنا ھے۔اس وقت تیس افراد اپنی جگہ پر کھڑے ھوئے اور انھوں نے حدیث غدیر کی گواھی دی۔

          یہ بات ملحوظ رکھنی چاھئے کہ جب یہ بات ھوئی تو غدیر کے واقعہ کو گزرے ھوئے پچیس سال ھوچکے تھے۔اور پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بھت سے اصحاب کوفہ میں نھیں تھے،یا اس سے پھلے انتقال کرچکے تھے اور کچھ لوگوں نے بعض اسباب کے تحت گواھی دینے سے کوتاھی کی تھی۔

          ”علامہ امینی“ مرحوم نے اس احتجاج وا ستدلال کے بھت سے حوالے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ میں نقل کئے ھیں۔شائقین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں۔   (162)

          3۔حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مھاجرین و انصار کی دوسو بڑی شخصیتیں مسجد نبی  میں جمع ھوئیں۔ان لوگوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کی۔یھاں تک کہ بات قریش کے فضائل ان کے کارناموں اور ان کی ھجرت کی آئی اور قریش کا ھر خاندان اپنی نمایاں شخصیتوں کی تعریف کرنے لگا۔جلسہ صبح سے ظھر تک چلتا رھا اور لوگ باتیں کرتے رھے حضرت امیر المومنین (ع)پورے جلسہ میں صرف لوگوں کی باتیں سنتے رھے۔اچانک مجمع آپ (ع)کی طرف متوجہ ھوا اور درخواست کرنے لگا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے۔امام علیہ السلام لوگوں کے اصرار پر اٹھے اور خاندان پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنے رابطہ اور اپنے درخشاںماضی سے متعلق تفصیل سے تقریر فرمائی۔یھاں تک کہ فرمایا:

          کیا تم لوگوں کو یاد ھے کہ غدیر کے دن خداوند عالم نے پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو یہ حکم دیا تھا کہ جس طرح تم نے لوگوں کو نماز ،زکات اور حج کی تعلیم دی یوں ھی لوگوں کے سامنے علی (ع)کی پیشوائی کا بھی اعلان کردو۔اسی کام کے لئے پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا: خداوند عالم نے ایک فریضہ میرے اوپر عائد کیاھے۔میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ کھیں اس الٰھی پیغام کو پھنچانے میں لوگ میری تکذیب نہ کریں،لیکن خدواند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام انجام دوں اور یہ خوش خبری دی کہ اللہ مجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

          اے لوگو!  تم جانتے ھو کہ خدا میرا مولا ھے اور میں مومنین کا مولا ھوں اور ان کے حق میں ان سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ھوں؟سب نے کھا ھاں۔اس وقت پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: علی ! اٹھو ۔میں اٹہ کھڑا ھوا۔ آنحضرت نے مجمع کی طرف رُخ کرکے فرمایا:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (ع)مولا ھیں ۔خدایا!  تو اسے دوست رکہ جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکہ جو علی (ع)سے دشمنی کرے۔

          اس موقع پر سلمان فارسی نے رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے دریافت کیا : علی (ع)ھم پر کیسی ولایت رکھتے ھیں ؟پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:”ولائہ کولائی ،من کنت اولی بہ من نفسہ ،فعلیّ اولی بہ من نفسہ “ یعنی تم پر علی (ع)کی ولایت میری ولایت کے مانندھے ۔میں جس جس کی جان اور نفس پر اولویت رکھتا ھوں علی (ع)بھی اس کی جان اور اس کے نفس پر اولویت رکھتے ھیں۔   (163)

          4۔ صرف حضرت علی ںنے ھی حدیث غدیر سے اپنے مخالفوں کے خلاف احتجاج و استدلال نھیں کیا ھے بلکہ پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پارہ ٴجگر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے ایک تاریخی دن جب آپ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے مسجد میں خطبہ دے رھی تھیں، تو

پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:

          کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو فراموش کردیا جس دن پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی  (ع)کے بارے میں فرمایا تھا :

          ”من کنت مولاہ فھٰذ ا علی مولاہ"  جس کا میں مولا ھوں یہ علی اس کے مولا ھیں.

          5۔ جس وقت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی قرار داد باندھنے کا فیصلہ کیا تو مجمع میں کھڑے ھو کر ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:

”خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت (ع)کو اسلام کے ذریعہ مکرم اور گرامی قرار دیا ھمیں منتخب کیا اور ھر طرح کی رجس و کثافت کو ھم سے دور رکھا … یھاں تک کہ فرمایا: پوری امت نے سنا کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںسے فرمایا: تم کو مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھارون کو موسی (ع)سے تھی“

          تمام لوگوں نے دیکھا اور سناکہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں حضرت علیں کا ھاتہ   تھام کرلوگوں سے فرمایا:

” من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ"   (164)

          6۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی سرزمین مکہ پر حاجیوں کے مجمع میں  جس

میں اصحاب پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ایک بڑی تعداد موجود تھی  ---خطبہ دیتے ھوئے

فرمایا:

          ”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم جانتے ھو کہ پیغمبر اسلام نے غدیر کے دن حضرت علی ںکو اپنی خلافت و ولایت کے لئے منتخب کیا اور فرمایا کہ : حاضرین یہ بات غائب  لوگوں تک پھنچا دیں “ ؟ پورے مجمع نے کھا : ھم گواھی دیتے ھیں ۔

          7۔ ان کے علاوہ جیسا کہ ھم عرض کر چکے ھیں ، پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے کئی اصحاب مثلا عماریاسر ،زید بن ارقم ،عبداللہ بن جعفر ،اصبغ بن نباتہ اور دوسرے افراد نے بھی حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت علی ںکی خلافت و امامت پر استدلال کیا ھے ۔   (165)


بائیسویں فصل

حدیث”ثقلین “اورحدیث ” سفینہ"قرآن و عترت کا باھم اٹوٹ رشتہ

 حدیث ثقلین (166)  اسلام کی ان قطعی و متواتر احادیث میں سے ھے جسے علمائے اسلام نے پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کیا ھے ۔مختلف زمانوں اور صدیوں میں اس حدیث کے متعدد اور قابل اعتماد اسناد  پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث کو قطعی ثابت کرتے ھیں اور کوئی بھی صحیح فکر اور صحیح مزاج والا شخص اس کی صحت و استواری میں شک نھیں کر سکتا ۔

 علمائے اھل سنت کے نقطہ نظرسے اس حدیث کا جائزہ لینے سے پھلے ھم ان سے بعض افراد کی گواھی یھاں نقل کرتے ھیں:

 ”منادی“ کے بقول:یہ حدیث ایک سو بیس (120) سے زیادہ صحابیوں نے

پیغمبر اسلام   (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کی ھے ۔  (167)

ابن حجر عسقلانی کے بقول : حدیْث ثقلین بیس (20) سے زیادہ طریقوں سے نقل ھوئی ھے(168)

عظیم شیعہ عالم علامہ میر حامد حسین مرحوم ،جن کا انتقال  1306ء ہ میں ھوا ھے ،انھوں نے مذکورہ حدیث کو علمائے اھل سنت کی 502 کتابوں سے نقل کیا ھے ۔ حدیث کی سند اور دلالت سے متعلق ان کی تحقیق چہ جلدوں میں اصفھان سے شائع ھو چکی ھے ، شائقین اس کتاب کے ذریعہ اس حدیث کی عظمت سے آگاہ ھو سکتے ھیں۔

  اگر ھم اھل سنت کے مذکورہ راویوں پر شیعہ راویوں کا اضافہ کردیں تو حدیث ثقلین معتبر اور متواتر ھونے کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ پر نظر آتی ھے ،جس کے اعتبار کا مقابلہ حدیث غدیر کے علاوہ کسی اور حدیث سے نھیں کیا جا سکتا ۔حدیث ثقلین کا متن یہ ھے

”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہو عترتی اھل بیتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا ولن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض“

”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رھا ھوں ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اھل بیت(ع) ھیں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھوگے ھرگز گمراہ نہ ھوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے  جدا نہ ھوں گے ،یھاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پھنچ جائیں“ 

البتہ یہ حدیث اس سے بھی وسیع انداز میں نقل ھوئی ھے ۔حتی ابن حجر نے لکھا ھے کہپیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کے آخر میں اضافہ فرمایا:

”ھٰذا علی من القرآن و القرآن مع علی لا یفترقان“  (169)

”یعنی یہ علی ھمیشہ قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی کے ھمراہ ھے۔یہ دونوںایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے“

 مذکورہ بالا روایت حدیث کی وہ مختصر صورت ھے جسے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ھے اور اس کی صحت پر گواھی دی ھے ۔ لیکن حدیث کی صورت میں اختلاف کی وجہ یہ ھے کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبیروں میں لوگوں کو قرآن و اھل بیت(ع)کے اٹوٹ رشتہ سے آگاہ کیا ھے ۔ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو حجة الوداع کے موقع پر غدیر خم  (170) میں۔منبرپر  (171)، اور بستر بیماری پر (172) جب کہ آپ  کا حجرہ اصحاب سے بھرا ھو ا تھا ،بیان کیا تھا ۔اور اجمال و تفصیل کے لحاظ سے حدیث کے اختلاف کی وجہ یہ ھے کہ آنحضرت  نے اسے مختلف تعبیروں سے بیان کیا ھے

          اگر چہ حدیث مختلف صورتوں سے نقل ھوئی ھے اور پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی دو یادگاروں کو کبھی ”ثقلین “ کبھی ”خلیفتین“ اور کبھی ” امرین“ کے الفاظ سے یاد کیا ھے ، اس کے باوجود سب کا مقصد ایک ھے اور وہ ھے قرآن کریم اور پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)کے درمیان اٹوٹ رابطہ کا ذکر۔

 

حدیث ثقلین کا مفاد

 حدیث ثقلین کے مفاد پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ھوتی ھے کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)گناہ تو گناہ خطا ولغزش سے بھی محفوظ و معصوم ھیں ،کیوں کہ جو چیز صبح قیامت تک قرآن کریم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتی ھے وہ قرآن کی ھی طرح ( جسے خدا وند عالم نے ھر طرح کیتحریف سے محفوظ رکھا ھے) ھر خطا و لغزش سے محفوظ ھے۔

دوسرے لفظوں میںیہ جو پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا کہ اسلامی امت صبح قیامت تک (جب یہ دونوں یادگاریں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات کریں گی) ان دونوں سے وابستہ رھے اور ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرے ،اس سے یہ بات اچھی سمجھی جا سکتی ھے کہ یہ دونوں الٰھی حجتیں اور  پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی یادگاریں ،ھمیشہ خطا و غلطی سے محفوظ اور ھر طرح کی کجی و انحراف سے دور ھیں ۔ کیوں کہ یہ تصور نھیں کیا جا سکتا کہ خدا وند عالم کسی عاصی و گناھگار انسان کی اطاعت ھم پر واجب کرے یا قرآن مجید جیسی خطا سے پاک کتاب کا کسی خطا کار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دےدے ۔قرآن کا ھمسر اور اس کے برابر تنھا وھی گروہ ھو سکتا ھے جو ھر گناہ اور ھر خطا و لغزش سے پاک ھو۔

