www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سولھویں فصل

پیغمبر  کے صحابی ، گناہ و خطا سے معصوم نھیں

          شاید مھاجرین و انصارکے ایک گروہ پرھماری تنقید سُنی برادری کے بعض افراد کیلئے تعجب کا سبب بنے اور یہ سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ھے ان حضرات کے قول و فعل کی عیب جوئی کرکے ان کو خطاکار قرار دیاجائے جبکہ قرآن مجید نے دو موقعوں پر ان کی ستائش کی ھے :

( وَالَسَّابِقُونَ الاٴَوَّلُونَ مِنَ المُھٰاجِرِینَ وَ الْاٴَنْصَارِ وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوھُمْ بِإِحْسَٰنٍ رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَ رَضُوا عَنْہ وَ اٴَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَھَا الاٴَنْھَارُ خٰلِدِینَ فِیھٰآ اٴَبَداً ذٰلِکَ الْفَوزُ الْعَظِیمُ)

” اور مھاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں  نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ھے ، ان سب سے خدا راضی ھوگیا ھے اور یہ سب خدا سے راضی ھیں اور خدا نے ان کےلئے وہ باغات مھیّا کئے ھیں جن کے نیچے نھریں جاری ھیں اور یہ ان میں ھمیشہ رھنے والے ھیں اور یھی بھت بڑی کامیابی ھے“ (101)

          2۔ ایک دوسر ے سورہ میں ان افراد کے بارے میں ، جنھوں نے سرزمین ” حدیبیہ پر ایک درخت کے سایہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیعت کی تھی ، یوں فرمایا ھے :

 (لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبٰایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِھِمْ فَاٴَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْھِمْ وَ اٴَثَابَھُمْ فَتْحاً قَرِیباً)

” یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ھوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ  کی بیعت کررھے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکہ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان سب پر سکون نازل کردیا اور انھیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی“  (102)

          خلاصہ : پھلی آیہ کریمہ میں خدائے تعالیٰ مھاجرین و انصار میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ھے جو دوسرے لوگوں سے پھلے اسلام لائے اس کے بعد ان افراد کی بھی تعریف کرتا ھے جنھوں نے ان میں سے کسی ایک کی پیروی کی ھو۔

          دوسری آیہ شریفہ میں ، خداوند کریم ان افراد کے بارے میں رضا مندی اور خوشنودی کا اظھار کرکے انھیں آرام و سکون اور فتح مکہ کی بشارت دیتا ھے ، جنھوں نے ساتویں ھجری کو سرزمین ” حدیبیہ“ پر پیغمبر  کی بیعت کی تھی۔

          خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس ستائش اور اظھار خوشنودی کے ھوتے ھوئے کس طرح ممکن ھے کہ پیغمبر اکرم  کی رحلت کے بعد رسول کے اصحاب اپنے فیصلوں میں خطا یا گناہ کے مرتکب ھوتے ھوں ؟!

          مذکورہ بالا آیات کے مقاصد کی وضاحت کرنے سے پھلے ایک مطلب کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے اور وہ یہ ھے کہ اھل سنت کے علماء نہ فقط ان دو گروھوں ( مھاجرین و انصار اور تابعین) کو __جن کے بارے میں ان دو آیتوں میں اشارہ ھوا ھے__عادل اور پاک دامن جانتے ھیں بلکہ ان کی اکثریت کا اعتقاد یہ ھے کہ تمام اصحابِ رسول  عادل ، منصف ، متقی اورپرھیزگار تھے ۔ مگر یہ کہ کسی ایک کے بارے میں کسی واقعہ میں فسق و انحراف ثابت ھوجائے ۔

مختصر یہ کہ جس کسی نے پیغمبر اسلام  کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ھے اسے عادل اورپاک دامن جاننا چاھئے ، مگر یہ کہ اس کے برخلاف کچھ ثابت ھوجائے۔

