www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

چھبیسویں فصل

کون سی تعبیر صحیح ھے ”عترتی“ یا”سنتی“

          اگر چہ کتاب اپنے اختتام کو پھنچ چکی تھی لیکن یھاں دوموضوع پر گفتگو لازمی وضروری ھے۔

          1۔حدیث ثقلین سے متعلق گفتگوھوتی ھے توبعض اھل سنت لفظ”عترتی“کی جگہ  ”سنتی “ استعمال کرتے ھیں اور ”کتاب اللہ وسنتی“کھتے ھیں۔

          2۔اھل سنت حضرات پیغمبر اکرم پر درود بھیجتے وقت ان کی آل کو شامل نھیں کرتے ۔

          یہ دو موضوع شیعہ اور اھل سنت دونوں گروھوں کے درمیان اختلاف کاسبب ھیں لھٰذا یھاں ان دونوں موضوعات کاجائزہ لیاجارھاھے۔

          1۔ کون سی تعبیر صحیح ھے :

          امامیہ متکلمین جیسے صدوق ،طوسی اور مفید رضوان اللّٰہ علیھم  نے بھت سے کلامی مسائل میں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت واھل بیت(ع)کی احادیث سے استدلال کیا ھے اور اس سلسلہ میں حدیث ثقلین کاسھارا لیتے ھیں جب کہ بعض محدثوںنے مذکورہ حدیث کو دوسری شکل میں نقل کیا ھے اور لفظ ”عترتی“کے بجائے ”سنتی “لائے ھیں ۔حدیث ثقلین کے متن میں اس اختلاف کے ھوتے ھوئے اس کے ذریعہ کلامی مسائل میں استدلال کیسے کیا جاسکتا ھے ؟

          وضاحت: امامیہ شیعہ جو اصول وعقائد میں برھان وعقلی دلیل کی پیروی کرتے ھیں ،اھل بیت (ع)کے اقوال و احادیث کوبھی اگر صحیح نقل ھوئی ھوں تواصول وفروع میں حجت جانتے ھیں ۔فرق یہ ھے کہ فروعی وعملی مسائل میں خبر صحیح کو مطلق طور سے حجت جانتے ھیں چاھے وہ خبر واحد کی صورت میں کیوں نہ ھو لیکن اصول وعقائد سے مربوط مسائل میں چونکہ مقصد اعتقاد ویقین پیدا کرنا ھے اور خبر واحد یقین کی حد تک نھیں پھنچاتی لھٰذا صرف اس قطعی خبر کو جس سے یقین وعلم حاصل ھوتا ھو حجت شمار کرتے ھیں ۔اھل بیت (ع)کے اقوال کی حجیت کی ایک دلیل حدیث ثقلین ھے جسے بھت سے اسلامی محدثوں نے قبول کیا ھے اور وہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم نے ارشاد فرمایاھے:

”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہوعترتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا“

          لیکن چونکہ بعض روایات میں ”عترتی“کے بجائے”سنتی “آیاھے ،اسی لئے یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ ان دو روایتوں میں سے کون صحیح ودرست ھے ؟اس لئے کلامی مسائل میں اھل بیت(ع)کی احادیث کے ذریعہ استدلال پر سوالیہ نشان لگ گیاھے ؟جس کے جواب میں علمائے شیعہ کی طرف سے رسالے اور کتابیں لکھی گئی ھیں جن میں سب سے اھم کتاب ”دار التقریب بین المذاھب الاسلامیة“کی جانب سے قاھرہ مصر میں شائع ھوچکی ھے۔

          ابھی کچھ عرصہ پھلے اردن کے ایک اھل سنت عالم ”شیخ حسن بن علی سقاف“نے اس سوال کا جواب دیاھے ،ھم قارئین کرام کی خدمت میں اس کاترجمہ پیش کرتے ھیں اور چونکہ ان کا جواب سوفیصدی تحقیقی ھے لھٰذا اسی پر اکتفاکرتے ھیںآخر میں ایک یاد دھانی شیخ سقاف کی خدمت میں بھی کریں گے۔

