www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

نویں فصل

اسلام میں مشورہ

 اس میں کسی بحث کی ضرورت نھیں کہ مشورہ کے ذریعہ بھت سی انفرادی و اجتماعی مشکلات حل ھوتی ھیں۔دو فکروں کا ٹکراو گویا بجلی کے دو مثبت ومنفی تاروں کے ٹکرانے کے مانند ھے جس سے روشنی پیدا ھوتی ھے اور انسان کی زندگی کی راہ روشن ھوجاتی ھے۔

 مشورہ مشکلات کے حل کے لئے اس قدر اھم ھے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوحکم دیتاھے کہ زندگی کے مختلف امور میں مشورہ کرو۔چنانچہ فرماتاھے:

وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہان اللہےحب المتوکلین“  (30)

یعنی اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کرلو توخدا پر بھروسہ کرو۔بلا شبھہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے ۔

 خداوند عالم ایک دوسری آیت میں صاحبان ایمان کی یوں تعریف کرتاھے:

والذین استجابوالربھم واقامواالصلوٰةوامرھم شوریٰ بینھم ومما رزقناھم ینفقون“  (31)

 یعنی جو لوگ اپنے خدا کی آواز پر لبیک کھتے ھیںاورنمازقائم کرتے ھیںاوران کے فیصلوںاور کاموںکی بنیادان کاآپسی مشورہ ھے اورجوکچہ خداانھیںرزق دیتاھے اس میں سے انفاق کرتے ھیں۔

 لھٰذا ھم دیکھتے ھیں کہ عقل اور نقل دونوں نے مشورہ کی اھمیت کو واضح کیا ھے اور کیا اچھا ھو کہ مسلمان اسلام کے اس عظیم دستور کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت وخوشبختی اور سماج کی ترقی پوشیدہ ھے۔

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نہ صرف لوگوں کو یہ روش اپنانے کاحکم دیتے تھے بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں خود بھی خدا کے اس فرمان پر عمل کیاھے ۔جنگ میں جبکہ ابھی دشمن کاسامنا نھیں ھواتھا ،بدر کے صحرا میں آگے بڑھنے اور دشمن سے مقابلہ کے سلسلہ میں آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان سے فرمایا :”اشیروا الیّ ایھا الناس“قریش سے جنگ کے سلسلہ میں تم لوگ اپنا نظریہ بیان کروکہ ھم لوگ آگے بڑھکر دشمن سے جنگ کریں یا یھیں سے واپس ھوجائےں ؟مھاجرین وانصار کی اھم شخصیتوں نے دو الگ الگ اور متضاد مشورے دیئے لیکن آخر کار پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انصار کا مشورہ قبول کیا۔  (32)

 اُحد کی جنگ میں بڑے بوڑھے لوگ قلعہ بندی اور مدینہ میں ھی ٹھھرنے کے طرفدار تھے تاکہ برجوں اور مکانوں کی چھتوں سے دشمن پر تیر اندازی اور پھتروں کی بارش کرکے شھر کا دفاع کریں،جبکہ جوان اس بات کے طرفدار تھے کہ شھر سے باھر نکل کر جنگ کریں اور بوڑھوں کے نظریہ کو زنانہ روش سے تعبیر کرتے تھے ۔یھاں پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسرے نظریہ کو اپنایا ۔ (33) جنگ خندق میں پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک فوجی کمیٹی تشکیل دی اور مدینہ کے حساس علاقوں کے گرد خندق کھودنے کا جناب سلمان کا مشورہ قبول کیا اور اس پر عمل کیا ۔ (34)

 طائف کی جنگ میں لشکر کے بعض سرداروں کے مشورہ پرفوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔  (35)

 لیکن اس بات پر توجہ ھونی چاھئے کہ کیا صرف مشور ہ اور تبادلہٴ  خیالات ھی مشکلات کاحل ھے یا یہ کہ پھلے عقل وفکر کے اعتبار سے بانفوذ مرکزی شخصیت جلسہ تشکیل دے اور تمام آراء کے در میان سے ایک ایسی رائے منتخب کرے اور اس پر عمل کرے جو اس کی نظر میںبھی حقیقت سےقریب ھو۔