          اس جملہ کا مفھوم یہ ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابیوں جن کی تعدا د ایک لاکہ سے زیادہ ھے ، کے تانے بانے ھی جدا ھیں ، یعنی جوں ھی کوئی فرد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم    کے حضور مشرف ھوتا تھا ، ایک روحانی انقلاب پیدا کرکے اس لمحہ کے بعد اپنی پوری زندگی میں صحیح ، عادل اور پاک دامن ھونے کی سند حاصل کرلیتا تھا۔

          صحابیوں کے بارے میں ایسی بات کھنا ، ان میں سے ایک گروہ کی بد کرداری پر پردہ ڈالنے کے مترادف ھے ، کیونکہ ایسے افراد کا ضعیف عمل اور بعض مواقع ، جیسے ، جنگ احد و جنگ حنین میں ان کا فرار کرنا ان کے ایمان میں کمزوری خود رسالت مآب اور آپ  کے عالی مقاصد کے تئیں ان کی بے توجھی کی واضح دلیل ھے قارئین کرام جنگ ” احد“ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کی بے وفائی کے بارے میں نازل شدہ آیات کی تحقیق کرکے حقیقت کو بخوبی محسوس کرسکتے ھیں ۔

          یہ کس طرح کھا جاسکتا ھے کہ تمام صحابی عادل اورپاک دامن تھے ، جبکہ قرآن مجید ان کے ایک گروہ کے حلقہ منافقین میں ھونے کے بارے میں یوں فرماتا ھے :

          (وَ اِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُہ إلَّا غُرُوراً )

          ” اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں  مرض تھا ، یہ کھہ رھے تھے کہ خدا اور اس کے رسول نے ھم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سراسر دھوکہ ھے “  (103)

          کیا ایسی بات کھنے والوں کو عادل و منصف کھا جاسکتا ھے ؟ جبکہ ایسا کھنے والے کو حقیقی مسلمان بھی نھیں کھا جاسکتا ھے۔

          قرآن مجید صحابہ کے ایک گروہ کا تعارف ” سمّاعون“ کی حیثیت سے کراتا ھے ۔

          اس لفظ سے مراد و ہ افراد تھے جو منافقین کی باتوں کو فوراً قبول کرلیا کرتے تھے ، فرماتا ھے :

( لَوْ خَرَجُوا فِیکُمْ مٰا زَادُوکُمْ إِلَّا خَبَالاً وَلاََوْضَعُوا خِلَٰ-لَکُمْ یبْغُونَکُمُ الْفِتْنَةَ وَ فِیکُمْ سَمَّٰعُونَ لَھُمْ وَ اللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ) 

          اگر یہ ( منافقین ) تمھارے ساتھ نکل بھی پڑتے تو تمھاری وحشت میں اضافہ ھی کرتے اور تمھارے درمیان فتنہ کی تلاش میں گھوڑے دوڈاتے پھرتے اور تم میں ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی باتوں کو خوب سننے والے تھے اور الله تو ظالمین کو اچھی طرح جانتا ھے ۔ (104)

          اس گروہ کے تمام افراد کو کیسے عادل و پاک دامن جانا جاسکتا ھے ،جبکہ خالد بن ولید ( بعض اھل سنت مصنفین کے عقیدہ کے مطابق اس نے پیغمبر  سے ” سیف اللہ “ کا لقب حاصل کیا تھا ) فتح مکہ کے سال ایک خطر ناک جرم کا مرتکب ھوا اور قبیلہ ” بنی خزیمہ'' کی ایک جماعت کو ضمانت اور عھد وپیمان کے بعد دھوکہ و فریب سے قتل عام کرڈالا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس مجرمانہ حرکت کی خبر سنی تو قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ھوئے اور اپنے ھاتھوں کو بلند کرکے ”استغاثہ'' کی حالت میں فرمایا :

” اللھم انّی اٴبرءُ الیک ممّا صنع خالد بن ولید“

خدا ! جو کچھ خالد بن ولید نے انجام دیا ھے ، میں اس سے بیزار ھوں ۔ (105)