جیسا کہ ھم پھلے عرض کر چکے ھیں ،امامت کے لئے سب سے اھم شرط عصمت یعنی گناہ و خطا سے اس کامحفوظ رھنا ھے ۔آگے بھی ھم عقل کی روشنی میں الٰھی پیشواؤںاور رھبروں کے لئے اس کی ضرورت پر ثبوت فراھم کریں گے حدیث ثقلین بخوبی اس بات کی گواہ ھے کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت و اھل بیت (ع)قرآن کی طرح ھر عیب و نقص ،خطا و گناہ سے پاک ھیں اور چونکہ ان کی پیروی واجب کی گئی ھے لھٰذا انھیں بھر حال گناہ و معصیت سے پاک ھونا چاھئے۔

 

امیر الموٴمنین (ع)کا حدیث ثقلین سے استدلال

کتاب ”احتجاج “ کے موٴلف احمد بن علی ابن ابیطالب کتاب ”سلیم بن قیس “ سے (جوتابعین میں ھیں اور حضرت امیر المومنینں کے عظیم شاگرد ھیں)نقل کرتے ھیں کہ عثمان کی خلافت کے دور میں مسجد النبی  میں مھاجرین و انصار کا ایک جلسہ ھو اجس میں ھر شخص اپنے فضائل و کمالات بیان کر رھا تھا ۔ اس جلسہ میں امام علیں بھی موجود تھے لیکن خاموش بیٹھے ھوئے سب کی باتیں سن رھے تھے ۔ آخر کا ر لوگوں نے امام (ع)سے درخواست کی کہ آپ (ع)بھی اپنے بارہ میں کچھ بیان کریں ،امام نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایاجس میں چند آیات کی تلاوت بھی فرمائی جو آپ کے حق میں نازل ھوئی تھی اس کے ساتھ ھی آپ نے ارشاد فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم جانتے ھو کہ رسول خدا  نے اپنی زند گی کے آخری ایام میں خطبہ دیا تھا اور اس میں فرمایا تھا:

” یا اٴیھا الناس انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی فتمسکوا بھما لاتضلوا “

” اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر میراث چھوڑے جا رھا ھوں ۔ اللہ کی کتاب اور میرے اھل بیت (ع)پس ان دونوں سے وابستہ رھو کہ ھر گز گمراہ نہ ھوگے ۔   (173)

مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اھل بیت (ع)سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نھیں ھیں کیوں کہ امت کا اس پر اتفاق ھے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نھیں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معین تعداد ھے جن کی امامت پر شیعہ راسخ عقیدہ رکھتے ھیں۔

 دوسرے لفظوں میں اگر ھم حدیث ثقلین کے مفاد کو قبول کر لیں تو عترت و اھل بیت کے افراد اور ان کے مصداق مخفی نھیں رہ جائیں گے کیوں کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزندوں یا ان سے وابستہ افراد کے درمیان صرف وھی لوگ اس حدیث کے مصداق ھو سکتے ھیں جو ھر طرح کی لغزش و خطا سے مبرا و پاک ھیں اور امت کے درمیان طھارت ،پاکیزگی ،اخلاقی فضائل اور وسیع و بیکراں علم کے ذریعہ مسلمانوں میں مشھور ھیں اور لوگ انھیں نام و نشان کے ساتھ پھچانتے ھیں۔

ایک نکتہ کی یاد دھانی

  اس مشھوراور متفق علیہ حدیث یعنی حدیث ثقلین کا متن بیان ھو چکا اور ھم نے دیکھا کہ

پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ھر جگہ" کتاب و عترت “ کو اپنی دو یاد گار کے عنوان سے یاد کیا ھے اور ان دو الٰھی حجتوں کے باھم اٹوٹ رشتہ کو ذکر کیا ھے لیکن سنت کی بعض کتابوں میں کھیں کھیں ندرت کے ساتھ ”کتاب اللہ و عترتی “ کے بجائے ”کتاب اللہ و سنتی “ ذکر ھو اھے اور ایک غیر معتبر روایت کی شکل میں نقل ھوا ھے ۔

 ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب  میں حدیث کی دوسری صورت بھی نقل کی ھے اور اس کی توجیہ کرتے ھوئے لکھا ھے کہ : در حقیقت سنت پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو قرآنی آیات کی مفسر ھے اس کی بازگشت خود کتاب خدا کی طرف ھے اور دونوں کی پیروی لازم وواجب ھے ۔

ھمیں اس وقت اس سے سرو کار نھیں کہ یہ توجیہ درست ھے یا نھیں ۔جو بات اھم ھے یہ ھے کہ حدیث ثقلین جسے عام طور سے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ھے وہ وھی ” کتاب اللہ و عترتی “ھے اور اگر جملہ ”کتاب اللہ و سنتی “ بھی پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے صحیح و معتبر سند کے ساتھ نقل ھوئی ھوگی تو وہ ایک دوسری حدیث ھوگی ۔ جو حدیث ثقلین سے کوئی ٹکراؤ نہ رکھے گی ۔جبکہ یہ تعبیر احادیث کی کتابوں میں کسی قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نھیں ھوئی ھے ۔اور جو شھرت و تواتر پھلی بایوں کھا جائے کہ اصل حدیث ثقلین کو حاصل ھے وہ اسے حاصل نھیں ھے۔

عترت پیغمبر سفینہٴ نوح کے مانند

  اگر حدیث سفینہ کو حدیث ثقلین کے ساتھ ضم کردیا جائے تو ان دونوں حدیثوں کا مفاد

پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اھل بیت (ع)کے لئے فضائل و کمالات کی ایک دنیا کو نمایاں کرتاھے۔

 سلیم ابن قیس نے لکھا ھے کہ : میں حج کے زمانہ میں مکہ میںموجود تھا.میں نے دیکھا کہ جناب ابوذر غفاری کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ھوئے بلند آواز میں کھہ رھے ھیں:

 اے لوگو! جو مجھے پھچانتا ھے وہ پھچانتاھے اور جو نھیں پھچانتا میں اسے اپنا تعارف کراتا ھوں۔میں جندب بن جنادہ ”ابوذر“ھوں.اے لوگو!  میں نے پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ھے کہ"

”ان مثل اھل بیتی فی امتی کمثل سفینة نوح فی قومہ من رکبھا نجیٰ ومن ترکھا غرق“

میرے اھل بیت کی مثال میری امت میں جناب نوح کی قوم میں ان کی کشتی کے مانند ھے کہ جو شخص اس میں سوار ھوا اس نے نجات پائی اور جس نے اسے ترک کردیا وہ غرق ھوگیا.  (174)

  حدیث سفینہ ،حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے بعد اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ھے اور محدثین کے درمیان عظیم شھرت رکھتی ھے .

 کتاب عبقات الانوار  (175)  کے مولف علامہ میر حامد حسین مرحوم نے اس حدیث کو اھل سنت کے نوے /90 مشھور علماء و محدثین سے نقل کیا ھے.  (176)

حدیث سفینہ کا مفاد

  حدیث سفینہ جس میں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت کو نوح کی کشتی سے تعبیر کیا گیا ھے.اس سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ اھل بیت (ع)کی پیروی نجات کا سبب اور ان کی مخالفت نابودی کا سبب ھے ۔

 اب یہ دیکھنا چاھیئے کہ کیا صرف حلال و حرام میں ان کی پیروی کرنا چاھیئے اور سیاسی و اجتماعی مسائل میں ان کے ارشاد و ھدایت پر عمل کرنا واجب نھیں ھے یا یہ کہ تمام موارد میں ان کی پیروی واجب ھے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروری ھے ؟

جولوگ کھتے ھیں کہ اھل بیت (ع)پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پیروی صرف دین کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ھے وہ کسی دلیل کے بغیر پیروی کے موضوع کو محدود کرتے ھیں اور اس کی وسعت کو سمجھنے کی کوشش نھیںکرتے جب کہ حدیث میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نھیں ھے۔

 لھٰذا حدیث سفینہ بھی اس سلسلہ میں وارد ھونے والی دوسری احادیث کی طرح اسلامی

قیادت و سرپرستی کے لئے اھل بیت (ع)کی لیاقت و شائستگی کو ثابت کرتی ھے۔

 اس کے علاوہ مذکورہ حدیث اھل بیت (ع)کی عصمت و طھارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ھونے کی بھترین گواہ ھے،کیونکہ ایک گناھگار و خطا کار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات اور گمراھوں کی ھدایت کرسکتا ھے ؟!

 حضرت امیر المومنین ںاور ان کے جانشینوں کی ولایت اور امت اسلام کی پیشوائی و رھبری کے لئے ان کی لیاقت و شائستگی کے دلائل اس سے کھیں زیادہ ھیں اور اس مختصر کتاب میں سمیٹے نھیں جاسکتے لھٰذا ھم اتنے ھی پر اکتفا کرتے ھیں اور اپنی گفتگو کاآغاز عصمت کے موضوع سے کرتے ھیں جو الٰھی رھبروں کے لئے بنیادی شرط ھے ۔


تیئیسویں فصل

ایک شخص کا معصوم ھونا کیسے ممکن ھے

          کیا انسانی معاشرہ کی قیادت و رھبری سے بڑھکر کوئی منصب تصور کیا جا سکتا ھے؟کیا کوئی شخص روحی و جسمی امتیازات کے بغیر زندگی کے کسی ایک پھلو میں بھی معاشرہ کی قیادت کا بوجہ سنبھال سکتا ھے ؟ چہ جائیکہ زندگی کے تمام مادی ومعنوی پھلوؤں میں !! جو صرف الٰھی رھبروں یعنی انبیاء وغیرہ سے مخصوص ھے؟

          سیاسی لیڈران جو ملک و مملکت کے صرف سیاسی مسائل میں قیادت کرتے ھیں یا اقتصادی مسائل کے ماھرین جو ملک کی اقتصادکی باگڈور ھاتہ میں رکھتے ھیں ان میدانوں سے متعلق خاص شرائط و صفات کے بغیر -----جو انھیں دوسروںسے ممتاز و بر تر ثابت کرتے ھیں -----ملک کے اس اعلیٰ سیاسی یا اقتصادی منصب کو حاصل ھی نھیں کر سکتے ۔

          اگر ایسا ھی ھے تو یہ بات بدرجہ اولی تسلیم کرنی چاھئے کہ انبیائے الٰھی اور ان کے حقیقی جانشینوں  ----- جو انسانی معاشرہ کے تمام میدانوں میں رھبر ھیں  -----میں بھی وہ عالی اور با عظمت صفات و کمالات ھونے چاھئےںجو ان کی رھبری کی حیثیت کو ثابت کریں ۔ کیوں کہ در حقیقت ان صفات اور امتیازات کی بنا پر ھی ان افراد کو یہ عظیم منصب عطا کیا گیا ھے۔

