www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
آپ کا دور کربلا کے تاریخی کارنامہ اور شھادت امام حسینع کے بعد شروع ھوا ھے۔ یہ زمانہ وہ تھا جب مظالم کربلا کے ردعمل میں مسلمانوں کی آنکھیں کھل رھی تھیں۔ کچھ مخلص افراد سچے جذبھٴ عقیدت کے ساتھ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھو گئے تھے۔ اور کچھ نے سیاسی طور پر اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے حصول اقتدار کا اسے ذریعہ بنایا تھا۔ اس وقت عام انسانی جذبات کے لحاظ سے اندازہ کیجئے کہ ایک وہ ھستی جس نے کربلا کے بھتر لاشے زمین گرم پر دیکھے ھوں اور یزید کے ھاتھوں خود وہ مظالم اٹھائے ھوں۔ جو کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کے پورے المیہ میں مضمر ھیں اسے ھر اس کوشش کے ساتھ جو سلطنت بنی امیہ کے خلاف ھو رھی ھو کتنی قلبی وابستگی ھونا چاھئے اور اس وابستگی کے ساتھ بڑی مشکل بات ھے کہ وہ عواقب پر نظر کر سکے۔ ایسے موقعوں پر عام جذبات کا تقاضا تو یہ ھے کہ چاھے حب علیع کے جذبہ میں کچھ کوششیں نہ ھوں صرف بعض معاویہ میں ھوں مگر ایسی کوششوں کے ساتھ بھی آدمی منسلک ھو جاتا ھے۔ فقط اس لئے کہ ھمارے مشترک دشمن کے خلاف ھیں خصوصاً جب کہ اس میں کامیابی کے آثار بھی نظر آ رھے ھوں جیسے عبداللہ بن زھیر جنھوں نے حجاز میں اتنا مکمل تسلط حاصل کر لیا تھا کہ جمھوری نظریھٴ خلافت کے بھت سے علماء قھر و غلبہ کی بنا پر ان کی باضابطہ خلافت کے قائل ھیں۔ جس کی تصدیق حفاظ سیوطی کی تاریخ الخلفاء سے ھو سکتی ھے۔ یا اھل مدینہ کی منظم کوشش جس نے عمال یزید کو وقتی طور سے نکل جانے پر مجبور کر دیا تھا مگر ایسی حالت میں جب کہ جناب محمد بن حنفیہ کی وابستگی ان تحریکوں سے کسی حد تک نمایاں ھو سکی، امام زین العابدین کا کردار ان تمام مواقع پر اس طرح علیحدگی کا رھا کہ آپ کو ان تحریکوں سے کبھی وابستہ نھیں کیا جا سکا۔
یہ علیحدگی ھی بڑے ضبطِ نفس کا کارنامہ ھے چہ جائیکہ آپ نے اس موقع پر مصیبت زدوں کے پناہ دینے کی خدمت اپنے ذمہ رکھی۔ چنانچہ مروان ایسے دشمن اھل بیتع کو جب جان بچا کر بھاگنے کی ضرورت پیش ھوئی تو اپنے اھل و عیال اور سامان و اموال کی حفاظت کے لئے اگر کسی جائے پناہ پر اس کی نظر پڑی تو وہ صرف حضرت امام زین العابدینع تھے۔ اس کردار کا یہ نتیجہ تھا کہ جب پھر فوج یزید نے یورش کی مدینہ میں قتل عام کیا جو واقعھٴ حرہ کے نام سے مشھور ھے تو آپ کے لئے ممکن ھوا کہ آپ مظلومین مدینہ میں سے بھی چار سو بے بس خواتین کو اپنی پناہ میں لے سکیں اور محاصرہ کے زمانہ میں آپ ان کے کفیل رھیں۔
آپ کا مروان کو پناہ دینا بتا رھا تھا کہ آپ انھی علی بن ابی طالبع کی روایات کے حامل ھیں جنھوں نے اپنے قاتل کو بھی جام شیر پلانے کی سفارش کی تھی اور حضرت امام حسینع کے جنھوں نے دشمنوں کی فوج کو پانی پلوایا تھا۔ وھی کردارآج امام زین العابدینع کے قالب میں نگاھوں کے سامنے ھے۔
