www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آٹھویں فصل

کیا شیعوں کا نظریہٴ امامتآزادی کے خلاف ھے

 حریت و آزادی کا لفظ انسانوں کے کانوں میں پڑنے والا اب تک کا سب سے لطیف اور پرجوش لفظ ھے ۔ اس لفظ کا سننا ھی لوگوں کے اندر کیف و نشاط ،وجد و خوشی کی لھر پیدا کر دیتا ھے ۔ ایک صحیح فکر رکھنے والے انسان کی سب سے بڑی آرزو اور تمنا قید و بند سے نجات ،استعمار سے جھاد اور آزادی کی بلند بام چوٹی کو فتح کرنا ھے ۔ آزادی سے متعلق انسان کا لگاؤ اتنازیادہ ھے کہ اس نے اس راہ میں بھت سی قربانیاں دی ھیں اور حد سے زیادہ فداکاریاں کی ھیں۔

 یہ درست ھے کہ انسان نے یہ بخوبی محسوس کر  لیا ھے کہ اجتماعی زندگی ایک ایسے حاکم کے بغیر ممکن نھیں ھے جس کی رائے نافذ اور جس کا فیصلہ قطعی۔ لیکن ساتھ ھی وہ اس پر بھی ھرگز آمادہ نھیں ھے کہ اپنے مقدرات کسی ایسے شخص کے ھاتھ میں دے دے جس کے انتخاب کااختیار اس کے ھاتھ میں نہ ھو ۔یھی وجہ ھے کہ خاص طور سے عصر حاضر میں معاشرہ کے حاکم و ذمہ دار کے تعین کے طریقوں میں وہ صرف اسی روش کو صحیح جانتا ھے ،جس میں وہ اپنے رھبر کے انتخاب میں خود مختار اور آزادھو۔ جو حاکم ایک قوم کی سرنوشت کو اپنے ھاتھ میں لیتا ھے وہ خود عوام سے ابھرے اور عوام نے اسے منتخب کیا ھو ۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ ایک فرد کی حکومت کو اصول آزاد کے خلاف اور جبر کی حاکمیت سمجھتا ھے۔

 اب دیکھنا یہ ھے کہ امامت کے سلسلہ میں پائے جانے والے دو نظریوں میں کون سا نظریہ ڈیموکریسی کے اصول سے زیادہ سازگار ھے ،یہ کہ منصب امامت ایک انتخابی منصب ھے یعنی امام کو ”عام لوگوں کے ذریعہ یا اسلام کی اعلیٰ کمیٹی “ کے ھوتھوں چنا جانا چاھئے ۔یا یہ کہ رھبر اور جانشین پیغمبر  کا انتخاب عوام کے ھاتھ میں نہ ھو بلکہ وہ سو فیصد ی خدا کی جانب سے منصوب ھو یعنی امام کوخدا اور پیغمبر کی جانب سے معین ھونا چاھئے ؟

 بعض لوگوں کا خیال ھے کہ پھلا نظریہ آزادی کے اصول سے زیادہ ھم آھنگ ھے ۔ اگر ھم رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی کے منصب کو انتخابی سمجھیں تو اس صورت میں ھمیں یہ فخر کرنا چاھئے کہ لیبرلیزم اور آزادی مغرب میں پروان چڑھنے سے پھلے مشرق میں اور ایک ھزار چار سو سال پھلے قابل عمل تھی ۔ لیکن اس راہ سے ھم اس جگہ پھنچتے ھیں جھاں پھلے نظریہ پر عمل ھی نھیں ھوا ۔

 آج اھل سنت معاشرہ کے بعض اھل قلم شیعہ نظریہ یعنی امامت کے انتصابی ھونے کے موضوع پر تنقیدکرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی کا نصبی ھونا آج کے سماجی نظریات اور آزادی کی روح سے کسی بھی طرح سازگار نھیں ھے۔

