www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سترھویں فصل

حضرت علی(ع)کی پیشوائی کے نقلی دلائل

          گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت ھو اکہ خد ا کی طرف سے امام کا تعین دنیاوی” مطلق العنان “ نظام سے بالکل مختلف ھے ، لوگوں میں قوانین الٰھی کی روشنی میں حکم کرنے اور انصاف  قائم کرنے کےلئے جو حاکم خدا کی طرف سے معین ھوتا ھے ، اس کی حکومت روئے زمین پر قابل تصور حکومتوں میں سب سے زیادہ عادل اور مستحکم حکومت ھے ۔

          اس قسم کی حکومت میں ، حاکم و فرماں روا خدا کی طرف سے منتخب ھوتا ھے ۔ خدا بھی اپنے حکیمانہ ارادہ سے ھمیشہ بھترین وشائستہ ترین فرد کو رھبر کے عنوان سے منتخب کرتا ھے اور خدا کے علم و تشخیص میں کسی بھی قسم کی غلطی و خطا یا غیر منطقی میلان کا امکان نھیں پایا جاتا ۔

          خدائے تعالیٰ انسان کے بارے میں مکمل آگاھی رکھتا ھے اور اپنے بندوں کے بارے میں ان کی مصلحتوں اور ضرورتوں سے ان سے زیادہ واقف ھے ۔ جس طرح خدا کے قوانین اور احکام بھترین اور عالی ترین قوانین و احکام ھیں اور کوئی بھی قانون خدا کے قانون کے برابر نھیں ھے ، اسی طرح خدا کی طرف سے معین شدہ پیشوا اور رھبر بھی بھترین پیشوا اور شائستہ ترین و رھبر ھوگا ایک ایسا قائد و فرمان روا جس کی زندگی دسیوں سھو و خطا اور نفسانی خواھشات سے آلودہ ھو وہ خدا کی طرف سے منتخب شدہ رھبر وقائد کا ھم پلہ ھرگز نھیں ھوسکتا ھے۔

          گزشتہ بحثوں میں یہ بھی ثابت ھوا کہ اسلامی معاشرہ ھمیشہ ایک ایسے معصوم امام کا محتاج ھے جو الٰھی قوانین اور احکام سے آگاہ ھوتا ھے،کہ امت کےلئے فکری اور علمی پناہ گاہ بن سکے ۔

          اصولی طور پر اسلامی معاشرہ فکری اور علمی لحاظ سے ارتقا ء کی اس حد تک نھیں پھنچا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اپنا نظم و نسق خود سنبھال سکے اور اس قسم کے ایک الٰھی رھبر سے بے نیا ھوجائے۔

          اب ھم غور کریں اور دیکھیں کہ ان تمام حالات کے تناظر میں پیغمبر الٰھی نے اسلامی امت کی قیادت کےلئے کس کو معین فرمایا تھا اور اس مسئلہ کو ھمیشہ کےلئے حل کردیا تھا ۔

          یھاں پر ھم ایسے نقلی دلائل کا سھارا لیتے ھیں وہ دلائل جو قطعی طور سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صادر ھوئے اور اصطلاحاً متواتر ھیں اور ان میں جھوٹ اور جعل سازی کا ھرگز امکان نھیں ھے ۔ اس کے علاوہ ایسی روایتوں کا مفاد یہ ھے کہ ان ، کی دلالت کسی خاص فرد یا افراد کی امامت و پیشوائی کے بارے میں اتنی واضح اور روشن ھو کہ ھر قسم، کے شک و شبھہ کو دلوں سے نکال دے اور کسی بھی انصاف پسند انسان کےلئے سوال اور تذبذب کی گنجائش باقی نہ رھے۔

          لھذا ھم یھاں پر چند ایسے نقلی دلائل کی طرف اشارہ کریں گے جن کی روایت پیغمبرا کرم  سے قطعی اور مقصود کے بارے میں ان کی دلالت بھی واضح ھے۔ کتاب کے صفحات اور قارئین کرام کے وقت کی کمی کے پیش نظر ھم یھاں لوگوں پر امیر المؤمنین(ع)کی پیشوائی و ولایت کے سلسلے میں نقل ھوئے دلائل کی ایک بڑی تعداد میں سے حسب ذیل کا انتخاب کرتے ھیں :