          آپ ان عظیم افراد کے امتیازات کو حسب ذیل دو عنوانوں میں خلاصہ کر سکتے ھیں:

          1)۔ گناہ اور خدا کی نا فرمانی سے محفوظ رھنا۔

          2)۔ خدا سے احکام حاصل کرنے اور لوگوں کو ان احکام کی تبلیغ کرنے میں خطا و غلطی سے محفوظ رھنا ۔ اس سے پھلے کہ الٰھی رھبروں کے لئے عصمت کے لازم ھونے کے دلائل بیان کئے جائیں ،بھتر ھے کہ خود عصمت کے بارے میں اجمال کے ساتھ یہ گفتگو کی جائے کہ کس طرح ایک شخص گناہ سے محفوط رھتا ھے۔

عصمت کیا ھے؟

          عصمت ایک نفسانی صفت اور ایک باطنی طاقت ھے جو اپنے حامل کو گناہ ھی سے نھیں بلکہ گناہ انجام دینے کی فکر یا خیال سے بھی دور رکھتی ھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا باطنی خوف ھے جو انسان کو گناہ سے حتٰی گناہ کے ارادہ سے بھی محفوظ رکھتا ھے۔

          یھاں یہ سوال پیش آتا ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص تمام گناھوں سے محفوظ رھے اور وہ نہ صرف گناہ نہ کرے بلکہ گناہ اور نافرمانی کے ارادہ سے بھی دور رھے ؟

          اس کا جواب یہ ھے کہ گناہ کی برائیوں کے علم کا لازمہ یہ ھے کہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے ۔ البتہ اس کا مطلب یہ نھیں کہ گناہ کی برائیوں کے سلسلہ میں ھر درجہ کا علم انسان کو گناہ سے محفوظ و معصوم بنا دیتا ھے ،بلکہ علم کی حقیقت نمائی اس قدر قوی ھو جو گناہ کے برے آثار کوانسان کی نگاہ میں اس قدر مجسم کر دے کہ انسان ان برے کاموں کے انجام کو اپنی آنکھوں میں مجسم ھوتے ھوئے دیکھے ۔ اس صورت میں گناہ اس کے لئے ”محال عادی “ ھو جائے گا ۔ ذھن کو اور قریب کرنے کے لئے حسب ذیل مطلب پر توجہ دیں۔

          ھم میں سے ھر ایک شخص بعض ایسے اعمال سے جن سے ھماری جان جانے کا خطرہ ھوتاھے ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ھیں ۔اس طرح کا تحفظ اس علم کی پیدا وار ھے جوان اعمال کے نتائج کے طور پر ھمیں حاصل ھے مثال کے طور پر ایک دوسرے کے دشمن دو ملک جن کی سرحدیں آپس میں ملی ھوئی ھیں اور ھر طرف کے فوجی تھوڑے فاصلہ سے بلند برجوں پر قوی دوربینوں،تیز لائٹوں اور سدھے ھوئے کتوں کے ذریعہ سرحد کی نگرانی کررھے ھیں اور خاص طور سے کسی کے سرحد پار کرنے پر گھری نظر رکھے ھوئے ھیں کہ اگر کوئی سرحد سے ایک قسم بھی آگے بڑھا گولوں سے بھون دیا جائے گا ایسی صورت میں کوئی عقل مند انسان سرحد پار کرنے کا خیال بھی اپنے  ذھن میں نھیں لاسکتا چہ جائےکہ عملا بہ اقدام کرے ۔ایسا انسان اس عمل کے سلسلہ میں ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ھے۔

          زیادہ دور نہ جائےں ،ھرعاقل انسان جسے اپنی زندگی سے پیار ھے ،قاتل زھر کے مقابل جس کا کھانا اس کے لئے جان لیوا ھوگایابجلی کے ننگے تار کے مقابل جس کا لمس کرنا اسے جلاکر سیاہ کردے گایا اس بیمار کی بچی ھوئی غذا کے مقابل-- جسے ”جذام“یا”برص“کی شدید بیماری ھوئی ھو--  جس کے کھانے سے اس کے اندر یہ مرض سرایت کرجائے گا،ایک طرح کا تحفظ اور عصمت رکھتاھے۔یعنی وہ ھرگز اور کسی بھی قیمت پر یہ اعمال انجام نھیں دیتا اور اس سے ان اعمال کا ھونا ایک”محال عادی“ھے۔ اس کااس طرح سے محفوظ ومعصوم رھنے کا سبب بھی ان اعمال کے برے نتائج کا اس کی نظر میں مجسم ھونا ھے۔عمل کے خطرناک آچار اس کی نظر میں اس قدر مجسم اور اس کے دل کی نگاہ میں اتنے نمایاں ھوجاتے ھیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی انسان اپنے ذھن میں ان کاموں کے انجام دینے کا خیال تک نھیں لاتا،چہ جائے کہ وہ یہ عمل انجام دے ڈالے۔

          ھم دیکھتے ھیں کہ ایک شخص یتیم وبےنوا کا مال ھضم کرجانے میں کوئی باک نھیں رکھتا جبکہ اس کے مقابل دوسرا شخص ایک پیسے حرام کھانے سے بھی پرھیز کرتا ھے ۔پھلا شخص پوری بے باکی کے ساتھ ےتیموں کا مال کیوں کھا جاتاھے لیکن دوسرا شخص حرا م کے ایک پیسہ سے بھی کیوں پرھیز کرتاھے؟

           اس کاسبب یہ ھے کہ پھلا شخص سرے سے اس قسم کی نافرمانی کے برے انجام کا اعتقادھی نھیں رکھتا اور اگر قیامت کا تھوڑا بھیت ایمان رکھتا بھی ھے جب بھی تیزی سے تمام ھوجانے والی مادی لذتیں اس کے دل کی آنکھوں پر اس کے برے انجام کی طرف سے ایسا پردہ ڈال دیتی ھےں کہ ان کے برے آثار کا ایک ھلکا ساسایہ اس کی عقل کی نگاھوں کے سامنے سے گذر کر رہ جاتاھے اور اس پر کوئی اثر نھیں ھوتا ۔ لیکن دوسراشخص اس گناہ کے برے انجام پر اتنا یقین رکھتا ھے کہ مال یتیم کا ھر ٹکڑا اس کی نظر میں جھنم کی آگ کے ٹکڑے کے برابر ھوتا ھے اور کوئی عقلمند انسان آگ کھانے کا اقدام نھیں کرتا ،کیونکہ وہ علم وبصیرت کی نگاہ سے دیکہ لیتا ھے کہ یہ مال کس طرح جھنم کی آگ میں بدل جاتاھے ۔لھٰذا وہ اس عمل کے مقابل محفوظ ومعصوم رھتاھے۔

           اگر پھلے شخص کو بھی ایسا ھی علم اور ایسی ھی آگاھی حاصل ھوجائے تو وہ بھی دوسرے شخص کی طرح یتیم کا مال ظالمانہ طریقہ سے ھڑپ نہ کرے گا۔جو لوگ سونے اور چاندی کادھیر اکٹھا کرلیتے ھیں اور خدا کی طرف سے واجب حقوق کو ادا نھیں کرتے قرآن مجید ان کے سلسلہ میں فرماتا ھے :یھی سونا چاندی قیامت کے دن آگ میں بدل جائے گا اور اس سے ان کی پیشانی پھلووٴں اور پشت کو داغا جائے گا۔  (177)

          اب اگر ایسا خزانہ رکھنے والے اس منظر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکہ لیں اوریہ دیکہ لیں کہ ان جیسے افراد کاکیا انجام ھوا،اس کے بعد انھیں تنبیہ کی جائے کہ اگر تم بھی اپنی دولت کو جمع کرکے رکھوگے اور خدا کی راہ میں خرچ نھیں کروگے تو تمھارا بھی یھی انجام ھوگا تو وہ بھی فوراً اپنی چھپائی ھوئی دولت کو نکال کر خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالیں گے۔

           اکثر بعض افراد اسی دنیا میں الٰھی سزا وعذاب کے اس منظر کو دیکھے بغیر اس آیت کے مفھوم پر اس قدر ایمان رکھتے ھیں جو دیکھی ھوئی چیز پر ایمان سے کم نھیں ھوتا ۔یھاں تک کہ اگر دنیا وی و مادی پردے ان کی نگاھوں سے ھٹا دیئے جائیں جب بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نھیں آتا ۔ایسی صورت میں یہ شخص اس (خزانہ جمع کرنے کے ) گناہ سے محفوظ رھتا ھے ،یعنی ھر گز سونا چاندی اکٹھا نھیں کرتا ۔

          اب اگر ایک شخص یا ایک گروہ کائنات کے حقائق کے سلسلہ میں کامل اور حقیقی آگاھی و معرفت رکھنے کی وجہ سے تمام گناھوں کے انجام کے سلسلہ میں ایسی ھی حالت رکھتا ھو اور گناھوں کی سزا ان پر اس قدر نمایاں اور واضح ھو کہ مادی حجاب نگاھوں سے اٹھنے یا زمان و مکان کے فاصلوں کے باوجود ان کے ایمان و اعتقاد میں کوئی فرق نھیں آتا تو اس صورت میں یہ شخص یا وہ گروہ ان تمام گناھوں کے مقابل سو فی صدی تحفظ اور عصمت رکھتا ھے ۔نتیجہ میں ان سے نہ صرف گناہ سرزد نھیں ھوتے بلکہ انھیں گناہ کا خیال بھی نھیں آتا۔

          لھٰذا یہ کھنا چاھئے کہ عصمت کسی ایک چیز یا تمام چیزوں میں اعمال کے انجام و نتائج کے قطعی علم اور شدید ایمان کے اثر سے پیدا ھوتی ھے ْاور ھر انسان بعض امور کے سلسلہ میں ایک طرح کی عصمت رکھتا ھے مگر انبیائے الٰھی اعمال کے انجام سے مکمل آگاھی اور خدا کی عظمت کی کامل معرفت کی وجہ سے تمام گناھوں کے مقابل مکمل عصمت رکھتے ھیں اور اسی علم و یقین کی بنا پر گناہ کے تمام اسباب،  خواھشوں اور شھوتوں پر قابو رکھتے ھیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کے معین کردہ حدود سے سرکشی نھیں کرتے ۔

          آخر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضرور ی ھے کہ یہ صحیح ھے کہ انبیائے کرام گناہ اور ھر طرح کی نافرمانی سے محفوظ ھیں ، لیکن اس تحفظ کا یہ مطلب نھیں ھے کہ وہ گناہ کے کام انجام دینے کی توانائی نھیں رکھتے اور خدا کا حکم بجا لانے پر مجبور ھیں ۔ بلکہ یہ حضرات بھی تمام انسانوں کی طرح عمل کی آزادی اور اختیار رکھتے ھیں اور اطاعت یا نافرمانی دونوں پر انھیں قدرت حاصل ھے لیکن یہ لوگ اپنی باطنی آنکھوں سے  -- جو کائنات کے حقائق سے متعلق ان کے وسیع علم کی وجہ سے انھیں حاصل ھوئی ھیں  -- اعمال کے نتائج و انجام کا مشاھدہ کرلیتے ھیں اور ان نتائج سے جنھیں شریعت کی زبان میں عذاب کھا جاتا ھے ،واقف و آگاہ رھتے ھیں، لھٰذا ھر طرح کے گناہ اور نافرمانی سے پرھیز کرتے ھیں ۔اسے سمجھنے کے لئے حسب ذیل عبارت پر غور کیجئے :

          اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ خدا وند عالم ھر طرح کے برے اور قبیح کا م انجام دینے پر قادر ھے لیکن اس سے کبھی اس طرح کام صادر نھیں ھوتا جو اس کے عدل اور اس کی حکمت کے خلاف ھو اس کے باوجود ھم یہ نھیں کھہ سکتے کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے کی قدرت نھیں رکھتا ۔ بلکہ وہ ھر شئے پر قادر ھے ۔ معصوم افراد بھی گناہ کے سلسلہ میں یھی کیفیت رکھتے ھیں وہ لوگ بھی گناہ کرنے کی قدرت و توانائی رکھنے کے باوجود معصیت و گناہ کی طرف نھیں جاتے۔


چوبیسویں فصل

رھبران الٰھی کے لئے عصمت کی دلیلیں

          علمائے عقائد نے الٰھی رھبروں خصوصاً انبیاء کرام کی عصمت کے بارے میں متعدد دلائل بیان کئے ھیں ھم یھاں ان میں سے دو دلیلیں بیان کرتے ھیں۔

          یہ صحیح ھے کہ ان علماء نے یہ دلیلیں انبیاء کی عصمت کے لئے بیان کی ھیں لیکن یھی دلیلیں جس طرح انبیاء کی عصمت کو ثابت کرتی ھیں اسی طرح اماموں کی عصمت کو بھی ثابت کرتی ھےں ۔کیونکہ امامت شیعی نقطھٴ نظر سے رسالت اور نبوت کاھی تسلسل ھے ۔فرق یہ ھے کہ انبیاء منصب نبوت رکھتے ھیں اور ان کا رابطہ وحی الٰھی سے ھے اور امام کے یھاں یہ دوصفتیں نھیں ھےں ۔لیکن اگر ان دو خصوصیتوں سے صرف نظر کریں تو انبیاء اور اماموں کے در میان کوئی خاص فرق نظر نھیں آتا۔

اب یہ دونوں دلیلیں ملاحظہ ھوں :

1۔تربیت عمل کے سایہ میں :

          اس میں کوئی شک نھیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راھنمائی ھے اور تربیت کے موٴثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ھے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ھوجائےں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح اور نپی تلی بات کرنے والا ھو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ھوجائےں تو ایسی صورت میں انبیاء کی بعثت کامقصد ھی پورا نھیں ھوگا۔

          ایک مربی ورھبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ھے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ھو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی راھنمائیاں بے قدر اور بیکار ھوجائےں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ھی متزلزل ھوجائے گی ۔

          شیعوں کے مشھور اور بزرگ عالم سید مرتضی علم الھدیٰ نے اس دلیل کو یوں بیان کیا ھے:اگر ھم کسی کے فعل کے بارہ میں اطمینان نھیں رکھتے یعنی اگر ھمیں یہ شبہ ھے کہ وہ کوئی گناہ انجام دیتاھے تو ھم اطمینان قلب کے ساتھ اس کی بات پر دھیان نھیں دیتے ۔اور ایسے شخص کی باتےں ھم پر اثر نھیں کرسکتیں جس کے بارے میں ھم جانتے ھیں کہ وہ خود اپنی بات پر عمل نھیں کرتا ۔جس طرح  مربی یارھبرکا گناہ کرنالوگوںکی نظر میں اسے کم عقل ،بے حیا اور لاابالی ثابت کرتاھے اور لوگوں کو اس سے دور کردیتاھے اسی طرح مربی یا رھبر کے قول وفعل کی دو رنگی بھی لوگوں پر اس کے خلاف منفی اثر ڈالتی ھے ۔

          اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاٴثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ھوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔

          فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارھبر کرسی پر بیٹہ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ھڑپ کرتارھے تو اس کاعمل اس کی کھی ھوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔

          خداوند عالم اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاھے تاکہ وہ تمام گناھوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔

          اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰھی کے لئے ضروری ھے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پھلے اپنی پوری زندگی میں گناھوں اور غلطیوں سے دور رھیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے درخشاں رھنا چاھئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزارا ھو اور اس کی زندگی کانامھٴ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ھو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نھیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نھیں کرسکتا۔

          خداوند عالم کی حکمت کاتقاضا ھے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ھر دل عزیز بن جائےں۔اور ایسے اسباب سے انھیں دور رکھے جن سے لوگوںکے نبی یارسول سے دور ھونے کا خدشہ ھو ۔ظاھر ھے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ھر دلعزیزی کو انتھائی کم کردے گا اور لوگ یہ کھیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ھمیں ھدایت کرنے چلاھے؟!

 

2۔اعتماد جذب کرنا:

          تعلیم وتربیت کے شرائط میںسے ایک شرط ،جو انبیاء یاالٰھی رھبروں کے اھم مقاصد میں سے ھے ،یہ ھے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاھوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ھوتی ھے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاھے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ھیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ھے ۔کیونکہ بھت سے ماھروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بھت کم پایا جاتا ھے ۔ اب اگر مذھبی پیشواوٴں کے بارے میں یہ امکان ھو کہ وہ گناہ کرتے ھوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ھوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ھماراا طمینان اٹہ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ھدایت ھے ھاتہ نہ آئے گا۔

          ممکن ھے یہ کھا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ھے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائےں تا کہ انھیں لوگوں کا اعتماد حاصل ھو ۔بقیہ سارے گناھوں سے ان کا پرھیز کرنا لازم نھیں ھے کیونکہ دوسرے گناھوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نھیں پڑتا۔

          جواب یہ ھے کہ اس بات کی حقیقت ظاھر ھے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ھو لیکن دوسرے گناھوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ھو؟اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ھر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ھو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نھیں بول سکتا۔؟!  (178)

          اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناھے ۔جس کے ذریعہ انسان گناھوں سے دور رھتا ھے ۔پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناھوں کے سلسلہ میں جو عموماً بھت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ھوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟!

          اور اگر ھم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نھیں کرےں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ھرگز تسلیم نھیں کرتے۔

          اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ھیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نھیں رکھتے اور”انظر الیٰ ما قال ولاتنظر من الیٰ قال“یعنی یہ دکھو کیا کھہ رھاھے یہ نہ دیکھو کون کھہ رھاھے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موٴثر ھے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاھتے ھیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کھنے والے کی شخصیت اور اس کی طھارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ھیں یہ فلسفہ کارگر نھیں ھوتا۔

          یہ بیان جس طرح رھبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاھے،اسی طرح صاحب منصب ھونے سے پھلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاھے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رھاھواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فحشا وفساد میں گزاری ھو، چاھے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ھوجائے اور وہ متقی وپرھیزگاراور نیک انسان بھی ھوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذھنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ھیں لھٰذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیںگے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ھیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ھیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاھتاھے۔اور یہ ذھنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جھاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نھیں ھوتی ،زیادہ شدت سے ظاھر ھوتی ھے۔

          مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نھیں ھوتی کہ الٰھی رھبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰھی اور ایسی تعلیمات پر ھے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ھوتا ھے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ھے کہ لوگ الٰھی رھبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ھوں کہ جو کچھ وہ سن رھے ھیں اسے وحی الٰھی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاھر ھے کہ یہ حالت ایسے رھبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ھر گز پیدا نھیں ھو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتھا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ھو۔  (179)

          یہ دو دلیلیں نہ صرف انبیائے کرام کے لئے عصمت کی ضرورت کو ثابت کرتی ھیں ،بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ھیں کہ انبیاء کے جانشینوں کو بھی انبیاء کی طرح معصوم ھونا چاھئے ، کیوں کہ امامت کا منصب اھل سنت کے نظر یہ کے برخلاف کوئی حکومتی اور معمولی منصب نھیں ھے بلکہ جیسا کہ ھم پھلے بیان کر چکے ھیں امامت کا منصب ایک الٰھی منصب ھے اور امام پیغمبر کے ساتھ (نبوت اور وحی کے علاوہ ) تمام منصبوں میں شریک ھے ۔ امام ،دین کا محافظ و نگھبان اور قرآن کے مجمل مطالب کی تشریح کرنے والا ھے نیز ایسے بھت سے احکام کو بیان کرنے والا ھے جنھیں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیان کرنے میں کامیاب نھیں ھوئے تھے ۔

          اس لئے امام مسلمانوں کا حاکم اور ان کی جان و مال و ناموس کا نگھبان بھی ھے اور شریعت کو بیان کرنے والا اور الٰھی معلم و مربی بھی ھے اور ایک مربی کو معصوم ھونا چاھئے ، کیوں کہ اگر اس سے کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گناہ سرزد ھوا تو اس کی تربیت بے اثر ھو جائے گی ۔ اور اس کی گفتار و کردار کی صحت و درستگی پر سے لوگوں کا اعتماد اٹہ جائے گا۔


پچیسویں فصل

جن کے رتبے ھیں سوا ان کو سوا ......

          یہ طے ھے کہ اھم اور بڑی ذمہ داریوں کی انجام دھی کے لئے حالات و شرائط بھی سنگین ھوتے ھیں۔ذمہ داری جتنی بڑی اور جتنی سنگین ھوتی ھے ،شرائط بھی اسی لحاظ سے سنگین اور سخت ھوتے ھیں ۔ایک امام جماعت کے شرائط عدالت کے اس قاضی کے برابر نھیں ھیں جس کے اختیار میں لوگوں کی جان و مال ھوتے ھیں۔

          نبوت اور امامت عظیم ترین منصب ھے جو خدا کی طرف سے انسانوں کو عطا ھوا ھے ، جو افراد اس منصب پر فائز ھوتے ھیں وہ خدا وند عالم کی طرف سے لوگوں کی جان و مال وناموس پر مکمل تسلط و اختیار رکھتے ھیں اور ان کاارادہ لوگوں کی زندگی کے تمام پھلوؤں پر نافذ ھوتا ھے۔قرآن مجید پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتا ھے :” النبی اولیٰ بالمونین من انفسھم“  (180)  یعنی پیغمبر  باایمان لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ھے۔

          پیغمبر اسلام  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حدیث غدیر کے خطبہ میں خود کو اور حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ اولیٰ اور صاحب اختیار بتایا ۔ کیا یہ ممکن ھے کہ حکمت و تدبیر ولا خدا ایسے عظیم اور اھم منصب کی باگڈور ایک غیر معصوم شخص کے ھاتہ میں دےدے ”اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ"

 

قرآن کی راھنمائی

          پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور صاحبان امر (اولی الامر)  (181) قرآن کے صاف حکم کے مطابق واجب الاطاعت ھیں اور جس طرح ھم خداکے فرمان کی اطاعت کرتے ھیں یوں ھی ان کے حکم کی اطاعت بھی ھم پر واجب ھے چنانچہ ارشاد ھوتا ھے : ” اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم“یعنی خدا کی اطاعت کرو ،اس کے رسول کی اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔  (182)

          یہ آیت باکل واضح طور سے صاحبان امر کی بلا قید و شرط اطاعت کا حکم دیتی ھے ۔ اگر یہ افراد سو فی صد ی گناہ و خطا سے محفوظ ھوں گے جب ھی خدا وند عالم کی طرف سے ان کی بلا قید و شرط اطاعت کا واجب کیا جانا صحیح ھوگا ۔ کیوں کہ اگر ھم ان کی عصمت کو تسلیم کرلیں تومعصوم کی بے قید و شرط اطاعت پر کوئی اعتراض نہ ھوگا ،لیکن اگر ھم یہ فرض کرلیں کھ(اولی الامر) یعنی صاحبان امر کا گروہ جن کی اطاعت ھم پر واجب کی گئی ھے ۔ معصوم نہ ھوں بلکہ گناہ گار و خطا کار افراد ھوں تو ایسی صورت میں خدا وند عالم یہ کیسے حکم دے گا کہ ھم ان لوگوں کی بلاقید و شرط پیروی کریں ؟!

