www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 الحمد للہ رب العالمین والصلواة والسلام علی سیدالانبیآء والمرسلین والہ الطاھرین
" لَقَدْ خَلَقْناَ الْاِنْساَنَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم"(سورہ تین آیت ۴)
یہ قرآنی آیت انسان کے اشرف المخلوقات ھونے کی دلیل ھے چونکہ دنیا نے انسان کے صحیح مقام کو نہ سمجھا، اس لئے اس کے کردار کا بھی صحیح تعین نہ ھو سکا اور نقطھٴ نگاہ میں بلندی پیدا نہ ھو سکی۔

ظاھر ھے کہ ھمیشہ مقصد ذریعہ سے اونچا ھوتا ھے جو شئے پست ھو گی اس کا مصرف اسی نسبت سے پست ھو گا اور جو چیز بلند ھو گی اس کا مقصد اسی لحاظ سے بلند تر ھو گا۔
 اگر انسان اپنے درجہ و مقام کو سمجہ لے تو اپنے مقصدِ ھستی اور مصرفِ زندگی کی بلندی کا احساس ھو جائے گا اور یھی اس کی بلندکرداری کی ضمانت ھو گی۔ پھر اسی ایک چیز کے سمجہ لینے سے اس کی حقیقی ترقی اور تنزلی کا سمجھنا بھی آسان ھو جائے گا اس لئے کہ ھر شے کی ترقی اس خصوصیت امتیازی کے ارتقاء کے ساتھ ھے جو اس شے کا جوھر خصوصی ھے۔
انسان اگر تمام دوسری کائنات سے الگ کوئی شے ھوتا تو اس کا سمجھنا آسان ھوتا مگر یہ تو باقی کائنات کے ساتھ بھت سی مشترک حیثیتوں میں متحد ھے یہ جسم رکھتا ھے اس اعتبار سے پتھروں کے ساتھ حصہ دار ھے۔ نشوونما رکھتا ھے اس لحاظ سے درختوں کے ساتھ ھم مرتبہ ھے۔ احساس و حرکت ارادی رکھتا ھے اس حیثیت سے حیوانوں میں شامل ھے اور پھر کوئی خاص جوھر رکھتا ھے جس کی بدولت یہ انسان ھے اور ان سب سے ممتاز ھے۔
انسان کو اگر ان پھلوؤں کے لحاظ سے دیکھا جائے جو دوسروں کے ساتھ مشترک ھیں تو اسے اشرف المخلوقات سمجھنا ھی غلط معلوم ھو گا اس لئے کہ ان تمام چیزوں میں وہ دوسروں سے کم نظر آئے گا۔ بلند محسوس بھی نہ ھو گا۔ جسمیت میں وہ پھاڑوں کے برابر نھیں ھے۔ نشوونما میں درختوں کے مثل نھیں۔ قوت سامعھ، باصرہ یا شامہ اکثر حیوانات کی انسان سے بھت زیادہ طاقتور ھے معلوم ھوتا ھے کہ اس کا برتر ھونا ان مشترک جھات کے لحاظ سے نھیں ھے بلکہ اس کی بلندی اس مخصوص جوھر کے لحاظ سے ھے جو اس میں ھے اور کسی دوسرے میں نھیں ھے وہ کیا چیز ھوسکتی ھے؟ علم اور عمل۔
انسانی علم و عمل کی خصوصیت:
 علم کے معنی اگر بس جاننے کے ھیں اور یھی اس دور میں معیار علم سمجھا جاتا ھے دنیا کے ممالک کی وسعتیں اور مردم شماریاں جان لیں۔ پھاڑوں کی اونچائیاں اور دریاؤں کی گھرائیاں جان لیں۔ سیاروں کے فاصلے زمین سے اور ان کی پیمائش معلوم کر لیں نباتات کے خواص او رپتھروں کی کیفیات معلوم کر لیں۔
اگر یھی علم بمعنی ”دانستن“ انسان کا خاص جوھر ھے تو کون کھتا ھے کہ حیوان علم سے بے بھرہ ھے۔ حیوان بھی بھت کچھ جانتا ھے اپنے رھنے کی جگہ کو جانتا ھے اپنے کھانے کی غذا کو جانتا ھے۔ اپنے غذا دینے والے کو پھچانتا ھے۔ اپنے حفظان صحت کے اصول جانتا ھے۔ اسی لئے جنگل میں کوئی جانور بیمار نھیں پڑتا۔ بے شک انسانوں کے غیرطبعی ماحول میں آ کر وہ بیمار پڑنے لگتا ھے۔ اسی طرح اگر عمل کے معنی بس کچھ نہ کچھ کام کرنے کے ھیں تو حیوان بھی عمل سے خالی نھیں ھے۔ وہ بقدر امکان اپنی غذا کے حصول کے ذرائع مھیا کرتا ھے جو ا س کے مقصد میں سدراہ ھو اسے دفع کرتا ھے اور اپنے حریف سے بقدر امکان مقابلہ کرتا ھے۔
پھر آخر وہ علم اور عمل جو انسان سے مخصوص ھے کیا ھے۔؟
ھم جھاں تک سمجھ سکے ھیں علم کے شعبہ میں انسان کا امتیاز خصوصی دو باتوں سے ھے۔ ایک یہ کہ حیوان کا علم محسوسات کے دائرہ میں اسیر ھے پھلے جو میں نے کھا کہ وہ اپنے غذا دینے والے کو پھچانتا ھے یہ پورے طور پر درست نھیں ھے حقیقت میں وہ پھچانتا ھے جس کے ھاتہ سے غذا پاتا ھے جو اصل غذا کا دینے والا ھے اگر اس کے سامنے نھیں آتا اور انپے ھاتہ سے غذا نھیں دیتا تو وہ اسے نھیں پھچانے گا۔ اب اگر انسان کا علم بھی ایسا ھو کہ جس رئیس سے ملا اسی کو ولی نعمت جان لیا۔ جس نے تنخواہ دی اسی کو خدا سمجھ لیا تو پھر حیوان اور انسان میں کوئی فرق نھیں۔
انسان کی خصوصیت یہ ھے کہ وہ عالم احساس و مشاھدہ کے ماوراء اپنی عقل کی مدد سے کچھ حقیقتوں کا پتا لگاتا اور ان کا تیقن کرتا ھے اور وھی ایمان بالغیب کا سرچشمہ ھوتا ھے۔
دوسری بات یہ ھے کہ حیوانی علم محدود ھے یعنی جتنا اسے واھب العطا یا کی طرف سے مل گیا بس اتنا ھی ھے۔ شھد کی مکھی بس مسدس خانے بنانا جانتی ھے اور وہ بھترین بناتی ھے کوئی مھندس بغیر پرکار کی مدد کے اتنے متوازن خانے نھیں بناتا لیکن جو شکل اس کی فطرت میں داخل ھے بس وھی بنا سکتی ھے۔ مربع و مثلث وغیرہ نھیں بنا سکتی اسی طرح تارِ عنکبوت بے نظیر صنعت ھے مگر اس کی شکل بدلنا اس کے امکان میں نھیں ھے لیکن انسانی علم؟ اس کا کام ھے معلومات سے مجھولات کا پتا لگانا۔ یہ اپنے علم میں برابر ترقی کرتا رھتا ھے۔
(اس کا بیان رسائل ”اسلام کی حکیمانہ زندگی“ اور ”زندگی کا حکیمانہ تصور“ میں تفصیل کے ساتھ ھوا ھے)
عمل کی منزل میں انسان کی خاص صفت یہ ھے کہ حیوان کے افعال بتقاضائے طبیعت ھوتے ھیں۔ اس سے بحث نھیں کہ بامحل ھیں یا بے محل۔ مگر انسان میں سوجہ بوجھ۔ حق اور ناحق کا امتیاز اور صحیح و غلط میں امتیاز کی قوت ھے اور اسی اعتبار سے مختلف افراد کی انسانیت کے مدارج قائم ھوتے ھیں۔
اکثر افراد ایسے ھیں جن کی صورت انسان کی ھے مگر کردار حیوانی ھے وہ یہ ھیں۔ جن کے افعال طبیعت کے تقاضے سے ھوتے ھیں۔ ایک شخص کی طبیعت میں غیرمعمولی غصہ ھے وہ بارود کا خزانہ ھے ذرا سی بات پر مشتعل ھو جاتا ھے۔ اس سے اس جوش غضب کے ماتحت کبھی ایسے افعال بھی ممکن ھے وقوع میں آ جائیں جو نتائج کے اعتبار سے ممدوح و مستحسن ھوں جیسے مظلوم کی حمایت میں اسے غصہ آ جائے اور یہ بڑہ کر ظالم کو دفعہ کر دے مگر چونکہ اس کا غیض و غضب بتقاضائے طبیعت ھے اس لئے دوسرے وقت اس شخص سے خود کسی بے گناہ پر ظلم ھو گا اور یہ اپنے غصہ کی وجہ سے ایسے اقدامات کر ڈالے گا جو عقلاً و شرعاً کسی صورت سے بھی ممدوح و مستحسن نھیں ھو سکتے۔ اسی طرح ایک آدمی ھے گیلی مٹی کا بنا ھوا جسے کبھی غصہ ھی نھیں آتا۔ یہ بعض اوقات ایسے محل پر سکوت کرے گا جھاں کوئی اقدام بڑے فتنہ و فساد اوربرے نتائج کا باعث ھو اس وقت سب اس کی تعریف کریں گے کہ کیا کھنا۔ اس نے اپنے حلم وتحمل سے کتنے بڑے فساد کو روک لیا۔ لیکن چونکہ یہ سکوت و سکون کسی احساس فرض کا نتیجہ نھیں بلکہ طبیعت کا تقاضا ھے۔ اس لئے یھی شخص ایسے مواقع پر بھی سکوت کر جائے گا جھاں خاموشی ظلم و تشدد کی ھمت افزائی کا سبب ھے یہ انسانی کردار نھیں ھے۔


انسانی کردار کی بلندی
 انسان کی بلندی عقل و تدبر کے استعمال اور فرض شناسی میں ھے اس صفت کے کمال اور نقص سے اس کی بلندی اور پستی کے حدود متعین ھوتے ھیں یھی وہ تقویٰ ھے جسے قرآن نے معیارِ فضلیت بشری قرار دیا ھے۔ " ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم " (یعنی) ”تم میں زیادہ صاحب عزت وہ ھے جو سب سے زیادہ پرھیزگار ھو۔ “
فرائض ھمیشہ ایک ھی شکل و صورت پر نھیں ھوتے کوئی بڑے سے بڑا حکیم و دانشمند فرائض کی کوئی ایسی فھرست نھیں مرتب کرسکتا جو ھر شخص کے لئے ھر حال میں قابل ادائی ھو۔ سچ بولنے ھی کو لیجئے۔ یہ بے شک انسانی فرض ھے مگر کیا ھر موقع پر؟ مثال کے طور پر کوئی ظالم شمشیر بکف کسی مظلوم کے تعاقب میں ھو، وہ اس کی نظر بچا کر ھماری آنکھوں کے سامنے کھیں مخفی ھو جائے۔ اب وہ ظالم ھم سے پوچھے کہ کیا تم نے دیکھا ھے وہ کس طرف گیا ھے؟ اب کیا ھمیں سچ بولنا چاھئے؟ یقیناً اگر ھم نے سچ سچ کھہ دیا تو ظالم کی تلوار ھو گی اور مظلوم کا گلا ھو گا، اور اس خونِ ناحق کی ذمہ داری ھمارے سچ پر ھو گی۔
متعدد گناھان کبیرہ ھیں جو سچ سچ کھنے ھی سے وقوع میں آتے ھیں مثلاً نمامی یعنی لگائی بجھائی کرنا۔ چغلی کھانا۔ یہ سچ ھی ھوتا ھے جھوٹ نھیں ھوتا مگر وہ بھت بڑا گناہ ھے۔ اسی طرح غیبت گناہ کبیرہ ھے۔ وہ بھی سچ ھی کھنے سے ھوتی ھے معلوم ھوا کہ ھر صورت میں سچ کھنا فریضھٴ انسانی نھیں ھے۔
اسی طرح امانت واپس کرنا۔ ضرور انسانی فریضہ ھے مگر اسی صورت میں کہ جب کوئی ظالم مظلوم کے قتل کا ارادہ رکھتا ھو اگر اس نے اپنی تلوار اتفاق سے ھمارے پاس بطور امانت رکھوائی ھو۔ اب اس وقت وہ اپنی تلوار ھم سے مانگے تو ھرگز ھم کو نہ دینا چاھئے ورنہ ھم شریکِ قتل ھوں گے۔
مذھبی حیثیت سے عبادات میں سب سے اھم نماز ھے لیکن اگر کوئی ڈوبتا رھا ھو او راس کا بچانا نماز توڑنے پر موقوف ھو تو نماز کاتوڑ دینا واجب ھو گا۔ اگر وہ ڈوب گیا اور نماز پڑھتے رھے تو یہ نماز بارگاہ الٰھی سے مسترد ھو جائے گی۔ کہ میرا بندہ ڈوب گیا اور تم نماز پڑھتے رھے مجھے ایسی نماز نھیں چاھئے۔ معلوم ھوا کہ فرائض اور عبادات باعتبارحالات و واقعات بدلتے رھتے ھیں۔ فرائض کی یھی نگھداشت جوھرِ انسانیت ھے۔
انسانِ کامل کی شان:
 فرض شناس انسان کے افعال بتقاضائے طبیعت نھیں ھوتے بلکہ بتقاضائے فرض ھوتے ھیں اس کا عمل انتھاء پسندی کے دو نقطوں کے درمیان ھوتا ھے اسی کا نام عدل و اعتدال ھے، جو معیار حسنِ اخلاق ھے اور چونکہ عام افراد بشر عموماً طبیعتوں کے تقاضوں میں اسیر ھوتے ھیں اور افراط و تفریط میں مبتلاء اس لئے بلند افراد انسان کے خلاف عموماً دو طرف سے اعتراضات ھوتے ھیں۔ ایک ادھر والے انتھاپسندوں کی طرف سے اور دوسرے ادھر والے انتھاپسندوں کی جانب سے مگر وہ کبھی ان اعتراض کی پروا نھیں کرتے انھیں تو فرائض کے ادا کرنے سے مطلب ھوتا ھے۔
  انسان کامل کے اعمال سطحی نگاہ رکھنے والوں کو بسااوقات متضاد نظر آتے ھیں مگر ان میں حقیقتاً کوئی تضاد نھیں ھوتا۔ بلکہ وہ مختلف حالات کے جداگانہ تقاضے ھوتے ھیں جو اس کے افعال میں ظاھر ھوتے ھیں۔
اس کے لئے ھمارے سامنے چودہ سیرتیں موجود ھیں جن میں سب سے مقدم حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی (ص)کی سیرتِ پاک ھے۔


سیرتِ حضرت خاتم الانبیاء کی روشنی میں
 آپ چالیس برس کی عمر میں مبعوث برسالت ھوئے۔ ۱۳ سال ھجرت کے قبل مکہ کی زندگی ھے اور دس سال بعد ھجرت مدینہ کی زندگی۔
یہ تینوں دور بالکل الگ الگ کیفیت رکھتے ھیں جن میں سے ھر دور بالکل یک رنگ ھے۔ کسی تلون اور غیرمستقل مزاجی کا مظھر نھیں ھے مگر وہ سب دور آپس میں بھت مختلف ھیں۔
پھلے چالیس برس کی مدت میں زبان بالکل خاموش اور صرف کردار کے جوھر نمایاں یھی آپ کی سچائی کا ایک نفسیاتی ثبوت ھے۔ کیونکہ جو غلط دعویدار ھوتے ھیں ان کے بیانات و اظھارات کی رفتار کو دیکھاجائے تو محسوس ھو گا کہ وھاں پھلے ان کے دل و دماغ میں تصور آتا ھے کہ ھمیں کوئی دعویٰ کرنا چاھئے مگر انھیں ھمت نھیں ھوتی اس لئے وہ کچھ مشتبہ الفاظ کھتے ھیں جن سے کبھی سننے والوں کو وحشت ھوتی ھے اور کبھی اطمینان پھر وہ رفتہ رفتہ قدم آگے بڑھاتے ھیں پھلے کوئی ایسا دعویٰ کرتے ھیں جس کو تاویلات کا لباس پھنا کر رائے عامہ کے مطابق بنایا جا سکے یا جس کی حقیقت کو صرف خاص خاص لوگ سمجھ سکیں۔ اور عام افراد محسوس نہ کریں۔ جب جھجھک نکل جاتی ھے تو پھر جی کڑا کرکے کھل کر دعویٰ کر دیتے ھیں۔ اس کی قریبی مثالیں علی محمد باب اور غلام احمد قادیانی میں بھت آسانی سے تلاش کی جا سکتی ھیں۔
حضرت پیغمبر اسلام کی زبان سے چالیس برس تک کوئی لفظ ایسی نھیں نکلی جس سے لوگ ادعائے رسالت کا توھم بھی کر سکتے یا کوئی بے چینی اس حلقہ میں پیدا ھوتی۔ غلط سے غلط روایت بھی ایسی نھیں جو بتائے کہ کفار نے کسی آپ کی لفظ سے ایسے دعویٰ کا احساس کیا ھو جس پر ان میں کوئی برھمی پیدا ھوئی ھو اور پھر آپ کو اس کے متعلق صفائی پیش کرنے کی ضرورت ھوئی ھو۔ بلکہ اس دور میں آپ کا کام صرف اپنی سیرتِ بلند کی عملی تصویر دکھانا تھی جس نے ایک مقناطیسی جذب کے ساتہ دلوں کو تسیخر کر لیا تھا اور آپ کی ھردلعزیزی ھمہ گیر حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے بعد چالیس برس کی عمر میں جب دعوائے رسالت کیا تو وہ بالکل وھی تھا جو آخر تک آپ کا دعویٰ رھا۔ یہ نھیں ھوا کہ پھلے اس دعویٰ میں خفت ھو، پھر شدت پیدا ھو۔ یا پھلے دعویٰ کچھ ھو اور پھر رفتہ رفتہ اس میں ترقی ھوئی ھو۔
اب اس دعویٰ رسالت کے بعد آپ کو کتنے مصائب و تکالیف برداشت کرنا پڑے وہ سب کو معلوم ھیں۔ یہ پرآشوب دور وہ تھا کہ جب سر مبارک پر خس و خاشاک پھینکا جاتا تھا، جسم اقدس پر پتھروں کی بارش ھوتی تھی۔ تیرہ برس اس طرح گزرتے ھیں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نھیں ھوتا کہ ان کا ھاتہ تلوار کی طرف چلا جائے اور ارادہ جھاد کا کیا جائے۔
اگر کوئی رسول کی زندگی کے صرف اس دور ھی کو دیکھے تو یقین کرے گا کہ جیسے آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ھیں یہ مسلک اتنا مستقل ھے کہ کوئی ایذارسائی، کوئی دل آزاری اور کوئی طعن و تشنیع آپ کو اس راستے سے نھیں ھٹا سکتی۔ پھلے چالیس برس ھی کی طرح اب یہ رنگ اتنا گھرا اور یہ مسلک اتنا راسخ ھے کہ اس کے درمیان کوئی ایک واقعہ بھی اس کے خلاف نمودار نھیں ھوتا۔ کوئی بے بس اور بے کس بھی ھو تو کسی وقت تو اسے جوش آھی جاتا ھے اور وہ جان دینے اور جان لینے کے لئے تیار ھو جاتا ھے پھر چاھے اسے اور زیادہ ھی مصائب کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں مگر ایک دو برس نھیں تیرہ سال مسلسل اس غیرمتزلزل صبر و سکون کے ساتہ وھی گزار سکتا ھے جس کے سینہ میں وہ دل اور دل میں وہ جذبات ھی نہ ھوں جو جنگ پر آمادہ کر سکتے ھیں۔
اسی درمیان میں وہ وقت آتا ھے کہ مشرکین آپ کے چراغ زندگی کے خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیتے ھیں اور ایک رات طے ھو جاتی ھے کہ اس رات سب مل کر آپ کو شھید کر ڈالیں۔ اس وقت بھی رسول تلوار نیام سے باھر نھیں لاتے۔ کسی مقاومت کے لئے کھڑے نھیں ھوتے بلکہ بحکمِ خدا شھر چھوڑ دیتے ھیں۔ جو معرفت محمد نہ رکھتا ھو وہ اس ھٹنے کو کیا سمجھے گا؟ یھی تو کہ جان کے خوف سے شھر چھوڑ دیا۔ اور پھر حقیقت بھی یہ ھے کہ جان کے تحفظ کے لئے یہ انتظام تھا مگر فقط جان نھیں بلکہ جان کے ساتہ ان مقاصد کا تحفظ جو جان کے ساتہ وابستہ تھے بھرحال اس اقدام یعنی ترک وطن کو کوئی کسی لفظ سے تعبیر کرے مگر اسے دنیا مظھر شجاعت تو نھیں سمجھے گی اور صرف اس عمل کو دیکہ کر اگر اس ذات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرے گا تو وہ حقیقت کے مطابق نھیں ھو سکتی بلکہ گمراھی کا ثبوت ھو گی۔