 

1۔ حدیث منزلت

          شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ھونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررھی ھے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بھتر ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ھوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ھزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ھوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔

          چند مخبروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ مدینہ کے منافق منصوبہ بندی کررھے ھیں کہ آپ   کی عدم موجودگی میں مدینہ میں بغاوت کرکے خون کی ھولی کھیلیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھر قسم کے حادثہ کی روک تھام کے لئے  حضرت علی(ع)کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انھیں حکم دیا کہ آپ  مدینہ میں ھی رھیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔

          جب منافقین حضرت علی علیہ السلام کے مدینہ میں رھنے کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو انھیں اپنی سازشیں ناکام ھوتی نظر آئیں ۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے وہ چاھتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی علیہ السلام  مدینہ سے باھر چلے جائیں ۔ لھذا انھوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ حضرت علی(ع)اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان رنجش پیدا ھوگئی ھے اسی لئے پیغمبر  نے علی(ع)کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے کہ انھیں اس اسلامی جھاد میں شرکت کرنے کی اجازت نھیں دی!

           مدینہ میں حضرت علی(ع)کے بارے میں __جو روز پیدائش سے ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مھر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے__اس قسم کی افواہ کا پھیلنا ، حضرت علی(ع)اور آپ(ع)کے دوستوں کےلئے شدید تکلیف کا سبب بنا ۔ لھذا حضرت علی(ع)اس افواہ کی تردید کےلئے مدینہ سے باھر نکلے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پھنچے ،جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے آپ (ع)نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ فرمایا۔ یھاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظھار کرتے ھوئے آپ  کے مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملہ میں بیان فرمایا:

” اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ ، الّا انہ لا نبیّ بعدی، انّہ لا ینبغی ان اذھب الّا و انت خلیفتی “

” یعنی کیا تم اس پر راضی نھیں ھو کہ تمھیں مجھ سے وھی نسبت ھے جیسی ھارون(ع)کو موسی(ع)سے تھی ، بس فرق  یہ ھے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا؟ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد تم ھی میرے جانشین اور خلیفہ ھوگے “

          یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ھے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ھے۔

          مرحوم محدث بحرانی نے کتاب ” غایة المرام“ میں ان افراد کا نام ذکر کیا ھے ، جنھوں نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ایک دقیق و صحیح تحقیق سے ثابت کیا ھے کہ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو 150  طریقوں سے نقل کیا ھے جن میں 100 طریقے اھل سنت علماء و محدثین تک منتھی ھوتے ھیں (119)

          مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی کتاب ” المراجعات “ میں اس حدیث کے اسناد کو اھل سنت محدثین کی کتابوں سے نقل کیا ھے اور ثابت کیاھے کہ یہ  حدیث ان کی دس حدیث اور رجال کی کتابوں میں نقل ھوئی ھے “(120)

          اس حدیث کے صحیح ھونے کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ اھل سنّت کے صحا ح لکھنے والوں ”بخاری“ اور ” مسلم “ نے بھی اسے اپنی صحاح میں ذکر کیا ھے (121) اس حدیث  کے محکم ھونے کے بارے میں یھی کافی ھے کہ امیر المؤمنین کے دشمن ” سعد و وقاص “ نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کی تین نمایاں فضیلتوں میں سے ایک فضیلت شمار کیا ھے ۔