اسی کی مثال پھر اس وقت سامنے آئی جب یزید کی موت کے بعد انقلاب کے خوف سے حصین بن نمیر جو مکہ کا محاصرہ کئے ھوئے تھا۔ مضطربانہ اور سراسیمہ اپنے لشکر کو لے کر فرار پر مجبور ھوا اور مدینہ کی راہ سے شام کی طرف روانہ ھوا۔ بنی امیہ سے نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ کوئی نہ ان لوگوں کو کھانے کا سامان دیتا تھا نہ اونٹوں اور گھوڑوں کے لئے چارا مھیا ھو سکتا تھا۔ اتفاق سے امام زین العابدینع اپنی زراعت سے غلہ اور چارا لے کر واپس جا رھے تھے۔ حصین نے بڑھ کر ملتجیانہ انداز میں کھا کہ یہ غلہ اور چارا میرے ھاتہ فروخت کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا۔ ضرورت مند کی خاطر یہ بلاقیمت حاضر ھے۔ اس کرم کو دیکہ کر اس نے تعارف حاصل کیا کہ آپ ھیں کون؟ جب معلوم ھوا تو اس نے حیرت کے ساتھ کھا آپ نے پھچانا بھی ھے کہ میں کون ھوں؟ حضرت نے فرمایا: ”میں خوب پھچانتا ھوں مگر بھوکوں اور پیاسوں کی مدد کرنا ھم اھل بیت کا شعار ھے۔“ حصین اس واقعہ سے اتنا متاثر ھوا کہ گھوڑے سے نیچے اتر کر کھنے لگا کہ یزید تو ختم ھو چکا ھے آپ ھاتہ بڑھائیے میں اپنے پورے لشکر سمیت آپ کی بیعت کرتا ھوں اور آپ کی خلافت کو تسلیم کرانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھوں گا اس پر آپ باندازِ تحقیر تبسم فرمایا اور بغیر کچھ جواب دیئے آگے روانہ ھو گئے۔
اس دور انقلاب کے ھنگامی تقاضوں سے اس طرح دامن بچانے کے باوجود اس سرچشمہ انقلاب یعنی واقعہ کربلا کی یاد کو برابر آپ نےتازہ رکھا۔ یہ زمانہ ایسا نہ تھا کہ عمومی مجالس کی بنا ھو سکتی اور عوام میں تقریروں کے ذریعہ سے اس کی اشاعت کی جاتی۔ اس لئے آپ نے اپنے شخصی تاثرات غم اور مسلسل اشکباری پر اکتفا کی، جو بالکل فطری حیثیت رکھتی تھی۔ یہ مقاومت مجھول سے زیادہ غیرمحسوس ذریعہ تھا ان انقلابی اقدار کے تحفظ کا جو واقعہ کربلا میں مضمر تھے مگر آئینی طور پر کسی حکومت کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ اس گریہ پر پابندی عائد کر سکتی۔ یوں مظالم کربلا کے دور میں کسی آنکہ سے نکلنے پر نوک نیزہ سے اذیت دی جاتی ھو تو وہ اور بات ھے مگر دور امن میں کسی انتھائی ظالم و جابر حکومت کے لئے بھی اس کا موقع نہ تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جس کاباپ تین دن کا بھوکا پیاسا پس گردن سے ذبح کیا گیا ھو۔ اور جس کے گھر سے ایک دوپھر میں اٹھارہ جنازے نکل گئے ھوں اور جس کی ماں بھنیں اسیر بنا کر شھر بہ شھر اور دیار بہ دیار پھرائی گئی ھوں ان تاثرات کے اظھار سے روک سکے جو صرف رنج و ملال کی شکل میں آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے جاری ھوں۔ پھر بلاشبہ اس غیرمعمولی مسلسل گریہ میں جو پچیس برس تک جاری رھا وہ عظیم تاثیر تھی جسے چاھے تاریخ کی سطحی نگاہ اسباب انقلاب میں شمار نہ کرے مگر واقعیت کی دنیا میں اس کی اھمیت سے انکار نھیں کیا جا سکتا۔
اس مسلسل گریہ کے واقعات کو تاریخوں میں پڑھنے کے بعد طبیعت انسانی کے فطری تقاضوں کی بنا پر ھر شخص ایسا تصور کر سکتا ھے کہ غمزدہ اور ھمہ تن گریہ و آہ ھستی سے اس کے بعد یہ توقع کرنا غلط ھے کہ وہ علوم و معارف کی کوئی خدمت انجام دے سکے مگر نھیں ”معراج انسانیت“ تو اسی تضاد میں مضمر ھے کہ یہ غرق حسرت و اندوہ ذات بھی اپنے اس فریضہ سے جو بحیثیت نائب حق و رھنمائے خلق اس کے ذمہ ھے۔ غافل نھیں ھوتی۔ بے شک یہ دور ایسا پرآشوب تھا کہ آپ کے گردوپیش طالبان ھدایت کا مجمع نھیں ھو سکتا تھا۔ آپ کسی مجمع کو مخاطب بنا کر کوئی تقریر نھیں فرما سکتے تھے۔ نہ اپنے قلم کے ذریعہ لوگوں سے سلسلہ مخابرت جاری فرما سکتے تھے اس لئے اس دور کے تقاضوں کے ماتحت آپ نے منفرد طریقہ ”دعا و مناجات“ کا اختیار فرمایا۔ یہ بھی مثل ”گریھ“ کے ایک لازم بظاھر غیرمتعدی عمل تھا۔ جو کسی قانون کی زد میں نھیں آ سکتا تھا مگر ان دعاؤں کو بھی جو ”صحیفہ سجادیھ“ کی شکل میں محفوظ ھیں جب ھم دیکھتے ھیں تو بلا کسی شائبہ مبالغہ و مجاز کے یہ حقیقت نمایاں نظر آتی ھے کہ وھی روح جو حضرت علی بن ابی طالبع کے نھج البلاغ والے خطبوں میں متحرک ھے وھی صحیفہ کاملہ کی ان دعاؤں میں بھی موجود ھے۔ صرف یہ کہ وھاں جو حکیمانہ گھراؤاور خطیبانہ بھاؤ ھے اس کی قائم مقامی یھاں اس سوزوگداز نے کی ھے جس کا دعاؤ مناجات میں محل ھے اور اس طرح اس کے سننے والوںمیں دماغ کے ساتھ ساتھ دل بھی شدت سے متاثر ھوتا ھے جو غالباً دوسروں کی اصلاح کے لئے کچھ کم اھمیت نھیں رکھتا اور اسی ذیل میں اخلاق و فرائضکے تعلیمات بھی مضمر ھیں۔ جو مدرسہ اھل بیتع کے مقاصد خصوصی کی حیثیت رکھتے ھیں۔
  اس دور میں اس ذریعہ تبلیغ و تدریس کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ ممکن نہ تھا اورامام زین العابدینع نے اس ذریعہ کو اختیار کرکے ثابت کر دیا کہ یہ حضرات کسی سخت ماحول میں بھی اپنے فرائض اور اھم مقاصد کو ھرگز نظرانداز نھیں کرتے۔
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام
 آپ کا دور بھی مثل اپنے پدر بزرگوار کے وھی عبوری حیثیت رکھتا تھا جس میں شھادت حضرت امام حسینع سے پیداشدہ اثرات کی بنا پر بنی امیہ کی سلطنت کو ھچکولے پھنچتے رھتے تھے مگر تقریباً ایک صدی کی سلطنت کا استحکام ان کو سنبھال لیتا تھا بلکہ فتوحات کے اعتبار سے سلطنت کے دائرہ کو عالم اسلام میں وسیع تر کرتا جاتا تھا۔
حضرت امام محمد باقرع خود واقعہ کربلا میں موجود تھے اور گو طفولیت کا دور تھا یعنی تین چار برس کے درمیان عمر تھی مگر اس واقعہ کے اثرات اتنے شدید تھے کہ عام بشری حیثیت سے بھی کوئی بچہ ان تاثرات سے علیحدہ نھیں رہ سکتا تھا۔ چہ جائیکہ یہ نفوس جو مبداء فیض سے غیرمعمولی ادراک لے کر آئے تھے وہ اس کم عمری میں جناب سکینھع کے ساتھ ساتھ یقیناً قید وبند کی صعوبت میں بھی شریک تھے اس صورت میں انسانی و دینی جذبات کے ماتحت آپ کو بنی امیہ کے خلاف جتنی بھی برھمی ھوتی ظاھر ھے چنانچہ آپ کے بھائی زید بن علی بن الحسینع نے ایک وقت ایسا آیاکہ بنی امیہ کے مقابلے میں تلوار اٹھائی اسی طرح سادات حسنی عمیں سے متعدد حضرات وقتاً فوقتاً بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھوتے رھے حالانکہ واقعہ کربلا سے براہ راست جتنا تعلق حضرت امام محمد باقرع کو رھا تھا۔ اتنا جناب زید کو بھی نہ تھا چہ جائیکہ حسنی سادات جو نسبتاً دوسری شاخ میں تھے۔ مگر یہ آپ کا وھی جذبات سے بلند ھونا تھا کہ آپ کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی کوشش نھیں ھوئی اور آپ کبھی کسی ایسی تحریک سے وابستہ نھیں ھوئے بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دور کی حکومت کو مفادِ اسلامی کے تحفظ کے لئے اسی طرح مشورے دیئے جس طرح آپ کے جد امجد حضرت علی بن ابی طالبع اپنے دور کی حکومتوں کو دیتے رھے تھے۔ چنانچہ رومی سکوں کے بجائے اسلامی سکہ آپ ھی کے مشورہ سے رائج ھوا جس کی وجہ سے مسلمان اپنے معاشیات میں دوسروں کے دست نگر نھیں رھے۔