          اس نام نھاد ” سیف اللہ “ کے کارناموں کی سیاہ فائل یھیں پر بند نھیں ھوتی  بلکہ پیغمبر اسلام  کی رحلت کے بعد مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلہ کے ساتھ کئے گئے اس کے بھیمانہ جرائم تاریخ کے صفحات میں ضبط ھوچکے ھیں ۔ اس نے مالک کو__جو ایک مسلمان تھا__قتل کرڈالا اور اس کی بیوی کے ساتھ اسی شب اپنا منہ کالا کیا۔

 

حق و باطل پھچاننے کا راستہ

          اصولی طور پر یہ سب سے بڑی غلطی ھے کہ ھم حق و باطل کو افراد کے ذریعہ پھچانیں اور ان کی رفتار و گفتار کی حقانیت کےلئے ان کی شخصیت کو معیار قرار دیں ، جبکہ ایک شخص کا عقیدہ اور قول و فعل اس کی حقانیت کی علامت ھوتا ھے ، نہ کہ بر عکس۔

          ” بریٹنڈرسل “ علم ریاضی کا ایک بڑا دانشور ھے اور ریاضیات میں اس کے نظریے نمایاں اور علماء کے لئے قابل قبول ھیں ، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ملحد ھے اور خدا و الھی مقدسات کا منکر شمار ھوتا ھے ، وہ اپنی کتاب ” میں کیوں عیسائی نھیں ھوں“ میں خدا پرستوں کے دلائل سے ناواقفیت  کے سبب صراحت کے ساتھ لکھتا ھے :

” میں ایک زمانے میں خدا پرست تھا اور اس کی بھترین دلیل ” علة العلل“ جانتا تھا لیکن بعد میں اس عقیدہ سے پھر گیا ۔ کیونکہ میں نے سوچا اگر ھر چیز کےلئے ایک علت اور خالق کی ضرورت ھے تو خدا کےلئے بھی ایک خالق ھونا چاھئے “ (106)

          کیا عقل ھمیں اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ ” رسل“ کی شخصیت کو خدا کے بارے میں اس کے فاسد  فلسفی نظریہ__جبکہ کائنات کے تمام ذرات خدا کے وجود کی گواھی دیتے ھیں__ کے  صحیح ھونے کی بنیاد قرار دیں ؟ واضح ھے کہ ھمیں اپنے فیصلوں میں افراد کی علمی و سیاسی شخصیت سے متاٴثر نھیں ھونا چاھئے اور ان کے افکار و اعتقادا اور قول و فعل کو ھر طرح کے حب و بغض سے اوپر اٹھ کر صرف عقل و منطق کے معیار پر تولنا چاھئے۔

          یھاں مناسب ھے کہ ھم اس موضوع کے بارے میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے پائیدار اور مستحکم نظریہ کی طرف بھی اشارہ کردیں۔

          جنگِ جمل میں کچھ لوگ حضرت علی(ع)کے طرفدار اور کچھ لوگ طلحہ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ کے طرفدار تھے ۔ اس حالت میں دو دلی کا شکار ایک آدمی جو حضرت علی(ع)کی عظیم شخصیت سے بھی آگاہ تھا، آگے بڑھا اور بولا :

          کیسے ممکن ھے کہ یہ لوگ باطل پر ھوں ، جبکہ ان کے درمیان طلحہ ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ جیسی شخصیتیں موجود ھیں ، کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ان افراد نے باطل کا راستہ اختیار کیا ھوگا ؟!