 جواب :  شاید جو سب سے اھم اور دلچسپ منطق امام کے انتخابی ھونے کے سلسلہ میں پیش کی جا سکتی ھے اور جسے آج کے انسانی معاشرہ کے خیالات سے قریب قرار دیا جاسکتا ھے، وھی منطق ھے جسے ھم اوپر بیان کر چکے ھیں اور جو کم و بیش بعض علمائے اھل سنت کے قلم سے بھی ظاھر ھو چکی ھے ۔اس طرز استدلال کا تفصیلی جواب اس پر منحصر ھے کہ موجودہ بحث کے تین اساسی نکتے پوری طرح واضح ھوں:

    1۔ منصب امامت کانصبی یا منصوبی ھونا ”استبداد “ اور جبر سے بالکل جدا ھے۔

    2۔ مغرب کی جمھوری حکومتیں جو اقلیت پر اکثریت کی حکومت کی اساس پر استوار ھیں ۔ وہ ان غیر عادلانہ سیاسی نظاموں میں سے ھیں جنھیں آج کے انسانوں نے مجبور ا ًقبول کیا ھے۔

    3۔ اگر یہ فرض کر لیں کہ حاکم کے انتخاب کے لئے یھی روش صحیح ودرست ھے تو کیا صدر اسلام میں خلفاء کے انتخاب میں اس روش پر عمل ھو اھے؟

 ان تین نکتوں خاص طور سے دوسرے اور تیسرے نکتہ پر مفصل بحث کی ضرورت ھے کہ ھم اختصار کے ساتھ ان میں سے ھر ایک پر روشنی ڈالتے ھیں۔

الف) ۔امام کا منصوب کیا جانا استبداد نھیں

 استبدادی حکومتیںوہ انتھائی ظالمانہ طریقہٴ حکومت ھے جن سے انسان دو چار رھا ھے ۔ استبدادی نظام جبر و تشدد کا وہ جانکاہ نظام ھے جنھیں انسانی معاشرہ زمانہ ٴ قدیم سے جھیلتا آرھا ھے اور انسان کی معاشرتی زندگی میں اس کی مختلف شکلیں (گاؤں کا زمیندار ،تعلقدار،قبیلہ کا سردار ،یا مطلق العنان حاکم جو زمین کے وسیع علاقہ پر خود سرانہ حکومت کرتا ھے) نظر آتی رھی ھیں۔

 استبداد کی بڑی شکل یہ کہ ایک شخص داخلی سطح پر بغاوت کے ذریعہ حاکم کو معزول کرکے خود حاکم ھو جاتا ھے یا غلبہ اور دوسرے ملک کی فوجی طاقت کے ذریعہ حاکم ھو جاتا ھے اور ایسی حکومت کی بنیاد ڈالتا ھے جس میں صرف حاکم کی بات یا اس کا حکم ھی نافذ ھوتا ھے اور اپنے بعد کے حاکم کے لئے بھی اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ھوتا ھے۔

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جانشینی کے سلسلہ میں شیعوں کا نظریہ اس طرح کی حکومتوں سے میلوں کا فاصلہ رکھتا ھے ۔امام کے منصوبی ھونے سے شیعوں کا مقصد یہ ھے کہ امام خدا کی جانب سے---جو سب کا خالق ھونے کے اعتبار سے تمام انسانوں پر اولویت اور حاکمیت کا حق رکھتا ھے  -- ایک سب سے زیادہ شائستہ فرد کی حیثیت سے جو ھر طرح کی جسمی و روحی آلودگی ،برائی اور لغزش سے پاک ھے اور صرف اللہ کے حکم پر عمل کرتا ھے ،  پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعدمسلمانوں کا رھبر و پیشوا معین کیا جائے۔

 یہ کھنے کی ضرورت نھیں ھے کہ ایسا شخص اپنے منصب پر فائز ھونے کے بعد ھر طرح کی خودسری وخود رائی سے دور ھوگا اور صرف پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لائے ھوئے قوانین کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کو چلائے گا۔

