www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دوسری فصل

امامت کے سلسلہ میں دو نظر یئے

  خلافت ،علمائے اھل سنت کی نظر میں ،ایک ایسا اجتماعی و سماجی عھدہ و منصب ھے جس کے لئے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نھیںھے۔جب کہ شیعی نقطہ ٴ   نظر سے امامت ایک الٰھی منصب ھے جس کا تعین خدا کی طرف سے ضروری ھے اور وہ بھت سے حالات اور ذمہ داریوںمیں پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر و یکساں ھے۔

 لھٰذا امامت کی حقیقت کے سلسلے میں علماء کے یھاں دو نظر یئے پائے جاتے ھیں ایک نظریہ اھل سنت کے علماء کا ھے اور دوسرا شیعہ علماء کا نظریہ ھے:

الف۔ علمائے اھل سنت کا نظریہ 

 علمائے اھل سنت کی عقائد و کلام کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ھیں کہ امامت ان کی نظرمیں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کے دینی و دنیوی امور کی سر پرستی ھے اور خود ”امام “اور ان کی اصطلاح میں ”خلیفھ“ وہ شخص ھے جو پیغمبراکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ھے اور مسلمانوں کے دینی و دنیاوی امور سے مربوط ھر گرہ اسی کے ذریعہ کھلتی ھے۔

یہ علماء ،امامت کی یوں تعریف کرتے ھیں:

 الامامة رئاسة عامة فی امور الدین و الدنیا خلافة عن النبی(ص)“ (5)

 اھل سنت کے نظر یہ کے مطابق یہ عظیم دینی و اجتماعی عھدہ و منصب ایک سماجی بخشش ھے جو لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا ھوئی ھے اور خلیفہ انتخاب کے ذریعہ اس مرتبہ پر فائز ھوا ھے ۔  خلیفہ کی ذمہ داریوںکا دائرہ بھی مذکورہ تعریف میں پورے طور سے مشخص کر دیا گیا ھے۔

الف:۔دینی امور کی سرپرستی :اس سے مراد یہ ھے کہ لوگوں کے دینی مشکلات خلیفہ کے ھاتھوں حل ھوتے ھیں مثلا پوری دنیا میں جھاد کے ذریعہ اسلام کی توسیع ایک دینی امر ھے جس کا عھدہ دار امام کو ھونا چاھئے ۔

ب: ۔ دنیاوی امور کی سرپرستی :امام و خلیفہ کو چاھئے کہ طاقت کے ذریعہ عمومی امن و امان قائم کرے اور لوگوں کے اموال ان کی ناموس اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔

 اس تعریف اورخلیفہ کے سپرد کی گئی ذمہ داریوں پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ھے اور وہ یہ کہ امام یا خلیفہ ان کے نقطہ نظر سے ایک فرعی اور ایک سماجی حاکم ھے جو ملکی قوانین کا اجراء کرنے عمومی امن و امان قائم کرنے اور سماجی عدل وانصاف برقرار کرنے کے لئے منتخب ھوا ھے اور اس طرح کی حاکمیت کے لئے لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط نھیں ھے (نہ اسلامی احکام کے کلی و وسیع علم کی ضرورت ھے اور نہ سھو وخطا سے معصوم ھونے کی ضرورت ھے)

 دوسرے لفظوں میں کوئی بھی معاشرہ چاھے جتنا بھی گناہ اور فسادسے پاک ھو پھر بھی برائی پورے طور سے اس سے دور نھیں ھوتی اور کھیں نہ کھیں گوشہ و کنار میں ایسے شر یر افراد ضرور نظر آتے ھیںجو جوا وشراب کی طرف ھاتھ بڑھاتے نظر آتے ھیں یا لوگوں کے عمومی اموال و جائداد پر زبردستی ڈاکاڈالتے ھیں اور ان پر قابض ھو جاتے ھیں یا لوگوں کی عزت و ناموس پر حملے کی فکر میں رھتے ھیں۔

