www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

چوتھی فصل

پیغمبر امامت کو الٰھی منصب سمجھتے ھیں

 اس میں کوئی کلام نھیں ھے کہ امت کی رھبری کا مسئلہ مسلمان معاشرہ کے لئے اساسی اور حیاتی حیثیت رکھتا ھے۔چنانچہ اسی مسئلہ پر اختلاف پیدا ھوا اور اس نے امت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان گھرا اختلاف پیدا کردیا ۔

 اب یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تمام چیزوں کے بارے میں واجب، مستحب ،حرام و مکروہ سے متعلق تو ساری باتیں بیان فرمائیں لیکن امت کی قیادت و رھبری اور حاکم کے خصوصیات سے متعلق کوئی بات کیوں بیان نھیں کی؟ کیا انسان یہ سوچ سکتا ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اتنے اھم موضوع پر کوئی توجہ نہ دی ھوگی بلکہ خاموشی اختیار کی ھوگی اور امت کو بیدار نہ کیا ھوگا؟!

 علمائے اھل سنت فرماتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے قیادت وامامت کے طریقہ کے سلسلہ میں نفیاًو اثباتاً کوئی بات نھیں بیان کی اور یہ واضح نھیں کیا کہ قیادت و رھبری کا مسئلہ انتخابی ھے یا تعیینی ھے۔

 سچ مچ کیا عقل باور کرتی ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس انتھائی اھم اور حیاتی مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ھوگی اور قضیہ کے ان دونوں پھلوں سے متعلق کوئی اشارہ نہ کیا ھوگا؟

 عقل کے فیصلہ سے آگے بڑہ کر تاریخ اسلام کا جائزہ بھی اس نظریہ کے خلاف گواھی دیتا ھے ۔اور یہ بات صاف ظاھر ھوتی ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مختلف موقعوں پر یہ یاد دھانی کی ھے کہ میرے بعد امت کی قیادت و رھبری کا مسئلہ خدا سے مربوط ھے اور وہ اس سلسلہ میں کوئی اختیار نھیں رکھتے ۔یھاں ھم تاریخ اسلام سے چند نمونے پیش کرتے ھیں:

 جب مشرکوں کے ایک قبیلہ کے سردار ”اخنس“ نے اس شرط پر پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حمایت کا اظھارکیا کہ اپنے کے بعد امت کی قیادت و سرپرستی آپ ھمارے حوالے کر جائیں گے تو پیغمبر اسلام  نے اسے جواب دیا کھ”الا مر الیٰ اللہیضعہ حیث یشاء “یعنی امت کی قیادت کا مسئلہ خدا سے مربوط ھے وہ جسے بھتر سمجھے اس امر کے لئے منتخب کرے گا ۔قبیلہ کا سردار یہ بات سن کر مایوس ھو گیا اور اس نے آنحضرت  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جواب میں کھلایا کہ یہ بات بالکل درست نھیں ھے کہ رنج و زحمت میں اٹھاؤں اور قیادت و رھبری کسی اور کو ملے! (11)

 تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بھی ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ”یمامھ“ کے حاکم کو خط لکہ کر اسے اسلام کی دعوت دی اس نے بھی ”اخنس “ کے مانند آنحضرت  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے آپ کی جانشینی کا تقاضا کیا تو آنحضرت  نے اسے انکار میں جواب دیتے ھوئے فرمایا:”لا ولاکرامة“ یعنی یہ کام عزت نفس اور روح کی بلندی سے بعید ھے۔ (12)

 امت کی قیادت و رھبری کا مسئلہ اتنا اھم ھے کہ اس کی اھمیت کو صرف ھم ھی نے محسوس نھیں کیا ھے بلکہ صدر اسلام میں بھی یہ مسئلہ بھت سے لوگوں کی نظر میں بڑی اھمیت رکھتا تھا ۔ مثلا جس وقت خلیفہ دوم ،ابو لوٴ لوٴ کی ضرب سے زخمی ھوئے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اپنے باپ کو مرتے ھوئے دیکھا تو اپنے باپ سے کھا جتنی جلدی ھو سکے اپنا ایک جانشین معین کیجئے اور امتمحمدی کو بے حاکم وبے سر پرست نہ چھوڑئے ۔

 بالکل یھی پیغام ام الموٴمنین عائشہ نے بھی خلیفہ دوم کو کھلایا اور ان سے درخواست کی کہ امت محمدی کے لئے ایک محافظ و نگھبان معین کر جائیں۔اب کیا یہ کھنا صحیح ھوگا کہ ان دو شخصیتوں نے امت کی قیادت و رھبری کے مسئلہ کی اھمیت کو تو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لیکن رسول اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان دو افراد کے بقدر بھی اس مسئلہ کی اھمیت کو سمجہ نھیں پائے تھے ؟!

  پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مدینہ کی دس سالہ زندگی کا ایک ھلکا سا جائزہ لینے کے ساتھ ھی یہ بات پوری طرح ثابت ھو جاتی ھے کہ آنحضرت  جب بھی کھیں جانے کے لئے مدینہ سے نکلتے تھے کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کر جاتے تھے ،تاکہ اس مختصر سی مدت میں بھی جب پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مدینہ میں تشریف نھیں رکھتے لوگ بے سر پرست اور بے پناہ نہ رھیں ۔ کیا یہ بھتر ھے کہ جو جانشین معین کرنے کی اھمیت سے آگاہ ھو اور یہ جانتا ھو کہ حتّٰی مختصر مدت کے لئے بھی جانشین معین کئے بغیر مدینہ کو ترک نھیں کرنا چاھئے ۔وہ دنیا کو ترک کرے اور اپنا کوئی جانشین معین نہ کرے یا کم از کم قیادت و رھبری کی شکل ونوعیت اور حاکمیت کے طریقہ ٴ  کار کے بارے میںکچہ نہ کھے ؟!

  پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب کسی علاقہ کو فتح بھی کرتے تھے تو اسے ترک کرنے سے پھلے وھاں ایک حاکم معین فرماتے تھے پھر ان حالات میں یہ کیسے کھا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا جانشین معین کرنے میں غفلت سے کام لیا ھوگا اور اس کے لئے میں کوئی فکر نہ کی ھوگی ،جو ان کے بعد امت کی قیادت و رھبری اپنے ھاتھ میں لے سکے اور اسلام کے نو پا درخت کی نگھبانی و سرپرستی کر سکے؟!

نبوت و امامت باھم ھیں

 متواتراحادیث اور اسلام کی قطعی تاریخ صاف گواھی دیتی ھیں کہ نبوت اور امامت دونوں کا اعلان ایک ھی دن ھوا اور جس روز پیغمبراکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خدا کی طرف سے اپنے خاندان والوں کے درمیان اپنی رسالت کا اعلان کرنے پر مامور ھوئے تھے اسی روز آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین بھی معین فرمادیاتھا۔

 اسلام کے گرانقدر مفسرین و محدثین لکھتے ھیں کہ جب آیت”و انذر عشیرتک الاقربین“ (شعراء /214) نازل ھوئی تو پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو خاندان والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا جنھیں آنحضرت نے مھمان بلایا تھا۔حضرت علی علیہ السلام نے بھی پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے کھانا تیار کیا اور بنی ھاشم کی پینتالیس شخصیتیں اس مجلس میں اکٹھا ھوئیں۔پھلے روز ابو لھب کی بیھودہ باتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کا پیغام سنانے میں کامیاب نھیں ھوئے۔دوسرے روز پھر یہ دعوت کی گئی اور مھمانوں کے کھانا کھالینے کے بعد پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی جگہ کھڑے ھوئے اور خداوند عالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا:

 میں تم لوگوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے خدا کا پیغامبر ھوں اور تم لوگوں کے لئے دنیا وآخرت کی بھلائی لایا ھوں۔خدانے مجھے حکم دیا ھے کہ میں تم لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو شخص اس کام میں میری ا مدد کرے گا وہ میرا وصی اور جانشین ھوگا۔

 اس وقت حضرت علی بن ابیطالب ںکے علاوہ کسی نے بھی اٹہ کر پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نصرت و مدد کا اعلان نھیں کیا۔پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو بیٹہ جانے کا حکم دیا اور دوبارہ اور تیسری بار بھی اپنا جملہ دھرایا اور ھر بار حضرت علی ںکے علاوہ کسی نے آپ کی حمایت اور اس راہ میں آپ کی نصرت و فدا کاری کا اظھار نھیں کیا۔اس وقت پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے خاندان والوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”ان ھذااٴخی و وصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا و اطیعوا“ یعنی علی(ۡع)میرا بھائی اور تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے،پس تم پر لازم ھے کہ اس کا فرمان سنو اور اس کی اطاعت کرو۔  (13)

 تاریخ کا یہ واقعہ اس قدر مسلّم ھے کہ ابن تیمیہ جس کا خاندان اھل بیت(ۡع)سے عناد سب پر ظاھر ھے ،کے علاوہ کسی نے بھی اس کی صحت سے انکار نھیں کیا ھے۔یہ حدیث حضرت علی ںکی امامت کی دلیل ھونے کے علاوہ اس بات کی سب سے اھم گواہ ھے کہ امامت کا مسئلہ امت کے اختیار میں نھیں ھے۔اس سے یہ بھی ظاھر ھوتا ھے کہ جانشین کا اعلان اس قدر اھم تھا کہ نبوت و امامت دونوں منصبوں کے مالک افراد کا اعلان ایک ھی دن پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے خاندان والوں کے سامنے کیا گیا ۔

 یہ واقعہ تین بعثت کو پیش آیا اور اس وقت تک پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعوت مخصوص افراد کے ذریعہ لوگوں تک پھنچائی جاتی تھی اور تقریباً 50پچاس افراد اس وقت تک مسلمان ھوئے تھے۔

Add comment


Security code
Refresh