www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تیسری فصل

شیعہ نظریہ کی صحت کی دلیلیں

 عقلی اور نقلی دلائل گواھی دیتے ھیں کہ امامت کا منصب نبوت کے مانند ایک الٰھی منصب ھے اور امام کو خدا کی جانب سے معین ھونا چاھئے اور جو شرائط پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لئے (وحی اور بانی ٴ شریعت ھونے کے علاوہ ) معتبر ھیں وہ امام میں ھونے چاھئے۔

اب ھم دلائل کا جائزہ لیتے ھیں:

پیش آنے والے نئے مسائل:

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی حیات طیبہ میں اسلام کے اصول و فروع کے تمام کلیات بیان کردئیے تھے اور اسلام اسی طریقہ سے خود پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل پایا۔لیکن کیا یہ اصول و کلیات امت کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کسی مرکزی علمی شخصیت کے بغیر کافی ھیں؟یہ طے شدہ بات ھے کہ کافی نھیں ھیں۔بلکہ آنحضرت کے بعد ایسے معصوم پیشواوٴں کی ضرورت ھے جو اپنے وسیع و بے پایان عظیم علم کے ذریعہ کلیات قرآن و اصول اورسنت پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی روشنی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں امت کی علمی ضرورت کی تکمیل کریں۔خصوصاً ایسے مسائل میں جو پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نھیں آئے تھے اور نہ حضرت کے زمانہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ھے۔

 دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی بعثت کے بعد رسالت کے تیرہ سال مکہ میں بت برستوں کے خلاف جدو جھد میںبسر کئے۔اور اس عرصہ میں حالات اور ماحول سازگار نہ ھونے کی وجہ سے آپ الٰھی شریعت کے احکام بیان کرتے ھیں کامیاب نہ ھوئے بلکہ آپ نے اپنی پوری توجہ اسلامی اصول و مبدا  اور معاد یعنی توحید و قیامت کے سلسلہ میں لوگوں کا  ذھن ھموار کرنے میں صرف کی،اور چونکہ حرام و حلال اور الٰھی فرائض و سنن بیان کرنے کے حالات نھیںتھے،لھٰذا آپ نے احکام کے اس حصہ کو بعد کے لئے اٹھار کھا۔

 جب آنحضرت مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے سامنے مسائل ومشکلات کا ایک لشکر تھا۔ مدینہ میں آپ کی زندگی دس سال سے زیادہ نہ رھی لیکن آپ نے اسی مدت میں ستائیس مرتبہ خود بت پرستوں نیز مدینہ اور خیبر کے یھودیوں کے خلاف جنگوں میں شرکت فرمائی ۔دوسری طرف منافقوں کی ساز شوں نیز اھل کتاب سے مناظرہ و مجادلہ میں بھی آپ کا بڑا قیمتی وقت صرف ھوا۔

 یہ حادثات و واقعات سبب بنے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کے دوران زیادہ تر اسلام کے فروع و احکام کے کلیات بیان کریں اور ان کلیات سے دوسرے احکام کے استنباط و استخراج کا کام دوسرے شخص کے حوالے کیا جائے۔

 اگر قرآن یہ فرماتا ھے کہ ”الیوم اکملت لکم دینکم“  (9)  تو اس سے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور اسلام کی اس وقت کی حالت و کیفیت کو دیکھتے ھوئے آیت کے نزول یعنی دس ھجری کے وقت مراد یہ ھے کہ توحید و قیامت سے متعلق معارف و عقائد اور فروع و احکام کے تمام اصول و کلیات آیت کے نزول کے وقت خو د پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل ھوگئے اور اس اعتبار سے دین کے ارکان میں کوئی نقص باقی نھیں رھا اور یھی کلیات صبح قیامت تکامت کوپیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے میں بنیاد و اساس کا کام کریں گے۔

 اب یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سا شخص ان اصول و کلیات کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی تمام ضرورتوں اور مسائل کا جواب دے سکتا ھے۔احکام سے متعلق قرآن میں ذکر شدہ آیات اور پیغمبر اکرم  کی محدود احادیث کے ذریعہ صبح قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کا حل اور احکام کا استنباط کرنا بھت ھی دشوار اور پیچیدہ کام ھے جو عام افراد کے بس کا نھیں ھے ۔کیونکہ قرآن مجید میں فقھی و شرعی احکام سے متعلق آیات کی تعداد تین سو سے زیادہ نھیں ھے۔اسی طرح سے حلال و حرام اور فرائض سے متعلق آنحضرت کی احادیث کی تعداد چارسو سے زیادہ نھیں ھے اور ایک عام انسان اپنے محدود علم کے ذریعہ ان محدود مدارک سے مسلمانوں کے روز افزوں مسائل و مشکلات کا حل نکال نھیں سکتا ۔بلکہ اس کے لئے ایک ایسے لائق اور شائستہ شخص کی ضرورت ھے جو اپنے الٰھی اور غیبی علم کے ذریعہ ان محدود دلائل سے الٰھی احکام نکال کر امت کے حوالے کرسکتا ھو۔