          امیر المؤمنین(ع)نے اس کے جواب میں ایک ایسی بات بیان فرمائی کہ مصر کا مشھور دانشور ڈاکٹر طہٓ حسین اس کے بارے میں کھتا ھے :

” وحی کا سلسلہ بند ھونے کے بعد انسان کے کانوں نے اب تک ایسی با عظمت بات نھیں سنی ھے “

          امام(ع)نے فرمایا:

”انک لملبوس علیک، ان الحق و الباطل لا یعرفان باٴقدار الرجال ، اعرف الحق تعرف اھلہ ، اعرف الباطل تعرف اٴھلہ “

          یعنی ، تم نے حق و باطل کو پھچاننے کے معیار میں غلطی کی ھے ۔ حق و باطل ھرگز افراد کے ذریعہ نھیں پھچانے جاتے ، بلکہ پھلے حق کو پھچاننا چاھئے پھر اھل حق کو پھچانا جاسکتا ھے ، پھلے باطل کو پھچاننا چاھئے پھر اھل باطل کی تمیز دی جاسکتی ھے ۔

          امیر المؤمنین کی یہ عظیم فرمائش __ کہ بقول ڈاکٹر طھٓ حسین ، وحی الٰھی کے بعد انسان کے کانوں نے ایسا کلام نھیں سنا ھے__ بعض سنی علماء کے اس اصول کو پوری طرح بے بنیاد ثابت کرتا ھے کہ پیغمبر اسلام  کے تمام اصحاب عادل ھیں ۔

          اب ھم یھاں پر قرآن مجید کی مذکورہ بالا دو آیتوں کے سلسلہ میں بحث کرتے ھیں۔

          اس میں کوئی شک نھیں کہ پھلی آیت اس امر کی حکایت کرتی ھے کہ خدائے تعالیٰ دو گروھوں سے راضی ھوا ھے اور اس نے اپنی بھشت کو ان کےلئے آمادہ کیا ھے ۔ یہ دو گروہ حسب ذیل ھیں :

1۔ مھاجریں و انصار کا ایک گروہ ، جنھوں نے ایمان اور اسلام لانے میں دوسرے لوگوں پر سبقت حاصل کی ھے اور نازک لمحات میں دین کی راہ میں قربانیاں دی ھیں ۔

2۔ وہ لوگ جنھوں نے شائستہ طورپر مھاجریں و انصار کی پیروی کی ھے ۔

قرآن مجید نے پھلے گروہ کے بارے میں ( السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ) اور دوسرے گروہ کے بارے میں (وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوھُمْ بِاِحْسان ) کی اصطلاح استعمال کی ھے ۔

          لیکن قابل غور امر یہ ھے کہ کیا ، جو چیز ان سے خدا کی خوشنودی و رضا مندی کا سبب بنی صرف ان کی اسلام اور پیغمبر  پر ایمان لانے میں سبقت تھی ، اور کیا اس خوشنودی و رضا مندی کی بقاء و دوام بلا قید و شرط ھے ؟

          واضح تر الفاظ میں : کیا اگر یہ افراد بعد والے زمانوں میں فکری یا اختلافی انحراف کا شکار ھوکر ظلم و جبر کے مرتکب ھوجائیں ، تو کیا پھر بھی وہ خدا کی رضا مندی اور خوشنودی کے حقدار ھوں گے اور قھر و غضب ان کے شامل حال نھیں ھوگا؟ یا یہ کہ اسلام لانے میں ان کی سبقت کےلئے خدا کی رضا مندی اور خوشنودی کا باقی رھنا اس امر پر مشروط ھے کہ ان کا ایمان و عمل صالح ان کی زندگی کے تمام ادوار میں باقی رھے ، اور اگر ان دو شرائط ،،میں ان کی زندگی میں کبھی خلل پیدا ھوجائے تو ان کی اسلام میں سبقت اور مھاجر و انصار کے عنوان کا کوئی فائدہ نھیں ھوگا؟

          قرآن مجید کی دیگر آیات کی تحقیق سے قطعی طور پر دوسرے نظریہ کی تائید ھوتی ھے کہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں کےلئے کامیابی اور خوشنودی کی بقا اسی شرط پر ھے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں ایمان اور عمل صالح پر قائم و دائم رھیں ۔ ملاحظہ ھوں اس قسم کی چند آیات کے نمونے :