اب ترپن برس کی عمر ھے اور آگے بڑھاپے کے بڑھتے ھوئے قدم ھیں بچپنا اور جوانی کا اکثر حصہ خاموشی میں گزرا ھے پھر جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر کی منزلیں پتھر کھاتے اور برداشت کرتے گزر رھی ھیں اور آخر میں اب جان کے تحفظ کے لئے شھر چھوڑ دیا ھے بھلا کسے تصور ھو سکتا ھے کہ جو ایک وقت میں عافیت پسندی سے کام لیتے ھوئے شھر چھوڑ دے وہ عنقریب فوجوں کی قیادت کرتا ھوا نظرآئے گا حالانکہ مکہ ھی نھیں بلکہ مدینہ میں آنے کے بعد بھی آپ نے جنگ کی کوئی تیاری نھیں کی۔ اس کا ثبوت یہ ھے کہ ایک سال کی مدت کے بعد جب دشمنوں کے مقابلہ کی نوبت آئی تو آپ کی جماعت میں جو کل جمع ۳۱۳ آدمیوں پر مشتمل تھی صرف ۱۳ عد تلواریں تھیں اور دو گھوڑے تھے۔ ظاھر ھے کہ ایک سال کی تیاری کا نتیجہ یہ نھیں ھو سکتا تھا۔ جبکہ اس ایک سال میں تعمیری خدمات بھت سے انجام پا گئے۔ مدینہ میں کئی مسجدیں بن گئیں مھاجرین کے قیام کے لئے مکانات تیار ھو گئے۔ بھت سے دیوانی و فوجداری کے قوانین نافذ ھوگئے اور اس طرح جماعت کی مملکتی تنظیم ھو گئی مگر جنگ کا کوئی سامان فراھم نھیں ھوا۔ اس سے بھی پتا چل رھا ھے کہ آپ کی طرف سے جنگ کا کوئی سوال نھیں ھے مگر جب مشرکین کی طرف سے جارحانہ اقدام ھو گیا تو اس کے بعد بدر ھے، احد ھے، خندق ھے، خیبر ھے اور حنین ھے۔ پھر یہ نھیں کہ اپنے گھر میں بیٹہ کر فوجیں بھیجی جائیں اور فتوحات کا سھرا اپنے سر باندھا جائے بلکہ رسول خدا کا کردار یہ ھے کہ چھوٹے اور غیراھم معرکوں میں تو کسی کو سردار بنا کر بھیج دیا ھے مگر ھر اھم اور خطرناک موقع پر فوج کے سردار خود ھوتے ھیں اور یہ نھیں کہ اصحاب کو سپر بنائے ھوئے ان کے حصار میں ھوں۔ بلکہ اسلام کے سب سے بڑے سپاھی حضرت علیع بن ابی طالبع کی گواھی ھے کہ جب جنگ کا ھنگامہ انتھائی شدت پر ھوتا تھا تو ھمیشہ رسول اللہ ھم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ھوتے تھے پھر یہ بھی نھیں کہ یہ قیام فوج کے سھارے پر ھو بلکہ احد میں یہ موقع بھی آ گیا کہ سوا دو ایک کے باقی سب مسلمانوں سے میدان جنگ خالی ھو گیا۔ مگر اس وقت وہ جو کچھ پھلے ظاھر جان کے تحفظ کے لئے شھر چھوڑ چکا تھا وہ اس وقت خطرہ کی اتنی شدت کے ھنگا م میں جب آس پاس کوئی بھی سھارا دینے والا نظر نھیں آتا اپنے موقف سے ایک گام بھی پیچھے نھیں ھٹتا۔ زخی ھو جاتے ھیں، چھرہ خون سے تر ھو جاتا ھے خود کی کڑیاں ٹوٹ کر سر کے اندر پیوست ھو جاتی ھیں۔ دندان مبارک مجروح ھو جاتے ھیں۔ مگر اپنی جگہ سے قدم نھیں ھٹاتے۔
اب کیا عقل و انصاف کی رو سے مکہ سے ھجرت کو خوف جان سے اس معنی میں سمجھا جا سکتا ھے جس سے شجاعت پر دھبہ آ ٓئے؟ ھرگز نھیں۔ یھی ھم نے پھلے کھا تھا کہ صرف اس عمل کو دیکہ کر جو رائے قائم کی جائے گی وہ گمراھی کا ثبوت ھو گی اس گمراھی کا پردہ اب اس وقت تو یقیناً چاک ھو جانا چاھئے۔
 شجاعت رسول کی حقیقی معرفت شیرِ خدا حضرت علی مرتضیع کو تھی۔ جنگِ احد میں قتل محمد کی آواز تھی جس نے کل فوجِ اسلام کے قدم اکھاڑ دیئے۔ اور اس تصور نے علیع پر کیا اثر کیا۔ اسے خود آپ نے بعد میں بیان کیا ھے کہ میں نے نظر ڈالی تو رسول اللہ نظر نہ آئے۔ میں نے دل میں کھا کہ دو ھی صورتیں ھیں۔ یا وہ شھید ھو گئے اور یااللہ نے عیسیٰ (ع) کی طرح انھیں آسمان پر اٹھا لیا۔ دونوں صورتوں میں میں اب زندہ رہ کر کیا کروں گا۔ بس یہ سوچنا تھا کہ نیام توڑکر پھینک دیا اور تلوار لے کر فوج میں ڈوب گئے۔ جب فوج ھٹی تو رسول نظر آئے۔ دیکھنے کی یہ چیز ھے کہ حضرت علیع بن ابی طالبع کو صرف یھی دو تصور ھوئے۔ رسول شھید ھو گئے یا خدا نے آسمان پر اٹھا لیا۔ یہ توھم بھی نھیں ھوا کہ شاید رسول بھی میدان سے کسی گوشھٴ عافیت کی طرف چلے گئے ھوں۔ یہ علیع کا ایمان ھے رسول کی شجاعت پر۔
عیسائیوں نے رسول کی تصویر صرف اسی دور جنگ آزمائی کی یوں کھینچی کہ ایک ھاتہ میں قرآن ھے اور ایک ھاتہ میں تلوار۔ مگر جس طرح رسول کی صرف اس زندگی کو سامنے رکہ کر وہ رائے قائم کرنا غلط تھا کہ آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ھیں یا سینہ میں وہ دل ھی نھیں رکھتے جو معرکہ آرائی کر سکے اسی طرح صرف اس دوسرے دور کو سامنے رکہ کر یہ تصویر کھینچنا بھی ظلم ھے کہ بس قرآن ھے اور تلوار۔
آخر یہ کس کی تصویر ھے؟ محمد مصطفی کی نا؟ تو محمد نام تو اس پوری سیرت کی مالک ذات کا ھے جس میں وہ چالیس برس بھی ھیں وہ تیرہ برس بھی ھیں اور اب یہ دس برس بھی ھیں۔ پھر اس ذا ت کی صحیح تصویر تو وہ ھو گی جو زندگی کے ان تمام پھلوؤں کو دکھا سکے۔ یہ صرف ایک پھلو کو نمایاں کرنے والی تصویر تو حضرت محمد مصطفیﷺ کی نھیں سمجھی جا سکتی۔
پھر اس دس برس میں بھی بدر واحد، خندق و خیبر سے آگے بڑھ کر ذرا حدیبیہ تک بھی تو آئیے۔ یھاں پیغمبر کسی جنگ کے ارادہ سے نھیں بلکہ حج کی نیت سے مکہ معظمہ کی جانب آ رھے ھیں۔ ساتہ میں وھی بلند حوصلہ فتوحات حاصل کئے ھوئے سپاھی ھیں جو ھر میدان سر کرتے رھے ھیں اور سامنے مکہ میں وھی شکست خوردہ جماعت ھے جو ھر میدان میں ھارتی رھی ھے اور اس وقت وہ بالکل غیرمنظم اور غیرمرتب بھی ھے پھر بھی ان کی حرکت مذبوجی ھے کہ وہ سد راہ ھوتے ھیں کہ ھم حج کرنے نہ دیں گے۔ عرب کے بین القبائلی قانون کی رو سے حج کا حق کعبہ میں ھر ایک کو تھا۔ ان کا رسول کے سدراہ ھونا اصولی طور پر بنائے جنگ بننے کے لئے بالکل کافی تھا مگر پیغمبر نے اس موقع پر اپنے دامن کو چڑھائی کرکے جنگ کرنے کے الزام سے بری رکھتے ھوئے صلح کرکے واپسی اختیا رکی اور صلح بھی کیسے شرائط پر؟ ایسے شرائط پر جنھیں بھت سے ساتہ والے اپنی جماعت کے لئے باعث ذلت سمجھ رھے تھے اور جماعت اسلام میں عام طور سے بے چینی پھیلی ھوئی تھی۔ ایسی شرطیں تھیں جیسی ایک فاتح کسی مفتوح سے منواتا ھے اس وقت واپس جائیے اس سال حج نہ کیجئے آئندہ سال آئیے گا صرف تین دن تک مکہ میں رھئے گا۔ چوتھے دن آپ میں سے کوئی نظر نہ آئے گا دوران سال میں ھم میں سے کوئی بھاگ کر آپ کے پاس جائے تو آپ کو واپس کرنا پڑے گا اور آپ میں سے کوئی بھاگ کر ھمارے پاس آئے تو ھم واپس نھیں کریں گے۔ انھیں یہ شرائط پیش کرنے کی ھمت کیوں ھوئی؟ یقیناً صرف اس لئے کہ وہ مزاج نبوت سے یہ سمجھ لئے تھے کہ آپ اس وقت جنگ نھیں کریں گے۔ بس کم ظرف جب یہ سمجھ لیتا ھے کہ مقابل تلوار نھیں اٹھائے گا تو وہ بڑھتا ھی چلا جاتا ھے۔ آپ نے سب شرائط منظور کر لئے اور واپس تشریف لے گئے۔
اس کے بعد جب مشرکین کی طرف سے عھدشکنی ھوئی اور حضرت فاتحانہ حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ھوئے تو اس وقت گزشتہ واقعات کی بناء پر ایک انسان کے کیا جذبات ھو سکتے ھیں؟ جنھوں نے تیرہ برس جسم مبارک پر پتھرے مارے جنھوں نے توھین و ایذارسانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ان کے ھاتھوں وطن چھوڑنا پڑا۔ اور اس کے بعد بھی انھوں نے چین لینے نہ دیا۔ بلکہ جب تک دم میں دم رھا بار بار خونریز حملے کرتے رھے جس میں کتنے ھی عزیز اور دوست خاک و خون میں تڑپتے نظر آئے۔ خصوصیت کے ساتہ اپنے ھمدرد چچا جناب حمزہ کا بعدِ قتل سینہ چاک ھوتے دیکھنا۔ آج وھی جماعت سامنے تھی اور بالکل بے بس، اپنے قبضے میں یہ وقت تھا کہ ان کے گزشتہ تمام بھیمانہ حرکات کی آج سزا دی جاتی، مگر اس مجسم رحمت الٰھی نے جب انھیں بے بس پایا تو عام اعلان معافی کر دیا۔ اور ایک قطرھٴ خون زمین پر گرنے نہ دیا۔
اب دنیا بتائے کہ پیغمبر جنگ پسند تھے یا امن پسند؟ حقیقتہ ان کی جنگ یا صلح کوئی بھی جذبات کی بناء پر نہ تھی بلکہ فرائض کے ماتحت کام ھوتاتھا جس وقت فرض کا تقاضا خاموشی تھی خاموش رھے اور جب حالات کے بدلنے سے ضرورت جنگ کی پڑ گئی جنگ کرنے لگے۔ پھر جب امکانِ صلح پیدا ھو گیا اور بلندی اخلاق کا تقاضا صلح کرنا ھوا تو صلح کر لی۔ اور جب دشمن بالکل بے بس ھو گیا تو عفو و کرم سے کام لے کر اسے معاف کر دیا۔
یہ سب باختلافِ حالات فرائض کی تبدیلیاں ھیں جو آپ کے کردار میں نمایاں ھوتی رھی ھیں۔ فرائض کی یھی پابندی طبیعت کے دباؤ سے جتنی آزاد ھو، وھی معراج انسانیت ھے۔


سِیرت حضرت سّید الا وصیٰاء کی روشنی میں
 رسول (ص)کے بعد دوسری معیاری شخصیت جو ھمارے سامنے ھے وہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی ھے۔
آپ کی دس سال کی عمر ھے جب پیغمبر مبعوث برسالت ھوتے ھیں اور علی بن ابی طالب (ع) ان کی رسالت کے گواہ ھوتے ھیں۔ یہ پھلے ھی سے رسول (ص) کی آغوشِ تربیت میں تھے اور آغوش میں دعوتِ اسلام کی پرورش شروع ھوئی۔ یوں کھنا چاھئے کہ اسلام نے آنکہ کھول کر انھیں دیکھا اور ان کی نگاہ وہ تھی کہ اعلانِ رسالت کے پھلے رسول (ص)کی رسالت کو دیکہ رھے تھے۔ خود اپنے بچپن کی کیفیت نھج البلاغہ کے ایک خطبے میں بتائی ھے کہ:
کُنتْ اَتبِعہ
اِتَبّاعَ الفَصیل
اثرَامُّہ اشّم
رِیح النّبوةِ
واری نورالرسالة۔
میں رسول (ص)کے پیچھے یوں رھتا
تھا جیسے ناقہ کا بچہ ناقہ کے پیچھے رھتا ھے۔ میں نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا اور رسالت کی روشنی دیکھتا تھا۔
اب ظاھر ھے کہ ان کو رسول (ص) سے کتنا انس ھونا چاھئے۔ پھر وہ قرابت کی محبت الگ جو بھائی ھونے کے اعتبار سے ھوناچاھئے اور وہ الگ جو بحیثیت ایک گھر میں رھنے کے ھونا چاھئے اور وہ اس کے علاوہ جو اپنے مربی سے ھونا چاھئے اور وہ اس کے ماوراء جو ان سے بحیثیت رسول (ص) اور ان کے پیغام سے بحیثیتِ حقانیت ھونا چاھئے۔
ابھی اگرچہ دس برس کی عمر ھے مگر عرب اور بنی ھاشم کے اور وہ بھی اس وقت کے دس برس کے بچے کو اپنے ھندوستان کا اس زمانہ کا دس برس کا بچہ نہ سمجھنا چاھئے اور پھر وہ بھی علی(ع) ایسا بچھ۔ پھر اس وقت تو دس ھی برس کی عمر ھے مگر اس کے بعد ۱۳ برس رسول کے مکہ میں گزرنا ھیں، اور یھی انتھائی پرآشوب اور تکلیف و شدائد سے بھرا ھوا دور ھے۔ ھجرت کے وقت علی بن ابی طالب (ع) کی عمر ۲۳ برس ھوئی، دس برس سے ۲۳ برس کا درمیانی وقفہ وہ ھے جس میں بچپنا قدم بڑھاتا ھوا مکمل شباب کی منزل تک پھنچتا ھے۔ یہ زمانہ جوش و خروش کا ھوتا ھے یہ زمانہ ولولہ و امنگ کا ھوتا ھے۔ بڑھتی ھوئی حرارت، شباب کی منزلیں اس دور میں گزر رھی ھیں۔ عام انسانوں کے لئے یہ دور وہ ھوتا ھے جس میں نتائج و عواقب پر نظر کم پڑتی ھے انسان ھر دشوار منزل کو سھل اور ھر ناممکن کو ممکن تصور کرتا ھے اور مضرتوں کا اندیشہ دماغ میں کم لاتا ھے۔ یھاں یہ دور اس عالم میں گزر رھا ھے کہ اپنے مربی کے جسم پر پتھر مارے جا رھے ھیں۔ سر پر خس و خاشاک پھینکا جاتا ھے۔ طعن و شماتت کا کوئی وقیقہ اٹھا نھیں رکھا جاتا۔ پھر فطری طور پر یھی سب طعن و تشنیع و شماتت ھر اس شخص کو جو رسول (ص) سے وابستہ ھے اپنی ذات کے لئے بھی سننا پڑتی ھے۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ رسول (ص)کے ھم یا مقابل پھر بھی سن رسیدہ ھو سکتے ھیں لیکن علی بن ابی طالب (ع) کے ھم عمر جو مخالف جماعت میں تصور کئے جا سکتے ھیں وہ غیرمھذب اور غیرتعلیم یافتہ ھونے کے ساتھ اپنے سن و سال کے لحاظ سے بھی ھر خفیف الحرکاتی پر ھر وقت آمادہ سمجھے جا سکتے ھیں۔ کون سمجھ سکتا ھے کہ وہ علی ابن ابی طالب (ع) کی جو رسول (ص) سے اتنی شدید وابستگی رکھتے تھے کیسی کیسی دل آزاری کرتے تھے کیا کیا طعنے اور کیا کیا زخم زبان پھنچاتے تھے۔ اسے کوئی راوی نہ بھی بیان کرے تو بھی ھر صاحبِ عقل کچھ نہ کچھ سمجھ سکتا ھے۔
اب ممکن ھے کہ اس وقت ابھی دنیاعلی بن ابی طالب (ع) کو بالکل نہ سمجھتی ھو کہ وہ کیا ھیں؟ مگر اب اس وقت تو تاریخ کے خزانہ میں علی بن ابی طالبع کی وہ تصویر بھی موجود ھے جو ھجرت کے ایک سال بعد بدر میں اور پھر دو سال بعد احد میں اور پھر خیبر اور خندق اور ھر معرکہ میں نظر آتی ھے۔
جذبات کے لحاظ سے، قوت دل کے اعتبار سے، جراٴت و ھمت کی حیثیت سے ۲۲ سال اور ۲۳ سال اور پھر ۲۴۔۲۵ سال میں کوئی خاص فرق نھیں ھوتا۔ یقیناً علیع جیسے ھجرت کے ایک دو اور تین سال بعد بدر واحد اور خندق و خیبر میں تھے۔ ایسے ھی ھجرت کے وقت اور ھجرت کے دو چار سال پھلے بھی تھے۔ یھی بازو، یھی بازوؤں کی طاقت، یھی دل اور یھی دل کی ھمت، یھی جوش، یھی عزم، غرض کہ سب کچھ اب بعد میں نظر آ رھا ھے۔ اب اس کے بعد قدر کرنا پڑے گی کہ اس ھستی میں وہ ۱۳ برس اس عالم میں کیونکر گزارے۔
اور کوئی غلط روایت بھی یہ نھیں بتاتی کہ کسی وقت علیع نے جوش میں آ کر کوئی ایسا اقدام کر دیا ھو جس پر رسول کو کھنا پڑا ھو کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا کسی وقت پیغمبر کو یہ اندازہ ھوا ھو کہ یہ ایسا کرنے والے ھیں تو بلا کر روکا ھو کہ ایسا نہ کرنا۔ مجھے اس سے نقصان پھنچ جائے گا۔
کسی تاریخ اور کسی حدیث میں غلط سے غلط روایت ایسی نھیں حالانکہ حالات ایسے ناگوار تھے کہ کبھی کبھی سن رسیدہ افراد کو جوش آ گیا اور انھوں نے رسول کے مسلک کے خلاف کوئی اقدام کر دیا اور اس کی وجہ سے انھیں جسمانی تکلیف سے دوچار ھونا پڑا۔ مگر حضرت علی بن ابی طالبع سے کسی سے تصادم ھو گیا ھو اس کے متعلق کمزور سے کمزور روایت پیش نھیں کی جا سکتی۔
یہ وہ غیرمعمولی کردار ھے جو عام افراد انسانی کے لحاظ سے یقیناً خارق عادت ھے یہ کسی جذبات انسانی کا کردار نھیں ھو سکتا۔ یہ ۱۳ برس کی طولانی مدت اس عمر میں جو ولولوں کی عمر ھے حوصلوں کی عمر ھے۔ بھلا ممکن ھے اس سکون کے ساتھ گزاری جا سکے۔
اس کے بعد ھجرت ھوتی ھے۔ ھجرت کے وقت وہ فداکاری۔ پیغمبر کا فرمانا کہ آج رات کو میرے بستر پر لیٹو۔ میں مکہ سے روانہ ھو جاؤں گا۔ پوچھا حضور کی زندگی تو اس صورت میں محفوظ ھو جائے گا۔ فرمایا ھاں مجھ سے وعدہ ھوا ھے میری حفاظت ھو گی یہ سن کر حضرت علی بن ابی طالبع نے سر سجدہ میں رکہ دیا کھا شکر ھے کہ اس نے مجھے اپنے رسول کا فدیہ قرار دیا۔
چنانچہ رسول تشریف لے گئے اور آپ پیغمبر کے بستر پر آرام کرتے رھے اس کے بعد چند روز مکہ معظمہ میں مقیم رھے مکہ میں مشرکین کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں اور پیغمبر کی امانتیں ساتھ لیں یعنی مخدراتِ کاشانھٴ رسالت جن میں فواطم یعنی فاطمہ بنت محمد۔ فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب تھیں ان کو لے کر روانہ ھوئے۔ خود مھارِ شتر ھاتہ میں لی۔ اور حفاظت کرتے ھوئے پا پیادہ مدینہ پھنچے یھاں آنے کے ایک سال بعد اب جھاد کی منزل آئی اور پھلی ھی جنگ یعنی بدر میں علیع ایسے نظر آئے جیسے برسوں کے نبرآزما، معرکے سر کئے ھوئے اور کڑیاں میدان کی جھیلے ھوئے۔
ادھر کے سب سے بڑے سورما عتبہ شیبہ اور ولید دونوں کا حضرت علی بن ابی طالبع کی تلوار سے خاتمہ ھوا۔ یہ کارنامہ خود جنگ کی فتح کا ضامن تھا۔ وہ تو صرف نفسیاتی طور پر عامھٴ مسلمین میں قوت دل پیدا کرنے کے لئے اس جھاد میں فرشتوں کی فوج بھی آ گئی یہ ثابت کرنے کے لئے کہ گھبرانا نھیں وقت پڑے گا تو فرشتے آ جائیں گے۔ حالانکہ اس کے بعد پھر کسی غزوہ میں ان کا آنا ثابت نھیں۔ اس کے باوجود احد میں علی بن ابی طالبع نے تن تنھا بگڑی ھوئی لڑائی کو بنا کر اور فتح حاصل کرکے دکھلا دیا کہ بدر میں بھی اگر فوج ملائکہ نہ آتی تو یہ دست و بازو اس جنگ کو بھی سر کر ھی لیتے۔ اس کے بعد خندق ھے خیبر ھے۔ حنین ھے یھاں تک کہ ان تمام کارناموں سے علیع کا نام دشمنوں کے لئے مرادفِ موت بن گیا۔
خیبر و خندق۔ ذوالفقار اور علیع میں دلالت التزامی کا رشتہ قائم ھو گیا کہ ایک کے تصور سے ممکن ھی نھیں دوسرے کا تصور نہ ھو۔ یہ وھی ۱۳ برس تک خاموش رھنے والے علیع ھیں۔ ان دس برس کے اندر جن کا عالم یہ ھے مگر اسی دوران میں حدیبیہ کی منزل آتی ھے اور وھی ھاتہ جس میں جنگ کا علم ھوتا تھا یھاں اسی میں صلح کا قلم ھے جو صاحب سیف تھا وھی صاحب قلم نظر آتا ھے اور ان شرائط صلح کو جن فر فوج اسلام کے اکثر افراد میں بے چینی پھیلی ھوئی ھے اور اسے کمزوری سمجھا جا رھا ھے بلا کسی بے چینی اور بغیر کسی تردد و تذبذب کے حضرت علی بن ابی طالبع تحریر فرما رھے ھیں جس طرح میدان جنگ میں قدم میں تزلزل اور ھاتہ میں ارتعاش نظر نھیں آیا اسی طرح آج عھدنامھٴ صلح کی تحریر میں ان کے قلم میں کوئی تزلزل اور انگلیوں میں کوئی ارتعاش نھیں ھے۔ ان کا جھاد تو وھی ھے جس میں مرضیٴ پروردگار ھو۔ جس کی راہ میں تلوار چلتی تھی اسی کی راہ میں آج قلم چل رھا ھے اور صلح نامہ کی کتابت ھو رھی ھے۔
اسی زمانہ میں ایک ملک بھی فتح کرنے بھیجے گئے تھے اور وہ یمن ھے مگر وہ شمشیرزن اور صاحب ذوالفقار ھوتے ھوئے یھاں تلوار سے کام نھیں لیتے۔ انھوں نے اسلامی فتح کا مثلہ پیش کر دیا۔ پورے یمن کو صرف زبانی تبلیغ سے ایک دن میں مسلمان بنا لیا۔ ایک قطرھٴ خون نھیں بھا۔ دکھا دیا کہ فتح ممالک اس طرح کرو۔ ملک پر قبضہ کے معنی یہ ھیں کہ اھل ملک کو اپنابنا لو۔ بس ملک تمھارا ھو گیا۔
