www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اٹھارھویں فصل

حدیث غدیر (پھلا حصہ)

          اسلام کی عالمی تحریک ، ابتداء سے ھی قریش بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے عام بت پرستوں کی طرف سے جنگ اور مخالفتوں سے روبرو ھوئی ۔ جو گوناگوں سازشوں کے ذریعہ اس شمع الٰھی کو بجھانے کے در پے تھے ، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی خاص کا میابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کی آخری خیالی امید یہ تھی کہ اس عظیم تحریک کے پائے اس کے پیشوا اور بانی کی وفات کے بعد اس طرح ڈھہ جائیں گے جس طرح پیغمبر  سے پھلے بعض لوگوں کی یکتا پرستی کی دعوت (133)  ان کی وفات کے  بعد خاموش ھوگئی۔

          قرآن مجید جس نے اپنی بھت سی آیات میں ان کی سازشوں اور منصوبوں سے پردہ اٹھایا تھا اس دفعہ بت پرستوں کی آخری خیالی امید یعنی وفات پیغمبر  کے بارے میں درج ذیل آیت میں اشارہ فرماتا ھے :

(اٴَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ  نَّتَرَبَّصُ بِہ رَیْبَ الْمَنُونِ { قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِینَ{ اٴَمْ تَاٴْمُرُھُمْ اٴَحْلَامُھُمْ بِھَذَا اٴَمْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ) (134)

” یا یہ لوگ یہ کھتے ھیں کہ پیغمبر شاعر ھے اور ھم اس کی موت کا انتطار کررھے ھیں ۔ تو آپ کھہ دیجئے کہ بیشک تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ھوں! کیاان کی خام عقلیںانھیں اس بات پر آمادہ کرتی ھیںیا وہ واقعاً سرکش قوم ھیں “

          مناسب ھے کہ یھا ںپر بت پرستوں کی طرف سے رسالتماب  کے ساتھ چھیڑی گئی بعض خائنانہ جنگوں اور روڈے اٹکانے کی منحوس حرکتوں کی ایک فھرست بیان کی جائے اور اس کے بعد دیکھا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے ان کی آخری امیدوں کو کیسے ناکام بنایا اور آغوش پیغمبر  میں حضرت علی(ع)جیسے لائق و شائستہ شخص کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کی حیثیت سے منتخب کرکے ان کی سازشوں کو خاک میں ملادیا ۔

 

1۔ تھمت کا حربہ

          کفار مکہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  پر شاعر ، کاھن ، دیوانہ اور جادوگر ھونے کی تھمتیں لگا کر یہ کوشش کی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   کے ارشادات کے اثرات کم کریں ، لیکن سماج کے مختلف طبقوں میں اسلام کی نمایاں ترقی نے ثابت کردیا کہ آپ کی مقدس ذات ان تھمتوں سے بالاتر تھی ۔

 

2۔ آپ کے پیروؤں کو آزار پھچانا

          کفار مکہ کا ایک اور منصوبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیرؤوں کو آزار پھنچانا اور انھیں جسمانی اذیتیں دینا اور قتل کرنا تھا تاکہ آپ  کے ارشادات و ھدایت کے وسیع اثرات کو روک سکیں ۔ لیکن پیغمبر  کے حامیوں کی ھر ظلم و جبر اور اذیت و آزار کے مقابلے میں استقامت و پامردی نے قریش کے سرداروں کو اپنے منحوس مقاصد تک پھنچنے میں ناکام بنادیا ۔ آنحضرت کے حامیوں کی آپ کے تئیں والھانہ عقیدت و اخلاص نے دشمنوں کو حیرت زدہ کردیا ، حتی ابو سفیان کھتا تھا، ” میں نے قیصر وکسریٰ کو دیکھا ھے لیکن ان میں سے کسی کو اپنے پیرؤوں کے درمیان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا با عظمت نھیں دیکھا جن کے پیرؤوں نے ان کے مقاصد کی  راہ میں اس قدر جاںبازی اور فداکاری کا ثبوت دیا ھے  (135)

 

3۔ عرب کے بڑے داستان گو کو دعوت

          قرآن مجید کے روحانی اور جذباتی اثرات سے کفار قریش حیرت زدہ تھے اور تصور کرتے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو سننے کےلئے لوگوں کا پروانہ وار دوڑنا اس سبب سے ھے کہ قرآن مجید میں گذشتہ اقوام کی داستانیں اورکھانیاں بیان ھوئی ھیں ۔ اس لئے کفار مکہ نے دنیائے عرب کے سب سے مشھور داستان گو ” نصر بن حارث “ کو دعوت دی کہ وہ خاص موقعوں پر مکہ کی گلی کوچوں میں ’ ایران “ اور ” عراق“ کے بادشاھوں کے قصے سنائے تا کہ اس طرح لوگوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف مائل ھونے سے روک سکیں ! یہ منصوبہ اس قدر احمقانہ تھا کہ خود قریش یہ داستانیں سننے سے تنگ آچکے تھے اور اس سے دور بھاگتے تھے۔