باوجودیکہ زمانہ آپکو والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین(ع)کے زمانہ سے بھتر ملا۔ یعنی اس وقت مسلمانوں کا خوف و دھشت اھل بیتع کے ساتھ وابستگی میں کچھ کم ھو گیا تھا اور ان میں علوم اھل بیت سے گرویدگی بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پیدا ھو گئی تھی کوئی دوسرا ھوتا تو اس علمی مرجعیت کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا مگر ایسا نھیں ھوا اور حضرت امام باقرع مسلمانوں کے درمیان ایک طرح کی مرجعیت عام حاصل ھونے کے باوجود سیاست سے کنارہ کشی میں اپنے والد بزرگوار کے قدم بہ قدم ھی رھے۔
بے شک زمانہ کی سازگاری سے آپ نے واقعہ کربلا کے تذکروں کی اشاعت میں فائدہ اٹھایا۔ اب واقعہ کربلا پر اشعار نظم کئے جانے لگے اور پڑھے جانے لگے۔ امام زین العابدین(ع) کا گریہ آپ کی ذات تک محدود تھا اور اب دوسروں کو ترغیب و تحریص بھی کی جانے لگی۔ اس کے علاوہ نشر علوم آل محمدع کے فریضہ کو کھل کر انجام دیا گیا۔ اور دنیا کے دل پر علمی جلالت کا سکہ بٹھا دیا گیا۔ یھاں تک کہ مخالفین بھی آپ کو ”باقرالعلوم“ ماننے پر مجبور ھوئے جس کا مفھوم ھی ھے ”علوم کے اسرار و رموز کو ظاھرکرنے والے“۔ اس طرح ثابت کر دیا کہ آپ اپنے کردار میں انھی علی بن ابی طالبع کے صحیح جانشین ھیں جنھوں نے پچیس برس تک سلطنت اسلامیہ کے بارے میں اپنے حق کے ھاتہ سے جانے پر صبر کرتے ھوئے صرف علوم و معارف اسلامیہ کے تحفظ کا کام انجام دیا۔ وھی ورثہ تھا جو سینہ بسینہ حضرت محمد باقرع تک پھنچا تھا۔ نہ امتداد زمانہ نےاس میں کھنگی پیدا کی تھی اور نہ اس رنگ کو مدھم بنایا تھا۔ نہ تسلسل مظالم کے اثر سے انتقامی جذبات کے غلبہ نے ان کو بنیادی مقاصد حیات سے غافل کیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام
 آپ کا دور انقلابی دور تھا۔ وہ بیج بنی امیہ سے نفرت کے جو حضرت امام حسین(ع)کی شھادت نے دل و دماغ کی زمین میں بو دیئے تھے اب پورے طور پر بارآور ھو رھے تھے۔ اموی تخت سلطنت کو زلزلہ تھا اور اموی طاقت روزبروز کمزور ھو رھی تھی اس دور میں بار بار ایسے مواقع آتے تھے جن میں کوئی جذباتی آدمی ھوتا تو فوراً ھوا کے رخ پر چلا جاتا اور انقلاب کے وقتی فوائد سے متمتع ھونے کے لئے خود بھی انقلابی جماعت کے ساتھ منسلک ھو جاتا۔ پھر جبکہ اسی ذیل میں ایسے اسباب بھی وقتاً فوقتاً پیدا ھوتے تھے۔ جو بنی امیہ کے خلاف اس کے جذبات کو مشتعل کرنے والے ھوں۔
زید بن علی بن الحسینع حضرت امام جعفر صادق کے چچا تھے خود بھی علم و ورع واتقاء میں ایک بلند شخصیت کے حامل تھے۔ یہ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھوتے ھیں اور وہ بھی حضرت امام حسین(ع)کے خون کا بدلہ لینے کے اعلان کے ساتھ۔ یہ کیا ایسا موقع نہ تھا کہ حضرت امام جعفر صادق(ع)بھی چچا کے ساتھ اس مھم میں شریک ھو جائیں۔ پھر اس کے بعد زید(ع)کا شھید کیا جانااور ان پر وہ ظلم کہ دفن کے بعد لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو قلم کرنے کے بعد جسد بے سر کو ایک عرصہ تک سولی پر چڑھائے رکھا تھا پھر آگ میں جلا دیا گیا۔ اس کے اثرات عام انسانی طبیعت میں کیا ھیجان پیدا کر سکتے ھیں؟