بھرحال ان دو مثالوں کو چھوڑ کر حضرت علی بن ابی طالبع کی زندگی کے اس دور میں بھت سے مواقع پر تلوار نمایاں نظر آئے گی اور لافتی الاعلی لا سیف الا ذوالفقار میں آپ کی شان مضمر معلوم ھو گی مگر اب پیغمبر خد اکی وفات ھو جاتی ھے اس وقت حضرت علی بن ابی طالبع کی عمر ۳۳ برس کی ھے اسے اواخرِ شباب بلکہ بھرپور جوانی کا زمانہ سمجھنا چاھئے مگر اس کے بعد پچیس سال کی طولانی مدت حضرت علی بن ابی طالبع یوں گزارتے ھیں کہ تلوار نیام میں ھے اور آپ کا مشغلہ عبادتِ الٰھی اور آزوقہ کی فراھمی کے لئے محنت و مزدوری کے سوا بظاھر اور کچھ نھیں۔
یہ ایسی وادیٴ پرخار ھے جس میں ذرا بھی کھل کر کچھ کھنا تحریر کو مناظرانہ آویزشوں کا آماجگاہ بنا دینا ھے۔ پھر بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات لازماً ھے کہ باوجودیکہ یہ مسلمانوں کی جنگ آزمائیوں کا زمانہ اور فتوحاتِ عظیمہ کا دور ھے جس میں اسلام قبول کرنے کے بعد گمنام ھو جانے والے افراد سیف اللہ اور فاتح ممالک اور غازی بن رھے ھیں پھر بھی جو تلوار ھر مقام پر عھد رسول میں کارنمایاں کرتی نظر آتی تھی وہ اس دور میں کلیتہ نیام کے اندر ھے۔ آخر کیا بات ھے کہ وہ جوھر میدان کا مرد تھا اب گوشہ عافیت میں گھر کے اندر ھے۔ اگر اس کو بلایا نھیں جاتا تو کیوں؟ اور اگر بلایا جاتا ھے اور وہ نھیں آتا تو کیوں؟ دونوں باتیں تاریخ کے ایک طالب علم کے لئے عجیب ھی ھیں ایسا بھی نھیں کہ وہ بالکل غیرمتعلق ھے۔ نھیں اگر کبھی کوئی مشورہ لیا جاتا ھے تو وہ مشورہ دے دیتا ھے کوئی علمی مسئلہ درپیش ھوتا ھے اور اس کے حل کرنے کی خواھش کی جاتی ھے تو وہ حل کر دیتا ھے مگر ان لڑائیوں میں جو جھاد کے نام سے ھو رھی ھیں اسے شریک نھیں کیا جاتا۔ نہ وہ شریک ھوتا ھے۔ ۲۵ سال کی طولانی مدت گزری اور اب حضرت علی بن ابی طالبع کی عمر ۵۸ سال کی ھو گئی یہ پیری کی عمر ھے جس طرح مکہ کی ۱۳ برس کی خاموشی کے درمیان بچپنا گیا تھا اور جوانی آئی تھی اسی طرح اس پچیس برس کی خاموشی کے دوران میں جوانی گئی اور بڑھاپا آیا۔ گویا ان کی عمر کا ھر دوراھہ صبر و تحمل اورضبط و سکون کے عالم میں آتا رھا۔ بھلا اب کسے تصور ھو سکتا ھے کہ جس کو جوانی گزر کر بڑھاپا آ گیا اور اس نے تلوار سے نیام نہ نکالی وہ اب کبھی تلوار کھینچے گا اور میدان جنگ میں حرب و ضرب کرتا نظر آئے گا۔ عالم اسباب کے عام تقاضوں کے لحاظ سے تو اس پچیس برس کے عرصہ میں ولولہ و امنگ کی چنگاریاں تک سینہ میں باقی نھیں رھیں۔ ھمت کے سوتے خشک ھو گئے اور اب دل میں ان کی نمی تک نھیں رہ گئی۔ اب نہ دل میں وہ جوش ھو سکتا ھے نہ بازوؤں میں وہ طاقت۔ نہ ھاتھوں میں وہ صفائی اور نہ تلوار میں وہ کاٹ مگر ۵۸ سال کی عمر میں وہ وقت آ گیا کہ مسلمانوں نے باصرار زمام خلافت آپ کے ھاتہ میں دے دی۔ آپ نے بھت انکار کیا مگر مسلمانوں نے تضرع و زاری کی حد کر دی اور حجت ھر طرح تمام ھو گئی۔ لیکن جب آپ سریز خلافت پر متمکن ھوئے اور اس ذمہ داری کو قبول کر چکے تو کئی جماعتوں نے بغاوت کر دی۔ آپ نے ھر ایک کو پھلے تو فھمائش کی کوشش کی اور جب حجت ھر طرح تمام ھو گئی تو دنیا نے دیکھا کہ وھی تلوار جو بدر و احد اور خندق و خیبر میں چمک چکی تھی اب جمل، صفین اور نھروان میں چمک رھی ھے۔ اور پھر یہ نھیں کہ فوجیں بھیج رھے ھوں اور خود گھر میں بیٹھیں بلکہ خود میدان جنگ میں موجود اور بنفس نفیس جھاد میں مصروف۔ اب ایسا محسوس ھو رھا ھے جیسے کوئی نوجوان طبیعت جو مقابل سے دو دو ھاتہ کرنے کے لئے بے چین ھو۔ چونکہ حضرت کی ھیبت فوج دشمن کے ھر سپاھی کے دل پر تھی اس لئے صفین میں جب آپ میدان میں نکل آتے تھے تو پھر مقابل جماعت کا پرا بند ھو جاتا تھا اور کوئی مقابلہ کو باھر نہ آتا تھا۔ اسے دیکہ کر آپ نے یہ صورت اختیار فرمائی تھی کہ دوسرے اپنے ھمراھیوں کا لباس پھن کر تشریف لے جاتے تھے۔ چونکہ جنگ کا لباس خود و مغضر اور زرہ و بکتر وغیرہ پھننے کے بعد چھرہ نظر نھیں آتا تھا۔ اس لئے لباس بدلنے کے بعد پتا نہ چلتا تھا کہ یہ کون ھے اور آپ کبھی عباس بن ربیعہ اور کبھی فضل بن عباس اور کبھی کسی اور کا لباس پھن کر تشریف لے جاتے تھے اور اس طرح بھت سے نذرِ تیغ ھو جاتے تھے۔
لیلة الحریر میں طے کر لیا کہ فتح کے بغیر جنگ نہ رکے گی۔ پورے دن لڑائی ھو چکی تھی سورج ڈوب گیا تب بھی لڑائی نہ رکی۔ پوری رات جنگ ھوتی رھی یھاں تک کہ نقشھٴ جنگ بدل گیا اور صبح ھوتے ھوتے فوج شام سے قرآن نیزوں پر بلند ھوگئے جن سے التوائے جنگ کی درخواست مطلوب تھی اور یہ جنگ میں شکست کا کھلا ھوا اعلان تھا۔
یہ ۶۰ برس کی عمر میں جھاد ھے اور یھی وہ ھیں جو ۳۳ برس کی عمر سے ۵۷ برس تک کی مدت یوں گزار چکے ھیں جیسے کہ سینہ میں دل ھی نھیں اور دل میں ولولہ اور جنگ کا حوصلہ ھی نھیں۔
اب ایسے انسان کو کیا کھا جائے؟ جنگ پسند یا عافیت پسند؟ ماننا پڑے گا کہ یہ کچھ بھی نھیں ھیں یہ تو فرائض کے پابند ھیں جب فرض ھو گا خاموشی کا تو خاموش رھیں گے۔ چاھے شباب کی حرارت اور اس کا جوش و ولولہ کچھ بھی تقاضا رکھتا ھو۔
اس وقت کتنے ھی صبرآزما مشکلات پیش آتی رھیں وہ صبر کریں گے اور گھبرائیں گے نھیں۔
اور جب فرض محسوس ھو گا کہ تلوار اٹھائیں تو تلوار اٹھائیں گے، چاھے بڑھاپے کا انحطاط جو عام افراد میں اس عمر میں ھوا کرتا ھے کچھ بھی تقاضا رکھتا ھو۔ اب حرب و ضرب کی سختیوں کا مقابلہ کرنے میں وہ جوانوں سے آگے نظر آئیں گے۔ یھی وہ ”معراج انسانیت“ ھے، جھاں تک طبیعت، عادت اور جذبات کے تقاضوں میں گرفتار انسان پھنچا نھیں کرتے۔


سیرتِ حَسْنَیْن کی روشنی میں
 جبکہ حضرت پیغمبر خدا کی واحد زندگی میں مختلف نمونے سامنے آ گئے جو بظاھر متضاد ھیں۔ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی واحد زندگی میں ایسی ھی مثالیں سامنے آ گئیں تو اب اگر دو شخصیتوں میں باقتضائے حالات اس طرح کی د و رنگی نظر آئے تو اس کو اختلاف طبیعت یا اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھنا کیونکر درست ھو سکتا ھے اور یہ کیوں کھا جائے کہ حسن مجتبیٰ (ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین (ع)طبعاً جنگ پسند تھے بلکہ یھی سمجھنا چاھئے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضا وہ تھا اور اس وقت کے حالات کا تقاضا یہ ھے کہ اس وقت حسن مجتبیٰ (ع) امام تھے ان کو فریضھٴ الٰھی وہ محسوس ھوا اور اس وقت حضرت حسین بن علی(ع) امام تھے، ان کو فریضھٴ ربانی اس وقت کے حالات میں یہ محسوس ھوا۔ اس میں جذبات کا کوئی دخل نہ تھا۔
یھی وہ حقیقت ھے جس کا حضرت پیغمبر خدا نے مختلف الفاظ میں پھلے سے اظھار فرما دیا تھا۔ کبھی ان الفاظ میں کھ:" ابناء ھٰذان امامان قاما اوقعدا"۔ یہ میرے دونوں فرزند امام (ع) ھیں چاھے کھڑے ھوں اور چاھے بیٹھے ھوں۔
اس وقت کی دنیا اس کو نھیں سمجھ سکتی تھی کہ امام (ع) کھنے کے ساتھ قاما اوقعدا۔ کس لئے کھا جا رھا ھے؟ امامت میں اٹھنے اور بیٹھنے کا کیا دخل۔ مگر جب مستقبل نے واقعات پر سے پردہ ھٹایا تو اب معلوم ھوتا ھے کہ پیغمبر ماضی کے آئینہ میں مستقبل کا نقشہ دیکہ رھے تھے کہ ایک صلح کرکے بیٹہ جائے گا اور ایک تلوار لے کر کھڑا ھو جائے گا۔ کچھ لوگ حسن(ع) کی صلح پر اعتراض کریں گے اور کچھ لوگ حسین(ع) کی جنگ پر۔ آپ نے اسی لئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں امام(ع) ھیں چاھے کھڑے ھوں اور چاھے بیٹھے ھوں۔ یعنی حسن(ع) صلح کرکے بیٹہ جائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسین(ع) تلوار لے کر کھڑا ھو جائے تو اعتراض نہ کرنا وہ بیٹھنا بھی حکم خدا سے ھے اور یہ کھڑا ھونا بھی حکم خدا سے ھے وہ اس وقت کے حالات کا تقاضا ھے اور یہ اس وقت کے حالات کا۔
اور کبھی اس طرح جسے علامہ ابن حجر نے لکھا ھے کہ سیدھ(ع) عالم اپنے والد بزرگوار حضرت رسول کے پاس دونوں شاھزادوں کو لے کر حاضر ھوئیں اور عرض کیا۔ یَا آبَتِ ھٰذَانِ ابْنَاک انحَلْھُمَا ابا جان یہ دونوں بچے آئے ھیں انھیں کچھ عطا فرمائیے۔“ حضرت نے فرمایا: اَمَّاالْحُسْنُ فَلَہ حِلمِی وَ سوُدَدِی واَمّالْحُسَیْنُ فَلَد‘ جُراٴتِی وَجُودِی مطلب یہ ھوا کہ انھیں اور کسی عطیہ کی کیا ضرورت ھے ان میں تو میری صفتیں تقسیم ھو گئی ھیں حسن(ع) میں میرا حلم ھے اور میری شان سرداری اور حسین(ع) میں میری جراٴت و ھمت ھے اور میری فیاضی…اب تقسیم پر غور کیجئے۔ معلوم ھوتا ھے۔ کہ ظرف زمانہ کے لحاظ سے جس کو جس صفت کا مظھر بننا تھا اسی صفت کو رسول نے اپنا قرار دیا۔ تاکہ اس صفت سے جو کارنامہ ظھور میں آئے وہ کسی مسلما ن کے نزدیک قابل اعتراض نہ ھو سکے۔
اب اس کا مطلب یہ ھوا کہ حسن(ع) کی صلح کو حسن(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میرے حلم کا نتیجہ ھے اس کا مطلب صاف یہ ھے کہ اس موقع پر میں ھوتا تو وھی کرتا جو حسن(ع) کرے گا اور حسین(ع) کی جنگ کو حسین(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میری جراٴت کا نتیجہ ھے اور اس کا مطلب یہ ھوا کہ اس موقع پر میں ھوتا تو وھی کرتا جو حسین(ع) کرے گا۔
اب حسن(ع) کی صلح پر اعتراض رسول(ع) کے حلم پر اعتراض ھے اور حسین(ع) کی جنگ پر اعتراض رسول(ع) کی جراٴت پر اعتراض ھے۔
حقیقت یہ ھے کہ حسن(ع) نے صلح کرکے جھاد حسین(ع) کے لئے زمین ھموار کر دی۔ وہ صلح اس وقت نہ ھوتی تو اس کے بعد جھاد کا یہ ھنگام نہ آ سکتا۔ کیونکہ اسلام میں جنگ بہ مجبوری ھوتی ھے عدم امکانِ صلح کی بنا پر جب تک اصول کے تحفظ کے ساتھ صلح کا امکان ھو اس وقت تک جنگ کرنا غلط ھے جب کہ آئین اسلام میں صلح کا درجہ جنگ پر مقدم ھے تو اگر امام حسن(ع) صلح نہ کر چکے ھوتے تو اتمام حجت نہ ھوتی اور حضرت امام حسین(ع) کے لئے جنگ کا موقع پیدا نہ ھوتا۔
امام حسن(ع) کے شرائط صلح پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ھو گا کہ اس صلح کے شرائط میں ان مقاصد کا پورا پورا تحفظ کیا گیا تھا جن کے لئے پھر کربلا کی جنگ ھوئی۔ یہ نہ دیکھئے کہ بعد میں شرائط پر عمل نھیںھوا۔ بعد میں عمل تو حدیبیہ کی صلح کے شرائط پر بھی نہ ھوا تھا مگر یہ تو ایک معاھدہ صلح کا وقوع میں آیا جب ھی فریق مخالف پر الزام عائد ھو سکا کہ اس نے ان شرائط پر عمل نھیں کیا اور اگر کوئی ایسا معاھدہ ھوا ھی نہ ھوتا تو یہ خلاف ورزی کا الزام فریق مخالف پر کھاں عائد ھو سکتا تھا۔ جب حدیبیہ کے شرائط پر عمل نہ ھوا تو فتح مکہ ھوئی اسی طرح اس صلح پر عمل نہ ھوا۔ تو معرکھٴ- کربلا ھوا۔
معلوم ھوا کہ یہ تاریخی واقعات کی رفتار کا لازمی اقتضاء تھا کہ اس وقت صلح ھو اور اس وقت جنگ ھو۔ اور وہ حصہ وقت کا امام حسن(ع) کے حصہ میں آیا اور یہ ھنگام امام حسین(ع) کے حصہ میں آیا۔ اگر معاملہ بالعکس ھوتا یعنی ۴۱ھ میں امام وقت امام حسین(ع) ھوتے تو وہ صلح امام حسین(ع) کرتے اور اگر ۶۱ھ میں امام حسن(ع) موجود ھوتے تو یہ جھاد امام حسن(ع) فرماتے۔
 حضرت امام حسن(ع) جانتے تھے کہ میرا جھاد ھی صلح کرنا۔ ان کی صلح مقتضائے شجاعت تھی اور امام حسین(ع) کا جھاد تھا یزید کے مقابلہ میں تلوار کھینچنا۔ یہ ان کی شجاعت کا مظاھرہ تھا۔ کیونکہ جس طرح علمائے اخلاق نے بیان کیا ھے شجاعت ھر موقع پر تلوار لے کر بڑھ جانے کا نام نھیں ھے۔ بلکہ شجاعت قوت غضب کے تابع حکم عقل ھونےکا نام ھے اور یہ قوت غضبیہ کے اعتدال کا درجہ ھے اگر انسان نے بے موقع غصہ سے کام لیا اور قدم آگے بڑھا دیا تو یہ ”تھوُّ“ ھو گا اور اگر موقع آنے پر بھی اس سے کام نہ لیا اور بے محل کمزوری دکھائی تو اس کا نام ”جُبن“ ھو گا یہ دونوں چیزیں شجاعت کے خلاف ھیں۔ شجاعت یہ ھے کہ بے محل قدم آگے نہ بڑھے اور محل آنے پر خاموشی نہ ھو۔ ان دونوں رخوں کو حسن(ع) و حسین نے پیش کیا اور اس طرح دونوں نے مل کر شجاعت کی مکمل تصویر کھینچ دی۔
آئندہ آئے گا کہ حضرت امام حسین(ع) نے بھی صلح کی کوشش میں کوئی کمی نھیں کی یہ تو فریق مخالف کا طرز عمل تھا کہ اس نے وہ تمام شرائط مسترد کر دیئے۔ اگر دشمن ِشرائط کو منظور کر لیتا تو کارنامہ کربلا بھی صلح پر ختم ھوتا۔ اس کے بعد کسی کو یہ کھنے کا کیا حق ھے کہ امام حسن(ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین(ع) نسبتاً جنگ پسند تھے۔
اس کا بھی بیان ابھی آئے گا کہ وھاں حاکم شام نے سادہ کاغذ بھیج دیا تھا کہ حسن مجتبیٰ جو چاھیں وہ شرائط لکہ دیں۔ امام نے شرائط لکھے اور حاکم شام نے ان کو منظور کیا دنیا غلط کھتی ھے کہ امام حسن(ع) نے حاکم شام کی بیعت کر لی۔ بیعت تو حقیقتاً اس نے کی جس نے شرائط مانے۔ انھوں نے تو بیعت لے لی۔ بیعت کی نھیں۔ اور امام حسین(ع) کے سامنے تھا یزید ایسے شخص سے بیعت کا سوال جسے آلِ محمد میں سے کوئی بھی منظور نھیں کر سکتا تھا۔
 امام حسین(ع) زندگی کے اس ایک دن یعنی عاشور کو ھی حسین(ع) نہ تھے وہ اپنی زندگی کے ۵۷ برس میں ھر دن حسین(ع) تھے۔ پھر آخر صرف ایک دن کے کردار کو سامنے رکہ کر کیوں رائے قائم کی جاتی ھے۔ آخر اس ایک دن کو نکال کر جو ۵۷ برس ھیں وہ ان کی فھرست حیات سے کیونکر خارج ھو سکتے ھیں اسی طرح حضرت امام حسن(ع) صرف اس دن جب صلح نامہ پر دستخط کئے ھیں اسی وقت امام حسن(ع) نہ تھے۔ حسن(ع) نام تو اس پوری زندگی کا تھا لھٰذا آپ کی پوری زندگی کو سامنے رکہ کر رائے قائم کرنا درست ھو گا اور اگر صرف ایک حصہ حیات سامنے رکہ کر مخالفین اسلام نے آپ کی یہ تصویر کھینچی کہ آپ کے ایک ھاتہ میں تلوار ھے اور ایک ھاتہ میں قرآن جس طرح یہ تصویر نامکمل اور غلط ھے اسی طرح امام حسن(ع) کے متعلق جو تصویر کھینچی جاتی ھے یا امام حسین کی جو تصویر کھینچی جاتی ھے وہ بھی غلط ھے اور یہ غلطی اتنی عام ھے کہ ان کے نام لیوا تک اور سیرت و کردار کی پیروی پر زور دینے والے بھی ان کا وھی صرف ایک دن کا کردار جانتے اور اسی کو پیش کرتے ھیں اس لئے تقریروں میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اور کسی بڑے معرکہ میں قدم بڑھانے کے واسطے خون میں جوش پیدا کرنے کے لئے حضرت امام حسین(ع) کا نام لیتے اور ان کے کارنامہ کو یاد دلاتے ھیں چاھے مقصد صحیح ھو یا غلط اور وہ جو اپنی تمام عمر شھادت سے ایک دن پھلے تک معرکہ آرائی کو ٹالتے رھے وہ حسین(ع) کا کردار گویا نھیں ھے کسی اور کا ھے پوری تصویر تو اسی وقت ھو گی جب پوری سیرت سامنے رکہ کر تصویر کھینچی جائے گی۔


حسنِ مجتبیٰ علیہ السلام
 امام حسن(ع) کی ولادت ۲ یا ۳ ھجری میں ھوئی۔ رسول کی وفات کے وقت ساتواں یا آٹھواں برس تھا اور ان کی یہ عمر پوری پیغمبر خدا کے غزوات کی عمر ھے۔ ۲ ھ میں جنگ بدر ھوئی اور اس کے بعد ان کی عمر کے ساتھ غزوات کی فھرست آگے بڑھی۔ جس طرح علی کی پرورش پیغمبر کی گود میں تبلغ اسلام کے ساتھ ھوئی ویسے ھی حسن مجتبیٰ کی پرورش رسول کی گود میں رسول کے غزوات اور اپنے والد (حضرت علیع مرتضیٰ) کے فتوحات کے ساتھ۔ ھوئی ان کے بچپن کی کھانیاں اور سوتے وقت کی لوریاں گویا یھی تھیں کہ علیع کسی جھاد سے واپس آئے ھیں۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) سے تذکرہ ھو رھا ھے خندق میں یہ ھوا۔ یہ تذکرے کانوں میں پڑ رھے ھیں اور آنکھیں جو دیکہ رھی ھیں وہ یہ کہ دشمنوں کے خون میں بھری ھوئی تلوار ھے اور سیدھٴ عالم اسے صاف کر رھی ھیں۔ پیغمبر کے ارشادات بھی گوش زد ھو رھے ھیں کبھی معلوم ھوا کہ آج نانا نے والد بزرگوار کے لئے کھا:
"ضرْبةُ علٍیّ یَوْمَ الْخَنْدقٍ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَقَلین"۔ کبھی سنا فرمایا: "لَاُعْطَیّن رَایةً غدًا رَجُلاً غَیر فّرارٍ یُحِبُّ اللّٰہ وَرَسُوْلَھ‘… "کبھی ملک کی صدا گوش زد ھوئی: "لَا فَتٰی اِلَّا علّی لَا سَیف الّا ذوالفقار"۔ ان تذکروں کے علاوہ بس ھے تو عبادت اور سخاوت کی مثالوں کا مشاھدھ۔ یہ ھے سات آٹہ برس کا حسنع کا رسول کی زندگی میں دور حیات۔
سات آٹہ برس کی عمر کے بچے چاھے معاملات میں عملی حصہ نہ لیں اور ادب و حفظِ مراتب کی بنا پر بزرگوں کے سامنے گفتگو میں بھی شرکت نہ کریں مگر وہ احساسات و تاثرات، جذبات اور قلبی واردات میں بالکل بزرگوں کے ساتھ شریک رھتے ھیں اور ان کے دلوں کے اندر ولولوں کا طوفان بھی اٹھتا ھے۔ اور منصوبوں کی عمارتیں بھی کھڑی ھوتی ھیں اور اس وقت کے تاثرات و تصورات کے نقوش اتنے گھرے ھوتے ھیں کہ وہ مٹا نھیں کرتے۔
یقیناً یہ اتنا زندگی کا دور امام حسنع کے دل و دماغ میں عام انسانی فطرت کے لحاظ سے ولولہ و ھمت کی لھروں میں تموج ھی پیدا کرنے والا تھا سکون پیدا کرنے والا نھیں مگر اس سات آٹہ سال کے بعد ایک دم ورق الٹتا ھے۔ اب یہ منظر سامنے ھے کہ باپ گوشہ نشیں ھیں۔ اور ماں گریہ کناں۔ وہ تمام ناگوار حالات سامنے ھیں جن کا اظھار کسی کے لئے پسندیدہ ھے یا ناپسند۔ بھرحال تاریخ کے اندر وہ موجود اور ھمیشہ کے لئے محفوظ ھیں۔ یقیناً اگر حضرت علی بن ابی طالبع کا دس برس کی عمر کے بعد ۱۳ برس رسول کے ساتھ رہ کر مکہ کی خاموش زندگی میں خاموشی کے راستے پر قائم رھنا ایک جھادِ نفس تھا تو حسن مجتبیٰ کا بھی ۸ برس کی عمر کے بعد پچیس سال باپ کے صبر و استقلال کے ساتھ ھم آھنگ رھنا ان کا ایک عظیم جھاد تھا۔ وھاں علیع کے سامنے ان کے مربی رسول کے جسم پر پتھر پھینکے جاتے تھے اور وہ خاموش تھے اور یھاں حسنع کے سامنے ان کے باپ علی بن ابی طالبع کے گلے میں رسی باندھی جاتی ھے اور مادر گرامی کے دروازے پر آگ لگانے کے لئے لکڑیاں جمع کی جاتی ھیں اور انھیں ھر طرح کی ایذائیں پھنچائی جاتی ھیں اور حسن مجتبیٰ(ع)خاموش ھیں۔ اسی خاموشی میں آٹہ برس سے اٹھارہ برس اور اٹھارہ برس سے اٹھائیس برس بلکہ سات آٹہ برس کی عمر کے بعد ۲۵ سال میں ۳۳ برس کے ھوئے مگر وہ جس طرح ساتھ آٹہ برس کے بچپن کے دور میں حضرت علی بن ابی طالبع کے ساتھ ایک کم عمر بچہ کی طرح تھے بالکل اسی شان سے اٹھارہ اور اٹھائیس اور تیس بتیس برس کی عمر کے جوان ھو کر بھی ھیں۔ مسلک ھے تو باپ کا طریقھٴ کار ھے تو باپ کا۔ نہ ان کے بچپن میں کوئی نادانی کا قدم اٹھتا ھے نہ جوانی میں کوئی جوش کا قدم اٹھتا ھے پھر حضرت علیع نے خاموشی کے ماحول میں آنکہ ھی کھولی تھی اور امام حسنع تو آٹہ برس کی عمر اس جنگ کے ماحول میں گزار چکے تھے جس سے شجاعانہ اقدامات کو طبیعت میں رچ بس جانا چاھئے اس کے بعد ۲۵ سال اس طرح گزار رھے ھیں۔ اتنی طولانی مدت کے اندر کبھی جوش میں نہ آنا۔ اپنے ھم عمروں سے کبھی تصادم نہ ھونا کسی دفعہ بھی ایسی کوئی بات نہ ھونا جو مصلحتِ علیع کے خلاف ھو۔ یہ ان کی زندگی کا کارنامہ ھے۔ یہ اور بات ھے کہ تاریخ کی دھندلی نگاہ حرکت کو دیکھتی ھے سکون کو نھیں۔ آندھیوں کو دیکھتی ھے سناٹے کو نھیں۔ شورش طوفان دیکھتی ھے سمندر کے سکون پر نظر نھیں ڈالتی۔ اسی کا نتیجہ ھے کہ اس دور کے فتوحات جو اکثریتی طاقت نے کئے جزو تاریخ بن گئے اور اسلام کی جو خدمت خاموش رہ کر کی گئی اور اس کے جو نتائج ھوئے وہ تاریخ میں کھیں نظر نہ آئیں گے بھرحال اب یہ ۲۵ سال گزرے اور وہ وقت آیا جب حضرت علی بن ابی طالبع برسراقتدار ھیں اس کے بعد جمل صفین اور نھروان کے معرکے ھیں اور حضرت امام حسنع ان میں اپنے والد بزرگوار حیدرِ کرارع کے ساتھ ساتھ ھیں۔
حسن کے ھاتہ میں جمل کی لڑائی میں تلوار اسی طرح پھلی بار ھے جس طرح بدر میں علیع کے ھاتہ میں پھلی بار۔ مگر جیسے انھوں نے پھلی ھی لڑائی میں شجاعان آزمودہ کار پر اپنی فوقیت ثابت کر دی ویسے ھی جمل میں جو کارنامہ دوسروں سے نھیں ھوتا وہ حسن مجتبیٰ(ع)اپنی تلوار سے کرکے دکھا دیتے ھیں۔
اسی طرح صفین میں ایسا معیاری نمونہ پیش کرتے ھیں کہ حضرت امیرع اپنے فرزند محمد حنیفھع کے لئے اسے مثال قرار دیتے ھیں او جیسا کہ دینوی نے ’الاخبارالطوال“ میں لکھا ھے ایک ایسے موقع پر جب لشکر امیرالمومنینع کے ایک بڑے حصہ نے شکست کھائی تھی، یہ اپنے باپ کے سامنے اس طرح تھے کہ انھیں تیروں سے بچا رھے تھے اور خود اپنے کو تیروں کے سامنے پیش کئے دیتے تھے۔
مخالف حکومت کا پروپیگنڈا بھی کیا چیز ھے؟ اس نے حکایتیں تصنیف کی ھیں کہ حسن مجتبیٰ(ع)تو طبعاً صلح پسند تھے۔ مگر ان کی بے جگری کے ساتھ ان نبردآزمائیوں میں عملی شرکت ان تصورات کو غلط ثابت کر دیتی ھے۔
جنگ جمل میں کوفہ والوں کو ابو موسیٰ اشعری نے جو وھاں حاکم تھے نصرت امیرالمومنینع سے روک دیا تھا۔ یہ حسن مجتبیٰ ھی تھے جنھوں نے جا کر تقریر کی اور پورے کوفہ کو جناب امیرع کی نصرت کے لئے آمادہ کر دیا۔
ھاں جب صفین میں نیزوں پر قرآن اٹھائے گئے اور امیرالمومنینع نے حالات سے مجبور ھو کر معاھدہ تحکیم پر دستخط کئے تو جوان سال بیٹے حسنع و حسینع دونوں باپ کے ساتھ اس معاھدہ میں بھی شریک تھے بالکل جس طرح حضرت امیر پیغمبر خدا کے ساتھ ساتھ تھے جنگ اور صلح دونوں میں۔ اسی طرح حسنع و حسینع اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ھر منزل میں شریک نظر آتے ھیں۔
جب ۲۱ ماہ رمضان ۴۰ ھ کو جناب امیرع کی وفات ھو گئی اور حضرت امام حسنع خلیفہ تسلیم کئے گئے تو آپ نے خود بھی حاکم شام کے خلاف فوج کشی کی۔ اور فوجوں کو لے کر روانہ بھی ھوئے اور اس طرح بھی ثابت کر دیا کہ راستہ آپ کا وھی ھے جو آپ کے والد بزرگوار کا راستہ تھا۔
اب اس کے بعد جو کچھ ھوا وہ حالات کی تبدیلی کا نتیجہ ھے۔ واقعہ یہ ھے کہ اھل کوفہ کی اکثریت جنگِ نھروان کے بعد سے جناب امیرع کے ساتھ ھی سردمھری برتنے لگی تھی اور جنگ سے عاجز آچکی تھی جس پر خود حضرت علی بن ابی طالبع کے اقوال جو نھج البلاغہ میں مذکور ھیں، گواہ ھیں اس کا علم حاکم شام کو بھی اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے ھو گیا تھا چنانچہ حضرت امیرع کے بعد انھوں نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے بھت سے روسائے کوفہ کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان لوگوں نے خطوط بھیجے کہ آپ عراق پر حملہ کیجئے اور ھم یھاں ایسی تدبیر کریں گے کہ حضرت امام حسنع کو قید کرکے آپ کے سپرد کر دیں۔
  معاویہ نے یہ خطوط بعینہ حضرت امام حسن(ع)کے پاس بھیج دیئے۔ پھر بھی وہ جانتے تھے کہ حضرت امام حسنع کوئی ایسی صلح کبھی نہ کریں گے جس میں ان کے نقطھٴ نظر سے حق کا تحفظ نہ ھو۔ اس لئے انھوں نے اس کے ساتھ ایک سادہ کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ چاھیں اس پر لکہ دیں میں انھیں منظور کرنے کے لئے تیار ھوں۔ ان حالات میں جب کہ اپنوں کا حال وہ تھا اور مخالف یہ رویہ اختیار کر رھا تھا جنگ پر قائم رھنا ایک بلاوجہ کی ضد ھوتی جو آلِ رسول کی شان کے خلاف تھی۔
حضرت پیغمبر(ص) خدا نے تو حدیبیہ میں امن وامان کی خاطر مشرکین کے پیش کردہ شرائط پر صلح کی جسے سطحی نگاہ والے مسلمان سنجھ رھے تھے کہ یہ دب کر صلح ھے اور امام حسن نے جو صلح کی وہ ان شرائط پر جو خود آپ نے پیش کئے تھے اور جنھیں فریق مخالف سے منظور کرایا۔
ذرا اس صلح نامہ کے شرائط میں نظر ڈالئے۔ اس کی مکمل عبارت علامہ ابن حجر مکی نے صوائق محرقہ میں درج کی ھے۔
اس میں شرط اول یہ ھے کہ حاکم شام کتاب و سنت پر عمل کریں گے اس شرط کو منظورکراکے حضرت امام حسن(ع)نے وہ اصولی فتح حاصل کی ھے جو جنگ سے حاصل ھونا ممکن نہ تھی۔
ظاھر ھے کہ صلح نامہ کے شرائط میں بنیادی طور پر ایسی ھی چیز درج ھوتی ھے جو بنائے مخاصمت ھو۔ حضرت امام حسنع نے یہ شرط لگا کر ثابت کر دیا کہ ھماری بنائے مخاصمت معاویہ سے کوئی ذاتی یا خاندانی نھیں ھے بلکہ وہ صرف یہ ھے کہ ھم کتاب اور سنت رسول پر عمل کے طلب گار ھیں اور یہ اس سے اب تک منحرف رھے ھیں۔ پھر صلح نامہ کی دستاویز تو فریقین میں متفق علیہ ھوا کرتی ھے۔ وہ دونوں فریق اس کے کاتب ھوتے ھیں۔ یہ شرط درج کرکے امام حسنع نے حاکم شام سے تسلیم کرا لیا کہ اب تک حکومت شام کا جو کچھ رویہ رھا ھے وہ کتاب و سنت کے خلاف ھے۔ اگر ایسا نہ ھوتا تو اس شرط کی کیا ضرورت تھی؟
 غلط اندیش دنیا کھتی ھے کہ امام حسنع نے بیعت کر لی۔ میں کھتا ھوں۔ اگر حقیقت پر غور کیجئے تو جب امام حسنع شریعت اسلام کے محافظ ھیں اور آپ نے اس کا اقرار حاصل کیا ھے کہ حاکم شام کتاب اور سنت کے مطابق عمل کریں گے تو اب یہ فیصلہ آسان ھے کہ جس نے شرائط مانے اس نے بیعت کی یا جس نے شرائط منوائے اس نے بیعت کی۔ حقیقت میں حضرت امام حسنع نے تو بیعت لے لی۔ خود بیعت نھیں کی۔
دوسری شرط یہ تھی کہ تمھیں کسی کو اپنے بعد نامزد کرنے کا اختیار نہ ھو گا اس طرح حضرت امام حسن(ع)نے برفرض مخالفت شرط اول اس ضرر کو جو حاکم شام کی ذات سے مذھب کو پھنچتا محدود بنایا اور آئندہ کے لئے یزید ایسے اشخاص کا سدباب کر دیا۔
خواھانِ حاکم شام زیادہ نمایاں طور پر یہ شرط پیش کرتے ھیں کہ حضرت امام حسنع نے سالانہ ایک رقم مقرر کی تھی کہ یہ تمھیں ادا کرنا ھو گی میں کھتا ھوں کہ یہ شرط اگرچہ مسلم نھیں ھے پھر بھی اگر یہ شرط رکھی ھو تو یہ آئینی حیثیت سے اپنے اصلی حقدار حکومت ھونے کے اعتراف کا فریق مخالف کے عمل سے قائم رکھنا ھے اور اگر زیادہ گھری نظر سے دیکھا جائے تو حضرت رسول خدا کا نصاریٰ سے جزیہ لے کرجنگ کو ختم کر دینا درست ھے تو حضرت امام حسنع کا حاکم شام پر سالانہ ایک ٹیکس عائد کرنا بھی بالکل صحیح ھے۔ یہ عملی مظاھرہ ھے اس کا کہ ھم نے دب کر صلح نھیں کی ھے بلکہ خونریزی سے بچنے کی ممکن کوشش کی ھے۔
حضرت امام حسن(ع)کو اس صلح پر برقرار رھنے میں بھی کتنے شدائداور زخم ھائے زبان کا مقابلہ کرنا پڑا ھے مگر مفادِ دینی کے لئے یہ صلح ضروری تھی تو پُرجگری کے ساتھ حضرت(ع)تمام ایذاء و اھانت کے صدموں کو برداشت کرتے رھے۔ اور دس برس مسلسل پھر گوشہ نشینی کے ساتھ زندگی گزار کر حضرت علی بن ابی طالبع کے ۲۵ سال کے دور گوشھٴ نشینی کا مکمل نمونہ پیش کر دیا۔
اموی ذھنیت والوں کا یہ پروپیگنڈا کہ حسن مجتبیٰ(ع)اپنے والد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب(ع)اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین(ع)سے مختلف ذھنیت رکھتے تھے اور وہ صلح ان کی انفرادی افتاد طبع کا نتیجہ تھی۔ خود اموی حاکم شام کے عمل سے بھی غلط ثابت ھو جاتا ھے۔ اس طرح کہ اگر یہ بعد والا پروپیگنڈا صحیح ھوتا تو اس مصالحت کے بعد حاکم شام کو حضرت امام حسن(ع)سے بالکل مطمئن ھو جانا چاھئے تھا بلکہ حاکم شام کی طرف سے واقعی پھر امام حسن(ع)کی قدرومنزلت کے مسلمانوں میں بڑھانے اور نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی۔ بلاتشبیہ جس طرح مشھور روایات کی بنا پر جناب عقیل کو حضرت علی بن ابی طالب(ع)سے بظاھر جدا کرنے کے بعد ان کی خاطرداریوں میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جاتا تھا۔ یھی بلکہ اس سے زیادہ حضرت امام حسن(ع)کے ساتھ ھوتا مگر ایسا نھیں ھوا۔ صلح کرنے کے بعد بھی امام حسن(ع)کو آرام اور چین نھیں لینے دیا گیا اور بالآخر زھر دغا سے آپ کو شھید کر دیا گیا۔ اسی سے ظاھر ھے کہ حاکم شام بھی جانتے تھے۔ کہ یہ رائے، مسلک، خیال اور طبیعت کسی اعتبار سے بھی اپنے باپ بھائی سے جدا نھیں ھیں۔ یہ اور بات ھے کہ اس وقت انھیں فرض کا تقاضا یھی محسوس ھوا لیکن اگر مصلحت دینی میں تبدیلی ھو تو یھی کوئی نیا صفین کا معرکہ پھر آراستہ کر سکتے ھیں اور انھی کے ھاتہ سے کربلا بھی سامنے آ سکتی ھے اسی لئے ان کی زندگی اس کے بعد بھی ان کے سیاسی مقاصد کے لئے خطرہ بنی رھی اور جب ان کی شھادت کی خبر ملی تو انھوں نے اطمینان کی سانس ھی نھیں لی بلکہ اپنے سیاسی ضبط و تحمل کے دائرہ سے بھی تجاوز کرکے بالاعلان انھوں نے مسرت سے نعرھٴ تکبیر بلند کیا۔ اس سے صاف ظاھر ھے کہ حسن مجتبیٰ(ع)کی صلح کسی مخصوص ذھنیت یا طبیعت کا نتیجہ نھیں تھی۔ وہ صرف فرض کے اس احساس کا تقاضا تھی جو انسانی بلندی کی معراج ھے۔


بقیہ معصُومین(ع) کی سِیرت
 خمسھٴ نجباء یعنی پنجتن(ع) پاک کے کردار میں انسانی رفعت کا نمونہ سامنے آ چکا مگر اسلام صرف پچاس ساٹھ برس کے لئے نہ تھا وہ تو قیامت تک کے لئے تھا اور قیامت تک کتنے زندگی کے دوراھے آنے والے ھیں جن کی مثال اس مختصر مدت کے اندر درپیش نھیں ھوئے تھے۔ اس لئے چودہ معصومین(ع) کی ضرورت ھوئی اور انھیں اتنے عرصہ تک آنکھوں کے سامنے رکھا گیا جتنے عرصہ میں انقلابات کا وہ ایک پورا دور پورا ھو جائے جس کے بعد تاریخ پھر اپنے آ پ کو دھراتی ھے اور جس میں ھر پھر کر وھی صورتیں پیدا ھوتی ھیں جو ذرا بدلی ھوئی شکل میں اصل حقیقت کے لحاظ سے پھلے کی قائم شدہ نظیروں میں سے کسی ایک کے مطابق ھیں اس طرح زندگی کے ھر دوراھے پر ان معصومین(ع) میں سے کسی نہ کسی ایک کی مثال رھنمائی کے لئے موجود ھوگی اور یوں سمجھنا چاھئے کہ ان تمام معصومین(ع) کے کردار سے مل جل کر جس ایک مزاج کی تشکیل ھو گی وہ انسانی کردار کا ھمہ گیر مکمل دستور العمل ھو گا۔
امام حسین علیہ السلام
 جس طرح حضرت امام حسن(ع) کی ولادت کے متعلق دو قول ھیں ۲ اور ۳ھ اسی اعتبار سے امام حسین(ع) کی ولادت کے متعلق دو قول ھیں ۳ اور ۴ھ اگر ان کی ولادت ۲ھ میں ھوئی ھے تو ان کی ۳ھ میں ھے اور اگر ان کی ولادت ۳ ھ میں ھے تو ان کی ۴ھ میں ولادت ھوئی ھے۔ اس طرح وفات رسول کے وقت ان کو چھٹا یا ساتواں برس تھا۔
اس دور اور اس کے بعد جناب امیر(ع) کے دور میں جو کچھ حسن مجتبیٰ (ع) کے بارے میں کھا جا چکا وہ حسین(ع) کی سیرت کے ساتھ بالکل متحد ھے اس لئے کہ ایک سال کے فرق سے کوئی فرق احساسات، تاثرات اور ان کے مقتضیات میں نھیں ھوتا۔ جن واقعات سے جتنا وہ متاثر ھو سکتے تھے اتنا ھی یہ اثر لے سکتے تھے۔ وفات رسول کے بعد سے ۲۵ برس کا دور جو امیرالموٴمنین نے گوشہ نشینی میں گزارا وہ جس طرح ان کے لئے ایک دور ابتلاء تھا ان کے لئے بھی تھا۔ جو جو مناظر ان کے سامنے آ رھے تھے وہ ان کے سامنے بھی بلکہ امام حسن(ع) کو تو دنیا نے صرف بحیثیت صلح پسند اور حلیم کے پھچانا ھے۔ اس لئے وہ اس دور میں ان کے امتحان کی عظمت کو بآسانی شاید محسوس نہ کرے مگر حسین(ع) کو تو دنیا نے روز عاشور کی روشنی میں دیکھا ھے اور بڑا صاحب غیرت و حمیت، خوددار، گرم مزاج اور اقدام پسند محسوس کیا ھے۔ اس روشنی میں ۲۵ برس کے دور خاموشی پر نظر ڈالئے۔ ظاھر ھے کہ ان کے شباب کی منزلیں وھی تھیں جو حضرت امام حسین(ع) کی تھیں۔ ۲۵ سال کی مدت کے اختتام پر وہ ۳۳ برس کے تھے تو یہ بتیس برس کے گویا۔ عمر کے لحاظ سے حسین(ع) اس وقت عباس(ع) تھے کربلا میں جو ابوالفضل العباس کے شباب کی منزل تھی وہ ۲۵ سال کی گوشہ نشینی کے اختتام پر حسین(ع) کے شباب کی منزل تھی۔ اس عمر تک وہ تمام واقعات سامنے آتے ھیں جو اس دور میں پیش آتے رھے۔ اور امام حسین خاموش رھے۔ مصائب و حوادث کے وہ تمام جھونکے آئے اور ان کے سکوت کے سمندر میں تموج پیدا نہ کر سکے۔
ان کے ۲۵ برس حضرت علی(ع) کی خاموشی کے ھمدم، وہ حضرت رسول پر مظالم دیکہ رھے تھے جو ان کے مجازی حیثیت سے باپ کی حیثیت رکھتے تھے اور یہ حضرت علی(ع) پر مظالم دیکہ رھے تھے جو ان کے حقیقی حیثیت سے باپ تھے جس طرح وھاں کوئی تاریخ نھیں بتاتی کہ کسی ایک دفعہ بھی علی(ع) کو جوش آ گیا ھو اور رسول کو علی(ع) کے روکنے کی ضرورت پڑی ھو۔ اسی طرح کوئی روایت نھیں بتاتی کہ اس ۲۵ برس کی طویل مدت میں کبھی حسین(ع) کو جوش آ گیا ھو اور حضرت علی(ع) نے بیٹے کو روکنے کی ضرورت محسوس فرمائی ھو یا سمجھانے کی کہ یہ نہ کرو۔ اس سے ھمارے مقصد یا اصول کو نقصان پھنچے گا۔