 

سوال:

          مجھ سے حدیث ثقلین کے بارے میں سوال کیا گیا اور دریافت کیا گیا ھے کہ ”عترتی واھل بیتی“صحیح ھے یا”کتاب اللّٰہ وسنتی“آپ سے درخواست ھے کہ سند کے اعتبار سے اس حدیث کی وضاحت فرمائیے۔

 

جواب:

          اس متن کو دو بڑے محدثوں نے نقل کیاھے:

    1۔   مسلم نے اپنی صحیح میں جناب زید بن ارقم  ۻسے نقل کیاھے ۔وہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اسلام نے ایک روز مکہ اور مدینہ کے در میان ”خُم “نام کی جگہ پر ایک خطبہ ارشاد فرمایااور اس میں خدا کی حمد وثنا اور لوگوں کو نصیحت فرمائی ۔اس کے بعد فرمایا:

”یا ایھا الناس!فانما انا بشر یوشک ان یاتی رسول ربی فاجیب وانا تارک فیکم ثقلین :اولھما کتاب اللّہفیہ الھدیٰ والنور ،فخذوا بکتاب اللّٰہ واستمسکوا بہ فحثّ علیٰ کتاب اللّٰہ ورغّب فیہ ثم قال واھل بیتی،اذکّرکم اللّٰہ فی اھل بیتی،اذکّرکم اللّہفی اھل بیتی،اذکّرکم اللّہفی اھل بیتی“

اے لوگو !میں انسان ھوں ممکن ھے کہ عنقریب خدا کا فرستادہ میرے پاس آئے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کھوں ۔میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ۔ایک اللہ کی کتاب ھے ،جس میں ھدایت و نور ھے ۔پس اللہ کی کتاب کو حاصل کرو اور اس سے تمسک اختیار کرو ،

پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی تاکید کی اس کے بعد فرمایا: اور میرے اھل بیت (ع)،میں تمھیں اپنے اھلبیت(ع)کے لئے خدا کی یاد دلاتا ھوں (یہ جملہ آپ نے تین بار فرمایا)

          اس متن کو مسلم   (185) نے اپنی صحیح میں اور دارمی نے اپنی سنن  (186) میں ذکر کیا ھے اور دونوں کی سند آفتاب کی طرح روشن ھے ان سند میں ذرہ برابر بھی خدشہ نھیں ھے۔

    2۔   ترمزی نے بھی اس متن کو ” عترتی اھل بیتی “ کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ھے۔حدیث کا متن یوں ھے :

” انّی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی ، احدھما اعظم من الاخر کتاب اللّٰہ حبل ممدود من السماء الیٰ الارض و عترتی اھل بیتی لن یفترقا حتٰی یردا علیّ الحوض ،فانظر وا کیف تخلفونی فیھا“  (187)

”میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ،جب تک تم اس سے متمسک رھو گے ھر گز گمراہ نھیں ھوگے ان میں سے ایک دوسرے سے بزرگ ھے ۔ اللہ کی کتاب ریسمان رحمت جو آسمان سے زمین کی طرف آویزاں ھے ۔اور میری عترت و اھل بیت (ع)۔یہ دونوں ایک دوسرے سے ھر گز جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آجائیں ۔ اب دیکھو میری ان دونوں میراثوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ھو۔

          یہ دونوںمتن کہ دونوں میں لفظ ”اھل بیت “ کی تاکید ملتی ھے اس سلسلہ میں جواب کے طور پر کافی ھیں دونوں کی سندوں میں کمال یقین پایا جاتا ھے اور اس میں کسی بحث کی ضرورت نھیں ھے ۔ دونوں حدیثی متن کے ناقل صحاح و سنن ھیں جو ایک خاص اعتبار رکھتے ھیں ۔

 

