www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انیسویں فصل

حدیث غدیر(دوسراحصہ)

غدیر کا تاریخی واقعہ ایک ابدی حقیقت

          18 ذی الحجة کی دوپھر کا وقت تھا ، سورج کی تمازت نے غدیر خم کی سرزمین کو  جھلسا  رکھا  تھا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد__جس کے بارے میں 70 ھزار سے 120 ھزار تک لکھا گیا__ پیغمبر  کے حکم سے وھاں پر پڑاؤ  ڈالے ھوئے تھی اور یہ لوگ اس دن رونما ھونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کررھے تھے۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ، لوگوں نے اپنی ردائیں تہ کرکے آدھی سر پر  اور آدھی پاؤں کے نیچے رکھی تھیں ۔

  ان حساس لمحات میں اذان ظھر کی آواز سے تمام صحرا گونج اٹھا ، اور لوگ نماز ظھر کےلئے آمادہ ھوئے ، پیغمبر اکرم  نے اس عظیم اور پرشکوہ اجتماع __ کہ سرزمین غدیر پہ ایسا عظیم نھیں ھوا تھا__کے ساتھ نماز ظھر ادا کی ۔ اس کے بعد آپ لوگوں کے درمیان تشریف لائے اور اونٹوں کے پالان سے بنے ایک بلند منبر پرجلوہ افروز ھوکر بلند آواز سے خطبہ دینا شروع کیا اور فرمایا:

” حمد و ستائش تنھا خدا کے لئے ھے ، ھم اسی سے مدد چاھتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں ، اور اسی پر توکل کرتے ھیں ، اور اپنے نفس امارہ اور برائی کے شر سے محفوظ رھنے کےلئے اس خدا کی پناہ لیتے ھیں ، جس کے سوا گمراھوں کی ھدایت و راھنمائی کرنے والا کوئی نھیں ھے ۔ ھم گواھی دیتے ھیں کہ جس کی خداوند کریم ھدایت کرے کوئی اسے گمراہ نھیں کرسکتا ھم اس خدا کی گواھی دیتے ھیں جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور محمد  خدا کا بندہ اور اس کا رسول  ھے ۔

اے لوگو! خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ھے کہ ھر پیغمبر کی رسالت کی مدت اس سے پھلے کی رسالت کی آدھی ھوتی ھے ، اور میں جلدی ھی دعوت حق کو لبیک کھنے والا اور تم سے رخصت ھونے والا ھوں ، میں ذمہ دار ھوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ھو ، میرے بارے میں کیا سوچتے ھو؟

  اصحاب رسول  نے کھا: ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ  نے دین خدا کی تبلیغ کی ، ھمارے بارے میں خیر خواھی کی اور ھماری نصیحت فرمائی اور اس راہ میں سعی و کوشش کی ، خدائے تعالی آپ کو جزائے خیر عطا کرے ۔

  مجمع پر خاموشی چھاگئی تو پیغمبر  نے فرمایا: کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی خدا نھیں ھے اور محمد  خدا کا بندہ اور اس کا رسول  ھے ، جنت ، جھنم اور موت حق ھے ۔ بے شک قیامت آئے گی اور خدائے تعالیٰ زمین میں دفن لوگوں کوپھر سے زندہ کرے گا ؟

  اصحاب رسول  : جی ھاں ! جی ھاں ! ھم گواھی دیتے ھیں ۔

  پیغمبر  : میں تم لوگوں کے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رھا ھوں تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو گے؟

  ایک شخص : یہ دو گراں قدر چیزیں کیا ھیں ؟

  پیغمبر : ثقل اکبر خدا کی کتاب ھے کہ اس کا ایک سرا خدا سے وابستہ اور دوسرا سرا تمھارے ھاتہ میں ھے ، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ ے رھو تا کہ گمراہ نہ ھواور ” ثقل اصغر“ میری عترت اور اھل بیت(ع)ھیں ۔ خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ میری یہ دو یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گی۔