 

4۔ قرآن مجید سننے پر پابندی

          قریش کا ایک اور منحوس منصوبہ قرآن مجید سننے پر پابندی عائد کرنا تھا اس شمع الٰھی کے پروانوں کی استقامت سے ان کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔ قرآن مجید کی زبر دست شیرینی اور دلکشی نے مکہ کے لوگوں کو اس قدر فریفتہ بنا دیا تھا کہ وہ رات کے اندھیرے میں گھروں سے نکل کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کے اطراف میں چھپ جاتے تھے تا کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز شب اور تلاوت قرآن مجید کےلئے اٹھیں تو وہ قرآن کی تلاوت سن سکیں ۔ قریش کے کفار صرف لوگوں کو قرآن سننے سے ھی  منع نھیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کو پیغمبر سے ملنے جلنے سے منع کرتے تھے ۔ جب عرب کی بعض بزرگ شخصیتیں جیسے ، اعشی و طفیل بن عمر پیغمبر  سے ملنے کےلئے مکہ میں آئے تو قریش نے مختلف ذرایع سے ان کو پیغمبر  تک پھنچنے سے روک دیا (136)

 

5۔اقتصادی پابندی

          کفار قریش نے ایک دستور کے ذریعہ لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ کسی کو بنی ھاشم یا محمد  کے طرفداروں کے ساتھ لین دین کرنے کا حق نھیں ھے ۔ جس کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اپنے ساتھیوں اور اعزّہ کے ساتھ ” شعب ابی طالب  (ع)“ میں پورے تین سال تک انتھائی سخت اور قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ھوئے ۔ لیکن قریش کے بعض سرداروں کے اقدام اور بعض معجزات کے رونما ھونے کی وجہ سے یہ بائیکاٹ ختم ھوگیا۔

 

6۔ پیغمبر اکرم   کو قتل کرنے کی سازش

          قریش کے سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے قریش کے چالیس جوان رات کے اندھیرے میں پیغمبر  کے گھر پر حملہ آور ھوں اور آپ   کو آپ کے بسترہ پر ھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ۔ لیکن خداوند کریم (جو ھر وقت آپ کا حافظ و نگھبان تھا )نے پیغمبر  کو دشمنوں کی اس سازش سے آگاہ کردیا اور پیغمبر خدا  نے  خدا کے حکم سے حضرت علی(ع)کو اپنے بسترہ پر سلا کر خود مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت کی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی مدینہ کی طرف ھجرت اور اوس و خزرج جیسے قبیلوں کا اسلام کی طرف مائل ھونا اس کاباعث ھوا کہ مسلمانوں کو ایک امن کی جگہ مل گئی اور پراکندہ مسلمان ایک پر امن جگہ پر جمع ھوکر دین کا دفاع کرنے کے لائق ھوگئے۔

 

7۔ خونین جنگیں

          مسلمانوں کے مدینہ منورہ میں اکٹھا ھونے اور حکومت اسلامی کی تشکیل کو دیکھتے ھوئے جزیرہ نمائے عرب کے بت پرست خوفزدہ  ھوگئے اور اس دفعہ یہ فیصلہ کیا کہ ھدایت کی شمع فروزاں کو جنگ اور قتل و غارت کے ذریعہ ھمیشہ کےلئے بجھادیں ۔ اسی غرض سے کفار نے مسلمانوں سے بدر، احد ، خندق اور حنین کی خونین جنگیں لڑیں ۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے یہ جنگیں مسلمانوں کی فوجی طاقت میں اضافہ کا باعث بنیں اور انھوں نے بت پرستوں کو عرب میں ذلیل و خوار کرکے رکھدیا۔

 

8۔پیغمبر اسلام کی وفات

          دشمنوں نے اپنے ناپاک عزائم کے سلسلے میں آخری امید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رحلت سے باندھی تھی ۔ وہ سوچ  رھے تھے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی وفات کے ساتھ ھی اس تحریک کی بنیادیں اکھڑ جائیں گی  اور اسلام کا بلند پایہ محل زمین بوس ھوجائے گا ۔ اس مشکل کو دور کرنے اور اس سازش کو ناکام بنانے کےلئے دو راستے موجود تھے :