اور پھر عباسیوں کے ھاتہ سے انقلاب کی کامیابی اور سلطنت بنی امیہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانا۔
اس تمام دور انقلاب یں ھر دن نئے نئے محرکات اور گوناگوں نفسانی مھیجات ھیں جو ایک انسان کو متحرک بنانے کے لئے کافی ھیں خصوصاً اس لئے کہ بنی عباس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والا ابو سلمہ خلال اولاد فاطمہ زھرا(ع)کی محبت کے ساتھ اتنا مشھور تھا کہ برسراقتدار آنے کے لئے امام جعفر صادق(ع)کے پاس تحریری عرضداشت بھیجی مگر آپ نے اس سے نہ صرف یہ کہ بے اعتنائی برتی بلکہ اس کاغذ کو اس شمع کی لو کے سپرد کر دیا جو اس وقت روشن تھی۔ اور قاصد سے فرمایا کہ اس تحریر کا بس یھی جواب ھے اور پھر اسے پورے طویل دور انقلاب میں ایک دن ایسا نھیں آتا جو حضرت امام جعفر صادق(ع)میں کوئی حرکت پیدا کر سکا ھو۔ سوا علوم اھل بیت(ع)کے تحفظ و اشاعت کی اس مھم کے جس کی کھل کر ابتداء آپ کے والد ماجد نے کر دی تھی اور اب اسی کو اپنی نسبتہ طویل عمر اور اس وقت کے انقلابی حالات کے وقفہ سے فائدہ اٹھا کر پورے طور سے فروغ دینے کا موقع حضرت امام جعفر صادق(ع)کو ملا۔ جس کے نتیجہ میں مذھب اھلِ بیت(ع)عوام میں ”ملت جعفری“ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
یہ کیا تھا؟ یہ وھی جذبات سے بلند ھونے کا قطعی مشاھدہ ھے جسے ”معراج انسانیت“ کی حیثیت سے ھم ان کے تمام پیش روؤں میں دیکھتے رھے ھیں۔
بنی عباس کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد کچھ دن تو اولاد رسول(ع)کو سکون رھا مگر منصور دوانقی کے تخت سلطنت پر بیٹھتے ھی پھر فضا مکدر ھو گئی اور چونکہ یقین تھا کہ بنی امیہ کو جو ھم نے شکست دی ھے وہ اولاد فاطمہ(ع)کے ساتھ ھمدردی ھی سے فائدہ اٹھا کر۔ اس لئے یہ اندیشہ تھاکہ نہ جانے کب عوام کی آنکھیںکھل جائیں۔ اور وہ اسی طرف جھک جائیں۔ خصوصاً اس لئے کہ بنی امیہ کے زوال کے آثار واضح ھونے کے بعد جب بنی ھاشم نے مدینہ میں جمع ھو کر ایک مجلس مشاورت منعقد کی کہ انقلاب کی تکمیل کے بعد تخت سلطنت کس کے سپرد کیا جائے تو سب نے حسن مثنی فرزند امام حسن(ع)کے پوتے محمد بن عبداللہ کو اس منصب کا اھل قرار دیا تھا اورسب نے ان کے ھاتہ پر بیعت کی تھی۔ اس جلسہ میں منصور بھی موجود تھا اور اس نے بھی محمد کے ھاتہ پر بیعت کی تھی اس کے بعد سیاسی ترکیبوں سے اس کارروائی کو نسیاً منسیا کرکے بنی عباس تخت خلافت پر قابض ھو گئے اس لئے بھت بڑا کانٹا جو منصور کے دل اور آنکہ میں کھٹک رھا تھا وہ محمد بن عبداللہ کا وجود تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد خصوصیت سے اولاد امام حسن (ع)کے خلاف ظلم و تشدد شروع کر دیا گیا۔
عبداللہ بن الحسن(ع)جو عبداللہ المثنی کے نام سے مشھور تھے۔ امام زین العابدین کے بھانجے یعنی فاطمہ بنت الحسین (ع)کے صاحبزادے تھے اور محمد ان کے بیٹے جو اپنے ورع و تقویٰ کی بنا پر نفس زکیہ کے نام سے مشھور تھے جناب فاطمہ بنت الحسین(ع)کے پوتے تھے۔
  منصور نے تمام سادات حسنی کو قید کردیا اور خصوصیت سے عبداللہ المحض کو پیرانہ سالی کے عالم میں اتنے سخت شدائد و مظالم کے ساتھ قید تنھائی میں محبوس کیا کہ الحفیظ والامان۔