          جب معاویہ اپنے بیٹے ” یزید“  کے حق میں بیعت لینے کےلئے مکہ میں داخل ھوا ، اور ” الندوة“ کے مقام پر ایک انجمن تشکیل دی جس میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے بعض شخصیتیں جمع ھوئیں۔ معاویہ نے اپنی تقریر کا آغاز ھی حضرت علی(ع)کو بر ابھلا کھنے سے کیا، اسے امید تھی ، کہ ” سعد و وقاص“ بھی اس کی ھاں میں ھاں  ملائے گا ۔ لیکن سعد نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کھا: جب بھی مجھے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین درخشان کارنامے یاد آتے ھیں تو صدق  دل سے کھتا ھوں کہ کاش ! ان تین فضیلتوں کا مالک میں ھوتا! اور یہ تین فضیلتیں حسب ذیل  ھیں :

          1۔ جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے کھا:

” تمھیں مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھاون کو موسیٰ(ع)سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا“

          2۔ (پیغمبر اکرم  نے ) جنگ خیبر کے دوران ایک دن فرمایا:

” کل میں علم ایسے شخص کے ھاتہ میں دوںگا جسے خدا و رسول  دوست رکھتے ھیں اور وہ فاتح خیبر ھے ۔ فرار کرنے والا نھیں ھے“ ( اس کے بعد آنحضرت نے علم علی(ع)کے ھاتہ میں دیدیا )۔

          3۔ ” نجران“ کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ کے دن پیغمبر اکرم  نے علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع)، و حسین(ع)کو اپنے گرد جمع کیا اور فرمایا:

          ”پروردگارا ! یہ میرے اھل بیت(ع)ھیں “ (122)

          لھذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کرنا چاھئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑہ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاھئے ۔

          پھلے مرحلہ میں جملہ ” الاّ انہ لا نبی بعدی“  قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے ” جملہ استثنائی “ کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں ۔

          اس حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ذات سے حضرت علی علیہ السلام کی نسبت کو حضرت ھارون (ع)کو ، حضرت موسی(ع)سے نسبت کے مانند بیان فرمایا ھے، اور صرف ایک منصب کو استثناء قرار دیا ھے ، وہ یہ ھے کہ حضرت ھارون(ع)پیغمبر تھے لیکن  پیغمبر اسلام  چونکہ خاتم النبیین ھیں لھذا آپ (ع)کے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا ۔ اور علی(ع)پیغمبری کے مقام پر فائز نھیں ھوں گے۔

          اب دیکھنا یہ ھے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق حضرت ھارون(ع)کے پاس وہ کون سے منصب تھے کہ حضرت علی(ع)( بجز نبوت کے کہ خود پیغمبر نے اس حدیث کے ضمن میں اسے استثناء قرار دیا ھے ) ان کے مالک تھے ۔

          قرآن مجید کے مطالعہ سے ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ حضرت موسیٰ نے خدائے تعالی سے حضرت ھارون کےلئے درج ذیل منصب چاھے تھے اور خد ا نے حضرت موسی(ع) کی درخواست منظور فرما کر وہ تمام منصب حضرت ھارون(ع)کو عطا فرمائے تھے:

          1۔ وزارت کا عھدہ :  حضرت موسیٰ بن عمران(ع) نے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضرت ھارون(ع)کو ان کا وزیر قراردے :

(وَاجْعَلْ لِی وَزِیراً مِنْ اٴَھْلِی ، ھَا-ٰرُون  اٴَخِی) 

” پروردگارا! میرے اھل بیت میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر قرار دیدے “ (123)

          2۔ تقویت و تائید: حضرت موسیٰ (ع)نے خدا سے درخواست کی کہ ان کے بھائی حضرت ھارون(ع)کے ذریعہ ان کی تائید و تقویت فرمائے :

(اُشْدُدْ بِہ اٴَزْرِی )

اس سے میری پشت کو مضبوط کردے  (124)

          3۔ رسالت کا عھدہ : حضرت موسی (ع)بن عمران نے خدائے تعالی سے درخواست کی کہ حضرت ھارون(ع)کو امر رسالت میں ان کا شریک قرار دے :

          ( وَ اَشْرِکہ فِی اٴَمْرِی ) (125)