          1۔ امت اسلامیہ کی فکری و عقلی نشو و نما اس حد تک پھنچ جائے کہ مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی وفات کے بعد اسلام کی اس نئی تحریک کی عھد رسالت کے مانند ھدایت و رھبری کرسکیں اور اسے ھر قسم کے انحراف سے بچاتے ھوئے ” صراط مستقیم“ پر آگے بڑھائیں ۔

          پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رحلت کے بعد امت کی ھمہ جھت قیادت کی سخت ضرورت تھی کیونکہ ابھی جو بد قسمتی سے امت کے افراد میں سازگار حالات نھیں پائے جاتے تھے ۔ اس وقت یہ مناسب نھیں ھے کہ ان حالات کے ھونے یا نہ ھونے پر مفصل بحث کریں ، لیکن مختصر طور درج ذیل چند اھم نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے :

          الف) ایک ملت کی مختلف میدانوں میں ترقی اور بنیادی انقلاب کا پیدا ھونا چند روز یا چند سالوں میں ممکن نھیں ھوتا اور مختصر مدت میں ایسے مقاصد تک نھیں پھنچا جاسکتا ھے بلکہ انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے اور اسے لوگوں کے دلوں کی گھرائیوں میں اتارنے کیلئے ایسے ممتاز اور غیر معمولی فرد یا افراد کی ضرورت ھوتی ھے جو اس تحریک کے بانی کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور  سنبھال سکیں اور انتھائی ھوشیاری اور پیھم تبلیغ کے ذریعہ سماج کو ھر قسم کے غلط رجحانات سے بچا سکیں تا کہ پرانی نسل کی  جگہ ایک ایسی نئی نسل لے لے جو ابتدا ء سے ھی اسلامی آداب و اخلاق کے ماحول میں پلی ھو ۔ ورنہ دوسری صورت میں تحریک کے بانی کی وفات کے ساتھ ھی بھت سے لوگ اپنی پرانی روش کی طرف پلٹ جائیں گے ۔

          اس کے علاوہ تمام الٰھی تحریکوں میں اسلام ایسی خصوصیت کا حامل تھا جس میں اس تحریک  کے استحکام کےلئے ممتاز افراد کی اشد ضرورت تھی ۔ دین اسلام ایسے لوگوں کے درمیان وجود میں آیاتھا جو دنیا کی پسماندہ ترین قوم  شمار ھوتے تھے اور اس معاشرہ کے لوگ سماجی و اخلاقی قواعد و ضوابط کے لحاظ سے انتھائی محرومیت کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے مذھبی آداب و رسوم  کے طور پر وہ اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ھوئی  ( جو خرافات اور برائیوں سے بھری تھیں ) کے علاوہ کوئی اور چیز نھیں جانتے تھے ۔ حضرت موسی (ع)اور حضرت عیسی (ع)کے دین نے ان کی سرزمین پر کوئی اثر نھیں ڈالا تھا اور حجاز کے اکثر لوگ اس سے محروم تھے اور اس کے مقابلہ میں جاھلیت کے عقائد اور رسم و رواج ان کے دلوں میں راسخ ھوکر ان کی روح میں آمیختہ ھوچکے تھے۔

          ممکن ھے کہ ایسے معاشروں میں مذھبی اصلاح زیادہ مشکل نہ ھو لیکن اس کا تحفظ اور اس کی بقا، ایسے لوگوں میں جن کی روح میں منفی عوامل نفوذ کرچکے ھوں ، انتھائی مشکل کام ھوتا ھے اس کےلئے مسلسل ھوشیاری اور تدبیر کی ضرورت ھوتی ھے تا کہ ھر قسم کے انحرافات اور رجعت پسندی کو روکا جاسکے ۔

          ” احد“ اور ” حنین“ کے دل دوز حوادث کے مناظر ، جب گرما گرم جنگ کے دوران تحریک کے حامی رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میدان کارزار میں تنھا چھوڑ کر باگ کھڑے ھوئے تھے اس بات کے واضح گواہ ھیں کہ تحریک کے مؤمن افراد ، جو اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینے پر حاضر تھے ، بھت کم تھے اور معاشرے کے زیادہ تر لوگ فکری و عقلی رشد و بلوغ کے لحاظ سے اس مقام پر نھیں پھنچے تھے کہ پیغمبر اسلام  نظام کی باگ ڈور ان کے ھاتہ میں دیدیتے اور دشمن کی آخری امید یعنی پیغمبر  کی رحلت کے انتظار، کو ناکام بنادیتے ۔