”و سنتی “کے متن کی سند

          وہ روایت جس میں ”اھل بیتی “ کے بجائے لفظ ” سنتی“ آیا ھے ۔ جعلی حدیث ھے جو سند کے ضعف کے علاوہ امویوں سے وابستہ افراد کے ھوتھوں گڑھی ھوئی ھے ۔ ذیل میں ھم اس حدیث کی اسناد کا جائزہ لیتے ھیں:

 

پھلی سند ،حاکم کی روایت :

          حاکم نیشاپوری نے اپنی ”مستدرک “ میں حسب ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ھے-:

              1۔اسماعیل بن ابی اویس

              2۔ابی اویس

              3۔ثور بن زید الدیلمی

              4۔عکرمہ

              5۔ابن عباس کہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا-:

” یا ایھا الناس انی قدترکت فیکم ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہو سنة نبیہ"  (188)

          اے لوگو!میںنے تمھارے درمیان دو چیزیں ترک کیں جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رھو گے ھر گز گمراہ نہ ھوگے ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی  کی سنت۔

 

          اس متن کی سندکی مشکل اسماعیل بن ابی اویس اور ابو اویس ھیں۔ ان باپ اور بیٹوں کی نہ صرف توثیق نھیں ھوئی ھے بلکہ ان پر جھوٹ اورحدیث گڑھنے کا الزام ھے ۔ اب ان کے بارے میں علمائے رجال کی آرا ء ملاحظہ فرمائیں:

          حافظ مزی نے اپنی کتاب ”تھذیب الکمال “ میں اسماعیل اور اس کے باپ کے بارے میں رجال کے محققین کی زبانی یوں نقل کیا ھے:

          یحییٰ بن معین ( جو علم رجال کے بڑے عالم ھیں) کھتے ھیں ۔ابو اویس اور اس کا بیٹا ضعیف ھیں ، یحییٰ بن معین سے یہ بھی نقل ھے کہ یہ دونوں حدیث چراتے ھیں ۔ ابن معین نے اس کے بارے میں یہ بھی کھا ھے کہ : اس کی بات پر اعتماد نھیں کیا جا سکتا۔

          نسائی نے بیٹے کے بارے میں کھا ھے کہ : وہ ضعیف ھے اور ثقہ نھیں ھے ۔ ابو القاسم لالکائی نے کھا ھے کہ نسائی نے اس کے خلاف بھت کچھ کھا ھے ۔ یھاں تک کہ اس نے کھا ھے : اس کی حدیث کو ترک کر دینا چاھئے ۔

          رجال کے ایک عالم ابن عدی نے کھا ھے : ابن ابی اویس نے اپنے ماموں مالک سے مجھول حدیثیں نقل کی ھیں جنھیں کوئی قبول نھیں کرتا۔  (189)

          ابن حجرنے فتح الباری کے مقدمہ میں لکھا ھے : ابن ابی اویس کی حدیث کے ذریعہ ھر گز استدلال نھیں کیا جا سکتا ۔ کیوں کہ نسائی نے اس کی مذمت کی ھے۔  (190)

          حافظ سید احمدبن الصدیق نے کتاب ” فتح الملک العلّی “ میں سلمہ بن شبیب سے نقل کیا ھے کہ اس نے اسماعیل بن ابی اویس کو کھتے ھوئے سنا ھے : جب اھل مدینہ کسی موضوع کے بارے میں دو گروھوں میں تقسیم ھو جاتے ھیں تو میں حدیث گڑھتا ھوں۔  (191)

          لھٰذا بیٹا (اسماعیل بن ابی اویس)وہ ھے جس پرحدیث گڑھنے کا الزام ھے اور ابن معین اسے جھوٹا کھتے ھیں مزید یہ کہ اس کی حدیث کسی بھی کتب صحاح میں نقل نھیں ھوئی ھے ۔

          اور باپ کے بارے میںیھی کھنا کافی ھے کہ ابو حاتم رازی نے کتاب ” جرح و تعدیل “ میں لکھا ھے : اس کی حدیث لکھی جاتی ھے لیکن اس کے ذریعہ احتجاج و استدلال نھیں کیا جاتا۔ اور اس کی حدیث قوی و محکم نھیں ھے ۔ (192)