          لھٰذا اگرھم پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینوں کے لئے عصمت کو شرط نہ جانیں اور فرض کریں کہ کسی جانشین نے کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال و جائداد ضبط کئے جانے کا حکم دے دیا اور ھم جانتے ھوں کہ وہ شخص مظلوم یا بے گناہ تھا تو ایسی صورت میں ھمیں قرآن کے حکم کے مطابق اس جانشین کے فرمان پر موبموعمل کرنا ھوگا یعنی اس مظلوم کو قتل یا بے گناہ کا مال ضبط کرنا ھوگا۔

          لیکن اگر ھم یہ کھیں کہ قرآن کریم نے ”اولی الامر “ کی پیروی کو خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ قرار دیا ھے اور ان تینوں اطاعتوں کو بلا قید و شرط شمار کیا ھے تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ ” اولی الامر “ رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ھی طرح گناہ و خطا سے معصوم ھیں ۔ لھٰذا اب ھم یہ کھیں گے کہ کبھی کوئی معصوم ” اولی الامر “ کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال ضبط کرنے کا حکم نھیں دیتا۔

 

ایک سوال کا جواب:

          ممکن ھے یہ کھا جائے کہ اولی الامر کی اطاعت اسی صورت میں واجب ھے جب وہ شریعت اور خدا و رسول کے صاف حکم کے مطابق عمل کرے ۔ور نہ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی اطاعت واجب نھیں ھے بلکہ ان کی مخالفت کرنی چاھئے۔

            اس سوال کا جواب واضح ھے ۔کیوں کہ یہ بات اسی وقت عملی ھے جب اول یہ کہ تمام لوگ الٰھی احکام اور فروع دین سے مکمل آگاھی رکھتے ھوں اور حرام و حلال کی تشخیص دے سکتے ھوں ۔ دوسرے یہ کہ اس قدر جراٴت و شجاعت رکھتے ھوں کہ حاکم کے قھر و غضب سے خوف زدہ نہ ھوں جب ھی یہ ممکن ھے کہ وہ حاکم کا حکم شریعت سے مطابق ھونے کی صورت میں بجالائیں ورنہ دوسری صورت میں اس سے مقابلہ کے لئے اٹہ کھڑے ھوں ۔ لیکن افسوس کہ عام طور سے لوگ الٰھی احکام سے پوری آگاھی نھیں رکھتے کہ ”اولی الامر “ کے فرمان کو تشخیص دے سکیں بلکہ لوگوں کی اکثریت اس بات کی توقع رکھتی ھے کہ" اولی الامر“کے ذریعہ الٰھی احکام سے آگاہ ھوں اسی طرح جو طاقت سب پر مسلط ھے اس کی مخالفت بھی کوئی آسان بات نھیں ھے اور ھر ایک اس کے انجام کو برداشت نھیں کرسکتا ۔

          اس کے علاوہ اگر قوم کو ایسے اختیارات حاصل ھو جائیں تو لوگوں کے دلوں میں سر کشی کا جذبہ پیدا ھو گا اور نظام درھم و برھم ھو جائے گا اور ھر شخص کسی نہ کسی بھانہ سے ” اولی الامر “ کی اطاعت سے انکار کرے گا اور قیادت کی مشینری میں خلل پیدا ھو جائے گا ،

          یھی وجہ ھے کہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ یقین کیا جا سکتا ھے کہ ”اولی الامر “ کا منصب ان لوگوں کے لئے ھے جن کی اطاعت بلا قید و شرط واجب کی گئی ھے اور یہ افراد معصوم شخصیتوں کے علاوہ کوئی اور نھیں ھیں جن کا دامن ھر طرح کے گناہ ،خطا ، یا لغزش سے پاک ھے۔

 

قرآن کی دوسری راھنمائی

          قرآن کریم میں ایک دوسری آیت جو امامت سے متعلق گفتگو کرتی ھے پوری بلاغت  کے ساتھ ظلم وستم سے پرھیز کو امامت کے لئے شرط قرار دیتی ھے۔ چنانچہ ارشاد ھوتا ھے:

” اذ ابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً قال و من ذریتی قال لا ینال عھد ی الظالمین“

          ” یعنی جب ابراھیم (ع)کو ان کے پروردگار نے بعض امور کے لئے آزمایا اور وہ تمام امتحانوں میں کامیاب ھوئے تو ان سے ارشاد ھوا کہ میں نے تم کو لوگوں کا پیشوا و امام قرار دیا ۔(جناب ابراھیم (ع)نے) عرض کیا: میری ذریت اور میری اولاد کو بھی یہ منصب نصیب ھوگا تو جواب ملا کہ میراعھد ستم گاروں تک نھیں پھنچے گا“(183)

          امامت ،نبوت کے مانند الٰھی منصب ھے جو صرف صالح اور شائستہ افراد کو ھی ملتاھے اس آیت میں جناب ابراھیم  (ع)نے خدا سے یہ تقاضا کیا کہ میری اولاد کے حصہ میں بھی یہ منصب آئے لیکن فوراً خدا وند عالم کا خطاب ھوا کہ ظالم و ستمگر افراد تک یہ منصب نھیں پھنچے گا۔

          مسلّم طور سے اس آیت میں ظالم سے مراد وہ افراد ھیں جو گناھوں سے آلودہ ھیں ، کیوں کہ ھر طرح کا گناہ اپنے آپ پر ایک ظلم اور خدا کی بارگاہ میں نافرمانی کی جسارت ھے ۔ اب یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سے ظالم لوگ اس آیت کے حکم کے مطابق منصب قیادت و امامت سے محروم ھیں۔      اصولی طور سے جو شخصیتیں لوگوں کی پیشوائی اور حاکمیت کی باگڈور سنبھالتی ھیں وہ چار ھی طرح کی ھوتی ھیں :

   1۔یا وہ زندگی بھر ظالم رھے ھیں چاھے منصب حاصل کرنے سے پھلے یا اس کے بعد ۔

   2۔یاانھوں نے پوری عمر میں کبھی گناہ نھیں کیا۔

  3۔حاکم ھونے سے پھلے ظالم وستمگر تھے لیکن قیادت وپیشوائی حاصل کرنے کے بعد پاک صاف ھوگئے۔

   4۔    یہ تیسری قسم کے برعکس ھے یعنی حکومت ملتے ھی ظلم وستم شروع کردیا اس سے پھلے گناہ نھیں کرتے تھے۔

          اب دیکھنا یہ ھے کہ جناب ابراھیم (ع)نے ان چار گروھوں میں سے کس کے لئے اس منصب کی آرزو کی تھی؟یہ تو ھرگز سو چا نھیں جاسکتا کہ جناب ابراھیم (ع)نے پھلے اور جو تھے گروہ کے لئے اس عظیم منصب کی آرزو کی ھوگی ۔کیونکہ جو لوگ حاکمیت کے دوران ظالم وستمگر میں کسی بھی صاحب عقل اور صائب رائے رکھنے والے کی نظر میں اس منصب کے لائق نھیں ھوتے ھیں ،چہ جائیکہ ابراھیم (ع)خلیل کی نگاہ میں۔ جنھوں نے خود کتنے سنگیں امتحانات دینے،ساری زندگی پاکیزگی کے ساتھ بسر کرنے اور گناہ وظلم سے مسلسل لڑنے کے بعد یہ عظیم منصب حاصل کیا ھے وہ ھرگز مذکورہ دوگروھوں کے لئے تمام انسانوں پر امامت کی آرزو نھیں کرسکتے ۔ظاھر ھے کہ جناب ابراھیم (ع)کا مقصود دوسری دو قسم کی شخصیتیں تھیں ۔اس صورت میں جملھٴ ”لاینال “کی شرط کے ذریعہ تیسرا گروہ بھی نکل جاتاھے اور منصب امامت کے لئے صرف وھی گروہ رہ جاتا ھے جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی گناہ نھیں کیاھے۔


چھبیسویں فصل

کون سی تعبیر صحیح ھے ”عترتی“ یا”سنتی“

          اگر چہ کتاب اپنے اختتام کو پھنچ چکی تھی لیکن یھاں دوموضوع پر گفتگو لازمی وضروری ھے۔

          1۔حدیث ثقلین سے متعلق گفتگوھوتی ھے توبعض اھل سنت لفظ”عترتی“کی جگہ  ”سنتی “ استعمال کرتے ھیں اور ”کتاب اللہ وسنتی“کھتے ھیں۔

          2۔اھل سنت حضرات پیغمبر اکرم پر درود بھیجتے وقت ان کی آل کو شامل نھیں کرتے ۔

          یہ دو موضوع شیعہ اور اھل سنت دونوں گروھوں کے درمیان اختلاف کاسبب ھیں لھٰذا یھاں ان دونوں موضوعات کاجائزہ لیاجارھاھے۔

          1۔ کون سی تعبیر صحیح ھے :

          امامیہ متکلمین جیسے صدوق ،طوسی اور مفید رضوان اللّٰہ علیھم  نے بھت سے کلامی مسائل میں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت واھل بیت(ع)کی احادیث سے استدلال کیا ھے اور اس سلسلہ میں حدیث ثقلین کاسھارا لیتے ھیں جب کہ بعض محدثوںنے مذکورہ حدیث کو دوسری شکل میں نقل کیا ھے اور لفظ ”عترتی“کے بجائے ”سنتی “لائے ھیں ۔حدیث ثقلین کے متن میں اس اختلاف کے ھوتے ھوئے اس کے ذریعہ کلامی مسائل میں استدلال کیسے کیا جاسکتا ھے ؟