 ساتھ ھی ساتھ ایساشخص اپنے اس وسیع و لا محدو دعلم کی وجہ سے گناہ و خطا سے محفوظ بھی ھونا چاھئے تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرسکیں اور ایسے شخص کو خدا کے علاوہ کوئی اور نھیں جانتا لھٰذا وھی اسے معین بھی فرمائے گا۔

تکمیل دین کی دوسری نوعیت

 یھاں ایک دوسری بات بھی کھی جاسکتی ھے ،اور وہ یہ ھے کہ آیت اکمال جو اسلام کی تکمیل سے متعلق ھے اسلام کی بقا دوام کو بیان کررھی ھے ۔کیونکہ یہ آیت کریمہ اسلامی محدثین کی متعدد و متواتر روایات کے مطابق غدیر کے دن حضرت علی ںکی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد نازل ھوئی ھے ۔اب رھی فرائض و محرمات اور دوسرے احکام سے متعلق تکمیل دین کی بات تو یہ اس آیت کے مقصد سے باھر کی چیز ھے ۔اس حصہ میں اسلام کے مسلمات کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ کھا جانا چاھئے کہ اس میں کوئی کلام نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم   (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد وحی الٰھی کا سلسلہ منقطع ھو گیا اور اب کوئی امین وحی کسی اسلامی حکم کو لےکر نھیں آئے گا ،بلکہ انسان کو صبح قیامت تک جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب جبرئیل امین رسول خدا   (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس لا چکے ۔دوسری طرف ھم دیکھتے ھیںکہ دنیا کے تمام ھونے تک اسلامی معاشرہ کو پیش آنے والے مسائل کا حکم بیان کرنے کے لئے فقھی دلائل ھمارے پاس کافی نھیں ھیں بلکہ بھت سے احکام قرآن و حدیث میں بیان ھی نھیں کئے گئے ھیں۔

  ان دو باتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے ھم یہ کھنے پر مجبور ھیں کہ تمام الٰھی احکام خود پیغمبر اکرم کے زمانہ میں آچکے تھے اور آپ کو ان کی تعلیم دی جا چکی تھی ۔اب چوں کہ رسالت کی مدت بھت ھی مختصر تھی،ساتھ ھی ھر روز کے مسائل اور دشواریاں ،نتیجہ میں آپ ان تمام احکام کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نھیں ھوئے لھٰذا آپ نے وہ تمام تعلیمات الٰھی اور جو کچہ بھی آپ  نے وحی کے ذریعہ الٰھی احکام اور اسلامی اصول و فروع کی شکل میں حاصل کیا تھا سب کچہ اپنے اس وصی و جانشین کے حوالے کردیا اور اسے سکھا دیا ،جو خود آنحضرت کی طرح خطا و غلطی سے بری اور محفوظ تھا ۔تاکہ وہ آپ  کے بعد یہ تعلیمات اور احکام رفتھ رفتھ امت کو بتائے ۔ظاھر ھے کہ ایسے شخص کی شناخت جو اس قدر وسیع علم رکھتا ھو اور ھر طرح کی خطا و لغزش سے پاک ھو صرف پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے تعارف اور اللہ کی جانب سے نصب و تعیین کے ذریعہ ھی ممکن ھے ۔امت انتخابات کے ذریعہ ایسے کسی شخص کو نھیں پھچان سکتی۔

 یہ بھی عرض کردوں کہ ھم جو یہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو کچہ امت سے بیان نہ کرسکے وہ انھوں نے اپنے وصی و جانشین کو تعلیم دے دیا تو اس سے مراد وہ معمولی تعلیم نھیں ھے جو ایک شاگرد اپنے استاد سے چند پرسوں میں حاصل کرتا ھے کیوں کہ اگر ایسا ھوتا تو پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ایک شخص کو اس طرح کی تربیت دینے کے بجائے ایک گروہ یا بھت سے لوگوں کی تعلیم و تربیت فرماتے ۔جب کہ یہ تعلیم ایک غیر معمولی تعلیم تھی جس میں آنحضرت نے اپنے وصی کی روح و قلب پر تصرف فرما کر تھوڑی ھی دیر میں اسلام کے تمام حقائق و تعلیمات سے انھیں آگاہ کر دیا اور کوئی چیز پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین سے مخفی و پوشیدہ نھیں رہ گئی ۔

