www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سیرتِ حضرت خاتم الانبیاء کی روشنی میں
 آپ چالیس برس کی عمر میں مبعوث برسالت ھوئے۔ ۱۳ سال ھجرت کے قبل مکہ کی زندگی ھے اور دس سال بعد ھجرت مدینہ کی زندگی۔
یہ تینوں دور بالکل الگ الگ کیفیت رکھتے ھیں جن میں سے ھر دور بالکل یک رنگ ھے۔ کسی تلون اور غیرمستقل مزاجی کا مظھر نھیں ھے مگر وہ سب دور آپس میں بھت مختلف ھیں۔
پھلے چالیس برس کی مدت میں زبان بالکل خاموش اور صرف کردار کے جوھر نمایاں یھی آپ کی سچائی کا ایک نفسیاتی ثبوت ھے۔ کیونکہ جو غلط دعویدار ھوتے ھیں ان کے بیانات و اظھارات کی رفتار کو دیکھاجائے تو محسوس ھو گا کہ وھاں پھلے ان کے دل و دماغ میں تصور آتا ھے کہ ھمیں کوئی دعویٰ کرنا چاھئے مگر انھیں ھمت نھیں ھوتی اس لئے وہ کچھ مشتبہ الفاظ کھتے ھیں جن سے کبھی سننے والوں کو وحشت ھوتی ھے اور کبھی اطمینان پھر وہ رفتہ رفتہ قدم آگے بڑھاتے ھیں پھلے کوئی ایسا دعویٰ کرتے ھیں جس کو تاویلات کا لباس پھنا کر رائے عامہ کے مطابق بنایا جا سکے یا جس کی حقیقت کو صرف خاص خاص لوگ سمجھ سکیں۔ اور عام افراد محسوس نہ کریں۔ جب جھجھک نکل جاتی ھے تو پھر جی کڑا کرکے کھل کر دعویٰ کر دیتے ھیں۔ اس کی قریبی مثالیں علی محمد باب اور غلام احمد قادیانی میں بھت آسانی سے تلاش کی جا سکتی ھیں۔
حضرت پیغمبر اسلام کی زبان سے چالیس برس تک کوئی لفظ ایسی نھیں نکلی جس سے لوگ ادعائے رسالت کا توھم بھی کر سکتے یا کوئی بے چینی اس حلقہ میں پیدا ھوتی۔ غلط سے غلط روایت بھی ایسی نھیں جو بتائے کہ کفار نے کسی آپ کی لفظ سے ایسے دعویٰ کا احساس کیا ھو جس پر ان میں کوئی برھمی پیدا ھوئی ھو اور پھر آپ کو اس کے متعلق صفائی پیش کرنے کی ضرورت ھوئی ھو۔ بلکہ اس دور میں آپ کا کام صرف اپنی سیرتِ بلند کی عملی تصویر دکھانا تھی جس نے ایک مقناطیسی جذب کے ساتہ دلوں کو تسیخر کر لیا تھا اور آپ کی ھردلعزیزی ھمہ گیر حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے بعد چالیس برس کی عمر میں جب دعوائے رسالت کیا تو وہ بالکل وھی تھا جو آخر تک آپ کا دعویٰ رھا۔ یہ نھیں ھوا کہ پھلے اس دعویٰ میں خفت ھو، پھر شدت پیدا ھو۔ یا پھلے دعویٰ کچھ ھو اور پھر رفتہ رفتہ اس میں ترقی ھوئی ھو۔
اب اس دعویٰ رسالت کے بعد آپ کو کتنے مصائب و تکالیف برداشت کرنا پڑے وہ سب کو معلوم ھیں۔ یہ پرآشوب دور وہ تھا کہ جب سر مبارک پر خس و خاشاک پھینکا جاتا تھا، جسم اقدس پر پتھروں کی بارش ھوتی تھی۔ تیرہ برس اس طرح گزرتے ھیں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نھیں ھوتا کہ ان کا ھاتہ تلوار کی طرف چلا جائے اور ارادہ جھاد کا کیا جائے۔
اگر کوئی رسول کی زندگی کے صرف اس دور ھی کو دیکھے تو یقین کرے گا کہ جیسے آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ھیں یہ مسلک اتنا مستقل ھے کہ کوئی ایذارسائی، کوئی دل آزاری اور کوئی طعن و تشنیع آپ کو اس راستے سے نھیں ھٹا سکتی۔ پھلے چالیس برس ھی کی طرح اب یہ رنگ اتنا گھرا اور یہ مسلک اتنا راسخ ھے کہ اس کے درمیان کوئی ایک واقعہ بھی اس کے خلاف نمودار نھیں ھوتا۔ کوئی بے بس اور بے کس بھی ھو تو کسی وقت تو اسے جوش آھی جاتا ھے اور وہ جان دینے اور جان لینے کے لئے تیار ھو جاتا ھے پھر چاھے اسے اور زیادہ ھی مصائب کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں مگر ایک دو برس نھیں تیرہ سال مسلسل اس غیرمتزلزل صبر و سکون کے ساتہ وھی گزار سکتا ھے جس کے سینہ میں وہ دل اور دل میں وہ جذبات ھی نہ ھوں جو جنگ پر آمادہ کر سکتے ھیں۔