 اس لئے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد ایک ایسے شائستہ و لائق شخص کی ضرورت ھے جو گناہ گاروں اور فسادیوں کی الٰھی قانون کی روشنی میں تنبیہ کرکے اس طرح کی برائیوں اور آلودگیوں کو روکے ۔یہ اور اسی طرح کے امور وہ ھیں جو انسان کی دنیا سے مربوط ھیں، جن کی سرپرستی      پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امام کے حوالے کی گئی ھے۔

 مذکورہ امور کے مقابل کچہ دوسرے امور بھی ھیں جو دنیا میں اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ سے مربوط ھیں اور جن کا تعلق انسان کے دین سے ھے ۔ مثلاً امام کا ایک فریضہ یہ ھے کہ اسلحوں سے لیس ایک منظم اور مضبوط فوج تیار کرے جو نہ صرف اسلامی سرحدوں کو ھر طرح کے باھری حملوں سے محفوظ رکھے بلکہ اگر ممکن ھو تو جھاد کے ذریعہ توحید کا پیغام پوری دنیا میں پھیلاسکے۔

 اب یھاں آپ یہ کھیں گے کہ پھر لوگ اپنے حرام و حلال اور دینی و علمی مسائل کس سے دریافت کریں گے، اور اس عھدہ کا ذمہ دار کون ھوگا ؟ تو اس کے جواب میں علمائے اھل سنت کھیں گے کہ اصحاب پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جنھوں نے آنحضرت سے حرام و حلال کے احکام سیکھے ھیں اس طرح کے مسائل میں امت کے مرجع ھیں ۔

 اگر امام کی ذمہ داری ان ھی امور کی دیکہ بھال میں منحصر ھو ،جنھیں ھم نے اھل سنت کی زبانی نقل کیاھے ، تو ظاھر ھے کہ ایسے امام کے لئے صرف تھوڑی سی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی بھی اخلاقی فضیلت اور انسانی کمال کی ضرورت نھیں ھے ، چہ جائیکہ اس کے بارے میں وسیع علم اور خطا و گناہ سے بچانے والی عصمت کی شرط رکھی جائے۔

 افسوس کہ امام کا معنوی و روحانی مرتبہ و منصب اھل سنت کی نظر میں رفتھ رفتھ اس قدر گر گیا کہ قاضی باقلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتاھے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خصلتوں کی غلاظت اور اپنے کالے سیاسی کارناموں کے باوجود امت کی قیادت و رھبری کے منصب پر باقی رہ سکتا ھے !وہ کھتا ھے:

لا یخلع الامام بفسقہ و ظلمہ بغصب الاموال و تناول النفوس المحترمة و تضییع الحقوق و تعطیل الحدود“ ( 6)

یعنی امام اپنے فسق وفجور اور ظلم کے ذریعہ ،لوگوں کے اموال غصب کرکے ، محترم افراد کو قتل کرکے ،حقوق کو ضائع کرکے اور الٰھی حدود و قوانین کو معطل کرکے بھی اپنے منصب سے معزول نھیں ھوتا بلکہ یہ امت پر ھے کہ اس کی برائیوں کو درست کریں اور اس کی و ھدایت کریں!

 اور ھمیں مزید تعجب نہ ھوگا اگر ھم محقق تفتازانی جیسے عالم کو خلیفہ ٴ  پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بارہ میں ایسے خیالات کا اظھار کرتے ھوئے دیکھیں،وہ لکھتے ھیں:

 یہ ھرگز ضروری نھیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ھو یاامت کی سب سے اعلیٰ فرد شمار ھو۔ امام کی نافرمانی اور الٰھی احکام سے اس کی جھالت منصب خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ھرگز نھیں ھوسکتی․(7)

 خلیفہ ٴاسلام کے بارے میں اس طرح کے فیصلوں اور نظریوں کی بنیاد یہ ھے کہ ان لوگوں نے امام کو ایک عرفی اور انتخابی حاکم سمجہ لیا ھے ۔کیونکہ ایک عرفی حاکم کے لئے بنیادی شرط یہ ھے کہ وہ نظام کو چلانے اور معاشرہ میں آرام و سکون برقرار کرنے کی لازمی صلاحیت رکھتا ھو اور فسادیوں کو کنٹرول کرسکے ۔خود اس کا گناہ سے آلودہ ھونا یا اس کی غلطیاںاس منصب کی راہ میں رکاوٹ نھیں بنتیں جس کے لئے وہ منتخب ھواھے ۔