          قرآن مجید سورہ حشر (107) میں مھاجرین کی ایک جماعت کی اس بات پر ستائش کرتا ھے کہ انھوں نے اپنا سب مال و منال چھوڑ کر مدینہ ھجرت کی تھی ، اس کے بعد ان کی ستائش کا سبب مندرجہ ذیل عبارتوں میں بیان فرمایا ھے ۔

          (یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَاناً وَ یَنْصُرُونَ اللهَ وَ رَسُولَہ)

وہ لوگ ھمیشہ خدا کے فضل و کرم اور اس کی مرضی کے طلبگار رھتے ھیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ھیں ۔

          یہ آیہ شریفہ اس بات کی حکایت کرتی ھے کہ انسان کی نجات کےلئے ھجرت کرنا گھر بار اور مال و منال کو چھوڑنا ھی کافی نھیں ھے بلکہ خدا کی خوشنودی کے اسباب فراھم کرنے کی مسلسل کوشش کرنا اور اپنے نیک اعمال کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول  کی مدد کرنا بھی ضروری ھے ۔

          قرآن مجید فرماتا ھے : فرشتے ، جو عرش کے اطراف میں خدائے تعالیٰ کی تسبیح کرتے ھیں ، با ایمان افراد کےلئے اس طرح دعائے مغفرت کرتے ھیں :

( فَاغْفِر لِلَّذِین تٰابُو وَ اتَّبَعُوا سَبِیلَک)

” خدایا ! جو تیری طرف لوٹ آئے ھیں اور تیرے دین کی پیروی کرتے ھیں ، انھیں بخش دے “

          قرآن مجید اصحاب پیغمبر  میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ھے جو کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ھیں اور آپس میں مھربان ھیں ، رکوع و سجود بجالاتے ھیں ، خدا کے کرم و خوشنودی کے طالب ھیں اور ان کے چھروں پر سجدوں کی نشانیاں نمایاں ھیں  (108)

اس کے علاوہ قرآن عفو و بخشش اور عظیم اجر کا حقدار ان اصحاب رسول  کو جانتا ھے جو  خدا پر ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیتے ھیں (109)

          مذکورہ آیات او ران کے علاوہ دیگر آیات اس بات کی گواہ ھیں کہ مھاجرین و انصاریا سابقین و تابعین کے عنوان ، سعادت مند و نجات یافتہ ھونے کے لئے کافی شرط نھیں ھیں بلکہ اس فضیلت کے ضمن میں دیگر فضائل ، جیسے نیک اعمال کی انجام دھی اور بُرے کاموں سے پرھیز کی شرط بھی ضروری ھے ، ورنہ یہ لوگ درج ذیل آیات کے زمرے میں شامل ھوں گے :

          1۔ (فَإِنَّ اللهَ لاَ یَرْضیٰ عَنِ  القَوْمِ الفَاسِقٖینَ)

خدائے تعالیٰ فاسقوں کے گروہ سے راضی نھیں ھوتا ۔(110)

          2۔ (وَ اللهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمینَ )

          خدائے تعالیٰ ظالموں کو دوست نھیں رکھتا ۔(111)

          پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایمان کے بلند ترین مقام پرفائز اور فضیلت و اخلاق کا نمونہ تھے ، لیکن پھر بھی خدائے تعالیٰ واضح الفاظ میں آپ(ع)کو خبردار کرتے ھوئے فرماتا ھے :

          (لِئِنْ اٴَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُونَنَّ مِنَ الخَاسِرِینَ)  (112)

اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد ھو جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ھوگا “

          بیشک پیغمبر اکرم  کا قوی ایمان اور آپ  کی عصمت ایک لمحہ کےلئے بھی آپ  کو شرک کی طرف مائل نھیں کرسکتی ، لیکن یھاں پر قرآن مجید آپ سے مخاطب ھوکر در حقیقت دوسروں کو خبردار کرتا ھے کہ چند نیک اعمال کے دھوکے میں نہ رھیں بلکہ کوشش کریں کہ زندگی کی آخری سانس تک اسی نیک حالت پر باقی رھیں ۔