اسی درمیان میں وہ وقت آتا ھے کہ مشرکین آپ کے چراغ زندگی کے خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیتے ھیں اور ایک رات طے ھو جاتی ھے کہ اس رات سب مل کر آپ کو شھید کر ڈالیں۔ اس وقت بھی رسول تلوار نیام سے باھر نھیں لاتے۔ کسی مقاومت کے لئے کھڑے نھیں ھوتے بلکہ بحکمِ خدا شھر چھوڑ دیتے ھیں۔ جو معرفت محمد نہ رکھتا ھو وہ اس ھٹنے کو کیا سمجھے گا؟ یھی تو کہ جان کے خوف سے شھر چھوڑ دیا۔ اور پھر حقیقت بھی یہ ھے کہ جان کے تحفظ کے لئے یہ انتظام تھا مگر فقط جان نھیں بلکہ جان کے ساتہ ان مقاصد کا تحفظ جو جان کے ساتہ وابستہ تھے بھرحال اس اقدام یعنی ترک وطن کو کوئی کسی لفظ سے تعبیر کرے مگر اسے دنیا مظھر شجاعت تو نھیں سمجھے گی اور صرف اس عمل کو دیکہ کر اگر اس ذات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرے گا تو وہ حقیقت کے مطابق نھیں ھو سکتی بلکہ گمراھی کا ثبوت ھو گی۔
اب ترپن برس کی عمر ھے اور آگے بڑھاپے کے بڑھتے ھوئے قدم ھیں بچپنا اور جوانی کا اکثر حصہ خاموشی میں گزرا ھے پھر جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر کی منزلیں پتھر کھاتے اور برداشت کرتے گزر رھی ھیں اور آخر میں اب جان کے تحفظ کے لئے شھر چھوڑ دیا ھے بھلا کسے تصور ھو سکتا ھے کہ جو ایک وقت میں عافیت پسندی سے کام لیتے ھوئے شھر چھوڑ دے وہ عنقریب فوجوں کی قیادت کرتا ھوا نظرآئے گا حالانکہ مکہ ھی نھیں بلکہ مدینہ میں آنے کے بعد بھی آپ نے جنگ کی کوئی تیاری نھیں کی۔ اس کا ثبوت یہ ھے کہ ایک سال کی مدت کے بعد جب دشمنوں کے مقابلہ کی نوبت آئی تو آپ کی جماعت میں جو کل جمع ۳۱۳ آدمیوں پر مشتمل تھی صرف ۱۳ عد تلواریں تھیں اور دو گھوڑے تھے۔ ظاھر ھے کہ ایک سال کی تیاری کا نتیجہ یہ نھیں ھو سکتا تھا۔ جبکہ اس ایک سال میں تعمیری خدمات بھت سے انجام پا گئے۔ مدینہ میں کئی مسجدیں بن گئیں مھاجرین کے قیام کے لئے مکانات تیار ھو گئے۔ بھت سے دیوانی و فوجداری کے قوانین نافذ ھوگئے اور اس طرح جماعت کی مملکتی تنظیم ھو گئی مگر جنگ کا کوئی سامان فراھم نھیں ھوا۔ اس سے بھی پتا چل رھا ھے کہ آپ کی طرف سے جنگ کا کوئی سوال نھیں ھے مگر جب مشرکین کی طرف سے جارحانہ اقدام ھو گیا تو اس کے بعد بدر ھے، احد ھے، خندق ھے، خیبر ھے اور حنین ھے۔ پھر یہ نھیں کہ اپنے گھر میں بیٹہ کر فوجیں بھیجی جائیں اور فتوحات کا سھرا اپنے سر باندھا جائے بلکہ رسول خدا کا کردار یہ ھے کہ چھوٹے اور غیراھم معرکوں میں تو کسی کو سردار بنا کر بھیج دیا ھے مگر ھر اھم اور خطرناک موقع پر فوج کے سردار خود ھوتے ھیں اور یہ نھیں کہ اصحاب کو سپر بنائے ھوئے ان کے حصار میں ھوں۔ بلکہ اسلام کے سب سے بڑے سپاھی حضرت علیع بن ابی طالبع کی گواھی ھے کہ جب جنگ کا ھنگامہ انتھائی شدت پر ھوتا تھا تو ھمیشہ رسول اللہ ھم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ھوتے تھے پھر یہ بھی نھیں کہ یہ قیام فوج کے سھارے پر ھو بلکہ احد میں یہ موقع بھی آ گیا کہ سوا دو ایک کے باقی سب مسلمانوں سے میدان جنگ خالی ھو گیا۔ مگر اس وقت وہ جو کچھ پھلے ظاھر جان کے تحفظ کے لئے شھر چھوڑ چکا تھا وہ اس وقت خطرہ کی اتنی شدت کے ھنگا م میں جب آس پاس کوئی بھی سھارا دینے والا نظر نھیں آتا اپنے موقف سے ایک گام بھی پیچھے نھیں ھٹتا۔ زخی ھو جاتے ھیں، چھرہ خون سے تر ھو جاتا ھے خود کی کڑیاں ٹوٹ کر سر کے اندر پیوست ھو جاتی ھیں۔ دندان مبارک مجروح ھو جاتے ھیں۔ مگر اپنی جگہ سے قدم نھیں ھٹاتے۔
اب کیا عقل و انصاف کی رو سے مکہ سے ھجرت کو خوف جان سے اس معنی میں سمجھا جا سکتا ھے جس سے شجاعت پر دھبہ آ ٓئے؟ ھرگز نھیں۔ یھی ھم نے پھلے کھا تھا کہ صرف اس عمل کو دیکہ کر جو رائے قائم کی جائے گی وہ گمراھی کا ثبوت ھو گی اس گمراھی کا پردہ اب اس وقت تو یقیناً چاک ھو جانا چاھئے۔
 شجاعت رسول کی حقیقی معرفت شیرِ خدا حضرت علی مرتضیع کو تھی۔ جنگِ احد میں قتل محمد کی آواز تھی جس نے کل فوجِ اسلام کے قدم اکھاڑ دیئے۔ اور اس تصور نے علیع پر کیا اثر کیا۔ اسے خود آپ نے بعد میں بیان کیا ھے کہ میں نے نظر ڈالی تو رسول اللہ نظر نہ آئے۔ میں نے دل میں کھا کہ دو ھی صورتیں ھیں۔ یا وہ شھید ھو گئے اور یااللہ نے عیسیٰ (ع) کی طرح انھیں آسمان پر اٹھا لیا۔ دونوں صورتوں میں میں اب زندہ رہ کر کیا کروں گا۔ بس یہ سوچنا تھا کہ نیام توڑکر پھینک دیا اور تلوار لے کر فوج میں ڈوب گئے۔ جب فوج ھٹی تو رسول نظر آئے۔ دیکھنے کی یہ چیز ھے کہ حضرت علیع بن ابی طالبع کو صرف یھی دو تصور ھوئے۔ رسول شھید ھو گئے یا خدا نے آسمان پر اٹھا لیا۔ یہ توھم بھی نھیں ھوا کہ شاید رسول بھی میدان سے کسی گوشھٴ عافیت کی طرف چلے گئے ھوں۔ یہ علیع کا ایمان ھے رسول کی شجاعت پر۔
عیسائیوں نے رسول کی تصویر صرف اسی دور جنگ آزمائی کی یوں کھینچی کہ ایک ھاتہ میں قرآن ھے اور ایک ھاتہ میں تلوار۔ مگر جس طرح رسول کی صرف اس زندگی کو سامنے رکہ کر وہ رائے قائم کرنا غلط تھا کہ آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ھیں یا سینہ میں وہ دل ھی نھیں رکھتے جو معرکہ آرائی کر سکے اسی طرح صرف اس دوسرے دور کو سامنے رکہ کر یہ تصویر کھینچنا بھی ظلم ھے کہ بس قرآن ھے اور تلوار۔
آخر یہ کس کی تصویر ھے؟ محمد مصطفی کی نا؟ تو محمد نام تو اس پوری سیرت کی مالک ذات کا ھے جس میں وہ چالیس برس بھی ھیں وہ تیرہ برس بھی ھیں اور اب یہ دس برس بھی ھیں۔ پھر اس ذا ت کی صحیح تصویر تو وہ ھو گی جو زندگی کے ان تمام پھلوؤں کو دکھا سکے۔ یہ صرف ایک پھلو کو نمایاں کرنے والی تصویر تو حضرت محمد مصطفیﷺ کی نھیں سمجھی جا سکتی۔