          نیز ابو حاتم نے ابن معین سے نقل کیا ھے کہ ابو اویس قابل اعتماد نھیں ھے۔

          جو روایت ان دونوں کی سند کے ذریعہ بیان ھو ھر گز صحیح نھیں ھوگی ۔جب کہ یہ روایت صحیح و ثابت روایت کے مخالف و مقابل ھے۔

          قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ حدیث کے ناقل یعنی حاکم نیشا پوری نے اس حدیث کے ضعیف ھونے کا اعتراف کیا ھے لھٰذا اس کی سند کی تصحیح نھیں کی ھے لیکن اس کے مفاد کی صحت پر گواہ لے آئے ھیں کہ وہ بھی سند کے اعتبار سے سست اور اعتبار کے درجہ سے ساقط ھے ۔ اس لئے حدیث کی تقویت کے بجائے اس کے ضعف میں اضافہ ھی ھوا ھے۔

 

وسنتی کی دوسری سند

          حاکم نیشاپوری نے ابو ھریرہ سے بطور مرفوع  (193)  نقل کیا ھے:

”انّی قد ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعدھما:کتاب اللہوسنتی ولن یفترقا حتٰی یردا علیّ الحوض“(194)

اس متن کو حاکم نے اس سند کے ذریعہ نقل کیاھے:

          1۔الضبی،از

          2۔صالح بن موسیٰ الطلحی،از

          3۔عبد العزیزبن رفیع از

          4۔ابی صالح ،از

          5۔ابی ھریرہ.

          یہ حدیث پھلی حدیث کی طرح جعلی ھے۔اور اس کی سند کے در میان صالح بن موسیٰ الطلحی پر انگلی رکھی جاسکتی ھے۔اب ھم اس کے بارے میں علمائے علم رجال کے نظریات نقل کرتے ھیں:

          یحییٰ بن معین کابیان ھے کہ صالح بن موسیٰ قابل اعتماد نھیں ھے۔ابو حاتم رازی کا قول ھے کہ اس کی حدیث ضعیف اور منکر ھے۔وہ بھت سی منکر حدیثوں کو ثقہ افراد کے نام سے نقل کرتاھے ۔نسائی کابیان ھے کہ اس کی حدیث لکھی نھیں جاتی اور دوسری جگہ کھتے ھیں :اس کی حدیث متروک ھے۔  (195)

          ابن حجر ”تھذیب التھذیب “میں لکھتے ھیں کہ ابن حبان نے کھاھے :صالح بن موسیٰ ،ثقہ افراد سے ایسی چیزیں منصوب کرتاھے جو ان کی باتیں نھیں لگتیں۔اور آخر میں ابن حجر نے لکھا ھے کہ : اس کی حدیث حجت نھیں ھے ،اور ابو نعیم کھتے ھیں کہ"اس کی حدیث متروک ھے وہ ھمیشہ منکر حدیث نقل کرتاھے۔  (196)

متروک ھے اور ذھبی،کتاب ”کاشف “(198) 1# میں لکھتے ھیں :اس کی حدیث سست       ایک دوسری جگہ ابن حجر کتاب تقریب (197) میں لکھتے ھیں :اس کی حدیث ھے۔آخرمیں ذھبی نے”میزان الاعتدال“ (199) 2#  میں مذکورہ بالا حدیث کو نقل کرتے ھوئے لکھاھے کہ اس کی حدیثیں منکر ھوتی ھیں۔

 

حدیث ”وسنتی “کی تیسری سند:

          ابن عبد البر نے کتاب ”تمھید“ (200) 3#  میں اس متن کو حسب ذیل سند کے ساتھ ذکر کیاھے :