          اس بنا پر ھمیں ھرگز یہ تصور نھیں کرنا چاھئے کہ پیغمبر کا صحابی ھونا اور سابقین و تابعین کے زمرے میں شمار ھونا کسی کو ایسا تحفظ بخش دے گا کہ اگر وہ بعد میں کوئی غلط قدم بھی اٹھائے ، پھر بھی خدا کی خوشنودی کا مستحق قرار پائے گا۔

          ان ھی مھاجرین اور انصار یا سابقین و تابعین میں سے بعض افراد خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ھی مرتد ھوگئے تھے اور پیغمبر خدا کی جانب سے انھیں سخت ترین سزا کا حکم سنا دیا گیا ، اس وقت کسی نے بھی اعتراض نھیں کیا کہ : اے پیغمبر  ! خدا وند کریم ان سے راضی ھوگیا ھے ، آپ  انھیں کیوں یہ سخت سزا سنارھے ھیں ؟

اس سیاہ فھرست  کے چند نمونے ملاحظہ ھوں:

          1۔ عبد الله بن سعد بن ابی سرح : وہ مھاجرین میں سے تھا اور کاتب وحی تھا اس کے بعد مرتد ھوگیا اور اس نے کھا:

(سَاٴُنْزِلُ مِثْلَ مٰا اَنْزَ لَ اللهُ ) (113)

میں بھی خدا کی طرح کی باتیں نازل کرسکتا ھوں!

          فتح مکہ میں پیغمبر اسلام  نے چند افراد کے قتل کا حکم دیدیا اور فرمایا: جھاں کھیںوہ ملیں انھیں فوراًقتل کردیا جائے ، ان میں سے ایک یھی ” عبدالله“ تھا ، لیکن فتح مکہ کے بعد اس نے حضرت عثمان کے وھاں پناہ لے لی ، کیونکہ وہ حضرت عثمان کا رضاعی بھائی تھا  حضرت عثمان کی سفارش اور اصرار کے سبب پیغمبرا کرم  نے اسے چھوڑدیا ۔

          پیغمبر  اس شخص سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ اس کو معاف کرنے کے بعد آنحضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا : جب تم لوگوں نے دیکھا کہ میں اسے معاف کرنے سے انکار کررھا ھوں اس وقت تم لوگوں نے اسے قتل کیو ں نھیں کرڈالا؟ (114)

          2۔ عبید اللہ بن جحش : وہ اسلام کے سابقین اور مھاجرین حبشہ میں سے تھا ، لیکن حبشہ ھجرت کرنے کے بعد اسلام چھوڑ کراس نے عیسائی دین قبول کر لیا ۔

          3۔ حکم بن عاص : وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام  نے چند وجوھات کی بنا پر اسے طائف جلا وطن کردیا۔

          4۔ حرقوص بن زھیر : اس نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی ، لیکن غنائم کی تقسیم پر اس نے پیغمبر اسلام  سے تند کلامی کی اس پر رحمة للعالمین پیغمبر  برھم ھوگئے اور فرمایا: وائے ھو تم پر ، اگر میں انصاف و عدالت کی رعایت نہ کروں گا تو کون انصاف کرے گا ؟! اس کے بعد اس کے خطر ناک مستقبل کے بارے میںفرمایا : حرقوص ایک ایسے گروہ کا سردار بنے گا جو دین اسلام سے اسی طرح دور ھوجائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل کر دور جاتا ھے“ (115)

          پیغمبر اسلام  کی یہ پیشین گوئی آپ کی رحلت کے سالھا بعد حقیقت ثابت ھوئی ۔ یہ شخص خوارج کا سردار بنا اور جنگ نھروان میں حضرت علی(ع)کی تلوار سے قتل ھوا ۔