اس کے بعد وہ وقت آیا کہ جب حضرت علی(ع) نے میدان جھاد میں قدم رکھا۔ تو اب جھاں حسن(ع) تھے وھیں حسین(ع) بھی تھے۔ وہ باپ کے داھنی طرف تو یہ بائیں طرف۔ ھر معرکہ میں عملی حیثیت سے شریک ھیں۔ اس کے بعد جب صلح نامہ لکھا گیا تو جھاں بڑے بھائی کے دستخط وھیں چھوٹے بھائی کے دستخط۔ جناب امیر کی شھادت کے بعد اسی طرح یہ حضرت امام حسن(ع) کے ساتھ ھیں جھاد میں بھی اور صلح میں بھی۔ ابو حنیفہ دنیوری نے الاخبار الطوال میں لکھا ھے کہ صلح کے بعد دو شخص امام حسن(ع) کے پاس آئے۔ یہ جذباتی قسم کے دوست تھے صحیح معرفت نہ رکھتے تھے انھوں نے سلام کیا:
السلام علیک یامذلَ الموٴمنین
”اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے آپ کو سلام ھو۔“
یہ بخیالِ خود مومنین ھیں جن کا یہ اخلاق ھے اور یہ ان کا بلند اخلاق ھے کہ ایسے الفاظ کے ساتھ جو سلام ھو اس کا بھی جواب دینا لازم سمجھتے ھیں۔ اور ملائمت کے ساتھ فرماتے ھیں۔
  لست مذلّھم بل معذّھم میں نے مومنین کو ذلیل نھیں کیا بلکہ ان کی عزت رکھلی، اس کے بعد مختصر طور پر انھیں صلح کے مصالح سمجھائے جس پر وہ خاموشی سے واپس ھو گئے اور اب وہ اٹھ کر امام حسین(ع) کے پاس آئے اور خود ھی یہ واقعہ پیش کیا کہ ھم سے امام حسن(ع) سے یہ گفتگو ھوئی ھے۔ آپ نے امام حسن(ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا: صدق ابو محمّد یعنی حضرت امام حسن(ع) نے بالکل سچ فرمایا۔ صورت حال یھی تھی اور اس کا تقاضا اسی طرح تھا۔
بعض سورما قسم کے آدمی آئے اور انھوں نے کھا: آپ حسن مجتبیٰ (ع) کو چھوڑیئے، وہ صلح کے اصول پر برقرار رھیں مگر آپ اٹھئے ھم آپ کے ساتھ ھیں اچانک حکومت شام پر ھلہ بول دیں۔ امام حسین(ع) نے فرمایا: غلط بالکل غلط۔ ھم نے ایک معاھدہ کر لیا ھے اور اب ھم پر اس کا احترام لازم ھے۔ ھاں اسی وقت حضرت نے یہ کھہ دیا کہ تم میں سے ھر ایک کو اس وقت تک بالکل چپ چاپ بیٹھا رھنا چاھئے جب تک یہ شخص یعنی معاویہ زندہ ھے۔ یہ آپ کا تدبر تھا۔ آپ جانتے تھے کہ معاویہ کی طرف سے آخر میں اور شرائط کے ساتھ اس شرط کی خلاف ورزی ھو گی کہ انھیں اپنے بعد کسی کو نامزد نہ کرنا چاھئے۔ اس وقت ھمیں اٹھنے کا موقع ھو گا۔
اب کون کھہ سکتا ھے کہ حسن(ع) کی صلح کے بعد حسین(ع) کی جنگ کسی پالیسی کی تبدیلی، ندامت و پشیمانی یا اختلاف رائے و مسلک کا نتیجہ تھی؟ ۲۰ سال پھلے کھا جا رھا ھے کہ ھمیں اس وقت تک خاموش رھنا چاھئے جب تک معاویہ زندہ ھے اس سے ظاھر ھے کہ ۲۰ برس کی طویل راہ کے تمام سنگ میل نظر کے سامنے ھیں اور پورا لائحہ عمل پھلے سے بنا ھوا ھے مرتب ھے اس کے معنی یہ ھیں کہ یہ طویل سکوت بھی اسی معاھدہ کے تحت ضروری ھے اور اس وقت کے اقدام کا بھی اسی معاھدہ کے ماتحت حق ھو گا۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک ھے کہ حسن مجتبیٰ (ع) کی صلح حسین(ع) بن علی(ع) جنگ کی ایک تمھید ھی تھی۔ اور کچھ نھیں۔
۴۱ھ میں یہ صلح ھوئی اور ۶۰ھ میں معاویہ نے انتقال کیا اس بیس سال کی طولانی مدت میں کیا کیا ناسازگار حالات پیش آئے اور عمال حکومت نے کیا کیا تکلیفیں پھنچائیں مگر ان تمام حالات کے باوجود جس طرح رسول کے ساتھ علی(ع) مکہ کی تیرہ برس کی زندگی میں جس طرح حضرت علی(ع) کے ساتھ حسن مجتبیٰ (ع) اور خود حسین(ع) ۲۵ برس کی گوشہ نشینی کے دور میں، اسی طرح حضرت امام حسن(ع) کے ساتھ امام حسین(ع) دس برس کے ان کے دور حیات میں جو صلح کے بعد تھا حالانکہ اس زمانہ کے حالات کو وہ کن عمیق قلبی تاثرات کے ساتھ دیکھتے تھے ان کا اندازہ خود ان کے اس فقرے سے ھوتا ھے جو انھوں نے حضرت امام حسن(ع) کے جنارے پر مروان سے کھا تھا۔ جب مروان نے وفات حسن(ع) پر اظھار افسوس کیا تو امام حسین(ع) نے فرمایا کہ اب رنج و افسوس کر رھے ھو اور زندگی میں ان کو غم و غصہ کے گھونٹ تم پلاتے تھے جو کہ یاد ھیں مروان نے جواب دیا بے شک! وہ ایسے کے ساتھ تھا جو اس پھاڑ سے زیادہ متحمل اور پرسکون تھا۔
یہ تعریف اس وقت مروان امام حسن(ع) کی کر رھا تھا جو دنیا سے اٹھ چکے تھے مگر کیا اس تعریف میں خود حسین(ع) بھی حصہ نہ رکھتے تھے؟ کیا اس طویل مدت میں انھوں نے کوئی جنبش کی جو حسن مجتبیٰ کے سکون کے مسلک کے خلاف ھوتی؟ پھر امام حسن(ع) کے جنازے کے ساتھ جو ناگوار صورت پیش آئی وہ روضھٴ رسول پر دفن سے روکا جانا۔ وہ تیروں کا برسایا جانا۔ یھاں تک کچھ تیروں کا جسدِ امام حسن(ع) تک پھنچنا۔ یہ صبرآزما حالات اور ان سب کو امام حسین(ع) کا برداشت کرنا۔
  کوئی شاید کھے کہ حسین(ع) کیا کرتے؟ بے بس تھے مگر کیا کربلا میں حسین(ع) کو دیکھنے کے بعد وہ یہ کھنے کا حق رکھتا ھے؟ کربلا میں تو سامنے کم از کم ۳۰ ھزار تھے اور جنازہ حسن(ع) پر سدراہ ھونے والی جماعت زیادہ سے زیادہ کئی سو ھو گی۔ حسین(ع) کے ساتھ عباس(ع) بھی موجود ھیں جو اس وقت ۲۲ برس کے مکمل جوان تھے جناب محمد حنیفہ بھی موجود تھے جن کی شجاعت کا تجربہ دنیا کو حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے ساتھ جمل اور صفین میں ھو چکا تھا۔ مسلم بن عقیل بھی موجود تھے جنھیں بعد میں پورے کوفہ کے مقابلہ میں تن تنھا حسین(ع) نے بھیج دیا اور انھوں نے اکیلے وہ بے نظیر شجاعت دکھائی جو تاریخ میں یادگار ھے۔
علی(ع) اکبر بھی بنا برقول قوی اس وقت ۱۵ برس کے تھے جو کربلا کے قاسم سے زیادہ عمر رکھتے تھے اور تمام بنی ھاشم موجود تھے۔ پھر کچھ تو آلِ رسول کے وفادار غلام تھے اور دوسرے اعوان و انصار بھی موجود ھی تھے اس صورت حال میں حضرت امام حسین(ع) کے عمل کو بے بسی کا نتیجہ سمجھنا کھاں درست ھو سکتا ھے۔
مگر حسین(ع) خاموش رھتے ھیں اور ان سب کو خاموشی پر مجبور رکھتے ھیں امام حسن(ع) کا جنازہ واپس لے جاتے ھیں جنة البقیع میں دفن کر دیتے ھیں اور اس کے بعد دس برس حسنی صلح کے مسلک پر خاموشی کے ساتھ گزار دیتے ھیں اور اس طرح یہ ثابت ھو جاتا ھے کہ وہ بڑے بھائی کا دباؤ یا مروت اور احترم کا تقاضا نہ تھا بلکہ مفاد اسلامی کا لحاظ تھا جس کے وہ بھی محافظ تھے اور اب یہ اس کے محافظ ھیں۔
اور ادھر حکومت شام کی طرف سے اس تمام مدت میں ھر ھر شرط کی خلاف ورزی ھو رھی تھی۔ چن چن کے دوستانِ علی(ع) کو قتل کیا جا رھا تھا اور جلاوطن کیا جا رھا تھا۔ کیسے کیسے افراد؟ حجر بن عدی اور ان کے ۱۶ ساتھی۔ یہ دمشق کے باھر مرج عذراء میں سولی چڑھا دیئے جاتے ھیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ھیں کہ یہ حجر بن عدی فضلائے صحابہ میں سے تھے۔ مسائل فقھیہ میں ان کے فتاوےٰ جمع کئے جائیں تو ایک جزو کا رسالہ ھو جائے۔ مگر علی(ع) کے دوست تھے اس لئے ان کی صحابیت بھی کام نہ آ سکی۔ کوفہ سے قید کرکے دمشق بلوائے گئے۔ حاکم شام نے اپنے دربار میں بلا کر ان سے پوچہ گچہ یا صفائی پیش کرنے کا موقع بھی دینا پسند نہ کیا۔ حکم ھو گیا کہ بیرون شھر ھی روک دیئے جائیں اور وھیں سولی دے دی جائے۔ ان کی شھادت کی خبر اتنی دردناک تھی کہ عبداللہ بن عمر نے اس کا ذکر سنا تو چیخیں مار کر رونے لگے۔ ام المومنین عائشہ کو اطلاع ھوئی تو انھوں نے کھا۔ آخر معاویہ خدا کو کیا جواب دے گا، کہ ایسے ایسے نیکوکار مسلمانوں کا خون کر رھا ھے۔
عمرو بن الحمق الخزاعی وہ بزرگوار تھے جنھیں پیغمبر خدا نے غائبانہ طور پر اپنے سلام سے سرفراز کیا تھا ان کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر بلند کیا گیا۔ یہ سب سے پھلا سر تھا جو اسلا م میں نیزہ پر بلند ھوا۔
ان حوادث سے عبداللہ بن عمر اور عائشہ بنت ابی بکر ایسے لوگ اس قدر متاثر تھے تو حسین(ع) بن علی(ع) جن کے والد بزرگوار کی محبت کی پاداش ھی میں یہ سب کچھ ھو رھا تھا جتنا بھی متاثر ھوتے کم تھا۔
پھر حضرت امام حسن(ع) کے دس سال تک سکوت اور عدم تعرض کی جو قیمت ان کو ملی یعنی زھر قاتل اور کلیجے کے بھتر ٹکڑے اور پھر ان کی وفات پر دمشق کے قصر سے اظھار مسرت میں اللہ اکبر کی بلند آواز…ان سب باتوں کے بعد حضرت امام حسین(ع) کی خاموشی۔ کیا کسی میں ھمت ھے جو اس وقت کے حسین(ع) پر جنگجوئی کا الزام عائد کر سکے؟
اب اس کے بعد وہ ھنگام آیا جسے امام حسین(ع) کی آنکھیں بیس برس پھلے دیکہ رھی تھیں یعنی حاکم شام نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کی داغ بیل ڈال دی اور اس کے لئے عالم اسلام کا دورہ کیا۔
اب امام حسین(ع) کے لئے وہ شاھراہ سامنے آ گئی جو انکارِ بیعت سے شروع ھوئی اور آخر تک انکارِ بیعت ھی کی شکل میں قائم رھی۔
پھر اس انکارِ بیعت کو کیا کوئی وقتی، جذباتی فیصلہ یا ھنگامی جوش کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ھے؟
  یاد رکھنا چاھئے کہ انکارِ بیعت تو ابھی قانونی جرم قرار بھی نہ پایا تھا۔ خلافت ثلٰثہ میں بھت سوں نے بیعت نھیں کی۔ حضرت علی(ع) کے دور میں عبداللہ بن عمر نے بیعت نھیں کی اسامہ بن زیدۻ نے بیعت نھیں کی سعد بن ابی وقاص نے بیعت نھیں کی۔ حسان بن ثابت نے بیعت نھیں کی۔ مگر ان بیعت نہ کرنے والوں کو واجب القتل نھیں سمجھا گیا۔
امام حسین(ع) نے بیعت نہ کرکے اپنے کو حمایتِ باطل سے الگ کیا بس۔ اس کے علاوہ کوئی اقدام نھیں کیا۔ مگر معاویہ کے بعد جب یزید برسراقتدار آیا تو اس نے پھلا ھی حکم اپنے گورنر ولید کو یہ بھیجا کہ حسین(ع) سے بیعت لو اور بیعت نہ کریں تو ان کا سر قلم کرکے بھیج دو۔ یہ تشدد کا آغاز کدھر سے ھو رھا ھے؟ حاکم مدینہ کو اس حکم کی تعمیل کی ھمت نہ ھوئی تو اسے معزول کیاگیا۔ امام حسین(ع) کو اگر تشدد سے کام لینا ھوتا تو آپ ھلاکت معاویہ کی خبر ملتے ھی مدینہ کے تخت و تاج پر قبضہ کر لیتے جو اس وقت ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ اس کے بعد کم از کم عالم اسلام تقسیم تو ھو ھی جاتا مگر آپ ایسا نھیں کرتے بلکہ جا کر مکہ میں پناہ لینے کے معنی یہ ھیں کہ ھمیں کسی کی جان لینا نھیں ھے اپنی جان بچانا منظور ھے۔
بظاھر اسباب اگر یھاں قیام کا ارادہ مستقل نہ ھوتا تو احرام حج کیوں باندھتے؟ احرام باندھنا خود نیت حج کی دلیل ھے اور نیت کے بعد بلاوجہ حج توڑنا جائز نھیں۔ حضرت امام حسین(ع) سے بڑھ کر مسائل شریعت سے کون واقف ھو گا اور یہ ان کا مخالف بھی خیال نھیں کر سکتا کہ وہ جان بوجہ کر حکم شریعت کی معاذ اللہ مخالفت کریں گے اور وہ بھی کب؟ جب کہ حج کو صرف ایک دن باقی ھے۔
وہ جن کاذوق حج یہ تھا کہ مدینہ سے آ آ کر ۲۵ حج پا پیادہ کر چکے ھیں اب مکہ میں موجود ھوتے ھوئے حج کو عمرہ سے تبدیل فرما دیتے اور مکہ سے روانہ ھو جاتے ھیں۔ اس طرز عمل سے خود ظاھر ھے کہ اس کا سبب غیرمعمولی اور ھنگامی ھے۔ چنانچہ ھر ایک پوچہ رھا تھا اور بڑی وحشت اور پریشانی کے ساتھ! آپ اس وقت مکہ چھوڑ رھے ھیں؟“
  یہ ھر سوال امام(ع) کے دل پر ایک نشتر تھا۔ ھر ایک سے کھاں تک بتلاتے۔ کسی کسی سے کھہ دیا کہ نہ نکلتا تو وھیں قتل کر دیا جاتا اور میری وجہ سے حرمت خانہ کعبہ ضائع ھو جاتی۔
مکہ میں آنا بھی خطرہ کو حتی الامکان ٹالنا تھا اور اب مکہ سے جانا بھی یھی ھے اب آپ کوفہ تشریف لئے جا رھے ھیں۔ جھاں کے لوگوں نے آپ کو اپنی ھدایت دینی اور اصلاحِ اخلاقی کے لئے دعوت دی ھے مگر بیچ میں فوج حر آ کر سد راہ ھوتی ھے اب آپ پھلا کام یہ کرتے ھیں کہ اس پوری فوج کو جو پیاسی ھے سیراب کر دیتے ھیں۔ یہ فیاضی بھی جنگجویانہ انداز سے بالکل الگ ھے اس کے بعد وہ موقع آیا کہ نھر پر خیموں کے برپا کرنے کو روکا گیا اس وقت اصحاب کی تیوریوں پر بل تھے مگر امام(ع) نے فرمایا کہ مجھے جنگ میں ابتداء کرنا نھیں ھے۔ ریت ھی پر خیمے برپا کر دو۔ یہ نفس پر جبر اور حلم و تحمل وہ کر رھا ھے جسے بالآخر جان پر کھیل جانا اور اپنا پورا گھر قربان کر دینا ھے مگر وہ اس وقت ھو گا جب اس کا وقت آئے گا اور یہ اس وقت ھے جب اس کا وقت ھے۔
پھر عمر سعد کربلا میں پھنچتا ھے تو آپ خود اس کے پاس گفتگوئے صلح کے لئے ملاقات کا پیغام بھیجتے ھیں۔ ملاقات ھوتی ھے تو شرطیں ایسی پیش فرماتے ھیں کہ ابن سعد خود اپنے حاکم عبیداللہ بن زیاد کو لکھتا ھے کہ فتنہ و افتراق کی آگ فرو ھو گئی۔ اور امن و سکون میں کوئی رکاوٹ نہ رھی۔ حسین ملک چھوڑنے تک کے لئے تیار ھیں اس کے بعد خونریزی کی کوئی وجہ نھیں۔
اب یہ تو فریق مخالف ک اعمل ھے کہ اس نے ایسے صلح پسندانہ رویہ کی قدر نہ کی اور صلح کے لئے بڑھے ھوئے ھاتہ کو جھٹک کر پیچھے ھٹا دیا لیکن اس شرط پر حکومت مخالف راضی ھو گئی ھوتی۔ پھر حضرت امام حسن اور امام حسین(ع) کی افتادِ طبع میں کسی اختلاف کا تصور کرنے والوں کے تصورات کی کیا بنیاد باقی رہ سکتی تھی اور صورت حال کے سمجھنے کے بعد اب بھی یہ تصورات تو غلط ثابت ھو ھی گئے مگر وہ ابن زیاد کی تنگ ظرفی فرعونیت اور یزید کے منشاء کی تکمیل تھی کہ اس نے حضرت امام حسین(ع) پر صلح و امن کے سب راستوں کو بند کر دیا۔ پھر بھی جب نویں تاریخ کی سہ پھر کو حملہ ھو گیا تو حضرت(ع) نے ایک رات کی مھلت لے لی۔ جسے جنگ کرنا ھی مطلوب تھا وہ التوائے جنگ کی درخواست کیوں کرتا، مگر اس ایک رات کی مھلت کو حاصل کرکے بھی آپ نے اپنی امن پسندی کا ثبوت دیا اور دکھلا دیا کہ جنگ تو مجہ پر خواہ مخواہ عائد کی جا رھی ھے۔ میں جنگ کا اپنی طرف سے شوق نھیں رکھتا ھوں۔
پھر صبح عاشور کوئی دقیقہ موعظہ و نصیحت اور اتمام حجت کا اٹھا نھیں رکھا۔ خطبہ جو پڑھا وہ اونٹ پر سوار ھو کر اس لئے کہ وہ ھنگام امن کی سواری ھے گھوڑے پر نھیں سوار ھوئے جو جنگ کے ھنگام کا مرکب ھوتا ھے۔
  باوجودیکہ خطبہ کے جو جواب ملے وہ دل شکن تھے مگر اس کے بعد بھی آپ نے اس کا انتظار کیا کہ فوج دشمن کی طرف سے ابتداء ھو او جب پھلا تیر عمر سعد نے چلہ کمان میں جوڑ کر اپنی فوج سے مخاطب ھوتے ھوئے یہ کھہ کے لگایا کہ ”گواہ رھنا پھلا تیر فوج حسینی کی طرف میں رھا کر رھا ھوں۔“ اور اس کے بعد چار ھزار تیر کمانوں سے روانہ ھو گئے اور جماعت حسینی (ع) کی طرف آ گئے۔ اس وقت مجبور ھو کر امام(ع) نے اذن جھاد دیا۔ اور اس کے بعد بھی خود اس وقت تک جھاد کے لئے تلوار نیام سے نھیں نکالی جب تک آپ کی ذات میں انحصار نھیں ھو گیا۔ جب تک ایک بھی باقی رھا آپ نے شمشیرزنی نھیں کی۔ اور اس طرح پیغمبر کے کردار کی تفسیر کر دی جب کوئی نہ رھا اس وقت تلوار کھینچی اور یہ ایسا وقت تھا جب کسی دوسرے میں دم نہ ھوتا کہ وہ جنبش بھی کر سکتا۔ تین دن کی بھوک پیاس اور اس پر صبح سے سہ پھر تک کی تمازتِ آفتاب میں شھداء کے لاشوں پر جانا اور پھر خیمہ گاہ تک پلٹنا اور پھر بھتر کے داغ عزیزوں کے صدمے اور ان کی لاشوں کا اٹھانا۔ جوان بیٹے کا بصارت لے جانا اور بھائی کا کمر توڑ جانا۔ اور اپنے ھاتھوں پر ایک بے شیر کو دم توڑتے میں سنبھالنا اور نوک شمشیر سے ابھی ابھی اس کی قبر بنا کر اٹھنا…اب اس عالم میں جذباتِ نفس کا تقاضا تو یہ ھے کہ آدمی خاموشی سے تلواروں کے سامنے اپنا سر بڑھا دے اور خنجر کے آگے گلا رکہ دے مگر حسین(ع) اسلامی تعلیم کے محافظ تھے ظلم کے سامنے سپردگی آئین شریعت کے خلاف ھے۔ حسین(ع) نے اب فریضھٴ دفاع کی انجام دھی اور دشمنانِ خدا کے مقابلہ کے لئے تلوار اٹھائی اور وہ جھاد کیا جس نے بھولی ھوئی دنیا کو حیدر صفدر کی شجاعت یاد دلا دی اور اس طرح دکھا دیا کہ ھمارے اعمال و افعال، جذبات نفس اور طبیعت کے تقاضوں کے ماتحت نھیں بلکہ فرائض و واجبات کی تکمیل اور احکام ربانی کی انجام دھی کے ماتحت ھوتے ھیں۔ چاھے طبعی تقاضے اس کے کتنے ھی خلاف ھوں۔
