www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تیئیسویں فصل

ایک شخص کا معصوم ھونا کیسے ممکن ھے

          کیا انسانی معاشرہ کی قیادت و رھبری سے بڑھکر کوئی منصب تصور کیا جا سکتا ھے؟کیا کوئی شخص روحی و جسمی امتیازات کے بغیر زندگی کے کسی ایک پھلو میں بھی معاشرہ کی قیادت کا بوجہ سنبھال سکتا ھے ؟ چہ جائیکہ زندگی کے تمام مادی ومعنوی پھلوؤں میں !! جو صرف الٰھی رھبروں یعنی انبیاء وغیرہ سے مخصوص ھے؟

          سیاسی لیڈران جو ملک و مملکت کے صرف سیاسی مسائل میں قیادت کرتے ھیں یا اقتصادی مسائل کے ماھرین جو ملک کی اقتصادکی باگڈور ھاتہ میں رکھتے ھیں ان میدانوں سے متعلق خاص شرائط و صفات کے بغیر -----جو انھیں دوسروںسے ممتاز و بر تر ثابت کرتے ھیں -----ملک کے اس اعلیٰ سیاسی یا اقتصادی منصب کو حاصل ھی نھیں کر سکتے ۔

          اگر ایسا ھی ھے تو یہ بات بدرجہ اولی تسلیم کرنی چاھئے کہ انبیائے الٰھی اور ان کے حقیقی جانشینوں  ----- جو انسانی معاشرہ کے تمام میدانوں میں رھبر ھیں  -----میں بھی وہ عالی اور با عظمت صفات و کمالات ھونے چاھئےںجو ان کی رھبری کی حیثیت کو ثابت کریں ۔ کیوں کہ در حقیقت ان صفات اور امتیازات کی بنا پر ھی ان افراد کو یہ عظیم منصب عطا کیا گیا ھے۔

          آپ ان عظیم افراد کے امتیازات کو حسب ذیل دو عنوانوں میں خلاصہ کر سکتے ھیں:

          1)۔ گناہ اور خدا کی نا فرمانی سے محفوظ رھنا۔

          2)۔ خدا سے احکام حاصل کرنے اور لوگوں کو ان احکام کی تبلیغ کرنے میں خطا و غلطی سے محفوظ رھنا ۔ اس سے پھلے کہ الٰھی رھبروں کے لئے عصمت کے لازم ھونے کے دلائل بیان کئے جائیں ،بھتر ھے کہ خود عصمت کے بارے میں اجمال کے ساتھ یہ گفتگو کی جائے کہ کس طرح ایک شخص گناہ سے محفوط رھتا ھے۔

عصمت کیا ھے؟

          عصمت ایک نفسانی صفت اور ایک باطنی طاقت ھے جو اپنے حامل کو گناہ ھی سے نھیں بلکہ گناہ انجام دینے کی فکر یا خیال سے بھی دور رکھتی ھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا باطنی خوف ھے جو انسان کو گناہ سے حتٰی گناہ کے ارادہ سے بھی محفوظ رکھتا ھے۔

          یھاں یہ سوال پیش آتا ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص تمام گناھوں سے محفوظ رھے اور وہ نہ صرف گناہ نہ کرے بلکہ گناہ اور نافرمانی کے ارادہ سے بھی دور رھے ؟

          اس کا جواب یہ ھے کہ گناہ کی برائیوں کے علم کا لازمہ یہ ھے کہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے ۔ البتہ اس کا مطلب یہ نھیں کہ گناہ کی برائیوں کے سلسلہ میں ھر درجہ کا علم انسان کو گناہ سے محفوظ و معصوم بنا دیتا ھے ،بلکہ علم کی حقیقت نمائی اس قدر قوی ھو جو گناہ کے برے آثار کوانسان کی نگاہ میں اس قدر مجسم کر دے کہ انسان ان برے کاموں کے انجام کو اپنی آنکھوں میں مجسم ھوتے ھوئے دیکھے ۔ اس صورت میں گناہ اس کے لئے ”محال عادی “ ھو جائے گا ۔ ذھن کو اور قریب کرنے کے لئے حسب ذیل مطلب پر توجہ دیں۔