ب۔ شیعہ علماء کا نظریہ 

 مذکورہ بالا نظریہ کے مقابل ایک دوسرا نظریہ بھی ھے جس پر شیعہ علماء تکیہ کرتے ھیں ۔یہ نظریہ کھتاھے کہ :امامت ایک طرح کی الٰھی ولایت ھے جو خداوند عالم کی جانب سے بندہ کو دی جاتی ھے۔ واضح الفاظ میں یوں کھیں کہ : امامت ،نبوت کی طرح ایک انتصابی منصب ھے اور اس کا عھدہ دار خود خدا کی طرف سے ،معین و منصوب ھوتا ھے ۔

 اس بنیاد پر امام رسالت ھی کا سلسلہ ھے فرق یہ ھے کہ پیغمبر شریعت کی بنیاد رکھنے والا اورآسمانی پیام لانے والاھے اور امام شریعت کو بیان کرنے والا اور اس کا محافظ و نگھبان ھے ۔امام ، نزول وحی کے علاوہ تمام مراتب میں پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر اور قدم بقدم ھے اور وہ تمام شرائط جوپیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ضروری و لازم قرار دیے گئے ھیں (مثلاً اسلام کے معارف،اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ھر طرح کی خطاو گناہ سے اس کا محفوظ ھونا) بعینہ امام کے لئے بھی لازم و ضروری ھیں۔

 یہ نظریہ رکھنے والے معتقد ھیں کھ: صحیح ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)لوگوں کے لئے مکمل دستور حیات لائے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات اور دین حق کے تمام کلیات لوگوں کے حوالے کردئیے لیکن پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات کے بعد کوئی تو ایسا شخص ھونا چاھئے جو ان کلیات سے جزئی احکام کو استنباط کرے اورنکالے اور یہ کام علم (اور وہ بھی وسیع اور خدا داد علم )کے بغیر ممکن نھیں ھے۔

 صحیح ھے کہ اسلام کے تمام احکام کی تشریح پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ میں ھوئی ھے اور یہ احکام وحی الٰھی کے ذریعہ انھیں بتائے گئے ھیں۔لیکن مساعدحالات نہ ھونے یا روزانہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کے لئے احکام کا بیان امام کے ذمہ بھی کیا گیا ھے ،اور اس منصب کا سنبھالنا اللہ سے وابستہ اور مستند علم کے بغیر ممکن نھیں ھے۔اسی لئے شیعوں کا اعتقاد ھے کہ امام کو شریعت کے تمام امور سے واقف و آگاہ ھونا چاھئے۔  (۸)

 لیکن امام معصوم کیوںھو؟تو جواب یہ ھے کہ شیعہ امام کو امت کا معلم و مربی جانتے ھیں اور تربیت سب سے زیادہ عملی پھلو رکھتی ھے اور مربی کے عمل کے ذریعہ انجام پانی چاھئے۔اگر مربی خود قانون توڑنے والا اور حدود کو پھچاننے والا نہ ھوتو لوگوںپر مثبت اثر کیسے ڈال سکے گا؟لھٰذا یہ نظریہ کھتا ھے کہ امت کے لئے ایسے شخص کی شناخت وسیع و خداداد علم اور ھمہ جھت عصمت کے ذریعہ ھی ممکن ھے اور امام کو خدا کی جانب سے منصوب ھونا چاھئے۔

 یہ دو نظریے ھیں جو ان دونوں گروھوں کے علماء کے ذریعہ بیان ھوئے ھیں۔اب ھم دیکھیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ صحیح و استوا ر نیز قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی معتبر حدیث سے سازگار ھے ۔

Add comment


Security code
Refresh