www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دسویں فصل

یکطرفہ فیصلہ نہ کریں

 اسلام میں وہ تنھا خلیفہ، جو مھاجر و انصار کی قریب با اتفاق اکثریت سے منتخب ھوا ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام تھے ۔ اسلامی خلافت کی تاریخ میں یہ امر بالکل بے نظیر تھا اور اس کے بعد بھی اس کی کوئی مثال نظر نھیں آتی ۔

اس دوران جب معاویہ ( جس نے مدتوں پھلے شام میں اپنی بادشاھت اور مطلق العنانیت کی داغ بیل ڈالی تھی اور خاندان رسالت  کے ساتھ دیرینہ اور عمیق بغض و عداوت رکھتا تھا ) اس امر سے آگاہ ھوا کہ مھاجرین و انصار نے حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ منتخب کرلیا ھے ،تو سخت برھم ھوا اور امام(ع)سے بیعت کرنے کےلئے تیار نہ ھوا ۔ اس نے نہ صرف امام(ع)کی بیعت کرنے سے انکار کیا بلکہ حضرت(ع)پر حضرت عثمان کے قتل اور اس کے قاتلوں کی حمایت کی تھمت بھی لگادی!

 امام (ع)، معاویہ کو خاموش کرنے اور اس کےلئے ھر قسم کے عذر کے راستوں کو مسدود کرنے کےلئے اپنے ایک خط میں اسے تحریر فرماتے ھیں کہ :

 ”وھی لوگ جنھوں نے ابو بکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی، میری بھی بیعت کرچکے ھیں، اگر ان کی خلافت کو اس لحاظ سے قابل احترام سمجھتے ھو کہ مھاجرین و انصار نے ان کی بیعت کی تھی تو یہ شرط میری خلافت میں بھی موجود ھے“۔

امام(ع)کے خط کا متن :

”انہ  بایعنی القوم الّذین بایعوا اٴبابکر و عمر و عثمان علی ما بایعوھم علیہ فلم یکن للشاھد اٴن یختار و لا للغائب اٴن یرد و إنّما الشوریٰ للمھاجرین و الاٴنصار  اجتمعوا علی رجل و سموہ إماماً کان ذلک (لله) رضا“  (نھج البلاغہ ، خط نمبر/6)

” جن افراد نے ابوبکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی ، وہ میرے ساتھ بھی بیعت کرچکے ھیں اس صورت میں مدینہ میں حاضر شخص کو کسی اور کو امام منتخب کرنے اور مرکزِ شوریٰ سے دور کسی فرد کو ان کا نظریہ مسترد کرنے کا حق نھیں ھے ۔ شوریٰ کی رکنیت صرف مھاجر و انصار کا حق ھے۔ اگر انھوں نے کسی شخص کی قیادت و امامت پر اتفاق نظر کیا اور اسے امام کھا ، تو یہ کام خدا کی رضا مندی کا باعث ھوگا۔

امام علیہ السلام کے اس خط کا مقصد ، معاویہ کو خاموش کرنے ، اس کی ھر قسم کی بھانہ تراشی اور خود غرضی کا راستہ بند کرنے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں”مجادلہ احسن“ کے سوا اور کچھ نھیں تھا۔ کیونکہ معاویہ شام میں حضرت عمر اور اس کے بعد حضرت عثمان کی طرف سے مدتوں گورنر رہ چکا تھا اور انھیں خلیفہ رسول  اور اپنے آپ کو ان کا نمائندہ جانتا تھا ۔ ان حضرات کی خلافت کا احترام اسی جھت سے تھا کہ وہ مھاجر و انصار کی طرف سے منتخب ھوئے تھے ، اور بالکل یھی انتخاب واضح اور مکمل صورت میں امام علیہ السلام کے حق میں بھی انجام پایا تھا س لئے کوئی وجہ نھیں تھی کہ ایک کو قبول اور دوسرے کو مسترد کیا جائے۔

امام علیہ السلام نے قرآن مجید میں حکم شدہ مجادلہٴ کے ذریعہ (38)  اپنی خلافت کے بارے میں معاویہ کی مخالفت کی مذمت کرتے ھوئے فرمایا :

”جنھوں نے ابو بکر اور عمرو عثمان کی بیعت کی تھی ، وھی میری بیعت بھی کرچکے ھیں،  لھذا اب تم میری خلافت کو جائز کیوں نھیں سمجھتے ھو؟“