          خبردار، اے لوگو: خدا کی کتاب اور میری عترت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ ان سے پیچھے رھنا تا کہ نابودی سے بچے رھو۔

          اس موقع پر پیغمبر  نے علی(ع)کا ھاتہ پکڑ کر انھیں اس قدر بلند کیا کہ آپ  کے بغل کے نیچے کی سفیدی نمایاں ھوگئی اور تمام لوگوں نے علی(ع)کو پیغمبر  کے پھلومیں دیکھا اور انھیں اچھی طرح سے پھچان لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اس اجتماع کا مقصد، علی(ع)سے مربوط کوئی اعلان ھے ۔ سب شوق و بے تابی کے ساتھ پیغمبر  کی بات سننے کے منتظر تھے۔

          پیغمبر : اے لوگو! مؤمنوں پر ، خود ان سے زیادہ سزاوار کون ھے ؟

          اصحاب پیغمبر : خدا اور اس کا پیغمبر  بھتر جانتے ھیں ۔

          پیغمبر : ” خدا میرا مولا اور میں مؤمنوں کا مولا اور ان پر ، خود ان سے زیادہ اولی و سزاوار ھوں ۔ اے لوگو ! ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' یعنی جس  جس کا میں مولا ---__ خود اس سے زیادہ اس پر سزاوار __ ھوں اس کے علی(ع)بھی مولا ھیں “ اور پیغمبر  نے اس جملہ کو تین بار فرمایا(140)

           اس کے بعد فرمایا:  پروردگارا! اس کو دوست رکہ ، جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکہ جو علی(ع)سے دشمنی کرے۔ خدایا ! علی(ع)کے دوستوں کی مدد فرما اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما ۔ خداوندا ! علی  کو مرکز حق قرار دے “

           اس کے  بعد پیغمبر نے فرمایا: ضروری ھے کہ اس جلسہ میں حاضر لوگ اس خبر کو غیر حاضروں تک پھنچادیں اور دوسروں کو بھی اس واقعہ سے باخبر کریں۔

           ابھی غدیر کا اجتماع برقرار تھا کہ فرشتہ وحی تشریف لایا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو بشارت دی کہ خداوند کریم فرماتا ھے : میں نے آج اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور اس پر راضی ھو اکہ یہ کامل شدہ اسلام تمھارا دین ھو   (141)

          یھاں پر پیغمبر اسلام نے تکبیر کی آواز بلند کرتے ھوئے فرمایا: میں خدا کا شکر گزار ھوں کہ اس نے اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع)کی ولایت پر خوشنود ھوا۔

          اس کے بعد پیغمبر  اپنی جگہ سے نیچے تشریف لائے ، آپ  کے اصحاب گروہ گروہ آگے بڑھے اور علی (ع)کو مبارکباددی اور انھیں اپنے اور تمام موٴمنین و مومنات کا مولا کھا۔

          اس موقع پر رسول خدا  کا شاعر ” حسان بن ثابت “ اٹھا اور اس نے اس تاریخی روداد کو شعر کی صورت میں بیان کرکے اسے ابدی رنگ دیدیا۔ اس کے اس قصیدہ سے صرف دو ابیات کا ترجمہ یھاں پر ذکر کرتے ھیں :

          ” پیغمبر  نے علی(ع)سے فرمایا : کھڑے ھوجاؤ! میںنے تمھیں اپنے بعد لوگوں کی قیادت اور راھنمائی کےلئے منتخب کیا ھے ۔(142)    جس کا میں مولا ھوں ، اس کے علی(ع)بھی مولا ھیں ۔

          لوگو! تم لوگوں پر لازم ھے کہ علی(ع)کے سچے اور حقیقی دوست رھو ۔

          اوپر بیان شدہ روداد غدیر کے واقعہ کا خلاصہ ھے جو اھل سنت علماء کے اسناد و مآخذمیں ذکر ھوا ھے ۔ شیعوں کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ھوا ھے ۔

          مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب ” احتجاج“ میں پیغمبر  خدا سے ایک مفصل خطبہ نقل کیا ھے ، شائقین اس کتاب میں اس خطبہ کا مطالعہ کرسکتے ھیں (143)

 

غدیر کا واقعہ لافانی و جاویدانی ھے

          خدائے تعالیٰ کا حکیمانہ ارادہ یھی تھا کہ غدیر کا تاریخی واقعہ تمام زمانوں اور صدیوں میں ایک زندہ تاریخ کی صورت میں باقی رھے تا کہ ھر زمانے کے لوگ اس کی طرف جذب ھوں اور ھر زمانے میں اسلام کے اھل قلم  تفسیر ، حدیث ، کلام اور تاریخ پر قلم اٹھاتے وقت اس موضوع پر لکھیں اور مذھبی مقررین ، وعظ و سخن کی مجلسوں میں اسے بیان کرتے ھوئے اس کو امام (ع)کے ناقابل انکار فضائل میں شمار کریں ۔ ادباء و شعراء بھی اس واقعہ سے الھام حاصل کرکے اپنے ادبی ذوق و شوق کو اس واقعہ سے مزین کرکے مولا کے تئیں اپنے جذبات مختلف زبانوں میں بھترین ادبی نمونوں کی صورت میں پیش کریں۔

          یہ بات بلا سبب نھیں کہ انسانی تاریخ میں بھت کم ایسے واقعات گزرے ھیں جو واقعہ غدیر کی طرح علماء ، محدثین ، مفسرین ، متکلمین ، فلاسفہ ، مقررین ، شعراء ، مؤرخین و سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ھیں ان سب نے اس واقعہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ھیں ۔

          بیشک اس واقعہ کے لافانی اور جاویدانی ھونے کا ایک سبب یہ بھی ھے کہ اس واقعہ سے مربوط قرآن مجید میں دو آیتیں(144)   نازل ھوئی ھیں ۔چونکہ قرآن لافانی اور ابدی ھے اس لئے یہ واقعہ بھی لافانی ھوگیا ھے اور ھر گز ختم ھونے والا نھیں ھے۔

          اس کے علاوہ چونکہ گزشتہ زمانہ میں اسلامی معاشرہ اور آج کا شیعہ معاشرہ اس روز کو مذھبی عیدوں میں ایک عظیم عید شمار کرتا ھے اور اس مناسبت سے ھر سا ل با شکوہ تقریبات منعقد کرتا ھے لھذا قدرتی طور پر غدیر کے تاریخی واقعہ نے ابدیت کا رنگ اختیار کرلیا ھے اور کبھی فراموش ھونے والا نھیں ھے۔

          تاریخ کا مطالعہ کرنے سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ 18 ذی الجة الحرام کا دن مسلمانوں کے درمیان عید غدیر کے طور پر معروف تھا ، یھاں تک کہ ” ابن خلکان “ فاطمی خلیفہ مستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ھے :

” سن 487ء ہ عید غدیر کے دن ، کہ 18 ذی الحجة الحرام ھے ، لوگوں نے اس کی بیعت کی (145)  المستنصر بالله کے بارے میں ” العبیدی“ لکھتا ھے:

” وہ سن 487 ھء میں جب ماہ ذی الحجة میں 12 شبیں باقی بچی تھیں ، فوت ھوا ، یہ شب وھی  8 اویں ذی الحجة کی شب ھے ، اور شب عید غدیر ھے“  (146)

          ابن خلکان نے ھی اس شب کو عید غدیر کی شب کا نام نھیں دیا ھے بلکہ ” مسعودی“ (147) #  اور ”ثعالبی“ (148)   نے بھی اس شب کوامت اسلامیہ کی مشھور و معروف شبوں میں شمار کیا ھے۔