یھی انسانیت کی وہ معراج ھے جس کی نشاندھی حضرت امام حسین(ع) کے اسلاف کرتے رھے او روھی آج حسین(ع) کے کردار میں انتھائی تابانی کے ساتھ نمایاں ھیں۔


سیرتِ ائمہ(ع) کے ھمہ گیر پھلو:
 حضرت امام حسین(ع) کے بعد ۹ معصومین(ع) کی زندگی میں چند اقدار مشترک ہیں۔ ایک یہ کہ پھر اس دور میں کسی خونریز اقدام کی ضرورت محسوس نہ کی گئی اور امن و خاموشی کو ہر حال میں مقدم رکھا گیا اور اب ان اقدار کے تحفظ کے لئے جو واقعہ کربلا نے ذہن بشر کے لئے قائم کر دیئے تھے اس واقعہ کی یاد کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ ”عزائے حسین(ع) پر تاریخی تبصرہ ۔“ دیکھنے کے قابل ہے اور جس کا کامیاب نتیجہ عزاداری کے قیام و بقا کی شکل میں ہر شخص کے مشاہدہ میں ہے۔
دوسرے۔ اپنی زندگی کی اس خاموش فضا کو انہوں نے معارف و تعلیماتِ اسلامی کی اشاعت کے لئے وقف رکھا اور تاریخ کے سردگرم حالات کے ساتھ اپنے امکانات کے مدارج کو فعلیت کی منزل میں لاتے رہے جس کا حیرت انگیز نمونہ یہ سامنے ہے کہ سلطنت و اقتدار کی بے پناہ پشت پناہی کے ساتھ اکثریت کے محدثین و فقہا کی مجموعی طاقت کا فراہم کردہ جتنا ذخیرہٴ احادیث صحاح ستہ کی شکل میں موجود ہے اس سے زیادہ جبر و قہر کے شکنجوں میں گھرے ہوئے ان ائمہ اہل بیت علیہم اسلام کی بدولت کتبِ اربعہ کی شکل میں ملتِ جعفریہ کے ہاتھوں میں موجود ہے جس کا موازنہ کرنے پر بالکل وہ نمونہ سامنے آتا ہے کہ جیسے قرآن مجید کے پہلے تعلیمات انبیا(ع)ء کے جو مسخ شدہ مجموعے کتب سماوی کے نام سے موجود تھے ان کے ہوتے ہوئے قرآن نے آ کر یہ کام کیا کہ جو اصل حقائق ان کتب کے تھے ان کو خالص شکل میں محفوظ کر دیا اور جو مہملات و مزخرفات شان انبیا(ع)ء کے خلاف ان میں سے حارج کر دیئے گئے تھے ان سب کو دور کرکے حقانیت انبیا(ع)ء کی شان کو نکھار دیا۔ اسی طرح سوادِ اعظم کے متداول احادیث کے ذخیرہ میں جتنی اصلیتیں تھیں ان کو آلِ محمد علیہم السلام نے اپنے صداقت ریز بیانات کے ساتھ محفوظ و مستحکم بنا دیا اور ان کے ساتھ سلطنتِ وقت کے کاسہ لیس اور یاوہ گو راویوں نے جو ہزاروں اس طرح کی باتیں شامل کر دی تھیں جن سے شان رسالت بلکہ شان الوہیت تک صدمہ پہنچتا تھا ان سب کا قلع قمع کرکے دامن الوہیت ورسالت کو بے داغ ثابت کر دیا۔ اور خالص حقائق و تعلیمات اسلامیہ کو منضبط کر دیا۔ اس طرح جیسے کتب سماوی میں قرآن بحسب ارشاد ربانی مہیمن علی الکل ہے اسی طرح سلسلہٴ احادیث میں یہ ائمہ معصومین علیہم اسلام کے ذریعہ سے پہنچا ہوا ذخیرہ ہے جو حقائق اسلامیہ پر مہیمن کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کے اس کارنامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس لئے ان کو ثقلین کا جزو بنا کر قرآن کے ساتھ امت اسلامیہ کے اندر چھوڑا گیا اور ارشاد ہوا تھا کہ: ما ان تمسّکتم بھما لن تضّلو بعدی ”جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے گمراہ نہ ہو گے۔“
فقہ میں یہ حقیقت ہے کہ سوادِ اعظم نے قیاس کے وسیع احاطہ میں قدم رکھنے کے باوجود جس معیار تک اس فن کو پہنچایا فقہائے اہل بیت(ع) نے تعلیمات ائمہ کی روشنی میں قیاس سے کنارہ کشی کرنے اور قرآن و حدیث سے استناباطات کے تنگنائے میں اپنے کو مقید رکھنے کے باوجود اس سے بدرجہ بالاتر نقطہ تک اس فن کو پہنچا دیا۔ جس پر انتصار نہایہ اور مبسوط اور پھر تذکرة الفقہاء اور مختلف الشیعہ سے لے کر حدائق اور جواہر اور فقہ آقا رضا ہمدانی تک ایسی بسیط کتابیں گواہ ہیں جن کا عشر عشیر بھی سوادِ اعظم کے پاس موجود نہیں ہے۔
تیسرے۔ اس سو ڈیڑھ سو برس کی مدت میں امت اسلامیہ کے اندر کتنے انقلابات آئے حالات نے کتنی کروٹیں بدلیں۔ ہواؤں کی رفتار کتنی مختلف ہوئی مگر ان معصومین(ع) کے اخلاق و کردار میں جو تعلیمات و اخلاقِ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے ذرہ بھر تبدیلی نہیں ہوئی۔ نہ اپنے منہاج نظر کو بدلا اور نہ امن پسندی کے رویہ میں جسے اب مستقل طور پر سکوت و سکون کی شکل میں اختیار کر لیا تھا ذرہ بھر تبدیلی ہوئی۔ ان دونوں باتوں کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک ہستی کو ان کے دور کی حکومت نے اپنا حریف ہی سمجھا۔ اس لئے ان سے کسی حکومت نے بھی غیرمعترضانہ حیثیت اختیار نہیں کی۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ دنیاوی حکومت کے مقابل اس محاذ کے جو حضرت علی بن ابی طالب(ع)، حضرت حسن مجتبیٰ اور حضرت امام حسین(ع) کی نگہبانی میں قائم رہا تھا، برابر محافظ رہے اور اسی لئے باطل حکومت انہیں اپنا حریف سمجھتی رہی۔ مگر کبھی حکومت کو ان کے خلاف کسی امن شکنی کے الزام کو ثابت کرنے کا موقع نہیں مل سکا اس لئے قید کیا گیا تو اندیشہٴ نقص امن کی بنا پر اور زندگی کا خاتمہ کیا گیا تو زہر سے جس کے ساتھ حکومت وقت کو اپنی صفائی پیش کرنے کا امکان باقی رہے۔
یہ تمام معصومین(ع) کی زندگی اور موت کی مشترک کیفیت بتلاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا طرزِ عمل ایک واحد نظام کا جز تھا جس کے قیام کے مجموعی حیثیت سے وہ سب ذمہ دار تھے۔
چوتھے۔ اس وقت جب کہ علم، تقویٰ، عبادت وریاضت اور روحانیت ہر ایک کی ایک قیمت مقرر ہو چکی تھی اور ان سب جنسوں کا بازار سلطنت میں بیوپار ہو رہا تھا، یہ ہستیاں وہ تھیں جنہوں نے اپنے خداداد جوہروں کو دنیوی قیمتوں سے بالاتر ثابت کیا۔ نہ اپنا کردار بدلا اور نہ اپنے کردار کو حکومت وقت کے غلط مقاصد کا آلہ کار بنایا۔ نہ حکومتوں کے خلاف کھڑی ہونے والی جماعتوں کے معاون بنے اور نہ حکومتوں کے ناجائز منصوبوں کے مددگار ہوئے۔ حالانکہ حکومتوں نے ان ہر داؤں کو آزمایا۔ مصیبتوں میں بھی مبتلا کیا اور اقتدارِ دنیا کی طمع کے ساتھ بھی آزمائش کی۔ مگر ان کا کردار ہمیشہ منفرد رہا۔ اور اموی و عباسی کسرویت و قیصریت کے زیرسایہ پروان چڑھی ہوئی دنیا کے ماحول کے اندر وہ علیحدہ صحیح اخلاق اسلامی کا نمونہ پیش کرتے رہے۔ یہ ان کا خاموش عمل ہی وہ مستقل جہاد حیات تھا جو وہ بتقاضائے خلافت الٰہیہ مستقل طو رپر انجام دیتے رہے۔
پانچویں۔ اگرچہ ان بزرگواروں کی عمریں مختلف ہوئیں۔ ایک طرف حضرت امام جعفر صادق(ع) ہیں جو تقریباً پینسٹھ برس اس دارِ دنیا میں رہے دوسری طرف حضرت امام محمد تقی(ع) ہیں جو ۲۵ برس سے زیادہ اس دارِ فانی میں زندہ نہیں رہے۔ اور پھر برسراقتدار امامت آنے کے موقع پر عمروں کا اختلاف یعنی جب سابق امام(ع) کی وفات ہوئی اور بعد کے امام(ع) کی امامت تسلیم ہوئی اس وقت ایک طرف حضرت امام محمد باقر(ع) اور امام جعفر صادق(ع) ہیں جن کی عمر اپنے والد بزرگوار کی وفات کے وقت ۳۴ یا ۳۵ برس تھی اور دوسری طرف حضرت امام محمد تقی(ع) اور امام علی نقی(ع) ہیں جن کی عمریں زیادہ سے زیادہ آٹھ نو برس تھیں مگر عالم اسلامی کا بیان متفق ہے کہ ہر ایک بزرگ اپنے دور میں عبادت، زہد، ورع، تقویٰ، ریاضت نفس، فیض و کرم تمام اخلاق میں مثالی زندگی کے مالک رہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے افعال نفسانی جذبات اور طبیعت کے تقاضوں کی بنا پر نہیں ہیں جن میں عمر کا فرق اثر انداز ہوتا ہے بلکہ وہ سب اسی للہیت اور احساس فرائض کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جو انسانی کردار کی معراج ہے۔
اب فرداً فرداً ہر امام(ع) کے حالات میں ان کے زمانہ کی کیفیات کے انفرادی خصوصیات کے ساتھ ان مشترکہ اقدار کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کا مجمل حیثیت سے ابھی تذکرہ کیا گیا ہے۔


حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
آپ کا دور کربلا کے تاریخی کارنامہ اور شھادت امام حسینع کے بعد شروع ھوا ھے۔ یہ زمانہ وہ تھا جب مظالم کربلا کے ردعمل میں مسلمانوں کی آنکھیں کھل رھی تھیں۔ کچھ مخلص افراد سچے جذبھٴ عقیدت کے ساتھ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھو گئے تھے۔ اور کچھ نے سیاسی طور پر اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے حصول اقتدار کا اسے ذریعہ بنایا تھا۔ اس وقت عام انسانی جذبات کے لحاظ سے اندازہ کیجئے کہ ایک وہ ھستی جس نے کربلا کے بھتر لاشے زمین گرم پر دیکھے ھوں اور یزید کے ھاتھوں خود وہ مظالم اٹھائے ھوں۔ جو کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کے پورے المیہ میں مضمر ھیں اسے ھر اس کوشش کے ساتھ جو سلطنت بنی امیہ کے خلاف ھو رھی ھو کتنی قلبی وابستگی ھونا چاھئے اور اس وابستگی کے ساتھ بڑی مشکل بات ھے کہ وہ عواقب پر نظر کر سکے۔ ایسے موقعوں پر عام جذبات کا تقاضا تو یہ ھے کہ چاھے حب علیع کے جذبہ میں کچھ کوششیں نہ ھوں صرف بعض معاویہ میں ھوں مگر ایسی کوششوں کے ساتھ بھی آدمی منسلک ھو جاتا ھے۔ فقط اس لئے کہ ھمارے مشترک دشمن کے خلاف ھیں خصوصاً جب کہ اس میں کامیابی کے آثار بھی نظر آ رھے ھوں جیسے عبداللہ بن زھیر جنھوں نے حجاز میں اتنا مکمل تسلط حاصل کر لیا تھا کہ جمھوری نظریھٴ خلافت کے بھت سے علماء قھر و غلبہ کی بنا پر ان کی باضابطہ خلافت کے قائل ھیں۔ جس کی تصدیق حفاظ سیوطی کی تاریخ الخلفاء سے ھو سکتی ھے۔ یا اھل مدینہ کی منظم کوشش جس نے عمال یزید کو وقتی طور سے نکل جانے پر مجبور کر دیا تھا مگر ایسی حالت میں جب کہ جناب محمد بن حنفیہ کی وابستگی ان تحریکوں سے کسی حد تک نمایاں ھو سکی، امام زین العابدین کا کردار ان تمام مواقع پر اس طرح علیحدگی کا رھا کہ آپ کو ان تحریکوں سے کبھی وابستہ نھیں کیا جا سکا۔
یہ علیحدگی ھی بڑے ضبطِ نفس کا کارنامہ ھے چہ جائیکہ آپ نے اس موقع پر مصیبت زدوں کے پناہ دینے کی خدمت اپنے ذمہ رکھی۔ چنانچہ مروان ایسے دشمن اھل بیتع کو جب جان بچا کر بھاگنے کی ضرورت پیش ھوئی تو اپنے اھل و عیال اور سامان و اموال کی حفاظت کے لئے اگر کسی جائے پناہ پر اس کی نظر پڑی تو وہ صرف حضرت امام زین العابدینع تھے۔ اس کردار کا یہ نتیجہ تھا کہ جب پھر فوج یزید نے یورش کی مدینہ میں قتل عام کیا جو واقعھٴ حرہ کے نام سے مشھور ھے تو آپ کے لئے ممکن ھوا کہ آپ مظلومین مدینہ میں سے بھی چار سو بے بس خواتین کو اپنی پناہ میں لے سکیں اور محاصرہ کے زمانہ میں آپ ان کے کفیل رھیں۔
آپ کا مروان کو پناہ دینا بتا رھا تھا کہ آپ انھی علی بن ابی طالبع کی روایات کے حامل ھیں جنھوں نے اپنے قاتل کو بھی جام شیر پلانے کی سفارش کی تھی اور حضرت امام حسینع کے جنھوں نے دشمنوں کی فوج کو پانی پلوایا تھا۔ وھی کردارآج امام زین العابدینع کے قالب میں نگاھوں کے سامنے ھے۔
اسی کی مثال پھر اس وقت سامنے آئی جب یزید کی موت کے بعد انقلاب کے خوف سے حصین بن نمیر جو مکہ کا محاصرہ کئے ھوئے تھا۔ مضطربانہ اور سراسیمہ اپنے لشکر کو لے کر فرار پر مجبور ھوا اور مدینہ کی راہ سے شام کی طرف روانہ ھوا۔ بنی امیہ سے نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ کوئی نہ ان لوگوں کو کھانے کا سامان دیتا تھا نہ اونٹوں اور گھوڑوں کے لئے چارا مھیا ھو سکتا تھا۔ اتفاق سے امام زین العابدینع اپنی زراعت سے غلہ اور چارا لے کر واپس جا رھے تھے۔ حصین نے بڑھ کر ملتجیانہ انداز میں کھا کہ یہ غلہ اور چارا میرے ھاتہ فروخت کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا۔ ضرورت مند کی خاطر یہ بلاقیمت حاضر ھے۔ اس کرم کو دیکہ کر اس نے تعارف حاصل کیا کہ آپ ھیں کون؟ جب معلوم ھوا تو اس نے حیرت کے ساتھ کھا آپ نے پھچانا بھی ھے کہ میں کون ھوں؟ حضرت نے فرمایا: ”میں خوب پھچانتا ھوں مگر بھوکوں اور پیاسوں کی مدد کرنا ھم اھل بیت کا شعار ھے۔“ حصین اس واقعہ سے اتنا متاثر ھوا کہ گھوڑے سے نیچے اتر کر کھنے لگا کہ یزید تو ختم ھو چکا ھے آپ ھاتہ بڑھائیے میں اپنے پورے لشکر سمیت آپ کی بیعت کرتا ھوں اور آپ کی خلافت کو تسلیم کرانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھوں گا اس پر آپ باندازِ تحقیر تبسم فرمایا اور بغیر کچھ جواب دیئے آگے روانہ ھو گئے۔
اس دور انقلاب کے ھنگامی تقاضوں سے اس طرح دامن بچانے کے باوجود اس سرچشمہ انقلاب یعنی واقعہ کربلا کی یاد کو برابر آپ نےتازہ رکھا۔ یہ زمانہ ایسا نہ تھا کہ عمومی مجالس کی بنا ھو سکتی اور عوام میں تقریروں کے ذریعہ سے اس کی اشاعت کی جاتی۔ اس لئے آپ نے اپنے شخصی تاثرات غم اور مسلسل اشکباری پر اکتفا کی، جو بالکل فطری حیثیت رکھتی تھی۔ یہ مقاومت مجھول سے زیادہ غیرمحسوس ذریعہ تھا ان انقلابی اقدار کے تحفظ کا جو واقعہ کربلا میں مضمر تھے مگر آئینی طور پر کسی حکومت کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ اس گریہ پر پابندی عائد کر سکتی۔ یوں مظالم کربلا کے دور میں کسی آنکہ سے نکلنے پر نوک نیزہ سے اذیت دی جاتی ھو تو وہ اور بات ھے مگر دور امن میں کسی انتھائی ظالم و جابر حکومت کے لئے بھی اس کا موقع نہ تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جس کاباپ تین دن کا بھوکا پیاسا پس گردن سے ذبح کیا گیا ھو۔ اور جس کے گھر سے ایک دوپھر میں اٹھارہ جنازے نکل گئے ھوں اور جس کی ماں بھنیں اسیر بنا کر شھر بہ شھر اور دیار بہ دیار پھرائی گئی ھوں ان تاثرات کے اظھار سے روک سکے جو صرف رنج و ملال کی شکل میں آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے جاری ھوں۔ پھر بلاشبہ اس غیرمعمولی مسلسل گریہ میں جو پچیس برس تک جاری رھا وہ عظیم تاثیر تھی جسے چاھے تاریخ کی سطحی نگاہ اسباب انقلاب میں شمار نہ کرے مگر واقعیت کی دنیا میں اس کی اھمیت سے انکار نھیں کیا جا سکتا۔
اس مسلسل گریہ کے واقعات کو تاریخوں میں پڑھنے کے بعد طبیعت انسانی کے فطری تقاضوں کی بنا پر ھر شخص ایسا تصور کر سکتا ھے کہ غمزدہ اور ھمہ تن گریہ و آہ ھستی سے اس کے بعد یہ توقع کرنا غلط ھے کہ وہ علوم و معارف کی کوئی خدمت انجام دے سکے مگر نھیں ”معراج انسانیت“ تو اسی تضاد میں مضمر ھے کہ یہ غرق حسرت و اندوہ ذات بھی اپنے اس فریضہ سے جو بحیثیت نائب حق و رھنمائے خلق اس کے ذمہ ھے۔ غافل نھیں ھوتی۔ بے شک یہ دور ایسا پرآشوب تھا کہ آپ کے گردوپیش طالبان ھدایت کا مجمع نھیں ھو سکتا تھا۔ آپ کسی مجمع کو مخاطب بنا کر کوئی تقریر نھیں فرما سکتے تھے۔ نہ اپنے قلم کے ذریعہ لوگوں سے سلسلہ مخابرت جاری فرما سکتے تھے اس لئے اس دور کے تقاضوں کے ماتحت آپ نے منفرد طریقہ ”دعا و مناجات“ کا اختیار فرمایا۔ یہ بھی مثل ”گریھ“ کے ایک لازم بظاھر غیرمتعدی عمل تھا۔ جو کسی قانون کی زد میں نھیں آ سکتا تھا مگر ان دعاؤں کو بھی جو ”صحیفہ سجادیھ“ کی شکل میں محفوظ ھیں جب ھم دیکھتے ھیں تو بلا کسی شائبہ مبالغہ و مجاز کے یہ حقیقت نمایاں نظر آتی ھے کہ وھی روح جو حضرت علی بن ابی طالبع کے نھج البلاغ والے خطبوں میں متحرک ھے وھی صحیفہ کاملہ کی ان دعاؤں میں بھی موجود ھے۔ صرف یہ کہ وھاں جو حکیمانہ گھراؤاور خطیبانہ بھاؤ ھے اس کی قائم مقامی یھاں اس سوزوگداز نے کی ھے جس کا دعاؤ مناجات میں محل ھے اور اس طرح اس کے سننے والوںمیں دماغ کے ساتھ ساتھ دل بھی شدت سے متاثر ھوتا ھے جو غالباً دوسروں کی اصلاح کے لئے کچھ کم اھمیت نھیں رکھتا اور اسی ذیل میں اخلاق و فرائضکے تعلیمات بھی مضمر ھیں۔ جو مدرسہ اھل بیتع کے مقاصد خصوصی کی حیثیت رکھتے ھیں۔
  اس دور میں اس ذریعہ تبلیغ و تدریس کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ ممکن نہ تھا اورامام زین العابدینع نے اس ذریعہ کو اختیار کرکے ثابت کر دیا کہ یہ حضرات کسی سخت ماحول میں بھی اپنے فرائض اور اھم مقاصد کو ھرگز نظرانداز نھیں کرتے۔
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام
 آپ کا دور بھی مثل اپنے پدر بزرگوار کے وھی عبوری حیثیت رکھتا تھا جس میں شھادت حضرت امام حسینع سے پیداشدہ اثرات کی بنا پر بنی امیہ کی سلطنت کو ھچکولے پھنچتے رھتے تھے مگر تقریباً ایک صدی کی سلطنت کا استحکام ان کو سنبھال لیتا تھا بلکہ فتوحات کے اعتبار سے سلطنت کے دائرہ کو عالم اسلام میں وسیع تر کرتا جاتا تھا۔
حضرت امام محمد باقرع خود واقعہ کربلا میں موجود تھے اور گو طفولیت کا دور تھا یعنی تین چار برس کے درمیان عمر تھی مگر اس واقعہ کے اثرات اتنے شدید تھے کہ عام بشری حیثیت سے بھی کوئی بچہ ان تاثرات سے علیحدہ نھیں رہ سکتا تھا۔ چہ جائیکہ یہ نفوس جو مبداء فیض سے غیرمعمولی ادراک لے کر آئے تھے وہ اس کم عمری میں جناب سکینھع کے ساتھ ساتھ یقیناً قید وبند کی صعوبت میں بھی شریک تھے اس صورت میں انسانی و دینی جذبات کے ماتحت آپ کو بنی امیہ کے خلاف جتنی بھی برھمی ھوتی ظاھر ھے چنانچہ آپ کے بھائی زید بن علی بن الحسینع نے ایک وقت ایسا آیاکہ بنی امیہ کے مقابلے میں تلوار اٹھائی اسی طرح سادات حسنی عمیں سے متعدد حضرات وقتاً فوقتاً بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھوتے رھے حالانکہ واقعہ کربلا سے براہ راست جتنا تعلق حضرت امام محمد باقرع کو رھا تھا۔ اتنا جناب زید کو بھی نہ تھا چہ جائیکہ حسنی سادات جو نسبتاً دوسری شاخ میں تھے۔ مگر یہ آپ کا وھی جذبات سے بلند ھونا تھا کہ آپ کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی کوشش نھیں ھوئی اور آپ کبھی کسی ایسی تحریک سے وابستہ نھیں ھوئے بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دور کی حکومت کو مفادِ اسلامی کے تحفظ کے لئے اسی طرح مشورے دیئے جس طرح آپ کے جد امجد حضرت علی بن ابی طالبع اپنے دور کی حکومتوں کو دیتے رھے تھے۔ چنانچہ رومی سکوں کے بجائے اسلامی سکہ آپ ھی کے مشورہ سے رائج ھوا جس کی وجہ سے مسلمان اپنے معاشیات میں دوسروں کے دست نگر نھیں رھے۔
باوجودیکہ زمانہ آپکو والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین(ع)کے زمانہ سے بھتر ملا۔ یعنی اس وقت مسلمانوں کا خوف و دھشت اھل بیتع کے ساتھ وابستگی میں کچھ کم ھو گیا تھا اور ان میں علوم اھل بیت سے گرویدگی بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پیدا ھو گئی تھی کوئی دوسرا ھوتا تو اس علمی مرجعیت کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا مگر ایسا نھیں ھوا اور حضرت امام باقرع مسلمانوں کے درمیان ایک طرح کی مرجعیت عام حاصل ھونے کے باوجود سیاست سے کنارہ کشی میں اپنے والد بزرگوار کے قدم بہ قدم ھی رھے۔
بے شک زمانہ کی سازگاری سے آپ نے واقعہ کربلا کے تذکروں کی اشاعت میں فائدہ اٹھایا۔ اب واقعہ کربلا پر اشعار نظم کئے جانے لگے اور پڑھے جانے لگے۔ امام زین العابدین(ع) کا گریہ آپ کی ذات تک محدود تھا اور اب دوسروں کو ترغیب و تحریص بھی کی جانے لگی۔ اس کے علاوہ نشر علوم آل محمدع کے فریضہ کو کھل کر انجام دیا گیا۔ اور دنیا کے دل پر علمی جلالت کا سکہ بٹھا دیا گیا۔ یھاں تک کہ مخالفین بھی آپ کو ”باقرالعلوم“ ماننے پر مجبور ھوئے جس کا مفھوم ھی ھے ”علوم کے اسرار و رموز کو ظاھرکرنے والے“۔ اس طرح ثابت کر دیا کہ آپ اپنے کردار میں انھی علی بن ابی طالبع کے صحیح جانشین ھیں جنھوں نے پچیس برس تک سلطنت اسلامیہ کے بارے میں اپنے حق کے ھاتہ سے جانے پر صبر کرتے ھوئے صرف علوم و معارف اسلامیہ کے تحفظ کا کام انجام دیا۔ وھی ورثہ تھا جو سینہ بسینہ حضرت محمد باقرع تک پھنچا تھا۔ نہ امتداد زمانہ نےاس میں کھنگی پیدا کی تھی اور نہ اس رنگ کو مدھم بنایا تھا۔ نہ تسلسل مظالم کے اثر سے انتقامی جذبات کے غلبہ نے ان کو بنیادی مقاصد حیات سے غافل کیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام
 آپ کا دور انقلابی دور تھا۔ وہ بیج بنی امیہ سے نفرت کے جو حضرت امام حسین(ع)کی شھادت نے دل و دماغ کی زمین میں بو دیئے تھے اب پورے طور پر بارآور ھو رھے تھے۔ اموی تخت سلطنت کو زلزلہ تھا اور اموی طاقت روزبروز کمزور ھو رھی تھی اس دور میں بار بار ایسے مواقع آتے تھے جن میں کوئی جذباتی آدمی ھوتا تو فوراً ھوا کے رخ پر چلا جاتا اور انقلاب کے وقتی فوائد سے متمتع ھونے کے لئے خود بھی انقلابی جماعت کے ساتھ منسلک ھو جاتا۔ پھر جبکہ اسی ذیل میں ایسے اسباب بھی وقتاً فوقتاً پیدا ھوتے تھے۔ جو بنی امیہ کے خلاف اس کے جذبات کو مشتعل کرنے والے ھوں۔
زید بن علی بن الحسینع حضرت امام جعفر صادق کے چچا تھے خود بھی علم و ورع واتقاء میں ایک بلند شخصیت کے حامل تھے۔ یہ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھوتے ھیں اور وہ بھی حضرت امام حسین(ع)کے خون کا بدلہ لینے کے اعلان کے ساتھ۔ یہ کیا ایسا موقع نہ تھا کہ حضرت امام جعفر صادق(ع)بھی چچا کے ساتھ اس مھم میں شریک ھو جائیں۔ پھر اس کے بعد زید(ع)کا شھید کیا جانااور ان پر وہ ظلم کہ دفن کے بعد لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو قلم کرنے کے بعد جسد بے سر کو ایک عرصہ تک سولی پر چڑھائے رکھا تھا پھر آگ میں جلا دیا گیا۔ اس کے اثرات عام انسانی طبیعت میں کیا ھیجان پیدا کر سکتے ھیں؟
اور پھر عباسیوں کے ھاتہ سے انقلاب کی کامیابی اور سلطنت بنی امیہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانا۔
اس تمام دور انقلاب یں ھر دن نئے نئے محرکات اور گوناگوں نفسانی مھیجات ھیں جو ایک انسان کو متحرک بنانے کے لئے کافی ھیں خصوصاً اس لئے کہ بنی عباس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والا ابو سلمہ خلال اولاد فاطمہ زھرا(ع)کی محبت کے ساتھ اتنا مشھور تھا کہ برسراقتدار آنے کے لئے امام جعفر صادق(ع)کے پاس تحریری عرضداشت بھیجی مگر آپ نے اس سے نہ صرف یہ کہ بے اعتنائی برتی بلکہ اس کاغذ کو اس شمع کی لو کے سپرد کر دیا جو اس وقت روشن تھی۔ اور قاصد سے فرمایا کہ اس تحریر کا بس یھی جواب ھے اور پھر اسے پورے طویل دور انقلاب میں ایک دن ایسا نھیں آتا جو حضرت امام جعفر صادق(ع)میں کوئی حرکت پیدا کر سکا ھو۔ سوا علوم اھل بیت(ع)کے تحفظ و اشاعت کی اس مھم کے جس کی کھل کر ابتداء آپ کے والد ماجد نے کر دی تھی اور اب اسی کو اپنی نسبتہ طویل عمر اور اس وقت کے انقلابی حالات کے وقفہ سے فائدہ اٹھا کر پورے طور سے فروغ دینے کا موقع حضرت امام جعفر صادق(ع)کو ملا۔ جس کے نتیجہ میں مذھب اھلِ بیت(ع)عوام میں ”ملت جعفری“ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
یہ کیا تھا؟ یہ وھی جذبات سے بلند ھونے کا قطعی مشاھدہ ھے جسے ”معراج انسانیت“ کی حیثیت سے ھم ان کے تمام پیش روؤں میں دیکھتے رھے ھیں۔
بنی عباس کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد کچھ دن تو اولاد رسول(ع)کو سکون رھا مگر منصور دوانقی کے تخت سلطنت پر بیٹھتے ھی پھر فضا مکدر ھو گئی اور چونکہ یقین تھا کہ بنی امیہ کو جو ھم نے شکست دی ھے وہ اولاد فاطمہ(ع)کے ساتھ ھمدردی ھی سے فائدہ اٹھا کر۔ اس لئے یہ اندیشہ تھاکہ نہ جانے کب عوام کی آنکھیںکھل جائیں۔ اور وہ اسی طرف جھک جائیں۔ خصوصاً اس لئے کہ بنی امیہ کے زوال کے آثار واضح ھونے کے بعد جب بنی ھاشم نے مدینہ میں جمع ھو کر ایک مجلس مشاورت منعقد کی کہ انقلاب کی تکمیل کے بعد تخت سلطنت کس کے سپرد کیا جائے تو سب نے حسن مثنی فرزند امام حسن(ع)کے پوتے محمد بن عبداللہ کو اس منصب کا اھل قرار دیا تھا اورسب نے ان کے ھاتہ پر بیعت کی تھی۔ اس جلسہ میں منصور بھی موجود تھا اور اس نے بھی محمد کے ھاتہ پر بیعت کی تھی اس کے بعد سیاسی ترکیبوں سے اس کارروائی کو نسیاً منسیا کرکے بنی عباس تخت خلافت پر قابض ھو گئے اس لئے بھت بڑا کانٹا جو منصور کے دل اور آنکہ میں کھٹک رھا تھا وہ محمد بن عبداللہ کا وجود تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد خصوصیت سے اولاد امام حسن (ع)کے خلاف ظلم و تشدد شروع کر دیا گیا۔
عبداللہ بن الحسن(ع)جو عبداللہ المثنی کے نام سے مشھور تھے۔ امام زین العابدین کے بھانجے یعنی فاطمہ بنت الحسین (ع)کے صاحبزادے تھے اور محمد ان کے بیٹے جو اپنے ورع و تقویٰ کی بنا پر نفس زکیہ کے نام سے مشھور تھے جناب فاطمہ بنت الحسین(ع)کے پوتے تھے۔
  منصور نے تمام سادات حسنی کو قید کردیا اور خصوصیت سے عبداللہ المحض کو پیرانہ سالی کے عالم میں اتنے سخت شدائد و مظالم کے ساتھ قید تنھائی میں محبوس کیا کہ الحفیظ والامان۔
  ظاھر ھے کہ حضرت امام جعفر صادق (ع)قلبی طور پر ان حضرات سے غیرمتعلق نہ تھے چنانچہ یہ واقع ھے کہ جس دن اولاد حسن(ع)کو زنجیروں سے باندہ کر گردن میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پھنا کر بے کجا وہ اونٹوں پر سوار کرکے مدینہ سے نکالا گیا۔ اور یہ قافلہ اس حال میں مدینہ کی گلیوں سے گزرا تو امام جعفر صادق(ع)اس منظر کو دیکہ کر تاب ضبط نہ لا سکے اور چیخیں مار مار کر رونے لگے اور اس کے بعد ۲۰ دن تک شدت سے بیمار رھے۔ عبداللہ کے دونوں بیٹے محمد اور ابراھیم کچھ دن پھاڑوں کی گھاٹیوںمیں چھپے رھے پھر ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق ایک جماعت کو اپنے ھمراہ لے کر مقابلہ پر آماد ھوئے اس موقع پر یہ واقعہ یاد رکھنے کا ھے کہ رائے عامہ محمد کے ساتھ اس حد تک محسوس ھو رھی تھی کہ امام ابو حنیفہ اور مالک نے نفس زکیہ کی حمایت و نصرت کے لئے فتویٰ دیا۔ مگر حضرت امام جعفر صادق(ع)اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر باوجود تمام جذباتی تقاضوں کے اس مھم سے علیٰحدہ رھے۔ اور آپ نے اپنے دامن کو اس کشمکش سے بالکل ھی بچائے رکھا۔ آپ جانتے تھے کہ یہ مھم وقتی حالات کی بنا پر اضطراری فعل کے طور پر شروع کی گئی ھے جس کے پس پشت کوئی بلند مقصد نھیں ھے نہ اس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ھے لیکن میں نے اگر اس کا کسی طرح بھی ساتھ دیا تو اس تعمیری خدمت کا بھی جو میں معارف آل رسول کی اشاعت کے طور پر انجام دے رھا ھوں دروازہ مسدود ھو جائے گا۔
یہ بے پناہ ضبط و صبر وھی ھے جو ان کے آباؤ اجداد میں نظر آتا رھا تھا اور وہ عام انسانوں کے بس کی بات نھیں ھے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
 آپ کے زمانہ میں سیاست کا شکنجہ پھر سخت ھو گیااب نہ تعلیم و تدریس کی وہ آزادی رھی نہ تبلیغ و اشاعت کے مواقع باقی رہ گئے۔ حکومت وقت برابر آپ سے برسر پرخاش رھی یھاں تک کہ آخر عمر کے کئی سال تمام وکمال قید خانہ میں گزر گئے مگر آپ کی بلند سیرت کی روشنی اتنی تیز تھی کہ قید خانہ کی اونچی اور سنگین دیواریں اس کے لئے ایک نازک و باریک پردہ سے زیادہ نہ تھیں جس کے اندر سے اس کی شعائیں چھن کر باھر نکلتی رھیں۔ یھاں تک کہ چودہ صدیاں پار کرکے ھم تک بھی پھنچ سکی ھیں۔ چنانچہ اسی سیرت کی بلندی کا نتیجہ یہ تھا کہ حکومت وقت کے مقررکردہ قیدخانوں کے افسر آپ کی نیکوکاری کے سامنے ھتھیار ڈال دیتے تھے اورآپ کے ساتھ سختی کرنے سے معذور رھتے تھے جس کے نتیجہ میں بار بار نگرانوں کے بدلنے کی ضرورت ھوتی تھی۔ چنانچہ پھلے آپکو بصرہ میں عیسیٰ بن جعفر بن منصور کی نگرانی میں رکھا گیا۔ اس ھدایت کے ساتھ کہ ان کو قید تنھائی میں رکھو اور کچھدن کے بعد حکم دیا کہ انھیں قتل کر دو۔ وہ خلیفہ وقت کا چچازاد بھائی تھا مگر اس کے دل پر امام موسیٰ کاظمع کے حسن کردار کا اثر پڑ گیا تھا۔ اس نے لکھا کہ میں نے ان کے حالات کی خوب جانچ کی ھے وہ تو ھمیشہ دن کو روزہ رکھتے ھیں اور شب و روز عبادت میں مصروف رھتے ھیں تنھائی کے عالم میں بھی ھم میں سے کسی کے لئے کبھی بددعا نھیں کرتے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ھیں کہ تونے مجھے اپنی عبادت کے لئے یہ تنھائی کی جگہ عطا فرمائی۔ ایسے خداترس اور عبادت گزار کی جان لینا میرے بس کی بات نھیں ھے۔
جب اس نے انکار کیا تو آپ کو بصرہ سے بلوا کر بغداد میں فضل بن ربیع کے سپرد کیا گیا۔ مگر فضل پر بھی آپ کے کردار کے مشاھدہ کا خاص اثر پڑا۔ آخر فضل بن ربیع کو بھی اس صورت سے برطرف کیا گیا۔ یحییٰ برمکی کو براہ راست نگران بنا دیا گیا اور اس سے بھی پھر غیرمطمئن ھو کر سندی بن شاھک کو مقرر کیا گیا۔ یہ ایسا قسی القلب اور سفاک تھا کہ اس نے زھر دغا دے کر امامع کی زندگی کا خاتمہ کیا۔
زندگی میں قید خانہ میں محبوس رکھے گئے اور پھر قبر کے اندر مدفون ھو گئے مگر ان کے اوصاف و کمالات، زھد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت ھی نھیں بلکہ ان کے زبان و قلم سے نکلے ھوئے بھت سے ارشادات و تعلیمات اور شریعت نبوی کے احکام اب تک کتابوں کے صفحات پر موجود ھیں جو بتا رھے ھیں کہ وہ اسی سلسلہ کی ایک فرد تھے جس میں سے ھر ایک اپنے دور کے حالات کے مطابق کاروان بشر کو منزل کمال انسانیت تک پھنچانے کے لئے رھنمائی کا فرض انجام دیتا رھا۔ اور اپنے کردار کی رفعت سے ”معراج انسانیت“ کی نشان دھی کرتا رھا۔
امام رضا علیہ السلام
 آپ کو جس خاص صورت حال سے دوچار ھونا پڑا وہ آپ کے زمانہ کے عباسی خلیفہ مامون کا قبول ولی عھدی کے لئے آپ کو مجبور کرنا تھا بالکل اسی طرح جیسے آپ کے مورث اعلیٰ حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ(ع) کے سامنے چوتھے نمبر پر حکومت پیش کی گئی ظاھر ھے کہ یہ وہ امامت نہ تھی جو منجانب اللہ آپ کو حاصل تھی اسے دنیا نے تسلیم نھیں کیا تھا بلکہ وھی اپنے نقطہ نظر والی جمھوری خلافت تھی جس کی پیشکش آپ کے سامنے کی گئی تھی اور اسی لئے آپ نے اس سے شدید انکار فرمایا مگر جب لوگوں کا اصرار قیام حجت کے قریب پھنچ گیا تو چونکہ ایک داعی حق کو جس عنوان سے سھی ایک موقع اگر خلق خدا کی اصلاح کا مل جائے چاھے وہ کسی لباس میں ھو، اسے نظرانداز نھیں کرنا چاھئے۔ اب آپ نے ان کے اصرار کو قبول فرما لیا۔ اسی طرح اب امام رضا کے سامنے مامون اقتدار کی پیشکش کر رھا تھا۔ مورخین متفق ھیں کہ آپ نے انکار فرمایا۔ کثرت سے گفتگوئیں ھوئیں اور مامون نے بار بار اصرار کیا اور آپ ھر مرتبہ انکار فرماتے تھے۔ اور آپ کا ارشاد تھا کہ میں اللہ کی بندگی ھی کو بس اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ھوں اور اقتدار دنیا سے تو کنارہ کشی ھی کرکے بارگاہ الٰھی میں بلندی کی امید رکھتا ھوں اور جب وہ اصرار کرتا تھا تو آپ کھتے تھے: اَللّٰھُمَّ لَا عَھَدَ اِلَّا عَھْدِکَ وَ لا وِلاٴیہ اِِلَّا مِنْ قَبْلِکَ فَوَفْقنِیْ الِاقامَةِ دِیْنکَ واحیّآءِ سُنَّتِہ نبِیّکَ نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نعْمَ النَّصِیْر۔
  ”پروردگار! عھدہ تو وھی عھدہ جو تیری طرف سے ھے اور حکومت وھی حکومت ھے جو تیری جانب سے ھے ھاں مجھے توفیق عطا فرما کہ تیرے دین کے شعائر کو قائم کروں اور تیرے رسول کی سنت کو زندہ کروں۔ تو بھترین مالک اور بھترین مددگار ھے۔“
اس میں ایک طرف صحیح اسلامی نظریہ حکومت کی تبلیغ ھو رھی تھی جس سے آپ کے انکار کا پس منظر واضح طور پر نمایاں ھو رھا تھا اور دوسری طرف اقامت دین اور احیائے سنت کے لئے اپنے جذبہ بے قرار کا مظاھرہ تھا جو بعد از اصرار بسیار ولی عھدی کے قبول کرنے کے پس منظر کی ترجمانی کر رھا ھے۔
پھر آپ نے جب ولی عھدی قبول کی تو یہ شرط کر لی کہ میں حکام کے غرل و نصب کا ذمہ دار نہ ھوں گا نہ امور سلطنت میں کوئی دخل دوں گا۔ ھاں جس معاملہ میں مشورہ لیا جائے گا کتاب خدا و سنت رسول کے مطابق مشورہ دے دیا کروں گا یہ وہ کام تھا جو آپ کے جد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب(ع) خلفائے ثلٰثہ کے دور میں بغیر کسی عھدہ و منصب کے انجام دیتے تھے اب وھی حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع) ولی عھدی کے نام کے بعد انجام دیں گے۔
