www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حوالے

38۔(وجادلھم بالتی ھی احسن )(نحل/ 125)

39۔1۔شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 14، ص 36

40شرح نھج البلاغہ ، ج1 ، خطبہ شقشقیہ ۔

41۔ و قلت إنّی کنت اقاد کما یقاد الجمل المخشوش لا بایع ، و لعمر الله لقد اٴردت اٴن تذم فمدحت ، و اٴن تفضح فافتضحت و علی  المسلم  من غضاضة فی ان یکون مظلوماً ما لم یکن شاکاً فی دینہ و لا مرتاباً بیقینہ “ ( نھج البلاغہ ، خط 28)

42۔”و لا یخطر ببالی انّ العرب تزعج ھذا الاٴمر من بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن اٴھل بیتہ ولا انّھم منحوہ عنی من بعدہ فما راعنی إلا انثیال الناس علی فلان یبایعونہ..․“ (نھج البلاغہ ، خط 62)

43۔آل عمران /154۔

44۔آل عمران : 144

45۔ صحیح ابن ماجہ ، باب فتن و غیرہ ۔

46۔الامامة و السیاسة ج 1، ص 5

47۔ الامامة و السیاسة ج 1 ، ص 5۔

48۔انصار نے  دو امیروں کی تجویز پیش کرکے اپنے پیروں پر کلھاڑی ماری ۔ اس مقابلہ میں ایک قدم پیچھے ھٹے اور مھاجرین کے مقابلے میں اپنے ضعف و کمزوری کا اعتراف کیا ۔ اس لئے جب قبیلہ خزرج کے سردار نے ” حباب“ سے یہ بات سنی تو انتھائی افسوس کے ساتھ بول اٹھا : ھذا اول الوھن ، یہ تجویز ھماری کمزوری کی نشانی ھے

49۔ آیندہ بحث میں اس  سلسلے میں امیر المؤمنین کی تنقید بیان ھوگی۔

50۔ حادثہ سقیفہ کی تفصیلات کو تاریخ طبری ج3،(حوادت سال یازدھم ) اور الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ج1، اور شرح ابن ابی الحدید ج2 ص 22 ۔60  سے نقل کیا گیا ھے ۔

51۔سیرہ ابن ھشام ، ج4، 308۔ ارشاد شیخ مفید ، ص 260

52۔( لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا القُرْء انُ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ) ( زخرف / 31) و نیز رجوع کریں اسراء /90 ۔91)

53۔ بقرہ / 207۔

54۔ ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “( نھج البلاغہ خطبہ 64)

55۔الله الله یا معشر المھاجرین لا تخربوا سلطان محمّد فی العرب عن دارہ و قعر بیتہ الی دورکم و قعور بیوتکم و لا تدعوا اٴھلہ عن مقامہ فی الناس و حقّہ ، فو الله یا معشر المھاجرین لنحن اٴحق الناس بہ ، لاٴنا اٴھل البیت و نحن اٴحقّ بھذا الاٴمر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیہ فی دین الله ، العالم بسنن الله، المضطلع باٴمر الرعیة ، المدافع عنھم الاٴُمور السیئّة ․ القسم بینھم با لسویة، و الله انّہ لفینا ، فلا تتبعو الھوی فتضلوا عن سبیل الله فتزدادوا من الحقّ بعداً “ ( الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ، ج1 ، ص 12 ، احتجاج طبرسی ، ج1 ، ص 96)

56۔ اٴنا اٴولی برسول الله حیاً و میّتاً و اٴنا وصیّہ و وزیرہ و مستودع سرّہ و علمہ ، و اٴنا الصّدیق الاٴکبر و الفاروق الاٴعظم، اٴوّل من آمن بہ و صدّقہ ، واٴحسنکم بلاءً فی جھاد المشرکین، و اٴعرفکم بالکتاب و السنة ، اٴفقھکم فی الدین و اعلمکم بعواقب الاٴمور و اٴذر بکم لساناً و اٴثبتکم جناناً فعلام  تنازعو فی ھذا الاٴمر ( احتجاج طبرسی ، ج 12 ، ص 95)