 چونکہ خدا وند عالم خالق ھونے کی بنا پر فطری طور سے سب پر حکومت کا حق رکھتا ھے اورتمام  قوموں نے اس کے قوانین کو جان و دل سے تسلیم کیا ھے لھٰذا امام بھی ان ھی قوانین کی بنیاد پر حاکم ھوا ھے اور معصوم ھونے کی بنا پر ھر طرح کے عمدی سھوی ظلم و ستم سے محفوظ ھے ،ایسی حکومت معقول ترین حکومت ھے ۔اس طرح کی حکومت میں اقلیت و اکثریت (یعنی اکثریت کی ڈکٹیٹر شپ) کا تصور ھی نھیں ھے ۔اس میں صرف خدا کی رضااور مخلوق کی مصلحت ھی پیش نظر ھوتی ھے (کوئی شخصی مرضی نھیں تھوپی جاتی اور نہ ان افراد کی خوشی مدنظر ھوتی ھے جنھوں نے اسے حاکم بنایا ھے)۔

 یہ الٰھی و آسمانی حکومت جس میں کسی بھی طرح کی خود سری اور خود خواھی نھیں ھے بھلا اس کا ان ظالم و استبدادی حکومتوں سے کیا تقابل ۔یہ دونوں طرز حکومت ایک دوسرے سے اس قدر فاصلہ رکھتی ھیں کہ ان میں کسی بھی مشترک پھلو کاتصور کیا ھی نھیں جا سکتا ۔

(ب )۔ جمھوری حکومتوں کی کمزوریاں

 آج کی جمھوری حکومتوں کی کمزوریاں ایک دو نھیں ھیں کہ یھاں ان پر تفصیل سے بحث کی جائے لیکن ھم یھاں نمونہ کے طور پر ان ھیں سے دو اھم کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔

    1۔ اس طریقہٴ  حکومت میں جو حاکم کسی پارٹی یا عوام کی ھاتھوں منتخب ھوتا ھے وہ ان کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں رھتا ھے ۔ ان کی ھدایت و رھبری کی فکر میں نھیں رھتا ۔ کسی پارٹی یا گروہ کے سیاستداں کے لئے یہ اھم نھیں ھے کہ وہ حق کا ساتھ دے ،اھم یہ ھے عوام کی حمایت سے اسے ھاتھ نہ دھونا پڑے ۔ اس کام میںکبھی اس کے لئے لازم و ضروری ھو جاتا ھے کہ اپنے ذاتی اعتقادات اور حقائق سے بھی آنکھیں بند کر لے ۔یہ وہ حقیقت ھے جس کا اظھار و اقرار دنیا کے ان عظیم سیاستدانوں نے بھی کیا جو عرصہ تک پوری دنیا کی سیاست سے کھیلتے رھے ھیں امریکہ کا ایک گزشتھ صدر جان۔ایف کنیڈی اپنی کتاب میں لکھتا ھے:

 کبھی سینیٹر مجبور ھوتا ھے کہ کسی اھم موضوع کے سلسلہ میں عام جلسہ میں فوراً ھی اپنی رائے اور نظریہ کا اظھار کرے ۔ اس میں شک نھیں ھے کہ وہ بھی غور وفکر کرنے کے لئے وقت چاھتاھے تاکہ چند جملوں میں یا مختصر اصلاح کے ذریعہ شبھہ واختلاف کو بقدر امکان دور کرے ،لیکن نہ اسے غور کرنے کا موقع ملتا ھے نہ وہ خود کو لوگوں سے چھپا سکتا ھے اور نہ ھی اپنی رائے کے اظھار سے گریز کرسکتاھے ۔بالکل ایسا لگتاھے جیسے تمام موکل جنھوں نے اسے سنیٹر بناےاھے اس کی طرف آنکھیں گاڑے ھوئے اس بات کے منتظر ھیں کہ اس شخص کے رائے ،جس سے اس کی سیاست کا مستقبل وابستہ ھے ،کیا ھوگی۔

 ان تمام باتوں کے علاوہ اس بات کی فکر کہ سنیٹر کی مراعات اس سے سلب نہ کر لی جائےں اور کھیں وہ اس چرب و نرم مشغلہ سے محروم نہ کر دیا جائے بڑے سے بڑے سیاستداں کی نیندیں حرام کئے رکھتی ھے۔