          یہ اس سیاہ فھرست کے چند نمونے تھے جس میں بھت سے اصحاب پیغمبر  (مھاجر و انصار ) موجود ھیں ۔ پیغمبر اسلام  کے صحابیوں کی تحقیق کے دوران ھمیں چند دوسرے افراد بھی نظر آتے ھیں : جیسے :حاطب بن ابی بلتعہ ، جو اسلام کے خلاف جاسوسی کرتا تھا یا ولید بن عقبہ ، جسے قرآن مجید نے سورہ حجرات   (116)  میں فاسق کھا ھے یا خالد بن ولید ، جس کا نامہ اعمال اس کے کالے کرتوتوں سے بھرا پڑا ھے (117)

          کیا صحابیوں میں ایسے افراد کی موجودگی کے باوجود بھی یہ کھا جاسکتا ھے کہ خدائے تعالیٰ  سابقین اور تابعین سے راضی ھوچکا ھے اب کسی کو بھی ان کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کا حق نھیں ھے ؟!

          مختصر یہ کہ خداکی رضا و خوشنودی ، ان کے عمل سے مربوط ھے ، یعنی خدائے تعالیٰ ان افرادسے راضی و خوشنود ھوا ھے ، جنھوں نے غربت کے زمانے میں اسلام اور رسول خدا  کی حمایت و مدد کی ھے  لیکن اس قسم کی خوشنودی کا اظھار اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ ان کی یہ خوشنودی ان افراد کی زندگی کی آخری سانس تک باقی رھے گی ۔ بلکہ اس کی بقا کی شرط یہ ھے کہ ان کا ایمان اسی حال میں باقی رھے اور وہ ایسا کوئی کام انجام نہ دیں جو ان کے کفر ، ارتداد ، فسق اور اعمال صالح کے برباد ھوجانے کا سبب بنے۔

          دوسرے الفاظ میں ، مھاجر ین وانصار کا ایمان و اخلاص ، بھی دوسرے نیک اعمال کی طرح اس پر مشروط ھے کہ بعد میں کوئی ایسا کام انجام نہ دیں جو ان کے اس عمل کو بے اثر بنا کردے ورنہ ان کا یہ نیک عمل باقی نہ رھے گا ۔ علماء کی اصطلاح میں جس پاداش کا اس آیت میں ذکر ھوا ھے ( رضا مندی و بھشت) یہ ایک ” نسبی “ پاداش ھے ۔ یعنی وہ اس لحاظ سے ایسی پاداش کے حقدار ھیں لیکن اس سے بھی انکار نھیں ھے کہ اگر یھی لوگ بعد میں خدا کی نافرمانی کے کام انجام دیں گے تو غضب الھی اور جھنم کے مستحق ھوجائیں گے ۔ اس قسم کی آیات کا ھرگز یہ مطلب نھیں ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سابق صحابیوں کو تحفظ بخش دیں چونکہ خداوند تعالیٰ ان سے خوشنود ھوگیا ھے ، لھٰذا وہ جو چاھیںا نجام دیں یا ان میں سے اگر کوئی کسی غیر شرعی کام کا مرتکب ھوگیا ھو تو ھم اس آیت کے حکم کی تاویل و تحریف پر مجبور ھوں کیونکہ اس آیت نے ان کے سلسلے میں قطعی حکم صادر کردیا ھے !

          نھیں ایسی ضمانت انبیاء اور اولیاء میں بھی کسی کو نھیں ملی ھے حتی خود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ایسی ضمانت نھیں ملی ھے ۔

          قرآن مجید حضرت ابراھیم (ع)اور ان کے فرزند وں جیسے اسحاق (ع)، یعقوب (ع)، موسی (ع)و ھارون (ع)وغیرہ کے بارے میں فرماتا ھے :

 ( وَ لَو اٴَشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْھم مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )  (118)

اگر یہ لوگ شرک اختیار کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ھوجاتے “

Add comment


Security code
Refresh