57۔  نھج البلاغہ، عبدہ ، خطبہ 168۔

58۔لامامة و السیاسة، ج 1  ص 12

59۔ تاریخ طبری ،ج3 ، ص 234 ۔

60۔ صحیح بخاری ج 2، ص 25۔

61۔ صحیح بخاری ، ج 2، ص 22۔

62۔ شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید ، ج 6، ص 52 ، نقل از : کتاب السقیفہ ، تالیف ابو بکر احمد بن عبد العزیز جوھری۔

63۔ احزاب /6

64۔ مائدہ /48

65، التراتیب الاداریة ، ج1 ،ص 285۔

66۔ التراتیب الاداریة ، ج1 ،ص 285۔

67۔ سریہ اس جنگ کو کھتے ھیں جس میں آنحضرت   شامل نہ تھے۔

68۔ انبیاء / 72 ، یوسف / 22۔

69۔ یوسف / 101

70۔نحل /44

71۔جمعہ /2

72۔ بقرہ / 247

73۔ احتجاج طبرسی ، ج 1، ص 353 ، تلخیص کے ساتھ

74۔”ان الاٴئمة فینا و ان الخلافة لا تصلح الّا فینا و انّ الله جعلنا اھلہ فی کتابہ وسنة  نبیہ و ان العلم فینا و نحن اھلہ و انہ لا یحدث شیٴ الی یوم القیامة حتی ارش الخدش الّا وھو عندنا“ ( احتجاج طبری ، ج 3 ص 6)

75۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبوک کی جنگ پر جانے کا فیضلہ کیا تو، حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کرکے فرمایا” انت منی بمنزلة ھارون من موسی الّا انہ لا نبی بعدی“ تم میرے لئے ویسے ھی ھو جیسے ھارون موسی کےلئے تھے ، فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا ، پیغمبر اسلام نے اس جملہ سے ، نبوت کے علاوہ تمام منصبوں کو علی(ع)کےلئے ثابت کردیا

76۔ حدیث غدیر کی تفصیل انیسویں فصل میں آئے گی ۔

77۔ یھاں مقصود  حدیث ثقلین  ھے کہ اس کے بارے میں بائیسوں فصل میں گفتگو آئے گی ۔

78۔ پیغمبر نے اپنے اصحاب سے فرمایا: سلّموا علی علیّ بامرة المؤمنین ۔

79۔ نساء / 54

80۔ نھج البلاغہ ، خطبہ سوم

81۔ حشر / 7۔

82۔ مسند احمد ، ج 1، 2۔14۔

83۔ تاریخ الخلفاء ، ص 59 ۔ 66۔

84۔ الغدیر ج 7 ص 108

85۔ سیرہ  حلبی ، ج 3 ، ص 34، بحار ج 22، ص 157۔

86۔ مغازی واقدی ، ج2، ص 766 ، بحار ، ج21، ص 54 ۔

87۔ انعام / 164

88۔ طبقات ابن سعد، ج 3،ص 151۔

89۔ موطاٴ ابن مالک ص 335۔

90۔ سنن بیھقی ، ج8 ص 273۔

91۔ سنن ابن ماجہ ، ج 1، ص 200۔

92۔ نساء ․ 43، مائدھ/ 6۔

93۔ الدر المنثور ج1،ص 21۔

94۔ مسند احمد ، ج 1 ،ص 192۔

95۔ نساء/ 20

96۔  ”کل  الناس افقہ من عمر”

97۔ الغدیر ، ج 6․ ص 87 ( اھل سنت کی مختلف اسناد سے منقول)

98۔ اس کی تفصیل پانچویں فصل میں گزری ھے ۔

99۔ الاٴضواء ، ص 204

100۔ سنن بیھقی ، ج 8 ص 33۔

101۔توبہ / 100۔

102۔ فتح /18۔

103۔احزاب / 12

104۔توبہ / 47۔

105۔ سیرہ ابن ھشام ، ج 2 ، ص 430۔

106۔ چرا مسیحی نیستم

107۔ حشر / 8۔

108۔ (مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَ الَّذِینَ مَعَہ اٴَشِدَّآءُ عَلَٰی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ تَرٰیھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ  فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَاناً سِیمَاھُم فِی وُجُوھِھِمْ مِنْ اٴَثَرِ السُّجُودِ)( فتح/ 29)

109۔( وَعَدَ اللهُ الّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْھُمْ مَغْفِرَةً وَ اٴَجْراً عَظِیماً) (فتح/ 29)    