          وضاحت: امامیہ شیعہ جو اصول وعقائد میں برھان وعقلی دلیل کی پیروی کرتے ھیں ،اھل بیت (ع)کے اقوال و احادیث کوبھی اگر صحیح نقل ھوئی ھوں تواصول وفروع میں حجت جانتے ھیں ۔فرق یہ ھے کہ فروعی وعملی مسائل میں خبر صحیح کو مطلق طور سے حجت جانتے ھیں چاھے وہ خبر واحد کی صورت میں کیوں نہ ھو لیکن اصول وعقائد سے مربوط مسائل میں چونکہ مقصد اعتقاد ویقین پیدا کرنا ھے اور خبر واحد یقین کی حد تک نھیں پھنچاتی لھٰذا صرف اس قطعی خبر کو جس سے یقین وعلم حاصل ھوتا ھو حجت شمار کرتے ھیں ۔اھل بیت (ع)کے اقوال کی حجیت کی ایک دلیل حدیث ثقلین ھے جسے بھت سے اسلامی محدثوں نے قبول کیا ھے اور وہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم نے ارشاد فرمایاھے:

”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہوعترتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا“

          لیکن چونکہ بعض روایات میں ”عترتی“کے بجائے”سنتی “آیاھے ،اسی لئے یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ ان دو روایتوں میں سے کون صحیح ودرست ھے ؟اس لئے کلامی مسائل میں اھل بیت(ع)کی احادیث کے ذریعہ استدلال پر سوالیہ نشان لگ گیاھے ؟جس کے جواب میں علمائے شیعہ کی طرف سے رسالے اور کتابیں لکھی گئی ھیں جن میں سب سے اھم کتاب ”دار التقریب بین المذاھب الاسلامیة“کی جانب سے قاھرہ مصر میں شائع ھوچکی ھے۔

          ابھی کچھ عرصہ پھلے اردن کے ایک اھل سنت عالم ”شیخ حسن بن علی سقاف“نے اس سوال کا جواب دیاھے ،ھم قارئین کرام کی خدمت میں اس کاترجمہ پیش کرتے ھیں اور چونکہ ان کا جواب سوفیصدی تحقیقی ھے لھٰذا اسی پر اکتفاکرتے ھیںآخر میں ایک یاد دھانی شیخ سقاف کی خدمت میں بھی کریں گے۔

 

سوال:

          مجھ سے حدیث ثقلین کے بارے میں سوال کیا گیا اور دریافت کیا گیا ھے کہ ”عترتی واھل بیتی“صحیح ھے یا”کتاب اللّٰہ وسنتی“آپ سے درخواست ھے کہ سند کے اعتبار سے اس حدیث کی وضاحت فرمائیے۔

 

جواب:

          اس متن کو دو بڑے محدثوں نے نقل کیاھے:

    1۔   مسلم نے اپنی صحیح میں جناب زید بن ارقم  ۻسے نقل کیاھے ۔وہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اسلام نے ایک روز مکہ اور مدینہ کے در میان ”خُم “نام کی جگہ پر ایک خطبہ ارشاد فرمایااور اس میں خدا کی حمد وثنا اور لوگوں کو نصیحت فرمائی ۔اس کے بعد فرمایا:

”یا ایھا الناس!فانما انا بشر یوشک ان یاتی رسول ربی فاجیب وانا تارک فیکم ثقلین :اولھما کتاب اللّہفیہ الھدیٰ والنور ،فخذوا بکتاب اللّٰہ واستمسکوا بہ فحثّ علیٰ کتاب اللّٰہ ورغّب فیہ ثم قال واھل بیتی،اذکّرکم اللّٰہ فی اھل بیتی،اذکّرکم اللّہفی اھل بیتی،اذکّرکم اللّہفی اھل بیتی“

اے لوگو !میں انسان ھوں ممکن ھے کہ عنقریب خدا کا فرستادہ میرے پاس آئے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کھوں ۔میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ۔ایک اللہ کی کتاب ھے ،جس میں ھدایت و نور ھے ۔پس اللہ کی کتاب کو حاصل کرو اور اس سے تمسک اختیار کرو ،

پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی تاکید کی اس کے بعد فرمایا: اور میرے اھل بیت (ع)،میں تمھیں اپنے اھلبیت(ع)کے لئے خدا کی یاد دلاتا ھوں (یہ جملہ آپ نے تین بار فرمایا)

          اس متن کو مسلم   (185) نے اپنی صحیح میں اور دارمی نے اپنی سنن  (186) میں ذکر کیا ھے اور دونوں کی سند آفتاب کی طرح روشن ھے ان سند میں ذرہ برابر بھی خدشہ نھیں ھے۔

    2۔   ترمزی نے بھی اس متن کو ” عترتی اھل بیتی “ کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ھے۔حدیث کا متن یوں ھے :

” انّی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی ، احدھما اعظم من الاخر کتاب اللّٰہ حبل ممدود من السماء الیٰ الارض و عترتی اھل بیتی لن یفترقا حتٰی یردا علیّ الحوض ،فانظر وا کیف تخلفونی فیھا“  (187)

”میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ،جب تک تم اس سے متمسک رھو گے ھر گز گمراہ نھیں ھوگے ان میں سے ایک دوسرے سے بزرگ ھے ۔ اللہ کی کتاب ریسمان رحمت جو آسمان سے زمین کی طرف آویزاں ھے ۔اور میری عترت و اھل بیت (ع)۔یہ دونوں ایک دوسرے سے ھر گز جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آجائیں ۔ اب دیکھو میری ان دونوں میراثوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ھو۔

          یہ دونوںمتن کہ دونوں میں لفظ ”اھل بیت “ کی تاکید ملتی ھے اس سلسلہ میں جواب کے طور پر کافی ھیں دونوں کی سندوں میں کمال یقین پایا جاتا ھے اور اس میں کسی بحث کی ضرورت نھیں ھے ۔ دونوں حدیثی متن کے ناقل صحاح و سنن ھیں جو ایک خاص اعتبار رکھتے ھیں ۔

 

”و سنتی “کے متن کی سند

          وہ روایت جس میں ”اھل بیتی “ کے بجائے لفظ ” سنتی“ آیا ھے ۔ جعلی حدیث ھے جو سند کے ضعف کے علاوہ امویوں سے وابستہ افراد کے ھوتھوں گڑھی ھوئی ھے ۔ ذیل میں ھم اس حدیث کی اسناد کا جائزہ لیتے ھیں:

 

پھلی سند ،حاکم کی روایت :

          حاکم نیشاپوری نے اپنی ”مستدرک “ میں حسب ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ھے-:

              1۔اسماعیل بن ابی اویس

              2۔ابی اویس

              3۔ثور بن زید الدیلمی

              4۔عکرمہ

              5۔ابن عباس کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا-:

” یا ایھا الناس انی قدترکت فیکم ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہو سنة نبیہ"  (188)

          اے لوگو!میںنے تمھارے درمیان دو چیزیں ترک کیں جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رھو گے ھر گز گمراہ نہ ھوگے ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی  کی سنت۔

 

          اس متن کی سندکی مشکل اسماعیل بن ابی اویس اور ابو اویس ھیں۔ ان باپ اور بیٹوں کی نہ صرف توثیق نھیں ھوئی ھے بلکہ ان پر جھوٹ اورحدیث گڑھنے کا الزام ھے ۔ اب ان کے بارے میں علمائے رجال کی آرا ء ملاحظہ فرمائیں:

          حافظ مزی نے اپنی کتاب ”تھذیب الکمال “ میں اسماعیل اور اس کے باپ کے بارے میں رجال کے محققین کی زبانی یوں نقل کیا ھے:

          یحییٰ بن معین ( جو علم رجال کے بڑے عالم ھیں) کھتے ھیں ۔ابو اویس اور اس کا بیٹا ضعیف ھیں ، یحییٰ بن معین سے یہ بھی نقل ھے کہ یہ دونوں حدیث چراتے ھیں ۔ ابن معین نے اس کے بارے میں یہ بھی کھا ھے کہ : اس کی بات پر اعتماد نھیں کیا جا سکتا۔

          نسائی نے بیٹے کے بارے میں کھا ھے کہ : وہ ضعیف ھے اور ثقہ نھیں ھے ۔ ابو القاسم لالکائی نے کھا ھے کہ نسائی نے اس کے خلاف بھت کچھ کھا ھے ۔ یھاں تک کہ اس نے کھا ھے : اس کی حدیث کو ترک کر دینا چاھئے ۔

          رجال کے ایک عالم ابن عدی نے کھا ھے : ابن ابی اویس نے اپنے ماموں مالک سے مجھول حدیثیں نقل کی ھیں جنھیں کوئی قبول نھیں کرتا۔  (189)

          ابن حجرنے فتح الباری کے مقدمہ میں لکھا ھے : ابن ابی اویس کی حدیث کے ذریعہ ھر گز استدلال نھیں کیا جا سکتا ۔ کیوں کہ نسائی نے اس کی مذمت کی ھے۔  (190)

          حافظ سید احمدبن الصدیق نے کتاب ” فتح الملک العلّی “ میں سلمہ بن شبیب سے نقل کیا ھے کہ اس نے اسماعیل بن ابی اویس کو کھتے ھوئے سنا ھے : جب اھل مدینہ کسی موضوع کے بارے میں دو گروھوں میں تقسیم ھو جاتے ھیں تو میں حدیث گڑھتا ھوں۔  (191)

          لھٰذا بیٹا (اسماعیل بن ابی اویس)وہ ھے جس پرحدیث گڑھنے کا الزام ھے اور ابن معین اسے جھوٹا کھتے ھیں مزید یہ کہ اس کی حدیث کسی بھی کتب صحاح میں نقل نھیں ھوئی ھے ۔

          اور باپ کے بارے میںیھی کھنا کافی ھے کہ ابو حاتم رازی نے کتاب ” جرح و تعدیل “ میں لکھا ھے : اس کی حدیث لکھی جاتی ھے لیکن اس کے ذریعہ احتجاج و استدلال نھیں کیا جاتا۔ اور اس کی حدیث قوی و محکم نھیں ھے ۔ (192)

          نیز ابو حاتم نے ابن معین سے نقل کیا ھے کہ ابو اویس قابل اعتماد نھیں ھے۔

          جو روایت ان دونوں کی سند کے ذریعہ بیان ھو ھر گز صحیح نھیں ھوگی ۔جب کہ یہ روایت صحیح و ثابت روایت کے مخالف و مقابل ھے۔

          قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ حدیث کے ناقل یعنی حاکم نیشا پوری نے اس حدیث کے ضعیف ھونے کا اعتراف کیا ھے لھٰذا اس کی سند کی تصحیح نھیں کی ھے لیکن اس کے مفاد کی صحت پر گواہ لے آئے ھیں کہ وہ بھی سند کے اعتبار سے سست اور اعتبار کے درجہ سے ساقط ھے ۔ اس لئے حدیث کی تقویت کے بجائے اس کے ضعف میں اضافہ ھی ھوا ھے۔

 

وسنتی کی دوسری سند

          حاکم نیشاپوری نے ابو ھریرہ سے بطور مرفوع  (193)  نقل کیا ھے:

”انّی قد ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعدھما:کتاب اللہوسنتی ولن یفترقا حتٰی یردا علیّ الحوض“(194)

اس متن کو حاکم نے اس سند کے ذریعہ نقل کیاھے:

          1۔الضبی،از

          2۔صالح بن موسیٰ الطلحی،از

          3۔عبد العزیزبن رفیع از

          4۔ابی صالح ،از

          5۔ابی ھریرہ.