          ھم میں سے ھر ایک شخص بعض ایسے اعمال سے جن سے ھماری جان جانے کا خطرہ ھوتاھے ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ھیں ۔اس طرح کا تحفظ اس علم کی پیدا وار ھے جوان اعمال کے نتائج کے طور پر ھمیں حاصل ھے مثال کے طور پر ایک دوسرے کے دشمن دو ملک جن کی سرحدیں آپس میں ملی ھوئی ھیں اور ھر طرف کے فوجی تھوڑے فاصلہ سے بلند برجوں پر قوی دوربینوں،تیز لائٹوں اور سدھے ھوئے کتوں کے ذریعہ سرحد کی نگرانی کررھے ھیں اور خاص طور سے کسی کے سرحد پار کرنے پر گھری نظر رکھے ھوئے ھیں کہ اگر کوئی سرحد سے ایک قسم بھی آگے بڑھا گولوں سے بھون دیا جائے گا ایسی صورت میں کوئی عقل مند انسان سرحد پار کرنے کا خیال بھی اپنے  ذھن میں نھیں لاسکتا چہ جائےکہ عملا بہ اقدام کرے ۔ایسا انسان اس عمل کے سلسلہ میں ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ھے۔

          زیادہ دور نہ جائےں ،ھرعاقل انسان جسے اپنی زندگی سے پیار ھے ،قاتل زھر کے مقابل جس کا کھانا اس کے لئے جان لیوا ھوگایابجلی کے ننگے تار کے مقابل جس کا لمس کرنا اسے جلاکر سیاہ کردے گایا اس بیمار کی بچی ھوئی غذا کے مقابل-- جسے ”جذام“یا”برص“کی شدید بیماری ھوئی ھو--  جس کے کھانے سے اس کے اندر یہ مرض سرایت کرجائے گا،ایک طرح کا تحفظ اور عصمت رکھتاھے۔یعنی وہ ھرگز اور کسی بھی قیمت پر یہ اعمال انجام نھیں دیتا اور اس سے ان اعمال کا ھونا ایک”محال عادی“ھے۔ اس کااس طرح سے محفوظ ومعصوم رھنے کا سبب بھی ان اعمال کے برے نتائج کا اس کی نظر میں مجسم ھونا ھے۔عمل کے خطرناک آچار اس کی نظر میں اس قدر مجسم اور اس کے دل کی نگاہ میں اتنے نمایاں ھوجاتے ھیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی انسان اپنے ذھن میں ان کاموں کے انجام دینے کا خیال تک نھیں لاتا،چہ جائے کہ وہ یہ عمل انجام دے ڈالے۔

          ھم دیکھتے ھیں کہ ایک شخص یتیم وبےنوا کا مال ھضم کرجانے میں کوئی باک نھیں رکھتا جبکہ اس کے مقابل دوسرا شخص ایک پیسے حرام کھانے سے بھی پرھیز کرتا ھے ۔پھلا شخص پوری بے باکی کے ساتھ ےتیموں کا مال کیوں کھا جاتاھے لیکن دوسرا شخص حرا م کے ایک پیسہ سے بھی کیوں پرھیز کرتاھے؟

           اس کاسبب یہ ھے کہ پھلا شخص سرے سے اس قسم کی نافرمانی کے برے انجام کا اعتقادھی نھیں رکھتا اور اگر قیامت کا تھوڑا بھیت ایمان رکھتا بھی ھے جب بھی تیزی سے تمام ھوجانے والی مادی لذتیں اس کے دل کی آنکھوں پر اس کے برے انجام کی طرف سے ایسا پردہ ڈال دیتی ھےں کہ ان کے برے آثار کا ایک ھلکا ساسایہ اس کی عقل کی نگاھوں کے سامنے سے گذر کر رہ جاتاھے اور اس پر کوئی اثر نھیں ھوتا ۔ لیکن دوسراشخص اس گناہ کے برے انجام پر اتنا یقین رکھتا ھے کہ مال یتیم کا ھر ٹکڑا اس کی نظر میں جھنم کی آگ کے ٹکڑے کے برابر ھوتا ھے اور کوئی عقلمند انسان آگ کھانے کا اقدام نھیں کرتا ،کیونکہ وہ علم وبصیرت کی نگاہ سے دیکہ لیتا ھے کہ یہ مال کس طرح جھنم کی آگ میں بدل جاتاھے ۔لھٰذا وہ اس عمل کے مقابل محفوظ ومعصوم رھتاھے۔

           اگر پھلے شخص کو بھی ایسا ھی علم اور ایسی ھی آگاھی حاصل ھوجائے تو وہ بھی دوسرے شخص کی طرح یتیم کا مال ظالمانہ طریقہ سے ھڑپ نہ کرے گا۔جو لوگ سونے اور چاندی کادھیر اکٹھا کرلیتے ھیں اور خدا کی طرف سے واجب حقوق کو ادا نھیں کرتے قرآن مجید ان کے سلسلہ میں فرماتا ھے :یھی سونا چاندی قیامت کے دن آگ میں بدل جائے گا اور اس سے ان کی پیشانی پھلووٴں اور پشت کو داغا جائے گا۔  (177)