110۔توبہ/ 96۔

111۔آل عمران /57۔

112۔زمر /65

113۔ نعام / 93۔

114۔ الاصابة ، ج 2، ص 38

115۔ ان افراد میں سے ھر ایک کی زندگی کے حالات علم رجال کی کتابوں ، جیسے : الاستیعاب ،الاصابة ، اسد الغابة وغیرہ میں درج ھیں

116۔ حجرات / 6۔

117۔ مذکورہ افرادا ن منافقوں کے گروہ کے علاوہ ھیں جن کی داستان مفصل ھے ۔

118۔ انعام / 88۔

119۔ غایة المرام ، ص 107 ۔ 152۔

120۔ المراجعات ، ص 131۔ 132

121۔ صحیح بخاری ج 3،  ص 58 ، صحیح مسلم ج 2 ص 323۔

122۔ صحیح مسلم ، ج 7 ص 120۔

123۔ طٓہ / 29۔30۔

124۔ طٓہ / 31۔

125۔ طٓہ / 32

126۔ طہ/ 36اس کے علاوہ قرآن مجید ایک دوسری آیت میں حضرت ھارون (ع)کی نبوّت کے بارے میں صراحت سے فرماتا ھے :

(وَوَھَبْنَا لَہ من رَحْمَتِنَآ اٴَخاَہ ھَٰرُونَ نَبِیًّا)(مریم / 53)

127۔ اعراف / 142۔ ایک اور آیت میں حضرت ھارون کی وزارت کے بارے میں صراحت  سے فرماتا ھے:

 (128) (فرقان / 35 )

129۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملہ کو مختلف مواقع پر سات بار بیان فرمایا ھے ، لیکن ھم اختصار کی وجہ سے یھاں پر صرف دو مورد کا ذکر کرتے ھیں۔

130۔ کنز العمال ، ج 6، ص 395 ، حدیث نمبر 6032 ۔

131۔ منتخب کنزل العمال ( مسند کے حاشیہ میں ) ج 5، ص 31

132۔ المراجعات / ص 141 ، 147

133۔جیسے ، ورقةبن نوفل جس نے عیسائی کتابوں کے مطالعہ کے بعد بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائی مذھب قبول کرلیا تھا۔

134۔طور/ 30 ۔32

135۔سیرہ ابن ھشام ، ج 2 ، ص 172

136۔ سیرہ ابن ھشام ، ج1 ص 386، 410

137۔ مائدہ /67

138۔ فخرر ازی نے اپنی تفسیر (ج3، ص 635) میں پیغمبر   کی اس ماموریت کے بارے میں دس احتمالات بیان کئے ھیں  جب کہ ان میں سے ایک احتمال بھی __ جبکہ ان کا کوئی صحیح ماخذ بھی نھیں ھے __ مذکورہ دو شرائط کا حامل نھیں ھے ، جنھیں ھم نے مذکورہ آیت سے اس کے موضوع کے تحت بیان کیا ھے ، ان میں سے زیادہ تر احتمالات ھرگز اس قدر اھم نھیں ھیں کہ ان کے نہ پھنچانے پر رسالت کو کوئی نقصان پھنچتا یا پیغامات کا پھنچانا خوف و وحشت کا سبب بن جاتا  یہ احتمالات حسب ذیل ھیں :

          1۔ یہ آیت ، گناھگار مردوں اور عورتوں کو سنگسار کرنے کے بارے میں ھے ۔

          2۔یہ آیت ، یھودیوں کے پیغمبر  پر اعتراض کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔

          3۔ جب قرآن مجید نے پیغمبر کی بیویوں کو تنبیہ کی کہ اگر وہ دنیا کے زر و زیور کو چاھیں گی تو پیغمبر  ا ن کو طلاق دیدیں گے ، پیغمبر  اس حکم الھی کو پھنچانے سے ڈرتے تھے کہ کھیں وہ دنیا کو ترجیح نہ دیں۔

          4۔ یہ آیت ، پیغمبر  کے منہ بولے بیٹے زید کے واقعہ سے متعلق ھے کہ پیغمبر   کو خدا کی طرف سے حکم ھوا کہ وہ زید کی طلاق یافتہ بیوی سے شادی کرلیں۔