 آخر میں یہ یاد دھانی بھی کرادوں کہ جب اسلام دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو مسلمان نئے نئے حالات سے دو چار ھوئے جن سے پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے عھد میں سابقہ نھیں پڑا تھا اور آنحضرت نے ان نئے حالات اور حادثات کے سلسلہ میں کوئی بات نھیں بتائی تھی۔

 قرآن وحدیث کے اصول وکلیات سے اس طرح کے نئے حالات و مسائل کا حکم کشف کرنا اور نکالنا بھت ھی پیچیدہ اور اختلاف انگیز ھے ۔اس سلسلہ میں تکمیل شریعت کا تقاضا یہ ھے کہ خاندان وحی سے وابستہ کوئی فرد ان نئے مسائل کا حکم قرآن و حدیث سے استنباط کرے یا ان کا حکم اس وھبی علم کے ذریعہ بیان کرے جو آنحضرت  نے اس کے حوالے کیا ھے۔

 اھل سنت معاشرہ کی ایک مشکل یہ بھی ھے کہ احکام سے متعلق قرآن کریم کی محدود آیات اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی چار سو حدیثوں سے ھی اسلام کے تمام احکام کا استنباط و استخراج کرنا چاھتے ھیں لیکن جونکہ بھت سے مواقع پر ناتوانی کا احساس کرتے ھیں اور مذکورہ بالا دلیلوں کو کافی نھیں پاتے لھٰذا قیاس و استحسان جن کی کوئی محکم اساس و بنیاد نھیں ھے ،کا سھارا لے کر امت کی ضرورتوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ھیں ۔ وہ خود جانتے ھیں کہ ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس یا فقھی استحسان کے ذریعہ کسی مسئلہ کا حکم بیان کرنا کوئی صحیح بنیاد نھیں رکھتا ۔لیکن اگر امت میں کوئی ایسا شائستہ ولائق شخص ھو جو اپنے وسیع علم کے ساتھ اس قسم کے مسائل کا حکم ایک خاص طریقہ سےپیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے حاصل کرکے امت کے حوالے کرے اور گمان و شک پر عمل کی اس بے سرو سامانی کا خاتمہ کردے تو یہ روش شریعت کی تکمیل اور لوگوں کے حقیقت تک پھچنے کی راہ میں زیادہ موٴثر ثابت ھوگی ۔

 پھر بھی گنتی کے چند نادر موارد میں قیاس و استحسان کی ضرورت پیش آئی تو ھم یہ کھہ سکتے ھیں کہ ان جزئی موارد میں اسلام نے آسانی کے لئے ان پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ھے ۔ لیکن اگر شریعت کے پورے پیکر کو ظن و گمان پر استوار کریں اور ایسے قوانین دنیا کے حوالے کریں جن کی بنیاد حدس و گمان اور استحسان اور ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس ھو تو ایسی صورت میں ھم نے ایسے اسلامی احکام اور اسلام کا ایسا حقوقی و جزائی مکتب فکر اور اخلاقی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ھے جس کی اساس و بنیاد ھی ناھموار اور پھس پھسی ھے کیا ایسی صورت میں ھم یہ توقع رکہ سکتے ھیں کہ دنیا کے لوگ ایسے اسلام کے حقوقی و جزائی احکام پر عمل کریں گے جس کے بیشتر احکام وحی الھٰی سے دور کا بھی واسطہ نھیں رکھتے۔

خلفاء امت کی لا علمی

 تاریخ اسلامی امت کے حکام و خلفاء کی اسلامی اصول و فروع سے لا علمی کے بھت سے واقعات اپنے دامن میںلئے ھوئے ھے۔علمی محاسبات یہ تقاضا کرتے ھیں کہ امت کے درمیان ایک عالم وآگاہ امام و پیشوا کا وجود ضروری ھے جو اسلامی احکام کا محافظ اور ان کا خزانہ دار ھو اور مستقل الٰھی تعلیمات کولوگوں تک پھنچاتارھے۔ھم یھاں پر خلفا کی لاعلمی اور اسلام کے بنیادی احکام سے ان کی جھالت کے چند نمونے پیش کرتے ھیں:

 1۔حضرت عمر نے اصحاب کے مجمع میںایک شوھر دار حاملہ عورت کو جو زنا کی مرتکب ھوئی تھی سنگسار کرنے کا حکم دیا لیکن آخر کار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی راھنمائی کے ذریعہ یہ حکم تبدیل کیا گیا۔کیونکہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ماں نے گناہ کیا ھے تو وہ قصور وار ھے لیکن بچہ نے کیا قصور کیا ھے جو ابھی اس کے رحم میں ھے؟