 یھی وجہ ھے کہ بعض سنیٹر اس نکتھ کی طرف متوجہ ھوئے بغیر آسان اور کم خطرہ راہ اختیار کرتے ھیں ۔ یعنی جب بھی ان کے ضمیر اور ان کے فیصلوں کے درمیان ٹکراوٴ ھوتا ھے تو اپنی خود ساختھ منطق کے ذریعہ ضمیر کو مطمئن کر دیتے ھیں اور خود کو اپنے ووٹروں کے خیالات سے ھم آھنگ کر دیتے ھیں ایسے لوگوں کو ڈرپوک نھیں کھا جاسکتا بلکہ یہ کھنا چاھئے کہ یہ وہ لوگ ھیں جنھیں رفتھ رفتھ عام لوگوں کے رجحان و خیالات کی پیروی کرنے کی عادت پڑگئی ھے اور اپنی بھلائی اسی میں دیکھتے ھیں کہ بھتی گنگا میں ھاتھ دھوئیں ۔ لیکن ان میں کچہ ایسے لوگ بھی ھیں جو اپنے ضمیر کو کچل ڈالتے ھیں اور اپنے عمل کی توجیہ یوں کرتے ھیں ۔ لوگوں میں نفوذ کرنے کے لئے پوری سچائی کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز سے کانوں کو بند کر لیتے ھیں۔ ”فرینک کینٹ “ کے بقول سیاست کو خلاف اخلاق مشغلہ نھیں کھا جا سکتا بلکہ یہ کھنا چاھئے کہ ”سیاست اخلاقی مشغلہ نھیں ھے“ (24)

 سیاسی رائٹر” فرنیک کنیٹ“لکھتا ھے” کہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا مسئلہ بھت ھی اھم اور سنجیدہ ھے ۔اس کے حصول کی راہ میں بلاوجہ کے مسائل مثلا ”اخلاق“ یا ”حق و باطل“ پر کوئی توجہ نھیں کرنا چاھئے ۔

 اس سلسلہ میں ”مارک اشکال “ نے اپنے ایک ساتھی کو  1920ئع کے امریکہ کے انتخابات میں بھترین نصیحت کی اور وہ یہ کہ ”تم عوام کو فریب دینا نھیں چاھتے ۔یعنی تم نمائندہ بننے کی راہ میں اپنے ضمیر کو کچل نھیں رھے ھو ،بلکہ تم یہ بات سیکھو کہ ایک سیاسی آدمی کے لئے ایسے حالات پیش آتے ھیں جن میں وہ اپنے ضمیر سے چشم پوشی کرنے پر مجبور ھے۔“  (25)

 یہ آج کی دنیا کے جمھوری لوگوں کی زبان میں سب سے زیادہ منصفانہ باتیں ھیں ۔اب آپ اس اجمال سے تفصیل کا اندازہ کرلیں ۔یہ آزاد ملکوں کی حکومتوں کی حقیقت ھے ۔کیا عقل و منطقاس کی اجازت دیتی ھے کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کوجسے بھت سی جھات میں ان ھی کی طرح ھونا چاھئے ،اس جمھوری طریقہ پر یعنی عوام کے خیالات کے ذریعہ یا ارباب حل وعقد کی بیعت یا مھاجرین و انصار کی بیعت کے ذریعہ منتخب ھونا چاھئے ؟ ھرگز نھیں۔ ۔ ۔ ۔  کیوں کہ اس طریقہ سے منتخب ھونے والا شخص فکری طور سے مستقل مزاج نھیں ھوتا بلکہ اپنے ووٹروں کے افکار و خیالات کا ترجمان ھوتا ھے ۔ایسے افراد بھت ھی کم اور نادر ھیں جو اپنی شھرت کو ٹھوکر مارنے پر آمادہ ھو جائیں اور عمومی خیالات و رجحان کے طوفان سے نہ ڈریں اور جو بات امت کی بھلائی کے لئے ھو اسی پر عمل کریں۔

 ممکن ھے یہ خیال کیا جائے کہ ووٹروں کی رضا مندی کا لحاظ اسی وقت لازم ھے جب حکومت کی مدت چند سال میں محدود ھو ،لیکن چونکہ امام کی رھبری دائمی ھے اور دائمی حاکم کی حیثیت رکھتی ھے جیسا کہ آج بھی بعض ملکوں میں عملی طور پر رائج ھے لھٰذا ضروری نھیں کہ خلافت کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد امام و خلیفہ عوام کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں ھو۔