          اب اگر ایسا خزانہ رکھنے والے اس منظر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکہ لیں اوریہ دیکہ لیں کہ ان جیسے افراد کاکیا انجام ھوا،اس کے بعد انھیں تنبیہ کی جائے کہ اگر تم بھی اپنی دولت کو جمع کرکے رکھوگے اور خدا کی راہ میں خرچ نھیں کروگے تو تمھارا بھی یھی انجام ھوگا تو وہ بھی فوراً اپنی چھپائی ھوئی دولت کو نکال کر خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالیں گے۔

           اکثر بعض افراد اسی دنیا میں الٰھی سزا وعذاب کے اس منظر کو دیکھے بغیر اس آیت کے مفھوم پر اس قدر ایمان رکھتے ھیں جو دیکھی ھوئی چیز پر ایمان سے کم نھیں ھوتا ۔یھاں تک کہ اگر دنیا وی و مادی پردے ان کی نگاھوں سے ھٹا دیئے جائیں جب بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نھیں آتا ۔ایسی صورت میں یہ شخص اس (خزانہ جمع کرنے کے ) گناہ سے محفوظ رھتا ھے ،یعنی ھر گز سونا چاندی اکٹھا نھیں کرتا ۔

          اب اگر ایک شخص یا ایک گروہ کائنات کے حقائق کے سلسلہ میں کامل اور حقیقی آگاھی و معرفت رکھنے کی وجہ سے تمام گناھوں کے انجام کے سلسلہ میں ایسی ھی حالت رکھتا ھو اور گناھوں کی سزا ان پر اس قدر نمایاں اور واضح ھو کہ مادی حجاب نگاھوں سے اٹھنے یا زمان و مکان کے فاصلوں کے باوجود ان کے ایمان و اعتقاد میں کوئی فرق نھیں آتا تو اس صورت میں یہ شخص یا وہ گروہ ان تمام گناھوں کے مقابل سو فی صدی تحفظ اور عصمت رکھتا ھے ۔نتیجہ میں ان سے نہ صرف گناہ سرزد نھیں ھوتے بلکہ انھیں گناہ کا خیال بھی نھیں آتا۔

          لھٰذا یہ کھنا چاھئے کہ عصمت کسی ایک چیز یا تمام چیزوں میں اعمال کے انجام و نتائج کے قطعی علم اور شدید ایمان کے اثر سے پیدا ھوتی ھے ْاور ھر انسان بعض امور کے سلسلہ میں ایک طرح کی عصمت رکھتا ھے مگر انبیائے الٰھی اعمال کے انجام سے مکمل آگاھی اور خدا کی عظمت کی کامل معرفت کی وجہ سے تمام گناھوں کے مقابل مکمل عصمت رکھتے ھیں اور اسی علم و یقین کی بنا پر گناہ کے تمام اسباب،  خواھشوں اور شھوتوں پر قابو رکھتے ھیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کے معین کردہ حدود سے سرکشی نھیں کرتے ۔

          آخر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضرور ی ھے کہ یہ صحیح ھے کہ انبیائے کرام گناہ اور ھر طرح کی نافرمانی سے محفوظ ھیں ، لیکن اس تحفظ کا یہ مطلب نھیں ھے کہ وہ گناہ کے کام انجام دینے کی توانائی نھیں رکھتے اور خدا کا حکم بجا لانے پر مجبور ھیں ۔ بلکہ یہ حضرات بھی تمام انسانوں کی طرح عمل کی آزادی اور اختیار رکھتے ھیں اور اطاعت یا نافرمانی دونوں پر انھیں قدرت حاصل ھے لیکن یہ لوگ اپنی باطنی آنکھوں سے  -- جو کائنات کے حقائق سے متعلق ان کے وسیع علم کی وجہ سے انھیں حاصل ھوئی ھیں  -- اعمال کے نتائج و انجام کا مشاھدہ کرلیتے ھیں اور ان نتائج سے جنھیں شریعت کی زبان میں عذاب کھا جاتا ھے ،واقف و آگاہ رھتے ھیں، لھٰذا ھر طرح کے گناہ اور نافرمانی سے پرھیز کرتے ھیں ۔اسے سمجھنے کے لئے حسب ذیل عبارت پر غور کیجئے :

          اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ خدا وند عالم ھر طرح کے برے اور قبیح کا م انجام دینے پر قادر ھے لیکن اس سے کبھی اس طرح کام صادر نھیں ھوتا جو اس کے عدل اور اس کی حکمت کے خلاف ھو اس کے باوجود ھم یہ نھیں کھہ سکتے کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے کی قدرت نھیں رکھتا ۔ بلکہ وہ ھر شئے پر قادر ھے ۔ معصوم افراد بھی گناہ کے سلسلہ میں یھی کیفیت رکھتے ھیں وہ لوگ بھی گناہ کرنے کی قدرت و توانائی رکھنے کے باوجود معصیت و گناہ کی طرف نھیں جاتے۔

Add comment


Security code
Refresh