           اسے امر رسالت میں میرا شریک قرار دیدے ۔

قرآن مجید اشارہ فرماتا ھے کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت موسی(ع) کی تمام درخواستوں کا مثبت جواب دیکر یہ تمام عھدے حضرت ھارون (ع)کو عطا کئے :

          ( قَدْ اُوتِیتَ رسُوْلَکَ یَٰمُوسَیٰ ) (126)

یعنی اے موسی (ع)! بیشک تمھارے تمام مطالبات تمھیں عطا کردیے گئے اس کے علاوہ حضرت موسیٰ (ع)نے اپنی غیبت  کے دوران بنی اسرائیل میں حضرت ھارون(ع)کو اپنا جانشین مقرر کرتے ھوئے فرمایا:

(وَ قَالَ مُوسیٰ لِاٴَخِیہ ھَٰرُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی )

یعنی ، موسی نے ھارون سے کھا: تم قوم میں میرے خلیفہ و جانشین ھو۔ (127)

          مذکورہ آیات کا مطالعہ کرنے پر ھارون(ع)کے منصب اور عھدے بخوبی معلوم ھوتے ھیں اور حدیث منزلت کی رو  سے مقام نبوت کے علاوہ یہ سب منصب اور عھدے حضرت علی علیہ السلام کےلئے ثابت ھونے چاھئیں۔

          اس صورت میں حضرت علی(ع)، امام ، وزیر ،ناصر و مدد گاراور رسول  خدا(ع)کے خلیفہ تھے اورپیغمبر کی عدم موجودگی میں لوگوں کی رھبری و قیادت کے عھدہ دار تھے۔

 

ایک سوال کا جواب :

          ممکن ھے یہ کھا جائے کہ حضرت علی علیہ السلام کےلئے پیغمبر اکرم  کی جانشینی انھیں ایام سے مخصوص تھی جب آپ  مدینہ سے باھر تشریف لے گئے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ حضرت علی(ع)پیغمبر اسلام  کی رحلت کے بعد آپ  کے مطلق خلیفہ اور جانشین تھے۔

          لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا ایک سرسری مطالعہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ھوجاتا ھے۔

ایک : حضرت علی علیہ السلام پھلے اور آخری شخص نھیں تھے۔ جنھیں پیغمبر اکرم  نے اپنی عدم موجودگی میں مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا ھو ۔ بلکہ پیغمبر اکرم  مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران ، جب کبھی مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے تھے تو کسی نہ کسی شخص کو اپنی جگہ پر جانشین  مقرر کرکے ذمہ داریاں اسے سونپتے تھے اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جملہ کے ذریعہ امام(ع)کو ھارون سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف آپ(ع)کے مدینہ میں عدم موجودگی کے دوران امام(ع)کی جانشینی تھا ، تو پیغمبر اسلام  نے یہ جملہ اپنے دیگر جانشینوں کےلئے کیوں نھیں فرمایا ، جبکہ وہ لوگ بھی جب پیغمبر  جھاد یا حج خانہ خدا کےلئے مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے ، آپ کے جانشین ھوا کرتے تھے ؟پھر اس فرق کا سبب کیا تھا؟

          دو: ایک مختصر مدت کےلئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی صورت میں پیغمبر  کو اس طرح تفصیلی جملہ بیان کرکے منصب رسالت کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کی ضرورت ھی نھیں تھی!

          اس کے علاوہ اس قسم کی جا نشینی کسی خاص فخر کا سبب نہ ھوتی اور اگر فرض کرلیں کہ یہ ایک اعزاز تھا تو اس صورت میں یہ چیز حضرت علی(ع)کے خاص فضائل میں شمار نھیں ھوتی کہ برسوں کے بعد سعد و قاص  اس فضیلت کو سیکڑوں سرخ اونٹوں کے عوض خریدنے کی تمنا کرتا ! اور خو د حضرت علی(ع)کے انتھائی اھم فضائل ( فاتح خیبر اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ میں نفس پیغمبر  اور آپ کے اھل بیت(ع))کے مقام تک پھنچنے کی آرزو کرتا !!