          یہ حدیث پھلی حدیث کی طرح جعلی ھے۔اور اس کی سند کے در میان صالح بن موسیٰ الطلحی پر انگلی رکھی جاسکتی ھے۔اب ھم اس کے بارے میں علمائے علم رجال کے نظریات نقل کرتے ھیں:

          یحییٰ بن معین کابیان ھے کہ صالح بن موسیٰ قابل اعتماد نھیں ھے۔ابو حاتم رازی کا قول ھے کہ اس کی حدیث ضعیف اور منکر ھے۔وہ بھت سی منکر حدیثوں کو ثقہ افراد کے نام سے نقل کرتاھے ۔نسائی کابیان ھے کہ اس کی حدیث لکھی نھیں جاتی اور دوسری جگہ کھتے ھیں :اس کی حدیث متروک ھے۔  (195)

          ابن حجر ”تھذیب التھذیب “میں لکھتے ھیں کہ ابن حبان نے کھاھے :صالح بن موسیٰ ،ثقہ افراد سے ایسی چیزیں منصوب کرتاھے جو ان کی باتیں نھیں لگتیں۔اور آخر میں ابن حجر نے لکھا ھے کہ : اس کی حدیث حجت نھیں ھے ،اور ابو نعیم کھتے ھیں کہ"اس کی حدیث متروک ھے وہ ھمیشہ منکر حدیث نقل کرتاھے۔  (196)

متروک ھے اور ذھبی،کتاب ”کاشف “(198) 1# میں لکھتے ھیں :اس کی حدیث سست       ایک دوسری جگہ ابن حجر کتاب تقریب (197) میں لکھتے ھیں :اس کی حدیث ھے۔آخرمیں ذھبی نے”میزان الاعتدال“ (199) 2#  میں مذکورہ بالا حدیث کو نقل کرتے ھوئے لکھاھے کہ اس کی حدیثیں منکر ھوتی ھیں۔

 

حدیث ”وسنتی “کی تیسری سند:

          ابن عبد البر نے کتاب ”تمھید“ (200) 3#  میں اس متن کو حسب ذیل سند کے ساتھ ذکر کیاھے :

          1۔عبد الرحمان بن یحییٰ ۔از

          2۔احمد بن سعید۔از

          3۔محمد بن ابراھیم الدبیلی۔از

          4۔علی بن زید الفرائضی۔از

          5۔الحنینی۔از

          6۔کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف ۔از

          7۔اس کے باپ نے اس کے داداسے

          ھم ان راویوں کے در میان کثیر بن عبد اللہ پر انگلی رکھتے ھیں۔امام شافعی لکھتے ھیں :وہ جھوٹ کے ارکان میں سے ایک ھے۔ (201) 4#  ابو داود کابیان ھے:وہ کذابوں اور بڑے جھوٹوں میں سے ھے(202)  5#   ابن حیان کھتے ھیں :عبداللہ بن کثیرنے اپنے باپ اور دادا سے حدیث کی کتاب نقل کی ھے جس کی بنیاد جعلی حدیثوں پر ھے کہ اس کتاب سے نقل کرنااور عبداللہ سے روایت کرنا حرام ھے اور فقط تعجیب وتنقید کے لئے اس کی روایت نقل کی جاسکتی ھے۔ (203) 6#

  4۔  کاشف ،ذھبی،ترجمہ نمبر2412

  5۔میزان الاعتدال،ذھبی،ج/2،ص 302

  3۔  التمھید:ج/24،ص331

  4۔5۔  تھذیب التھذیب ،ابن حجر ،ج/1ص/377،طبع دارالفکر۔تھذیب الکمال:ج/24،ص138

  6۔المجروحین از ابن حبان،ج/2،ص221

          نسائی اور دار قطنی کھتے ھیں :اس کی حدیث متروک ھے۔امام احمد بن حنبل کھتے ھیں کہ :وہ منکر الحدیث ھے اور قابل اعتماد نھیں ھے۔ابن معین نے بھی یھی بات اس کے بارے میں کھی ھے۔

          ابن حجر کے اوپر تعجب ھے کہ انھوں نے کتاب ”التقریب“ میں اس کے حالات بیان کرتے ھوئے اسے صرف ضعیف لکھا ھے اور جن لوگوں نے اسے جھوٹا کھاھے انھیں افراطی کھاھے،جبکہ علم رجال کے پیشواوٴں نے اسے جھوٹا اور جعل ساز قرار دیا ھے یھاں تک کہ ذھبی کھتے ھیں کہ :اس کی باتیں فضول وضعیف وبیکار ھیں۔

بغیر سند کی روایت

          امام مالک نے کتاب ”الموطّا“میں اس روایت کو سند کے بغیر بطور مرسل نقل کیاھے۔اور سب جانتے ھیں کہ ایسی حدیث کوئی اھمیت نھیںرکھتی۔  (204)

          مذکورہ بالا باتیں پوری طرح سے یہ بات ثابت کرتی ھےںکہ ”وسنتی“والی حدیث جھوٹے اور اموی دربار سے وابستہ راویوں کی جعلی اور گڑھی ھوئی حدیث ھے جو انھوں نے حدیث صحیح کے مقابلہ میں گڑھی ھے ۔لھٰذامسجدوں کے اماموں ،خطیبوں اور اھل منبرحضرات پر واجب ھے کہ جو حدیث حضرت رسول اکرم سے وارد نھیں ھوئی ھے اسے ترک کردیں اور اس کے بجائے لوگوں کوصحیح حدیث سے آگاہ کریں ۔جس حدیث کو مسلم نے”اھل بیتی“کے ساتھ اور ترمذی نے ”عترتی واھل بیتی“کے ساتھ نقل کیاھے اسے بیان کریں ۔طالب علموں پر لازم ھے کہ علم حدیث کی طرف توجہ کریں اور صحیح وضعیف حدیث میں فرق کو سمجھیں۔

          آخر میں ،میں یہ یاد دھانی کرانا چاھتاھوں کہ لفظ”اھل بیتی“میں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذریت مثلاً حضرت فاطمہ وحسن وحسین علیھم السلام بھی داخل ھیں،کیونکہ مسلم نے اپنی صحیح (205)میں اور ترمذی  نے اپنی سنن  (206)  میں خودام المومنین عایشہ سے نقل کیا ھے کہ"

          ”نزلت ھذہ الآیةعلی النبی (صل اللہعلیہ و آلہ وسلم) ”انما یریداللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا“فی بیت ام سلمة،فدعاالبنی فاطمة وحسناً وحسیناًفجللھم بکساء وعلی خلف ظھرہ فجللہ بکساء ثم قال:اللّٰھم ھٰوٴلاء اھل بیتی فاذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیراً،قالت ام سلمة وانا معھم یا نبی اللّٰھ؟قال انت علی مکانک وانت الی الخیر“

          آیت”انّما یریداللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا“جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ھوئی پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فاطمہ،حسن وحسین علیھم السلام کو کسا ء کے نیچے لے لیا۔حضرت علی (ع)آپ کی پشت پر کھڑے تھے آنحضرت نے ان پر بھی اپنی عبا اڑھائی اور فرمایا:پالنے والے !یہ میرے اھل بیت ھیں ان سے ھر طرح کی برائیوں کو دور فرما اور انھیں ایسا پاک قرار دے جو پاک کرنے کا حق ھے ۔ اس وقت جناب ام سلمہ نے کھا : اے رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کیا میں بھی ان میں سے ھوں ؟ پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا-:تم اپنی جگہ پر رھو(یعنی چادر کے نیچے نہ آؤ) تم راہ خیر پر ھو۔  (207)

          یہ تو تھا اھل سنت کے عالم دین شیخ حسن بن علی سقاف کا برادران اھل سنت کو جواب ۔لیکن یھاں خود شیخ سقاف کے بیان کردہ ایک مسئلہ کو صاف کرنا چاھتا ھوں ۔انھوں نے آیت تطھیر میں ازواج پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے شامل ھونے کو تو مسلم بتایا ھے اور آیت کے مفاد کو وسیع کرکے اس میں  پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی بیٹی اور ان کے دو صاحب زادوں کو شامل کرنے کی کوشش کی ھے ۔ جب کہ خود جناب ام سلمہ کی روایت جسے صحیح مسلم اور سنن ترمذی نے نقل کیا ھے ان کے نظریہ کے خلاف گواھی دے رھی ھے ۔ اگر اھل بیت کے علاوہ ازواج پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) آیت تطھیر میں داخل ھوتیں تو جناب ام سلمہ کو کساء میں داخل ھونے سے روکا نہ جاتا اور یہ نہ کھا جاتا ”انت علٰی مکانک“ یعنی تم اپنی جگہ پر رھو ۔ اور تم خیر پر ھو!!

          اس کے علاوہ جو شخص بھی ازواج پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سلسلہ میں قرآن کی آیات کا مطالعہ کرے گا اسے واضح طور سے یہ بات معلوم ھوجائے گی کہ ان کے بارے میں آیات کی زبان تنبیہ و شرزنش والی ھے ۔ ایسے افراد آیت تطھیر کے مصداق اور رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعا میں شامل نھیں ھوسکتے ۔ اس کی تفصیل ” تفسیر منشور جاوید “  (208) میں ملاحظہ فرمائیں۔

   2۔پیغمبر  پر صلوات کیسے بھیجیں

          شیعہ اور اھل سنت کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ھے کہ وہ جب پیغمبر  پر صلوات بھیجتے ھیں تو اس میں ان کی آل کو شامل نھیں کرتے اور وہ ” صلی اللہ علیہ وسلم“ کھتے ھیں ۔ جب کہ شیعہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر صلوات بھیجتے وقت ان کی آل (ع)کو بھی شامل کرتے ھیں اور آل کو ان پر عطف کرتے ھوئے کھتے ھیں ”صلی اللہ علیہ و آلہ"۔اب سوال یہ ھے کہ ان دو صورتوں میں سے کون سی صورت صحیح ھے۔

          اس میں کوئی شک نھیں کہ ھمارے معصوم رھبروں یعنی ائمہ علیھم السلام نے دوسری صورت کو صحیح جانا ھے اور ھمیشہ آنحضرت کے ساتھ ان کی آل (ع)کو بھی شامل کرتے ھیں ۔اب ذرادیکھیں کہ اھل سنت کی روایات میں صلوات کی کیفیت کیا ھے ۔ اور ان کی روایتیں ان دونوں صورتوں میں سے کس کی  تصدیق کرتی ھیں۔

          پھلے ھم اس سوال کا مختصرجواب دے چکے ھیںاب یھاں روایت نقل کرتے ھیں :