          1۔عبد الرحمان بن یحییٰ ۔از

          2۔احمد بن سعید۔از

          3۔محمد بن ابراھیم الدبیلی۔از

          4۔علی بن زید الفرائضی۔از

          5۔الحنینی۔از

          6۔کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف ۔از

          7۔اس کے باپ نے اس کے داداسے

          ھم ان راویوں کے در میان کثیر بن عبد اللہ پر انگلی رکھتے ھیں۔امام شافعی لکھتے ھیں :وہ جھوٹ کے ارکان میں سے ایک ھے۔ (201) 4#  ابو داود کابیان ھے:وہ کذابوں اور بڑے جھوٹوں میں سے ھے(202)  5#   ابن حیان کھتے ھیں :عبداللہ بن کثیرنے اپنے باپ اور دادا سے حدیث کی کتاب نقل کی ھے جس کی بنیاد جعلی حدیثوں پر ھے کہ اس کتاب سے نقل کرنااور عبداللہ سے روایت کرنا حرام ھے اور فقط تعجیب وتنقید کے لئے اس کی روایت نقل کی جاسکتی ھے۔ (203) 6#

  4۔  کاشف ،ذھبی،ترجمہ نمبر2412

  5۔میزان الاعتدال،ذھبی،ج/2،ص 302

  3۔  التمھید:ج/24،ص331

  4۔5۔  تھذیب التھذیب ،ابن حجر ،ج/1ص/377،طبع دارالفکر۔تھذیب الکمال:ج/24،ص138

  6۔المجروحین از ابن حبان،ج/2،ص221

          نسائی اور دار قطنی کھتے ھیں :اس کی حدیث متروک ھے۔امام احمد بن حنبل کھتے ھیں کہ :وہ منکر الحدیث ھے اور قابل اعتماد نھیں ھے۔ابن معین نے بھی یھی بات اس کے بارے میں کھی ھے۔

          ابن حجر کے اوپر تعجب ھے کہ انھوں نے کتاب ”التقریب“ میں اس کے حالات بیان کرتے ھوئے اسے صرف ضعیف لکھا ھے اور جن لوگوں نے اسے جھوٹا کھاھے انھیں افراطی کھاھے،جبکہ علم رجال کے پیشواوٴں نے اسے جھوٹا اور جعل ساز قرار دیا ھے یھاں تک کہ ذھبی کھتے ھیں کہ :اس کی باتیں فضول وضعیف وبیکار ھیں۔

بغیر سند کی روایت

          امام مالک نے کتاب ”الموطّا“میں اس روایت کو سند کے بغیر بطور مرسل نقل کیاھے۔اور سب جانتے ھیں کہ ایسی حدیث کوئی اھمیت نھیںرکھتی۔  (204)

          مذکورہ بالا باتیں پوری طرح سے یہ بات ثابت کرتی ھےںکہ ”وسنتی“والی حدیث جھوٹے اور اموی دربار سے وابستہ راویوں کی جعلی اور گڑھی ھوئی حدیث ھے جو انھوں نے حدیث صحیح کے مقابلہ میں گڑھی ھے ۔لھٰذامسجدوں کے اماموں ،خطیبوں اور اھل منبرحضرات پر واجب ھے کہ جو حدیث حضرت رسول اکرم سے وارد نھیں ھوئی ھے اسے ترک کردیں اور اس کے بجائے لوگوں کوصحیح حدیث سے آگاہ کریں ۔جس حدیث کو مسلم نے”اھل بیتی“کے ساتھ اور ترمذی نے ”عترتی واھل بیتی“کے ساتھ نقل کیاھے اسے بیان کریں ۔طالب علموں پر لازم ھے کہ علم حدیث کی طرف توجہ کریں اور صحیح وضعیف حدیث میں فرق کو سمجھیں۔

          آخر میں ،میں یہ یاد دھانی کرانا چاھتاھوں کہ لفظ”اھل بیتی“میں پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذریت مثلاً حضرت فاطمہ وحسن وحسین علیھم السلام بھی داخل ھیں،کیونکہ مسلم نے اپنی صحیح (205)میں اور ترمذی  نے اپنی سنن  (206)  میں خودام المومنین عایشہ سے نقل کیا ھے کہ"