 معمولاً مشوروں کے جلسوں میں مختلف افکارونظریات پیش کئے جاتے ھیں اور ھرشخص اپنے نظریہ کا دفاع کرتے ھوئے دوسروں کی آرا ء کو ناقص بتاتا ھے ۔ایسے جلسہ میں ایک مسلم الثبوت رئیس و مرکزی شخص کا وجود ضروری ھے ،جو تمام لوگوں کی رائے سنے اور ان میں سے ایک قطعی رائے منتخب کرے۔ورنہ دوسری صورت میں مشورہ کا جلسہ کسی نتیجہ کے بغیر ھی ختم ھو جائے گا۔

 اتفاق سے وہ پھلی ھی آیت جو پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کا حکم دیتی ھے مشورہ کے بعد سے یوں خطاب کرتی ھے :”فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ پس جب تم فیصلہ کر لو تو خداپر بھروسہ کرو ۔اس خطاب سے مراد یہ ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے یہ بات کھی جا رھی ھے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرنے والی مرکز ی شخصیت خود پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذات ھے لھٰذاپیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کو ھی فیصلہ کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا چاھئے۔

 جمعیت کا پیشوا و رھبر ،جس کے حکم سے مشورہ کاجلسہ تشکیل پایا ھے ممکن ھے کہ لوگوں کے درمیان کسی تیسرے نظریہ کو اپنائے جو اس کی نظر میں ”اصلح “ یعنی زیادہ بھتر ھو۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے اصحاب کے عمومی خیالات کی مخالفت کی اور مسلمانوں اور قریش کے بت پرستوں کے درمیان صلح کی قرار داد باندھی اور خود صلح یا صلح نامہ کے بعض پھلووٴں سے متعلق اپنے اصحاب کے اعتراضات پر کان نھیں دیئے اور زمانہ نے یہ بات ثابت کردی کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں مفید تھا ۔

 اسلام میں مشورہ اور جمھوری حکومتوں کے مشورہ جس میں ملکی قوانین پاس کرنا پارلمینٹ اور سینٹ دونوں مجلسوں کے اختیار میں ھے اور حکومت کا صدر صرف ان دو مجلسوں کے تصویب شدہ قوانین کا  اجرا کرنے والا  ھے  - میںزمین آسمان کا  فرق ھے۔یھاں حکومت کارئیس  وحاکم جوخود پیغمبراکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھیں، اقلیت یا اکثریت کی آراء کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نھیں ھے ۔بلکہ آخری رائے یا آخری فیصلہ کا اظھار ،چاھے وہ اھل مجلس کی رائے کے ،موافق ھو یا مخالف ،خودپیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اوپر ھے۔اور یہ پھلے عرض کیا جاچکا کہ مشورہ کے بعد قرآن کریمپیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو حکم دیتاھے کہ اب آپ خدا پر توکل کریں ،فیصلہ کریںاور آگے بڑھیں۔

 دوسری آیت کا مطلب بھی یھی ھے۔دوسری آیت تبادلہٴ  خیال کو بایمان معاشرہ کی ایک بھترین خوبی شمار کرتی ھے ۔لیکن یہ باایمان معاشرہ پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں ھرگز ایک نافذ اور مطلق العنان رئیس سے خالی نھیں تھا اور عقل یہ کھتی ھے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی بایمان معاشرہ کو ایسی شخصیت سے خالی نھیں رھنا چاھئے ۔یہ آیت ایسے معاشروں کی طرف اشارہ کررھی ھے جنھوں نے حاکم ورھبر کے تعین کامرحلہ طے کرلیا ھے اور اب دوسرے مسائل میں مشورہ یا تبادلہٴ  خیال کرتے ھیں ۔

 اس بیان سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ بعض علمائے اھل سنت کا ان آیات سے مشورہ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو صحیح قرار دینا درست نھیں ھے ۔کیونکہ جیسا کہ ھم عرض کرچکے ھیں مذکورہ آیات ان معاشروں سے متعلق ھےں جن میں حاکم کے تعین کی شکل پھلے سے حل ھوچکی ھے اور مشورتی جلسے اس کے حکم سے تشکیل پاتے ھیں تا کہ مسلمان اپنے دوسرے امور میں تبادلہ ٴخیال کریں ، خاص طور سے پھلی آیت جو صاف طورسے پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے جومسلمانوں کے رھبر ھیں۔خطاب کرتی ھے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرلو اور اس کے مطابق عمل کرو۔

