www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام حسن عسکری علیہ السلام
آپ کے دور حیات کا اکثر حصہ عباسی دارالسلطنت سامرا میں نظربندی یا قید کی حالت میں گزرا مگر اس حالت میں آپ کی بلندکرداری اور سیرت بلند کے مظاھرات سے جو اثر پڑا اس کا تجزیہ مولانا سید ابن حسن صاحب جارچوی نے بھت اچھے الفاظ میں کیا ھے۔
ھزاروں رومی اور ترکی غلام جو آھستہ آھستہ دربار خلافت میں رسوخ پا رھے تھے اور اپنی ان رشتہ دار عورتوں کی مدد سے جو بادشاہ کے حرم میں دخیل تھیں اعلیٰ عھدوں اور منصوبوں پر فائز ھوتے جا رھے تھے۔ خلیفہ کی اخلاقی کمزوریوں کو دیکہ کر بالکل اسلام سے بیگانہ اور دین سے متنفر ھو جاتے مگر ان ائمھع دین نے جو خلیفہ کی بدکرداریوں کے مقابلہ میں ایک اعلیٰ درجہ کی سیرت پیش کرتے تھے اسلام کا بھرم رکہ لیا۔ اور مسلم معاشرے کو بالکل برباد ھونے سے بچا لیا۔ جب عامة الناس آل رسول کے ان بھترین عمائد کو دیکھتے اور سیرت و کردار کے ان اعلیٰ نمونوں پر نگاہ ڈالتے تو ان کو یقین آ جاتا کہ دین اسلام کچھ اور چیز ھے اور اس کا نام لے کر ملکوں پر حکمرانی کرنا کچھ اور شے ھے…دارالحکومت اور شاھی دربار کے قرب میں ائمہ(ع) دین کی موجودگی نے اسلام کو ایک بڑے انقلاب سے بچا لیا۔ بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آ کر لوگوں نے اقربائے نبی کے دامن میں پناہ لی تھی اور سمجھتے تھے کہ اب ھم اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس اور اس کے احکام پر عمل پیرا ھوں گے جب عباسیوں کی آمد بھی دینی اور معاشرتی گتھیوں کو نہ سلجھا سکی تو فطری طور پر لوگوں کو یہ احساس پیدا ھو چلا کہ اسلام ھی امن پذیر معاشرہ پیدا کرنے سے قاصر ھے مگر ائمہ اھل بیت(ع) کے وجود نے مسلمانوں کو مطمئن کر دیا کہ اسلام کے صحیح مبلغ ابھی تک برسراقتدار نھیں آئے اور ان کو اصلاح امت، تشکیل سیرت و تعمیر اخلاق کا موقع نھیں ملا۔ اس لئے ملک کی بدحالی اور تباھی کا ذمہ دار اسلام نھیں ھے بلکہ وہ قابویافتہ جماعت ھے جو اسلام کا نام لے کر دنیا کے سر پر سوار ھو گئی ھے۔ (تذکرہ محمد و آل محمد جلد ۳)۔
باوجود یہ کہ اپنے دور امامت میں آپ کی تقریباً پوری زندگی قید و بند میں رھی پھر بھی اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین(ع) اور دیگر اسلاف کی سیرت کے مطابق جب اسلام کو آپکی مدد کی ضرورت پڑی تو ظالم حکومت کے بڑھائے ھوئے فریاد کے ھاتہ کو کبھی ناکام واپس جانے نہ دیا۔ چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک عیسائی راھب نے بارش کراکے اپنی روحانیت کے مظاھرہ سے دارالسلطنت عباسیہ کے بھت سے مسلمانوں کے ارتداد کے آثار پیدا کر دیئے تو اس وقت امام حسن عسکری(ع) تھے جنھوں نے اس کے طلسم کو شکستہ کرکے مسلمانوں کی استقامت کا سامان بھم پھنچایا۔
اس کے علاوہ آپ نے سچے پرستارانِ دین کی دینی تعلیم و تربیت کے فریضہ کو نظرانداز نھیں کیا۔ اس کے لئے اپنی طرف سے سفراء مقرر کئے جو اپنی بصیرت علمی کی حد بھر خود مسائل شرعیہ کا جواب دیتے تھے اور جن مسائل میں امام(ع) سے دریافت کرنے کی ضرورت ھوتی تھی ان کا خود مناسب موقع پر امام(ع) سے جواب حاصل کرکے سائل کی تشفی کر دیتے تھے۔ انھی کے ذریعہ سے اموالِ خمس کی جمع آوری ھوتی تھی اور وہ تنظیم سادات اور دیگر دینی مھمات پر صرف ھوتا تھا۔ اس طرح سلطنت دینوی کے متوازی حکومت دینی کا پورا ادارہ کامیابی کے ساتھ چل رھا تھا۔
پھر آپ نے قید و بند کے اسی شکنجہ میں جو وقتاً فوقتاً رھا کیا معارف اسلامی کی خدمت بھی جاری رکھی۔ چنانچہ بعض آپ کے احادیث شیعہ جوامع حدیث میں درج ھیں اور بعض کتب اھل سنت میں بھی درج ھیں۔ تفصیل کے لئے ھمارا رسالہ ”حسن عسکری(ع)“ دیکھئے جو امامیہ مشن سے شائع ھوا ھے۔ اسی طرح آپ کے تلامذہ نے بھی آپ کے افاداتِ علمی مرتب کئے ھیں ان کا تذکرہ بھی مذکورہ رسالہ میں ملاحظہ ھو۔
امام منتظر عجّل اللہ فرجہ الشر یف
   یہ سلسلھٴ آل محمد کی آخری کڑی خود مادی نگاھوں سے اوجھل ھے پھر اس کی سیرت زندگی کا اس زمانہ کی مادی ذھنیت والے کو اندازہ ھی کیونکر ھو سکتا ھے؟
  بے شک ھم قطعی دلائل کی بنا پر چونکہ آپ کے وجود اور غیبت کو تسلیم کرنے پر مجبور ھیں اور آپ کو انھی مقاصد کا محافظ جانتے ھیں جن کے آپ کے اسلاف کرام ھمیشہ محافظ رھے اس لئے ھم یقین رکھتے ھیں کہ آپ پردہ غیب میں بھی ان فرائض کو انجام دے رھے ھیں جو بحیثیت منصب آپ کے ذمہ ھیں۔
اس سلسلہ میں آپ کے عمل کو اپنے آبائے طاھرین علیھم السلام کی زندگی کے ساتہ جو مماثلت ھے اس پر ھم نے اپنے رسالہ ”وجود حجت“ (شائع کردہ امامیہ مشن لکھنوٴ) میں کافی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ھے جس کا ھر شخص مطالعہ کر سکتا ھے۔ والّسلام!
علی نقی النقوی۔ ۶ رجب ۱۳۷۶ ہ (لکھنوٴ)
   

Add comment


Security code
Refresh