          عید غدیر کے دن جشن و سرور کی تقریبات کا سلسلہ اس دن خود پیغمبر  کے عمل سے شروع ھوا ھے۔ کیونکہ اس دن پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار بلکہ اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا تھا کہ علی(ع)کے پاس جاکر انھیں اس عظیم فضیلت کی مبارکباد دیں۔

          زید بن ارقم کھتے ھیں : مھاجرین میں سے سب سے پھلے جن افراد نے علی(ع)کے ھاتہ پر بیعت کی ، ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ اور زبیر تھے اور مبارکبادکی یہ تقریب اس دن سورج ڈوبنے تک جاری رھی۔

 

واقعہ کی لافانیت کے دیگر دلائل

          اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ 110 صحابیوں نے اسے نقل کیا ھے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ھی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ھے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف 110 راوی ذکر ھوئے ھیں ۔ یہ بات صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے ایک لاکہ کے مجمع میں تقریر فرمائی، لیکن ان میں بھت سے لوگ حجاز سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ، جن سے کوئی حدیث نقل نھیں ھوئی ھے ، یا اگر نقل ھوئی بھی ھو تو ھم تک نھیں پھنچی ھے۔ ان میں سے اگر کسی جماعت نے اس واقعہ کو نقل بھی کیا ھے تو تاریخ  ان کے نام درج کرنے میں کامیاب نھیں ھوئی۔

          دوسری صدی ھجری میں -- __جو عصر تابعین کے نام سے مشھور ھے __ نواسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔

          بعد والی صدیوں میں حدیث کے بھت سے راوی سنی علماء تھے ان میں سے تین سو ساٹہ راویوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ان میںسے بھت سے لوگوں نے اس حدیث کے صحیح اور محکم ھونے کا اعتراف بھی کیا ھے۔

          تیسری صدی ھجری میں 92 (بانبے) سنی علماء نے ، چوتھی صدی میں تینتالیس( 43) ، پانچویں صدی میں جوبیس (24) ، چھٹی صدی میں بیس (20)، ساتویں صدی میں اکیس (21) ، آٹھویں صدی میں اٹھارہ (18) ، نویں صدی میں سولہ (16) ، دسویں صدی میں (14) چودہ  ، گیارھوں صدی میں بارہ (12) ، بارھویں صدی میں تیرہ (13) ، تیرھویں صدی میں بارہ (12) اور چودھویں صدی میں بیس (20) سنی علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔

          مذکورہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کی نقل پر ھی اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ اس کے اسناد اور مفھوم پر مخصوص کتابیں لکھی ھےں۔

          عالم اسلام کے عظیم اور نامور تاریخ دان ، طبری نے ” الولایة فی طرق حدیث الغدیر “ کے موضوع پر کتاب لکھی ھے اور اس میں اس حدیث کو ستر(70) سے زیادہ طریقوں سے ، پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ھے۔

          ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ” ولایت“ میں اس حدیث کو ایک سو پچاس (149) افرادسے نقل کیا ھے۔     

          جن افراد نے اس تاریخی واقعہ کی خصوصیات کے بارے میں مخصوص کتابیں لکھی ھیں ، ان کی تعداد چھبیس (26) ھے ۔ ممکن ھے اس سے زیادہ افراد ھوں جنھوں نے اس موضوع پر کتابیں یا مقالات لکھے ھیں لیکن تاریخ میں ان کا نام درج نھیں ھوا ھے یا ھماری رسائی ان تک نھیں ھے۔

          شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ پر گراں بھا کتابیں لکھی ھیں کہ ان تمام کتابوں میں جامع ترین اور تاریخی کتاب علامہ مجاھد مرحوم آیت اللہ امینی ۺ کی کتاب ” الغدیر“ ھے ۔

 ھم نے امام (ع)کی زندگی کے اس پھلوکے بارے میں ان کی اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ھے۔

Add comment


Security code
Refresh