  ظاھر ھے کہ حضرت امام جعفر صادق (ع)قلبی طور پر ان حضرات سے غیرمتعلق نہ تھے چنانچہ یہ واقع ھے کہ جس دن اولاد حسن(ع)کو زنجیروں سے باندہ کر گردن میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پھنا کر بے کجا وہ اونٹوں پر سوار کرکے مدینہ سے نکالا گیا۔ اور یہ قافلہ اس حال میں مدینہ کی گلیوں سے گزرا تو امام جعفر صادق(ع)اس منظر کو دیکہ کر تاب ضبط نہ لا سکے اور چیخیں مار مار کر رونے لگے اور اس کے بعد ۲۰ دن تک شدت سے بیمار رھے۔ عبداللہ کے دونوں بیٹے محمد اور ابراھیم کچھ دن پھاڑوں کی گھاٹیوںمیں چھپے رھے پھر ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق ایک جماعت کو اپنے ھمراہ لے کر مقابلہ پر آماد ھوئے اس موقع پر یہ واقعہ یاد رکھنے کا ھے کہ رائے عامہ محمد کے ساتھ اس حد تک محسوس ھو رھی تھی کہ امام ابو حنیفہ اور مالک نے نفس زکیہ کی حمایت و نصرت کے لئے فتویٰ دیا۔ مگر حضرت امام جعفر صادق(ع)اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر باوجود تمام جذباتی تقاضوں کے اس مھم سے علیٰحدہ رھے۔ اور آپ نے اپنے دامن کو اس کشمکش سے بالکل ھی بچائے رکھا۔ آپ جانتے تھے کہ یہ مھم وقتی حالات کی بنا پر اضطراری فعل کے طور پر شروع کی گئی ھے جس کے پس پشت کوئی بلند مقصد نھیں ھے نہ اس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ھے لیکن میں نے اگر اس کا کسی طرح بھی ساتھ دیا تو اس تعمیری خدمت کا بھی جو میں معارف آل رسول کی اشاعت کے طور پر انجام دے رھا ھوں دروازہ مسدود ھو جائے گا۔
یہ بے پناہ ضبط و صبر وھی ھے جو ان کے آباؤ اجداد میں نظر آتا رھا تھا اور وہ عام انسانوں کے بس کی بات نھیں ھے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
 آپ کے زمانہ میں سیاست کا شکنجہ پھر سخت ھو گیااب نہ تعلیم و تدریس کی وہ آزادی رھی نہ تبلیغ و اشاعت کے مواقع باقی رہ گئے۔ حکومت وقت برابر آپ سے برسر پرخاش رھی یھاں تک کہ آخر عمر کے کئی سال تمام وکمال قید خانہ میں گزر گئے مگر آپ کی بلند سیرت کی روشنی اتنی تیز تھی کہ قید خانہ کی اونچی اور سنگین دیواریں اس کے لئے ایک نازک و باریک پردہ سے زیادہ نہ تھیں جس کے اندر سے اس کی شعائیں چھن کر باھر نکلتی رھیں۔ یھاں تک کہ چودہ صدیاں پار کرکے ھم تک بھی پھنچ سکی ھیں۔ چنانچہ اسی سیرت کی بلندی کا نتیجہ یہ تھا کہ حکومت وقت کے مقررکردہ قیدخانوں کے افسر آپ کی نیکوکاری کے سامنے ھتھیار ڈال دیتے تھے اورآپ کے ساتھ سختی کرنے سے معذور رھتے تھے جس کے نتیجہ میں بار بار نگرانوں کے بدلنے کی ضرورت ھوتی تھی۔ چنانچہ پھلے آپکو بصرہ میں عیسیٰ بن جعفر بن منصور کی نگرانی میں رکھا گیا۔ اس ھدایت کے ساتھ کہ ان کو قید تنھائی میں رکھو اور کچھدن کے بعد حکم دیا کہ انھیں قتل کر دو۔ وہ خلیفہ وقت کا چچازاد بھائی تھا مگر اس کے دل پر امام موسیٰ کاظمع کے حسن کردار کا اثر پڑ گیا تھا۔ اس نے لکھا کہ میں نے ان کے حالات کی خوب جانچ کی ھے وہ تو ھمیشہ دن کو روزہ رکھتے ھیں اور شب و روز عبادت میں مصروف رھتے ھیں تنھائی کے عالم میں بھی ھم میں سے کسی کے لئے کبھی بددعا نھیں کرتے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ھیں کہ تونے مجھے اپنی عبادت کے لئے یہ تنھائی کی جگہ عطا فرمائی۔ ایسے خداترس اور عبادت گزار کی جان لینا میرے بس کی بات نھیں ھے۔