          یہ وھی امت ھے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رحلت کے بعد اختلاف و تفرقہ کا مرکز بن گئی اور رفتہ رفتہ 72 فرقوں میں بٹ گئی۔

          جو باتیں ھم نے اوپر بیان کیں اس سے یہ واضح ھوجاتا ھے کہ پیغمبر  کی رحلت کے وقت فکری اور عقلی رشد کے لحاظ سے امت اسلامیہ اس حد تک نھیں پھنچی تھی کہ دشمنوں  کے منصوبے ناکام ھوجاتے اسلئے کسی دوسری چارہ جوئی کی ضرورت تھی کہ ھم ذیل میں اس کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

          2۔ تحریک کو استحکام بخشنے کےلئے آسان اور سادہ طریقہ یہ ھے کہ تحریک کے اصول و فروع پر ایمان و اعتقاد کے لحاظ سے پیغمبر  جیسا ایک لائق و شائستہ شخص تحریک کی قیادت و رھبری کےلئے خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے  انتخاب کیا جائے اور وہ قوی ایمان ، وسیع علم اور عصمت کے سائے میں انقلاب کی قیادت کو سنبھال کر اس کو استحکام اور تحفظ بخشے۔

          یہ وھی مطلب ھے جس کے صحیح اور مستحکم ھونے کا دعویٰ شیعہ مکتب فکر کرتا ھے ۔ اس سلسلے میں بھت سے تاریخی شواھد بھی موجود ھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے حجة الوداع سے واپسی کے دوران 18 ذی الحجة کو خدا کے حکم سے اس گتھی کو سلجھادیا اور خدا کی طرف سے اپنا جانشین اور ولی مقرر فرما کر اپنی رحلت کے بعد اسلام کو استحکام اور تحفظ بخشا۔اس کا واقعہ یوں ھے ، کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے  10 ہ ء میں حج بجالانے کےلئے مکہ کی طرف عزیمت فرمائی ، چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے حج کا یہ سفر آپ  کی زندگی کا آخری سفر تھا اس لئے یہ حجة الوداع کے نام سے مشھور ھوا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے ساتھ شوق سے یاا حکام حج کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھنے کےلئے جن لوگوں نے اس سفر میں آپ  کا ساتھ دیا ان کی تعداد کے بارے میں مؤرخین نے ایک لاکہ بیس ھزار کا تخمینہ لگایا ھے ۔

          حج کی تقریبات ختم ھوئیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم راھی مدینہ ھوئے جوق در جوق لوگ آپ  کو الوداع کررھے تھے لیکن مکہ میں آپ سے ملحق ھونے والوں کے علاوہ سب آپ  کے ھمسفر تھے ۔ کاروان ، جحفہ سے تین کلو میٹر کی دوری پر ” غدیر خم“ کے ایک صحرا میں پھنچا ، اچانک وحی الٰھی نازل ھوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو رکنے کا حکم ملا۔ پیغمبر  نے بھی حکم دیا کہ سب حجاج رک جائیں تا کہ پیچھے رھنے والے لوگ بھی پھنچ جائیں ۔

          پیغمبر کی طرف سے ایک تپتے ریگستان میںد وپھر کو تمازتِ آفتاب میں رکنے کے حکم پر لوگ تعجب میں تھے۔ اور سرگوشیاں کررھے تھے کہ ضرور خدا کی طرف سے کوئی خاص حکم پھنچا ھے اور اس کی اھمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ھے کہ خدا کی طرف سے پیغمبر  کو امر ھوا ھے کہ وہ ان نامساعد حالات میں لوگوں کو روک کر فرمان الٰھی پھنچائیں۔

          پیغمبر اکرم   کو یہ فرمان الٰھی درج ذیل آیہ شریفہ کے ذریعہ ملا ۔

( یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )  (137)

 ” اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا آپ خدا کی رسالت کو نھیں بجا لائے اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“

          اس آیہ شریفہ کے مضمون پر غور کرنے سے ھمیں مندرجہ ذیل نکات کی طرف ھدایت ملتی ھے :

          اولاً: جس حکم الھٰی کو پھنچانے کی ذمہ داری پیغمبر اسلام   کو ملی  تھی وہ اتنا اھم اور عظیم تھا کہ اگر پیغمبر اکرم  ( بفرض محال ) اسے پھنچانے سے ڈرتے اور نہ پھنچاتے تو گویا آپ  نے اپنی رسالت کا کام ھی انجام نھیں دیا ھوتا ، بلکہ -( آیندہ اس کی وضاحت کریں گے کہ ) اس ماٴموریت کو بجالانے سے ھی آپ(ع)کی رسالت مکمل ھوتی ھے ۔  