تو جواب یہ ھے کہ یہ خیال بھت ھی خام اور بیجا ھے ،کیوں کہ:

 اول تو:خود اس دائمی حاکمیت میں بھی عام انتخاب کرنے والوں کے خیالات و رجحان کو نادیدہ نھیں کیا جاسکتا،کیونکہ بے توجھی کی صورت میں حاکم کو انقلاب ،شورش اور بغاوت کا سا منا کرنا پڑے گا۔

 دوسرے یہ کہ: کئی امید واروںکی موجودگی میں کسی ایک شخص کا ایک گروہ کی طرف سے منتخب کھاجانا کسی تعاون وھم خیالی کے وعدہ کے بغیر عملی نھیں ھے ۔ اور اس بات کو دیکھتے ھوئے اگر وہ اپنے کئے ھوئے وعدہ سے چشم پوشی کرلے تو یہ خود ایک بھت بڑی خرابی ھے کیونکہ اس صورت میں معاشرہ کے مربی نے عملا وعدہ خلافی کی ھے اور دوسروں کو بھی اس راہ پر چلنا سکھا یا ھے۔

 عمر نے اپنی موت کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے جو چہ نفری کمیٹی بنائی تھی اس میں” عبد الرحمن بن عوف“ نے جس کا جھکاوٴکمیٹی کے دوگروھوں کے درمیان فیصلہ کن تھا،

حضرت علی ں سے کھا: میں آپ کی بیعت کرتا ھوں لیکن اسی شرط پر کہ آپ اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت اور شیخین کی سیرت پر عمل کریں گے،حضرت علی ںنے فرمایا: میں صرف خدا کی کتاب ،رسول کی سنت اور اپنی عقل و فکر کی بنیاد پر عمل کروںگا۔اس موقع پر عبد الرحمان بن عوف نے عثمان سے بھی اسی جملہ کا اقرار لیا اور عثمان نے عبدالرحمان کی شرط پر اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور خلیفہ منتخب ھوگئے(اور بعد میںسب نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط کردیا۔)

 مختصر یہ کہ اکثر لوگوں کا انتخاب کرنے والے ایسی شرطیں رکھتے ھیں جس کا ماننا ایک با ایمان اور با ضمیر شخص کے لئے بڑا ھی سخت اور ناگوار ھوتا ھے۔ظاھر ھے کہ حق شناس ان افرادشرطوں کو تسلیم نھیں کرتے لھٰذا منتخب بھی نھیں ھوتے اور ان کی جگہ غیر صالح افراد ھر طرح کی شرط قبول کرلیتے ھیں اورمنتخب ھوجاتے ھیں۔

 امریکہ کے صدر کے انتخاب میں آزاد سے آزاد شخص بھی عالمی صھیونزم کی مدد کو اپنے دستور العمل میں اولویت دینے پر مجبور ھوتا ھے اور ووٹ بنانے والی کمیٹیوں سے یہ وعدہ کرتا ھے کہ اگر منتخب ھوگیا تو اسرائیل کی مدد کرے گا۔چاھے وہ یہ جانتا ھو کہ اس کا یہ عمل عدالت اور انسانیت کے اصول کے سراسر خلاف ھے۔

 2۔مغرب کی جمھوری حکومتوں پر دوسرا اعتراض یہ ھے کہ اس جمھوریت کی بازگشت ایک طرح کے ظلم و ڈکٹیٹر شپ ” تعداد کی ڈکٹیٹر شپ“اور ”اکثریت کا اقلیت پر استبداد و ظلم ) ھے۔ کیونکہ اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ انتخابات بالکل صحیح اور کسی چالبازی کے بغیر انجام پائے ھیں اس کے باوجود اکثریت جو صرف ایک ووٹ سے جیتی ھے اس اقلیت پر حکومت کرے گی جو صرف ایک ووٹ سے نھیں جیتی جب کہ ممکن ھے کہ بھت سے موارد میں حق اقلیت کے ساتھ ھو اس کا مطلب یہ ھے صرف ایک ووٹ کے ذریعہ ایک ملک اور قوم کے منافع و مصلحتیں ضائع ھوجائیں! اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ 49پر51 افراد کی حکومت ایک طرح کی ظالمانہ حکومت ھے جسے انسان نے مجبوری کی بناپر اور اس سے بھتر طریقہ نہ ھونے کی صورت میں یا کسی اور راہ کی طرف توجہ دئیے بغیر، جس کی طرف اسلام نے رھنمائی کی ھے، اپنا پاھے۔