جب اس نے انکار کیا تو آپ کو بصرہ سے بلوا کر بغداد میں فضل بن ربیع کے سپرد کیا گیا۔ مگر فضل پر بھی آپ کے کردار کے مشاھدہ کا خاص اثر پڑا۔ آخر فضل بن ربیع کو بھی اس صورت سے برطرف کیا گیا۔ یحییٰ برمکی کو براہ راست نگران بنا دیا گیا اور اس سے بھی پھر غیرمطمئن ھو کر سندی بن شاھک کو مقرر کیا گیا۔ یہ ایسا قسی القلب اور سفاک تھا کہ اس نے زھر دغا دے کر امامع کی زندگی کا خاتمہ کیا۔
زندگی میں قید خانہ میں محبوس رکھے گئے اور پھر قبر کے اندر مدفون ھو گئے مگر ان کے اوصاف و کمالات، زھد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت ھی نھیں بلکہ ان کے زبان و قلم سے نکلے ھوئے بھت سے ارشادات و تعلیمات اور شریعت نبوی کے احکام اب تک کتابوں کے صفحات پر موجود ھیں جو بتا رھے ھیں کہ وہ اسی سلسلہ کی ایک فرد تھے جس میں سے ھر ایک اپنے دور کے حالات کے مطابق کاروان بشر کو منزل کمال انسانیت تک پھنچانے کے لئے رھنمائی کا فرض انجام دیتا رھا۔ اور اپنے کردار کی رفعت سے ”معراج انسانیت“ کی نشان دھی کرتا رھا۔
امام رضا علیہ السلام
 آپ کو جس خاص صورت حال سے دوچار ھونا پڑا وہ آپ کے زمانہ کے عباسی خلیفہ مامون کا قبول ولی عھدی کے لئے آپ کو مجبور کرنا تھا بالکل اسی طرح جیسے آپ کے مورث اعلیٰ حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ(ع) کے سامنے چوتھے نمبر پر حکومت پیش کی گئی ظاھر ھے کہ یہ وہ امامت نہ تھی جو منجانب اللہ آپ کو حاصل تھی اسے دنیا نے تسلیم نھیں کیا تھا بلکہ وھی اپنے نقطہ نظر والی جمھوری خلافت تھی جس کی پیشکش آپ کے سامنے کی گئی تھی اور اسی لئے آپ نے اس سے شدید انکار فرمایا مگر جب لوگوں کا اصرار قیام حجت کے قریب پھنچ گیا تو چونکہ ایک داعی حق کو جس عنوان سے سھی ایک موقع اگر خلق خدا کی اصلاح کا مل جائے چاھے وہ کسی لباس میں ھو، اسے نظرانداز نھیں کرنا چاھئے۔ اب آپ نے ان کے اصرار کو قبول فرما لیا۔ اسی طرح اب امام رضا کے سامنے مامون اقتدار کی پیشکش کر رھا تھا۔ مورخین متفق ھیں کہ آپ نے انکار فرمایا۔ کثرت سے گفتگوئیں ھوئیں اور مامون نے بار بار اصرار کیا اور آپ ھر مرتبہ انکار فرماتے تھے۔ اور آپ کا ارشاد تھا کہ میں اللہ کی بندگی ھی کو بس اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ھوں اور اقتدار دنیا سے تو کنارہ کشی ھی کرکے بارگاہ الٰھی میں بلندی کی امید رکھتا ھوں اور جب وہ اصرار کرتا تھا تو آپ کھتے تھے: اَللّٰھُمَّ لَا عَھَدَ اِلَّا عَھْدِکَ وَ لا وِلاٴیہ اِِلَّا مِنْ قَبْلِکَ فَوَفْقنِیْ الِاقامَةِ دِیْنکَ واحیّآءِ سُنَّتِہ نبِیّکَ نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نعْمَ النَّصِیْر۔
  ”پروردگار! عھدہ تو وھی عھدہ جو تیری طرف سے ھے اور حکومت وھی حکومت ھے جو تیری جانب سے ھے ھاں مجھے توفیق عطا فرما کہ تیرے دین کے شعائر کو قائم کروں اور تیرے رسول کی سنت کو زندہ کروں۔ تو بھترین مالک اور بھترین مددگار ھے۔“
اس میں ایک طرف صحیح اسلامی نظریہ حکومت کی تبلیغ ھو رھی تھی جس سے آپ کے انکار کا پس منظر واضح طور پر نمایاں ھو رھا تھا اور دوسری طرف اقامت دین اور احیائے سنت کے لئے اپنے جذبہ بے قرار کا مظاھرہ تھا جو بعد از اصرار بسیار ولی عھدی کے قبول کرنے کے پس منظر کی ترجمانی کر رھا ھے۔