دوسرے الفاظ میں ( مَا اٴُنْزِلَ اِلَیْکَ ) ( جو آپ پر نازل کیا گیا ھے ) کا مقصود قرآن مجید کی تمام آیات اور احکام اسلامی نھیں ھوسکتے ھیں ،کیونکہ یہ بات بالکل واضح ھے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احکام الٰھی نہ پھنچاتے تو اپنی رسالت کو انجام ھی نہ دیا ھوتا اور اس قسم کے بدیھی امر کے بارے میںکچھ کھنے اور آیت نازل کرنے کی ضرورت ھی نھیںتھی ، بلکہ اس کا مقصد ایک خاص موضوع کو پھنچانا ھے کہ اس کا پھنچانا رسالت پھنچانے کے برابر شمار ھوتا ھے اور جب تک اسے نہ پھنچا یا جائے ، رسالت کی عظیم ذمہ داری اپنے کمال  تک نھیں پھنچتی۔

          اس بنا پر اس ماٴموریت کا مسئلہ اسلام کے اھم اصولوں میں سے ایک ھونا چاھئے جو اسلام کے دوسرے اصول و فروع سے پیوستہ ھو اور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی رسالت کی طرح یہ بھی ایک اھم مسئلہ ھو ۔

          ثانیاً : سماجی حالات اور ان کے محاسبات کے پیش نظر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  یہ گمان کرتے تھے کہ اس ماٴموریت کو انجام دینے کی صورت میں ممکن ھے  لوگوں کی طرف سے آپ   کو کوئی نقصان پھنچے ، اس لئے خدائے تعالیٰ نے آپ  کے ارادہ کو قوت بخشنے کےلئے فرمایا:

          ( و َ اللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)

          ” خدا آپ  کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“

          اب یہ دیکھنا ھے کہ مفسرین اسلام نے اس آیت کے موضوع کے بارے میں جو احتمالات  (138) بیان کئے ھیں ان میں سے کون سا احتمال اس آیہ شریفہ  کے مضمون سے قریب تر ھے ۔شیعہ محدثین کے علاوہ اھل سنت محدثین کے تیس 1#  افراد نے لکھا ھے کہ یہ آیہ شریفہ غدیر کے دن نازل ھوئی ھے ، جس دن خدا نے پیغمبر   کو مامور کیا کہ علی(ع)کو ”مؤمنین  کے مولا “ کے طور پر پھچنوائیں۔

          امت پر پیغمبر   کی جانشینی کے عنوان سے امام(ع)کی قیادت کا مسئلہ ھی اتنا ھی اھم اور سنجیدہ تھا کہ اس کا پھنچانا رسالت کی تکمیل کا باعث اور نہ پھنچانا رسالت کے نقصان اور رسول کی زحمتوں  کے تباہ ھوجانے کا سبب شمار ھوتا۔

           اسی طرح  پیغمبر اکرم  کا اجتماعی محاسبات کے پیش نظر خوف و تشویش سے دوچار ھونابجا تھا، کیونکہ حضرت علی(ع)جیسے صرف 33 سالہ شخص کا جانشین  اور وصی قرار پانا اس گروہ کےلئے انتھائی سخت اور دشوار تھا جو عمر کے لحاظ سے آپ(ع)سے کھیں زیادہ بڑے تھے (139)

          اس کے علاوہ ایسے افراد بھی مسلمانوں کی صفوں میں موجود تھے جن کے اسلاف مختلف جنگوں میں حضرت علی(ع)کے ھاتھوں قتل ھوچکے تھے اور قدرتی طور وہ کینہ توز ایسے شخص کی حکومت کی شدید مخالف کرتے ۔

          اس کے علاوہ حضرت علی(ع)پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے، اور تنگ نظر لوگوں کی نظر میں  ایسے شخص کو خلافت  کے عھدہ پر مقرر کرنا اس کا سبب ھوتا کہ وہ اس عمل کو کنبہ پروری  تصور کرتے۔

          لیکن ان تمام ناسازگار حالات کے باوجود خدائے تعالی کا حکیمانہ ارادہ یھی تھا کہ رسول  کا جانشین مقررفرما کر اسلامی تحریک کو تحفظ بخشے اور اپنے نبی  کی عالمی رسالت کا رھبر و راھنما مقرر کرکے اسے تکمیل تک پھنچائے۔

 

اب اس تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

Add comment


Security code
Refresh