پھر اس دس برس میں بھی بدر واحد، خندق و خیبر سے آگے بڑھ کر ذرا حدیبیہ تک بھی تو آئیے۔ یھاں پیغمبر کسی جنگ کے ارادہ سے نھیں بلکہ حج کی نیت سے مکہ معظمہ کی جانب آ رھے ھیں۔ ساتہ میں وھی بلند حوصلہ فتوحات حاصل کئے ھوئے سپاھی ھیں جو ھر میدان سر کرتے رھے ھیں اور سامنے مکہ میں وھی شکست خوردہ جماعت ھے جو ھر میدان میں ھارتی رھی ھے اور اس وقت وہ بالکل غیرمنظم اور غیرمرتب بھی ھے پھر بھی ان کی حرکت مذبوجی ھے کہ وہ سد راہ ھوتے ھیں کہ ھم حج کرنے نہ دیں گے۔ عرب کے بین القبائلی قانون کی رو سے حج کا حق کعبہ میں ھر ایک کو تھا۔ ان کا رسول کے سدراہ ھونا اصولی طور پر بنائے جنگ بننے کے لئے بالکل کافی تھا مگر پیغمبر نے اس موقع پر اپنے دامن کو چڑھائی کرکے جنگ کرنے کے الزام سے بری رکھتے ھوئے صلح کرکے واپسی اختیا رکی اور صلح بھی کیسے شرائط پر؟ ایسے شرائط پر جنھیں بھت سے ساتہ والے اپنی جماعت کے لئے باعث ذلت سمجھ رھے تھے اور جماعت اسلام میں عام طور سے بے چینی پھیلی ھوئی تھی۔ ایسی شرطیں تھیں جیسی ایک فاتح کسی مفتوح سے منواتا ھے اس وقت واپس جائیے اس سال حج نہ کیجئے آئندہ سال آئیے گا صرف تین دن تک مکہ میں رھئے گا۔ چوتھے دن آپ میں سے کوئی نظر نہ آئے گا دوران سال میں ھم میں سے کوئی بھاگ کر آپ کے پاس جائے تو آپ کو واپس کرنا پڑے گا اور آپ میں سے کوئی بھاگ کر ھمارے پاس آئے تو ھم واپس نھیں کریں گے۔ انھیں یہ شرائط پیش کرنے کی ھمت کیوں ھوئی؟ یقیناً صرف اس لئے کہ وہ مزاج نبوت سے یہ سمجھ لئے تھے کہ آپ اس وقت جنگ نھیں کریں گے۔ بس کم ظرف جب یہ سمجھ لیتا ھے کہ مقابل تلوار نھیں اٹھائے گا تو وہ بڑھتا ھی چلا جاتا ھے۔ آپ نے سب شرائط منظور کر لئے اور واپس تشریف لے گئے۔
اس کے بعد جب مشرکین کی طرف سے عھدشکنی ھوئی اور حضرت فاتحانہ حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ھوئے تو اس وقت گزشتہ واقعات کی بناء پر ایک انسان کے کیا جذبات ھو سکتے ھیں؟ جنھوں نے تیرہ برس جسم مبارک پر پتھرے مارے جنھوں نے توھین و ایذارسانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ان کے ھاتھوں وطن چھوڑنا پڑا۔ اور اس کے بعد بھی انھوں نے چین لینے نہ دیا۔ بلکہ جب تک دم میں دم رھا بار بار خونریز حملے کرتے رھے جس میں کتنے ھی عزیز اور دوست خاک و خون میں تڑپتے نظر آئے۔ خصوصیت کے ساتہ اپنے ھمدرد چچا جناب حمزہ کا بعدِ قتل سینہ چاک ھوتے دیکھنا۔ آج وھی جماعت سامنے تھی اور بالکل بے بس، اپنے قبضے میں یہ وقت تھا کہ ان کے گزشتہ تمام بھیمانہ حرکات کی آج سزا دی جاتی، مگر اس مجسم رحمت الٰھی نے جب انھیں بے بس پایا تو عام اعلان معافی کر دیا۔ اور ایک قطرھٴ خون زمین پر گرنے نہ دیا۔
اب دنیا بتائے کہ پیغمبر جنگ پسند تھے یا امن پسند؟ حقیقتہ ان کی جنگ یا صلح کوئی بھی جذبات کی بناء پر نہ تھی بلکہ فرائض کے ماتحت کام ھوتاتھا جس وقت فرض کا تقاضا خاموشی تھی خاموش رھے اور جب حالات کے بدلنے سے ضرورت جنگ کی پڑ گئی جنگ کرنے لگے۔ پھر جب امکانِ صلح پیدا ھو گیا اور بلندی اخلاق کا تقاضا صلح کرنا ھوا تو صلح کر لی۔ اور جب دشمن بالکل بے بس ھو گیا تو عفو و کرم سے کام لے کر اسے معاف کر دیا۔
یہ سب باختلافِ حالات فرائض کی تبدیلیاں ھیں جو آپ کے کردار میں نمایاں ھوتی رھی ھیں۔ فرائض کی یھی پابندی طبیعت کے دباؤ سے جتنی آزاد ھو، وھی معراج انسانیت ھے۔

Add comment


Security code
Refresh