پھر آپ نے جب ولی عھدی قبول کی تو یہ شرط کر لی کہ میں حکام کے غرل و نصب کا ذمہ دار نہ ھوں گا نہ امور سلطنت میں کوئی دخل دوں گا۔ ھاں جس معاملہ میں مشورہ لیا جائے گا کتاب خدا و سنت رسول کے مطابق مشورہ دے دیا کروں گا یہ وہ کام تھا جو آپ کے جد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب(ع) خلفائے ثلٰثہ کے دور میں بغیر کسی عھدہ و منصب کے انجام دیتے تھے اب وھی حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع) ولی عھدی کے نام کے بعد انجام دیں گے۔
معلوم ھوتا ھے کہ شخصیت ایک ھی ھے صرف زمانہ کا فرق ھے اور سامنے کی حکومت کے رویہ کا فرق ھے کہ پھلے دور والوں نے کسی عھدہ کی پیشکش جناب امیر کے لئے اپنے سیاسی مفاد کے خلاف سمجھی اور اب عھدہ کی پیشکش اپنے سیاسی مصالح کے لئے مناسب سمجھی جا رھی ھے معلوم ھوتا ھے کہ جو اختلاف ھے وہ سلطنت وقت کے رویہ میں ھے مگر رھنمائے دین کے موقف میں کوئی فرق نھیں ھے اقبال کے لفظوں میں کہ لیجئے کھ:
حقیقتِ ابدی ھے مقام شبیری،
بدلتے رھتے ھیں اندازِ کوفی و شامی
 پھر ولی عھدی کے بعد آپ نے اپنی سیرت بھی وھی رکھی جو شھنشاہ اسلام ما نے جانے کے بعد حضرت علی بن ابی طالب(ع) کی سیرت رھی۔ آپ نے اپنے دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نھیںکئے۔ بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ھوا کرتا تھا کھانا سامنے لایا جاتا تھا تو دربان، سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔
پھر اسی عباسی سلطنت کے ماحول کو پیش نظر رکہ کر جھاں صرف قرابت رسول کی بنا پر اپنے کو خلق خدا پر حکمرانی کا حقدار بنایا جاتا تھا اور کبھی اپنے اعمال و افعال پر نظر نہ کی جاتی تھی آپ اپنے اوپر رکہ کر برابر اس کا اعلان فرماتے تھے کہ قرابت رسول کوئی چیز نھیں ھے جب تک کردار انسان کا ویسا نہ ھو جو خدا کے نزدیک معیار بزرگی ھے چنانچہ جب ایک شخص نے حضرت سے کھا کھ: خدا کی قسم آباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نھیں۔ حضرت نے فرمایا: ”میرے آباؤاجداد کو جو شرف حاصل ھوا وہ بھی صرف تقویٰ اور اطاعت خدا سے۔“ ایک دوسرے موقع پر ایک شخص نے کھا کہ ”واللہ آپ بھترین خلق ھیں۔“ حضرت نے فرمایا۔ ”اے شخص بے سمجھے قسم نہ کھا جس کا تقویٰ مجھ سے زیادہ ھو وہ مجھ سے افضل ھے۔“
ابراھیم بن عباس کا بیان ھے کہ حضرت فرماتے ھیں: میرے تمام غلام لونڈی آزاد ھو جائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ھو کہ میں اپنے کو محض رسول اللہ سے قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افضل نھیں جانتا (اشارہ فرمایا اپنے ایک غلام کی جانب) ھاں جب عمل خیر بجا لاؤں تو اللہ کے نزدیک اس سے افضل ھوں گا۔
یہ حقیقت میں تقریباً ایک صدی کی پیدا کی ھوئی عباسی سلطنت کی ذھنت کے خلاف اسلامی نظریہ کا اعلان تھا اور وہ اب اس حیثیت سے بڑا اھم ھو گیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ھو رھا تھا۔
معلوم ھوتا ھے کہ یہ وہ ھیں جن پر ماحول کا اثر نھیں پڑتا بلکہ وہ ھر ماحول میں کسی نہ کسی طرح اپنے فرض کو انجام دیتے رھتے ھیں جو انسانیت کی عملی معراج ھے۔

Add comment


Security code
Refresh