 اس کے علاوہ عمومی افکار و خیالات کی طرف رجوع اس سلسلہ میں ھے جس میں خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے کوئی فریضہ معین نہ کیا گیا ھو۔ایسے میں مسلمان تبادلہ ٴخیال کے ذریعہ اپنا فریضہ معلوم کرسکتے ھیں،لیکن جس امر میں نص کے ذریعہ سب کا فریضہ معین کیا جاچکا ھے اس میں مشورہ کی ضرورت ھی نھیں ھے۔

 یھی وجہ ھے کہ جب ”حباب منذر“پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آئے اور فوج کے مرکز کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے خطاب کرکے عرض کیا ”فان کان عن امر سلّمنا و ان کا عن الرای فالتاٴخر عن حصنھم“ (36)یعنی اگر اس سلسلہ میں کوئی الٰھی حکم ھے تو ھم تسلیم ھیں اور اگر ایسی بات ھے کہ ھم اس میں اپنی رائے دے سکتے ھیں تو لشکر اسلام کی مرکزی کمان کو دشمن کے قلعہ سے دورمیں ھی بھلائی ھے۔

 حضرت علی ںکی خلافت و جانشینی کا موضوع ایسا مسئلہ ھے جسے بھت سے نقلی دلائل نے ثابت اور واضح کردیا ھے اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے بھت سے موقعوں پر مثلاً یوم الدار ،غدیر خم، اوربیماری کے ایام میں ان کی خلافت و جانشینی کو صراحت سے بیان کردیاھے۔پھر ابمشورہ  کے ذریعہ آنحضرت کی جانشینی کی تعیین کا مسئلہ حل کیا جانا ھے کیا معنی رکھتا ھے۔کیا یہ عمل نص کے مقابلہ میں اجتھاد اور خدا کے قطعی حکم یا دلیل کے مقابل اپنے نظریہ کا اظھار نھیں ھے؟

 قرآن مجید ایک آیت کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاھے : جب پیغمبر اکرم  کے منہ بولے بیٹے زید نے اپنی بیوی جناب زینب کو طلاق دے دی اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے جناب زینب سے شادی کرلی تو یہ بات مسلمانوں کو بھت بری لگی کیونکہ جاھلیت کے زمانہ میں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور جس طرح نسبی بیٹے کی بیوی سے شادی نا پسندیدہ اور حرام تھی اسی طرح منہ بولے بیٹے کی بیوی سے بھی شادی نا روا اور قبیح سمجھی جاتی تھی۔

 مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ آنحضرت ھمارے نظریات کے پیرو ھوں گے اور ھمارے خیالات کا احترام کریں گے ۔جبکہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے یہ عمل خدا وند عالم کے حکم سے اور جاھلیت کے رسم و رواج کو غلط قرار دینے کے لئے انجام دیا تھا ۔ اور ظاھر ھے کہ خدا کے حکم کے ھوتے ھوئے عام لوگوں کے افکار و خیالات کی طرف توجہ دینا کوئی معنی نھیں رکھتا ۔

 یھی وجہ ھے کہ قرآن کریم نے مندرجہ ذیل آیت کے ذریعہ ان موارد میں اپنی مداخلت اور اپنے خیالات کے اظھار کو شدت سے محکوم کیا ھے ، جن میں اللہ کے حکم نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص فریضہ معین کر دیا ھو ۔قرآن فرماتا ھے:

وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی اللہو رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرة من امرھم ومن یعص اللہو رسولہ فقد ضل ضلالا مبینا“  (37)

یعنی جب خدا اور اس کا رسول کسی سلسلہ میں حکم دے دیں پھر کسی مومن یا مومنہ کو اپنے امور میں کوئی اختیار نھیں ھے (انھیں بھر حال خدا کے حکم کی پیروی کرنا ھوگی) اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کے فرمان سے سرتابی کرے گا وہ کھلا ھوا گمراہ ھے

Add comment


Security code
Refresh