 لیکن خدا کی جانب سے پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے انتخاب میں جیسا کہ اوپر بیان ھوچکا ھے ان تمام نا انصافیوں کا سد باب کردیا گیاھے۔ امام کو وہ منتخب کرتا ھے جس کے حق حاکمیت پر سب راسخ ایمان رکھتے ھیںاور امام ان قوانین کے مطابق حکومت کرتا ھے جسے تمام لوگ قبول کرتے۔ یھاں پر اقلیت و اکثریت کا مسئلہ ھی پیش نھیں آتا ۔

 ان سب باتوں کے علاوہ جمھوری نظاموں میں اکثر یت کی خواھشات اور آرزوئیں قانون کی شکل اختیار کر لیتی ھیں اور ان کے ارادے قطعی فیصلوں اور محکم حکم کی صورت میں تمام لوگوں پر لاددئیے جاتے ھیں ،لیکن اسلامی قوانین کی روح ،جس میں ھمیشہ انسانی معاشرہ کی مصلحتوں کو ھی شریعت کا رنگ ملتا ھے ،ایسے پست نظر یہ کی تائید نھیں کر سکتی۔

 قرآن مجید جس نے ھمیشہ لوگوں کے افکار و خیالات کو خطا و غلطی سے آلودہ بتایا ھے اور اکثریت کے بارہ میں فرماتا ھے (واکثرھم لایعقلون ) اور (واکثرھم لایشعرون)پھر وہ دین کے سب سے اھم موضوع یعنی امت کی امامت یا قیادت کے انتخاب کے سلسلہ میں معاشرہ کی اکثریت کے رجحان کو کیسے موٴثرو نافذ سمجہ سکتا ھے ؟ کیا قرآن کریم نے یہ نھیں فرمایا: (وعسٰی ان تکرھو ا شیئا وھو خیرلکم و عسٰی ان تحبوا شیئا و ھو شرّلکم)  (26) یعنی بعض اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ھو جب کہ وہ تمھارے لئے مفید و نفع بخش ھوتی ھے اور بعض اوقات کسی چیز کو تم پسند کرتے ھو جب کہ وہ تمھارے لئے مضر و نقصان دہ ھے ۔ یہ وہ قانون ھے جو معاشرہ کی اکثریت کی نفسانی خواھشات کو صراحت کے ساتھ خطا شمار کرتا اور فرماتا ھے اکثر لوگوں کے خواھشاتایسی چیز کاتقاضا کرتے ھیں جو خطرناک اور نقصان دہ ھوتی ھے اور کبھی ایسی چیز سے نفرت کا اظھارکرتے ھیں جو سو فی صد ی ان کے لئے مفید ھوتی ھے ۔اس روشنی میں امام  کے انتخاب یا تعیین کو جو پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد سب سے اعلیٰ دینی منصب ھے ،ناقابل اعتبار اکثریت کے حوالے نھیں کیا جاسکتا ۔

(ج)۔ کیا صدر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب اکثریت نے کیا؟

 بعض توجیھیں واقعہ کے گزر جانے کے بعد اسباب تراشی کرتی ھیںاکثر ایسا ھوتا ھے کہ ایک معاشرتی واقعہ بعض حالات و شرائط کے تحت وجود میں آتا ھے ۔ بعد میں آنے والے اس واقعہ کو وجود میں لانے والوں کے فیصلوں کی بنیاد اپنے حدس و گمان پر رکھتے ھیں اور اس واقعہ کے لئے بے جھت خوش بینی کی بنا پر ایسے اخلاقی ،فکری اور سماجی اسباب و علل تراشتے ھیں کہ واقعہ کو وجود میں لانے والوں کی روح کوان کی بھی خبر نھیں ھوتی۔