مجادلہ کی حقیقت اس کے سوا کچھ اور نھیں ھے کہ جس چیز کو مخالف مقدس اور محترم جانتا ھو اسے استدلال کی بنیاد قرار دیکر مخالف کو اسی کے اعتقاد کے ذریعہ شکست دی جائے۔ اس لحاظ سے ، یہ خط ھرگز اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ امام علیہ السلام مھاجرین و انصار کی شوریٰ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو سو فیصد صحیح جانتے تھے اور امام(ع)کا عقیدہ بھی یھی تھا کہ خلیفہ کا انتخاب مھاجرین و انصار کی مشورت کے ذریعہ ھی انجام پانا چاھئے اور مسئلہ امامت ھرگز ایک انتصابیمسئلہ  نھیں بلکہ انتخابی مسئلہ ھے۔

اگر امام علیہ السلام کا مقصد یھی ھوتا ، تو انھیں اپنے خط کو گذشتہ تین خلفاء کی بیعت کی گفتگو سے شروع نھیں کرنا چاھئے تھا ، بلکہ انھیں ان خلفاء کی خلافت کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی بات کویوں شروع کرنا چاھئے تھا  :

”مھاجرین و انصار نے میری بیعت کی ھے اور جس شخص کی وہ بیعت کرلیں وہ لوگوں کا امام و پیشوا ھوگا “

یہ جو امام بعد والے جملوں میں فرماتے ھیں :” فان اجتمعوا علی رجل و سموہ اماماً، کان ذلک (لله) رضا“ تو یہ احتجاج بھی مخالف کے عقیدہ کی روشنی میں ھے اور کلمہ ”الله“ نھج البلاغہ کے صحیح نسخوں میں موجود نھیں ھے بلکہ مصر میں چھپے نسخوں میں بریکٹ کے اندر پایا جاتا ھے (اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ امام(ع)کے خط میں اس کلمہ (الله)  کے ھونے میں شک پا یا جاتا ھے ) حقیقت میں امام(ع)فرماتے ھیں کہ : اگر مسلمان اپنے پیشوا کے انتخاب میں ایک فرد پر اتفاق کریں ، تو ایسا کا م پسندیدہ ھے ، یعنی تم لوگوں کے عقیدہ کے مطابق یہ کام پسندیدہ اور رضا مندی کا باعث ھے اور یھی کام تو میرے بارے میں انجام پایا ھے ، اب کیوں میری بیعت کرنے میں مخالفت کرتے ھو؟

سب سے پھلا شخص ، جس نے اس خطبہ سے اھل سنت کے نظریہ کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں استدلال کیا ھے ، شارح نھج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ھے ۔ اس نے اس خط میں اور نھج البلاغہ کے دیگر خطبوں میں موجود قرائن کے سلسلہ میں غفلت کے سبب اس سے اھل سنت کے نظریہ کی حقانیت پر استدلال کیا ھے اور امام(ع)کے فرمائشات کو ایک سنجیدہ امر سمجھتے ھوئے اسے آپ(ع)کا عقیدہ تصور کیا ھے(39)۔ شیعہ علما ء جب بھی اس خطبہ کی شرح پر پھنچتے ھیں تو انھوں نے وھی مطلب بیان کیا ھے جس کا ھم اوپر اشار کرچکے ۔

تعجب ھے کہ احمد کسروی نے اپنی بعض تحریروں میں اس خطبہ کو بنیاد بنا کر اسے شیعوں کے عقیدہ کے بے بنیاد ھونے کی دلیل قرار دیا ھے اور اس سے بڑہ کر تعجب ان لوگوں پر ھے جو ان دو افراد کی باتوں کو نیا روپ دیگر اسے دھوکہ کھانے والوں کے بازار میں ایک نئی چیز کے طور پر پیش کرتے ھیں اور یہ نھیں جانتے کہ ھر زمانے میں مذھب تشیع کے ایسے محافظ موجود ھوتے ھیں جو خودغرضوں کی سازشوں کا پردہ چاک کردیتے ھیں ۔

یک طرفہ فیصلہ نہ کریں !

کسی فیصلہ کےلئے خود سری سے کام نھیں لینا چاھئے اور ” نھج البلاغہ “ میں موجود امام (ع)کے دوسرے ارشادات سے چشم پوشی نھیں کرنا چاھئے ، بلکہ امام علیہ السلام کے تمام بیانات سے استفادہ کرکے ایک نتیجہ اخذ کرناچاھئے ۔

یھی امام جو اس خط میں لکھتے ھیں :

” جن لوگوں نے گذشتہ تین خلفا کی بیعت کی تھی ، انھوں نے میری بھی بیعت کی ھے اور جب کبھی مھاجر و انصار کسی کی امامت کے بارے میں اتفاق رائے کا اظھار کریں ، تو وہ لوگوں کا پیشوا ھوگا اور کسی کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نھیں ھے“۔

 خلافت خلفاء کے بارے میں خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ھیں :