          ”نزلت ھذہ الآیةعلی النبی (صل اللہعلیہ و آلہ وسلم) ”انما یریداللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا“فی بیت ام سلمة،فدعاالبنی فاطمة وحسناً وحسیناًفجللھم بکساء وعلی خلف ظھرہ فجللہ بکساء ثم قال:اللّٰھم ھٰوٴلاء اھل بیتی فاذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیراً،قالت ام سلمة وانا معھم یا نبی اللّٰھ؟قال انت علی مکانک وانت الی الخیر“

          آیت”انّما یریداللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا“جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ھوئی پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فاطمہ،حسن وحسین علیھم السلام کو کسا ء کے نیچے لے لیا۔حضرت علی (ع)آپ کی پشت پر کھڑے تھے آنحضرت نے ان پر بھی اپنی عبا اڑھائی اور فرمایا:پالنے والے !یہ میرے اھل بیت ھیں ان سے ھر طرح کی برائیوں کو دور فرما اور انھیں ایسا پاک قرار دے جو پاک کرنے کا حق ھے ۔ اس وقت جناب ام سلمہ نے کھا : اے رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کیا میں بھی ان میں سے ھوں ؟ پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا-:تم اپنی جگہ پر رھو(یعنی چادر کے نیچے نہ آؤ) تم راہ خیر پر ھو۔  (207)

          یہ تو تھا اھل سنت کے عالم دین شیخ حسن بن علی سقاف کا برادران اھل سنت کو جواب ۔لیکن یھاں خود شیخ سقاف کے بیان کردہ ایک مسئلہ کو صاف کرنا چاھتا ھوں ۔انھوں نے آیت تطھیر میں ازواج پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے شامل ھونے کو تو مسلم بتایا ھے اور آیت کے مفاد کو وسیع کرکے اس میں  پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی بیٹی اور ان کے دو صاحب زادوں کو شامل کرنے کی کوشش کی ھے ۔ جب کہ خود جناب ام سلمہ کی روایت جسے صحیح مسلم اور سنن ترمذی نے نقل کیا ھے ان کے نظریہ کے خلاف گواھی دے رھی ھے ۔ اگر اھل بیت کے علاوہ ازواج پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) آیت تطھیر میں داخل ھوتیں تو جناب ام سلمہ کو کساء میں داخل ھونے سے روکا نہ جاتا اور یہ نہ کھا جاتا ”انت علٰی مکانک“ یعنی تم اپنی جگہ پر رھو ۔ اور تم خیر پر ھو!!

          اس کے علاوہ جو شخص بھی ازواج پیغمبر  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سلسلہ میں قرآن کی آیات کا مطالعہ کرے گا اسے واضح طور سے یہ بات معلوم ھوجائے گی کہ ان کے بارے میں آیات کی زبان تنبیہ و شرزنش والی ھے ۔ ایسے افراد آیت تطھیر کے مصداق اور رسول خدا  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعا میں شامل نھیں ھوسکتے ۔ اس کی تفصیل ” تفسیر منشور جاوید “  (208) میں ملاحظہ فرمائیں۔

   2۔پیغمبر  پر صلوات کیسے بھیجیں

          شیعہ اور اھل سنت کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ھے کہ وہ جب پیغمبر  پر صلوات بھیجتے ھیں تو اس میں ان کی آل کو شامل نھیں کرتے اور وہ ” صلی اللہ علیہ وسلم“ کھتے ھیں ۔ جب کہ شیعہ پیغمبر اکرم  (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر صلوات بھیجتے وقت ان کی آل (ع)کو بھی شامل کرتے ھیں اور آل کو ان پر عطف کرتے ھوئے کھتے ھیں ”صلی اللہ علیہ و آلہ"۔اب سوال یہ ھے کہ ان دو صورتوں میں سے کون سی صورت صحیح ھے۔