          تین : اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف جنگ تبوک کےلئے جانے کے موقع پر اس تاریخی جملہ کو بیان فرمایا ھوتا تو کسی کے ذھن میں ایسا سوال  پیدا ھونا بجا تھا ۔ لیکن پیغمبر اسلام  نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ اھم جملہ دیگر مواقع پر بھی فرمایا ھے اورتاریخ اور حدیث کے صفحات میں یہ واقعات ثبت و ضبط ھوچکے ھیں ۔ ھم یھاں پر اس کے صرف دو نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں  (وَجَعَلْنَا مَعَہ اَخَاہ ھَٰرُونَ وَزِیراً )

          ھم نے موسی کے بھائی ھارون کو ان کا ویزر قرار دیا“(128)

          1۔ ایک دن حضرت ابو بکر ، عمر اور ابو عبیدة بن جراح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت علی علیہ السلام کے شانہ پر رکہ کر فرمایا:

” یا علی انت اول المؤمنین ایماناً و اوّلھم اسلاماً ، و انت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ “ (129)

” اے علی ! تم وہ پھلے شخص ھو جو مجھ پر ایمان لائے اور دین اسلام کو قبول کیا اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی“

          2۔ ھجرت کے ابتدائی ایام میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار کو جمع کیا اور انھیں آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنایا صرف حضرت علی علیہ السلام کو کسی کا بھائی قرار نہ دیا۔ حضرت علی(ع)کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، آپ(ع)نے پیغمبر  سے عرض کی: یا رسول اللہ ! کیا مجھ سے کوئی غلطی سرزد ھوئی ھے کہ آپ  نے ھر فرد کےلئے ایک بھائی معین فرمایا، اور میرے لئے  کسی کا انتخاب نھیں کیا؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یھاں پر صحابیوں کے مجمع میں اپنا وھی تاریخی جملہ دھرایا:

          ” وَ الَّذی بعثنی بالحق ما اخرتک الا لنفسی و انت منی بمنزلة ھارون من موسی غیر انہ لا نبیّ بعدی  و انت اخی و وارثی “ (130)

          ” قسم اس خدا کی جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ھے ، میں نے تمھیں صرف اپنا بھائی بنانے بنانے کیلئے یہ تاخیر کی ھے ، اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون (ع)کو موسی(ع)سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر  نھیں ھوگا ، تم میرے بھائی اور میرے وارث ھو“(131)

          حضرت علی(ع)ان تمام عھدوں اور منصبوں کے مالک تھے جو حضرت ھارون (ع)کو ملے تھے  اس بات کی ایک اور دلیل یہ ھے کہ پیغمبر اسلام  خدا کے حکم سے مختلف طریقوں سے کوشش فرماتے تھے کہ لوگ اس سے آگاہ ھوجائیں کہ حضرت علی(ع)کی حیثیت آپ  کی نسبت وھی ھے جو ھارون (ع)کی موسی (ع)کی بنسبت تھی اور نبوت کے علاوہ اس میں کسی اور قسم کی کمی نھیں ھے۔

          لھذا جب حضرت زھرا  علیھا السلام سے حضرت علی علیہ السلام کے دو بیٹے پیدا ھوئے ، تو پیغمبر  نے علی(ع)کو حکم دیا کہ ان کے نام ” حسن  (ع)و حسین  (ع)“ رکھیں جیسا کہ ھارون(ع)کے بیٹوں کے نام ” شبر وشبیر “ تھے کہ عربی زبان میں  ان کا مطلب حسن و حسین ھوتا ھے ۔

          ان دو جانشینوں (یعنی حضرت علی (ع)اور حضرت ھارون (ع))کے بارے میں تحقیق و جستجو سے چند دیگر مشابھتوں کا سراغ بھی ملتا ھے ھم یھاں پر ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ھیں ، مرحوم شرف الدین نے کتاب ” المراجعات “ میں اس سلسلے میں مفصل بحث کی ھے۔ (132)

Add comment


Security code
Refresh