معلوم ھوتا ھے کہ شخصیت ایک ھی ھے صرف زمانہ کا فرق ھے اور سامنے کی حکومت کے رویہ کا فرق ھے کہ پھلے دور والوں نے کسی عھدہ کی پیشکش جناب امیر کے لئے اپنے سیاسی مفاد کے خلاف سمجھی اور اب عھدہ کی پیشکش اپنے سیاسی مصالح کے لئے مناسب سمجھی جا رھی ھے معلوم ھوتا ھے کہ جو اختلاف ھے وہ سلطنت وقت کے رویہ میں ھے مگر رھنمائے دین کے موقف میں کوئی فرق نھیں ھے اقبال کے لفظوں میں کہ لیجئے کھ:
حقیقتِ ابدی ھے مقام شبیری،
بدلتے رھتے ھیں اندازِ کوفی و شامی
 پھر ولی عھدی کے بعد آپ نے اپنی سیرت بھی وھی رکھی جو شھنشاہ اسلام ما نے جانے کے بعد حضرت علی بن ابی طالب(ع) کی سیرت رھی۔ آپ نے اپنے دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نھیںکئے۔ بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ھوا کرتا تھا کھانا سامنے لایا جاتا تھا تو دربان، سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔
پھر اسی عباسی سلطنت کے ماحول کو پیش نظر رکہ کر جھاں صرف قرابت رسول کی بنا پر اپنے کو خلق خدا پر حکمرانی کا حقدار بنایا جاتا تھا اور کبھی اپنے اعمال و افعال پر نظر نہ کی جاتی تھی آپ اپنے اوپر رکہ کر برابر اس کا اعلان فرماتے تھے کہ قرابت رسول کوئی چیز نھیں ھے جب تک کردار انسان کا ویسا نہ ھو جو خدا کے نزدیک معیار بزرگی ھے چنانچہ جب ایک شخص نے حضرت سے کھا کھ: خدا کی قسم آباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نھیں۔ حضرت نے فرمایا: ”میرے آباؤاجداد کو جو شرف حاصل ھوا وہ بھی صرف تقویٰ اور اطاعت خدا سے۔“ ایک دوسرے موقع پر ایک شخص نے کھا کہ ”واللہ آپ بھترین خلق ھیں۔“ حضرت نے فرمایا۔ ”اے شخص بے سمجھے قسم نہ کھا جس کا تقویٰ مجھ سے زیادہ ھو وہ مجھ سے افضل ھے۔“
ابراھیم بن عباس کا بیان ھے کہ حضرت فرماتے ھیں: میرے تمام غلام لونڈی آزاد ھو جائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ھو کہ میں اپنے کو محض رسول اللہ سے قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افضل نھیں جانتا (اشارہ فرمایا اپنے ایک غلام کی جانب) ھاں جب عمل خیر بجا لاؤں تو اللہ کے نزدیک اس سے افضل ھوں گا۔
یہ حقیقت میں تقریباً ایک صدی کی پیدا کی ھوئی عباسی سلطنت کی ذھنت کے خلاف اسلامی نظریہ کا اعلان تھا اور وہ اب اس حیثیت سے بڑا اھم ھو گیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ھو رھا تھا۔
معلوم ھوتا ھے کہ یہ وہ ھیں جن پر ماحول کا اثر نھیں پڑتا بلکہ وہ ھر ماحول میں کسی نہ کسی طرح اپنے فرض کو انجام دیتے رھتے ھیں جو انسانیت کی عملی معراج ھے۔


امام محمد تقی علی السلام
 آپ پانچویں برس میں تھے جب آپ کے والد بزرگوار امام رضا(ع) سلطنت عباسیہ کے ولی عھد ھو گئے اس کے معنی یہ ھیں کہ سن تمیز پر پھنچنے کے بعد ھی آپ نے آنکہ کھول کر وہ ماحول دیکھا جس میں اگر چاھا جاتا تو عیش و آرام میں کوئی کمی نہ رھتی مال و دولت قدموں سے لگا ھوا تھا اور تزک و احتشام آنکھوں کے سامنے تھا پھر باپ سے جدائی بھی تھی کیونکہ امام رضا(ع) خراسان میں تھے اور متعلقین تمام مدینہ منورہ میں تھے۔ اور پھر آپ کو آٹھواں ھی برس تھا کہ امام رضا(ع) نے دنیا ھی سے مفارقت فرمائی۔
یہ وہ منزل ھے کہ جھاں ھمارے تاریخی کارخانہ تحلیل و توجیھہ کی تمام دوربینیں بیکار ھو جاتی ھیں۔ کسی دنیوی مکتب اور درسگاہ میں تو نہ ان کے آباؤاجداد کبھی گئے نہ یہ جاتے نظر آتے ھیں۔ ھاں ایک معصوم کے لئے معصوم بزرگوں کی تعلیم و تربیت ناقابل انکار ھے مگر یھاں معصوم باپ سے چار پانچ برس کی عمر میں جدائی ھو گئی۔ ایک توارثِ صفات رہ جاتا ھے مگر ھر ایک جانتا ھے کہ اس سے صلاحیت کا حصول ھوتا ھے۔ فعلیت کے لئے پھر اسباب ظاھری کی ضرورت ھے۔ مگر یہ تاریخی واقعہ ھے کہ امام محمد تقی(ع) نے بچپن کی جتنی منزلیں اس کے بعد طے کیں وہ ابھی شباب کی سرحد تک بھی نہ تھیں کہ آپ کی سیرت بلند کی مثالیں اور علمی کمال کی تجلیاں دنیا کی آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ یھاں تک کہ امام رضا(ع) کی وفات کے بعد ھی شاھی دربار میں اکابر علمائے وقت سے مباحثہ ھوا تو سب کو آپ کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
اب یہ واقعہ کوئی صرف اعتقادی چیز بھی نھیں ھے بلکہ مسلم الثبوت طور پر تاریخ کا ایک جز ھے یھاں تک کہ اس مناظرہ کے بعد اسی محفل میں مامون نے اپنی لڑکی ام الفضل کو آپ کے حبالہ عقد میں دیا۔
یہ سیاست مملکت کا ایک نئی قسم کا سنھرا جال تھا جس میں امام محمد تقی(ع) کی کمسنی کو دیکھتے ھوئے خلیفہ وقت کو کامیابی کی پوری توقع ھو سکتی تھی۔
جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ ”نویں امام“ (شائع کردہ امامیہ مشن) میں لکھا ھے۔
”بنی امیہ کے بادشاھوں کو آلِ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا جتنا ان کے صفات سے۔ وہ ھمیشہ اس کے درپے رھتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ھے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلہ میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ھوا ھے یہ کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے وہ گھبرا گھبرا کر مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ امام حسین(ع) سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام رضا(ع) کو ولی عھد بنانا اسی کا دوسرا طریقھ۔
فقط ظاھری شکل میں ایک کا انداز معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادت مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں باتوں کی ایک تھی۔ جس طرح امام حسین(ع) نے بعیت نہ کی تو وہ شھید کر ڈالے گئے اسی طرح امام رضا(ع) ولی عھد ھونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ نہ چل سکے تو آپ کی شمع حیات کو زھر کے ذریعہ سے ھمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔
اب مامون کے نقطھٴ نظر سے یہ موقع انتھائی قیمتی تھا کہ امام رضا(ع) کا جانشین آٹہ نو برس کا ایک بچہ ھے جو تین چاربرس پھلے ھی باپ سے چھڑا لیا جا چکا تھا۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجہ بوجہ کھہ رھی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقہ پر لانا نھایت آسان ھے اور اس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتھائی خطرناک، قائم ھے ھمیشہ کے لئے ختم ھو جائے گا۔
مامون امام رضا(ع) کی ولی عھدی کی مھم میں اپنی ناکامی کومایوسی کا سبب تصور نھیں کرتا تھا اس لئے کہ امام رضا(ع) کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی اس میں تبدیلی نھیں ھوئی تو یہ ضروری نھیں کہ امام محمد تقی(ع) آٹہ برس کے سن میں خاندان شھنشاھی کا جز بنا لئے جائیں تو وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر برقرار رھیں۔
سوا ان لوگوں کے جو ان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے اس وقت کا ھر شخص یقیناً مامون کا ھم خیال ھو گا۔ مگر حضرت امام محمد تقی(ع) نے اپے کردار سے ثابت کر دیا کہ جو ھستیاں عا م جذبات کی سطح سے بالاتر ھیں اور یہ بھی اسی قدرتی سانچے میں ڈھلے ھوئے ھیں جن کے افراد ھمیشہ معراج انسانیت کی نشاندھی کرتے آئے ھیں آپ نے شادی کے بعد محل شاھی میں قیام سے انکار فرمایا اور بغداد میں جب تک قیام رھا آپ ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام پذیر ھوئے او رپھر ایک سال کے بعد ھی مامون سے حجاز واپس لے جانے کی اجازت لے لی۔ اور مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت کا کاشانہ گھرکی ملکہ کے دنیوی شاھزادی ھونے کے باوجود بیت الشرف امامت ھی رھا۔ قصر دنیا نہ بن سکا۔ ڈیوڑھی کا وھی انداز رھا جو اس کے پھلے تھا۔ نہ پھرے دار اورنہ کوئی خاص روک ٹوک۔ نہ تزک نہ احتشام۔ نہ اوقات ملاقات کی حدبندی۔ نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی فرق۔ زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رھتی تھی جھاں مسلمان حضرت کے وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ راویان حدیث احادیت دریافت کرتے تھے۔ طلاب علمی مسائل پوچھتے تھے اور علمی مشکلات کو حل کرتے تھے۔ چنانچہ شاھی سیاست کی شکست کا نتیجہ یہ تھا کہ آخر آپ کا بھی زھر سے اسی طرح خاتمہ کیا گیا جس طرح آپ کے بزرگوں کا اس سے پھلے کیا جاتا رھا تھا۔
امام علی نقی(ع)
 آپ کی زندگی میں بھی وھی خصوصیتیں موجود ھیں جو آپ کے آباؤ اجداد میں تھیں۔
آپ کو متوکل نے مدینہ سے بلوا کر سامرے میں نظربند کیا اور متعدد اشخاص کی نگرانی آپ پر قائم کی۔ مگر آپ کے اخلاق حمیدہ نے ھر ایک کو متاثر کیا۔ آپ کی خاموش زندگی صحیح اسلامی سیرت کی عملی مثال تھی اور ھمیشہ اس مشن کی جو تبلیغ دین و شریعت کا تھا حفاظت کرتے رھے۔ ایسے موقعوں پر جب جذباتی انسان یا تو مرعوب ھو کر دوسرے کا ھم رنگ ھو جائے یا مشتعل ھو کر مرنے مارنے پر تیار ھو جائے یہ ضبط نفس معراج انسانیت کا نمونہ تھا کہ نہ اپنے جاوہ عمل کو چھوڑا جاتا تھا اور نہ تصادم کی صورت پیدا کی جاتی تھی۔
متوکل کا دربار جھاں شراب کا دور چل رھا تھا۔ اس میں امام(ع) کی طلبی اور جام شراب کا پیش کیاجانا اور آپ کے انکار پر یہ فرمائش کہ کچھ اشعار ھی سنائیے اور آپ کا اس موقع سے وعظ کے لئے گنجائش نکالنا اور بے اعتباری دنیا اور محاسبہ نفس کی دعوت پر مشتمل وہ اشعار پڑھنا جنھوں نے اس محفل عیش کو مجلس وعظ میں تبدیل کرکے وہ اثر پیدا کیا کہ حاضرین زاروقطار رونے لگے اور بادشاہ بھی چیخیں مار مار کر گریہ کرنے لگا۔ یہ انھی حضرت زین العابدین﷼ کے وارث کا کام ھو سکتا تھا جنھوں نے دربار ابن زیاد و یزید میں اظھار حقائق کے کسی موقع کو کبھی نظرانداز نھیں کیا۔
قید کے زمانہ میں آپ جھاں بھی رھے آپ کے مصلے کے سامنے ایک قبر کھدی ھوئی تیار رھتی تھی۔ یہ ظالم طاقت کو اس کے باطل مطالبہ اطاعت کا ایک خاموش اور عملی جواب تھا یعنی زیادہ سے زیادہ تمھارے ھاتہ میں جو ھے وہ جان کا لے لینا مگر جو موت کے لئے اتنا تیار ھو وہ ظالم حکومت سے ڈر کر باطل کے سامنے سر کیوں خم کرنے لگا۔
پھر بھی مثل اپنے بزرگوں کے حکومت کے خلاف کسی سازش وغیرہ سے آپ کا دامن ایسا بری رھا کہ باوجود دارالسلطنت کے اندر مستقل قیام اور حکومت کے سخت ترین جاسوسی نظام کے آپ کے خلاف کوئی الزام کبھی عائد نھیں کیا جا سکا۔ حالانکہ عباسی سلطنت اب کمزور ھو چکی تھی اور وہ دم توڑنے کے قریب تھی مگر آل محمد نے ان حکومتوں کو ھمیشہ اپنی موت مرنے کے لئے چھوڑا۔ ان کے خلاف کبھی کسی اقدام کی ضرورت محسوس نھیں فرمائی۔


امام حسن عسکری علیہ السلام
آپ کے دور حیات کا اکثر حصہ عباسی دارالسلطنت سامرا میں نظربندی یا قید کی حالت میں گزرا مگر اس حالت میں آپ کی بلندکرداری اور سیرت بلند کے مظاھرات سے جو اثر پڑا اس کا تجزیہ مولانا سید ابن حسن صاحب جارچوی نے بھت اچھے الفاظ میں کیا ھے۔
ھزاروں رومی اور ترکی غلام جو آھستہ آھستہ دربار خلافت میں رسوخ پا رھے تھے اور اپنی ان رشتہ دار عورتوں کی مدد سے جو بادشاہ کے حرم میں دخیل تھیں اعلیٰ عھدوں اور منصوبوں پر فائز ھوتے جا رھے تھے۔ خلیفہ کی اخلاقی کمزوریوں کو دیکہ کر بالکل اسلام سے بیگانہ اور دین سے متنفر ھو جاتے مگر ان ائمھع دین نے جو خلیفہ کی بدکرداریوں کے مقابلہ میں ایک اعلیٰ درجہ کی سیرت پیش کرتے تھے اسلام کا بھرم رکہ لیا۔ اور مسلم معاشرے کو بالکل برباد ھونے سے بچا لیا۔ جب عامة الناس آل رسول کے ان بھترین عمائد کو دیکھتے اور سیرت و کردار کے ان اعلیٰ نمونوں پر نگاہ ڈالتے تو ان کو یقین آ جاتا کہ دین اسلام کچھ اور چیز ھے اور اس کا نام لے کر ملکوں پر حکمرانی کرنا کچھ اور شے ھے…دارالحکومت اور شاھی دربار کے قرب میں ائمہ(ع) دین کی موجودگی نے اسلام کو ایک بڑے انقلاب سے بچا لیا۔ بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آ کر لوگوں نے اقربائے نبی کے دامن میں پناہ لی تھی اور سمجھتے تھے کہ اب ھم اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس اور اس کے احکام پر عمل پیرا ھوں گے جب عباسیوں کی آمد بھی دینی اور معاشرتی گتھیوں کو نہ سلجھا سکی تو فطری طور پر لوگوں کو یہ احساس پیدا ھو چلا کہ اسلام ھی امن پذیر معاشرہ پیدا کرنے سے قاصر ھے مگر ائمہ اھل بیت(ع) کے وجود نے مسلمانوں کو مطمئن کر دیا کہ اسلام کے صحیح مبلغ ابھی تک برسراقتدار نھیں آئے اور ان کو اصلاح امت، تشکیل سیرت و تعمیر اخلاق کا موقع نھیں ملا۔ اس لئے ملک کی بدحالی اور تباھی کا ذمہ دار اسلام نھیں ھے بلکہ وہ قابویافتہ جماعت ھے جو اسلام کا نام لے کر دنیا کے سر پر سوار ھو گئی ھے۔ (تذکرہ محمد و آل محمد جلد ۳)۔
باوجود یہ کہ اپنے دور امامت میں آپ کی تقریباً پوری زندگی قید و بند میں رھی پھر بھی اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین(ع) اور دیگر اسلاف کی سیرت کے مطابق جب اسلام کو آپکی مدد کی ضرورت پڑی تو ظالم حکومت کے بڑھائے ھوئے فریاد کے ھاتہ کو کبھی ناکام واپس جانے نہ دیا۔ چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک عیسائی راھب نے بارش کراکے اپنی روحانیت کے مظاھرہ سے دارالسلطنت عباسیہ کے بھت سے مسلمانوں کے ارتداد کے آثار پیدا کر دیئے تو اس وقت امام حسن عسکری(ع) تھے جنھوں نے اس کے طلسم کو شکستہ کرکے مسلمانوں کی استقامت کا سامان بھم پھنچایا۔
اس کے علاوہ آپ نے سچے پرستارانِ دین کی دینی تعلیم و تربیت کے فریضہ کو نظرانداز نھیں کیا۔ اس کے لئے اپنی طرف سے سفراء مقرر کئے جو اپنی بصیرت علمی کی حد بھر خود مسائل شرعیہ کا جواب دیتے تھے اور جن مسائل میں امام(ع) سے دریافت کرنے کی ضرورت ھوتی تھی ان کا خود مناسب موقع پر امام(ع) سے جواب حاصل کرکے سائل کی تشفی کر دیتے تھے۔ انھی کے ذریعہ سے اموالِ خمس کی جمع آوری ھوتی تھی اور وہ تنظیم سادات اور دیگر دینی مھمات پر صرف ھوتا تھا۔ اس طرح سلطنت دینوی کے متوازی حکومت دینی کا پورا ادارہ کامیابی کے ساتھ چل رھا تھا۔
پھر آپ نے قید و بند کے اسی شکنجہ میں جو وقتاً فوقتاً رھا کیا معارف اسلامی کی خدمت بھی جاری رکھی۔ چنانچہ بعض آپ کے احادیث شیعہ جوامع حدیث میں درج ھیں اور بعض کتب اھل سنت میں بھی درج ھیں۔ تفصیل کے لئے ھمارا رسالہ ”حسن عسکری(ع)“ دیکھئے جو امامیہ مشن سے شائع ھوا ھے۔ اسی طرح آپ کے تلامذہ نے بھی آپ کے افاداتِ علمی مرتب کئے ھیں ان کا تذکرہ بھی مذکورہ رسالہ میں ملاحظہ ھو۔
امام منتظر عجّل اللہ فرجہ الشر یف
   یہ سلسلھٴ آل محمد کی آخری کڑی خود مادی نگاھوں سے اوجھل ھے پھر اس کی سیرت زندگی کا اس زمانہ کی مادی ذھنیت والے کو اندازہ ھی کیونکر ھو سکتا ھے؟
  بے شک ھم قطعی دلائل کی بنا پر چونکہ آپ کے وجود اور غیبت کو تسلیم کرنے پر مجبور ھیں اور آپ کو انھی مقاصد کا محافظ جانتے ھیں جن کے آپ کے اسلاف کرام ھمیشہ محافظ رھے اس لئے ھم یقین رکھتے ھیں کہ آپ پردہ غیب میں بھی ان فرائض کو انجام دے رھے ھیں جو بحیثیت منصب آپ کے ذمہ ھیں۔
اس سلسلہ میں آپ کے عمل کو اپنے آبائے طاھرین علیھم السلام کی زندگی کے ساتہ جو مماثلت ھے اس پر ھم نے اپنے رسالہ ”وجود حجت“ (شائع کردہ امامیہ مشن لکھنوٴ) میں کافی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ھے جس کا ھر شخص مطالعہ کر سکتا ھے۔ والّسلام!
علی نقی النقوی۔ ۶ رجب ۱۳۷۶ ہ (لکھنوٴ)
   

Add comment


Security code
Refresh