          5۔ یہ آیت لوگوں اور منافقین کو جھاد کی طرف دعوت دینے سے مربوط ھے ۔

          6۔ بتوں کی برائی کرنے سے پیغمبر  کی خاموشی سے مربوط ھے۔

          7۔یہ آیت حجة الوداع میں اس وقت نازل ھوئی ھے جب پیغمبر  شریعت اور مناسک بیان فرمارھے تھے۔

          8۔ پیغمبر   قریش ، یھود اور نصاری سے ڈرتے تھے اس لئے یہ آیت آپ  کے ارادے کو قوت بخشنے کےلئے نازل ھوئی ھے۔

          9۔ ایک جنگ میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک درخت کے سایہ میں آرام فر مارھے تھے ، ایک عرب ننگی تلوار لے کر پیغمبر  پر حملہ آور ھوا اور آپ  سے مخاطب ھوکر کھا: ” اب تمھیں مجھ سے کون بچا سکتا ھے“ ، پیغمبر  نے جواب میں فرمایا: ” خدا “ اس وقت دشمن پر خوف طاری ھوا وہ پیچھے ھٹ گیا اور اس کا سر درخت سے ٹکرا کر پھٹ گیا ، اس وقت یہ آیت نازل ھوئی (والله یعصمک من الناس) آیہ شریفہ کے مفاد کا مذکورہ احتمالات کے مطابق ھونا ( مثلا ً آخری احتمال) بھت بعید ھے جب کہ غدیر خم کے واقعہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے ۔

1۔ مرحوم علامہ امینی نے ان تیس افراد کے نام اور خصوصیات اپنی تالیف ، الغدیر ، ج 1، ص 196 ۔ 209۔میں مفصل بیان کئے ھیں ان میں ، طبری ، ابو نعیم اصفھانی ، ابن عساکر ، ابو اسحاق حموینی اور جلال الدین سیوطی وغیرہ جیسے افراد بھی شامل ھیں کہ انھوں نے ابن عباس، ابو سعید خدری اور براء بن عازب سے یہ حدیث نقل کی ھے ۔

139۔ خاص طور پر عرب قوم میں ھمیشہ بڑے عھدوں کو قبیلہ کے عمر رسیدہ لوگوں کے سپرد کرنے کی رسم تھی اور جوانوں کو اس بھانے سے ایسے عھدے سونپنے کے قائل نہ تھے کہ جو ان زمانہ کا تجربہ نھیں رکھتے ھیں ۔ لھذا جب پیغمبر   نے ” عتاب بن ولید“ کو مکہ کا گورنر اور اسامہ کو سپہ سالار مقرر فرمایا تو عمر رسیدہ لوگوں نے آپ  پر اعتراض کیا پھر لوگ اس امر کی طرف توجہ نھیں دیتے کہ حضرت علی(ع)دیگر جوانوں سے مختلف ھیں ، یہ لائق اور شائستہ شخص الھی عنایتوں کے سایہ میں ایسے مقام تک پھنچا ھوا ھے کہ ھر قسم کی خطا اور لغزشوں سے محفوظ ھے اور ھمیشہ عالم  بالا سے امداد حاصل کرتاھے۔

140۔ احمد بن حنبل کا کھنا ے کہ پیغمبر  نے اس جملہ کو چار بار فرمایا

141۔ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِینًا )(مائدہ/ 3)

142۔فقال لہ قم یا علی فاننی

رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا

فمن کنت مولاہ فھذا  ولیہ

فکونو لہ اتباع صدق موالیا

143۔ احتجاج طبرسی ، ج 1 ص 71 تا 74  طبع ، نجف ۔

144۔ آیہ ، ( یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک ") (مائدہ / 67 )، اور آیہ شریفہ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی") (مائدہ /3)

145۔ وفیات الاعیان ، ج1، ص 60 ۔

146۔ وفیا ت الاعیان ، ج1، ص 223۔

147۔ التنبیہ و الاشراف ، ص 22 ۔

148۔ ثمارة القلوب ، ص 511۔

149۔حدید/ 15

150۔  ای اولی لکم ما اسلفتم  من الذنوب۔

151۔ حج / 13۔

152۔ احزاب 6

153۔ مناقب خوارزمی ص 80  وغیرھ۔

154۔ حجرات / 15

155۔توبہ / 71

Add comment


Security code
Refresh