          ”جب آیت (ان اللہو ملائکة یصلون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ و سلّموا تسلماً) سورھٴ احزاب /56“ نازل ھوئی تو اصحاب نے آنحضرت  سے دریافت کیا کہ آپ پر کس طرح صلوات بھیجیں؟ آنحضرت نے فرمایا: ”لا تصلوا علی الصلاة البتراء “ مجھ پر ناقص صلوات مت بھیجو۔ لوگوں نے پوچھا کیسے بھیجیں ؟ فرمایا: کھو ( اللّٰھم صلی علی محمد وآل محمد )  (209)

          درود بھیجنے کے اعتبار سے آل محمدکی حیثیت ایسی ھے کہ اھل سنت کے بعض فقھی مذاھب آل محمد پر پیغمبر  کے ساتھ صلوات بھیجنے کو لازم و واجب جانتے ھیں۔امام شافعی اس سلسلہ میں فرماتے ھیں :

          ےااھل بیت رسول اللہ حبکم   فرض من اللہ فی القرآن انزلھ

          کفاکم فی عظیم القدر انکم     من لم یصل علیکم لاصلاة لہ (210)

          اے رسول خدا کے اھل بیت (ع)آپ کی محبت ایسافریضہ ھے جو قرآن میں نازل کیا گیاھے آپ کی عظمت وجلالت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ جو شخص آپ پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز ھی نھیں ھے۔

شعری ترجمہ

اے اھل بیت(ع)آپ کی الفت خدا گواھ ھے         فرض ھر بشر پہ خدا کی کتاب میں

رفعت یہ ھے کہ جو نہ پڑھے آپ پر درود         اس کی نماز ھی نھیں حق کی جناب میں

                                                                             (ازمترجم)

          صحیح بخاری اھل سنت کے نزدیک قرآن مجید کے بعد سب سے معتبر اور صحیح کتاب مانی جاتی ھے۔اب ھم سورھٴ احزاب کی تفسیر کے ذیل میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرتے ھیں:

          عبدالرحمان ابن ابی لیلی نقل کرتے ھیں کہ"کعب بن معجرہ نے مجھ سے ملاقات کی اور کھا:کیا تم پسند کرتے ھو کہ میں ایک حدیث تمھیں تحفہ کے طورپر پیش کروں ،وہ حدیث یہ ھے کہ ایک روز پیغمبر اکرم اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے۔ھم نے عرض کی:یارسول خدا!ھم نے آپ پر سلام کرنے کی کیفیت قرآن سے سیکہ لی اب بتائیے کہ آپ پر صلوات کیسے بھیجیں؟آنحضرت نے فرمایا:”اللّٰھم صل علیٰ محمد وآل محمد کماصلیت علیٰ ابراھیم وآل ابراھیم انک حمید مجید“ (211)

          لھٰذا اسلامی ادب اور پیغمبر اسلام کے حکم کی تعمیل کاتقاضا ھے کہ ھم آنحضرت پر ناقص اور دم بریدہ صلوات نہ بھیجیں نیز آنحضرت اور ان کی آل پاک (ع)میں جدائی نہ پیداکریں۔

                                                تمام شد

          بحمدالله والمنة وصلی الله علی سیدنا محمد وآلہ الطاھرین خیر الائمة

                             11/ذیقعدہ  1424ء ہ  بروز میلاد حضرت امام رضا-


حوالے

   156۔   سید علی خان مرحوم ”مدنی“ نے اپنی گرانقدر کتاب ”الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعة الامامیة “ میں اصحاب پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایسے افراد کے نام و خصوصیات بیان کیئے ھیں جو حضرت علی علیہ السلام کے وفادار رھے ۔مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی اپنی تالیف العقو ل المھمة  ص/177تاص192 میں اپنی تحقیق کے ذریعہ ان میں مزید افراد کا اضافہ کیا ھے ۔

          اس کتاب کے موٴلف نے بھی ”شخصیتھای اسلامی در شیعہ" کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کی ھے جس میں ان افراد کے حالات زندگی اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام سے ان کی ولایت کے مراتب دقیق ماٴخذ کے ساتھ بیان کئے ھیں اور یہ کتاب چند جلدوں میں شائع ھوگی۔

157۔صحیح بخاری ج/1،ص/22(کتاب علم)

158۔نور /63                                  

159۔حجرات /1

160۔الحجرات/7

161۔مناقب خوارزمی ،ص/217

162۔الغدیر، ج/1،ص/153۔171

163۔فرائد المسطین،باب58۔حضرت علی علیہ السلام نے ان تین موقعوں کے علاوہ مسجد کوفہ میں ”یوم الرجعہ “ نام کے دن ،روز ”جمل “ ”حدیث الرکبان“کے واقعہ میں اور ”جنگ صفین “ میں حدیث غدیر سے اپنی امامت پر استدلال کیا ھے۔

164۔ ینابیع المودة ص/482

165۔ مزید آگاھی کے لئے ”الغدیر “ ج/1ص/146تا ص/195 ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں بائیس استدلال حوالوںکے ساتھ درج ھیں۔

166۔ ثقل ،فتح ”ق“ اور ”ث“ اس کے معنی ھیں کوئی بھت نفیس اور قیمتی امر ۔ اور کسرِ ”ث“ اور جزم ”ق“ سے مراد کوئی گرانقدر چیز.

167۔فیض القدیر ،ج/3ص/14

168۔صواعق محرقہ ،عسقلانی ،حدیث 135

169۔ ینابیع المودة ص/32وص/40

170۔ مستدرک ،حاکم ،ج/3ص/109 وغیرھ

171۔ بحار الانوار ج/22ص/76نقل از مجالس مفید

172۔ الصواعق المحرقہ ،ص/75

173۔احتجاج ج/1،ص/210

174۔احتجاج طبرسی،ص/228

175۔جزء دوم از جلد دوازدھم ،ص/914کے بعد ملاحظہ فرمائیں۔

 176۔ مستدرک حاکم ،ج/3،ص/343۔کنز العمال ،ج/1،ص/250۔صواعق،ص/75۔ فیض القدیر،ج/4،ص/356۔

177۔ ”یوم یحمیٰ علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم و ظھورھم ھذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون“  سورہ توبہ /35

178۔اس کے علاوہ گناہ کرنے والے اگر جھوٹ نہ بولیں گے تو اس کالازمہ یہ ھوگا کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنے گناھوں کا اعتراف کریں اور جب لوگ ان کی برائیوں سے آگاہ ھوجائےں گے تو فطری طور سے ان کا وقار اور ان کی عزت خاک میں مل جائے گی اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے۔نتیجہ میں دوبارہ وھی مشکل پیش آئے گی کہ مربی اپنے عملی گناہ کے سبب لوگوں میں اپنی عزت گنوادے گا۔

   179۔ لوگوں کا اعتماد جزب کرنے کا لازمہ یہ ھے کہ پیغمبر اپنی زندگی کے تمام ادوار میں چاھے وہ رھبری سے پھلے کی زندگی ھو یا اس کے بعد والی زندگی ھر طرح کے گناہ لغزش اور الودگی سے پاک و پاکیزہ ھو ۔ کیوں کہ یہ بے دھڑک اور سو فی صدی اعتماد اسی وقت ممکن ھے جب اس شخص سے کبھی کوئی گناہ ھوتے ھوئے نہ دیکھا جائے ۔ جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ گناہ اور آلودگی میں بسر کرتے ھیں ،اسکے بعد توبہ کرتے ھیں ،ممکن ھے کہ ایک حد تک لوگوں کا اعتماد جذب کرلیں لیکن سو فی صد ی اعتماد تو بھر حال جذب نھیں کر سکتے ۔

          ساتھ ھی اس بات سے یہ نتیجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ھے کہ رھبروں کو عمدی گناہ کے ساتھ ساتھ سھو اور بھو ل سے کئے گئے گناہ سے بھی محفوظ ھونا چاھئے ،کیوں کہ عمدی گناہ اعتماد کو سلب کر لیتا ھے اور سھوی گناہ اگر چہ بعض موارد میں اعتماد سلب کرنے کاباعث نھیں ھوتا لیکن انسان کی شخصیت کو نا قابل تلافی نقصان پھنچاتا اور اس کی شخصیت کو بری طرح مجروح کر دیتا ھے اگر چہ سھوی گناہ کی سزا نھیں ھے اور انسان ،دین و عقل کی نگاہ سے معذور سمجھا جاتا ھے لیکن رائے عامہ پر اس کابرا اثر پڑتا ھے اور لوگ ایسے شخص سے دور ھو جاتے یا میں خاص طور سے اگر گناہ بھول سے کسی کو قتل کرنے کا یا اسی جیسا ھو۔

180۔  احزاب /32

181۔  یہ وھی صاحبان امر ھیں جو پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ھیں ۔یا کم از کم مصداق ”اولی الامر“ھیں۔

182۔  نساء /59

183۔ بقرہ /124

185۔ صحیح مسلم ،ج/4/3،18 نمبر 2408 چاپ عبد الباقی

186۔سنن دارمی ،ج/2ص/431۔432

187۔  سنن ترمذی ،ج/5 ص/663 نمبر 37788

188۔ المستدرک ،حاکم ،ج/1ص/93

189۔  حافظ مزی ،تھذیب الکمال ،ج/3ص/127

190۔  ابن حجر عسقلانی مقدمہ فتح الباری ،ص/391طبع دار المعرفھ

191۔ حافظ سید احمد ، فتح الملک العلی ص/15

192۔  ابو حاتم رازی ، الجرح و التعدیل ج/5ص/92

193۔  وہ حدیث جسے راوی معصوم سے نسبت نہ دے

194۔  حاکم،مستدرک ج/1 ، ص93

195۔  حافظ مزی، تھذیب الکمال،ج/13،ص 96            

196۔  تھذیب التھذیب،ابن حجر،ج/4،ص355

197۔  تقریب،ابن حجر،ترجمہ نمبر 2891                   

 204۔  الموطّا،امام مالک ،ص889،حدیث نمبر3

205۔  صحیح مسلم ،ج/4  ص1883  نمبر 2424          

206۔ترمذی   ج/5  ص663

207۔ صحیح صفة صلاة النبی  از حسن بن علی السقاف کے ص/289تا ص/294 سے ماخوذ

208۔  منشور جاوید،ج/5ص/294

209۔ صواعق محرقہ ، چاپ دوم  مکتبہ ” القاھرہ" مصر باب /11 فصل اول ص/146

ایسی ھی روایت سیوطی کی کتاب ”الدر المنثور“ج/ 5 سورھٴ احزاب کی آیت نمبر 56 کے ذیل میں وارد ھوئی ھے جسے سیوطی نے ”المصنف“کے موٴلف عبد الرزاق ،ابن ابی شیبہ ،احمد بن حنبل ،امام نجارومسلم ،ابوداود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ اور ابن مردویہ سے نقل کیاھے۔

210۔  صواعق محرقہ،باب/11  ص 148 ،اتحاف بشراوی ص29  وغیرھ

211۔صحیح بخاری،کتاب تفسیر جزء  6 ص/217 سورہٴ احزاب۔

 

Add comment


Security code
Refresh