” خدا کی قسم ! فرزند ابو قحافہ نے پیراھن خلافت کو کھینچ تان کر پھن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا خلافت کی چکی میرے وجود کے گرد گردش کرتی ھے اور میرا خلافت میں وھی مقام ھے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ھوتا ھے ۔ میں وہ (کوہ بلند ) ھوں جس سے علوم و معارف کا سیلاب نیچے کی طرف جاری ھے اور کسی کے وھم و خیال کا پرندہ بھی مجھ تک نھیںپھنچ سکتا ۔ لیکن میں نے جامہ خلافت کو چھوڑ دیا اور اس سے پھلو تھی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ھوئے ھاتھوں (کسی ناصر و مددگار کے بغیر ) سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں ، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ھوجاتا ھے اور مؤمن اس میں رنجیدہ ھو تا ھے یھاں تک کہ وہ اپنے پروردگارکے پاس پھنچ جاتا ھے مجھے اس اندھیر پر صبر ھی قرین عقل نظر آیا۔ لھذا میں نے صبر کیا حالانکہ آنکھوں میں ( غم و اندوہ کے تنکے کی) خلش تھی اور حلق میں ( غم و رنج کی ) ھڈی پھنسی ھوئی تھی ۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکہ رھا تھا ، یھاں تک کہ پھلے ( ابو بکر ) نے اپنی راہ لی اور وہ اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا ۔ تعجب ھے کہ وہ زندگی  میں تو خلافت سے سبکدوش ھونا چاھتا تھا ۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کےلئے استوار کرتا گیا۔ ان دونوں نے خلافت کو دو پستانوں کے مانند آپس میں بانٹ لیا اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت جگہ قرار دے دیا ۔

آپ نے مزید فرمایا :

” یھاں تک کہ دوسرا (عمر ) بھی اپنی راہ لگا ، اور اس نے خلافت کا معاملہ ایک جماعت کے حوالے کردیا ۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد قرار دیا ۔ اے الله ! میں تجہ سے اس شوریٰ کی تشکیل اور اس کے مشورہ سے پناہ مانگتا ھوں جبکہ انھوںنے  مجھے بھی اس کا ھم ردیف قرار دے دیا ۔ ۔(40)

 امام علیہ السلام اپنے ایک خط میں اپنی مظلومیت اور آپ(ع)سے بیعت لینے کے طریقے پر سے پردہ اٹھاتے ھوئے معاویہ کے ایک خط کے جواب میں__جس میں اس نے حضرت(ع)کو لکھا تھا کہ انھیں اونٹ کی ناک میں نکیل ڈال کر کھینچنے کی صورت میں ابو بکر کی بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لے گئے تھے__لکھتے ھیں :

” تم نے لکھا تھا کہ : مجھے اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالکر کھینچنے کی صورت میں بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لئے گئے تا کہ میں بیعت کروں ۔ خدا کی قسم تم نے چاھا کہ میری ملامت کرو لیکن اس کے بجائے تم میری ستائش کر گئے ھو اور مجھے رسوا کرنا چاھتے تھے لیکن خود رسوا ھوگئے ھو ( کیونکہ تم میر ی مظلومیت کا واضح طور پر اعتراف کرگئے ھو ) کیونکہ مسلمان کےلئے__ جب تک اس کے دین میں شک اور یقین میں خلل نہ ھو __مظلومیت اور ظلم و ستم سھنے میں کوئی عار نھیں ھے “  (41)

  کیا امام(ع)کی اپنی مظلومیت کے بارے میں اس صراحت کے باوجود کہ آپ(ع)سے زورز بردستی  اور جبراً بیعت لی گئی ھے ، یہ تصور کیا جاسکتا ھے کہ آپ(ع)نے خلفاء کی خلافت کی تائید کی ھوگی اور ان کو امت کے امام و پیشوا کے طور پر تسلیم کیا ھوگا ؟ ھر گز نھیں ، لھذا اس سے ثابت ھوتا ھے کہ زیرِ بحث خط میں آپ(ع)کا مقصد مجادلہ اور طرف کو لاجواب کرنا تھا ۔

امام علیہ السلام اپنے ایک اور خط میں __جسے آپ(ع)نے اپنے گورنر مالک کے ھاتہ مصر بھیجا تھا __لکھتے ھیں :

” خدا کی قسم ! میں کبھی سوچ بھی نھیں سکتا تھا کہ عرب پیغمبر  کے بعد خلافت کو آپ کے خاندان سے نکال کر کسی دوسرے کو سونپ دیں گے اور ھمیں اس سے محروم کردیں گے ۔ ابو بکر کی بیعت کےلئے لوگوں کی پیشقدمی نے ھمیں رنج و مصیبت میں ڈالدیا “  (42)

Add comment


Security code
Refresh