 اتفاق سے خلفا کی حکومت کے لئے جمھوری نوعیت اور عوام پر عوام کی حکومت یا اقلیت پراکثریت کی حکومت کی توجیہ اس کا روشن و واضح مصداق ھے در اصل صدر اسلام کے خلفاء کے انتخاب میں جو چیز وجود میں نھیں آئی وہ عوام کے ذریعہ خلفاء کا انتخاب تھا ۔کیوں کہ نہ اھل سنت کے محقق علماء خلیفہ کے انتخاب میں اس اصل کے معتقد ھیں اورنہ خلفاء کا انتخاب اس طریقہ سے انجام پایا ۔اس کے با وجود عصر حاضر کے بعض اھل قلم ان خلفاء کی خلافت کو صحیح و درست بتانے کے لئے ھمارے زمانہ کی چیز یعنی جمھوریت اور مغربی لیبرلیزم کا سھارالیتے ھیں اور عوام پر عوام کی حکومت یا اقلیت پر اکثریت کی حکومت کی مثال پیش کرتے ھیں جب کہ اس طرح کی توجیھات واقعہ کے وجود میں آنے کے بعد عالم تخیل میں اس کی اسباب تراشی ھے اور خلافت کا ھر گز اس سے کوئی ربط نھیںرھا ھے۔

اب ھم مزید اطمینان کے لئے اس سلسلہ میں بعض قدیم علماء کے اقوال نقل کرتے ھیں:قاضی ایجی اپنی مشھور کتاب شرح مواقف میں لکھتے ھیں : امام کے انتخاب کے لئے کسی فرد کے خلافت پر اجماع یا امت کے اتفاق کی ضرورت نھیں ھے بلکہ اصحاب پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایک یا دو شخص کی بیعت یا پیمان سے ھی اس شخص کی خلافت قانونی صورت اختیار کرلیتی ھے اور اس کی دلیل یہ ھے کہ اصحاب پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دینی امور میں کمال ایمان کی وجہ سے صرف حضرت ابوبکر کی رائے کو کافی سمجھا جنھوں نے عمر کو اپنے بعد خلافت کے لئے معین کیا اور نہ صرف تمام مسلمانوں کے اتفاق رائے کو شرط نھیں جانا بلکہ خود مدینہ میں رھنے والے صحابہ کے اتفاق رائے کو بھی ضرورینھیں سمجھا  ۔ (27)

 احکام السلطانیہ“کے موٴلف لکھتے ھیں :بعض لوگ یہ تصور کرتے ھیں خلیفہ کا انتخاب اسلامی شھروں میں رھنے والی بزرگ اسلامی شخصیتوں کی تصویب سے انجام پاتاھے،جبکہ ابو بکر سقیفہ بنی ساعدہ میں صرف پانچ افراد کی رائے سے خلیفہ ھوئے ،عمر ،ابو عبیدہ ،اسید بن حضیر ،بشر بن سعد اور سالم مولیٰ ابو حذیفھ۔  (2۸)

 اسلامی خلافت کی تاریخ گواہ ھے کہ عمرنے کی خلافت صرف حضرت ابوبکر کی تعیین کے ذریعہ قانونی ھو گئی اور حضرت عمر نے بھی خلافت کے لئے کسی شخص کے انتخاب کا اختیار چہ نفری کمیٹی کے حوالے کر دیا اور بقیہ تمام مسلمانوں کو انتخاب ھونے اور انتخاب کرنے سے محروم کر دیا ۔

 قاضی باقلانی لکھتے ھیں : ابوبکر کا انتخاب حضرت عمر کی کوشش اور دوسرے چار افراد کے ذریعہ انجام پایا؟۔  (29)حضرت امیر الموٴمنین علی ںکی شھادت کے بعد خلافت بنی امیہ اور بنی عباس کے خاندانوں میں موروثی سلطنت کی شکل اختیار کر گئی ،جس کی کھانی بھت ھی دردناک ھے اور یھاں اس کے بیان کی گنجائش بھی نھیں ھے۔

Add comment


Security code
Refresh