          اس میں کوئی شک نھیں کہ ھمارے معصوم رھبروں یعنی ائمہ علیھم السلام نے دوسری صورت کو صحیح جانا ھے اور ھمیشہ آنحضرت کے ساتھ ان کی آل (ع)کو بھی شامل کرتے ھیں ۔اب ذرادیکھیں کہ اھل سنت کی روایات میں صلوات کی کیفیت کیا ھے ۔ اور ان کی روایتیں ان دونوں صورتوں میں سے کس کی  تصدیق کرتی ھیں۔

          پھلے ھم اس سوال کا مختصرجواب دے چکے ھیںاب یھاں روایت نقل کرتے ھیں :

          ”جب آیت (ان اللہو ملائکة یصلون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ و سلّموا تسلماً) سورھٴ احزاب /56“ نازل ھوئی تو اصحاب نے آنحضرت  سے دریافت کیا کہ آپ پر کس طرح صلوات بھیجیں؟ آنحضرت نے فرمایا: ”لا تصلوا علی الصلاة البتراء “ مجھ پر ناقص صلوات مت بھیجو۔ لوگوں نے پوچھا کیسے بھیجیں ؟ فرمایا: کھو ( اللّٰھم صلی علی محمد وآل محمد )  (209)

          درود بھیجنے کے اعتبار سے آل محمدکی حیثیت ایسی ھے کہ اھل سنت کے بعض فقھی مذاھب آل محمد پر پیغمبر  کے ساتھ صلوات بھیجنے کو لازم و واجب جانتے ھیں۔امام شافعی اس سلسلہ میں فرماتے ھیں :

          ےااھل بیت رسول اللہ حبکم   فرض من اللہ فی القرآن انزلھ

          کفاکم فی عظیم القدر انکم     من لم یصل علیکم لاصلاة لہ (210)

          اے رسول خدا کے اھل بیت (ع)آپ کی محبت ایسافریضہ ھے جو قرآن میں نازل کیا گیاھے آپ کی عظمت وجلالت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ جو شخص آپ پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز ھی نھیں ھے۔

شعری ترجمہ

اے اھل بیت(ع)آپ کی الفت خدا گواھ ھے         فرض ھر بشر پہ خدا کی کتاب میں

رفعت یہ ھے کہ جو نہ پڑھے آپ پر درود         اس کی نماز ھی نھیں حق کی جناب میں

                                                                             (ازمترجم)

          صحیح بخاری اھل سنت کے نزدیک قرآن مجید کے بعد سب سے معتبر اور صحیح کتاب مانی جاتی ھے۔اب ھم سورھٴ احزاب کی تفسیر کے ذیل میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرتے ھیں:

          عبدالرحمان ابن ابی لیلی نقل کرتے ھیں کہ"کعب بن معجرہ نے مجھ سے ملاقات کی اور کھا:کیا تم پسند کرتے ھو کہ میں ایک حدیث تمھیں تحفہ کے طورپر پیش کروں ،وہ حدیث یہ ھے کہ ایک روز پیغمبر اکرم اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے۔ھم نے عرض کی:یارسول خدا!ھم نے آپ پر سلام کرنے کی کیفیت قرآن سے سیکہ لی اب بتائیے کہ آپ پر صلوات کیسے بھیجیں؟آنحضرت نے فرمایا:”اللّٰھم صل علیٰ محمد وآل محمد کماصلیت علیٰ ابراھیم وآل ابراھیم انک حمید مجید“ (211)

          لھٰذا اسلامی ادب اور پیغمبر اسلام کے حکم کی تعمیل کاتقاضا ھے کہ ھم آنحضرت پر ناقص اور دم بریدہ صلوات نہ بھیجیں نیز آنحضرت اور ان کی آل پاک (ع)میں جدائی نہ پیداکریں۔

                                                تمام شد

          بحمدالله والمنة وصلی الله علی سیدنا محمد وآلہ الطاھرین خیر الائمة

                             11/ذیقعدہ  1424ء ہ  بروز میلاد حضرت امام رضا-

Add comment


Security code
Refresh