 2۔خلیفہ نے ایک ایسے شادی شدہ شوھرکو جس کی بیوی دوسرے شھر میں رھتی تھی زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔جبکہ ایسے شخص کے لئے جس کی بیوی اس سے دور ھو اللہ کا حکم سو تازیانہ (کوڑے) کی سزاھے ،سنگسار نھیں ھے ۔چنانچہ یہ حکم بھی حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تبدیل کیا گیا۔

 3۔پانچ بدکار مردوں کو خلیفہ کے پاس لایا گیا اور گواھی دی گئی کہ یہ لوگ زنا کے مرتکب ھوئے ھیں ۔خلیفہ نے حکم دیا کے سب کو ایک طرف سے سو سو کوڑے لگائے جائیں۔امام علی علیہ السلام اس جگہ موجود تھے آپ نے فرمایا:ان میں سے ھر ایک کی سزا جدا جدا ھے۔ایک کافر ذمی ھے،اس نے اپنے شرائط پر عمل نھیں کیاھے۔وہ قتل کیاجائے گا۔دوسرا شادی شدہ مرد ھے جسے سنگسار کیا جائے گا ۔ تیسرا جوان آزاد ھے اور غیر شادی شدہ ھے، اسے سو کوڑے لگائے جائیںگے ۔ چوتھا غیر شادی شدہ غلام ھے ،اسے آزادکی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے، اور پانچواںشخص دیوانہ ھے، اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

 4۔حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ایک مسلمان نے شراب پی لی تھی لیکن اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایسے لوگوں میں زندگی بسر کرتا رھا ھے جو سب کے سب شراب پیتے تھے اور وہ نھیں جانتا تھا کہ اسلام میں شراب پینا حرام ھے ۔ خلیفہ اور ان کے وزیر حضرت عمر نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور اس مشکل کو حل کرنے میں ناکام رھے آخرکار مجبور ھوکر انھوںنے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ آپ(ۡع)نے فرمایا: اس شخص کو مھاجرین و انصار کے مجمع میں پھراوٴاگر ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ کھہ دیا کہ اس نے تحریم شراب کی آیت اسے سنائی ھے تو اس پر حجت تمام ھے اور اس پر حد جاری ھوگی ورنہ اسے معذور سمجہ کر چھوڑ دیا جائے گا۔

 5۔ایک شادی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اسے سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا:اس عورت سے مزید تحقیق کی جائے،شاید اس کے پاس اس جرم کا کوئی عذر موجود ھو۔عورت کو دوبارہ عدالت میںپیش کیا گیا۔اس نے اس جرم کے ارتکاب کی وجہ یوں بیان کی کہ میں اپنے شوھر کے اونٹوں کو چرا نے صحرا لے گئی تھی ۔ اس بیابان میں مجہ پر پیاس کا غلبہ ھوا میں نے وھاں موجود شخص سے بھت منت سماجت کی اور اس سے پانی مانگا لیکن وہ ھر بار یہ کھتا تھا کہ تم میرے آگے تسلیم ھوجاوٴتو میں تمھیں پانی دوںگا۔جب میں نے محسوس کیا کہ پیاس سے مرجاوٴںگی تو میں مجبوراًاس کی شیطانی ھوس کے آگے تسلیم ھوگئی۔

 اس وقت حضرت علی ںنے تکبیر بلند کی اور فرمایا:”اللہاکبر فمن الضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ “یعنی اگر کوئی اضطرار اور مجبوری کی حالت میں کوئی غلط کام کرے تو اس پر کوئی گناہ نھیں ھے۔

 اس طرح کے واقعات خلفاء کی تاریخ میں اس قدر زیادہ ھیں کہ ان پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ھے ۔ ان تمام حوادث کا حکم بیان کرنے کا ذمہ دار کون ھے ۔اس طرح کے حوادث

پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نھیںآئے تھے کہ امت ان کاحکم مرکز وحی یعنی خود آنحضرت سے حاصل کرلیتی۔ پھر آنحضرت کی رحلت کے بعد اس قسم کے احکام بیان کرنے والا اور الٰھی احکام کا محافظ و خزانہ دار کسے ھونا چاھئے ۔کیا یہ کھنا درست ھوگا کہ خداوند عالم نے ایسے حالات میں امت کو خود اس کے حال پر چھوڑ دیا ھے اور اپنے معنوی فیضان کو امت سے دورکرلیا ھے ۔چاھے امت کی نادانی و جھالت کی وجہ سے لوگوں کی ناموس خطرے میں پڑجائے اور احکام حق کی جگہ باطل احکاملے لیں۔(10)

Add comment


Security code
Refresh